’’کلام الٰہی کا ایک ایک حرف کائنات کی عبادت کرتا ہے، جہاں اس کا ورد ہو وہاں رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ گو امراض مختلف ہوتے ہیں اور جب دل بے چین ہو اور دماغ فیصلہ نہ کر پائے تو گیارہ بار درود پاک پڑھ لیا کرو اور آنکھیں بند کر کے رہنمائی طلب کر لیا کرو اور اتنا ہی کافی ہے ہر مرض کے علاج کے لئے، یہ سب کچھ کبھی نہ سمجھ پائو گے لیکن بہت کچھ ہے اتنا کچھ کہ مشکل کم اور حل زیادہ اور اس وقت جو فیصلہ ہو اس پر غور نہ کرو کیونکہ دماغ کی کیا مجال کہ ان وسعتوں کے تصور کو بھی پا لے۔ اچھا سپرد رحمت۔ السلام و علیکم۔‘‘ وہ صاحب اٹھے اور صحن مسجد کے باہر جانے والی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔ میرے منہ سے بلند آواز میں سلام کا جواب نکلا تھا اور بس یوں لگا جیسے خواب سے آنکھ کھل گئی ہو۔ پھر ایسا محسوس ہوا جیسے کائنات کے خزانے سامنے بکھر گئے ہوں۔ ہر شے جواہرات کی طرح جگمگانے لگی۔ اتنی خوشی ہو رہی تھی کہ الفاظ کی گرفت میں نہیں لا سکتا۔ وہاں سے اٹھ آیا۔ درخت کے سائے سے الگ ہو کر زمین پر دوزانو بیٹھا اور درود شریف پڑھنے لگا۔ دماغ نے تصور دیا۔ گناہ کو تائید شیطانی حاصل ہے اور شیطان کو شیطنیت کی قوت حاصل ہے۔ اسے لاحول سے بھگایا جا سکتا ہے لیکن اس کی ذریات کا خاتمہ عمل سے گزر کر ہوتا ہے اور عمل یہ ہے کہ اس کفر زادے کو اہل خاندان کے ساتھ نکال کر دریا پار کرا دیا جائے اور دریا پار اس کا گھر ہے یہاں اس عمل کا اختتام ہو چکا ہے لیکن کسی کو نہ چھوڑا جائے۔ کھٹاک کی آواز ہوئی اور جیسے ایک روشن خانہ بند ہو گیا بالکل ویسے ہی جیسے بجلی کا بلب بجھا دیا جائے لیکن مجھے رہنمائی مل گئی تھی اس سے زیادہ وضاحت اور کیا ہوتی۔ ایک ناواقف کو جس طرح نوازا گیا تھا اس کے لئے سجدہ شکر کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا اور سجدے کر کے جی نہ بھرا یہاں تک کہ مولوی حمیداللہ آ گئے۔
’’فجر کا وقت ہو گیا ہے مسعود میاں۔‘‘ انہوں نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔ میں اٹھ گیا۔ ’’سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ جوانی کی اس عبادت کو قبول فرمائے۔ میاں نماز کے بعد باتیں ہوں گی۔ اذان کہہ دوں، وقت ہو گیا ہے۔‘‘ وہ مسجد کے مینار کی طرف چل پڑے۔ میں اس طرح تازہ
دم تھا جیسے جی بھر کے سویا ہوں۔ خمار کا نشان بھی نہ تھا۔ اذان ہوئی، نمازی آئے۔ مجھ سے بہت محبت سے ملے پھر فراغت ہو گئی۔ مولوی صاحب چائے لے آئے، مجھے پیش کی اور خود بھی لے کر بیٹھ گئے۔
’’رات کو بہت دیر تک جاگتا رہا تھا، کس وقت واپسی ہوئی؟‘‘
’’دیر ہو گئی تھی۔‘‘
’’حویلی مل گئی تھی؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’اور بنسی راج لعل؟‘‘
’’وہ بھی مل گیا تھا۔‘‘
’’کچھ اندازہ لگایا؟‘‘
’’ہاں! حمیداللہ صاحب… ظالم انسان تھا۔ خود پر بیتی تو آنکھ کھلی مگر بہت نقصان اٹھا چکا ہے۔‘‘
’’اللہ رحم کرے۔ جو کیا ہے بھر رہا ہے؟‘‘
’’مشکل فلسفہ ہے حمیداللہ صاحب۔ کیا اس نے ہے لیکن بھگتنا اس کے تین بیٹوں کو پڑا۔‘‘
’’ہاں میاں، باپ کا گناہ اولاد کے سامنے آتا ہے۔‘‘
’’یہ غلط ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ حمیداللہ صاحب چونک کر بولے۔
’’عقل تسلیم نہیں کرتی۔‘‘
’’مگر سامنے کی بات ہے۔‘‘
’’ہمارے آپ کے سامنے کی بات، عقل اس کی نفی کرتی ہے۔‘‘
’’مجھے سمجھائو؟‘‘
’’میرے خیال میں گناہ کی سزا صرف گناہ گار کو ملتی ہے، اس گناہ گار کو جو اللہ کا مجرم ہوتا ہے اور اللہ سچا منصف ہے۔ جو دنیا سے گئے ان کی زندگی اتنی ہی تھی مگر مجرم کو اس وقت تک ان کی جدائی کا غم برداشت کرنا پڑے گا جب تک وہ زندہ ہے۔ میں نے کہا نا مشکل فلسفہ ہے، حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ خدا ہی بہتر سمجھتا ہے۔‘‘
’’اس کہانی کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
’’کہانی تو سچ ہے۔‘‘
’’اور وہ اروح خبیثہ۔‘‘
’’حویلی ان سے بھری ہوئی ہے جو اس کے ہاتھوں نقصان اٹھا چکے ہیں۔ انہوں نے حویلی کو حصار میں لیا ہوا ہے۔‘‘
’’بالکل درست کہتے ہیں۔ کئی واقعات ہو چکے ہیں۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’بنسی راج نے ہندوستان بھر سے سادھو، پنڈت اور جوگی بلائے۔ زروجواہر کے انبار لگا دیئے ان کے سامنے۔ ہر کوشش کی گئی مگر کچھ نہ ہوا بلکہ ان سب کو نقصان ہوئے۔ مہاشے درگا داس تو ابھی کچھ دن پہلے مرے ہیں۔‘‘
’’یہ کون تھے؟‘‘
’’گیانی دھیانی تھے۔ الہ آباد سے آئے تھے۔ حویلی میں جاپ کیا، تین بار اٹھا کر پھینکے گئے، چوٹیں لگیں، باز نہ آئے یہاں تک کہ پاگل ہو گئے۔ الہ آباد سے ان کے گھر والے انہیں لے گئے مگر دو مہینے کے بعد پھر واپس آ گئے۔ اس کے بعد کئی مہینے یہاں رہے۔ تھوڑے دن قبل لال تلیا میں ان کی لاش تیرتی ملی،اسی سرکٹے کا شکار ہو گئے تھے۔‘‘
’’اوہ افسوس ہے۔‘‘ میں نے کہا۔‘‘
’’ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا، کچھ کام کرنا پڑے گا۔‘‘
’’اللہ کامیاب کرے۔ امان میں رکھے۔‘‘ حمیداللہ صاحب خلوص سے بولے لیکن کچھ تشویش بھی تھی ان کے لہجے میں۔
دوپہر کو دوبارہ بنسی راج کی حویلی پہنچا۔ بنسی راج موجود تھا۔ راستے میں اچھا خاصا مجمع میرے ساتھ حویلی پر جا کر منتشر ہوا۔ بنسی راج نے ہاتھ جوڑ کر میرا استقبال کیا تھا۔
’’کہئے بنسی جی۔ سب خیریت رہی؟‘‘
’’نہیں مہاراج۔ رات تو بڑی دھماچوکڑی رہی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔
’’بڑا اودھم مچا ہے رات کو۔ آگ کے گولے گرے حویلی پر۔ خوب شور مچا، کئی نوکر بھاگ گئے۔ میرے کمرے کا دروازہ اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ چار فانوس توڑ دیئے گئے، چیخیں اور آوازیں سنائی دیں۔‘‘
’’ہوں۔ کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا۔‘‘
’’نہیں مہاراج مگر اب کچھ اور مشکلیں نظر آ رہی ہیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’نوکر تو اب کوئی نہیں ٹکے گا یہاں۔‘‘
’’آپ کے دونوں بیٹے کہاں ہیں؟‘‘
’’ونود اور راجیش یہیں ہیں۔ پہلے تو وہ نہیں ڈرتے تھے مگر اب پیلے پڑ گئے ہیں۔‘‘
’’بیٹیاں؟‘‘
’’وہ سسرال میں ہیں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’ایک دلی میں ہے، دوسری جے پور میں۔‘‘
’’انہیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا کبھی؟‘‘
’’نہیں۔ بھگوان کی دیا ہے۔‘‘
’’یہاں آس پاس کوئی ندی ہے؟‘‘
’’نیما ندی ہے۔ بڑی مشہور ہے۔‘‘
’’اس کے پار آپ کی کوئی حویلی ہے؟‘‘
’’سونا باغ ہے ہمارا، سونا باغ میں پورن نے حویلی بنائی تھی۔ اس کی موت کے بعد ہم وہاں نہیں گئے۔‘‘
’’پورن آپ کا بیٹا تھا؟‘‘
’’ہاں…‘‘ بنسی راج نے بھاری آواز میں کہا۔
’’ہمیں وہاں چلنا ہے۔‘‘
’’ہیں…کب؟‘‘
’’جو وقت بھی آپ بتائیں، جلد سے جلد۔‘‘
’’آپ حکم دیں مہاراج۔‘‘
’’تیاریاں کر لیں، آج ہی چلیں۔‘‘
’’نوکر کو کھتوریہ مانجھی کے پاس بھیجے دیتا ہوں نائو تیار کر لے۔ میری اپنی نائو ہے۔‘‘
’’بھیج دیں اور اپنے گھر والوں کو تیار کر لیں۔‘‘
’’کسے کسے لے چلنا ہے مہاراج؟‘‘
’’دونوں بیٹے، آپ کی بیوی اور بہن۔‘‘
’’ہرناوتی؟‘‘ بنسی راج چونک کر بولا۔
’’ہاں۔ اس کا جانا بھی ضروری ہے۔ آپ یہ ہدایت دے دیں اور پھر مجھے اس سے ملائیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے مہاراج۔‘‘ بنسی راج نے کہا۔ مجھے وہیں انتظار کرنا پڑا۔ پھر بنسی راج مجھے لے کر ہرناوتی سے ملانے چل پڑا۔ حویلی کا یہ حصہ کھنڈر بنا ہوا تھا۔ ایک کمرے میں ہرناوتی موجود تھی۔ سفید ساڑھی میں ایک پاکیزہ چہرہ چمک رہا تھا۔ اس نے بڑے نرم لہجے میں کہا۔
’’یہ کون ہیں بھیا جی؟‘‘
’’میرے دوست ہیں ہرنا۔‘‘
’’لگتے تو نہیں ہیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’ہمیں لینے آئے ہیں۔‘‘
’’کہاں لے جائیں گے؟‘‘ اس نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’سب جا رہے ہیں، تمہیں بھی چلنا ہے ہرناوتی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میری قید ختم ہو گئی؟‘‘
’’تو قید کہاں تھی ہرنا۔ میں ہی اندھا ہو گیا تھا، پاگل ہو گیا تھا مگر اب۔‘‘ بنسی راج نے سسک کر کہا۔
’’پرائی پیر جانو سو مانیں، لے چلو جہاں من چاہے، ہم اپنے ہیں ہی کب۔‘‘ اس نے اداسی سے کہا۔ بنسی راج نے نوکر کو کشتی کے انتظام کے لئے بھیج دیا تھا۔ اس کی واپسی کا انتظار تھا۔ میں ہرناوتی سے مل چکا تھا، کوئی خاص بات نہیں تھی، بس ملازم بہت دیر میں آیا۔
’’کھتوریہ ہریاپور گیا تھا مہاراج۔ دیر میں آیا اس کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘
’’آ گیا؟‘‘
’’ہاں نائو تیار کر رہا ہے، کہتا ہے مہاراج گھاٹ آ جائیں، نیا تیار ملے گی۔‘‘
ملازم شام کو چھ بجے واپس آیا تھا۔ سورج ڈھل چکا تھا۔ ہم لوگ گھاٹ چل پڑے۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے سورج چھپ گیا۔ بنسی راج، اس کے دونوں بیٹے، بیوی اور ہرناوتی میرے ساتھ تھے۔ میری ہدایت پر کسی ملازم کو نہیں لیا گیا تھا۔ گھاٹ پر بڑی سی کشتی ڈول رہی تھی اسی پر بادبان باندھا گیا تھا۔ بنسی راج قریب آ گیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ ونود نے رسی کھینچ کر کشتی کو کنارے لگایا اور عورتوں کو سہارا دے کر کشتی پر اتار دیا گیا۔
’’یہ کھتوریہ کہاں مر گیا۔ ویسے ہی رات ہو گئی۔‘‘ اسی وقت کھتوریہ کھیس سنبھالے دوڑتا نظر آیا۔ ونود نے خود بھی کشتی میں بیٹھتے ہوئے اسے ڈانٹا۔
’’کہاں چلا گیا تھا رے تو۔ چل جلدی کھونٹا کھول دیر کر دی بے وقوف نے۔‘‘ کھتوریہ نے کھونٹا کھولا، رسی لپیٹ کر بادبان میں پھینکی اور خود کشتی میں کود کر بادبان کا رخ بدلنے لگا۔ کشتی پانی میں آگے بڑھنے لگی۔ کھتوریہ پتوار سنبھال کر کشتی کے دوسرے سرے پر جا بیٹھا تھا۔ کشتی بہائو پر چل پڑی۔ سب خاموش تھے۔ بہت دیر تک یہ خاموشی طاری رہی پھر بنسی راج بولا۔
’’سونا باغ سونے کا باغ کہلاتا ہے۔ کچھ بھی لگوا دو ایسی فصل ہوتی ہے وہاں کہ کہیں نہیں ہوتی۔ آم، ناریل اور پپیتا تو اتنا اگتا ہے کہ بس مگر اسے لگانے والا نہ رہا۔‘‘
’’پتا جی۔ ان باتوں کو یاد نہ کریں۔‘‘ راجیش نے کہا۔
’’جب سے پورن نے سنسار چھوڑا، میں آج اس باغ میں جا رہا ہوں۔‘‘ بنسی راج درد بھرے لہجے میں بولا اور اس کی معصوم پتنی سسکنے لگی۔
’’پتا جی۔‘‘ راجیش نے احتجاجی لہجے میں کہا۔
’’کیسے بھولوں اسے۔ کیسے بھول جائوں اپنے تین ہاتھیوں کو۔ وہیں جا رہا ہوں۔ ایک ایک چیز سے اس کی یادیں برستی ہیں۔‘‘
میں نے افسردہ نظروں سے سب کے چہرے دیکھے۔ آخر میں میری نظر ہرناوتی کی طرف اٹھی۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ ایک پراسرار مسکراہٹ اس کے لبوں پر کھیل رہی تھی۔ اس کی آنکھیں عجیب سے انداز میں چمک رہی تھیں۔ وہ آہستہ سے بڑبڑائی۔
’’کون بھولتا ہے، کوئی نہیں بھولتا۔‘‘ آہستہ بولی تھی لیکن میں نے سن لیا تھا۔ نہ جانے کیوں راجیش کو غصہ آ گیا۔
’’آپ تو چپ ہی رہا کریں بوا جی۔ سب کچھ آپ کی وجہ سے ہوا۔‘‘
’’راجیش چپ بیٹھ!‘‘ بنسی راج بولا۔
’’آپ نے سنا نہیں پتاجی، وہ کیا کہہ رہی ہیں۔‘‘
’’خاموش بیٹھ!‘‘ بنسی راج بولا اور راجیش منہ بنا کر بیٹھ گیا۔ ہرناوتی آہستہ آہستہ ہنس رہی تھی۔
’’اپنی چوٹ سب کو دکھتی ہے۔ دوسرے کو کون جانے۔‘‘ وہ پھر بولی۔ کھتوریہ بادبان کا رخ درست کر رہا تھا۔
’’یہ رخ کیوں بدل رہا ہے کھتوریہ۔ وہ سامنے تو ہے سونا باغ۔‘‘ ونود نے کھتوریہ سے کہا اور اس نے بدن سے لپٹا کھیس اتار دیا۔ ایک تو نیم تاریک ماحول تھا، دوسرے کھتوریہ نے چہرہ ڈھکا ہوا تھا اس لئے میں نے اس کی صورت نہیں دیکھی تھی، کھیس اتارنے سے اس کا چہرہ نظر آیا۔ کالاسیاہ چہرہ، خون کی طرح سرخ آنکھیں مگر یہ سیاہ چہرہ بالکل جلا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ میں نے کھتوریہ کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے وہ ایسا ہی ہو لیکن اچانک پوری کشتی پر چیخیں گونجنے لگیں۔ بنسی راج کی بیوی نے چیخ کر اپنے دونوں بیٹوں کو سینے سے لپٹا لیا تھا۔ بنسی راج تھر تھر کانپ رہا تھا اور ہرناوتی کی ہنسی کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔ مجھے کسی گڑبڑ کا حساس ہوا۔ میری نظریں سب سے ہوتی ہوئی کھتوریہ پر آ گئیں۔ اس نے دونوں گال پھلائے ہوئے تھے اور منہ سے ہوا نکال رہا تھا۔ اس کی سرخ سرخ آنکھوں میں شیطانی چمک لہرا رہی تھی اور منہ سے اتنی تیز ہوا نکل رہی تھی کہ اس کا احساس اتنے فاصلے پر بھی ہو رہا تھا۔ میں نے غور کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ ہوا بادبان میں بھرتی جا رہی ہے اور کشتی کی رفتار بھی تیز ہونے لگی ہے۔ صورتحال پوری طرح تو سمجھ میں نہیں آئی تھی لیکن کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا۔
مسعود آسان ذرائع سے دولت حاصل کرنے کے لالچ میں کالے جادو کے ماہر بھوریا چرن سے جا ٹکرایا جو اپنے لئے کسی آلۂ کار کی تلاش میں تھا۔ اس نے مسعود کو اپنے شیطانی جال میں پھنسانا چاہا لیکن جب مسعود اس کے چکر میں نہیں آیا تو وہ اس کا دشمن بن گیا۔ اس نے اپنی خباثتوں سے مسعود کی زندگی عذاب کرڈالی۔ یہاں تک وہ گھر بار سے محرومی کے بعد بدحالی کی انتہا کو پہنچ گیا۔ ایسے میں چند برگزیدہ بندوں نے اس کی مدد کی اور بھوریا چرن کے شر سے نجات دلانے کے ساتھ کچھ روحانی قوتیں بھی اسے بخشیں۔ اسے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنی ان صلاحیتوں کی مدد سے خلق خدا کو فیض پہنچائے۔ مسعود نے اس ہدایت پر پورا پورا عمل کیا اور کئی مصیبت زدہ افراد کی مشکلات حل کرنے میں ان کی مدد کی۔ بھوریا چرن جو مسلسل اس کے تعاقب میں تھا، ایک بار پھر اس پر اپنا دائو چلانے میں کامیاب ہوگیا جس کے نتیجے میں مسعود اپنی ان روحانی صلاحیتوں سے محروم ہوگیا جو بزرگوں کی جانب سے اسے بخشی گئی تھیں۔ بھوریا نے مسعود کو مکمل طور سے اپنے قابو میں کرنے کیلئے سات حسین جادوگرنیاں اور ان کے بیروں کی پوری فوج اس کے پیچھے لگادی۔ مسعود کسی نہ کسی طرح ان سے جان بچاتا پھرر ہا تھا۔ بالآخر طویل جان لیوا آزمائشوں کے بعد اسے ایک بار پھر وہی کراماتی کمبل واپس مل گیا جو ایک بزرگ نے اسے عطا کیا تھا اور جسے اوڑھتے ہی نگاہوں سے پوشیدہ مناظر اس پر عیاں ہوجاتے تھے اور اسی کمبل کی مدد سے وہ دوسرے لوگوں کی مدد بھی کرسکتا تھا۔ وہ ایک بستی میں جا پہنچا جہاں اس نے کئی افراد کی مدد کی۔ اسی دوران ایک اور شخص اپنی بپتا لے کر اس کے پاس آ پہنچا۔ یہ ایک ٹھاکر تھا جو بہت ظالم اور خودسر ہوا کرتا تھا لیکن اب خود اپنے مظالم کا نتیجہ بھگتنے پر مجبور تھا۔ اس نے ایک غریب شخص کو اپنی بہن سے شادی کرنے کے جرم میں اس کے پورے خاندان سمیت جلا کر راکھ کرڈالا تھا لیکن اب اس کی اولادیں ایک ایک کرکے پراسرار طریقے سے ہلاک ہورہی تھیں۔ اسے اپنی خطائوں کا احساس ہوچکا تھا اور وہ مسعود سے مدد کا طلبگار تھا۔ مسعود نے ٹھاکر کی مدد کرنے کا وعدہ کرلیا اور رات کو اس کی حویلی کی جانب چل پڑا۔ حویلی تک پہنچتے پہنچتے اس کے ساتھ کئی پراسرار واقعات پیش آئے تو اس پر انکشاف ہوا کہ جن لوگوں کو ٹھاکر نے زندہ جلوا دیا تھا، ان کی روحیں اپنا انتقام لینے کیلئے بے چین تھیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں چتا دی جائے۔ مسعود نے فیصلہ کیا کہ ان سب کو دریا پار ان کے علاقے میں پہنچا کر انہیں چتا کے حوالے کردیا جائے۔ اسی طرح ٹھاکر اور اس کے اہل خانہ کی جان ان سے چھوٹ سکتی تھی۔ وہ ٹھاکر اور اس کے گھر والوں کے ہمراہ کشتی میں سوار ہوکر دریا پار جانے کیلئے روانہ ہوا لیکن راستے میں انہی ارواح نے انہیں نقصان پہنچانے کیلئے اپنی شرارتیں شروع کردیں۔
(اب آپ آگے پڑھیے)
٭…٭…٭…٭
میں نے بنسی راج کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ کون ہے؟‘‘ بنسی راج نے خوفزدہ نگاہوں سے مجھے دیکھا اور پھر اس کے منہ سے ڈری ڈری آواز نکلی۔
’’ہیرا…ہیرا۔‘‘
’’میں تمام صورتحال سمجھ گیا تھا۔ ہرناوتی کی ہنسی بھی اب سمجھ میں آ رہی تھی اور یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ کشتی کی برق رفتاری کسی خوفناک حادثے کو جنم دینے والی ہے۔ وہ تو ایک خبیث روح تھی لیکن باقی سب ذی روح تھے اور رفتار پکڑنے والی بے آسرا کشتی کسی بھی لمحے دریا میں الٹ سکتی تھی۔‘‘
میں نے فوراً ہی اپنی جگہ چھوڑی۔ چند قدم آگے بڑھا اور ہیرا کے سامنے پہنچ گیا۔ اس نے بادبان کی طرف سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا اور پھر اس کی شرارت سے مسکراتی ہوئی سرخ آنکھوں میں نفرت کی پرچھائیاں دوڑنے لگیں۔ اس نے خونخوار نگاہوں سے مجھے دیکھا اور رخ تبدیل کر لیا۔ اس کے ہونٹوں سے نکلنے والی ہوا اب میرے سینے پر پڑی اور مجھے ایسا ہی محسوس ہوا جیسے کوئی سخت اور موٹی سل میرے سینے پر آ ٹکی ہو اور پوری قوت سے مجھے پیچھے دھکیل رہی ہو۔ یہ ہوا کی طاقت تھی لیکن خدا نے مجھے بھی یہ ہمت عطا کی کہ میں اس شیطانی طاقت کا مقابلہ کر سکوں۔ تیز ہوا بے شک میرے جسم میں سوراخ کئے دے رہی تھی لیکن میرے قدموں کو ایک تل برابر بھی پیچھے نہ ہٹا سکی۔ ہیرا مسلسل کوششیں کرتا رہا۔ تب میں نے سرد لہجے میں کہا۔
’’بس ہیرا رک جائو۔ اس کے بعد تمہارے نقصان کی باری آتی ہے۔‘‘ وہ رک گیا۔ ہوا بند ہوگئی۔ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’جتنا کچھ تم کر چکے ہو ہیرا میرے خیال میں وہ بہت زیادہ ہے اور اب تمہیں یہ سلسلہ ترک کر دینا چاہئے۔‘‘ اس نے خونخوار انداز میں منہ کھولا اور پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
’’ارے او میاں جی۔ زیادہ باتیں نہ بنا ہمارے سامنے۔ بڑا مہاتما ہے تو، بڑا علم والا ہے۔ ہم نہ مہاتما ہیں، نہ علم والے، ہم تو مظلوم ہیں، انیائے ہوا ہے ہمارے ساتھ۔ یہ پاپی، یہ ہتھیارا ہمارے پورے خاندان کو ختم کر چکا ہے، ارے تیرا ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے میاں، بیچ میں مت آ ہمارے، جو سوگند ہم نے کھائی ہے اسے پوری کئے بغیر ہم نہیں رہ سکیں گے، بیچ کا جھگڑا مت نکال میاں جی، بیچ کا جھگڑا مت نکال۔‘‘
تم اس سے انتقام لے چکے ہو۔ تین بیٹے مار دیئے ہیں تم نے اس کے اور کیا کرو گے، بس اتنا کافی ہے اور تم تو اس کے خاندان کے ایک فرد ہو، ہرناوتی سے شادی ہوئی ہے تمہاری، کچھ بھی ہے یہ اپنا خاندان ہے تمہارا، بس اتنا ہی کافی ہے جو تم کر چکے، بس اس کے بعد تم اپنی یہ کارروائیاں بند کر دو۔‘‘
’’ارے جارے جا۔ کارروائیاں بند کر دو۔ ہم اس کے خاندان کے ہیں۔ ایسا ہوتا ہے خاندان والوں کے ساتھ رے، ہمیں بھی تو اس کی طرح اس سنسار میں بھیجا گیا تھا، کون نیچا ہے، کون اونچا ہے، چار پیسے انسان کو اتنا اونچا بنا دیتے ہیں کہ وہ نیچا دیکھ ہی نہیں سکتا، ہم بھی اس کی بہن کو عزت دیتے، ہم بھی عزت سے جی لیتے۔ بیچ میں مت آ میاں، ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔‘‘
’’اور اگر اب تم نے کوئی کارروائی کی تب بھی اچھا نہیں ہو گا ہیرا۔‘‘
’’ٹھیک ہے پھر، ہمیں جو کرنا ہے ہم کر رہے ہیں، یہ لے۔ اس نے پھر بادبان کی جانب رخ کیا۔ کشتی کی رفتار اب بھی بہت تیز تھی اور اسے کوئی سنبھالنے والا نہیں تھا چنانچہ خطرہ ٹلا نہیں تھا۔ اب میرے لئے ضروری تھا کہ میں خود بھی اپنے آپ کو عمل میں لائوں۔ میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بادبان کی جانب دیکھنے لگا۔ میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ یہ بادبان جل جائے اور دوسرے لمحے بادبان سے شعلے ابھرنے لگے۔ بادبان کسی سوکھے ہوئے کاغذ کی طرح جل اٹھا تھا اور اس میں ایک دم آگ بھڑک اٹھی تھی۔ آگ کے بھڑکتے ہی بادبان کی ساری ہوا نکل گئی اور کشتی کی رفتار سست ہو گئی۔ ہیرا نے میری طرف دیکھا اور پھر خونخوار انداز میں آگے بڑھا۔ میں نے دونوں ہاتھ آگے کر لئے اور آہستہ سے کہا۔ ’’اب تم جل کر راکھ ہو جائو گے ہیرا۔ آگے نہ بڑھنا ورنہ یہی آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی، سوچ لو ہیرا، جو کچھ نقصان تمہیں پہنچایا جا چکا ہے میں اس میں شریک ہونا نہیں چاہتا لیکن اگر تم نے ان لوگوں کی زندگی خطرے میں ڈالی تو مجبوراً مجھے بھی تمہارے ساتھ بدسلوکی کرنی پڑے گی۔ ہاں اگر تم اپنی شیطانی قوتوں کو میرے خلاف استعمال کرنا چاہو تو کرو اگر ناکام ہو جائو تو میری بات مان لینا اور مجھے جوابی کارروائی کے لئے مجبور مت کرنا۔‘‘
وہ مجھے دیکھتا اور اور پھر دفعتاً اس نے اپنے جلے ہوئے کالے ہاتھ چہرے پر رکھ لئے۔
’’سب مرے کو مارتے ہیں، سب مرے کو مارتے ہیں، جو ظالم ہوتا ہے اس کے لئے کوئی کچھ نہیں کرتا، کوئی کچھ نہیں کرتا۔‘‘
’’ہیرا مجھے تم سے ہمدردی ہے، مجھے سچ مچ تم سے ہمدردی ہے، جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا میں اسے اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتا لیکن، لیکن اب تم اپنی انتقامی کارروائیوں کا یہ سلسلہ ترک کر دو، تم اپنے آپ کو پرسکون کرو ہیرا، جس دنیا سے تمہارا تعلق ختم ہو چکا ہے اب اس سے یہ تعلق مت رکھو۔‘‘
’’تعلق ختم ہو چکا ہے، چتا تک نہ ملی ہمیں، سارا پریوار جلا دیا ہمارا، چتا تک نہ دی پاپیوں نے…‘‘
’’میں تمہیں چتا دلوا سکتا ہوں ہیرا، میں تمہیں چتا دلوا سکتا ہوں سمجھے۔ یہ کام بنسی راج کو کرنا ہو گا۔ بنسی راج تم اپنے باغ کی طرف جا رہے ہو نا، پہلا کام تمہارا یہ ہو گا کہ ہیرا کے لئے چتا بنائو، اس کی چتا جلائو۔‘‘ بنسی راج نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
’’میں تیار ہوں مہاراج، سچے من سے تیار ہوں، جو کچھ مجھ سے ہو چکا ہے مجھے اس کا بڑا دکھ ہے ہیرا، میرا دل کبھی خوش نہ ہو سکے گا، میری وجہ سے میرے تین بچے مجھ سے چھن گئے، میں تیار ہوں، ہیرا میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘ بنسی راج رونے لگا۔ ہیرا نے کوئی جواب نہیں د یا تھا۔ اس نے پتوار سنبھال لئے۔ کشتی کا رخ تبدیل ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ دوسرے کنارے کی طرف جا رہی تھی۔ سب کے جسموں میں کپکپاہٹ تھی۔ ایک بدروح کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ بنسی راج کی دھرم پتنی تھر تھر کانپ رہی تھی اور اس پر نیم غنودگی کی کیفیت طاری تھی۔ ہرناوتی جو کچھ دیر پہلے ہنس رہی تھی، اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس کے رخساروں پر دو لکیریں چل رہی تھیں۔
کچھ عجیب سی کیفیت تھی، شیطانی روحوں سے واسطہ پڑ چکا تھا مگر یہ پہلا شیطان تھا جو مظلوم تھا۔ کشتی کنارے جا لگی۔ اصل جگہ سے دور نکل آئی تھی۔ بنسی راج کا سونا باغ دور رہ گیا تھا۔ ہیرا خشکی پر کود گیا۔ میری ہدایت پر وہ لوگ بھی کسی نہ کسی طرح خشکی پر اتر آئے۔ بنسی راج کی دھرم پتنی سے چلا نہیں جا رہا تھا، میں نے کہا۔ ’’اپنا وعدہ پورا کرو بنسی راج۔‘‘
’’ہاں، میں تیار ہوں مگر یہاں … یہاں میں کیا کروں باغ تک جانا ہوگا۔‘‘
’’چلو…!‘‘ میں نے کہا۔ سب گرتے پڑتے باغ کی طرف چل پڑے۔ ہیرا چند گز تک ہمارے پیچھے چلا پھر غائب ہو گیا۔ میں نے ہی پلٹ کر دیکھا تھا اور مجھے اس کے غائب ہونے کا علم ہوا تھا مگر میں نے کسی سے کچھ نہ کہا۔ باغ واقعی خوبصورت تھا۔ بیچوں بیچ ایک عمارت بنی ہوئی تھی جس میں باغ کا رکھوالا تیجا رہتا تھا۔ تیجا نے حیرانی سے مالکوں کا استقبال کیا۔ اس وقت بنسی راج کو ہیرا کے موجود نہ ہونے کا احساس ہوا تھا۔
’’گیا…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’تمہیں اس سے غرض نہیں ہونی چاہئے بنسی راج…!‘‘
‘‘اب میں کیا کروں؟‘‘
’’چتا تیار کرائو…‘‘ بنسی نے گردن جھکا دی۔ ہرے بھرے باغ کے ایک گوشے میں لکڑیاں ڈھیر کی جانے لگیں۔ ملازم تیجا کے ساتھ بنسی راج کے دونوں بیٹے اور خود بنسی راج بھی مصروف ہو گئے تھے۔ موٹی اور پتلی لکڑیوں کے انبار کا احاطہ بنا دیا گیا۔ تب میری نگاہ اس درخت کے چوڑے تنے کی طرف اٹھ گئی جس کے قریب وہ سب بیٹھے تھے۔ بوڑھا لاکھو، تین عورتیں، ایک بچہ۔ میں نے بچے کی آواز سنی۔
’’بپو… ارتھی نہیں ہے۔‘‘
’’چپ ہو جا پوت، پاپی کے ہاتھ سے چتا ہی مل جائے تو کافی ہے۔‘‘ عقب سے ہیرا بھی آ کر بیٹھ گیا تھا۔ عورتیں خاموش تھیں، کوئی اجنبی شخص تو اس منظر کو سمجھ بھی نہ پاتا مگر جو شخص بھی ہوتا، وہ ہوش و حواس میں نہیں رہ سکتا تھا۔ بنسی راج کی دھرم پتنی کو اندر عمارت میں بھجوا دیا گیا تھا پھر تیجا نے انہیں دیکھ لیا اور ایک لمحے پہلے میں نے جو سوچا تھا، وہ سامنے آ گیا۔ یقیناً تیجا ان کے بارے میں جانتا ہوگا، اس نے ایک دلخراش چیخ ماری اور لمبی لمبی چھلانگیں لگاتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا۔ بنسی راج اور اس کے بیٹوں نے بھی اب انہیں دیکھ لیا تھا اور بری طرح کانپنے لگے تھے۔
’’اپنا کام جاری رکھو بنسی راج، وعدہ پورا نہ ہو سکا تو میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکوں گا۔ بنسی راج پہلے سے زیادہ تیزرفتاری سے کام کرنے لگا تھا مگر اس طرح کہ دہشت سے ان سب کی بری حالت تھی۔ چتا تیار ہو گئی، لکڑیوں کا انبار جمع ہو گیا، بیچ میں جگہ تھی۔
’’چلو چاچا… چلو ماسی چتا تیار ہو گئی۔ سب اندر چلے جائو۔‘‘ ہیرا نے کہا اور درخت کے پیچھے بیٹھے اٹھ گئے، کچھ دیر کے بعد وہ لکڑیوں کے ڈھیر کے اندر پوشیدہ ہو گئے۔ ہیرا نے ہرناوتی کو دیکھا، وہ پتھرائی ہوئی بیٹھی تھی۔ ہیرا نے آہستہ سے اسے آواز دی۔ ’’ہرنا… ہرنا…! مگر ہرناوتی نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اسی طرح بیٹھی رہی تب ہیرا آہستہ سے بولا۔
’’چلتا ہوں ہرنا دیر ہو رہی ہے، پہلے ہی دیر ہو گئی تھی مگر میں کیا کرتا… ٹھیک ہے بنسی راج۔ سوچا تو یہ تھا کہ جب تک میں روتا رہوں گا تجھے رلاتا رہوں گا مگر میاں جی بیچ میں آ گئے۔ میاں جی منش کو جیتے جی سنسار میں کچھ ملے یا نہ ملے مگر اس سے اس کی چتا بھی چھین لی جائے تو… اچھا چلتا ہوں ہرنا چلتا ہوں، بنسی راج… یہ باغ تیرے بیٹے پورن نے لگایا تھا نا؟‘‘
ہاں…‘‘ بنسی راج نے کہا۔
’’اب یہ تیرا نہیں ہے ہمارا ہے، ان سب کا ہے جو تیرے ہاتھوں مارے گئے، اس کے ایک پیڑ پر اب کوئی پھل نہ لگے گا، کوئی پیڑ ہرا نہ رہے گا، سب سوکھ جائیں گے۔ تو جب بھی نیما سے گزرے گا اسے دیکھے گا اور تجھے اپنا کیا ہوا یاد آ جائے گا۔ دیکھ پتے سوکھنے لگے، شاخیں سلگنے لگیں۔ ساری آتمائیں پہنچ گئی ہیں۔ ہم سب یہاں رہیں گے، منع کر دینا اپنوں کو، کبھی ادھر سے نہ گزریں نہیں تو ہمیں سب کچھ یاد آ جائے گا۔ تیرے پریوار کا کوئی ادھر سے گزرا تو جیتا نہ جائے گا۔‘‘
وہ منظر میں نے بھی دیکھا۔ درخت پتوں سے خالی ہوتے جا رہے تھے، ان کی شاخیں ٹنڈمنڈ ہونے لگی تھیں۔ لمحوں میں ایسا انوکھا اجاڑ کسی نے نہ دیکھا ہو گا۔ ہرا بھرا باغ منٹوں میں سوکھ گیا تھا۔ یہ سب میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔ میں ان ہولناک ناقابل یقین واقعات کا گواہ ہوں۔ ہیرا نے آخری نظر ہرناوتی پر ڈالی اور پھر چتا کی طرف بڑھ گیا۔
’’اپنا کام کرو بنسی راج… اپنا کام۔‘‘ بنسی راج کپکپاتے قدموں سے آگے بڑھا، جیب سے ماچس نکالی اور سوکھی لکڑیوں میں آگ لگا دی۔ آہستہ آہستہ آگ بھڑکنے لگی اور پھر لکڑیوں کا ڈھیر جہنم بن گیا، شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔
’’چلو ونود… چلو راجیش اپنی ماتا جی کو سنبھالو، چلیں یہاں سے مہاراج، ہرنا اٹھو بیٹی!‘‘
’’میں… میں کہاں جائوں گی بھیا جی، یہ میرا سسرال ہے، میکے میں بہت رہ لی اب تو سسرال میں رہنے دو نا بھیا جی، کوئی رکھیل نہیں تھی، میں ہیرا کی پتنی ہوں، اس کے ساتھ پھیرے کئے تھے میں نے، بدائی تو نہ کی تم نے، ستی بھی نہ ہونے دو گے کیا، ارے واہ۔‘‘ وہ اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔
’’ہرنا… ہرنا… نہیں… نہیں میری بیٹی…!‘‘
’’جائو جائو بھیا، ماتا پتا ہوتے تو وہ نہ کرتے جو تم نے کیا، وہ جہیز میں آگ نہ دیتے بھیا۔ ہونہہ۔‘‘ اس نے کہا اور چتا کی طرف بڑھ گئی۔
’’ارے…ارے ونود… راجیش۔ پکڑو اسے… ارے… ارے…!‘‘ بنسی راج چیخا…!
بنسی رام کے دونوں بیٹے ہرناوتی کی طرف لپکے مگر وہ دوڑتی ہوئی آگ کے حصار میں داخل ہوگئی۔ شعلوں کی خوفناک تپش اتنے فاصلے سے جلائے دے رہی تھی۔ ایسی ہولناک آگ میں کسی کے داخل ہوجانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، مگر میں نے یہ منظر بھی دیکھا اور یہ ایسا مرحلہ تھا کہ میں خود بھی کچھ نہیں کرسکا۔ انسانی گوشت کے جلنے کی چراند اٹھی اور معدوم ہوگئی۔ بھڑکتی آگ آن کی آن میں ہرناوتی کو چٹ کرگئی۔
راجیش اور ونود دیکھتے رہ گئے تھے۔ پھر وہ شعلوں کی تپش سے گھبرا کر پیچھے ہٹ آئے۔ بنسی راج بلک بلک کر رو رہا تھا۔ ’’ہرنا ستی ہوگئی میری ہر نا ستی ہوگئی۔ ہائے رام میری چھوٹی سی بھول نے مجھے کتنوں سے دور کردیا۔ دوش میرا بھی نہیں تھا۔ یہ اونچ نیچ کا فرق مجھے سکھایا گیا تھا۔ بھگوان کے بنائے سارے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ یہ ہم ہی پاپی ہیں جو ان میں فرق کردیتے ہیں۔ میری بہن جل مری مہاراج، میری بہن جل مری۔‘‘ وہ روتا رہا، میں خاموش کھڑا تھا پھر اسے جیسے کچھ خیال آیا اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر راجیش اور ونود کو دیکھا۔ انہیں آواز دی۔ دونوں قریب پہنچے تو اس نے لپک کر انہیں اپنے سینے سے بھینچ لیا۔ ’’تم بچ گئے، سن رہی ہے تو ہمارے راجیش اور ونود بچ گئے۔ ہمارے کسم اور شردھا بچ گئیں، ہمارے چار بچے بچ گئے۔ مہاراج آپ نے میرے بچوں کو بچالیا۔‘‘ وہ میرے پیروں پر گرنے لگا تو میں پیچھے ہٹ گیا۔
’’نہیں بنسی راج۔ میرے دین میں یہ حرام ہے۔ ایسا نہ کرو۔‘‘
’’آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے مہاراج۔ بہت بڑا احسان کیا ہے۔‘‘
’’میں نے کچھ نہیں کیا۔ جو کچھ کرتا ہے اوپر والا کرتا ہے، وہ کسی کو ذریعہ بنا دیتا ہے۔ تمہارے جتنے بچے دنیا سے چلے گئے انہیں اسی عمر میں جانا تھا۔ ایسے نہ ہوتا تو کچھ اور ہوتا مگر یہ تمہارے لیے سزا تھی۔ ہوسکے تو انسانوں سے محبت کرنا سیکھو بنسی راج۔ اسی میں نجات ہے۔‘‘
’’میں اپنے پاپوں کا پرائشچت کرونگا مہاراج۔ چلئے واپس چلیں، جو ہوا بہت ہوگیا۔ چلئے مہاراج۔‘‘
’’تمہارا کام ہوگیا بنسی راج۔ اب تم کشتی میں بیٹھ کر واپس جائو۔ میری منزل کہیں اور ہے۔‘‘
’’نہیں، نہیں مہاراج۔ اب تو میرے باغ میں پھول کھلے ہیں۔ ہم آپ کی سیوا کریں گے۔ ایسے نہ جانے دیں گے آپ کو مہاراج۔‘‘
’’نہیں بنسی راج بس اب تم جائو۔‘‘ میں نے کہا۔ وہ بہت کچھ کہتا رہا مگر میں تیار نہیں ہوا۔ معصوم لوگوں کی آبادی تھی، یہ واقعہ مشہور ہوگا لوگ اپنے اپنے مسائل لے کر دوڑ پڑیں گے۔ پوجا شروع کردیں گے میری، پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا اور یہ سب کچھ مناسب نہیں تھا۔ بڑی مشکل سے بنسی راج کو راضی کرسکا تھا۔
’’ہم سے کچھ بھی نہ لوگے مہاراج۔‘‘ وہ بولا۔
’’جو کچھ مجھے دینا چاہتے ہو خاموشی سے مولوی حمید اللہ کو دے دینا، ان کی دوجوان بیٹیاں ہیں۔ غریب اور مفلس انسان ہیں۔ ان کی بیٹیوں کی شادی کا بوجھ بانٹ لینا۔ سمجھو مجھے سب کچھ مل جائے گا۔‘‘
’’بھگوان کی سوگند۔ آپ سے وعدہ کرتا ہوں۔ اپنے ہاتھوں سے ان کا بیاہ کروںگا۔ سارا خرچہ اٹھائوں گا ان کا۔‘‘
’’انہیں میرا سلام کہہ دینا۔‘‘ وہ وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ جو کچھ ہوا تھا خوب ہوا تھا۔ بہت سے مناظر حیران کن تھے۔
اچانک ہرا بھراباغ سوکھ گیا تھا۔ کسی درخت پر ایک پتا نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ مظلوم روحوں کا انتقام تھا۔ نہ جانے یہ راستہ کس طرف جاتا ہے، کچھ پوچھا نہیں تھا بنسی راج سے مگر کیا فرق پڑتا ہے۔ زمین کی وسعتوں میں کسی بھی جگہ چلا جائوں۔ مجھے جانا ہی کہاں ہے۔ حلق میں ایک گولا سا آپھنسا، کچھ یادیں ذہن میں سرسرائیں مگر مجھے اجتناب کرنا تھا۔ ہدایت نہیں ملی تھی اور خود سوچنا بھی گناہ تھا۔ جلدی جلدی وہاں سے دور نکل آیا۔ جب تک چل سکتا تھا چلتا رہا۔ تھک گیا تو بیٹھ گیا۔ بھوک لگ رہی تھی مگر آس پاس کچھ نہیں تھا۔ ہاتھ اٹھاکر خدا کا شکر ادا کیا۔ عشاء کی نماز پڑھی اور پھر لیٹ گیا۔ فضا میں خنکی سی پھیل گئی تھی جو بڑھتی گئی، کمبل کھول کر اوڑھ لیا۔ آنکھیں بند کرلیں۔ پھر کچھ غنودگی سی طاری ہوگئی۔ اسے نیند نہیں کہا جاسکتا تھا۔ جانا پہچانا سا ماحول نظر آیا۔ غور کرنے لگا کونسی جگہ ہے۔ یاد آگیا یہ وہ جگہ تھی جہاں مجھے لے جایا گیا تھا۔ اور جہاں میں نے مہاوتی کو بلی کو طرح انسانی گوشت چباتے دیکھا تھا۔
بالکل وہی جگہ تھی۔ یہاں بھی کالی کا ایک عظم مجمسہ استادہ تھا۔ پھر میں نے مہاوتی کو دیکھا۔ سر پر بجلیوں کی طرح کوندتے ہیروں کا تاج تھا۔ ایک سمت سادھو شمبھو ناتھ تھا، دوسری طرف کالی داس۔ بڑی شان سے چلتی ہوئی کالی کے مجسمے کی طرف جا رہی تھی، اس کے پیچھے بیروں کا مجمع تھا یہ پورنیوں کے بیر تھے۔ کالی کے مجسمے کے قدموں کے پاس کوئی گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا نہ جانے کون تھا۔ سر گھٹنوں میں ہونے کی وجہ سے چہرہ نہیں نظر آرہا تھا۔ پھر بیر رک گئے، کالی داس اور شمبھو بھی رک گئے۔ مہاوتی آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور کالی کے پیروں کے پاس بیٹھے شخص کے سامنے پہنچ گئی۔ عجیب سا کھیل ہو رہا تھا۔ مہاوتی اسے دیکھتی رہی پھر اس کے عقب میں جا کھڑی ہوئی، اس نے مجسمے کے قدموں کو چھوکر ہاتھ ماتھے سے لگائے اور پھر کالی کے ہاتھ میں دبا ہوا خنجر اپنے ہاتھ میں منتقل کرلیا۔ مگر اس وقت بیر چیخنے لگے۔ اس عظیم الشان غار کے بغلی گوشے سے نارنجی رنگ کا ایک غبار اندر داخل ہو رہا تھا جو پہاڑی غار کے ایک سوراخ سے نکل رہا تھا۔ بیر پیچھے ہٹنے لگے اور بہت پیچھے پہنچ گئے، مہاوتی بھی رک کر دیکھنے لگی تھی۔ نارنجی غبار ایک انسانی جسم کی شکل اختیار کرنے لگا اور پھر اس سے جو انسان تشکیل ہوا وہ بھی میرا جانا پہچانا تھا۔ یہ بھوریا چرن تھا، نارنجی رنگ کا جوگیا لبادہ اوڑھے ہوئے، سر پر کوئی چار فٹ اونچا تاج پہنے ہوئے، گردن میں انسانی کھوپڑیوں کی مالا پڑی ہوئی۔ چہرے پر غصے کے آثار تھے۔
’’جے شنکھا۔‘‘ مہاوتی نے خنجر نیچے جھکاتے ہوئے کہا۔ ’’لنگڑی پورنی۔‘‘ بھوریا چرن نے زہریلے لہجے میں کہا اور مہاوتی کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ اس نے بھوریا چرن کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’کالی کنڈ میں شنکھا کو عزت دی جا رہی ہے، مگر شنکھا کو بھی کالی نواس کے آداب کا خیال رکھنا چاہئے۔‘‘
’’کالی چنڈولی اپنی سرحدوں کا خود خیال نہیں کر رہی، بہت آگے بڑھ رہی ہے۔‘‘
’’کوئی بھول ہوئی مجھ سے۔‘‘
’’بھول ہی بھول …تو نے شنکھا کی پیٹھ میں خنجر مارے ہیں۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’کئی طرح سے نرکھنی، تیرا پیڑھ کیا ہے؟‘‘
’’پورنی ہوں۔‘‘
’’شرم نہیں آتی تجھے۔ تونے پورن پاٹھ کیا ہے۔‘‘
’’شنکھا تو بڑا ہے تیری شکتی مہان ہے۔ ہم تیرا مقابلہ نہیں کرسکتے مگر ہمیں ہماری بھول بتا۔‘‘
’’چھ پورنیاں تیری ہیں۔ ساتویں کہاں ہے۔‘‘
’’تو جانتا ہے؟‘‘
’’ ہاں میں جانتاہوں۔ میں نے یہ پورنیاں ایک مسلمان کو دان کی تھیں۔ میرا اس کا پرانا معاملہ تھا۔ میں اس کا دھرم بھرشٹ کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے دھرم کا سیوک ہے۔ میں نے اس کا خون بدل کر اسے پورنا بنایا اور تو نے وہ خون نچوڑ کر اسے پھر سے پوتر کردیا۔‘‘
’’تو اسے لے گیا تھا شنکھا مجھے یاد ہے۔‘‘
’’کچھ نہ بگاڑ سکا اس کا میں۔ تیری وجہ سے اس کی پوترتا اسے واپس مل گئی۔‘‘
’’کیا وہ بہت بڑا گیانی ہے۔‘‘
’’تھا نہیں، تیری وجہ سے بن گیا ہے۔ ایک پورنی اس نے خود مار دی چھ کو اور مارنا چاہتا تھا مگر برسوں لگ جاتے اسے۔ تو نے اس کا برسوں کا کام لمحوں میں کردیا اور اسے اپنے دھرم کی شکتی مل گئی۔‘‘
’’شنکھا سے بڑی شکتی؟‘‘
’’وہ تو تجھے پتہ چل جائے گا۔‘‘
’’مجھے جو پتہ چلے گا وہ میں دیکھ لوں گی شنکھا۔ مگر تیرے میرے بیچ کوئی بات نہ ہو تو اچھا ہے۔‘‘
’’کالی کنڈ میں جیون بتادے گی کیا۔ باہر نہ آئے گی اس سے۔ شنکھا سے مقابلہ کرے گی۔‘‘
’’بھول کر بھی کہیں سوچ سکتی مگر تو برابر میرا اپمان کر رہا ہے۔ میرے بیر اسے اچھا نہیں سمجھ رہے۔‘‘ مہاوتی نے کہا۔
’’تیرے بیر… میرے بیروں کو دیکھنا ہے۔ نہیں دیکھا تو دیکھ لے۔‘‘ بھوریا چرن نے پیلے کپڑے کی ایک جھولی میں ہاتھ ڈال کر ماش کی مٹی بھر دال نکالی اور اسے زمین پر دے مارا۔ مہاوتی نے زمین پر بکھرے ہوئے دال کے دانوں کو دیکھا جو پھولتے جا رہے تھے اور پھر ہر دانے سے پیلے رنگ کی ایک مکڑی نکل آئی۔ پہلے وہ ننھی سی ہوتی پھر ایک دم بڑی ہونے لگتی یہاں تک کہ چھالی کے دانے برابر ہوجاتی۔ دانے دور تک بکھر گئے تھے اور اسی مناسبت سے مکڑیاں اس علاقے میں پھیل گئی تھیں۔ سب سے پہلے شمبھو اور کالی داس اچھل اچھل کر اونچی جگہوں پر چڑھ گئے۔
مہاوتی کے چہرے پر عجیب سے آثار نظر آرہے تھے۔ بھوریا چرن نے اور دال نکالی اور پہلے کے سے انداز میں زمین پر پھینک دی، مکڑیوں کا پورا کھیت اگ گیا، بڑی مکڑیوں نے وہاں موجود ہر چیز چاٹنا شروع کردی تھی۔ پورنیوں کے بیر بدحواس ہونے لگے تھے، وہ بے چینی سے ادھر ادھر دوڑنے لگے، مکڑیاں ان پر بھی چڑھنے لگیں اور وہ ناچ ناچ کر انہیں جھاڑنے لگے، ادھر بکھری ہوئی مکڑیوں نے وہاں صفایا شروع کردیا تھا۔ دفعتاً شمبھو ناتھ چیخا۔
’’شما کردے شنکھا۔ شما کردے دھن پوریا۔ تجھے دیوی کی سوگندھ۔ تجھے پاٹھک دیوتا کا واسطہ شما کردے۔ مہاوتی شما مانگ لے شنکھا سے ہم اس کے آگے کچھ نہ کرسکیں گے۔‘‘
’میں نے کب ایسی بات کہی شمبھو ناتھ جی، شنکھا مہان ہے اسے کون نہیں مانتا۔‘‘
’’شما مانگ لے شنکھا سے۔ جے جگدمبے جے مہانی۔ شما کردے شنکھا شما کردے۔‘‘ شمبھو چیخا!
’’شما کردے مکڑ… تیرے بیر شکتی مان ہیں۔‘‘ مہاوتی نے کہا اور بھوریا چرن اسے گھورنے لگا۔ پھر اس نے دونوں ہاتھ سیدھے کرکے ادھر ادھر کئے اور مکڑیاں غائب ہوگئیں۔
’’تیرے بیر تیرے اپمان کو اچھا نہیں سمجھ رہے تھے تو کچھ کر کیوںنہ کرسکے مہاوتی۔‘‘ بھوریا چرن نے کہا۔
’’شنکھا گرو ہے۔ جو جانتا ہے وہی جانتا ہے۔‘‘ مہاوتی نے کہا۔
’’بڑا گھمنڈ ہوگیا ہے تجھے۔‘‘
’’شنکھا کے سامنے نہیں۔ ہاں شنکھا کے بل پر ہوسکتا ہے۔‘‘ مہاوتی نے اچانک چولا بدل لیا۔ وہ دلکش انداز میں مسکرانے لگی۔ مکار شنکھا ہنسنے لگا۔ اس نے شمبھو اور کالی داس کو دیکھا اور بولا۔
’’سسری کچوندی ہے نری۔ ایک دم کچوندی۔ چار منتر سیکھ لیے،کالی کھان بن گئی۔ اسے سمجھائو کالی سنتھو ہے۔ کالی سنتھال ہے۔ اس کے انت پاتال سے گہرے ہیں، یہ چار منتر کالی کھان نہیں بنادیتے، جیون بھر کالی پاٹھ کرے گی تھوڑا رہے گا۔ پگلی چنڈولی تریا چرتر دکھا رہی ہے شنکھا کو۔ مسکراکر لبھا رہی ہے۔ اسے جس نے سات اپسرائیں دان کردیں ایک انجانے کو۔ وہ اپسرائیں جو مہاراج اندر کی سبھا میں ستاروں کی طرح جگمگاتی ہیں، ہونہہ لنگڑی پورنی۔‘‘
’’شنکھا مہان ہے۔‘‘ مہاوتی سنبھل کر بولی۔
’’تو نے اس مسُلے کو اس کی دھرم شکتی دیدی جو ہم نے بڑی مشکل سے چھینی تھی اور اب وہ گیانی بن گیا ہے۔ اس کے ہاتھوں ہماری پیڑھ کو جو نقصان پہنچے گا اس کا ذمہ کون لے گا؟‘‘
’’مجھے پتہ نہیں تھا مہاراج۔ کیا وہ ایسا کرسکتا ہے۔‘‘
’’لال تلیا کا ماگھ مار دیا اس نے۔ ایک کرودہی پریوار کو بھسم کردیا، اگنی میں، ورنہ وہ سنسار میں خوب کام کرتے۔ یہ سب تیری وجہ سے ہوا۔‘‘
’’تم اسے کتوں کی طرح گھسیٹتے لے گئے تھے مہاراج، مارکیوں نہ دیا تم نے اسے؟‘‘
’’توماردینا چنڈولی۔ آئے گا وہ تیرے پاس بھولے گا نہیں تجھے۔‘‘ بھوریا چرن طنزیہ لہجے میں بولا۔ پھر کالی کے قدموں میں بیٹھے نوجوان سے بولا۔ ’’تیرا کیاخیال ہے اے چھورا۔ ہوش ٹھکانے آئے تیرے۔ اٹھ کھڑا ہو۔‘‘ وہ شخص جو گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ متوحش نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا رہا تھا پھراس کے چہرے پر وحشت ابھر آئی۔
’’میں کہاں ہوں؟‘‘ اس نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔
’’ ابھی تو اسی سنسار میں ہے۔ ہم کچھ دیر نہ آتے تو چنڈولی کے پیٹ میں ہوتا۔ اب کیا کہتا ہے؟‘‘
’’یہ… یہ سب کیا ہے۔ اوہ مہاوتی مہارانی جی۔‘‘
’’اسے اسے کیوں جگادیا مہاراج۔ یہ کالی دان ہے۔ میں اسے کالی کو بھینٹ دے رہی ہوں۔‘‘ مہاوتی نے بے چینی سے کہا۔
’’تیرا ستیاناس ہو۔ سارے کام وہ کر رہی ہے جو میرے نقصان کے ہوں۔‘‘
’’ سمجھی نہیں مہاراج؟‘‘ اسے کالی بھینٹ دینے دو۔ یہ میرے کام کا ہے۔‘‘ مہاوتی بولی۔
’’تجھ سے پہلے یہ میرے کام کا تھا، سمجھی۔ یہ اماوس کی رات پیدا ہوا ہے اور پائل ہے۔‘‘
’’یہی میرے نکھٹ کو دور کرسکتا ہے۔ میں نے اسے بڑی مشکل سے پایا ہے مہاراج۔‘‘ مہاوتی عاجزی سے بولی۔
’’کچوندی ہے نری کچوندی، حرامخور۔ اری بائولی میرے پاس سے بھاگا ہوا ہے اور یہ چھپتا پھر رہا تھا کمینہ کہیں کا۔ جانتی ہے وہ جو ایک بیکار سا لڑکا تھا اور میں نے اسے اس کی مرضی سے پیر پھاگن کے مزار پر بھیجنا چاہا اور وہ نہ گیا اس وقت سے میرا شکار ہے، مگر میری ضد نے اسے گیانی بنادیا۔ وہی لڑکا جو تیرے پاس سے میں لے گیا تھا۔ اگر سسرا مجھے پیر پھگنوا دوار پہنچادیتا تو کھنڈولہ بن گیا تھا میں، سنترا کے سترہویں گیان کو جانتی ہے، نام بھی نہ سنا ہوگا تو نے تو چنڈولی۔ ہم پابند ہوتے ہیں شنکھا کی حد سے نکل کر کھنڈولہ بننے کے لئے۔ سنترا کے سترہویں پاٹھ کے اور اس میں پہلا آدمی ہی ہوتا ہے جو آخری آدمی ہوتا ہے اور اس کے بعد اگر کام نہ ہو تو شنکھا شکتی بھی چلی جاتی ہے۔ بڑا پیچھا کیا ہم نے اس سسرے کا اور ہماری ہی وجہ سے وہ اپنا دھرم گیانی بن گیا، بڑی مشکل سے ہم نے اس کا توڑ نکالا اور یہ چھوکروا تلاش کیا، جو اماوس کا پائل ہے، مگر یہ سسرے مسلمان چھوکرے، پتہ نہیں ان کے کان میں کیا بھردیا جاتا ہے، کبھی کام کے نہیں نکلتے۔ یہ بھاگ آیا اور چھپتا چھپاتا تیرے پاس پہنچ گیا مگر سسرا آکاش سے گرا کھجور میں اٹکا۔ تیرے ہی پاس مرنا تھا اسے، تلاش کرتے ہوئے یہاں آئے ہیں، جو کچھ تجھے بتایا ہے ہم نے کان کھول کر سن لے وہ سسرا تیرے ہاتھ لگے تو جس طرح بھی ہوسکے اس سے اس کا گیان چھین لینا، اس میں تیری نجات ہے، آئے گا وہ تیرے پاس… ضرور آئے گا۔ میں اسے لے جا رہا ہوں، یہ میرے کام کا ہے۔‘‘ مہاوتی سخت بے چین نظر آنے لگی، اس نے خونی نگاہوں سے اپنے بیروں کو دیکھا، پھر بے بسی سے شمبھو اور کالی داس کو… سب نے گردنیں جھکالی تھیں۔
بے بس نوجوان جس کی عمر انیس بیس سال سے زیادہ نہ ہوگی، سہمی ہوئی نظروں سے اس سارے ماحول کو دیکھ رہا تھا۔ جب بھوریا چرن نے اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ دہشت زدہ لہجے میں بولا۔
’’نہیں… نہیں میں نہیں جائوں گا… نہیں جائوں گا، میں اس خبیث روح کے ساتھ۔‘‘
’’بھوریا چرن نے اس کے بازو کو ایک زوردار جھٹکا دیا۔‘‘
’’گیڈر کی اولاد، بھاگ کر شہر ہی میں آیا نہ، اتنی جلدی مرنے کی کیوں سوچے ہے، ہم نہ آتے تو اس نے خنجر تو اٹھاہی لیا تھا، گردن کاٹ کر بلی دیتی تیری اور اس کے بعد ماس کھاجاتی۔ گیا تھا بیٹا اس سنسار سے، اری اوچنڈول، ہم جھوٹ بولے ہیں کیا!‘‘
مہاوتی تند نگاہوں سے بھوریا چرن کو دیکھ رہی تھی۔ نوجوان لڑکا سہمے سہمے انداز میں بھوریا چرن کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور اس کے بعد اچانک ہی جیسے آنکھ کھلی گئی۔ میں نے آہستہ سے کمبل چہرے سے ہٹایا اور آنکھیں پھار پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
وہی ماحول تھا، وہی جگہ تھی جہاں میں تھک کر آرام کرنے لیٹ گیا تھا، آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے گردش کر رہے تھے۔ اور تاریک رات تاحد نظر پھیلی ہوئی تھی، دل پر ایک عجیب سی بے چینی طاری ہوگئی، سوچ کی وسعتیں بڑھ گئیں، مجھے میری دوسری منزل کا احساس دلایا گیا تھا مجھے میرے آئندہ قدم کی نشاندہی کی گئی تھی۔ وہ سب مختلف انداز سے میرے کانوں تک پہنچا تھا جو مجھے سوچنا چاہئے تھا۔ ایک منصب عطا کیا گیا تھا، مجھے ایک ذمہ داری دی گئی تھی، اور بتایا گیا تھا کہ اپنی زندگی کو کس انداز سے آگے لے جانا ہے، جو قوتیں عطا کی گئی ہیں انہیں کہاں استعمال کرنا ہے، کون کون سے فرائض جو پورے کرنے ہیں، نجانے کیوں راجہ چندر بھان کو بھول گیا تھا، نجانے کیوں مہاوتی کے باغ میں جگہ جگہ نصب وہ بے شمار مجسمے ذہن سے نکل گئے تھے جو مہاوتی کے کالے جادو کا شکار تھے، ان سب کی مدد تو مجھ پر قرض تھی اور مجھے خود ہی ان کے بارے میں سوچنا چاہئے تھا۔ ساری تھکن دور ہوگئی، یا دور نہ ہوئی تھی تو فرض کے احساس نے چستی عطا کردی تھی، رکنا نہیں چاہئے بلکہ فرض کی ادائیگی کے لیے چلتے رہنا ضروری ہے، کچھ سوچے سمجھے بغیر، کوئی تعین کئے بغیر اپنی جگہ سے اٹھ کر آگے بڑھ گیا۔ انسانی آبادیوں کی تلاش تھی۔ رہنمائی کے لئے کوئی ذی روح درکار تھا اور اب اس وقت تک نہ رکنا تھا جب تک نشان منزل نہ مل جائے، آسمان پر تیرتے ہوئے کالے بادلوں کے ٹکڑے آپس میں جڑگئے اور گھٹا ٹوپ تاریکیاں چھا گئیں۔ پھر کچھ ننھی ننھی بوندوں نے پیشانی، آنکھ اور ناک پر اپنی موجودگی کا احساس دلاکر خوف زدہ کرنا چاہا لیکن جو احسان کیا گیا تھا مجھ پر اس کا فرض یہی تھا کہ سب کچھ بھول جائوں، چلتا رہوں، بارش شروع ہوگئی۔ تیز ہوا کے ساتھ آئی تھی اور موسم بہت سرد ہوگیا تھا۔ ہوا کے تھپیڑے بھیگے بدن میں سوراخ کر رہے تھے مگر وہ بدن کسی اور کا تھا میرا کیا تھا جو میں سوچتا۔ میرا ذہن تو اس جگہ کے بارے میں سوچ رہا تھا جہاں مہاوتی رہتی تھی، سب کچھ یاد آرہا تھا۔ چندر بھان، وہ بولتے مجسمے جو مظلومیت کا نشان تھے، انہیں اس جادوگرنی سے نجات دلانی تھی۔ وہ عورت کالے جادو کی لٹیا، غلیظ روحوں کی ملکہ، کالی دیوی کی پجارن تھی اور اپنے جادو کی قوتیں بڑھانا چاہتی تھی۔ بھوریا چرن ملعون نے جو ناپاک خون میرے جسم میں داخل کردیا تھا، مہاوتی کے ذریعے مجھے اس سے نجات مل گئی تھی۔ پورنیاں اس کے قبضے میں چلی گئی تھیں اور میں آزاد ہوگیا تھا۔ صحیح معنوں میں اب بھوریا چرن کے زوال کا آغاز ہوا تھا، مگر وہ نوجوان لڑکا کون تھا جسے وہ عورت پکڑلائی تھی اور بھوریا چرن… جسے اپنے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ آہ کیا وہ لڑکا مسلمان ہے۔ کیا اب اس کے ذریعہ وہ پیر پھاگن کے مزار مقدس کو ناپاک کرنا چاہتا ہے۔ نہیں یہ نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا نہیں ہوگا کسی قیمت پر نہیں ہوگا۔ دیکھوں گا تجھے مردود بھوریا چرن۔ میرے دانت بھنچ گئے۔
’’آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟‘‘ کسی نے مجھے مخاطب کیا اور میں چونک پڑا۔ میں نے اسے دیکھا اور پھر حیرانی سے چاروں طرف دیکھا۔ پوری آبادی تھی بڑے بڑے مکانات نظر آرہے تھے، دن نکل چکا تھا، نجانے کب رات ختم ہوئی، نجانے کب بارش بند ہوئی، کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔
’’نہیں بھائی میںنے تو کچھ نہیں کہا۔‘‘ میں بولا، وہ شخص عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا پھر بولا۔ ’’کچھ کہا تھا آپ نے۔‘‘
’’خود سے باتیں کر رہا تھا۔‘‘
’’آپ کے کپڑے بری طرح بھیگے ہوئے ہیں، کہیں پانی میں گر پڑے تھے؟‘‘
’’ایں… یہاں بارش نہیں ہوئی۔‘‘
’’بارش! اس موسم میں؟ یہ بارشوں کا موسم کہاں ہے۔‘‘
’’ایں… ہاں… شاید۔‘‘ میں نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔ مجھے واقعی کوئی اندازہ نہیں تھا لیکن بارش ہوئی تھی میرے بھیگے ہوئے کپڑے اس کا ثبوت تھے۔ اس شخص کے چہرے پر ایسے آثار نظر آئے جیسے وہ مجھے خبط الحواس سمجھ رہا ہو۔ وہ جانے لگا تو میں نے اسے روک کر کہا۔’’سنو بھائی! یہ کونسا شہر ہے بتاسکتے ہو؟‘‘
’’ہمیں نہیں معلوم۔‘‘ اس نے جواب دیا اور وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے پریشانی نہیں تھی پتہ چل ہی جائے گا۔ دیر تک آبادی میں چلتا رہا کپڑے بدن پر ہی سوکھ گئے تھے۔ ایک مسلمان نان بائی کی دکان نظر آئی تو اس میں داخل ہوگیا۔ ناوقت پہنچا تھا اس لئے گاہک نہیں تھے۔ نانبائی سے کھانا طلب کیا تو اس نے گردن ہلادی۔
’’کتنی روٹیاں لگادوں میاں صاحب؟‘‘
’’دوکافی ہوں گی۔‘‘ میں نے کہا۔ نانبائی نے پہلے تندور میں دو روٹیاں پکائیں پھر سالن وغیرہ نکال کر دے دیا۔ ’’ میاں بھٹنڈہ یہاں سے کتنی دور ہے؟‘‘
’’کوئی ستر کوس دور ہوگا میاں صاحب۔ کیوں پوچھ رہے ہو۔‘‘
’’جانا ہے وہاں۔‘‘
’’کب جا رہے ہو۔‘‘
’’بس جلدی، ہوسکتا ہے آج ہی چلا جائوں۔‘‘
’’پرون پور میں ہی رہتے ہو۔‘‘
’’نہیں باہر سے آیا ہوں۔‘‘
’’میاں صاحب میرا ایک رقعہ لے جائو گے وہاں، میری بیٹی وہیں بیاہی ہے اس کے میاں کو دے دینا۔‘‘
’’آپ دے دیجئے، دیدوں گا۔‘‘
’’تم روٹی کھائو، لڑکی سے کہہ دوں ذرا لکھ دے گی۔ تم ہاتھ کے ہاتھ دے دوگے۔ ڈاک سے تو کئی دن لگ جاتے ہیں۔ نانبائی اندر چلا گیا اور دو منٹ کے بعد واپس آگیا اب وہ بڑی خوش اخلاقی سے پیش آرہا تھا۔ اپنے خاندانی معاملات بتاتا رہا کہنے لگا۔ ’’میرا بڑا بھائی شروع سے وہیں رہتا ہے اسی کے لونڈے سے بیاہ ہوا ہے میری بیٹی تھا۔‘‘
’’آپ بھی جاتے رہتے ہوں گے وہاں تو؟‘‘
’’لو گھر آنگن ہے ہمارا تو۔ دوچار مہینے میں چکر لگ جاتا ہے۔‘‘ وہ ہنس کر بولا۔
’’راجہ چندر بھان ہوتے تھے وہاں۔‘‘
’’ہاں رہتے تھے۔ میاں ان راجوں مہاراجوں کی کیا پوچھو ہو۔ بس عیاشیوں میں سب کچھ کھوبیٹھے۔ چندر بھان نے تو حد ہی کردی۔ ایک ڈائن گھر میں ڈال لی ہے۔ بڑی کہانیاں سنی ہیں اس کی تو۔ سارا بھٹنڈا خوف سے کانپے ہے ان کے نام سے۔‘‘ نانبائی بہت سے انکشافات کرتا رہا۔ پھر اس نے مجھے رقعہ دے دیا۔ کھانے کے پیسے اس نے بڑی مشکل سے لیے ، مجھے مکمل رہنمائی حاصل ہوگئی۔ پرون پور سے ریل میں بیٹھا اور بھٹنڈا پہنچ گیا، مہاوتی کا شہر آگیا تھا۔ نانبائی کا گھر تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچ گیا۔ عارضی ٹھکانہ درکار تھا جو ان پر اخلاق لوگوں کے پاس مل گیا، بس ایک خط لایا تھا مگر اتنی مہمان نوازی کی انہوں نے کہ شرمندہ ہوگیا۔ رات انہی کے ہاں گزاری، اور پھر رات کو حسب ہدایت درود شریف پڑھ کر کمبل اوڑھ لیا۔مہاوتی کا محل دیکھا۔ باغ کے مجسموں کو دیکھا۔ مہاوتی محل میں نہیں نظر آئی، کالی داس موجود تھا۔ محل پر خاموشی طاری تھی۔ اس جگہ پر غور کیا جہاں مہاوتی نے کالی نواس بنارکھا تھا۔ مگر اس کا پتہ نہیں چل سکا، البتہ ذہن نے کہا۔ ہر کام سہل نہیں ہوتا جستجو اور عمل قائم نہ رہے تو وجود ناکارہ ہوجاتا ہے، عمل لازم ہے جواب ملا تھا ،گرہ میں باندھ لیا اور اس کے بعد عمل کے بارے میں سوچنے لگا۔ آغاز محل ہی سے کرنا تھا۔ دوسرے دن حلیہ درست کیا اور میزبانوں سے اجازت لے کر چل پڑا۔ کچھ دیر کے بعد محل کے دروازے پر تھا۔ دربانوں نے کڑی نظروں سے دیکھا تو میں نے کہا۔ ’’دیوان کالی داس سے ملنا۔‘‘
’’کیا کام ہے؟‘‘
’’بہت ضروری کام ہے۔ تم انہیں خبر کردو۔‘‘
’’ہمیں ہدایت ہے کہ محل میں کسی نئے آدمی کو نہ آنے دیں۔ خبر کرنا بیکار ہے۔‘‘
’’مگر مجھے بہت ضروری کام ہے۔‘‘
’’شما کردو بھائی ہم وہ کرسکتے ہیں جو ہم سے کہا گیا ہے۔‘‘ دربانوں سے یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سندری نظر آگئی۔ سامنے سے گزر رہی تھی مجھے دیکھ کر رک گئی اور پھر جلدی سے میرے پاس آئی۔
’’آپ مہاراج آپ…؟‘‘
’’سندری یہ مجھے اندر آنے سے منع کر رہے ہیں۔‘‘
’’’ارے نا سکھی رام جی آنے دیں انہیں یہ تو مہاویدی کے خاص آدمی ہیں۔‘‘ سندری نے کہا۔
مسعود کے مصائب کی ابتدا اس وقت ہوئی جب وہ اتفاقاً کالے جادو کے ماہر بھوریا چرن سے جا ٹکرایا۔ بھوریا نے اسے اپنا آلۂ کار بنانا چاہا اور مسعود کے انکار پر اس کا دشمن بن گیا۔ اس نے مسعود کو یکے بعد دیگرے سخت پریشانیوں میں مبتلا کیا لیکن اس کے انکار کو اقرار میں نہ بدل سکا تاہم اس کی پاداش میں بھوریا نے اس کی زندگی اجیرن کردی ۔ انہی حالات میں چند برگزیدہ بندوں سے مسعود کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے نہ صرف اسے بھوریا کے شر سے نجات دلائی بلکہ اسے روحانیت کا فیض بھی بخشا۔ اس روحانیت کی مدد سے وہ خلق خدا کے کام بھی آسکتا تھا لہٰذا اس نے بہت سے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کی۔ اس دوران بھوریا مسلسل اس کی تاک میں تھا، بالآخر وہ دھوکے سے مسعود پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا۔ بزرگوں سے حاصل شدہ روحانی طاقتوں کا فیض زائل ہوچکا تھا لہٰذا وہ ایک بار پھر بھوریا کی خباثتوں کی زد میں تھا اور آزمائشوں کا ایک اور دور اس کا منتظر تھا۔ کئی جان لیوا آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بالآخر اسے ایک بار پھر وہی کراماتی کمبل واپس مل گیا جسے اوڑھتے ہی نگاہوں سے پوشیدہ مناظر اس پر ظاہر ہوجاتے تھے۔ اب وہ نہ صرف اپنی حفاظت کرسکتا تھا بلکہ دوسروں کے کام بھی آسکتا تھا۔ وہ ایک بستی میں پہنچا جہاں اس نے کئی افراد کی مدد کی۔ اس دوران ایک ٹھاکر بھی اپنی بپتا اسے سنانے آپہنچا۔ اس نے ایک غریب شخص کو اپنی بہن سے شادی کرنے کے جرم میں اس کے خاندان سمیت زندہ جلوادیا تھا اور اب خود اس کی اولادیں پراسرار حالات میں ایک ایک کرکے ہلاک ہورہی تھیں۔ اسی لئے وہ مسعود سے مدد کا طلبگار تھا۔ وہ چونکہ اپنی خطائوں پر نادم تھا اس لئے مسعود نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا اور رات کو اس کی حویلی کی جانب چل پڑا۔ راستے میں اس کی ملاقات ان افراد کی آتمائوں سے ہوئی جنھیں ٹھاکر نے زندہ جلوا دیا تھا اور جن کا کریا کرم بھی نہیں ہوپایا تھا۔ یہ بے چین روحیں ٹھاکر سے اپنا انتقام لینا چاہتی تھیں۔ مسعود نے فیصلہ کیا کہ ان آتمائوں کو دریا پار ان کے علاقے میں پہنچا کر چتا کے حوالے کردیا جائے کیونکہ انہیں اسی طرح شانتی مل سکتی تھی۔ وہ ٹھاکر کے اہل خانہ کے ہمراہ دریا پار جانے کیلئے کشتی کے ذریعے روانہ ہوا لیکن راستے میں انہی ارواح نے اپنی شرارتیں شروع کردیں۔ نزدیک تھا کہ ان کی کشتی ڈوب جاتی لیکن مسعود نے تدبیر سے کام لیتے ہوئے حالات کو سنبھال لیا اور منزل مقصود پر پہنچ کر سب آتمائوں کو چتا کے حوالے کردیا۔ اس طرح بالآخر ٹھاکر کی گلو خلاصی ہوگئی۔ مسعود نے ٹھاکر سے رخصت لی اور آگے روانہ ہوگیا۔ راستے میں آرام کی خاطر لیٹ کر کمبل اوڑھا تو اسے رانی مہاوتی اور بھوریا کے درمیان جھڑپ کا منظر دکھائی دیا۔ یہ دونوں کالی طاقتوں کے پجاری تھے جنھوں نے اپنی خباثتوں سے بے شمار لوگوں کی زندگیاں اجیرن کررکھی تھیں۔ مسعود ایک بار رانی مہاوتی کے محل میں رہ کر وہاں کے حالات دیکھ چکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ رانی کے محل جاکر لوگوں کو اس کے مظالم سے نجات دلائے۔ بالآخر وہ محل تک جا پہنچا جہاں اس کی ملاقات رانی کی باندی سندری سے ہوئی۔ سندری اسے پہچان کر اندر لے گئی۔
(اب آپ آگے پڑھیے)
’’آئیے مہاراج آئیے! ‘‘
میں سندری کے ساتھ محل میں داخل ہو گیا، کچھ دور چلنے کے بعد اچانک اس نے راستہ بدل دیا۔‘‘ ادھر سے آجائیے مہاراج۔ سیدھے جانا ٹھیک نہیں ہے۔ آئیے ادھر سے آجائیے میں ٹھٹکا پھر بڑھ گیا۔ ’’یہ باندیوں کا علاقہ ہے۔ میں یہیں رہتی ہوں۔ جلدی آجائیے کوئی دیکھ نہ لے۔‘‘
’’مگر سندری…!‘‘ میں نے تعجب سے کہا۔
’’اندر چل کر باتیں کریں گے جی۔ وہ سامنے ہی تو میرا ٹھکانہ ہے۔ چھوٹا سا گھر تھا۔ تین کمرے بنے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے ایک کمرے میں بٹھادیا۔ اب جی بھر کر باتیں کریں۔‘‘ وہ گہری سانس لے کر بولی۔
’’تم یہاں رہتی ہو؟‘‘
’’زیادہ تو محل میں رہتی ہوں۔ جب چھٹی ہوتی ہے تو یہاں آجاتی ہوں۔ مہادیوی تو ان دنوں یہاں نہیں ہیں۔‘‘
’’کہاں ہیں؟‘‘
’’ پتہ نہیں شاید کالی نواس میں ہوں۔‘‘
’’کالی نواس کہاں ہے سندری؟‘‘
’’سوگند لے لیں مجھے نہیں معلوم۔ بس اس دن اس کے غار کا دروازہ دیکھا تھا۔ اس سے پہلے یا اس کے بعد کبھی نہیں دیکھا۔ وہ دن یاد کرتی ہوں مہاراج تو جان نکل جاتی ہے میری، اگر تم نہ ہوتے تو میرا کیا ہوتا۔
’’سندری مجھے کچھ بتائو گی تم؟‘‘
’’پتہ ہوگا تو ضرور بتائوں گی۔‘‘
’’ وہ سب کیا تھا سندری۔ مہاوتی آخر ہے کیا؟‘‘
’’تم نے پہلے بھی مجھ سے پوچھا تھا۔ ہم باندیاں ہیں مہاراج اسی محل میں پیدا ہوئے، اسی میں جوان ہوئے اور اسی میں مرجائیں گے، پر ہمیں کچھ نہیں معلوم ہوگا۔ جو کہا جاتا ہے کرتے ہیں، تم نے ہم پر دیا کی تھی اس دن، ورنہ نہ جانے کیا ہوتا، ہمیں نہ تو پہلے پتہ تھا نہ اب پتہ ہے۔ مہاوتی جی نے جیسا کہا ویسا کیا۔‘‘ سندری بولی اور پھر اس نے جلدی سے زبان دانتوں میں دبالی اور خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی، میں اس کے اس انداز پر چونک پڑا۔ اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔ میرے اس طرح دیکھنے سے وہ اور گھبراگئی۔ بولی، ’’ہم نے کوئی ایسی ویسی بات کہہ دی مہاراج۔‘‘
’’ ہاں سندری میرا خیال ہے تو سچ بول گئی ہے۔ میں زہریلے لہجے میں بولا۔
’’کونسا سا؟‘‘ وہ رو دینے والے لہجے میں بولی۔
’’اس نے سچ ہی کہا ہے مہاراج۔ دوسرا سچ میں آپ کے سامنے کہوں گا۔‘‘ دروازے سے آواز سنائی دی اور میں نے اس طرف دیکھا، دیوان کالی داس کھڑا ہوا تھا۔ اس نے سندری کو اشارہ کیا اور وہ احترام سے واپس نکل گئی۔ کالی داس اندر آگیا تھا۔ اس نے سچ کہا ہے مہاراج، جیسا دیوی نے کہا اس نے ویسا ہی کیا۔ پہلے ہم نے کچھ اور سوچا تھا مگر شمبھو مہاراج نے ایک دم خیال بدل دیا۔ آپ مسعود جی مہاراج ہیں نا۔‘‘
’’تم لوگ مجھے بھول گئے کالی داس؟‘‘
’’بھلا بھول سکتے ہیں۔ آپ بھوریا چند کو بھی جانتے ہیں، شوشنکھاکو۔ سب کچھ جانتے ہیں آپ۔ اس نے کہا تھا آپ آرہے ہیں۔ مہا دیوی نے پہرے لگادیئے، پھر انہوں نے سوچا کہ سندری کے ہاتھوں آپ کو بیہوش کرادیں اور قید کرلیں، مگر ابھی ابھی مہادیوی نے کچھ اور سندیس بھیجا ہے میرے پاس۔‘‘ کالی داس نے کہا۔ میں دلچسپ نظروں سے کالی داس کو دیکھتا رہا، مجھے علم تھا کہ بھوریا چرن اور مہاوتی کے درمیان کیا باتیں ہوئی ہیں۔’’سندیس آپ کے لئے بھی ہے مہاراج۔‘‘ وہ پھر بولا۔
’’بتائو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اٹھیں… میرے ساتھ چلیں یہ پہرے آپ کی وجہ سے لگائے گئے تھے مگر نیا سندیس کچھ اور ہے۔‘‘
’’مہاوتی بہت پریشان معلوم ہوتی ہے شاید۔ چلو اب کہاں چلنا ہے اور وہ خود کہاں چھپی ہے۔‘‘
’’مہا دیوی آپ سے بھینٹ کریں گی۔ اوش کریں گی اور جہاں تک ان کی پریشانی کا تعلق ہے تو آپ کا یہ خیال غلط ہے، وہ پریشان کیوں ہوں گی۔ آپ کو ان کی شکتی کا اندازہ نہیں ہے، جیون بتادیا ہے انہوں نے گیان دھیان میں۔‘‘
میں اس کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آیا۔ وہ مجھے پرانی حویلی کی طرف ہی لے جا رہا تھا اور میں جانتا تھا کہ وہاں اس نے اپنی جادونگری بنارکھی ہے لیکن مجھے کوئی خوف نہیں تھا۔ کالی داس کے ساتھ میں پرانی حویلی میں داخل ہوگیا۔ میں نے پرانی حویلی پوری کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس بار کالی داس مجھے اس کے بالکل عقبی حصے میں لے گیا۔ میں نے اس جگہ کو جادو نگری غلط نہیں کہا تھا۔ ایک ویران اور سنسان برآمدہ تھا جس میں ایک بند دروازہ نظر آرہا تھا، کالی داس نے وہ بند دروازہ کھولا اور مجھے اندرچلنے کا اشارہ کیا۔ اندر داخل ہوگیا لیکن اندر قدم رکھتے ہی دل و دماغ معطر ہوگئے۔ یہ سچ مچ جادو نگری تھی۔ سبز رنگ کی مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی اور ایک وسیع و عریض باغ نظر آرہا تھا، لیکن سو فیصد مصنوعی باغ تھا۔ انتہائی اونچے درخت جن کی شاخیں اور پتے اوپر جاکر ایک دوسرے میں اس طرح گتھے ہوئے تھے کہ آسمان کا نام و نشان نہیں نظر آتا تھا، گو یا ایک چھت بنی ہوئی تھی اور سب کچھ اس چھت کے نیچے تھا۔ انگوروں کی بیلیں ان میں جھولتے سیاہ اور سبز انگوروں کے خوشے۔ خوش رنگ پھول، چہچہاتی چڑیاں اور دوسرے ننھے پرندے، جگہ جگہ فوارے، بعض جگہوں پر فواروں کے گرد بنی ہوئی بینچوں پر حسین لڑکیاں بیٹھی ہوئی۔ سب میری طرف نگراں، آنکھوں میں شوخی اور لگاوٹ لئے ہوئے، کالی داس میری رہنمائی کرتا ہوا اس باغ میں بنی ایک عمارت کے دروازے پر پہنچ گیا۔ پھر وہ دروازہ کھول کر پیچھے ہٹ گیا اور مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا۔’’مہاوتی آپ کا انتظار کر رہی ہیں مہاراج۔‘‘
دروازے سے اندر قدم رکھا۔ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ یہ کوئی بارہ سیڑھیاں تھیں اور ایک گول سا کمرہ، جس کا فرش سنگ مرمر کا تھا۔ دیواریں بھی سفید پتھر ہی سے بنی ہوئی تھیں۔ درمیان میں ایک سنگھاسن تھا جس پر مہاوتی نیم دراز تھی۔ شمبھو ناتھ اس کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ ان دونوں کے علاوہ یہاں کوئی نہ تھا۔ میں سیڑھیوں سے نیچے اترا اور مہاوتی نے مجھے دیکھ کر پائوں سکوڑلیے۔ شمبھو ناتھ تھوڑا سا پیچھے ہٹ گیا اور مہاوتی اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں استقبالیہ تاثرات تھے اور ہونٹوں پر مدھم سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ غالباً وہ میری آمد پر خوشی کا اظہار کرنا چاہتی تھی اور یہ یقینا مفاہمت کی ایک کوشش تھی، میں تھوڑا سا اور قریب پہنچا تو اس نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر دلآویز انداز میں گردن جھکائی اور پھر سیدھی ہوکر بولی۔ ’’مہاوتی، مہاراج کا سواگت کرتی ہے۔ آئیے سنگھاسن پر پدھاریے مہاراج، ایک شکتی مان، دوسرے شکتی مان کو جو احترام دے سکتا ہے وہ اس وقت میرے من میں آپ کیلئے ہے۔ پدھاریے مہاراج، مجھے خوشی ہوگی۔‘‘ میں نے آنکھیں بند کرکے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں مہاوتی، کالے جادو کی یہ تخلیق میرے دین میں حرام ہوتی ہے اور ایسی کسی چیز کو بغیر کسی مجبوری کے چھونا میرے لیے مناسب نہیں ہے، میں ان ناپاک چیزوں کو اپنی کسی آسائش کے لیے استعمال نہیں کرسکتا۔‘‘ مہاوتی کی مسکراہٹ سکڑگئی، لیکن فوراً ہی اس نے ان الفاظ کے ردعمل کو زائل کرتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر بتائیے مسعود جی مہاراج، میں آپ کا سواگت کیسے کروں؟‘‘
’’میں یہاں کھڑا ہوا ہوں مہاوتی، بس اتنا ہی کافی ہے۔‘‘
’’تو پھر یہ تو نہیں ہوسکتا کہ یہ سنگھاسن میرے لیے ہے، اسے بیچ سے ہٹا دینا ہی اچھا ہوگا۔‘‘ اس نے مڑکر انتہائی خوبصورت سنگھاسن کو دیکھا اور دوسرے لمحے وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ مہاوتی پھر میری جانب متوجہ ہوگئی۔ اس نے کہا۔ ’’مسعود جی مہاراج، بہت سی باتیں بڑے سے بڑے گیانی کی سمجھ میں نہیں آتیں، آپ ایک ایسے آدمی کی حیثیت سے میرے سامنے تھے، جس کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی، لیکن آپ کا گیان چیخ چیخ کر مجھے بتارہا تھا کہ آپ عام آدمی نہیں ہیں۔ اب اگر میں آپ سے کوئی بات چھپائوں تو اسے میں اپنی بیوقوفی کے علاوہ اور کیا کہہ سکتی ہوں۔ مسعود جی، مہاراج کو ایک نظر دیکھتے ہی میں نے پہچان لیا تھا کہ وہ پورنا ہیں اور پورنیاں ان کے بس میں ہیں، پورن بھگت ہمارے گیان میں بہت بڑا درجہ رکھتا ہے۔ مہاراج، پر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ ایک مسلمان کے نام سے ایک کاروباری شخص کا نوکر میرے پاس کیوں آیا ہے۔ ساری باتوں کا اعتراف کر رہی ہوں مہاراج۔ یہ جاننا چاہتی تھی کہ آپ کی اصلیت کیا ہے اور اسی لیے میں نے آپ کو روک لیا تھا، پر نہ تو میں سمجھ سکی نہ میرا بیر کالی داس اور نہ ہی مہاراج شمبھو ناتھ کہ آپ کی اصل کیا ہے اور بات بعد میں سمجھ میں آئی، مہاراج کہ اصل میں آپ ہندو نہیں تھے بلکہ آپ کا گیان وہ تھا جو ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا، مگر پھر پورنیا میرا من للچاگیا، کیونکہ میں نے یہ دیکھا تھا کہ پورنیا ہونے کے باوجود آپ نہ تو پورنیوں کو اپنی آغوش میں جگہ دیتے ہیں اور نہ ہی پورن بیروں کو کوئی کام سونپتے ہیں، ہم سب بڑے پریشان رہے آپ کے لیے مہاراج۔ انہونی بات تھی جو کسی طرح سمجھ میں ہی نہیں آتی تھی۔ بھید جاننے کے لیے ہم سارے کے سارے بے چین ہوگئے، مگر کوئی پتہ نہیں چل سکا اور جب ہمارا یہ کام ایسے نہیں ہوا تو شمبھو ناتھ مہاراج نے دوسرے کھیل کھیلنا چاہے۔ اس سے آپ کو تکلیف پہنچی مسعود جی، پر انسان ہوس کا پتلا ہوتا ہے۔ پورنیاں معمولی چیز نہیں ہوتیں اور جسے یہ مل جائیں وہ بڑا شکتی مان بن جاتا ہے، آدھا جیون بھنگ کرنے کے بعد بھی پورنیوں کا حصول ممکن نہیں ہوتا، مہاراج یہ بات میں آپ سے اس لیے کہہ رہی ہوں کہ میں آپ کی بڑی قدر کرتی ہوں، بہت بڑا درجہ ہے آپ کے لیے میرے من میں اور اگر آپ اسے یہ سمجھیں کہ اپنے کئے پر پچھتا رہی ہوں میں کہ وہ نہ کرتی جو میں نے کیا، بلکہ دوسری طرح آپ سے اپنی منوکامنا پوری کراتی، مہاراج آپ نے اپنی خوشی سے وہ گندی پورنیاں جو آپ کے دھرم میں گندی سمجھی جاتی ہیں، میرے حوالے کردیں اور ان کا طریقہ وہی تھا جو میں نے اختیار کیا اور کوئی ایسا کام نہیں ہوسکتا تھا، جس سے پورنیاں مجھے مل جائیں، پرنت مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ خود ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے اور انہیں زبردستی آپ پر سوار کردیا گیا تھا اور جب پورنیوں سے آپ کو چھٹکارا ملا، مہاراج تو آپ نے اپنے گیان کا پاٹ شروع کردیا اور آپ کو وہ ساری چیزیں مل گئیں جو ایک بڑے گیانی کو ملتی ہیں۔ ایک طرح سے تو مہاراج میں نے آپ کے ساتھ دوستی ہی کی اور اگر ایسی بات ہے تو میں چاہتی ہوں کہ اتنا بڑا گیانی، مہاوتی کو دوست کی نگاہ سے دیکھے۔ کیا مہاراج میرے من کی بات سمجھ کر میری دوستی قبول کرلیں گے؟‘‘ میں نے مسکراتی نگاہوں سے مہاوتی کو دیکھا اور پھر آہستہ سے بولا۔
’’مہاوتی، جہاں تک تیری دوستی کا تعلق ہے ظاہر ہے کہ اول تو ہم دونوں کے دین الگ ہیں اور پھر تو، تو اپنے ہی دھرم کی نہیں ہے، ہندو دھرم میں بھی کالے جادو کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ تمہارے دیوی دیوتائوں کا بھی یہ درس نہیں ہے کہ کالی قوتوں کو انسانوں کے خلاف استعمال کرو، میرا تو مسئلہ ہی بالکل مختلف ہے۔ بہر حال میں تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا، مگر ایک کام تجھے کرنا ہوگا اور اگر تو یہ کام کردے تو مجھے تجھ سے کوئی دشمنی نہ رہے گی۔‘‘
’’ہاں ہاں مہاراج کہو، ٹھیک ہے تم مجھے اپنا دوست نہیں بناسکتے، داسی تو بناسکتے ہو، حکم تو دے سکتے ہو مجھے۔‘‘
’’اپنے جادو کو خاک کردے مہاوتی، کیونکہ تیرا یہ جادو انسان دشمنی ہے اور مجھ پر لازم ہے کہ میں انسانوں کو تیرے جادو کے چنگل سے نجات دلائوں جو زندگی کی مصیبتوں کا شکار ہیں اور جنہیں تو نے عذاب میں گرفتار کرلیا ہے، جیسے پتھر کے وہ مجسمے جو جیتے جاگتے نوجوان تھے اور تیری ہوس کی بھینٹ چڑھ گئے، جیسے تیرا شوہر راجہ چندر بھان، سب کو ان کا مقام دے دے اور خود جاکر ایسے ویرانوں میں اپنا مسکن بنالے جہاں انسان نہ ہو، کالی قوت کے کالے شیطانوں کو ویرانوں ہی میں رہنا چاہئے تاکہ انسان ان کے عذاب سے محفوظ رہیں، اگر تو ایسا کرلے گی مہاوتی، تو میں یہاں سے چلا جائوں گا اور میری تیری کوئی ایسی دشمنی نہیں رہے گی جس سے میرے ہاتھوں تجھے کوئی نقصان پہنچے۔‘‘ مہاوتی کے چہرے پر رنگ آرہے تھے جارہے تھے، اب اس کی مسکراہٹ کافور ہوگئی تھی اور اس کی آنکھوں میں غصے کے تاثرات نظر آرہے تھے۔اس نے کہا۔ ’’کیا یہ دشمنی نہیں ہے مسعود جی مہاراج؟‘‘
’’کالے جادو سے دشمنی ہے، تیری ذات سے نہیں مہاوتی، مجھے تجھ سے کیا لینا دینا۔‘‘
’’میں چنڈولی ہوں، کالی ماتا کی پجارن اور کالی ماتا نے میرے جیون بھر کی تپسیا میں مجھے یہ شکتی دان دی ہے اور تم کہتے ہو مسعود جی مہاراج کہ میں اس شکتی کو بھسم کردوں، ارے اگر یہ شکتی بھسم ہوجائے گی تو میں کہاں رہوں گی، میں تو بس ایک شکتی ہوں، اس سے آگے کچھ نہیں۔‘‘
’’میرے لیے تیری کالی قوتوں کا خاتمہ ضروری ہے مہاوتی۔‘‘
’’ارے واہ، خواہ مخواہ داروغہ بنے پھر رہے ہو، تم اپنے دھرم کی شکتی آزمائو، میں کبھی تمہارے راستے میں نہیں آئوں گی، مجھے میرے دھرم کی شکتی پر رہنے دو۔‘‘
’’تیرا دھرم کیا ہے مہاوتی؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’جے مہاکالی کلکتہ والی…‘‘
’’جادوگرنی، انسان کو نقصان پہنچانے والی۔‘‘
’’سارے کے سارے تمہارے دھرم کے تو نہیں ہیں۔ تمہیں شہر کا اندیشہ کیوں ہے، مسعود جی مہاراج؟‘‘
’’میرا دین یہی کہتا ہے کہ اپنی طاقت کو بدی کی طاقت کے خلاف استعمال کرنا ضروری ہے اور اگر انسانوں کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے اور تمہیں اللہ نے وہ قوت دی ہے کہ تم نقصان پہنچانے والے کو روک سکو تو تم پر فرض عائد ہوجاتا ہے کہ تم نقصان پہنچانے والے کو نقصان پہنچائو۔‘‘
’’دیکھو مسعود جی مہاراج، بھوریا چرن کو جانتے ہوگے اور کیوں نہ جانتے ہوگے اس نے مجھے تمہارے بارے میں سب کچھ بتادیا ہے، وہ شنکھا ہے، تم اس کی شکتی کا سامنا کیوں نہیں کرتے، ایک چنڈولی کے پیچھے کیوں پڑتے ہو۔ پھر بھی اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارا دھرم، تمہارا گیان سب سے بڑا ہے تو یہ تمہاری بھول ہے۔ میں تم سے ٹکر نہیں لینا چاہتی لیکن جو کچھ تم نے کہا ہے وہ سیدھا سادہ دشمنی کی علامت ہے اور جب دشمنی ہے تو میرے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ میں اپنی دشمنی کا اظہار کروں، دوست نہیں مانتے تو پھر تو دشمنی ہی ہوگی۔‘‘
’’ہاں مہاوتی تو نے ٹھیک کہا۔ میں نے تجھے دوستی کی ایک پیشکش کی کہ اپنی ساری قوتوں کو اپنے ہاتھوں سے فنا کردے، انسان ہو تو انسان کے روپ میں آجا، ایسا نہ کرے گی تو تجھے مٹانا میرا فرض ہے۔‘‘
’’چھوڑو چھوڑو میاں جی، ہم نے بھی جیون بھر چنے نہیں بھونے ہیں، ٹھیک ہے اگر ایسی بات ہے تو تم اپنی شکتی آزماؤ اور ہم اپنی۔‘‘ مہاوتی نے دونوں ہاتھ دونوں سمت پھیلا دیئے اور اچانک ہی ایک حیرن کن واقعہ رونما ہوگیا۔ سنگ مرمر کی سفید دیواروں میں سیکڑوں سوراخ نموار ہوگئے اور ان سوراخوں سے پانی کی تیز دھاریں نیچے گرنے لگیں۔ دروازے کی سیڑھیاں ایک دم غائب ہوگئی تھیں اور اب یہ جگہ سنگ مرمر کے ایک کنویں کی حیثیت رکھتی تھی، جو تقریباً بارہ فٹ گہرا تھا اور پانی ان دیواروں سے اس طرح نکل رہا تھا جیسے کسی دریا کا رخ ان کی جانب موڑ دیا گیا ہو، دیکھتے ہی دیکھتے اس حوض میں پانی بھرنے لگا، میں نے کالے جادو کی قوت کا یہ حیران کن کرشمہ دیکھا۔ ویسے تو زندگی میں نجانے کن کن واقعات کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن یہ سب کچھ اس قدر اچانک ہوا تھا کہ ایک لمحے کے لیے بدن میں جھرجھری سی آگئی۔ پانی ٹخنوں سے گزر کر گھٹنوں، گھٹنوں سے گزر کر رانوں اور پھر کمر تک پہنچ گیا اور دفعتاً ہی میں نے مہاوتی کو ایک مچھلی کی صورت اختیار کرتے ہوئے دیکھا کہ چہرہ تو اس کا اپنا ہی رہا تھا لیکن گردن کے بعد سے اس کا بدن مچھلی کی شکل اختیار کرگیا اور وہ اس پانی میں تیرنے لگی، برق رفتاری سے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر میرے ارد گرد چکرا رہی تھی، حالانکہ پانی کی طاقتور دھاریں میرے جسم پر پڑ رہی تھیں اور ان کی قوت اتنی تھی کہ میرا بدن بمشکل تمام اپنا توازن قائم کئے ہوئے تھا لیکن چونکہ یہ دھاریں چاروں طرف سے پڑ رہی تھیں، اس لئے میں کسی ایک سمت نہیں لڑھکا تھا، دوسرے شمبھوناتھ نے بھی اپنا روپ بدلا اور سبز رنگ کے ایک چپٹے سے سانپ کی شکل اختیار کرگیا، ایسے سانپ عموماً پانی میں نظر آتے ہیں، ناگوں کا یہ پجاری ناگ بن گیا تھا اور ان دونوں نے اس پانی میں اپنے لیے مقام حاصل کرلیا تھا، لیکن میں ظاہر ہے انسان تھا اور انسانی شکل میں ہی رہ سکتا تھا۔ البتہ ایک تصور دماغ میں ضرور تھا، میرا رب میرا معبود میری مدد ضرور کرے گا۔ میں کالے جادو کا توڑ نہیں جانتا تھا لیکن میرے معبود نے مشکل ترین لمحات میں میری مدد کی تھی اور اس وقت بھی میں اس کی رحمت سے مایوس نہیں تھا، چنانچہ پوری خود اعتمادی سے اپنی جگہ جما رہا۔ کمبل میں نے شانے سے اتار کر سر پر رکھ لیا تھا تاکہ وہ پانی میں بھیگ نہ جائے۔ مہاوتی کے چہرے پر کامیابی کی مسکراہٹ تھی اور بوڑھا شمبھو سانپ کی شکل میں خود کو محفوظ رکھے ہوئے تھا۔ پانی گرنے کی آوازیں سماعت شکن تھیں اور ماحول دھواں دھار ہوتا جا رہا تھا۔ اب وہ میری کمر سے گزر کر شانوں تک اور پھر وہاں سے گردن تک آچکا تھا اور بس کچھ لمحات باقی تھی کہ وہ سر سے اونچا ہوجائے۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور پانی کی سطح کو بلند ہوتا محسوس کرتا رہا۔
پانی کے تھپیڑے میرے قدم اکھاڑے دے رہے تھے لیکن دل کو کسی خوف کا احساس نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اب مجھے یہ قوت عطا فرما دی تھی کہ ہر خوف میرے دل سے نکل گیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ کائنات میں آنکھ کھولنے والے ہر نومولود کے بارے میں ہم کچھ اور کہہ سکتے ہوں یا نہ کہہ سکتے ہوں، یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ بالآخر یہ ایک دن مر جائے گا۔ موت برحق ہے اور اس کا تعین کرنے والا حق ہے اور حق سے انحراف کیسا…! آنکھیں اس لئے بند کرلی تھیں کہ ذہن کسی تدبیر کے جھگڑے میں نہ پڑ جائے اور قدرت سے انحراف نہ ہو۔
اچانک شور تھم گیا اور سناٹے چیخنے لگے۔ آنکھیں پٹ سے کھل گئیں۔ سامنے مہاوتی تھی جو بے چینی سے اچانک رک جانے والے پانی کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا مچھلی کا بدن پانی میں جنبش کررہا تھا۔ دفعتاً فرش میں ایک بڑا سوراخ نمودار ہوگیا اور پانی دہشتناک آواز کے ساتھ اس سوراخ میںداخل ہونے لگا۔ مہاوتی نے ایک بھیانک چیخ ماری اور کم ہوتے ہوئے پانی میں ایک سوراخ کی طرف لپکی۔ ایک دم اس کا بدن لمبی چمکدار لکیر کی شکل اختیار کرگیا اور یہ لکیر تڑپ کر ایک سوراخ میں داخل ہوگئی لیکن شمبھو ناتھ جو سانپ کی شکل میں تھا اور پانی میں مزے سے تیرتا پھر رہا تھا، اس جیسی پھرتی نہ دکھا سکا حالانکہ اس کا پتلا بدن زیادہ آسانی سے ان لاتعداد سوراخوں میں سے کسی ایک سوراخ میں داخل ہوسکتا تھا۔ شاید وہ صورتحال نہیں سمجھ سکا تھا۔ پانی اس برق رفتاری سے سوراخ میں غائب ہوا کہ چند لمحوں میں زمین صاف ہوگئی۔ سوراخ چونکہ بلندی پر تھے اس لئے شمبھو ان تک نہ پہنچ سکا۔ وہ بدحواسی کے عالم میں باربار چکنی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتا رہا مگر ہر بار پھسل کر نیچے گر جاتا۔ پھر آخری کوشش کے طور پر وہ میری طرف لپکا لیکن مجھ تک نہ پہنچ سکا۔ تب میں نے آگے قدم بڑھائے اور جھک کر اسے پھن سے پکڑ لیا۔ شمبھو میری کلائی سے لپٹ گیا تھا۔ میں نے پہلی بار قریب سے اسے دیکھا۔ اس کا چہرہ سانپ کے بدن کی مناسبت سے چھوٹا ضرور ہوگیا تھا لیکن اصل تھا۔ وہ بری طرح خوف زدہ نظر آرہا تھا۔ پھر اس کی باریک سی آواز ابھری۔ ’’جے ہو تیری مہاتما! مجھے چھوڑ دے۔ چھوڑ دے میاں! چھوڑ دے مجھے، میرا کوئی دوش نہیں ہے۔ میں تو سنتھا ہاری ہوں۔ مجھے چھوڑ دے ولی! مجھے چھوڑ دے۔‘‘
’’ایک ہی مقصد ہے میرا شمبھو ناتھ! مہاوتی کا جادو ختم کردوں۔ اس نے جتنے لوگوں کو اپنے سحر میں گرفتار کیا ہے، انہیں آزادی دلا دوں۔ نہ میری تجھ سے کوئی دشمنی ہے نہ کسی اور سے!‘‘
’’وہ تو چنڈال ہے، کالی دیوی کی سنتھیا! مشکل سے ختم ہوگی۔ پر میں آتما ہوں، مجھے چھوڑ دے !‘‘
’’کہاں بھاگ گئی وہ…؟‘‘
’’میں نہیں جانتا، مجھے نہیں معلوم! ہوسکتا ہے کالی کنڈ چلی گئی ہو۔ اس کا کالا جادو تجھ پر اثر نہیں کرسکا۔ ڈر کر بھاگی ہے تجھ سے! اس کے تو ہزار ٹھکانے ہیں دھرتی پر، تجھ سے نہ بچ سکی تو پاتال میں چلی جائے گی۔ مارے تو ہم گئے! چھوڑ دے ہمیں، چھوڑ دے۔‘‘ شمبھو باریک آواز میں چیختا رہا۔
’’مجھے کالی کنڈ کا راستہ بتا شمبھو! مجھے وہاں لے چل۔‘‘
’’وہ مجھے نہیں چھوڑے گی۔‘‘
’’ادھر میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
’’مر گئے دیوا سنتھ! ہم تو مر گئے۔ ہائے! اب ہم کیا کریں؟‘‘ میں نے اس دروازے کی طرف رخ کیا جس سے گزر کر یہاں آیا تھا۔ باہر کالی داس موجود نہیں تھا۔ ’’کالی داس کہاں گیا؟‘‘
’’وہ الگ کہاں ہے مہاوتی سے! وہ تو اس کا تھوک ہے، اس کا گند ہے۔ ساتھ ہی ہوگا اس کے!‘‘ شمبھو نے بتایا۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ اس خوبصورت ماحول کا شائبہ بھی نہیں تھا جس سے گزر کر
میں یہاں پہنچا تھا جبکہ یہ اسی ٹوٹی حویلی کی ایک اجاڑ راہداری تھی جو سخت گندی پڑی تھی۔ درختوں کے پتے، کوڑا کرکٹ اور اس پر دوڑتے ہوئے چوہے…! جو کچھ پہلے دیکھا، وہ فریب نظر تھا۔ یہ اس جگہ کی اصل تھی۔ راہداری کا دوسرا سرا حویلی کے باہر نکلتا تھا۔ میں باہر نکل آیا۔
’’ہاں شمبھو ناتھ…! کدھر چلنا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’سیدھے چلتے رہو مہاراج!‘‘ اس نے رو دینے والے لہجے میں کہا اور میں نے آگے قدم بڑھا دیئے۔ شمبھو میری گرفت میں تھا۔ اس نے گھٹی ہوئی باریک آواز میں کہا۔ ’’مہاراج! میری گردن چھوڑ دیں تو میں انسان کی جون میں آجائوں گا۔ وعدہ کرتاہوں کہ آپ کو کالی نواس میں لے جائوں گا۔‘‘
’’نہیں شمبھو ناتھ! سانپ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
’’میری گردن تو ڈھیلی کردیں، دم گھٹ کر ہی مر جائوں گا۔‘‘
’’میں جانتاہوں کہ تم ایسے نہیں مرتے۔ میں اس وقت تک تمہیں اسی طرح جکڑے رہوں گا جب تک کالی نواس میرے سامنے نہیں آجائے گا۔‘‘
’’سیدھے ہاتھ مڑ جائو۔‘‘ اس نے مردہ لہجے میں کہا اور میں نے رخ بدل دیا۔ بھٹنڈہ کے بارے میں مجھے معلومات نہیں تھیں لیکن جو کچھ ہورہا تھا، وہ غلط نہیں تھا۔ کچھ جانی پہچانی جگہیں نظر آنے لگیں اور میں انہیں پہچانتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ جگہ آگئی جہاں میں نے خود کو دیکھا تھا۔ سامنے ہی اس غار کا دہانہ نظر آرہا تھا جہاں میں پہلے بھی آچکا تھا۔ اندر داخل ہوا تو گھپ اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ شمبھو نے مردہ آواز میں کہا۔ ’’مہاراج! بچھو۔‘‘ میں ایک دم رک گیا۔ میری آنکھوں نے زمین پر انتہائی ننھی ننھی سرخ چنگاریاں متحرک دیکھیں۔ پھر آنکھیں تاریکی کی عادی ہوئیں تو میں نے دو انچ کے بچھو دیکھے جو اپنا کالا ڈنک اٹھائے میری طرف لپک رہے تھے۔ ننھی سرخ چنگاریوں جیسی ان کی آنکھیں تھیں۔ اتنے قریب آگئے تھے وہ کہ ان سے بچنا مشکل تھا۔ میں نے بادل ناخواستہ کندھے سے کمبل اتار کر ان کی طرف لہرایا۔ اس وقت میرے پاس اس کے سوا اور کوئی چارئہ کار نہیں تھا۔ مقصد یہ تھا کہ ہوا کے جھونکوں سے ڈر کر وہ دور ہٹ جائیں لیکن نتیجہ کچھ اور ہی نکلا۔ ہوا کے جھونکے انہیں چھونے لگے اور وہ ساکت ہوگئے۔ ان کے ڈنک نیچے جھک گئے جو ان کی موت کی علامت تھے۔
’’مر گئے۔‘‘ شمبھو کے منہ سے نکلا۔
’’یہ بچھو پہلے تو نہیں تھے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ہم سے کچھ نہ پوچھو مہاراج! یہ کالے بچھو ہیں۔ پتھر پر ڈنک ماریں تو پانی بن جائے ہے۔‘‘ شمبھو نے کہا۔ میں بچھوئوں کے درمیان سے گزر کر آگے بڑھا تو ایک اور دہانہ نظر آیا جس کے دوسری طرف روشنی تھی۔ یہ وہی دہانہ تھا جس میں، میں نے مہاوتی کو خونخوار بلی کے روپ میں دیکھا تھا۔ جونہی میں نے دہانے سے اندر قدم رکھا، اچانک تیز گڑگڑاہٹ کے ساتھ لاتعداد پتھر نیچے گرے۔ پتھر کیا چٹانیں تھیں جن میں سے کچھ براہ راست میرے جسم پر گری تھیں۔ بس یوں لگا جیسے روئی کے گولے ہوں لیکن یہ گولے نیچے گر کر ریزہ ریزہ ہوگئے اور مٹی کا بادل بلند ہوگیا۔ قدم رک گئے اور میں اس وقت تک ساکت کھڑا رہا جب تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگیا۔ اب مجھے اندازہ ہوگیا کہ مہاوتی اندر موجود ہے اور اپنا جادو آزما رہی ہے۔ میں نے ماحول صاف ہونے کے بعد اندر نگاہ ڈالی۔ آگ کی لکیریں کھنچ رہی تھیں۔ سائیں سائیں کی آوازوں کے ساتھ یہ لکیریں ادھر سے ادھر دوڑ ہی تھیں اور ان سے کچھ فاصلے پر کوئی کالی شے نظر آرہی تھی۔ پھر وہ واضح ہوگئی۔ مہاوتی تھی لیکن نہایت بھیانک شکل ہورہی تھی اس کی… کوئلے جیسی سیاہ آنکھیں، گہرے سرخ ہونٹ مڑے ہوئے تھے۔
’’آگیا تو پاپی مسلے…؟ ہار نہیں مانوں گی تجھ سے، ہار نہیں مانوں گی۔ پیس کر رکھ دوں گی۔ کچا چبا جائوں گی، کچا کھا جائوں گی تجھے!‘‘ اس کی زبان باہر نکل آئی۔ ایک فٹ دو فٹ اور پھر تین فٹ! آنکھیں بھیانک انداز میں پھیلنے لگیں، بدن پر بال جھولنے لگے۔ وہ بھیانک بلا کی شکل اختیار کرتی جارہی تھی۔ پھر اس نے اتنی ہولناک چنگھاڑ منہ سے نکالی کہ پورا غار لرز کر رہ گیا۔ اس چنگھاڑ کے ساتھ ہی وہ فضا میں بلند ہوئی اور دوڑتی ہوئی مجھ پر آئی۔ میں نے فوراً درود پاک پڑھنا شروع کردیا۔ وہ چمگادڑ کی طرح مجھ پر سے پرواز کرگئی۔ کچھ دور جاکر وہ پھر پلٹی۔ میں نے رخ بدل کر اس پر پھونک ماری اور یوں لگا جیسے اس کا پرواز کرتا ہوا بدن کسی ٹھوس دیوار سے ٹکرایا ہو۔ دھماکے کے ساتھ چیخ کی آواز سنائی دی اور وہ نیچے گر پڑی لیکن نیچے گر کر وہ لوٹتی ہوئی دور چلی گئی اور اس کا جسم پتھر ہوتا گیا۔ کچھ دور جاکر اس نے کالی ناگن کی شکل اختیار کرلی اور اس کے منہ سے شعلے نکلنے لگے۔ اس نے ایک خوفناک پھنکار ماری اور اچانک میری کلائی سے لپٹے شمبھو ناتھ کے بل کھلنے لگے۔ میرا ورد بدستور جاری تھا۔ شمبھو میری مٹھی میں جکڑا ہوا، اب نکلنے کی جدوجہد کررہا تھا اور مہاوتی مسلسل پھنکاریں مار رہی تھی۔ اچانک میں نے غار کے کونوں کھدروں سے بے شمار پھنکاریں سنیں۔ کالے رنگ کے لاتعداد سانپ بے چینی سے پھنکارتے ہوئے باہر نکلے تھے اور پھر وہ مجھ پر لپکے تھے۔ میں نے ان پر پھونک ماری اور جدھر رخ کرکے میں نے پھونک ماری تھی، وہاں سانپ ساکت ہوگئے۔ ان کے جسم لمبے لمبے ہوگئے تھے لیکن چونکہ سانپ چاروں طرف سے لہراتے ہوئے آرہے تھے اس لئے مجھے چاروں طرف کا خیال رکھنا تھا۔ میں نے شمبھو ناتھ کو دوسرے سانپوں پر اچھالا اور پھر بدستور درود شریف پڑھتے ہوئے کمبل دونوں ہاتھوں میں سنبھال کر لہرانے لگا۔ مہاوتی کی پھنکاریں بھیانک ہوگئیں۔ کمبل لہراتے ہوئے سانپ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ میں نے کچھ دیر یہ عمل جاری رکھا۔ پھر اس کا نتیجہ دیکھنے کیلئے رکا۔ نتیجہ خاطرخواہ تھا۔ تمام سانپ مردہ پڑے تھے۔ ان میں شمبھو ناتھ بھی تھا مگر ایک تبدیلی بھی ہوئی تھی۔ مہاوتی کا ناگن کا روپ بدل گیا تھا۔ اب اس کی جگہ ایک انتہائی بوڑھی چڑیل بیٹھی ہوئی تھی جس کے سر کے بال برف کی طرح سفید اور بکھرے ہوئے تھے۔ چہرے کی جھریاں اتنی تھیں کہ اصل خدوخال چھپ گئے تھے۔ سارے جسم کے کھلے ہوئے حصوں پر نسوں کا جال ابھرا نظر آرہا تھا۔ یقیناً وہ اس کا اصل روپ تھا۔ وہ اس عمر کی عورت تھی اور اس نے کالے جادو کے عمل سے یہ دلکشی اور جوانی حاصل کررکھی تھی۔ اس کا سر دائرے کی شکل میں گھوم رہا تھا، آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں۔ اچانک اس کے منہ سے گہرا گاڑھا سیاہ خون ابل پڑا لیکن اس کا سر بدستور اسی طرح دائرے کی شکل میں گھومتا رہا جس کی وجہ سے خون دور دور تک اچھلنے لگا۔ میں نے کمبل احترام سے سمیٹ لیا مگر درود پاک اسی طرح پڑھتا رہا۔ آہستہ آہستہ مہاوتی کے سر گھومنے کی رفتار تیز ہوگئی۔ اب اس کے منہ سے ایک مسلسل بھیانک آواز بھی بلند ہونے لگی تھی۔ پھر اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی اور اس کا بدن اذیت سے مڑنے تڑنے لگا۔ اس کے بعد وہ ساکت ہوگئی۔ میں آگے بڑھ کر اس کے قریب پہنچ گیا۔ یقیناً وہ مرچکی تھی۔ میں نے گہری سانس لی اور غار میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے لگا۔ مردہ سانپ ہوا میں تحلیل ہونے لگے تھے۔ نہ جانے کیا کیا الابلا موجود تھیں، وہ سمٹتی جارہی تھیں اور پھر وہاں خالی غار کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ مہاوتی اپنے جادو سمیت فنا ہوچکی ہے۔ دل مسرت سے سرشار ہوگیا۔ کسی راہ کا تعین کئے بغیر چل پڑا۔ دل میں آرزو تھی کہ مہاوتی کے محل جائوں۔ سمت درست ہی نکلی۔ تھوڑی دیر کے بعد آبادی نظر آگئی اور آبادی تلاش کرنے کے بعد محل تلاش کرنے میں بھی کوئی دقت نہیں ہوئی لیکن محل سے کچھ فاصلے پر ہی تھا کہ کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوگیا۔ اندر بھاگ دوڑ ہورہی تھی، پہریدار مستعد کھڑے ہوئے تھے۔ مجھے باہر ہی روک دیا گیا۔ ’’کہاں جانا ہے؟‘‘
’’اندر بھائی…!‘‘
’’نہیں جاسکتے۔‘‘
’’ضروری کام ہے۔‘‘
’’کہہ تو دیا نہیں جاسکتے۔ مہاراج چندر بھان نے منع کرا دیا ہے۔‘‘
’’کہاں ہیں مہاراج چندر بھان…؟‘‘
’’اندر ہیں اور کہاں ہیں۔‘‘
’’میرا مطلب ہے کہ وہ تو کہیں گئے ہوئے تھے؟‘‘
’’واپس آگئے ہیں۔‘‘
’’تم نے خود دیکھا ہے انہیں…؟‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا۔
’’نہیں تو کیا ہم اندھے ہیں؟‘‘
’’اچھا بھائی! سندری کو تو بلا سکتے ہو؟ میں اس سے دو باتیں کرکے چلا جائوں گا۔‘‘
’’عجیب ڈھیٹ آدمی ہو۔ اس سمے کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘ پہریدار نے آنکھیں بگاڑیں تو میں وہاں سے ہٹ آیا اور کوئی مقصد نہیں تھا۔ میں ان سنگی مجسموں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ محل سے کچھ فاصلے پر دھونی رمالی… اور وہاں سے جائزہ لیتا رہا۔ افراتفری نظر آرہی تھی۔ پھر کچھ لوگوں کو باہر نکلتے دیکھا۔ نوجوان تھے، تباہ حال تھے، بدحواسی سے باہر نکلے تھے۔ بڑی مشکل سے ان میں سے ایک کو روک سکا۔ ’’سنو بھائی…!‘‘ میں نے روکا اور وہ سہم کر رک گیا۔ ’’کچھ پوچھنا چاہتا ہوں تم سے!‘‘
’’کیا…؟‘‘ اس نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔
’’تم محل سے آرہے ہو؟‘‘
’’ایں…!‘‘ اس نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔ پھر بولا۔ ’’ہاں! وہیں سے آرہا ہوں۔‘‘
’’کیا مہاراجہ چندر بھان محل میں آگئے ہیں؟‘‘
’’اس مہان پرش نے ہی تو ہمیں نجات دلائی ہے۔‘‘ نوجوان بے اختیار بولا۔
’’تم پتھر کے بت بنے ہوئے تھے نا…؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ارے ساری باتیں جانتے ہو تو ہمیں کیوں پریشان کررہے ہو؟‘‘ اس نے کہا اور تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ اپنا فرض پورا کرنا چاہتا تھا۔ یہ میری ذمہ داری تھی جس کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس کے بعد بھی وہاں دو دن رکا۔ محل کے سامنے ہی بسیرا کیا اور معلومات حاصل کرتا رہا۔ پھر دوسرے دن سندری نظر آگئی۔ محل کے قریب پہنچ کر اسے آواز دی۔ وہ اپنا نام سن کر رک گئی۔ مجھے دیکھا اور فوراً پہچان لیا۔ بولی۔ ’’مہاراج! آپ…؟‘‘
’’سندری! تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’پوچھو…!‘‘
’’چندر بھان محل میں آگئے؟‘‘
’’ہاں! انہوں نے چڑیل مہاوتی کو مار دیا، اس کا جادو توڑ دیا، سارے پتھر کے بت انسان بن کر اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اب پرانا محل کھدوا کر پھنکوا دیا جائے گا۔ باغ اجاڑ کر دوسرا لگایا جائے گا۔‘‘
’’خدا کا شکر ہے۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’اور کوئی کام ہے ہم سے مہاراج…؟‘‘
’’نہیں سندری! تمہارا شکریہ!‘‘ میں نے کہا اور سندری آگے بڑھ گئی۔ تصدیق ہوگئی۔ کام ختم ہوگیا۔ اب چندر بھان سے ملنا ضروری نہیں تھا چنانچہ میں نے وہاں سے باہر جانے کی ٹھانی اور بھٹنڈہ سے باہر جانے والے راستے پر پیدل چل پڑا۔ مہاوتی کی جادو نگری میری آنکھوں میں بسی ہوئی تھی۔ جادو کی بھی ایک دنیا ہے۔ ساری چیزوں کا تعلق شیطان سے ہے۔ اس ملعون نے بھی اپنا ایک نظام قائم رکھا ہے۔ متعدد انساوں کو بھٹکا کر انسانیت کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس کیلئے اس نے اپنی ضروریات کو شیطانی قوتوں سے آراستہ کیا ہے لیکن ظاہر ہے کلام الہیٰ کی برکت اور اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے سامنے شیطنیت فنا ہوجاتی ہے اور بالآخر انسانیت کو اس سے نجات مل جاتی ہے۔ شیطانی قوتیں حاصل کرنے والے دنیاوی آسائشیں حاصل کرنے کیلئے غلاظت کی آخری حدود کو چھو لیتے ہیں لیکن یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ انسان تو فطرتاً بہت نفیس ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ طاقت حصول کی کوششیں اور طاقت کا نشہ اسے فطرت سے بہت دور لاپھینکتا ہے اور وہ اسی میں اپنے آپ کو مکمل سمجھ لیتا ہے۔ پتا نہیں ایسے لوگوں کی اندرونی کیفیات کیا ہوں۔ سوچوں کے دائرے پھیلتے گئے اور میں ماضی میں پہنچ گیا۔ درحقیقت صرف ایک احمقانہ سوچ، صرف ایک غلطی ساری زندگی کا غم بن جاتی ہے۔ میں اگر اپنے والد اور ماموں کی طرح عام انسانوں کی مانند اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتا تو آج زندگی سے اتنا دور نہ ہٹ گیا ہوتا۔ کیاکیا تکلیفیں نہیں اٹھائی تھیں، کیا کیا صدمے نہیں برداشت کئے تھے۔ صرف ایک میری غلطی نے کسے کسے زندہ درگور نہیں کردیا تھا۔ مقصد یہی تھا کہ فطرت کے بنائے ہوئے اصولوں سے ہٹ جائوں اور محنت کئے بغیر دولت حاصل کرلوں۔ یہی جذبہ تو تھا جو مجھے کالا جادو سیکھنے پر مجبور کررہا تھا اس وقت اور کم بخت بھوریا چرن مل گیا تھا۔ محنت کے بغیر جو کچھ بھی حاصل ہوجائے، وہ گندے علوم سے ہی ہوسکتا ہے۔ خیالات کے ہجوم نے احساس ہی نہ ہونے دیا کہ کتنا فاصلہ طے کرلیا ہے اور جب ہوش کی دنیا میں واپس آیا تو چاروں طرف تاریکی پھیل چکی تھی اور مجھے سفر کرتے ہوئے کتنے ہی گھنٹے گزر چکے تھے۔ تاحد نگاہ ویرانی، سناٹا، درخت، جھاڑیاں، پتھر، کچی زمین…!
میں آبادی سے بہت دور نکل آیا تھا لیکن اب اس کا کوئی افسوس بھی نہیں ہوتا تھا۔ ظاہر ہے ایک بے منزل کیلئے ہر جگہ جہاں پائوں تھک جائیں، منزل ہی ہوتی ہے۔ ایک صاف ستھری جگہ دیکھ کر بیٹھ گیا۔ اتنی دیر میں پہل دفعہ تھکن کا احساس ہوا تھا۔ کھانے پینے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ کمبل احترام سے سرہانے رکھا اور لیٹ گیا۔
نیند آگئی تھی اور سوتا رہا تھا۔ غالباً اس وقت رات کے چار ساڑھے چار بجے ہوں گے جب آنکھ کھل گئی۔ چونکہ جلدی سو گیا تھا اس لئے نیند پوری ہوگئی۔ وضو کیلئے پانی موجود نہیں تھا اس لئے تیمم کیا اور دوزانو ہوکر یادالہیٰ میں مصروف ہوگیا اور اس کے بعد سورج نکلنے تک اسی طرح مصروف رہا تھا۔ پھر آگے کے سفر کی ٹھانی اور دوبارہ چل پڑا۔ بہت دور نکلنے کے بعد جھاڑیوں میں خربوزے جیسی کوئی چیز نظر آئی۔ یہ خودرو جھاڑیاں تھیں۔ ان میں جو خوشنما پھل لگے ہوئے تھے، انہیں کھایا جاسکتا تھا۔ وہ کیا تھے، کیسے تھے، یہ اللہ جانے لیکن میری شکم سیری کیلئے بہت کافی ثابت ہوئے تھے۔ بس دو پھلوں نے پیاس بھی بجھا دی تھی اور پیٹ کی آگ بھی! سو اس سے زیادہ کچھ نہ لیا۔ جس نے اس ویران سفر میں ان جھاڑیوں میں میرے لئے پھل اگائے تھے، وہ آگے چل کر بھی کہیں سے مجھے رزق عطا کرسکتا تھا۔ چنانچہ اس کی فکر کرنا بے سود تھا۔اس کے بعد شام ڈھلے جب سورج کی نارنجی کرنیں زمین پر ایک عجیب سی اداسی بکھیر رہی تھیں، مجھے ایک ٹوٹا پھوٹا کھنڈر نظر آیا۔
آبادی اس کے اطراف میں بھی نہیں تھی بلکہ دور دور تک نہیں تھی لیکن یونہی قدم اس کھنڈر کی جانب اٹھ گئے۔ نجانے کون سی جگہ ہے۔ کبھی یہاں کچھ ہوگا، اب کچھ نہیں تھا۔ لال رنگ کی اینٹوں کے ڈھیر ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ بہت سی جگہیں صاف بھی تھیں۔ قریب پہنچ کر اندازہ ہوا کہ مسجد جیسی کوئی جگہ ہے اور یقینی طور پر انسانوں کے استعمال میں رہتی ہے۔ درخت اگے ہوئے تھے اور ایک وسیع و عریض چبوترے پر درختوں کے بے شمار سوکھے پتے اڑتے پھر رہے تھے اور ان سے سرسراہٹیں ابھر رہی تھیں۔ سامنے ہی منبر بنا ہوا تھا۔ اس سے یہ احساس ہوتا تھا کہ کوئی قدیم مسجد ہے۔ پھر دوسرے لوازمات بھی نظر آگئے۔ ایک جانب گہرا کنواں تھا۔ اس کے کنارے چرخی لگی ہوئی تھی اور چرخی پر رسی لٹکی ہوئی نظر آرہی تھی۔ قریب ہی چمڑے کا ایک ڈول رکھا ہوا تھا۔ دیکھ کر تقویت ہوئی یقیناً آس پاس کوئی بستی موجود ہے۔ رات کی تاریکی میں جب روشنیاں ہوں گی تو بستی نظر آجائے گی لیکن مجھے کسی بستی سے بھی کوئی غرض نہیں تھی۔ دل میں کچھ خیالات جاگے۔ کنویں کے نزدیک پہنچا اور جھک کر کنویں میں جھانکنے لگا۔ اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا لیکن رسی کا ڈھیر بتاتا تھا کہ کنواں کافی گہرا ہے۔ بہرطور ڈول پانی میں ڈالا اور اس کے بعد تھوڑا سا پانی نکال لیا۔ سامنے ہی ایک ایسی جگی بنی ہوئی تھی جہاں نمازیوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مٹی کے لوٹے قطار سے رکھے ہوئے تھے۔ بس جی میں سما گئی۔ بہت سا پانی نکالا اور اس جگہ کو بھر دیا۔ لوٹے دھو کر قرینے سے رکھے اور اس کے بعد صحن کی مسجد کی جانب متوجہ ہوگیا۔ جھاڑو موجود نہیں تھی۔ بڑے بڑے تنکے سمیٹے اور انہیں اپنی قمیض کے دامن سے ایک دھجی پھاڑ کر باندھا پھر صحن مسجد سے سوکھے ہوئے پتے صاف کرنے میں مصروف ہوگیا اور اس کام میں سورج بالکل چھپ گیا۔ مسجد کا فرش صاف ہوچکا تھا۔ پتے سمیٹ کر ایک جگہ جمع کردیئے تھے۔ کچھ ایسا سکون ملا اس کام میں کہ ذہن بھی بٹ گیا اور دل بھی مسرور رہا۔
پھر اچانک ہی مسجد کی چھت کی بلندیوں پر سے اللہ اکبر کی صدا ابھری اور پہلی ہی آواز پر میرا منہ حیرت سے کھل گیا۔ میں نے کسی کو مسجد کی جانب آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ یہاں ویسے بھی کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ اگر موذن مسجد ہی کے کسی حصے میں رہتا ہوگا تو کم ازکم مجھے اس کی آہٹیں تو سنائی دینی چاہئے تھیں۔
اذان کہی گئی لیکن اس کے بعد بھی میں دیر تک موذن کے بلندی سے اترنے کا انتظار کرتا رہا لیکن موذن کے قدموں کی چاپ نہ سنائی دی۔ وضو کیا اور ابھی وضو سے فراغت ہی ہوئی تھی کہ مجھے انسانوں کے بولنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ پھر میں نے نمازیوں کو چبوترے پر چڑھ کر آتے ہوئے دیکھا اور اطمینان ہوگیا کہ جو کچھ میں نے کیا، وہ میرا مناسب فرض تھا۔ صفیں درست ہونے لگیں، لوگ بیٹھ گئے۔ وہ آپس میں مدھم مدھم گفتگو کررہے تھے۔ میں نے سوچا کہ نماز کے بعد کسی سے قریب کی بستی کے بارے میں پوچھوں گا اور اگر بستی زیادہ دور نہیں ہوئی تو وہیں چلا جائوں گا۔ کچھ دیر کے بعد نماز شروع ہوگئی اور امام صاحب منبر کے سامنے کھڑے ہوگئے، صفیں بندھ گئیں اور نماز شروع ہوگئی۔ نماز سے فراغت ہوئی اور نمازی واپس جانے لگے۔ میں کسی ایسے شخص کو تلاش کرنے لگا جس سے بستی کے بارے میں معلوم کروں۔ اسی وقت عقب سے آواز ابھری۔
’’مسعود میاں…!‘‘ میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ یہاں کون ہے جو میرا شناسا ہے۔ سفید لباس میں ملبوس ایک نورانی شخصیت مجھے مخاطب کررہی تھی۔ اس نے اشارے سے مجھے قریب بلایا اور میں آگے بڑھ کر اس کے پاس پہنچ گیا۔ ’’انہیں متوجہ نہ کرو…!‘‘ بزرگ نے کہا۔
’’میں کسی سے…!‘‘ میں نے کہنا چاہا اور انہوں نے ہاتھ اٹھا کر مجھے روک دیا۔
’’ہاں… ہاں علم ہے… لیکن آبادی بہت دور ہے۔‘‘
’’جی!‘‘ میں ششدر رہ گیا۔ میں نے زبان سے پوری بات بھی نہیں ادا کی تھی اور وہ سمجھ گئے تھے۔
’’نمازیوں کو چلا جانے دو پھر بات کریں گے۔ آئو ادھر آجائو۔‘‘ اس ہستی نے اشارہ کیا اور میں ان کے پیچھے چلنے لگا۔ وہ مجھے مسجد کے مشرقی گوشے میں لے آئے۔ یہاں پتھر کی ایک صاف ستھری چوکی نظر آئی۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میں پتھر کی سل پر بیٹھ گیا۔ بزرگ میرے سامنے بیٹھ گئے۔ پھر بولے۔ ’’ہمارا نام جلال حسین ہے۔‘‘
’’آپ مجھے جانتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں! جانتے ہیں۔‘‘
’’مگر میں پہلے آپ سے نہیں ملا۔‘‘
’’بہت سے لوگ، بہت سے لوگوں سے نہیں ملتے۔‘‘
’’پھر آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟‘‘
’’میاں! یہ بات ہمارے سینے میں رہنے دو۔‘‘
’’بہتر ہے۔‘‘ میں نے ادب سے کہا۔ نمازی ایک ایک مسجد سے باہر نکل گئے۔ میں انہیں دیکھتا رہا پھر اچانک مجھے کچھ خیال آیا۔ میں نے کہا۔ ’’آپ نے فرمایا تھا کہ آبادی بہت دور ہے؟‘‘
’’انسانوں کی آبادی یہاں سے ساٹھ ستر کوس ہے۔‘‘
’’مگر یہ نمازی…؟‘‘
’’یہ دوسرے بندئہ خدا ہیں۔ چلو کھانا کھالو۔‘‘ کھانا آگیا۔ جلال حسین نے دو آدمیوں کو دیکھ کر کہا جو ہاتھوں میں سینیاں اٹھائے قریب آگئے تھے۔ ایک نے کپڑے کا دسترخوان بچھایا، دوسرے نے سینی اس پر رکھ دی۔ پانی کا کٹورہ اور صراحی بھی قریب رکھ دی گئی۔ سینی سے بھاپ اٹھ رہی تھی اور اس بھاپ کے ساتھ چاولوں کی خوشبو شامل تھی۔ موتی کی طرح بکھرے چاولوں کا انتہائی خوشبودار پلائو تھا۔ جلال حسین نے کہا۔ ’’چلو میاں! بسم اللہ کرو… اول طعام، بعد کلام!‘‘
کچھ کہنے کی گنجائش نہیں تھی۔ جلال حسین بھی میرے ساتھ اسی سینی میں شریک ہوگئے۔ کھانے کی لذت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی تاہم اعتدال سے کام لیا۔ ہاتھ روکا تو جلال صاحب مزید کھانے پر اصرار کرنے لگے۔ ’’مکمل شکم سیری بیشک غیر مناسب ہے لیکن تم بہت بھوکے ہو، کھائو…!‘‘ کچھ دیر کے بعد کھانے سے فراغت ہوگئی۔ جلال حسین نے کہا۔ ’’نماز عشاء سے فراغت ہوجائے اس کے بعد نشست رہے گی۔‘‘
’’آپ یہیں قیام فرماتے ہیں؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’اذان آپ نے کہی تھی…؟‘‘
’’نہیں… امیر احمد نے۔‘‘
’’وہ بھی یہیں رہتے ہیں؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’جب میں آیا تھا تب میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا۔‘‘
’’ہاں! نہ دیکھا ہوگا۔‘‘
’’آپ نے مجھے دیکھ لیا تھا…؟‘‘
’’کیوں نہیں…!‘‘ جلال حسین مسکرائے پھر بولے۔ ’’تم خانہ خدا کی خدمت میں مصروف تھے۔ ہم نے مداخلت نہیں کی۔ تھوڑی دیر چہل قدمی کرلو، ہم کچھ ضروری امور نمٹا لیں۔‘‘ وہ اٹھ گئے۔
’’بہتر ہے۔‘‘ میں نے کہا اور جلال حسین وہاں سے چلے گئے۔ کچھ دور تک نظر آتے رہے پھر اینٹوں کے ایک ڈھیر کے پیچھے روپوش ہوگئے۔ میں مسجد سے دور نکل آیا۔ تاریکی، حشرات الارض کی سرسراہٹ، کبھی کبھی پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ! بڑا پراسرار ماحول تھا۔ مجھے کچھ کچھ اندازہ ہوتا جارہا تھا۔ جلال حسین کی شخصیت اور ان کے الفاظ بھی یاد آرہے تھے۔ یہ دوسرے بندئہ خدا ہیں۔ انسانوں کی آبادی یہاں سے ساٹھ ستر کوس دور ہے۔ یہ لوگ انسان نہیں تھے۔ جنات تھے یقیناً…! بدن میں پھریریاں اٹھنے لگیں۔ ایک سرد احساس پورے وجود میں دوڑ گیا۔ کیا جلال الدین بھی… جن ہیں؟ یہی لگتا تھا لیکن مہربان تھے اور محبت سے پیش آرہے تھے۔ چہل قدمی ہی کررہا تھا کہ عشاء کی اذان سنائی دی اور واپسی کیلئے قدم اٹھا دیئے۔ عشاء کی نماز میں نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور پورا صحن بھر گیا تھا۔ بالآخر نماز سے فراغت ہوگئی۔ اس سرخ سل پر جا بیٹھا اور کچھ دیر کے بعد جلال حسین وہاں پہنچ گئے۔
’’میاں! کسی شے کی حاجت تو نہیں ہے؟‘‘
’’الحمدللہ…!‘‘
’’سنائو کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
’’اللہ کا فضل ہے۔‘‘
’’کچھ باتیں گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ارشاد…!‘‘
’’اول اپنی شناخت سے گریز کرو۔‘‘
’’وضاحت کا طلبگار ہوں۔‘‘
’’اب تمہیں اس کمبل کی ضرورت نہیں ہے، رہنمائی کرنے والی ذات الہیٰ ہے۔ اللہ کا کلام سینے میں ہو تو سب کچھ مل جاتا ہے۔ اس کی رہنمائی طلب کرو۔ یہ کھیل شاخت بنے گا تو خودنمائی کے زمرے میں آجائو گے۔ اسے خود سے دور کرو تو اعتماد پیدا ہوگا۔‘‘
’’جی…!‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’دل میں وسوسہ نہ لائو۔ اعتماد سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہوتی۔‘‘
’’درست فرمایا…!‘‘
’’یہ چار روپے رکھ لو، ضروریات پوری کریں گے۔ تمہارا وظیفہ مقرر کردیا گیا ہے۔‘‘ جلال حسین نے چار روپے میرے ہاتھ پر رکھ دیئے۔
’’رزق حلال ہوگا؟‘‘
’’عطیہ ہے۔ اس وقت تک ملے گا جب تک ضرورت ہوگی۔‘‘
’’بسم اللہ…!‘‘
’’جمال گڑھی چلے جائو، ادھر سے بلاوا ہے۔‘‘
’’راستے کی نشاندہی کردیں۔‘‘
’’ہاں… بس سیدھے چلے جانا مگر صبح سفر کا آغاز کرنا۔ اب آرام سے سو جائو۔ اچھا اب ہم بھی چلتے ہیں۔ فی امان اللہ…!‘‘ جلال حسین نے کہا اور سلام کرکے وہاں سے چلے گئے۔ میں بہت دیر تک پتھر کی سل پر پالتی مارے بیٹھا رہا۔ جلال حسین کی باتوں پر غور کررہا تھا۔ بہت فرحت بخش ہوا چل رہی تھی۔ وہیں لیٹ گیا اور تاروں بھرے آسمان کو دیکھتا رہا۔ دل کی وادیوں میں بہت سے پھول کھلنے لگے، یادیں ذہن میں سرسرانے لگیں۔ کچھ لوگ یاد آئے اور سسکی بن گئے۔ ان یادوں پر پابندی تھی، وقت جب تک خود آواز نہ دے۔ نیند مہربان ہوگئی۔ رات کے آخری حصے میں خنکی ہوگئی تھی۔ کئی بار آنکھ کھلی۔ نیم خوابی کی شکل میں ان تہجد گزاروں کو دیکھا جو عبادت میں مصروف تھے پھر سو گیا۔ فجر کے وقت آنکھ کھل گئی۔ اذان کے آخری بول سنائی دے رہے تھے لیکن اس وقت صحن میں بالکل سناٹا تھا۔ میں نے وضو کیا۔ انتظار کرتا رہا مگر کوئی نہیں آیا تھا۔ نماز کا وقت ہوچکا تھا، نیت باندھ کر کھڑا ہوگیا۔ نماز سے فراغت پائی اور رخ اس پتھر کی سل کی طرف کیا۔ وہاں سینی رکھی ہوئی تھی۔ اس میں دو پراٹھے، آلو کی ترکاری اور چائے کا پیالہ رکھا ہوا تھا جس سے بھاپ اٹھ رہی تھی اور میرا کمبل موجود نہیں تھا۔ ایک لمحے کیلئے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا۔ پہلے یہ کمبل میری نادانی سے چھن گیا تھا اور اب واپس لے لیا گیا تھا مگر اس کے ساتھ ہدایات بھی دی گئی تھیں۔ میں نے ناشتے پر توجہ دی۔ تمام ناشتہ صاف کیا۔ اس کے بعد یہاں رکنا مناسب نہیں تھا۔ چنانچہ وہاں سے سیدھ اختیار کی اور چل پڑا۔ تین دن اور رات کے کئی گھنٹے کے سفر کے بعد ایک آبادی نظر آئی۔ اس وقت بھی صبح کے کوئی پانچ بجے تھے۔ میں رات کو ہی ادھر چل پڑا تھا اور جب رات کی سیاہیاں ختم ہوئیں تو مجھے درخت، کھیت اور ان سے پرے ٹمٹماتے چراغ نظر آئے تھے جن سے آبادی کے قریب آنے کا احساس ہوا تھا۔
آبادی کے پہلے درخت کے پاس رک گیا۔ کچھ فاصلے پر ایک ٹنڈمنڈ درخت پر کئی گدھ بیٹھے ہوئے تھے، مجھے دیکھ کر انہوں نے پر پھڑپھڑائے اور پھر ان میں سے ایک گدھ بھیانک آواز کے ساتھ پر پھڑپھڑاتا ہوا اڑ گیا جیسے کسی کو اس کی آمد کے بارے میں اطلاع دینے گیا ہو۔ نماز کا وقت نکلا جارہا تھا چنانچہ درخت کے تنے کی آڑ میں میں نے ایک صاف جگہ تلاش کرکے فجر کی نماز پڑھی اور درود شریف کا وظیفہ کرنے لگا۔ جب اس سے فراغت حاصل ہوئی تو اپنے دائیں بائیں بہت سے مردہ خوروں کو منتظر بیٹھے دیکھا۔ غالباً میرے بدن کے سکوت سے وہ غلط فہمی کا شکار ہوگئے تھے۔ میں اٹھ کر کھڑا ہوا تو وہ خوف زدہ ہوکر اپنے پتلے پتلے پیروں سے اچھل اچھل کر پیچھے ہٹنے لگے اور پھر مایوس ہوکر فضا میں بلند ہوگئے۔ یہ مردہ خور گدھ بعض اوقات زندہ انسانوں پر بھی حملے کردیا کرتے ہیں۔ چنانچہ یہاں سے آگے بڑھ جانا ضروری تھا۔ ذرا بستی پہنچ کر یہ معلوم کیا جائے کہ یہی بستی جمال گڑھی ہے۔ ایک سمت اختیار کرکے چل پڑا۔ دفعتاً کچھ فاصلے پر مجھے ایک انسانی جسم نظر آیا۔ کوئی پشت کئے ایک جھاڑی کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔ اس سمت قدم بڑھا دیئے اور اسے دیکھتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ ہوسکتا ہے یہی میری رہنمائی کردے۔ کچھ فاصلے پر پڑے ہوئے ایک پتھر سے ٹھوکر لگی تو بیٹھی ہوئی شخصیت اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ تب میں نے سے دیکھا۔ ایک بھیانک صورت عورت تھی جس کی عمر پینتالیس سال کے قریب ہوگی۔ لمبے لمبے بال بکھرے ہوئے تھے، رنگ بھی مٹیالا تھا اور جگہ جگہ خون کے دھبے نظر آرہے تھے۔ جسم پر لباس بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہاتھ ضرورت سے زیادہ لمبے تھے۔ جب اس نے میری سمت نگاہیں اٹھائیں تو میرے قدم ٹھٹھک گئے۔ بہت خوفناک شکل تھی ساتھ ہی اس نے بھیانک چیخ ماری اور ایک لمبی چھلانگ لگا دی۔ میں ششدر کھڑا رہ گیا۔ وہ دوڑتی ہوئی کچھ فاصلے پر باجرے کے کھیتوں میں جاگھسی۔ چند لمحات اپنی جگہ ساکت رہا پھر غیر اختیاری طور پر اس سمت نگاہ اٹھ گئی جہاں وہ بیٹھی ہوئی تھی۔ دوسرے لمحے بری طرح چونک پڑا۔ ایک انسانی جسم وہاں بھی موجود تھا اور زمین پر بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ دوڑتا ہوا وہاں پہنچا اور خوف سے اچھل پڑا۔ نو یا دس سالہ بچے کا جسم تھا جس کا پھٹا ہوا لباس اس سے چند قدم کے فاصلے پر پڑا ہوا تھا۔ اس کا سینہ چاک تھا اور جسم کی آلائش قرب و جوار میں بکھری ہوئی تھی۔ جگہ جگہ زمین پر خون نظر آرہا تھا۔ گردن مڑ کر دوسری سمت اختیار کرچکی تھی۔ اس کے سینے کی جو کیفیت نظر آئی، اسے دیکھ کر سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ اس میں زندگی ہوسکتی ہے۔ میں بچے کے قریب بیٹھ گیا۔ اس کی مڑی ہوئی گردن سیدھی کی۔ معصوم شکل کا بچہ تھا جسے اس وحشی عورت نے اپنی درندگی کا شکار بنایا تھا لیکن کیوں…؟ ایک اتنے معصوم بچے سے اس بدبخت کو کیا دشمنی تھی، سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کروں لیکن فرض تھا کہ بستی والوں کو فوراً ہی اس حادثے کی خبر دوں۔ یہ خدشہ بھی تھا کہ ابھی چند لمحات میں مردہ خور گدھ آجائیں گے اور اس کی لاش کو نوچنا شروع کردیں گے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ لاش کی بکھری ہوئی آلائش کو جمع کرنا بھی ایک مشکل کام تھا۔ اس کے علاوہ اور کوئی تدبیر نہ بنی کہ بستی کی جانب دوڑوں۔ سو میں دوڑنے لگا۔ زیادہ فاصلے پر نہیں پہنچا تھا کہ پریشان حال انسان نظر آئے۔ ہاتھ میں لاٹھیاں تھیں اور چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ میں نے زور زور سے انہیں پکارا۔ ’’سنو بھائیو…! ادھر آئو، میری بات سنو… سنو!‘‘ اور وہ جلدی سے میرے قریب آگئے۔
’’وہاں اس طرف جھاڑیوں میں ایک بچے کی لاش پڑی ہوئی ہے جس کا جسم ادھیڑ دیا گیا ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ ان میں سے ایک شخص نے پھٹی پھٹی آواز میں کہا اور شاید اسے غش آگیا۔ اس نے لاٹھی زمین پر ٹکا کر اپنا سر اس سے لگا دیا۔ دوسرے نے اس کا بازو تھام کر مجھ سے پوچھا۔ ’’کدھر… کہاں…؟‘‘
’’آئو میں تمہیں اس سمت لے چلوں۔‘‘
’’جنک رام! خود کو سنبھال بھائی، آ ذرا چلیں، ہمت کر۔‘‘ جس شخص کو جنک رام کے نام سے پکارا گیا تھا، اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات ہورہی تھی۔ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’آہ! وہی ہوا، وہی ہوگیا جس کا اندیشہ تھا۔ میرا بھائی تو بے موت مر جائے گا۔ اجڑ گیا یہ گھر، اجڑ گیا۔ برباد ہوگیا۔ ہائے کیسے دیکھوں گا میں اپنے بھتیجے کی لاش…!‘‘
’’ہمت کر جنک رام! آچلیں تو سہی۔‘‘ دوسرے آدمی نے کہا پھر میری طرف دیکھ کر بولا۔ ’’چلو بھیا! ذرا بتائو ہمیں وہ جگہ…!‘‘
’’یہاں مردہ خور گدھ بھی ہیں۔ میں دوڑتا ہوا جاتا ہوں، تم میرے پیچھے پیچھے آجائو۔ کہیں مردہ خور بچے کی لاش کو خراب نہ کریں۔ ویسے بھی لاش بہت خراب ہوچکی ہے۔‘‘ میں نے کہا اور واپس دوڑ لگا دی۔ وہ دونوں بھی ہانپتے کانپتے میرے پیچھے آرہے تھے۔ میرا خیال درست تھا۔ گدھ بلندی پر منڈلانے لگے تھے۔ میں نے ایک سوکھی ٹہنی اٹھائی اور لاش کے پاس جاکھڑا ہوا۔ منڈلاتے ہوئے مردہ خوروں کو میں نے منہ سے آوازیں نکال کر ڈرایا اور لکڑی ہوا میں لہرانے لگا۔ چند لمحات کے بعد وہ دونوں بھی میرے پاس پہنچ گئے۔ جنک رام نے بچے کا چہرہ دیکھا اور دھاڑیں مارمار کر رونے لگا۔ دوسرا اسے سمجھا رہا تھا۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’ہمت کر جنک رام…! تو سوچ رگھبیر بھیا کا کیا حال ہوگا۔ بھابی کیسے جئے گی۔ بڑی مصیبت آپڑی یہ تو…!‘‘
’’ارے لٹ گئے ہم تو ہیرا بھیا! ارے جیون برباد ہوگیا ہمارا، میرا پرکاش، میرا پرکاش!‘‘ جنک رام روتا ہوا لاش سے لپٹ گیا۔
’’تمہارا نام ہیرا ہے؟‘‘ میں نے دوسرے آدمی سے کہا۔
’’ہاں بھیا! ہیرا لال…!‘‘
’’ہیرا لال! لاش کو یہاں سے اٹھانے کا بندوبست کرو۔ تم بستی جاکر دوسرے لوگوں کو خبر کردو۔‘‘
’’جاتا ہوں بھیاجی…! بڑی بپتا پڑی ہے جمال گڑھی پر…! تم یہاں رکے رہو بھیا جی! ذرا سنبھالنا جنک رام کو۔‘‘ ہیرا نے کہا۔
’’تم جائو۔‘‘ میں نے کہا اور ہیرا لال جنک رام سے بولا۔ ’’جنک! سنبھال خود کو، ابھی تو تجھے بھیا، بھابی کو سنبھالنا ہے۔ میں بستی جارہا ہوں سنبھال جنک رام! خود کو‘‘
’’جا… بھیا…!‘‘ جنک رام نے روتے ہوئے کہا اور ہیرا اس کا شانہ تھپتھپاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
’’جنک رام…! خود کو سنبھالو، یہ بچہ تمہارا کون ہے؟‘‘
’’بھتیجا ہے ہمارا… اکلوتا تھا اپنے ماتا، پتا کا۔ لاڈلا تھا ہمارا۔ بڑا انیائے ہوگیا بھیا…! بڑا انیائے ہوگیا۔‘‘
’’یہ یہاں کیسے آگیا؟‘‘
’’بھگوان جانے، رات کو کھیلنے نکل گیا تھا بچوں کے ساتھ۔ رات گئے تک واپس نہ آیا تو سب پریشان ہوگئے۔ سب کے سب ڈھونڈتے پھرے ہیں رات بھر۔ ساری رات تلاش کیا ہے بھیا! ملی تو اس کی لاش!‘‘
’’تمہارے خیال میں اسے کس نے مارا…؟‘‘
’’نہ معلوم بھیا! کوئی ڈائن لگے ہے۔ ہائے دیکھو اس کا بھی کلیجہ نکال کر کھا گئی ہے۔‘‘
’’ڈائن…!‘‘ میری سانس رکنے لگی۔
’’تم خود دیکھ لو بھیا! پہلے بھی چار کا یہی حال ہوا ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں اچھل پڑا۔ میں نے پریشان نظروں سے ان کھیتوں کی طرف دیکھا جہاں وہ خوفناک عورت جا گھسی تھی۔ کیا وہ ڈائن تھی، بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جانے والی…!
’’تم جمال گڑھی کے نہ ہو کیا بھیا…؟‘‘
’’نہیں… میں تو مسافر ہوں۔‘‘
’’تبھی تو…! جمال گڑھی میں کوئی ڈائن گھس آئی ہے بھیا! چار بچوں کو مار چکی ہے جان سے۔‘‘
’’خدا کی پناہ! تمہیں ایک بات بتائوں جنک رام!‘‘
’’بتائو بھیا!‘‘ اس نے انگوٹھے سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا۔
’’میں صبح ہونے سے پہلے اس علاقے میں داخل ہوا تھا۔ بستی کے بارے میں کسی سے معلوم کرنا چاہتا تھا…!‘‘ میں نے جنک رام کو پوری کہانی سنائی اور وہ اچھل کر کھڑا ہوگیا۔
’’کونسے کھیتوں میں…؟‘‘ اس نے اپنی لاٹھی مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا اور میں نے کھیتوں کی طرف اشارہ کردیا۔ جنک رام لاٹھی ہلاتا جوش کے عالم میں چیختا کھیتوں کی طرف دوڑا۔ میری نظریں اسی طرف لگی ہوئی تھیں۔ جنک رام کھیتوں میں گھس گیا تھا۔ پھر اس کی دھاڑ سنائی دی۔ ’’رک تو سسری! بھاگ کہاں رہی ہے؟ اری رک تیرا ستیاناس…!‘‘ پھر میں نے خوفناک عورت کو لمبی لمبی چھلانگیں لگاتے ہوئے دیکھا۔ جنک رام لاٹھی پکڑے اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا پھر اس نے لاٹھی گھما کر پوری قوت سے عورت پر پھینکی۔ عورت بال بال بچی تھی۔ جنک رام جوش غضب سے دیوانہ ہورہا تھا۔ عورت اگر اس کے ہاتھ آجاتی تو وہ یقیناً اسے ریزہ ریزہ کردیتا۔ جنک رام اس کے پیچھے بھاگتا ہوا دور نکل گیا تھا۔ اتنا دور کہ اب مجھے نظر بھی نہیں آرہا تھا البتہ بستی کی طرف سے بے شمار لوگ دوڑتے آرہے تھے۔ ہیرا لال سب سے آگے آگے تھا۔ کچھ دیر کے بعد بستی والے قریب آگئے اور کہرام مچ گیا۔ مجھے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ ایک آدمی جس کی حالت بہت خراب تھی، آگے بڑھا۔ لوگ اسے پکڑے ہوئے تھے۔ اس نے بچے کی لاش دیکھی اور غش کھا کر گر پڑا۔
’’جنک رام! کہاں گیا؟‘‘ ہیرا لال نے مجھ سے پوچھا مگر جواب دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ جنک رام جوش سے لاٹھی گھماتا واپس آرہا تھا۔ وہ دوڑتا ہوا قریب پہنچ گیا۔
’’پتا چل گیا آج، سب کچھ معلوم ہوگیا بھیا! آج ساری باتیں پتا چل گئیں۔ ارے کہاں ہے وہ سسرا تلسیا…! کہاں چھپا ہے رے سامنے آ…!‘‘
تلسیا نے کیا کردیا جنک رام…؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’ڈائن پتا چل گئی رمبھا چاچا! ڈائن پتا چل گئی۔‘‘
’’کون ہے… کون ہے وہ…؟‘‘ بہت سی آوازیں ابھریں۔
’’بھاگ بھری ارے وہی سسری بھاگ بھری! خون سے رنگی ہوئی تھی کمینی! ارے آنکھوں سے دیکھ لیا اپنی!‘‘
’’بھاگ بھری … بائولی بھاگ بھری…؟‘‘
’’بنی ہوئی بائولی ہے بھیا! آج دیکھ لیا آنکھوں سے! ارے جائے گی کہاں، کئی دیئے بجھائے ہیں اس نے…! پوت کہاں چھپا ہوا ہے اس کا…؟ ارے دیکھ لئے اپنی میا کے کرتوت…!‘‘ جنک رام کا سانس پھول رہا تھا۔ پھر اس نے لاش کے پاس بے ہوش پڑے ہوئے شخص کو دیکھا اور ایک بار پھر دھاڑیں مارنے لگا۔
’’ارے بھیا! ہمارا چراغ بھاگ بھری نے بجھایا ہے۔ وہی ڈائن ہے بڑے بھیا…! ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔‘‘
’’کچھ بتائو تو سہی جنک رام…!‘‘
’’سب ڈھونڈ رہے تھے پرکاش کو، مسافر نے خبر دی۔ ہم نے لاش دیکھی، ہیرا خبر کرنے گیا۔ مسافر دوسری بستی کا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے ڈائن کو کلیجہ چباتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ کھیتوں میں چھپی ہوئی ہے۔ ارے ہم دوڑے کھیتوں میں، وہاں چھپی ملی بھاگ بھری… ہمیں دیکھ کر نکل بھاگی۔ خون میں رنگی ہوئی تھی سسری! نکل گئی مگر جائے گی کہاں۔ ارے نہ جانے دیں گے سسری کو…!‘‘
’’سب سکتے کے عالم میں سن رہے تھے اور میرا دل عجیب سا ہورہا تھا۔ کیا ہے یہ سب کچھ… مگر کچھ تھا… ضرور کچھ تھا۔ مجھے یہاں بھیجا گیا تھا۔ یقیناً اس کا کوئی مقصد ہوگا۔ یقیناً!‘
میں نے اس عورت کو دیکھا تھا، صورت واقعی خوفناک تھی۔ میں نے خود اس کے چہرے پر خون کے دھبّے دیکھے تھے مگر وہ ڈائن تھی اور پہلے بھی یہ بھیانک عمل کر چکی تھی۔ بچپن میں جو باتیں کہانیوں کی شکل میں سنی تھیں، سب ہی تو سامنے آتی جا رہی تھیں۔ نہ جانے مستقبل اور کیا کیا دکھائے گا۔ چڑیل دیکھی تھی، پچھل پیری سے واسطہ پڑا تھا، کالی دیوی سے بھی خوب واقف ہوگیا تھا، ہندوئوں کے ساتھ رہن سہن کی وجہ سے ہولی دیوالی سے شناسائی ہوئی تھی۔ یہاں تو سارے قصّے کہانیاں یہی تھیں، بھوت، پریت، سرکٹے، چڑیلیں، ان کے علاوہ اور کیا تھا مگر یہ مزیدار کہانیاں جنہیں سن کر راتوں کو ڈر لگتا تھا اور ماں سے چمٹ کر سونے کو جی چاہتا تھا، آج آنکھوں کے سامنے تھیں۔ آج ڈائن سے بھی ملاقات ہوگئی تھی، ایسی ہوتی ہیں ڈائنیں۔
جنک رام رو رو کر ساری رام کہانی سنا رہا تھا اور میں یہ سوچ رہا تھا۔ ایک بار پھر میں نے اس مظلوم بچّے کی لاش کو بغور دیکھا، اب صحیح اندازہ ہو رہا تھا۔ لوگوں کا کہنا دُرست تھا۔ اس کا اُوپری جسم برہنہ تھا اور سینے کے مقام ہی سے کھلا ہوا تھا، دُوسری آلائشیں بکھری ہوئی تھیں لیکن کلیجہ موجود نہیں تھا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔
’’پر وہ گئی کہاں جنک رام…؟‘‘
’’ارے بھیّا کیا بتائیں مسافر نے کہا کھیتوں میں چھپی ہے سسری۔ ہم لٹھیا لے کر لپکے تو ہمیں دیکھ کر نکل بھاگی اور بھیّا کیا تیز دوڑی مسافر سے پوچھ لو، پیروں میں پنکھے بندھے ہوئے تھے۔ ذرا سوچو ڈائن نہ ہوتی تو اتنی تیز بھاگتی۔ ہم تو پیچھا ہی نہ کر پائے اور وہ یہ جا وہ جا، کیسی بڑھیا بنی پھرتی تھی۔ ہرے رام ہرے رام ہمارے بھیّا کے پوت کو کھا گئی، ارے اب کچھ کرو بھیّا کو اُٹھا کر لے چلو۔ دیکھو تو سہی کہیں دل کی دھڑکن بند تو نہیں ہو گئی۔ ارے بھیّا، ہمارے بڑے بھیّا ارے رگھبیر بھیّا۔‘‘
’’ہاں ہاں چلو رے چادر بچھائو، پرکاش کو اس میں ڈالو۔ اب تو وہ اس سنسار سے چلا ہی گیا۔ ساری باتیں کر لو پرنت جسے جانا تھا وہ تو جا چکا۔‘‘
بہت سے لوگ مل کر لاش کی آلائش سمیٹنے لگے اور اس کے بعد بچّے کے جسم کو اٹھا کر چادر پر لٹا دیا گیا۔ وہ اپنے عقیدے کے مطابق مقدس اشلوک پڑھ رہے تھے۔ چند لوگوں نے رگھبیر رام کو سنبھال کر ہاتھوں پر اُٹھایا اور پھر یہ سارا قافلہ آبادی کی جانب چل پڑا۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا اور ان کی باتیں سن رہا تھا لیکن بہت ہی کم باتیں سمجھ میں آ رہی تھیں۔ جمال گڑھی کا نام لیا جا چکا تھا، اس لیے اب اس میں بھی شبہ نہیںتھا کہ جس بستی کی جانب میں جا رہا ہوں، وہ جمال گڑھی ہی ہے جہاں جانے کی مجھے ہدایت کی گئی تھی۔ تھوڑا بہت اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید یہی کام میرے سپرد کیا گیا ہے۔ وہ تمام باتیں ذہن میں محفوظ تھیں جو بتائی گئی تھیں۔ مجھ سے خود پر اعتماد کرنے کو کہا گیا تھا اور وہ عطیہ واپس لے لیا گیا تھا جو میرے لیے بڑی تقویت کا باعث تھا لیکن دل کو ایک اعتماد تھا کہ میری امداد سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ میں کونسا عالم تھا کہ ہر مرض کی دوا میرے پاس ہوتی، بس یہ ایک امتحانی منزل تھی جس سے بازو پکڑ کر گزارا جا رہا تھا دل میں یہی دُعا تھی کہ اللہ مجھے اس منزل تک پہنچا دے جومیرے لئے متعین کی گئی ہے۔ بڑی ہمت اور بڑے صبر سے اپنے فرض کی بجا آوری کر رہا تھا اور کہیں بھی سرکشی ذہن میں نہیں اُبھری تھی۔ اپنے یاد آتے تو زبان کو دانتوں میں دبا لیتا، اپنے جسم کو نوچنے لگتا کہ یادیں پیچھا چھوڑ دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بات ناگواری کی منزل میں پہنچ جائے اور ایک بار پھرمصائب کا شکار ہو جائوں۔ اپنے طور پر جس حد تک ممکن ہو رہا تھا ان ہدایات پرعمل کر رہا تھا۔
بستی کا سفر انہی خیالات میں کٹ گیا۔ میں بھی لوگوں کے ساتھ ساتھ ہی جنک رام کے گھر کے دروازے پر پہنچا تھا اور اس کے بعد وہاں جو کچھ ہونے لگا تھا وہاں رُکنا میرے لیے بے کار سی بات تھی۔ لوگ جنک رام کے گھر کے دروازے کے باہر جمع ہوگئے تھے، اندر سے رونے پیٹنے کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، ان آوازوں میں عورتوں کا شور بھی تھا، مردوں کی آوازیں بھی تھیں۔ میں وہاں سے واپس پلٹا، تقریباً ساری بستی والوں کو اس واقعہ کی خبر ہوگئی تھی۔ کوئی اپنے کام پر نہیں گیا تھا، سب کے سب جنک رام کے دروازے پر جمع ہوگئے تھے۔ میں نے ایک شخص کو روکا تو وہ فوراً ہی رُک کر مجھے دیکھنے لگا۔
’’تم مسافر ہو نا بھیّا…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں بھائی یہ بستی جمال گڑھی ہی ہے نا…؟‘‘
’’ہاں بھیّا یہی ہے۔‘‘
’’یہاں کوئی ایسی جگہ مل سکتی ہے بھیّا جی جہاں میں کچھ وقت قیام کر سکوں۔‘‘
’’دھرم شالہ موجود ہے پنڈت رام نارائن کے پاس چلے جائو، ارے ہاں یہ تو بتائو ہندو ہو یا مسلمان…؟‘‘
’’مسلمان ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تو پھر مسجد میں چلے جائو۔ یا سنو وہ سیدھے ہاتھ جا کر جب اُلٹے ہاتھ کو مڑو گے تو تلسیا کا گھر نظر آئے گا تمہیں… اللہ دین بھٹیارے کی سرائے اسی کے سامنے ہے، وہاں تمہیں رہنے کی جگہ مل جائے گی۔ مسجد تو ابھی نامکمل ہے دوبارہ بن رہی ہے، سارا سامان پڑا ہوا ہے وہاں کہاں ٹھہرو گے۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ میں نے جواب دیا اور اس شخص کے بتائے ہوئے پتے پر چل پڑا، اللہ دین بھٹیارے کی سرائے شاید اس بستی کی واحد سرائے تھی۔ کچا احاطہ بنا ہوا تھا اور اس میں کچھ کمرے نظر آ رہے تھے۔ ایک سمت تندور لگا ہوا تھا جس کے کنارے بنی ہوئی بھٹیوں میں آگ سلگ رہی تھی مگر کوئی موجود نہیں تھا، البتہ زیادہ دیر نہ گزری کہ دس بارہ سال کے ایک لڑکے نے اندر سے گردن نکال کر جھانکا اور پھر واپس اندر گھس گیا۔ میں نے زور زور سے آوازیں دیں تو ایک درمیانی عمر کی عورت باہر نکل آئی۔ موٹی تازی تھی، شلوار قمیض پہنے دوپٹہ اوڑھے ہوئے مسلمان عورت معلوم ہوتی تھی۔ میں نے اسے سلام کیا تو وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگی پھر بولی۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’اللہ دین بھٹیارے کی سرائے یہی ہے نا؟‘‘
’’ہاں یہی ہے مگر تو کون ہے بھیّا؟‘‘
’’اللہ دین کہاں ہے؟‘‘
’’ارے بس نکل کھڑا ہے تماشا دیکھنے کیلئے، ساری ہنڈیا جلا کر خاک کر دی۔ پورا کا پورا تین سیر گوشت تھا… مگر تو کون ہے بھیّا؟‘‘
’’مسافر ہوں، بہن اس سرائے میں ٹھہرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ارے کلو او… کلو تیرا ستیاناس کہاں مر گیا ارے باہر نکل۔‘‘
’’اماں تو نے ہی تو منع کر دیا تھا کہ باہر نہ نکلوں ڈائن کھا جائے گی۔‘‘ لڑکے نے کہا۔
’’ارے ڈائن کے بچے باہر آ، دیکھ مسافر آیا ہے۔‘‘ عورت نے کہا اور وہی لڑکا جو مجھے جھانک کر اندر گھس گیا تھا، باہر نکل آیا۔
’’جا ابا کو بلا کر لا، کہہ دے تماشا ختم ہوگیا۔ مسافر آیا ہے اور وہ باہر مستا رہا ہے۔ ارے بھیّا مجھ سے بات کرو میں اللہ دین کی گھر والی ہوں۔‘‘
’’مجھے یہاں رہنے کیلئے جگہ مل سکتی ہے؟‘‘
’’لو بھیّا پورے کے پورے چار کمرے خالی پڑے ہیں جس میں جی چاہے ٹھہر جائو مگر ڈیڑھ روپے روز ہوتا ہے کمرے میں ٹھہرنے کا اور کھانے پینے کے پیسے الگ، صبح کی چائے دو آنے کی۔ جب بھی چائے پیو گے دو آنے دینے پڑیں گے۔ دوپہر کو کھانا کھائو گے تو دس آنے الگ ہوں گے۔ رات کو کھائو گے تو بھی دس آنے ہوں گے۔ سوچ لو منظور ہو تو ٹھیک ہے۔‘‘
میری جیب میں چار روپے موجود تھے جو مجھے وظیفے کے طور پر عطا کئے گئے تھے۔ میں نے ایک بار پھر یہ پیسے دیکھے اور تین روپے نکال کر خاتون کو دے دیئے۔
’’یہ دو دن کا کرایہ رکھ لیجئے کھانا کھائوں گا تو اس کے پیسے الگ دوں گا۔‘‘
’’آئو بھیّا کوٹھا دکھا دیں تمہیں۔‘‘ عورت نے کہا۔ جو کوٹھا مجھے دکھایا گیا وہ بھی کچی مٹی کا ہی بنا ہوا تھا، اُوپر پھونس کا چھپڑ پڑا ہوا تھا۔ مٹی میں تین روشن دان نکالے گئے تھے جن سے کمرہ خوب روشن ہوگیا تھا۔ ایک طرف بانوں سے بنی ہوئی چارپائی پڑی تھی۔ دُوسری جانب ایک گھڑونچی جس پر مٹکا، پانی نکالنے کا ڈونگا اور گلاس رکھا ہوا تھا۔ یہ تھی کل کائنات اس کمرے کی… میرے لئے بھلا اعتراض کی کیا بات ہو سکتی تھی، میں نے فوراً ہی پسندیدگی کا اظہار کر دیا۔ عورت کہنے لگی۔ ’’ہم دردی بچھائے دے ہیں تکیہ اور کھیس بھی مل جائے گا ہمارے ہی ہاں سے۔ یہ کمرے کے کرائے میں ہوگا۔ اب بتائو ناشتہ کرو گے…؟‘‘
’’نہیں بہن… ہاں ایک پیالی چائے اگر مل جائے۔‘‘
’’چار پیالی پی لو لیکن اَٹھنّی نکال لو۔‘‘ عورت نے کھرے کاروباری لہجے میں کہا اور میں نے ہنستے ہوئے اسے مزید چار آنے دے دیئے اور بارہ آنے واپس لے لیے۔ اس میں رات کا کھانا کھایا جا سکتا تھا۔ غرض یہ کہ مجھے جمال گڑھی میں ایک عمدہ قیام گاہ مل گئی اور کچھ دیر کے بعد چائے بھی…
میں چائے پی رہا تھا کہ ایک دُبلے پتلے آدمی نے جو کرتا پاجامہ پہنے ہوئے تھا اور سر پر کپڑے کی ٹوپی لگائی ہوئی تھی، اندر جھانکا۔ سلام کیا تو میں نے اسے سلام کا جواب دیا اور وہ مسکراتا ہوا اندر آگیا۔
’’تم وہی مسافر ہو نا بھیّا جی جس نے ڈائن کو بے چارے پرکاش کا کلیجہ چباتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘
’’ہاں میں ہی وہ گناہگار ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’بھیّا تم ہماری سرائے میں ٹھہرے ہو۔‘‘
’’تمہارا نام اللہ دین ہے۔‘‘
’’ہاں بھیّا… اپنی ہی سرائے ہے یہ۔ بڑا اچھا ہوا تم یہاں آ گئے۔ ہماری گھر والی نے ہمیں بتایا تو ہم سمجھ گئے کہ تم ہی ہو سکتے ہو اور بڑی اچھی بات ہے کہ مسلمان ہو۔ بھیّا ذرا ہمیں پورا واقعہ تو بتائو۔‘‘ وہ بڑے اطمینان سے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
’’بہت افسوسناک واقعہ ہے اللہ دین اب کیا بتائوں میں تمہیں۔ جو کچھ تم نے باہر سے سنا، بس اتنا ہی ہے۔‘‘
’’اری زبیدہ او… زبیدہ اری اندر آ۔ میں نے کہا تھا نا تجھ سے وہی مسافر بھیّا ہیں جنہوں نے ڈائن کو دیکھا ہے۔‘‘ اللہ دین نے بیگم صاحبہ کو بھی طلب کر لیا اور بیگم صاحبہ دوڑتی ہوئی اندر آ گئیں۔
’’اری… اری… میرے اوپر نہ گر پڑیو۔‘‘ اللہ دین ایک طرف کھسکتا ہوا بولا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیگم اللہ دین کے مقابلے میں وہ بہت کمزور تھا۔ بیگم صاحبہ ہانپتے ہوئے کہنے لگیں۔ ’’وہی ہیں… وہی ہیں…؟‘‘
’’تو اور کیا… میں نے کہا تھا نا تجھ سے کہ بستی میں ایک ہی مسافر داخل ہوا ہے، ہو سکتا ہے یہ وہی مسافر بھیّا ہوں۔‘‘ محترمہ بھی پھسکڑا مارکر بیٹھ گئیں اور بولیں۔ ’’بھیّا تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا یقین نہ آوے ہے ہمیں۔‘‘
’’اری چھوڑ ، یقین نہ آوے ہے تجھے۔ بستی والے مار مار کر بھرکس نکال دیں گے تیرا۔ سب غصے میں بھرے ہوئے ہیں۔ اب بے چارے تلسیا کی شامت آگئی۔‘‘ بھٹیارے نے کہا۔
میں ان دونوں کو بغور دیکھ رہا تھا میں نے کہا۔
’’مگر یہ بھاگ بھری ہے کون…؟‘‘
’’ارے بھیّا پہلے تو ہمیں قصہ تو سنائو بعد میں بتا دیں گے بھاگ بھری کون ہے۔‘‘ اللہ دین نے کہا۔
’’قصہ بس یہ تھا بھائی اللہ دین کہ میں ایک دُوسری بستی سے آ رہا تھا۔ تمہاری جمال گڑھی میں کھیتوں کے کچھ فاصلے پر ایک درخت کے نیچے میں نے اس عورت کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس کی پشت میری جانب تھی اس لیے میں یہ نہیں دیکھ سکا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ میرے قدموں کی چاپ سن کر وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ مجھے دیکھ کر زور سے چیخی اور بھاگ کر کھیتوں میں جا گھسی۔ اس کے بعد دُوسرے لوگ آ گئے۔ میں نے باقی واقعات ان لوگوں کو سنائے اور اللہ دین دونوں کانوں کو ہاتھوں کی قینچی بنا کر چھونے لگا اور گالوں پر درمیانی اُنگلیاں مارنے لگا جبکہ بیگم اللہ دین کا چہرہ خوف زدہ ہوگیا تھا۔
’’اللہ بچائے رکھے میرے کلو کو… ارے میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ ڈائن بستی ہی میں کوئی ہے۔ بھلا باہر سے کہاں سے آئے گی۔‘‘ مسز اللہ دین نے کہا۔ میں ان دونوں کی احمقانہ حرکتیں دیکھتا رہا۔ دونوں ہی سیدھے سادے معصوم دیہاتی معلوم ہوتے تھے۔
’’اب آپ لوگ مجھے اس ڈائن کے بارے میں بتائیں۔‘‘
’’ارے بھیّا اللہ جانے کیا ہوگیا وہ پگلی تو تھی، جانے ڈائن کیسے بن گئی۔ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ سارا جیون ہمارے سامنے گزرا ہے بھاگ بھری کا، میرے سامنے بیاہ کر آئی تھی رتن لال کے ہاں۔ سارے کام یہیں کے یہیں ہوگئے، ہے رے تقدیر۔‘‘
٭……٭……٭
’’تمہارے سامنے بیاہ کر آئی تھی وہ یہاں؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’ہاں مسافر بھیّا سامنے کا گھر ہی تو ہے رتن لال کا۔ بھرا پرا گھر تھا، ہم جی چھوٹے ہی سے تھے، رتن بھیّا سے بچپن ہی سے یاد اللہ تھی۔ بھلا آدمی تھا بے چارہ کام سے کام رکھنے والا، شادی ہوئی تھی اس کی گوناپور میں، بھاگ بھری بیچاری وہیں کی تھی۔ ایک بہت ہی غریب آدمی کی بیٹی جس نے پتہ نہیں کیسے کیسے کر کے اپنی بٹیا کی شادی کری تھی۔ بھاگ بھری رتن لال کے گھر آ گئی۔ رتن لال بے چارہ خود بھی غریب آدمی تھا، بس محنت مزدوری کرتا تھا اور زندگی گزارتا تھا پر ٹھیک ٹھاک زندگی چل رہی تھی۔ ان کے بیٹے ہوئے تھے ایک ایک کر کے تین اور پل بڑھ رہے تھے، بھاگ بھری کوسب ہی اچھا کہتے تھے۔ ہماری اماں تو اسے بہت ہی پسند کرتی تھیں۔ ہماری شادی میں بھی اس نے گھر کے سارے کام کاج کرے تھے بھیّا بہت اچھی تھی وہ۔ اللہ جانے کس کی نظر کھا گئی بے چاری کو۔ بڑا بیٹا کوئی آٹھ سال کا ہوگا، چھوٹا کوئی چار سال کا اور اس سے چھوٹا کوئی تین سال کا… رتن لال کام پر گیا ہوا تھا، تینوں بچّے نکل گئے پوکھر پر اور بھینس کی پیٹھ پر بیٹھ کر پوکھر میں گھس گئے، بس بھیّا وہیں سے کام خراب ہوگیا۔ بھینس پوکھر میں بیٹھ گئی اور بچّے جو اس کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے تھے، پوکھر ہی میں ڈوب مرے۔ وہ تو رمضان گھسیارے نے دُور سے بچوں کو بھینس کی پیٹھ پر بیٹھے دیکھ لیا تھا اور اسے پتہ چل گیا تھا مگر تیرنا وہ بھی نہیں جانتا تھا، دوڑا دوڑا بستی آیا۔ گھر میں خبر دی پھر رتن لال کو بتایا۔ پوری بستی ہی پہنچ گئی تھی پوکھر پر… رتن لال کے تینوں پوت پوکھر میں ڈوب گئے تھے۔ معمولی بات تونہیں تھی، رتن لال پاگل ہوگیا۔ کھٹ سے چھلانگ لگا دی پوکھر میں اور بھیّا پوکھر میں چھ کنویں ہیں، دیکھا تو کسی نے ناہیں البتہ پُرکھوں سے یہی سنتے چلے آئے ہیں کہ بارہ سال کے بعد بھینٹ لیتے ہیں یہ کنویں اور کوئی نہ کوئی ڈوب ہی جاتا ہے۔ بارہ سال پورے ہو چکے تھے، بھینٹ لے لی مگر اس بار تین بچوں کی بھینٹ لی تھی ان کنوئوں نے اور چوتھا رتن لال نیچے گیا تو واپس اُوپر نہ آیا۔ بھلا کس کی مجال تھی کہ پوکھر میں گھس کر رتن لال اور اس کے بچوں کی لاشوں کو تلاش کرتا۔ وہیں کے وہیں دفن ہو کر رہ گئے بے چارے، تین بیٹے اور ایک باپ۔ تم خود سوچ لو مسافر بھیّا، کیا بیتی ہوگی ماں پر؟ اس بیچ بے چارہ تلسی بھی آ چکا تھا۔ تلسی اصل میں بھاگ بھری کا چھوٹا بھیّا تھا۔ جب گوناپور میں اس کے پتا جی مر گئے تو رتن لال خود جا کر تلسیا کو اپنے ساتھ لے آیا اور اپنے بچوں ہی کی طرح پالنے پوسنے لگا اسے… تلسیا یہیں رہتا تھا اور بھاگ بھری کو بس اسی کا سہارا مل گیا تھا۔ تینوں بچّے اور پتی کے مر جانے کے بعد بھلا ہوش و حواس کیسے قائم رکھتی۔ سر پھوڑ لیا اپنا اور اس کے بعد پاگل ہوگئی۔ سر میں چوٹ لگ گئی تھی، بھیّا غریب غرباء کی بستی ہے کون کس کوسہارا دے سکے ہے۔ لوگوں نے کہا اس کا علاج ہو سکتا ہے دماغ ٹھیک ہو جائے گا مگر غریبوں کیلئے تو پیٹ بھرنا ہی مشکل ہو جاتا ہے، دوا دارو کہاں سے کریں۔ بے چارہ تلسیا محنت مزدوری کرتا ہے، بستی بھر کی چاکری کر کے جو چار روٹی کما لے ہے اس سے پاگل بہن کا اور اپنا پیٹ بھرتا تھا۔ سنسار میں اس کا بھی کوئی نہیں ہے، اپنی اس پگلی بہن کے سوا۔ بھاگ بھری پوری بستی میں بھاگتی پھرتی ہے۔ کبھی بچّے اس کا پیچھا کریں تو انہیں پتھر مار دیتی تھی۔ بس اس سے زیادہ اس نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا مگر بھیّا پھر یہ ہوا کہ سب سے پہلا چھوکرا رام لال کا تھا جو بے چارہ ڈائن کا شکار ہوا۔ رات ہی کا وقت تھا۔ مغرب کی اذان ہوئی ہوگی، تیل لینے باہر نکلا تھا کہ غائب ہوگیا۔ بے چارہ رام لال ایک ایک سے پوچھتا پھرا کہ کسی نے اس کے چھورا کو تو نہیں دیکھا۔ کسی نے نہ بتایا۔ صبح کو بھیّا ہریا کے کھیت کی مینڈھ پر رام لال کے چھوکرے کی لاش ملی، ساری چھاتی اُدھیڑ کر رکھ دی تھی کسی نے۔ سب یہی سمجھے کہ بگھرا لگ گیا۔ کبھی کبھی بھیّا بستی کے آس پاس جنگلوں سے بگھرا نکل آوے ہے اور اگر انسانی خون کا لاگو ہو جاوے تو پھر گھروں سے بچّے اُٹھا لے جائے ہے۔ چرواہوں کی بکریوں کو مار ڈالے ہے، بچوں کو لے جا کر کھا پی کر برابر کر دیوے ہے۔ پہرہ دینا پڑے ہے ایسے دنوں میں، چار پانچ بگھرے مارے جا چکے ہیں اس طرح۔ سب لوگ یہی سمجھے کہ بگھرا لگ گیا۔ رام لال کا گھر تو لٹ ہی گیا تھا، راتوں کو پہرے ہونے لگے۔ لوگ لٹھیا لے کر رات بھر اپنے اپنے حساب سے بستی کے چاروں طرف پہرہ دیا کرتے تھے لیکن کوئی ڈیڑھ مہینے کے بعد ہی دُوسرا واقعہ بھی ہوگیا اور اس بار منشی امام دین کا بیٹا بگھرے کے ہاتھ لگا تھا۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کا بھی کلیجہ نکال لیا گیا تھا پھر دھنو نے یہ بتایا کہ یہ کام بگھرے کا نہیں ہے کیونکہ بگھرا کسی گھر میں نہیں گھسا تھا۔ چرواہوں کی بکریوں کو اس نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا، کہیں اس کے پنجوں کے نشان نہیں ملے تھے۔ کہیں نہ کہیں سے تو پتہ چلتا۔ جہاں لاشیں پڑی ہوئی تھیں وہاں پر بھی بگھرے کے پیروں کے نشان نہ ملتے تھے جبکہ پہلے کبھی ایسا ہوا تو جگہ جگہ بگھرے کے پیروں کے نشانات دیکھے گئے پھر جب تیسری لاش ملی تو دھنو نے آخری بات کہہ دی کہ یہ کام کسی ڈائن کا ہے جو بچوں کے کلیجے نکال کر چبا جاتی ہے۔ بھیّا جمال گڑھی والوں کو پہلے کبھی کسی ڈائن کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ خوف پھیل گیا، پوری بستی میں لوگ کام دھندے چھوڑ کر ڈائن کی تلاش میں لگ گئے۔ بھاگ بھری کی طرف تو کسی کا خیال بھی نہیں گیا تھا۔ کسی کو کیا پتہ تھا کہ وہ بھاگ بھری نہیں، بھاگ جلی ہے اور وہ ڈائن بن گئی ہے۔ بستی کی پگلی کہلاتی تھی، کسی نے روٹی دے دی تو کھا لی۔ کسی نے کپڑے پہنا دیئے تو پہن لئے ورنہ اسے اپنا ہوش کدھر تھا۔ بے چارہ تلسیا ہی تھا جو بہن کو سنبھالے سنبھالے پھرتا تھا۔ ادھر چاکری کرتا تھا اُدھر بہن کی تیمارداری۔ پر بھیّا یہ تو بڑی ہی غضب ہوگیا چوتھا بچہ بھی اس کا شکار ہوگیا… اور جمال گڑھی میں ان دنوں بھیّا بس یوں سمجھ لو شام ڈھلی اور سناٹا ہوگیا۔ لوگوں نے گھروں کے دروازے بند کئے، دن میں سونا شروع کر دیا گیا اور راتوں میں جاگنا مگر ڈائن نظر نہیں آئی۔ کیا پتہ تھا کسی کو کہ بھاگ بھری ڈائن ہوگی۔ بے چارے رگھبیر رام کا بیٹا پرکاش بھی رات ہی کو کھویا تھا اور چاروں طرف ڈھونڈ مچی ہوئی تھی۔ سب ڈھنڈیا کر رہے تھے۔ سارے بستی والے لاٹھیاں سنبھالے رات بھر ادھر سے اُدھر پھرتے رہے اور اب صبح کو اس کی لاش مل گئی مگر تم نے بتا دیا بستی والوں کو کہ ڈائن کون ہے۔ ارے بھیّا ہاتھ نہیں لگی وہ جنک رام کے… جنک رام بھی بڑا بکٹ ہے اگر مل جاتی کہیں بھاگ بھری تو لٹھیا مار مار کر جان نکال لیتا اس کی۔ بڑا پریم کرتا تھا اپنے بھتیجے سے… اور رہتا بھی تو رگھبیر رام کے ساتھ ہی تھا۔ رگھبیر رام بے چارے کا بھی اکیلا ہی بیٹا تھا پرکاش، بڑا برا ہوا مگر اب… اب سمجھ میں نہ آوے آگے کیا ہوگا۔ یہ تو پتہ چل گیا کہ بھاگ بھری ڈائن ہوگئی ہے۔ پتہ نہیں کیوں ہم نے تو پہلے کچھ سنا بھی نہیں۔‘‘ میں خاموشی سے یہ کہانی سنتا رہا۔ بڑی دردناک کہانی تھی، ایک لمحے کیلئے یہ احساس بھی دل سے گزرا تھا کہ کہیں میرا یہ انکشاف غلط تو نہیں ہے اور ایک انسان بلکہ دو انسان میرے اس انکشاف کا شکار ہو جائیں گے۔ خدا نہ کرے ایسا ہو۔ خدا کرے جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہی سچ نکلے۔ یہاں کسی خبیث رُوح کا معاملہ نہیں تھا بلکہ ایک انسان ہی کا معاملہ تھا، پتہ نہیں اب کیا ہوگا۔ بہرطور بھٹیارے اللہ دین نے یہ کہانی سنائی۔ مجھے خاص نگاہوں سے دیکھا جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اللہ دین واپس آیا اور ایک روپیہ میرے حوالے کر گیا۔ کہنے لگا۔ ’’بھیّا ڈیڑھ روپے روز کا کوٹھا ملا ہے تمہیں، ہم نے اَٹھنّی کی رعایت کر دی ہے۔ اب ایک روپے روز پر تم یہاں رہ سکتے ہو۔ دیکھو بھیّا ہمارے ساتھ بھی تو پیٹ لگا ہوا ہے مجبوری ہے۔ ورنہ تم سے کچھ نہ لیتے۔‘‘
’’نہیں اللہ دین تمہارا شکریہ کہ تم نے رعایت کر دی میرے ساتھ، اب کھانا کھلوا دو۔‘‘
دوپہر کا کھانا جو دال روٹی پر مشتمل تھا، کھا کر فراغت حاصل کی تھی کہ شور شرابہ سنائی دیا۔ باہر نکل آیا دیکھا تو بہت سے لوگ سامنے کے گھر پر جمع تھے۔ یہ تو پتہ چل ہی گیا تھا کہ یہ گھر تلسی یا بستی والے جسے تلسیا کہتے تھے کا ہے۔ شاید بھاگ بھری گھر واپس آئی تھی اور پکڑی گئی تھی، اللہ دین اور زبیدہ بیگم بھی باہر نکل آئیں، پتہ یہ چلا کہ جنک رام اپنے آدمیوں کے ساتھ آیا تھا اور تلسی کو پکڑ کر لے گیا ہے۔
’’یہ تو ناانصافی ہے اللہ دین، جنک رام، تلسی کو کیوں پکڑ کر لے گیا؟‘‘
’’بھیّا خون سوار ہے جنک رام پر بھی، بھتیجا مر گیا ہے۔ کریا کرم کر کے لوٹے تھے کہ بے چارہ تلسیا گھر پر مل گیا، لے گئے اسے پکڑ کے…!‘‘
’’اب وہ کیا کریں گے اس کا…؟‘‘
’’اللہ جانے… تم بیٹھو میں معلوم کر کے آئوں۔‘‘
’’میں بھی چلوں؟‘‘
’’مرضی ہے تمہاری چلنا چاہو تو چلو۔‘‘
’’نا بھیّا مسافر تمہاری بڑی مہربانی ہوگی یہیں پر ٹک جائو۔ میری تو جان نکلی جاوے ہے، ارے کہیں بھاگ بھری میرے ہی گھر میں نہ گھس آئے۔ اللہ میرے کلو کو اپنی امان میں رکھے۔‘‘کلو، اللہ دین اور زبیدہ بیگم کی واحد اولاد تھی۔
وقت گزرتا رہا۔ میں سرائے کے کوٹھے میں آرام کرتے ہوئے یہ سوچتا رہا کہ مجھے جمال گڑھی آنے کی ہدایت کیا اسی سلسلے میں کی گئی ہے اور اگر یہی بات ہے تو میرا کیا عمل ہونا چاہیے۔ یہ تو بالکل ہی الگ سا واقعہ ہوگیا، ایک زندہ عورت انسانی خون کی لاگو ہوگئی تھی۔ میں اس کے خلاف کیا کر سکوں گا۔ کوئی بھوت پریت کا معاملہ تو تھا نہیں، شام کے تقریباً ساڑھے چار بجے ہوں گے کہ باہر سے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی اور پھر کسی نے میرے اس کوٹھے یا کمرے کی کنڈی بجائی۔ باہر نکلا تو بیگم اللہ دین کھڑی ہوئی تھیں، چہرے پر خوف کے آثار تھے۔ کہنے لگیں۔ ’’مسافر بھیّا ٹھاکر جی کے آدمی آئے ہیں، تمہیں بلانے کیلئے۔ باہر کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘
’’کون ٹھاکر جی…؟‘‘
’’ارے اپنی بستی کے مکھیا ہیں کوہلی رام مہاراج۔‘‘ زبیدہ بیگم نے بتایا۔ میں نے جلدی سے جوتے وغیرہ پہنے باہر نکل آیا۔ دو آدمی کھڑے ہوئے تھے۔ کہنے لگے۔ ’’بھائی صاحب آپ کو ٹھاکر جی نے بلایا ہے۔ بھاگ بھری کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے۔‘‘
’’اچھا اچھا چلو چل رہا ہوں…‘‘ اللہ دین ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ واقعی مست مولا آدمی تھا۔ گھر کی کوئی پروا نہیں تھی اسے… زبیدہ بیگم نے میرے باہر نکلتے ہی دروازہ مضبوطی سے بند کر لیا، میں ان دونوں کے ساتھ آگے بڑھتا رہا اور جمال گڑھی کے چھوٹے چھوٹے گھروں کے درمیان سے گزرتا ہوا ایک بڑے سے گھر کے سامنے آ رُکا جو لال رنگ کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا اور یقیناً یہی کوہلی رام جی کا گھر تھا۔ بڑے سے گھر کے سامنے جمال گڑھی کے سیکڑوں افراد جمع تھے، ہر ایک اپنی اپنی کہہ رہا تھا۔ دونوں آدمی میرے لیے ان کے درمیان راستہ بنانے لگے اور میں گھر کے سامنے پہنچ گیا، بڑی سی پتھر کی چوکی بنی ہوئی تھی جس پر مکھیا جی بیٹھے ہوئے تھے، صورت ہی سے مغرور آدمی نظر آتے تھے۔ دُوسرے تخت سے نیچے ہی کھڑے ہوئے تھے۔ بائیں طرف ایک مفلوک الحال نوجوان نظر آیا جسے رسّی سے کس دیا گیا تھا۔ اس کا رُخسار نیلا پڑا ہوا تھا، ایک آنکھ بھی نیلی ہو رہی تھی۔ ہونٹ سوجے ہوئے تھے، پیشانی پر خون جما ہوا تھا۔ کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ صاف لگتا تھا کہ اسے بہت مارا گیا ہے۔ میں نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ یہ تلسی یا ان لوگوں کی زبان میں تلسیا تھا، قابل رحم اور شریف معلوم ہوتا تھا۔
’’سلام کرو ٹھاکر جی کو۔‘‘ مجھے لانے والوں نے کہا۔ میں نے سرد نظروں سے ان دونوں کو دیکھا پھر ٹھاکر کو جو مجھے دیکھتے ہوئے بائیں مونچھ پر ہاتھ پھیرنے لگا تھا۔
’’ٹھاکر جی… یہ مسافر ہیں۔‘‘ مجھے لانے والے دُوسرے آدمی نے کہا۔
’’کہاں سے آئے ہو…؟‘‘ ٹھاکر نے پوچھا۔
’’بہت دُور سے۔‘‘
’’جگہ کا نام تو ہوگا۔‘‘
’’ہاں ہے مگر بتانا ضروری نہیں ہے۔‘‘
’’ارے… ارے ٹھاکر جی پوچھ رہے ہیں بتائو۔‘‘ انہی دونوں میں سے ایک نے سرگوشی کی۔
’’تم بکواس بند نہیں رکھ سکتے۔‘‘ میں نے غرا کر کہا اور وہ شخص بغلیں جھانکنے لگا۔
’’داروغہ لگے ہو کہیں کے، کوئی نام تو ہوگا تمہارا…‘‘ ٹھاکر نے کہا۔
’’تم نے مجھے میرے بارے میں پوچھنے کیلئے بلایا تھا، ٹھاکر…؟‘‘
’’پوچھ لیا تو کیا برائی ہے۔‘‘
’’بس مسافر ہوں اتنا کافی ہے اصل بات کرو۔‘‘
’’کہاں ٹھہرا ہے یہ؟‘‘ ٹھاکر نے دُوسرے لوگوں سے پوچھا۔
’’اللہ دین کی سرائے میں۔‘‘
’’ہوں، مسلمان ہے۔‘‘ ٹھاکر نے دُوسری مونچھ پر ہاتھ پھیرا۔ ’’کیا دیکھا بھئی تو نے؟‘‘
’’ان لوگوں نے تمہیں بتا دیا ہوگا۔‘‘ مجھے اس شخص پر غصّہ آ گیا تھا۔
’’تو بتا۔‘‘
’’بس اتنا دیکھا تھا کہ وہ عورت لاش کے پاس بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئی اور چیخ مار کر بھاگی پھر کھیتوں میں جا گھسی بعد میں جنک رام نے اسے وہیں دیکھا تھا۔‘‘
’’وہ لڑکے کا کلیجہ چبا رہی تھی؟‘‘ ٹھاکر نے پوچھا۔
’’یہ میں نے نہیں دیکھا۔ اس کی پیٹھ میری طرف تھی۔‘‘
’’ٹھاکر جی اس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے تھے۔ منہ پر بھی خون لگا ہوا تھا۔‘‘ جنک رام نے کہا تب میں نے اسے دیکھا۔ وہ بھی مجمع میں موجود تھا۔
’’چلو مان لیا میں نے، بھاگ بھری ڈائن بن گئی ہے مگر تلسی کا اس میں کیا دوش ہے؟‘‘
’’یہ اس کا بھائی ہے۔‘‘ ہیرا بولا۔
’’ارے تو یہ تو نہیں کہتا اس سے کچھ، اس بیچارے کو تم نے کیوں مارا۔‘‘ ٹھاکر بولا۔
’’اس سے کہو ٹھاکر کہ تلاش کر کے لائے اپنی بہن کو، اسے پکڑ کر لائے بستی والوں کے سامنے۔‘‘ جنک رام بولا۔
’’اور تم سب چوڑیاں پہن کر گھروں میں جا گھسو۔‘‘ ٹھاکر آنکھیں نکال کر بولا۔
’’ہمارے دل میں جو چتا سلگ رہی ہے ٹھاکر… تم اسے نہیں دیکھ رہے۔‘‘ جنک رام بولا۔
’’سب کچھ دیکھ رہا ہوں، بہت کچھ خبر ہے مجھے۔ دل کا حال بھی جانتا ہوں مگر یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ تم سب مل کر ڈھونڈو اسے یہ بھی ڈھونڈے گا۔ تمہارے بیچ کچھ نہیں بولے گا، کھولو اسے اور خبردار اس کے بعد کسی نے اسے ہاتھ لگایا، ارے مادھو کھول دے اسے۔‘‘ ایک دُبلا پتلا آدمی تلسیا کے بدن سے رسّی کھولنے لگا۔ ’’اور تم جائو داروغہ جی بس پوچھ لیا ہم نے تم سے۔‘‘ اس بار ٹھاکر نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا پھر اپنے نوکر مادھو سے بولا۔ ’’اسے اندر لے جا ہلدی چونا لگا دے، مار مار کر حلیہ بگاڑ دیا سسرے کا… ابے شکل کیا دیکھ رہا ہے میری لے جا اندر۔‘‘ آخر میں ٹھاکر جی نے کڑک کر مادھو سے کہا اور مادھو تلسی کا ہاتھ پکڑ کر اندر جانے کیلئے مڑ گیا۔ ٹھاکر صاحب دوسروں سے بولے۔
’’جائو بھائیو گھروں کو جائو۔ پہلے بھی برا ہوا تھا، اب بھی برا ہوا ہے مگر بات ایسے کیسے بنے گی۔ گدھے پر بس نہیں چلا گدھیا کے کان اینٹھے۔ اب تو ڈائن کا پتہ بھی چل گیا، بھاگ بھری کو پکڑ لو مگر سنو جو میں کہہ رہا ہوں، میں مکھیا ہوں جمال گڑھی کا، خود فیصلہ مت کر بیٹھنا پولیس بلوا لوں گا، بھاگ بھری مل جائے تو باندھ کر میرے پاس لے آنا سسری کو۔‘‘
لوگ منتشر ہونے لگے، میں بھی پلٹ پڑا۔ تھوڑی دُور چلا تھا کہ اللہ دین میرے قریب آ گیا۔ ’’خوب آئے بھیّا مسافر تم ہماری جمال گڑھی میں، کھیل ہی نیارے ہوگئے۔‘‘
’’ارے تم اللہ دین کہاں غائب ہوگئے تھے۔‘‘
’’ارے بس مسافر بھیّا بہتیرے کام تھے رگھبیر رام کے بیٹے کے کریا کرم میں شمشان گئے تھے پھر بے چارے تلسیا کی گھڑنت دیکھتے رہے، ٹھاکر کے آدمی نہ پہنچ جاتے تو جنک رام اس کا بھی کریا کرم کرا دیتا۔ بڑا لٹھیت ہے وہ۔‘‘
’’تلسی کو مارنا تو غلط تھا۔‘‘ میں نے اس کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
’’وہ تو ہے پر جنک رام پر تو خون سوار ہے۔‘‘
’’میرے خیال میں بری بات تھی۔ تمہارا یہ مکھیا عجیب نہیں ہے۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ اسی نے تلسی کو پٹوایا ہوگا۔‘‘
’’ارے مسافر بھیّا، تم نے تو اسے دو کوڑی کا کر کے رکھ دیا۔‘‘ اللہ دین نے قہقہہ لگایا۔ ’’منہ دیکھتا رہ گیا تمہارا۔‘‘
’’متعصب آدمی معلوم ہوتا ہے، عجیب سے انداز میں کہہ رہا تھا کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘
’’نا مسافر بھیّا نا… آدمی برا نہیں ہے۔ اصل بات بتائوں؟‘‘
’’کیا۔‘‘
’’ذات کا ٹھاکر نہیں ہے، بنا ہوا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’اہیر ہے ہرنام پور کا، ٹھکرائن گیتا نندی کا من بھایا تھا۔ انہوں نے ماں باپ کی مرضی کے بغیر شادی کرلی ان سے… ہرنام پور کے ٹھاکر سدھا نندی نے دولت جائداد دے کر دُور جمال گڑھی میں پھنکوا دیا۔ یہاں ٹھاکر کہلایا، اپنے آپ مکھیا بن گیا۔ دولت کے آگے کون بولے، سب نے مکھیا مان لیا۔ سوچے ہے سب سلام کریں، سر جھکائیں اور کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
’’اور کوئی سر نہیں جھکائے تو؟‘‘
’’خود جھک جائے ہے۔ سب کو پتہ چل گیا ہے کہ کیسا آدمی ہے، اس لیے لوگ اس کا مان رکھ لیں ہیں۔‘‘
’’دلچسپ بات ہے۔ اب ہوگا کیا؟‘‘
’’یہ تو مولا ہی جانے ہے مگر سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ بھاگ بھری پاگل تو ہے مگر… مولا جانے ایسی کیوں ہوگئی۔ چھوڑیں گے نا یہ لوگ اسے۔ سسری بستی سے بھاگ ہی جائے تو اچھا ہے۔‘‘ اللہ دین نے دُکھی لہجے میں کہا۔ سرائے آ گئی تھی۔
’’زبیدہ بہن کھانا پکایا ہے کیا؟‘‘
’’ہاں مونگ کی دال میں پالک ڈالاہے۔ مگر پیسے نہیں دیئے تھے تم نے۔‘‘
’’اری خدا کی بندی۔ اری خدا کی بندی۔ کچھ تو آنکھ کی شرم رکھا کر!‘‘
’’لو گھوڑا گھاس سے یاری کرے تو کھائے کیا۔‘‘
’’بہن ٹھیک کہہ رہی ہیں اللہ دین بھائی۔ آپ نے ویسے ہی میرے ساتھ رعایت کرا دی ہے۔ یہ پیسے بہن!‘‘ میں نے مطلوبہ پیسے دے دیئے بلکہ باقی پیسے بھی دے دیئے اور کہا کہ کل مزید پیسے دوں گا۔ ورنہ یہاں سے چلا جائوں گا۔
رات ہوگئی۔ چاروں طرف سناٹا پھیل گیا۔ باہر مٹی کے تیل کا اسٹریٹ لیمپ روشن تھا جس کی روشنی ایک کھڑکی کے شیشے سے چھن کر آ رہی تھی۔ میں بستر پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔ حکم ملا تھا جمال گڑھی جائوں وہاں سے بلاوا ہے۔ آ گیا تھا۔ واقعہ بھی میرے ہمرکاب تھا۔ اس سلسلے میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ نہ جانے کتنا وقت انہی سوچوں میں گزر گیا پھر ذہن نے فیصلہ کیا اور اُٹھ گیا۔ مٹکے میں پانی موجود تھا، لوٹا بھی تھا۔ وضو کر کے فارغ ہی ہوا تھا کہ بری طرح اُچھل پڑا، ’’لینا پکڑنا۔ جانے نہ پائے، پکڑو۔‘‘ کی بھیانک آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
بے اختیار باہر لپکا اور دروازہ کھول کر نکل آیا۔ دس پندرہ افراد پتھرائو کر رہے تھے، کوئی زمین پر پڑا ہوا تھا۔ غور سے دیکھا تو ایک دلدوز منظر نظر آیا۔ وہی عورت بھاگ بھری، تلسی کے نیچے دبی ہوئی تھی۔ تلسی شاید اسے بچانے کیلئے اس کے اُوپر گر پڑا تھا اور پتھر کھا رہا تھا۔ اس نے اپنا سر دونوں بازوئوں میں چھپا رکھا تھا اور پتھر اس کے بدن پر پڑ رہے تھے۔ پورا جسم تھرا کر رہ گیا۔ بے بسی سے دیکھتا رہا، کیا کرتا۔ اچانک تلسی اُچھل کر دُور جا گرا۔ بھاگ بھری نے اسے اُچھال دیا تھا۔ پھر اس نے بھیانک چیخ ماری، اس کا چہرہ اور سر کے بال خون سے رنگین ہو رہے تھے اور اتنی بھیانک لگ رہی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ اس نے ایک دُوسری منمناتی ہوئی چیخ ماری اور پتھرائو کرنے والوں کی طرف لپکی۔ سارے کے سارے سورما اس طرح پلٹ کر بھاگے کہ ہنسی آ جائے۔ دس بارہ تھے اور بڑھتے جارہے تھے، مگر سب جی چھوڑ بھاگے۔ بھاگ بھری نے دو تین لمبی لمبی چھلانگیں ماریں اور پھرایک طرف مڑ گئی۔ کچھ دیر کے لیے سناٹا چھا گیا۔ میرے پیچھے اللہ دین آ کھڑا ہوا تھا۔
’’کیا ہوگیا، کیا ہوا مسافر بھیّا؟‘‘
’’شاید بھاگ بھری آئی تھی۔‘‘
’’پھر…‘‘
’’لوگوں نے اسے پتھر مارے، جب وہ ان پر دوڑی تو وہ بھی بھاگ گئے اور بھاگ بھری بھی غائب ہوگئی۔‘‘
’’ارے، وہ تلسی ہے اسے کیا ہوگیا۔ تلسی ارے او تلسیا؟‘‘
’’ٹھور مار دئی بھیّا، جان نکال دی ہائے رام۔‘‘ تلسی رونے اور کراہنے لگا اور اللہ دین اس کے پاس پہنچ گیا۔
’’ارے ارے یہ پتھر، کیا انہوں نے پتھر مارے ہیں تجھے بھی؟‘‘ ابھی اللہ دین نے اتنا ہی کہا تھا کہ مارنے والے شور مچاتے ہوئے دوبارہ آ گئے۔ وہ سب غصّے سے پھنکار رہے تھے۔
’’کہاں گئی بھاگ بھری، کہاں چھپا دیا ہے۔‘‘
’’گھر میں گھسی ہے۔ نکال لائو، جائو۔ ہاں نہیں تو مار مار کر ہماری جان نکال دئی۔‘‘ تلسی نے روتے ہوئے کہا۔
’’تو نے اسے بھگایا ہے، تو نے اسے پتھروں سے بچایا ہے۔ نہیں تو آج وہ ماری جاتی۔‘‘ کسی نے کہا۔
’’تو رک کاہے گئے، مار مار پتھر ہماری چورن بنائے دیو، کون روکے ہے تمکا۔‘‘ تلسی بولا۔
’’تو نے مکھیا جی کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ تو بھاگ بھری کو پکڑوائے گا۔ بستی کے دُوسرے لوگوں کی طرح مگر تو نے اس کی حفاظت کی۔‘‘ ایک اور شخص نے الزام لگایا۔
’’ارے توہار حفاجت۔ چلو جرا تم لوگ مکھیا کے پاس، ہم اسے بتائیں کہ ہم بھاگ بھری کو دبوچ لیئں کہ وہ لمبی نہ ہو جائے پر ای سب نے ہمکا پتھر مار مار کر ہٹا دین اور اوکا نکلوا دین۔‘‘ تلسی نے بدستور روتے ہوئے کہا۔
اس بات پر سب کو سانپ سونگھ گیا۔ پھر ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر تلسی سے ہمدردی سے کہا۔
’’تو نے اس لیے پکڑا تھا تلسی؟‘‘
’’ارے جائو بس جائو تم لوگ بڑے سورما ہو، مرے کو مارو ہو۔‘‘ لوگ ایک ایک کر کے کھسکنے لگے۔ پھر سناٹا ہوگیا۔ تلسی اب بھی رو رہا تھا، بچوں کی طرح ہیں ہیں کر کے اور نہ جانے کیوں میرا دل کٹ رہا تھا۔ اللہ دین آگے بڑھ کر اس کے پاس پہنچ گیا۔
’’اُٹھ تلسیا۔‘‘ اس نے تلسی کا بازو پکڑ کر اُٹھاتے ہوئے کہا اور وہ اُٹھ گیا۔
’’بڑا مارا ہے ہمکا سب نے دینو بھیّا، صبح سے مار رہے ہیں!‘‘ وہ بدستور روتا ہوا بولا۔
’’آ میرے ساتھ اندر آ جا۔‘‘ اللہ دین اسے سرائے میں لے آیا۔ اندر لا کر بٹھایا اور پھر آواز دی۔ زبیدہ اری کیا گھوڑے بیچ کر سوئی ہے، ایک پیالہ دُودھ لے آ…
’’ہم نا پی ہے دینو بھیّا، جی نہ چاہ رہا بھیّا۔‘‘ تلسی اب بھی اسی طرح رو رہا تھا۔
’’چپ تو ہو جا تلسی، کیا زیادہ چوٹ لگی ہے؟‘‘ اللہ دین نے ہمدردی سے کہا۔
’’ارے ہم چوٹ پر نا رو رہے۔ ہمار من تو بہنیا کے لیے رووے ہے، ماتا کی سوگند دیکھو بھیّا ہمار بہنیا ڈائن نہ ہے۔ ہم اسے جانیں ہیں۔ او سسری تو کھود بھاگ جلی ہے۔ اولاد کے دُکھ کی ماری۔ تم کھود دیکھت رہے ہو بچّے اسے پتھر ماریں ہیں۔ وہ ان سے کچھ کہے ہے کبھی۔‘‘
’’مگر تلسی صبح کو اسے مسافر بھیّا نے دیکھا تھا۔‘‘ اللہ دین بولا۔
’’ارے پگلیا تو ہے ہی، ڈولت ڈولت پھرے ہے۔ شریر پڑا دیکھا ہوگا رگھبیرا کے چھورا کا۔ بیٹھ گئی ہوگی۔ ٹٹولنے لگی ہوگی۔ کھون لگ گیا ہاتھ منہ پر، کسی نے اسے کلیجہ کھاتے ہوئے دیکھا؟
میرا دل دھک سے ہوگیا۔ ایسا ہو سکتا تھا، یہ ممکن تھا۔ یہ انکشاف میں نے کیا تھا۔ بستی والوں کو میرے ذریعہ یہ سب معلوم ہوا تھا، میں پتھرا گیا۔ تلسی کہہ رہا تھا۔ ’’اب اللہ دین بھیّا لاگو ہوگئے ہیں، مار ڈالیں گے ہمار بہنیا کو سب مل کر…‘‘
’’نہیں تلسی۔ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’ایسا ہی ہوگا ہمکا پتہ ہے۔‘‘
’’اگر بھاگ بھری نے دیوانگی میں، ان بچوں کو مار کر ان کا کلیجہ نہیں کھا لیا ہے تلسی تو میں وعدہ کرتا ہوں جمال گڑھی والوں کی یہ غلط فہمی دُور کر دوں گا۔ اگر اس نے ایسا کیا ہے تو پھر مجبوری ہے۔‘‘
’’تو یہیں سو جا تلسی اپنے گھر مت جا۔‘‘
’’نا دینو بھیّا گھر جانے دو اگر وہ پھر آ گئی تو۔ دینو بھیّا ہم کوئی اسے پکڑ تھوڑی رہے تھے۔ ہم تو اسے بچا رہے تھے۔ اس پر پڑنے والے پتھر کھا رہے تھے۔ بہنیا ہے ہمار وہ۔ ارے ہم اسے نا مرنے دیں گے اسے۔ چلے بھیّا تمہاری مہربانی۔‘‘ وہ وہاں سے چلا گیا۔
بہت دیر خاموشی رہی۔ پھر میں نے کہا۔ ’’اللہ دین بھائی تمہارا کیا خیال ہے۔ کیا وہ ڈائن ہے۔‘‘
’’مولا جانے۔‘‘
اللہ دین گہری سانس لے کر بولا۔
’’ایک بات بتائو اللہ دین۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’بستی والے مکھیا کی بات مانتے ہیں؟‘‘
’’بہت، کسی بات پر ٹیڑھا ہو جائے تو سب سیدھے ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’میں مکھیا سے ملوں گا۔ اس سے کہوں گا کہ وہ بستی والوں کا جنون ختم کرے۔ ان سے کہے کہ وہ خود کھوج کر رہا ہے۔ پتہ چل گیا کہ بھاگ بھری ہی ڈائن ہے تو وہ خود اسے سزا دے گا۔ اس نے بستی والوں سے یہ بات کہی بھی تھی۔‘‘ میں نے یہ جملے کہے ہی تھے کہ اندر سے زبیدہ کی آواز سنائی دی۔
’’ارے اب اندر آئو گے یا باہر ہی رہو گے۔ میں کب سے بیٹھی ہوں۔‘‘
’’جاگ رہی ہے؟ اچھا مسافر بھیّا آرام کرو۔‘‘ اللہ دین اندر چلا گیا۔ میں اپنے کمرے میں آ گیا۔ باوضو تھا اور اس ہنگامے سے پہلے ایک ارادہ کر کے اُٹھا تھا چنانچہ اس پرعمل کا فیصلہ کرلیا۔ ایک صاف ستھری جگہ منتخب کی اور وہاں دو زانو بیٹھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ مجھے درود شریف بخشا گیا تھا۔ یوں تو کلام الٰہی کا ہر زیر زبر پیش مد اور جزم اپنی جگہ آسمان ہے مگر مجھے رہنمائی کے لیے درود پاک عطا کیا گیا تھا، چنانچہ آنکھیں بند کر کے میں نے ورد شروع کر دیا۔ پڑھتا رہا ذہن سو سا گیا مگر ہونٹوں سے درود پاک جاری رہا۔ تب میرے ذہن میں کچھ خاکے اُبھرنے لگے۔ ایک بندر کی شکل اُبھری جو تاج پہنے ہوئے تھا پھر ایک عمارت کا خاکہ اُبھرنے لگا۔ بندر کے قدموں میں کوئی سیاہ سی شے پھڑک رہی تھی، سمجھ میں نہ آ سکا کیا ہے۔ عمارت کے محراب نما دروازے پھر ایک چہرہ۔ پہلے آنکھیں پھر ناک اور ہونٹ پھر پورا چہرہ۔ ایک مکمل چہرہ جو کسی عورت کا تھا۔ اس کے بعد دماغ کو جھٹکا سا لگا اور میں جیسے جاگ گیا۔ میری پیشانی شکن آلود ہوگئی۔ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ وہ چہرہ یاد تھا، عمارت کے نقوش یاد تھے اور بس۔ دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا اس کے بعد دوبارہ درود شریف پڑھنا شروع کیا۔ اور وضاحت چاہتا تھا لیکن شاید اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا جانا تھا اس لیے نیند آ گئی اور وہیں لڑھک کر سو گیا۔ نہ جانے کتنا وقت گزرا تھا سوتے ہوئے کہ اچانک ایک بھیانک چیخ سنائی دی اور پھر مسلسل چیخیں اُبھرنے لگیں۔ ایک لمحے تو دماغ سناٹے میں رہا پھر احساس ہوا کہ چیخوں کی آوازیں زبیدہ اور اللہ دین کی ہیں۔ اٹھا اور دوڑتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔ زبیدہ ہی تھی اور اس کے منہ سے آوازیں نکل رہی تھیں۔
’’ہو، ہو، ہو۔‘‘ اس کا حلیہ بگڑا ہوا تھا۔ چہرہ خوف کے مارے سرخ ہو رہا تھا۔ آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ اس کا ایک ہاتھ کمرے کے دروازے کی طرف اٹھا ہوا تھا اور وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر دہشت نے زبان لڑکھڑا دی تھی۔ چیخوں کی آواز کے سوا کچھ منہ سے نہیں نکل پا رہا تھا۔ اللہ دین بھیّا کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔ ان دونوں کو سنبھالنا تو مشکل تھا مگر یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ جو کچھ بھی ہے اس کمرے میں ہے جس میں یہ سوتے ہیں چنانچہ اللہ کا نام لے کر کمرے کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ اندر لالٹین ٹمٹما رہی تھی اور اس کی مدھم ملگجی روشنی کمرے کے ماحول کو اور خوفناک بنا رہی تھی۔ بستر پر کلو بے سُدھ پڑا ہوا تھا۔ اچانک میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ دل اُچھل کر حلق میں آ گیا۔ کلو… کلو… ساکت ہے! اتنے شور و شرابے کے باوجود اس کے بدن میں جنبش نہیں ہے۔ تو کیا وہ…؟ مگر یہ سوچ مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک چوڑے پلنگ کے نیچے سے دو ہاتھ باہر نکلے اور انہوں نے برق رفتاری سے میرے دونوں پائوں پکڑ کر کھینچے۔ میں توازن نہ سنبھال سکا اور دھڑام سے نیچے آ رہا۔ میرے گرتے ہی ایک بھیانک وجود پلنگ کے نیچے سے نکل آیا۔ وہ وحشیانہ انداز میں میرے سینے پر آ چڑھا تھا اور میرے اعضاء بالکل ساکت ہوگئے تھے۔
خوفناک وجود ایک لمحے میرے سینے پر سوار رہا پھر اس نے ایک اور چیخ ماری اور میرے سینے سے اتر کر دروازے کی طرف لپکا اور جھپاک سے باہر نکل گیا۔ اللہ دین دوبارہ چیخا۔ زبیدہ دھڑام سے زمین پر گر پڑی۔ وہ شاید بے ہوش ہوگئی تھی۔ میں سنبھل کر کھڑا ہوگیا۔ اللہ دین خوف زدہ لہجے میں بولا۔ ’’نکل گئی، نکل گئی۔‘‘ میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور پہلے اللہ دین کے بیٹے کلو کو دیکھا۔ بغور دیکھنے سے اندازہ ہوگیا کہ بچہ گہری نیند سو رہا ہے اور کوئی بات نہیں ہے۔ اندازے سے میں نے ایک خوفناک وجود کو بھی پہچان لیا تھا۔ وہ بھاگ بھری ہی ہوسکتی تھی۔ اللہ دین ایک طرف بیوی کو سنبھال رہا تھا اور دوسری طرف بیٹے کیلئے فکرمند تھا۔
’’تمہارا بیٹا سو رہا ہے اور بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’ارے زبیدہ، ہوش میں آ…! کلو ٹھیک ہے، اسے کچھ نہیں ہوا۔‘‘ اللہ دین نے اسے اٹھا کر چارپائی پر لٹایا اور میرے پاس آکر کلو کو دیکھنے لگا۔ پھر ہاتھ جوڑ کر بولا۔ ’’مولا تیرا شکر ہے۔‘‘
’’وہ بھاگ بھری تھی…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ارے ہاں! اس سسری نے تو ناک میں دم ہی کردیا۔ لو یہاں بھی آگھسی۔ اب کیا ہوگا؟ مولا نہ کرے اگر ہم جاگ نہ جاتے تو…!‘‘
’’کیا ہوا تھا…؟‘‘
’بس مسافر بھیا! یہ دھماچوکڑی ہوئی تو دروازہ کھلا رہ گیا۔ ہم سو گئے تھے، کسی کھٹکے سے آنکھ کھلی تو اس بھیڑنی کو دیکھا، کلو پر جھکی ہوئی تھی۔ ہم سمجھے کہ مولا نہ کرے…! مولا تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘ اللہ دین سجدے کرنے لگا۔
کچھ دیر کے بعد زبیدہ بیگم ہوش میں آگئیں۔ چیخیں مار کر رونے لگیں۔ بڑی مشکل سے انہیں یقین آیا کہ کلو زندہ ہے۔ نہ جانے کیا کیا اول فول بکنے لگیں۔ میں واپس اپنے کمرے میں آگیا تھا۔ رات تقریباً پوری گزر چکی تھی۔ اس کے بعد نیند نہیں آئی۔ نماز سے فراغت پا کر باہر نکل آیا۔ بڑی خوشگوار صبح تھی۔ ننھے منے پرندے چہلیں کررہے تھے۔ اللہ دین بھی میرے پاس آگیا۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا تو وہ فکرمندی سے بولا۔ ’’بڑی مشکل آگئی مسافر بھیا… اب ہوگا کیا؟‘‘
’’سب ٹھیک ہوجائے گا، فکر مت کرو۔‘‘
’’گھر والی تو بری طرح ڈر گئی ہے۔ بخار آگیا ہے بے چاری کو… ویسے اب تو کچھ گڑبڑ لگے ہی ہے مسافر بھیا!‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’بھاگ بھری ڈائن بن ہی گئی۔ بال بال بچ گیا ہمارا کلو!‘‘ اللہ دین نے کہا۔ میرے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں تھا، کیا کہتا۔ کوئی فیصلہ کن بات کہنا مشکل ہی تھا۔
’’چائے بنا لیں، ناشتے میں کیا کھائو گے؟‘‘
’’جو بھی مل جائے۔‘‘ میں نے کہا اور اللہ دین چلا گیا۔ میں خیالات میں کھو گیا۔ وہ چہرہ اور وہ عمارت یاد تھی جسے مراقبے کے عالم میں دیکھا تھا۔ ہدایت کی گئی تھی کہ اب خود پر بھروسہ کروں۔ کمبل واپس لے لیا گیا تھا۔ امتحان تھا مگر دل کو یقین تھا کہ امتحان میں پورا اتارنے والی بھی وہی ذات باری ہے جس نے اس امتحان کا آغاز کیا ہے۔ خیالوں میں جیب میں ہاتھ چلا گیا۔ کوئی مانوس شے نظر آئی، نکال کر دیکھا تو چار روپے تھے ۔یہ تائید غیبی تھی۔ مجھے اس اعتماد پر یقین دلایا گیا تھا جو میرے دل میں تھا۔ میرا وظیفہ مجھے عطا کردیا گیا تھا۔ بڑی تقویت ملی۔ دل کو اور اطمینان ہوگیا کہ جو کچھ ہوگا، بہتر ہوگا۔ چائے پیتے ہوئے تین روپے اللہ دین کو دے دیئے۔ وہ بولا۔ ’’شرمندہ کررہے ہو مسافر بھیا! مگر اتنے کاہے کو…؟‘‘
’’بس حساب رکھنا، کل پھر دوں گا۔‘‘ اللہ دین نے شرمندگی سے سر جھکا لیا تھا۔ کوئی نو بجے ہوں گے کہ تلسی کراہتا ہوا آگیا۔
’’بخار چڑھ گیا ہے سسرا… بھیا دینو، ایک اٹھنی ادھار دے دو گے؟‘‘
’’ہاں… ہاں! کیوں نہیں، یہ لو۔‘‘ اللہ دین نے جیب سے اٹھنی نکال لی۔
’’یہ روپیہ بھی لے تو تلسی! فالتو پڑا ہے میری جیب میں۔‘‘ میں نے جیب سے روپیہ نکال کر تلسی کو دیا جو اس نے بڑی مشکل سے لیا تھا۔ گیارہ بجے کے قریب میں بستی گھومنے نکل گیا۔ آبادی بہت چھوٹی تھی۔ ایک مسجد بھی بنی ہوئی تھی مگر نہایت شکستہ حالت میں، کوئی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں نظر آیا۔ اندر داخل ہوگیا، صفائی ستھرائی کی۔ اذان بھی نہیں ہوئی، میں نے خود اذان دی لیکن ایک بھی نمازی نہ آیا۔ نماز سے فارغ ہوکر گھومنے نکل گیا۔ کھیتوں اور جنگلوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہاں! کافی دور نکل آنے کے بعد ایک مٹھ نظر آیا۔ اس کے عقب میں ایک سیاہ رنگت عمارت بھی نظر آئی تھی۔ قدم اسی جانب اٹھ گئے۔ عمارت کے اطراف میں انسانی قد سے اونچی جھاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ ان کے درمیان پیلی سی پگڈنڈی بھی پھیلی ہوئی تھی جو اسی عمارت تک جاتی تھی۔ میں اسی پگڈنڈی پر آگے بڑھتا رہا۔ راستے میں کئی جگہ سانپوں کی سرسراہٹ بھی سنائی دی تھی۔ یقیناً ان جھاڑیوں میں سانپ موجود تھے۔ ویرانے میں بنی ہوئی یہ عمارت بڑی عجیب نظر آرہی تھی لیکن میرے لئے بہت دلچسپی کا باعث تھی۔ چنانچہ میں آگے بڑھتا ہوا اس کے دروازے پر پہنچ گیا اور پھر اچانک ہی میرے دماغ کو ایک جھٹکا سا لگا۔ عالم استغراق میں جو عمارت میں نے دیکھی تھی، اس وقت یقیناً وہی میری نگاہوں کے سامنے تھی۔ کم ازکم اس سلسلے میں مجھے اپنی یادداشت پر بھروسہ تھا۔ میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس کا مقصد ہے کہ جو نشاندہی کی گئی تھی، وہ بالکل مکمل تھی اور یقینی طور پر مجھے یہاں سے کوئی رہنمائی ملے گی۔ وہی محرابیں، وہی انداز… آگے بڑھتا ہوا اس بڑے سے ٹھنڈے ہال میں پہنچ گیا جو نیم تاریک تھا، روشن دانوں سے جھلکنے والی کچھ روشنی نے ماحول کو تھوڑا سا منور کردیا تھا ورنہ شاید نظر بھی نہ آتا۔ درمیان میں ہنومان کا بت استادہ تھا۔ ہاتھ میں گرز لئے، ہنومان کا بت بہت خوفناک نظر آرہا تھا اور اس سنسان ماحول میں یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی بت اپنی جگہ سے آگے بڑھے گا اور مجھ پر حملہ کردے گا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک دیکھی حالانکہ پتھر کا تراشا ہوا بت تھا لیکن آنکھیں جاندار معلوم ہوتی تھیں۔ میں ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا لیکن بت میں کوئی جنبش نہیں ہوئی تھی۔ یہ صرف تنہائی اور ماحول کا دیا ہوا ایک تصور تھا البتہ یہ بات میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میری رہنمائی بے مقصد نہ کی گئی ہوگی۔ آگے بڑھ کر بت کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ ہلکی ہلکی سرسراہٹوں سے یوں محسوس ہوا تھا جیسے آس پاس کہیں کوئی موجود ہے لیکن نظر کوئی بھی نہیں آرہا تھا۔ میں نے بت کے قدموں میں دیکھا اور دوزانو بیٹھ کر دیکھنے لگا۔