سمجھ میں آنے والی تو خیر کوئی بات تھی ہی نہیں۔ یہاں آنے کے بعد جو کچھ دیکھا تھا، ان میں سے ایک دو باتیں ہی سمجھ میں آئی ہوں تو آئی ہوں، ورنہ کچھ نہیں سمجھ پایا تھا۔ چندربھان کی کمر سے بندھی ہوئی زنجیر اور اس کے پیروں میں پڑے ہوئے زنجیروں کے کڑوں کو دیکھا۔ موٹے موٹے لوہے کے کڑے تھے جن میں انتہائی مضبوط زنجیریں باندھ کر انہیں دیواروں میں لگے ہوئے کڑوں سے باندھ دیا گیا تھا۔ میں نے ان کڑوں اور زنجیر کی مضبوطی کا اندازہ لگایا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جن سے ان کڑوں کو توڑنے کی کوشش کی جائے اور پھر یہ منظر انتہائی حیران کن تھا کہ چندر بھان مہاراج یہاں پر قیدی تھے اور رانی مہاوتی ان کے نام پر اس شاندار محل میں راج کررہی تھی۔ وہ عورت تو مجھے ایک نگاہ میں ہی پراسرار لگی تھی اور اب اس کے بعد جو واقعات پیش آئے تھے، انہوں نے کوئی شک نہیں چھوڑا تھا۔ میں نے افسوس بھرے انداز میں کہا۔
’’مگر چندر بھان جی! میرے پاس تمہاری زنجیروں کو توڑنے کیلئے تو کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘
’’بھگوان کیلئے… بھگوان کیلئے کچھ بھی کرو۔ جو تمہارا من…!‘‘ چندر بھان نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ دفعتاً اس کے چہرے پر خوف کے آثار پھیل گئے۔ اس کی نگاہیں میرے عقب میں کھلے ہوئے دروازے پر جم گئیں۔ میں نے بھی تیز روشنی میں ایک سایہ سا محسوس کیا۔ پلٹ کر دیکھا تو حلق سے ایک دہشت بھری آواز نکل گئی۔ لمبے چوڑے بدن کا مالک تھا وہ، انسان کہنا اس کو غلط تھا۔ ہاں انسان نما چیز ضرور تھی۔ خوفناک لمبے لمبے بال اس کے پورے چہرے، گردن اور کھلے ہوئے بازوئوں پر نظر آرہے تھے۔ باقی جسم پر لباس تھا، آنکھیں بے حد خوفناک اور ضرورت سے زیادہ بڑی بڑی! ناک کے بارے میں بھی کوئی صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا کہ وہ بھی تقریباً کانوں تک ہی پھیلی ہوئی تھی اور دہانہ بہت چھوٹا! وہ خونخوار نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ غراتا ہوا دو قدم آگے بڑھا اور میں ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ لیکن جیسے ہی اس کی نگاہ میری آنکھوں سے ٹکرائی، دفعتاً وہ اس انداز میں پیچھے ہٹ گیا جس انداز میں آگے بڑھا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھنچ گئی تھیں اور وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کے حلق سے خونخوار غراہٹیں نکلنے لگیں اور وہ اپنی جگہ کھڑا کھڑا اچھلنے لگا۔ اس نے اپنی موٹی انگلی سے میرے سینے کی جانب اشارہ کیا اور پھر اس انگلی کو کھلے ہوئے دروازے کی جانب لے گیا۔ جیسے کہہ رہا ہو کہ باہر نکل جائو۔ میں خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا اور یہ اندازہ لگا رہا تھا کہ یہ انوکھی مخلوق انسان ہے بھی یا نہیں…! پھر اس کے حلق سے ایک چنگھاڑ سی نکلی اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بال نوچنے لگا۔ سر کے بالوں کے گچھے کے گچھے اس نے اکھاڑ کر پھینک دیئے۔ جسم کے بالوں کو بھی نوچنے لگا۔ اس کے حلق سے غراہٹیں نکل رہی تھیں اور وہ ادھر سے ادھر دوڑ رہا تھا۔ کبھی اس طرف کی دیوار سے ٹکراتا اور کبھی دوسری طرف کی دیوار سے! پھر وہ زمین پر گر کے زمین پر لوٹنے لگا۔ جگہ جگہ سے اس نے اپنا جسم کاٹنا شروع کردیا اور میں نے اس کے جسم سے خون ابلتا ہوا دیکھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس پر یہ کس قسم کا دورہ پڑ گیا ہے لیکن ایک اندازہ میں نے ضرور لگا لیا تھا کہ وہ شدید غصے کے عالم میں مجھ سے باہر نکل جانے کیلئے کہہ رہا تھا اور اپنی بوٹیاں چبائے جارہا تھا البتہ اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل پایا تھا۔ بالکل گونگوں کا سا انداز تھا۔ شاید وہ گونگا تھا۔ چند لمحات کے بعد چندر بھان ہی نے کہا…‘‘
’’دیر کردی، دیر ہوگئی اب…! اب ساری بلا مجھ پر ہی آئے گی۔ تم سے یہ کچھ نہیں کہہ رہا مگر… مگر مجھ سے بدلہ لے گا۔ جائو… جائو باہر نکل جائو، پتا نہیں اس نے تم پر حملہ کیوں نہیں کیا؟ اپنا غصہ کیوں ضبط کررہا ہے۔‘‘
’’یہ گونگا ہے…؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’کون ہے یہ…؟‘‘
’’آ… آ… آ…!‘‘ چندر بھان کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اپنے الفاظ کو آہوں میںتبدیل کرکے رہ گیا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’جائو… جائو نکل جائو۔ ہوسکے تو دوبارہ مجھ مظلوم کی طرف رخ کرنا۔ کسی کو میرے بارے میں بتا دینا۔ لوگوں سے کہہ دینا کہ چندر بھان… چندر بھان!‘‘ دفعتاً ہی نیچے لیٹا ہوا آدمی ہولناک آواز میں چیخا۔ یہ آواز اس کمرے میں اس طرح گونجی تھی کہ کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔ اس کے بعد اس نے چندر بھان کی طرف چھلانگ لگائی اور چندر بھان بھی خوف زدہ ہوکر پیچھے ہٹ گیا تھا مگر اس شخص نے چندر بھان پر بھی حملہ نہیں کیا۔ پھر میری جانب مڑا اور دروازے کی جانب اشارہ کرکے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ اب وہاں رکنا حماقت تھی، ظاہر ہے اس بھونچال سے مقابلہ کرنے کا تو تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اور پھر مقابلہ کس بنیاد پر کرتا!
کچھ بھی تو معلوم نہیں تھا مجھے، ایک اور انوکھی چیز دیکھی تھی میں نے یہاں، اور پھر میں حیران دروازے سے باہر نکل آیا تھا۔ باہر کا منظر وہی تھا۔ چلچلاتی دھوپ، سنسان اور ویران راستے! وہ میرے پیچھے پیچھے آیا تھا اور اس نے میرے باہر نکلتے ہی یہ دروازہ بھی بند کردیا تھا جبکہ چندر بھان کے کمرے کا دروازہ وہ پہلے ہی بند کر آیا تھا۔ میں ایک لمحہ کھڑا اس بند دروازے کو دیکھتا رہا۔ پھر گردن جھٹک کر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ لعنت ہے… لعنت ہے اس زندگی پر! جو کچھ بھی نظر آتا ہے، ایسا ہی نظر آتا ہے جس کا سر پیر سمجھ میں ہی نہ آئے۔ وہاں سے واپس پلٹ پڑا اور ادھر ادھر گھومنا بیکار سمجھ کر اپنی رہائشگاہ میں آگیا۔ دیر تک اس سارے قصے کے بارے میں سوچتا رہا اور اس کے سوا اور کوئی اندازہ نہیں لگا سکا تھا کہ مہاوتی پُراسرار اور خطرناک عورت ہے۔ وہ کیا ہے اور کیا کررہی ہے، اس کے بارے میں ظاہر ہے مجھے کچھ معلوم نہیں تھا اور نہ ہی ان سارے گورکھ دھندوں کے بارے میں میری کوئی معلومات۔ حالانکہ طویل عرصے سے اس جال میں پھنسا ہوا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ حاجی صاحب نے مجھے اس لئے تو یہاں نہیں بھیجا کہ مہاوتی کے بارے میں معلومات حاصل کروں۔ مہاوتی بس حاجی صاحب کی ایک پارٹی تھی اور حاجی صاحب نے اسے ساڑھیاں فروخت کی تھیں جن کا معاوضہ انہیں مل گیا تھا۔ اگر آج شام تک مہاوتی مجھے وہ ڈیزائن نہیں دے دیتی اور حاجی صاحب کیلئے نیا آرڈر نہیں دے دیتی تو میں یہاں سے واپس چلا جائوں گا۔ حاجی صاحب سے کہہ دوں گا کہ وہاں کچھ ایسے عجیب و غریب حالات کا سامنا کرنا پڑا جن کی وجہ سے میں وہاں نہیں رک سکا۔ حاجی صاحب اچھے آدمی ہیں، اس بات کا برا نہیں مانیں گے۔ بہرحال میں اپنی جان تو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ مجھے اپنی جان کی کوئی پروا نہیں تھی۔ سب کچھ ہورہا تھا، سب کچھ! پورے سکون کے ساتھ کررہا تھا لیکن نقطۂ نظر ابھی تبدیل نہیں ہوا تھا۔ اپنی ذات کے ساتھ بھلا اس وقت تک کیا دلچسپی ہوسکتی تھی جب تک کہ ماں، باپ اور بہن، بھائی نہ مل جائیں۔ ان کیلئے ہی تو زندگی لٹا دی تھی۔ جو کھو گیا تھا، اسے پانے کی آرزو میں ہی تو جی رہا تھا۔ اگر یہ آرزو ختم ہوجائے اور دل اس بات کا یقین کرلے کہ اب وہ زندگی میں کبھی نہیں آئیں گے تو پھر ایک لمحے بھی میرے لئے جینا بیکار تھا۔ کیا فائدہ اس طرح تنہا جینے سے۔ ملنے کو تو بہت کچھ مل جائے گا لیکن سب سے بڑی طلب ماں، باپ کی تھی۔ سب سے بڑی حسرت انہی کی تھی اور اس حسرت، اس کسک کو دل میں دبائے جہاد کررہا تھا اپنے آپ سے اور کوششیں کررہا تھا کہ مجھے میری کھوئی ہوئی ہستی واپس مل جائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو اس کے بعد ایک معمولی انسان کی حیثیت سے اپنے ماں، باپ کے قدموں میں زندگی بسر کرنا دنیا کی سب سے بڑی عبادت سمجھوں گا۔
شام ہوگئی۔ سورج کی قہر سامانیاں ختم ہوگئیں اور جب سورج چھپا تو نجانے کہاں سے بند ہوائیں چل پڑیں اور ماحول پر ایک فرحت انگیز کیفیت طاری ہوگئی۔ سندری دوبارہ میرے پاس نہیں آئی تھی۔ اس واقعہ کے بعد سے مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ مجھ سے روٹھ گئی ہو۔ میں لعنت بھیجتا تھا ایسی سندریوں پر لیکن شام کو جب میرے لئے کھانے پینے کی چیزیں آئیں اور میں انہیں کھانے میں مصروف ہوگیا تو کھانا لانے والے ملازم نے کہا۔
’’مہاراج! آپ تیار ہیں، کالی داس جی نے کہا ہے کہ کھانے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ کو رانی مہاوتی جی سے ملنا ہے۔‘‘
’’رانی جی آگئیں؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’ٹھیک ہے تم بھی انہیں میرا یہ پیغام دے دو کہ میں فوراً ہی ان سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے کھانے سے جلدی جلدی فراغت حاصل کی اور انتظار کرنے لگا کہ رانی مہاوتی مجھے بلائیں۔ آنے والا کالی داس ہی تھا۔ وہی کالا بھجنگ جو اب مجھے انسان سے زیادہ شیطان معلوم ہونے لگا تھا۔ خصوصاً اس وقت سے جب سے میں نے اسے تصویر سے غائب ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی اس کے ہونٹوں پر، پھر وہ بولا۔
’’آیئے مہاراج…! رانی مہاوتی آپ کو ڈیزائن دینا چاہتی ہیں۔‘‘ میں خاموشی سے اس کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ وہ مجھ سے چند قدم آگے چل رہا تھا۔ مختلف غلام گردشوں اور راہداریوں سے گزار کر وہ مجھے محل کے اندرونی حصے میں لے گیا۔ بڑے سے چوبی دروازے کو کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ وسیع و عریض کمرہ تھا جس میں شاندار اور قیمتی فرنیچر سجا ہوا تھا۔ رانی مہاوتی ایک بہت قیمتی اور چوڑی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ قیمتی ساڑھی پہنے ہوئے، چہرے پر وہی پروقار کیفیت جسے دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ کوئی کسی رانی ہی کے سامنے ہے۔ مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور کہنے لگیں۔ ’’آئو… آئو آگے آئو، رک کیوں گئے؟ کالی داس! ہمارے مہمان کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی تمہارے گھر میں؟‘‘
’’کوشش تو یہی کی ہے مہارانی کہ آپ کے مہمان کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔‘‘ کالی داس کے لہجے میں ایک تمسخر چھپا ہوا تھا۔
’’ان کی خاطر مدارات بھی کی…؟‘‘
’’ہاں…! مگر سندری کہتی ہے کہ یہ سندرتا کو پسند نہیں کرتے۔‘‘ کالی داس نے جواب دیا۔
’’تم بھی بدھو ہو نرے کالی داس جی! جس کے چرنوں میں اندر سبھا سجتی ہو، اسے سندری کی سندرتا سے کیا لگائو ہوگا مگر پورن بھگت ہمیں بھگنتی کا سبھائو نہیں دے رہے۔ کیوں پورن مہاراج؟‘‘ رانی نے دل موہ لینے والی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ رانی جو کچھ کہہ رہی تھی، وہ سمجھ میں آرہا تھا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ہم سے بولو گے نہیں مہاراج…؟‘‘
’’حکم دیجئے رانی جی!‘‘ میں نے کہا۔
’’اپنے بارے میں بتائو گے نہیں؟‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’ایک مسلمان کے ہاں نوکری کررہے ہو، نام بھی مسلمانوں جیسا، روپ بھی ان کا سا، ایسا کیوں ہے؟‘‘
’’اس لئے کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘
’’کوئی مسلمان پورن نہیں ہوسکتا یا کوئی پورن مسلمان نہیں رہ سکتا۔‘‘ رانی نے کہا۔
’’آپ کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آرہی ہیں رانی جی! مجھے یہاں بہت وقت گزر چکا ہے۔ میں جانا چاہتا ہوں۔ حاجی صاحب میرا انتظار کررہے ہوں گے۔‘‘
’’آپ ایسے کہاں جائیں گے پورن مہاراج! ہمیں کچھ دیتے جایئے۔ ایسے ہی تھوڑی روکا ہے آپ کو! چلیں ٹھیک ہے آپ کی بات ہی سہی۔ دیکھئے ہمیں ایسے سو دوشالے بنوانے ہیں، بنارسی کڑھائی میں یہ ڈیزائن بنوا دیں ہمیں! دکھائو کالی داس! سورج لیکھا دکھائو پورن مہاراج کو!‘‘ کالی داس نے گردن جھکائی۔ ایک طرف بڑھا پھر پلٹا اور اس کے بعد اس نے ایک سرخ دوشالا کھول دیا۔ دوشالے پر جگمگاتے تاروں سے کچھ نشان کڑھے ہوئے تھے۔ صاف لگتا تھا کہ ان تاروں سے کچھ لفظ لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے رانی جی! آپ یہ مجھے دے دیں۔‘‘
’’اس کے بدلے آپ ہمیں کیا دیں گے؟‘‘ رانی نے مسکرا کر پوچھا۔
’’یہ آپ کو واپس مل جائے گا دیوی جی!‘‘
’’نہیں آرہے یہ ہمارے قابو میں شمبھو مہاراج! آپ ہی آیئے۔ پورن جی پردہ کررہے ہیں ہم سے…!‘‘ کمرے میں بنے ہوئے دوسرے دروازے سے ایک کریہہ المنظر بوڑھا باہر نکلا۔ دبلا پتلا بانس کی طرح سوکھا، ہاتھ، پائوں بے ترتیب! اوپری بدن ننگا، نیچے دھوتی باندھے ہوئے وہ بھی نہایت مختصر! گردن میں باریک باریک سانپ مالائوں کی طرح پڑے ہوئے جو کلبلا رہے تھے، زبانیں نکال رہے تھے۔ داڑھی، مونچھوں اور سر کے بال کیچڑ میں لپٹے ہوئے، بدن سے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے۔
’’جے مہاکالی!‘‘ اس نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔ میں اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ ’’جے مہاکالی!‘‘ اس بار اس نے گرجتی آواز میں کہا۔ میں نے پھر بھی کچھ نہ کہا تو وہ کڑک کر بولا۔ ’’سارے دیاس یہاں سے شروع ہوتے ہیں، یہاں ختم ہوجاتے ہیں۔ جے مہا کالی! کیا تو کالی داس نہیں ہے؟‘‘
’’مجھے جانے دیں رانی جی!‘‘ میں نے کہا۔
’’شمبھو مہاراج سے بات کریں پورنا!‘‘ وہ بولی۔
’’میرا نام مسعود احمد ہے۔‘‘
’’نام مسعود احمد ہے پھر پورنیاں کیسے مل گئیں تجھے؟ اوہو سمجھا دیکھ یہ ایک‘ اس نے ہاتھ اٹھا کر نیچے کیا اور کالے رنگ کا ایک لکڑی کا ٹکڑا نیچے گر پڑا۔ دو تین چار وہ گنتا رہا اور چھ ٹکڑے زمین پر آگئے سات…! اس نے ہاتھ اٹھایا مگر کوئی ٹکڑا نیچے نہ گرا۔ سات… سات… سات…! وہ بار بار ہاتھ اٹھا کر نیچے گراتا رہا مگر ساتواں ٹکڑا نیچے نہ گرا۔ ’’ارے ساتویں کہاں گئی، ساتویں کہاں گئی۔ ساتویں کہاں ہے…؟ ساتویں نہیں ہے۔‘‘ اس نے آخری الفاظ مہاوتی کو مخاطب کرکے کہے۔
’’کھوج لگائیں مہاراج…!‘‘ مہاوتی پریشان لہجے میں بولی اور شمبھو زمین پر بیٹھ گیا۔ اس نے آسن جما لیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ تب میں نے اس کی گردن میں پڑے ہوئے باریک باریک سانپوں کے بل کھلتے دیکھے۔ ان میں سے دو اس کی ناک کے دونوں نتھنوں میں گھسنے لگے، دو کانوں کی طرف بڑھ گئے اور کانوں کے سوراخ تلاش کرکے ان میں بدن سمیٹنے لگے۔ بھیانک منظر تھا۔ سانپوں کے چمکیلے بدن اس کی ناک اور کانوں کے سوراخوں میں گم ہوتے جارہے تھے اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے سارے سانپ غائب ہوگئے۔ میں اکتائی ہوئی سانسیں لے رہا تھا اور رانی اور کالی داس بدستور مسکراتی نظروں سے میرا جائزہ لے رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد شمبھو مہاراج نے آنکھیں کھول دیں۔ خوفناک سرخ آنکھیں! پھر انہوں نے منہ کھولا اور بے چین سانپ بلبلاتے ہوئے ان کے منہ سے باہر آنے لگے۔ کچھ رینگتے ہوئے ان کی گردن تک پہنچ گئے، کچھ اس کوشش میں نیچے گر پڑے تو شمبھو مہاراج نے انہیں خود اٹھا کر گردن میں ڈال لیا۔ پھر وہ مجھے گھورتے ہوئے بولے۔ ’’کچھ پتا نہیں چل رہا ساتویں کہاں ہے۔‘‘
’’نہیں پتا چل رہا مہاراج…؟‘‘ مہاوتی بولی۔
’’بڑا بگڑا ہوا کھیل ہے مہاوتی! یہ خود ہی بتائے تو پتا چلے۔ اس کا شروع بھی پتا نہیں چلتا۔ شنکھا بھی نہیں ہے یہ کہ کھنڈولا بن جائے مگر پورنا ضرور ہے، ساتوں پورنیاں رکھنی ہوتی ہیں، مگر ساتویں کہاں گئی؟ بول رے پورنا! ساتویں کہاں گئی ورنہ شمبھو ہے میرا نام…!‘‘
’’بتا دو پورنا مہاراج! بتا دو۔‘‘ کالی داس بولا۔
’’رانی مہاوتی! میں آپ کا احترام کرتا ہوں۔ یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ! یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ میں نے احتجاج کیا۔
’’تم بھی تو ضد کررہے ہو پورنا! بتا دو شمھبو مہاراج کو! نہیں تو مصیبتوں میں پھنس جائو گے۔‘‘
’’آپ مجھے جانے دیں۔ میں جارہا ہوں۔‘‘ میں نے دروازے کی طرف قدم بڑھا دیئے۔ اسی وقت شمبھو اچھل کر کھڑا ہوگیا۔
’’رک جا پورنا…! رک جا۔‘‘ اس نے گلے سے ایک سانپ اتار کر ہاتھ میں لے لیا۔
’’میں جارہا ہوں اور اب میں محل میں نہیں رکوں گا۔ سمجھے تم لوگ!‘‘ میں نے کہا اور شمبھو نے سانپ مجھ پر اچھال دیا۔ سانپ میری گردن میں آپڑا۔
اس سے خوف زدہ ہونا اور چھٹکارا پانا فطری کوشش تھی۔ میں نے اسے مٹھیوں میں جکڑ لیا مگر اس نے دوسرا سانپ پھینکا جو میری کلائیوں پر آکر پڑا اور اس نے میری دونوں کلائیوں پر بندش کرلی۔ میرے حلق سے دہشت بھری چیخیں نکلیں اور میں نے بدحواسی کے عالم میں دروازے کی طرف چھلانگ لگائی لیکن ایک اور سانپ نے میرے پیروں کو بھی جکڑ لیا۔ میں اوندھے منہ نیچے گرا اور پوری قوت سے سانپوں کے جسموں سے قائم کی ہوئی بندشوں سے نکلنے کی جدوجہد کرنے لگا لیکن ان گھنائونی لچکدار رسیوں نے مجھے ایسا جکڑا کہ میں ہل بھی نہ سکا اور ادھر سے ادھر لڑھکنے لگا۔ شمبھو نے کچھ اور پھینکا اور گردوغبار کا ایک بڑا مرغولہ میرے گرد چھا گیا۔ میری آنکھیں بند ہوگئیں، جدوجہد رک گئی اور بدن ساکت ہوگیا۔ کھانسی اٹھ رہی تھی۔ عجیب سی گرد تھی۔ میں نے سختی سے آنکھیں بھینچ لیں اور کھانستا رہا۔ کچھ دیر کے بعد احساس ہوا کہ گرد کم ہوگئی ہے۔ آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ دھند سی چھائی ہوئی تھی پھر وہ دھند بھی چھٹ گئی۔ ایک نگاہ میں ہی معلوم ہوگیا تھا کہ منظر بدل گیا ہے۔ نہ محل ہے، نہ بھٹنڈہ، نہ کالی داس ہے، نہ شمبھو! بلکہ ایک اجاڑ جنگل ہے، سوکھے ہوئے پتوں سے بے نیاز درخت کھڑے ہوئے ہیں۔ چند گز کے فاصلے پر بدنما چٹانوں اور پہاڑوں کا سلسلہ ہے۔ ایک اونچے ٹیلے کے دامن میں ایک سیاہ غار کا دہانہ منہ کھولے مجھے تک رہا ہے۔ سانپ بدستور میرے بدن سے لپٹے ہوئے ہیں اور میں ان کی قید میں ہوں۔ ان سانپوں سے مجھے دہشت بھی ہورہی تھی، گھن بھی آرہی تھی۔ بے چینی سے پورے بدن کا زور لگایا تو دوسری طرف لڑھک گیا تب ادھر کا منظر نظر آیا۔ لاتعداد بیر گردن نیہوڑاتے گھٹنوں میں سر دیئے، اداس بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ میرے بیر تھے۔ پورنیوں کے بیر…! ان سے کوئی دو گز کے فاصلے پر درخت کے ایک کٹے ہوئے تنے پر بھوریا چرن پائوں لٹکائے بیٹھا ہوا تھا اور بھوریا چرن کے پیروں کے پاس ایک نسوانی بدن رسیوں سے بندھا پڑا تھا۔ میں پتھرا گیا۔ یہ سب کچھ بہت سنسنی خیز تھا مجھے اپنی طرف دیکھتے پا کر بھوریا چرن اپنی جگہ سے اٹھا اور میرے قریب آکر میرے پائوں چھوتا ہوا بولا۔
’’پائے لاگوں مہاراج دین دیال… بڑے دھرم دیوتا ہیں آپ! مان گئے آپ کو۔‘‘ اس کی آواز میں طنز کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
’’بھوریا چرن تم…؟‘‘
’’کتا ہے آپ کا… کیڑا ہے آپ کے سامنے رینگنے والا…!‘‘
’’کیوں کیا حال ہے؟‘‘
’’بس حال نہ پوچھو مہاراج! ہم نے بڑے بڑے دھرم دیال دیکھے ہیں مگر تم جیسا دھرم کا بائولا نہیں دیکھا…‘‘
’’سچ کہتے ہو بھوریا چرن…!‘‘
’’نہیں! جھوٹ بول رہے ہیں کیا؟‘‘
’’تمہارا شکریہ تم نے مجھے یہ اعزاز اپنے منہ سے دیا ہے۔ یہی تو میں چاہتا ہوں بھوریا چرن کہ لوگ مجھے میرے دین کیلئے پاگل سمجھیں۔‘‘
’’ستیاناس ہو تمہارا! کتے کی موت مر جائو۔ ہمارا کریا کرم کیوں کردیا تم نے۔ ارے سارا جیون ختم کردیا تھا۔ کھنڈولا بننے کیلئے کتنی محنت کی تھی، سب خاک میں ملا دی۔ خیر ہم تو خاک میں ملے ہی ہیں مگر تمہارا بھی کریا کرم ہی کرکے چھوڑیں گے سمجھے! دیوانے، پاگل، پاپی! اب بھی مان لے ہماری بات، اب بھی مان لے۔ تیرے ذریعے ہمارا ایک اور ایسا کام ہوسکتا ہے جو سارے بگڑے ہوئے کام بنا دے۔ اگر تو ہمارے رنگ میں رنگ جائے تو اب بھی سن لے، خود بھی عیش کرے گا اور ہمیں ہماری منزل مل جائے گی۔ بتائے دے رہے ہیں تجھے، تو ہے مسلمان کا چھوکرا، مسلمان بنے رہنا۔ ہم انکار نہیں کریں گے، مسلمانوں میں گھس جانا، دین دیوتا بن جانا، لوگوں کے کام نکالتے رہنا اور سب کو دھوکا دیتے رہنا۔ ایک ایسا لڑکا تلاش کرلینا جو ہمارا کام کردے۔ ارے ہم اب بھی اسی پھیر میں پڑے ہوئے ہیں کہ کبھی تجھے عقل آجائے اور تو ہمارا یہ کام کردے۔ وہ سارے وعدے جو ہم نے تجھ سے کئے ہیں، اب بھی پورے کریں گے ہم! اب بھی پورے کریں گے۔ مان لے ہماری بات، سنسار میںعیش ہی عیش کرے گا تو…!‘‘میں ہنس پڑا اور میں نے کہا۔
’’تم بھی دھن کے پکے ہو بھوریا چرن! مگر تم نے یہ کہہ کر میری روح خوش کردی ہے کہ تو نے مجھ جیسا دین کا متوالا نہیں دیکھا۔ ایمان نہیں چھوڑوں گا بھوریا چرن! کبھی ایمان نہیں چھوڑوں گا۔ عہد ہے ہزاروں بار۔ مارنا چاہتے ہو تو تمہیں کھلی چھٹی ہے۔ تم کتے کی موت کہہ رہے ہو، میں کہتاہوں کہ تم ان سانپوں کو حکم دو جو میرے بدن سے لپٹے ہوئے ہیں کہ یہ مجھے آہستہ آہستہ ڈسیں، اپنا زہر میرے جسم میں اتار دیں۔ میرے جسم میں آگ لگ جائے، پانی بن کر بہہ جائوں۔ میں خوشی سے تیار ہوں اس کیلئے لیکن مروں گا اپنے ہی دین کا نام لیتے ہوئے۔ سمجھے بھوریا چرن! میں بھی تمہیں ایسا ٹکرایا ہوں کہ تمہیں مزہ آگیا ہے اور ابھی اور بھی بہت سے مزے آئیں گے۔‘‘
’’بیٹا! مزے تو تجھے بھی آئیں گے۔ تو کیا سمجھتا ہے۔ ٹھیک ہے ڈٹا رہ اپنے دھرم پر۔ اس دھرم پر جس کے نام پر تو عبادت بھی نہیں کرسکتا سمجھا۔ تجھ سے بھی تو بہت کچھ چھن گیا ہے۔ اتنا کچھ چھن چکا ہے تجھ سے کہ تو بہت اچھی طرح سمجھتا ہے۔ تو بھی تو اب لکیر ہی پیٹ رہا ہے۔ بہت شوق ہے نا تجھے لکیر پیٹنے کا تو پیٹتا رہ…‘‘
’’بہت بڑی بات ہے بھوریا چرن! میرے لئے یہ بھی بہت ہی بڑی بات ہے کہ لکیر ہی میرے ہاتھ میں ہے۔‘‘ بھوریا چرن نے غصے سے آگے بڑھ کر کئی لاتیں میرے جسم کے مختلف حصوں پر ماریں اور میں قہقہے لگاتا رہا۔ وہ دیوانگی کے عالم میں لاتیں اور گھونسے مجھے مارتا رہا اور میں پٹتا رہا اور ہنستا رہا۔ پھر وہ خود ہی تھک گیا اور دور ہٹ کر خونخوار نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ اس کے منہ سے خوفناک غراہٹیں نکلنے لگی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ بہت تھک گیا ہو…!
’’نہیں مرے گا تو، نہیں مرے گا۔ مر گیا تو پھر مزہ ہی کیا آئے گا۔ کیا سمجھا؟ بول مانے گا میری بات…؟‘‘
’’کون سی بات بھوریا چرن…؟‘‘
’’دیکھ ادھر دیکھ! وہ کون ہے سامنے…!‘‘
’’مجھے نظر نہیں آرہی، کوئی عورت ہے۔‘‘
’’سندری ہے یہ سندری! مہاوتی کی نوکرانی پائل ہے۔ سمجھ رہا ہے۔ یاد آگیا تجھے؟ کیا کہا تھا میں نے پائل کیلئے۔ دیکھ وہ چھری بھی رکھی ہے اور برتن بھی! گردن کاٹ اس کی اور اس کا خون پی لے۔ بس اتنا ہی کرنا ہے تجھے، اتنا ہی کرنا ہے۔ اس کے بدن کا سارا خون پی لے، بات بن جائے گی۔‘‘
’’ناممکن! تیری ایک بھی ناپاک خواہش پوری نہیں کروں گا بھوریا چرن!‘‘
’’حرام خور… ناشکرے!‘‘ بھوریا چرن نے دانت کچکچا کر ایک لات میرے پیٹ پر رسید کی اور کہا۔ ’’اتنا کچھ اگر ہم کسی اور کو دے دیتے تو جیون بھر تلوے چاٹتا ہمارے… اس چمار شمبھو نے تجھے ناگوں سے باندھ دیا ہے۔ چرنوں کی دھول بھی نہیں ہے تیری وہ۔ اپنے بیروں کو حکم دے تو مہاوتی کے محل کو پھونکوں سے اڑا دیں وہ! ایک ایک کو کچا چبا جائیں مگر تیرا دھرم چلا جائے گا ان سے کوئی کام لے کر۔ یہی بات ہے نا…؟‘
’’ہاں! یہی بات ہے بھوریا چرن…!‘‘
’’تو پھر ہم کیا کریں۔ جا پڑ گھور پاتال میں، تیرا ستیاناس!‘‘
’’مجھے ان سے چھٹکارا کیسے ملے گا بھوریا چرن…؟‘‘
’’بیروں کو پکار یا مجھ سے وعدہ کر کہ اس پائل کا خون پی لے گا…!‘‘
’’نہیں بھوریا چرن! ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ جیئوں گا ہر طرح کے حالات میں جیئوں گا۔ ان سے رابطہ کرکے تو میں اپنے ماں، باپ سے بھی مل سکتا تھا جن سے ایک بار ملنے کی آرزو میں، میں جی رہا ہوں مگر ان سے کام لینے کا مطلب ہے کہ میں نے انہیں قبول کرلیا۔ ایسا میں کبھی نہیں کروں گا بھوریا چرن! کبھی نہیں…!‘‘ بھوریا چرن کچھ چونک سا پڑا تھا۔ وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ ہنسا۔ پہلے آہستہ سے پھر زور سے اور پھر وہ قہقہے لگانے لگا۔ ہنستا ہوا بولا۔
’’ارے واہ… ارے واہ…! یہ ہوئی نا بات، بڑھیا بات! یہ ہوئی نا… میری اس کھوپڑی میں ہی نہیں آئی تھی۔ تو نے خود بتائی ہے۔ تو نے خود ہی بتائی ہے۔ تیرے ماتا، پتا، بہن، بھائی…! ارے واہ!‘‘
’’کیا بک رہا ہے…؟‘‘
’’بتاتا ہوں… بتاتا ہوں۔‘‘ وہ خوشی سے اچھلتا ہوا بولا۔ ’’اب تیرے ماتا، پتا ہی تجھے میری بات ماننے پر مجبور کریں گے۔ وہی تجھ سے میرا کام کرائیں گے۔ تو نے خود ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔‘‘
’’تو ہے ہی بھنگی بھوریا چرن! میں تو ان کے قدموں کی خاک ہوں۔ میرا ایمان تو بہت کمزور ہے ان کے مقابلے میں تو کیا اور تیری اوقات کیا…! تو ان کا کچھ بھی نہیں
بگاڑ سکتا۔‘‘
’’سمے بتائے گا بالک…! اب جیون ان کیلئے نرکھ بن جائے گا تیری وجہ سے۔ صرف تیری وجہ سے اور… اور تجھے بھی دکھائیں گے ہم، اب دوسرا راستہ پکڑیں گے ہم، چلتے ہیں۔ چل ری تو یہاں کیا کرے گی مرکر… ارے بھاگ جائو تم بھی سب! رے کیوں سر پھوڑ رہے ہو اس ترکھی سے، چلو جائو، بھاگ جائو۔‘‘ اس نے بیروں سے کہا اور وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ آہیں بھرتے ہوئے وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ بھوریا چرن نے سندری کو اٹھا کر کندھے پر ڈالا۔ وہ شاید بے ہوش تھی۔ پھر اس نے میری طرف رخ کرکے تھوکا اور سندری کو کندھے پر لادے آگے بڑھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
میرا دل گھبرانے لگا، دماغ میں سنسناہٹ ہونے لگی۔کیا مجھ سے غلطی ہوگئی، کیا مجھے اس سے اپنے ماں، باپ کا تذکرہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ آہ! کیا غلطی ہوگئی… خدا… ان کا حامی و ناصر ہو۔ خدا انہیں اپنے تحفظ میں رکھے۔ آنکھوں کی کوروں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ عقب سے کچھ آہیں ابھریں پھر سرگوشیاں…! ’’چلا گیا؟‘‘
’’ہاں چلا گیا…!‘‘
’’آئو…!‘‘
میں چونک پڑا۔ یہ کون ہو سکتا ہے، سمجھ میں نہیں آیا تھا لیکن وہ دونوں سامنے آ گئے۔ میں نے انہیں پہچان لیا۔ شمبھو اور کالی داس تھے۔ دونوں میرے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ پھر شمبھو بیٹھ گیا۔ وہ غور سے مجھے دیکھ رہا تھا پھر اس نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’اور تو کہتا ہے تو کچھ نہیں ہے۔‘‘ میں نے آنکھیں بھینچ بھینچ کر آنسوئوں سے صاف کیں اور آہستہ سے کہا۔
’’ہاں وہ شمبھو۔ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔‘‘
’’من تو چاہتا ہے کہ ایک بڑا سا پتھر پہلے تیرے سر میں مار کر اسے کچل دیں پھر اپنے سر میں مار کر خود بھی ختم ہو جائیں۔ تیرے بیر بیٹھے ہوئے تھے، ایک اشارہ کرتا انہیں تو وہ تباہی مچا دیتے یہاں، تجھے کھول دیتے۔ تو نے ایسا بھی نہیں کیا۔‘‘
’’تو نے دیکھا شمبھو، میں نے ایسا نہیں کیا۔‘‘
’’کیوں۔ آخر کیوں؟‘‘
’’اس لئے کہ میں مسلمان ہوں۔ نہ تمہارے کالے جادو پر یقین رکھتا ہوں، نہ اس سے کوئی مدد لینا چاہتا ہوں۔ میرے دین میں یہ سب ناپاک ہے، غلیظ ہے۔ مجھے ہمیشہ اپنے خدا پر بھروسہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ انسان ہوں، کچھ غلطیاں کر بیٹھا ہوں لیکن جب تک زندگی ہے اس سے مدد مانگتا رہوں گا۔ کسی ناپاک قوت کو آواز نہیں دوں گا۔‘‘
’’ارے تو پھر تو اس کالے سنسار میں کیسے آ پھنسا؟‘‘
’’تجھے یہ سب بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔‘‘
’’ضد مت کر، یہ بتانا تیرے لئے فائدہ مند بھی ہو سکتا ہے۔ چھ پورنیاں تیرے چرنوں میں ہیں، یہ سات ہوتی ہیں۔ ساتویں کا پتا ہی بتا دے اور یہ بتا دے کہ اتنا بڑا کام تو نے کیسے کر لیا۔ ابھی جو تجھ سے باتیں کر رہا تھا وہ شنکھا تھا۔ شنکھا بھی انہی کے پاس آتے ہیں جو خود بہت کچھ ہوتے ہیں۔ یہ سب کیا بھائو بھید ہیں۔ تو پورنا ہے، تو خود کو مسلمان کیوں کہتا ہے۔ ارے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہمارے، کالی داس ارے کیا کریں ہم…‘‘ شمبھو نے سر پر دو ہتھڑ مارتے ہوئے کہا۔
’’آپ کیا ہیں شمبھو جی۔ آپ خود کیا ہیں…؟‘‘
’’ہم کالکے ہیں، سمجھا کالی مائی کے چیلے، سب جانتا ہو گا تو پاپی۔ پھیر کر رہا ہے ہمارے ساتھ۔‘‘
’’کالکے کیا ہوتے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کالے علم کے آٹھ درجے ہوتے ہیں۔ چار کلکتے والی کے اور چار چنڈولوں کے اور چنڈولے بیس ہوتے ہیں۔ بیس کے بیس مل کر چنڈول بھرتے ہیں، ان کا ویاس گودردھن سے ہے۔ سری کرشن جی نے جب اپنے دشمن راجہ کنس کو قتل کر کے اس کے باپ راجہ اوگر سین کو تخت پر بٹھا دیا تو راجہ کنس کی ارتھی کی راکھ ایک چنڈولی میں بھر دی گئی اور مونگرہ پہنچا دیا۔ مونگرہ میں کنس کی پوجا کرنے والے موجود تھے۔ انہوں نے عقیدت سے وہ راکھ گائے کے گوبر میں ملا کر اس کا ایک بت بنایا اور اس کو اپنا راجہ سمجھنے لگے۔ پھر ایک دن کنس جی گیا اور اس نے مونگرہ والوں کو جادو سکھایا اور اس سے اپنے دشمنوں پر مٹھ مارنے لگا۔ جادو کے سارے منتر اس کے پاس تھے مگر کلکتے کی کالی نے ان سے چار مندھر کھینچ لئے اور وہ انہیں لے نہ سکے۔ تب سے چار کالی کے اور چار چنڈولوں کے جو اصل میں مونگرہ والے تھے، ان کے چار ہی درجے ہوتے ہیں جن میں آخری درجہ کھنڈولا کا ہوتا ہے۔ کالکوں کے درجے الگ الگ ہوتے ہیں اور ان کا کوئی انت نہیں ہوتا جسے جو مل جائے۔‘‘
’’رانی مہاوتی کیا ہے؟‘‘
’’وہ درگامتی ہے اور لونا چماری اس کے قبضے میں ہے۔‘‘
’’اور تم…؟‘‘
’’میں مٹھا ہوں۔‘‘ وہ غور سے دیکھتا ہوا بولا۔
’’خدا کی لعنت ہو تم سب پر…!‘‘ میں نے کہا اور وہ پھر اچھل پڑا۔ اس کی آنکھوں میں پھر غصے کے تاثرات جاگ اٹھے۔ اس نے دیوانوں کی طرح ناچتے ہوئے کہا۔
’’میں نے تجھے یہ سب اس لئے بتایا تھا کہ تو مجھے اپنے بارے میں بتا دے گا مگر کتے کی دم کی طرح تو ٹیڑھے کا ٹیڑھا رہے گا۔ میں ایک اشارہ کروں تو یہ سارے ناگ تیرے بدن میں زہر ہی زہر بھر دیں، اتنا ڈسیں تجھے کہ… کہ… ارے او کالی داس…!‘‘
’’جی مہاراج…‘‘
’’اندر لے چل اسے۔ ارے اسے اندر لے چل۔ یہ ایسی زبان نہیں سمجھے گا۔ لے چل رے اسے اندر…‘‘
’’مہاراج۔ اس کے بندھن نکال دیں۔‘‘ کالی داس نے کہا اور شمبھو نے آگے بڑھ کر سانپ میرے بدن سے کھینچ لئے۔ میری بندشیں کھل گئیں اور کالی داس نے میرا بازو پکڑ لیا۔ سانپوں نے اس طرح مجھے جکڑا ہوا تھا کہ دوران خون رک گیا تھا اور بدن کے وہ حصے سن ہو گئے تھے جہاں بندشیں تھیں۔ کالی داس نے مجھے بغلوں میں ہاتھ ڈال کر غار کے اس دہانے کی طرف گھسیٹا جو سامنے نظر آ رہا تھا۔ وہ بہت طاقتور تھا، با آسانی مجھے اندر لے گیا۔ شمبھو پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ مجھے اپنی کمزوری پر غصہ آنے لگا مگر پائوں زمین پر ٹک ہی نہ رہے تھے۔ دہانے کے دوسری طرف ایک تاریک سرنگ تھی جو کافی لمبی لگ رہی تھی۔ میرا دوران خون بحال ہونے لگا تھا تاہم جھنجھناہٹ برقرار تھی۔ البتہ میں نے اپنا وزن کالی داس پر ڈالے رکھا تاکہ وہ یہی سمجھے کہ میں مفلوج ہوں۔ اسے دھوکے میں رکھ کر کچھ کیا جا سکتا تھا مگر یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کیا کروں۔ لمبی کالی سرنگ کے دوسرے دہانے پر سرخ روشنی نظر آ رہی تھی بالکل یوں لگ رہا تھا جیسے آگ روشن ہو۔ دوسرا سرا قریب آتا جا رہا تھا۔ پھر وہ مجھے لئے ہوئے اس سرخ دہانے سے اندر داخل ہو گئے۔ بہت بڑا غار تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی پہاڑ اندر سے کھوکھلا ہو۔ جگہ جگہ دیواروں میں چٹانیں ابھری ہوئی تھیں۔ ایک طرف لکڑیاں سلگ رہی تھیں اور یہ انہی کی روشنی تھی جو پورے غار کو سرخ کئے ہوئے تھی مگر اس میں آگ کی تپش بالکل نہیں تھی اس کے برعکس غار میں ٹھنڈک پھیلی ہوئی تھی۔ پورے غار میں جگہ جگہ نہ جانے کیا کاٹھ کباڑ پھیلا ہوا تھا۔ ان میں انسانی جسم کی ہڈیوں کے انبار بھی تھے۔ لاتعداد انسانی کھوپڑیاں بکھری ہوئی تھیں۔ میلے کچیلے پھٹے پرانے رنگین کپڑے اور نہ جانے کیا کیا۔ میرے کان ایک آواز سن رہے تھے۔ چپڑ چپڑ کی آواز جیسے کوئی بڑا جانور کچھ کھا رہا ہو۔
’’چھوڑ دے اس پاپی کو یہاں… مہاوتی جانے اور یہ…‘‘ شمبھو نے کالی داس سے کہا اور اس نے مجھے چھوڑ د یا۔ میں بے جان شہتیر کی طرح نیچے گر پڑا۔ اب بھی میں مفلوج ہونے کا اظہار کر رہا تھا۔
’’اب کیا کریں مہاراج…؟‘‘
’’پڑا رہنے دے اسے یہاں۔‘‘
’’جو آ گیا…‘‘ کالی داس نے کہا۔
’’ آ جا…!‘‘ شمبھو بولا اور وہ دونوں غار سے باہر نکل گئے۔ میں اسی طرح زمین پر پڑا رہا۔ میری نگاہیں پورے غار کا جائزہ لے رہی تھیں اور دل لرز رہا تھا۔ کیا ہولناک جگہ تھی۔ غار کی بلندی ناقابل یقین تھی، اس کی چھت تو نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔ ابھرے ہوئے چٹانی پتھروں میں موٹے موٹے تاروں والے مکڑیوں کے جالے لگے ہوئے تھے البتہ مکڑیاں نظر نہیں آئی تھیں اور پھر وہ آواز، چپڑ چپڑ کی آواز… یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ کیسی بھیانک آواز ہے نہ جانے۔ پھر یوں لگا جیسے کوئی چیز گھسیٹی جا رہی ہو اور اس کے بعد زمین میں ابھرے ایک کوہان کے عقب سے ایک ہولناک چیز باہر نکلی۔ آہ میرا دل کانپ کر رہ گیا۔ چٹانی کوہان کے پیچھے سے ایک سیاہ انسانی جسم برآمد ہو رہا تھا۔ ایک تنومند انسانی جسم جو کسی عورت کا تھا۔ اس کا عقبی حصہ نگاہوں کے سامنے آیا تھا۔ گھٹنوں کے بل جھکی ہوئی تھی اور یوں لگتا تھا جیسے کسی شے کو گھسیٹ رہی ہو۔ پھر سیاہ جسم کوہان کے عقب سے مکمل طور پر باہر نکل آیا اور وہ ہولناک منظر میری آنکھوں کے سامنے نمایاں ہو گیا جسے دیکھ کر دل کی دھڑکنیں بند ہو جائیں۔ سیاہ رنگ کی تنومند عورت جس چیز کو گھسیٹ کر پیچھے ہٹ رہی تھی وہ بھی ایک نسوانی بدن تھا۔ خون میں نہایا ہوا، بے جان … خونخوار عورت کے لمبے سیاہ بالوں سے دوسرے جسم کا کچھ حصہ ڈھکا ہوا تھا، خود اس کا چہرہ بھی اس کے بالوں میں چھپا ہوا تھا۔ وہ بلی کی طرح دونوں ہاتھوں پیروں کے بل پیچھے کھسک رہی تھی اور یقینی طور پر دوسرے مردہ جسم کو دانتوں میں دبوچے ہوئے تھی۔ میں سانس روکے اسے دیکھتا رہا۔ سیاہ رنگ کی ہولناک بلا نے اپنے کام سے فارغ ہو کر رخ بدلا اور پھر انسانوں کی طرح بالوں کو زور سے پیچھے جھٹک کر انہیں ہاتھوں سے سنوارنے لگی۔ بالوں کے پیچھے ہٹ جانے سے اس کا چہرہ نمایاں ہو گیا۔
کیا بھیانک چہرہ تھا۔ مکمل طور پر انسانی نقوش اور شاید جانے پہچانے۔ بس رنگ کا فرق تھا ورنہ وہ سو فیصدی مہاوتی تھی۔ رانی مہاوتی… سیاہ چہرے پر جگہ جگہ خون کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے اور آنکھیں… اس کی بڑی بڑی آنکھوں کی سفیدی نمایاں تھی۔ کالی پتلیوں کی جگہ ایک سیدھی سبز روشن لکیر نظر آ رہی تھی۔ تیز سبز روشن لکیر… ہونٹ گہرے سرخ ہو رہے تھے۔ مجھ پر شاید اس کی نظر نہیں پڑی تھی چنانچہ وہ پھر ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل جھک کر منہ سے اس انسانی بدن کو ٹٹولنے لگی۔ وہ اسے جگہ جگہ سے سونگھ رہی تھی۔ پھر اچانک اس نے ایک غراہٹ جیسی آواز نکالی اور مردہ جسم کے سینے میں دانت گاڑھ دیئے۔ وہ ہاتھوں پر وزن سنبھال کر شاید لاش کا سینہ کھول رہی تھی اور اس پر دانتوں سے قوت صرف کر رہی تھی۔ اس کے منہ سے خوفناک غراہٹیں نکل رہی تھیں۔ پھر شاید وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی البتہ اس کوشش میں لاش کا چہرہ میری طرف ہو گیا، گردن شاید پہلے چبا لی گئی تھی مگر چہرہ محفوظ تھا اور گردن کے ساتھ لگے ہوئے کھال کے کسی ٹکڑے سے جھول رہا تھا۔ میں نے اسے دیکھا اور بے اختیار میرے حلق سے چیخ آزاد ہو گئی۔ وہ رجنا وتی تھی۔ وہی معصوم لڑکی جو املی کے درخت پر چھپی ہوئی تھی اور بھوک سے بے تاب ہو کر کھڑکی کے راستے اندر آئی تھی۔ اسے زندگی کا خطرہ تھا۔ آہ اسے اپنی جان کا خوف تھا اور وہی ہوا۔ اس نے کچھ اس طرح کے الفاظ کہے تھے۔ میری آواز پر لاش سے لپٹی ہوئی مہاوتی نے گردن اٹھا کر سیدھی پتلیوں سے مجھے گھورا۔ اس کے منہ سے خون ٹپک رہا تھا پھر اس نے ہونٹ سکیڑ کر دانت نکالے۔ خون میں ڈوبے ہوئے نوکیلے دانت۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی۔
پھر دوبارہ جھک کر لاش کے کھلے ہوئے سینے میں سر ڈال دیا۔ دانتوں سے اس نے رجنا وتی کے اندرونی جسم میں کسی چیز کو جھٹکا دیا اور اس کا کلیجہ دیگر لوازمات کے ساتھ باہر نکال لیا۔ میں نے جنون کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا، ایک انسانی پائوں کی سوکھی ہوئی ہڈی مجھ سے کچھ فاصلے پر پڑی ہوئی تھی۔ میں نے اسے اٹھایا اور گھما کر پوری قوت سے مہاوتی پر دے مارا۔ نشانہ درست نہ رہا، ہڈی اس کے سر سے گزر گئی مگر مہاوتی نے جلدی سے کلیجہ دانتوں میں دبا کر ایک لمبی چھلانگ لگائی اور ایک چٹان سے دوسری پر، دوسری سے تیسری پر اور پھر کافی اوپر ایک دیوار میں نکلی ہوئی چٹان پر جا بیٹھی۔ یہ چھلانگیں نپی تلی اور مہارت سے بھرپور تھیں۔ وہ اس وقت بالکل کالی بلی لگ رہی تھی۔ انسان کا اس سے خوفناک روپ کبھی کسی نے نہ دیکھا ہو گا جو میں دیکھ رہا تھا… وہاں پہنچ کر وہ پھر جھک کر بیٹھ گئی اور منہ میں لٹکا ہوا کلیجہ اسی طرح چپڑ چپڑ چبانے لگی۔
’’مہاوتی، کتیا… تو نے… تو نے رجنا وتی کو مار دیا۔ تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ نہیں چھوڑوں گا تجھے۔‘‘ میری آواز پر اس نے چونک کر مجھے پھر دیکھا اور اس کے بعد پھر جھک کر کلیجہ چبانے لگی۔ میں بے بسی سے اسے دیکھتا رہا پھر میں اپنی جگہ سے اٹھا اور میں نے دور پڑی ہڈی اٹھا لی۔ اس نے رجنا وتی کا کلیجہ ہضم کر لیا تھا۔ میرے ہڈی اٹھانے پر وہ سنبھلی اور اس نے ایک اور چٹان پر چھلانگ لگا دی۔ بالکل بلیوں جیسا انداز تھا۔ میں نے اس چٹان پر یہ ہڈی پھینکی تو وہ نیچے کود آئی۔ مگر وہ مجھ پر حملہ نہیں کر رہی تھی۔ بس رک رک کر غرا رہی تھی، دانت نکال رہی تھی۔ میں اب مسلسل اس پر ہڈیاں پھینکنے لگا اور وہ ادھر سے ادھر بھاگتی رہی۔ پھر ایک بار اس نے بڑی زور سے چیخ ماری اور دروازے سے کالی داس اور شمبھو اندر داخل ہوگئے۔
’’ارے۔ ارے یہ کیا کر رہا ہے تو…‘‘ شمبھو نے کہا۔ اور اس بار میں نے ہڈی اس پر دے ماری۔ وہ میرے اس وار کے لئے تیار نہیں تھا۔ ہڈی اس کے سر پر لگی اور وہ چکرا گیا۔ دوسرے لمحے وہ سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ کالی داس نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
’’تیری موت آ گئی ہے پاپی۔ یہ تو نے کیا کیا۔‘‘ میں نے دوسری ہڈی اٹھا کر کالی داس کو نشانہ بنایا اور وہ جلدی سے بیٹھ گیا۔ ہڈی اس پر سے نکل گئی تھی مگر اس وقت ایک خوفناک غراہٹ کے ساتھ مہاوتی مجھ پر آ پڑی۔ وہ زبردست تن و توش کی مالک تھی اس لئے میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ میرا سر زمین پر لگا اور آنکھوں کے سامنے ستارے ناچ گئے۔ مہاوتی خوفناک غراہٹوں کے ساتھ مجھے دیکھ رہی تھی۔ دوسری بار میرے سر میں پھر چوٹ لگی اور میرا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس کے بعد کوئی ہوش نہ رہا تھا… دوبارہ ہوش آیا تو ماحول بدلا ہوا تھا۔ یقینا محل ہی کا کوئی کمرہ تھا، نرم بستر، شفاف ماحول۔ دو لڑکیاں سامنے موجود تھیں۔
’’جاگ گئے مہاراج…‘‘ ایک نے دوسری سے کہا۔ میں وحشت زدہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔
’’کون ہو تم…؟‘‘
’’ہمارا نام شیلا ہے… یہ روپا ہے۔‘‘
’’یہاں کیا کر رہی ہو…؟‘‘
’’سیوا کے لئے ہیں۔ ناشتہ لگائیں؟‘‘
’’یہ کون سی جگہ ہے؟‘‘
’’راج محل…!‘‘
’’مہاوتی کہاں ہے؟‘‘ میں نے کہا اور وہ دونوں چونک پڑیں۔ انہوں نے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ پھر ایک بولی۔ ’’رانی جی نواس میں ہیں۔‘‘
’’میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’آپ کا سندیس انہیں دے دیں گے مہاراج مگر یہاں کوئی ان کا نام ایسے نہیں لیتا۔ ناشتہ لگا دیں آپ کے لئے۔‘‘
’’نہیں۔ تم فوراً باہر نکل جائو۔‘‘ میں غرا کر بولا اور ان دونوں کے چہرے کی شگفتگی کافور ہو گئی۔ دونوں ایک دوسرے کو دھکیلتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں خونی نظروں سے پورے ماحول کا جائزہ لینے لگا۔ سر کے بائیں حصے میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ یہیں وہ چوٹ لگی تھی جس نے مجھے بے حواس کر دیا تھا۔ ہاتھ وہاں پہنچ گیا۔ گومڑا ابھرا ہوا تھا۔ اسے سہلاتا رہا۔ پھر نیچے اتر کر دروازے کی طرف بڑھا۔ دروازہ باہر سے بند تھا۔
’’دروازہ کھولو… دروازہ کھولو۔‘‘ میں چیخ چیخ کر اسے پیٹنے لگا۔ کوئی آواز نہیں سنائی دی تھی۔ میں جنونی انداز میں دروازہ پیٹتا رہا اور پھر جب کوئی شنوائی نہ ہوئی تو کمرے میں موجود ہر شے تباہ و برباد کرنے لگا۔ کیوپڈ کا سنگی مجسمہ میں نے چور چور کر دیا۔ چھت میں لٹکے ہوئے قیمتی فانوس کو نیچے گرا کر کچل دیا۔ دیواریں کھرچ کر پھینک دیں۔ کمرے کا حلیہ پوری طرح بگاڑ دیا لیکن کہیں سے کوئی آواز نہیں ابھری تھی۔ بہت دیر تک یہ کوشش کرتا رہا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔ خاموشی سے ایک طرف جا بیٹھا۔ سانس تیز تیز چل رہا تھا۔ سخت پریشانی کا شکار تھا۔ بہت دیر گزر گئی، سر کی دکھن بے چین کر رہی تھی مگر کیا کرتا مجبوری تھی۔ اچانک بالکل ویسی ہی ’’شی شی‘‘ کی آواز سنائی دی جیسی ایک بار محل کے باغ میں پتھر کے مجسمے کے منہ سے نکلی تھی۔ میں نے وحشت زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھا۔ یہاں تو کوئی مجسمہ بھی نہیں تھا۔ کوئی کھڑکی یا روشن دان بھی نہیں تھا۔ پھر یہ آواز… آواز دوبارہ سنائی دی اور میری نظر زمین پر پڑی۔ یہاں تباہی پھیلاتے ہوئے میں نے دیوار سے چند روغنی تصاویر بھی اتار پھینکی تھیں۔ انہیں پیروں سے روندا تھا۔ یہ ’’شی شی‘‘ کی آواز ایک تصویر سے ابھری تھی۔ ایک جٹا دھاری سادھو کی تصویر تھی جو پالتی مارے آسن جمائے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے عقب میں ایک درخت پھیلا ہوا تھا۔ پیچھے جنگل تھا۔ نزدیک پیٹھے کے پھل سے بنا ہوا کنڈل رکھا تھا۔ یہ تصویر بھی میری کارستانی کا شکار ہوئی تھی۔ اس کی ایک آنکھ پھٹ گئی تھی مگر باقی چہرہ بچا ہوا تھا۔
’’ادھر آ… میرے پاس آ…‘‘ تصویر کی آواز پھر ابھری اور میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ میں نے تصویر کو دیکھا، اس کی اکلوتی آنکھ جھپک رہی تھی اور ہونٹ ہل رہے تھے۔ ’’نکلنا چاہتا ہے یہاں سے؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ میری سرگوشی ابھری۔ اس قدر حیرتوں سے گزرا تھا کہ اب کسی ناممکن پر حیرت نہیں ہوتی تھی۔
’’وہ دیکھ ادھر دیوار میں۔ ایک کڑا لٹکا ہوا ہے۔‘‘ میں نے اس کے اشارے پر ادھر دیکھا۔ یہاں پہلے کیوپڈ کا مجسمہ رکھا ہوا تھا مگر اب وہ چور چور ہو کر نیچے پڑا ہوا تھا۔
’’دیکھا…‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہ تیری مشکل کا حل ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’اسے زور سے کھینچ۔ تجھے راستہ مل جائے گا۔‘‘ سادھو کے ہونٹوں سے آواز نکلی۔
’’کہاں پہنچوں گا میں؟‘‘ میں نے سوال کیا مگر سادھو کی آنکھ بند ہو گئی تھی۔ ’’کہاں پہنچوں گا میں۔‘‘ میں غرایا مگر جواب نہ ملا۔ تصویر بے جان ہو گئی تھی۔ ’’بول میں کہاں پہنچوں گا۔‘‘ میں نے گرج کر کہا۔ تصویر اٹھائی اور اسے چندھیاں چندھیاں کر ڈالا۔ اس وقت مجھے ہر چیز پر غصہ آ رہا تھا۔ چندھیاں پھینک کر میں پھر اپنی جگہ جا بیٹھا۔ کڑا میرے سامنے ہی تھا، میں اسے دیکھتا رہا۔ پھر دماغ کچھ ٹھنڈا ہوا۔ واقعی اس کڑے کی یہاں موجودگی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ یہاں کیوں ہے۔ دیکھو اسے کھینچ کر۔ اپنی جگہ سے اٹھا۔ دیوار کے پاس جا کر میں نے کڑے میں انگلیاں پھنسائیں اور اسے زور سے کھینچا۔ کڑے کے ساتھ ایک چوکور سل کھنچی چلی آئی۔ حالانکہ پہلے دیوار میں کوئی نشان نہیں نظر آیا تھا۔ چوکور سل کے پیچھے تاریک خلا تھا۔ عجیب سا دروازہ تھا۔ نہ جانے دوسری طرف کیا ہے۔ کڑا چھوڑا تو سل اپنی جگہ جا ٹکی اور دروازہ بند ہو گیا۔ عجیب میکنزم تھا۔ دوسری بار میں اس سے اندر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ کڑا کھینچ کر سل کو ہٹایا۔ اپنے شانے سے اسے روکا اور بدن سکوڑ کر اس کے پیچھے پہنچ گیا۔
دوسری طرف بہت کشادہ جگہ تھی لیکن میرے اندر داخل ہوتے ہی دیوار کا خلاء بند ہو گیا اور اندر گھور تاریکی چھا گئی۔ آگے جانے کا راستہ تھا اس لئے میں نے بغیر کسی وسوسے کے آگے قدم بڑھا دیئے۔ یہاں کسے پروا تھی۔ اگلا قدم اگر تحت الثریٰ میں لے جائے تو لے جائے، موت کی کسے پروا تھی۔ چنانچہ میں آگے بڑھتا رہا۔ کوئی تین سو قدم چلنے کے بعد راستہ رکا لیکن دایاں ہاتھ جگہ بتا رہا تھا چنانچہ میں ٹٹول کر اس طرف بڑھ گیا۔ یہاں بھی اتنا ہی چلنا پڑا تھا یہاں تک کہ یہ راستہ بھی ختم ہو گیا۔ میں نے دونوں سمت ہاتھ پھیلائے مگر ہاتھ دیواروں سے جا ٹکے۔ اس کا مطلب ہے کہ آگے کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب کیا کروں۔ بند دیوار پر ہاتھ پھیرنے لگا کوئی چار فٹ کی بلندی پر اچانک ہاتھ رک گیا۔ بالکل ویسا ہی کڑا محسوس ہوا تھا۔ جلدی سے اسے پکڑ کر اس پر زور لگایا تو تیز روشنی ہو گئی۔ ساتھ ہی ویسا ہی خلاء نمودار ہو گیا۔ کانپتے دل کے ساتھ دوسری طرف نکل آیا۔ دوسری طرف آتے ہی دیوار پھر برابر ہو گئی تھی مگر جس جگہ پہنچا تھا وہ سرخ پتھروں کی دیواروں سے بنا ہوا ایک وسیع کمرہ تھا جس میں ایک چھوٹا سا مضبوط دروازہ لگا ہوا تھا۔ چھت کے قریب روشن دان تھے، ایک روشن دان ذرا نیچا تھا اس میں سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ یہ باہر جانے کا کون سا راستہ تھا۔ دفعتاً مجھے ایک آواز سنائی دی۔
’’کون ہے، کیا کوئی ہے؟‘‘ ساتھ ہی روشن دان کے پاس دیوار بجانے کی آواز سنائی دی۔ میں نے بے بسی سے ادھر دیکھا۔ دیوار سپاٹ تھی اور کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جس سے چڑھ کر روشن دان کے دوسری طرف جھانکا جا سکے۔ میں گردن ہلا کر رہ گیا۔ آواز پھر ابھری۔ ’’کوئی ہے، کوئی ادھر ہے تو مجھ سے بات کرو بھائی…‘‘
’’ہاں… میں ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کون ہو۔ کون ہو بھائی۔ میری مدد کرو۔ مجھے یہاں سے نکال دو، تمہاری مہربانی ہو گی۔‘‘ میں اس آواز کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ سنی ہوئی آواز تھی پھر ذہن جاگ گیا۔ میں نے اس آواز کو پہچان لیا۔ چندربھان، مہاوتی کا شوہر چندربھان… اور سرخ پتھروں کی عمارت… وہ عمارت جہاں میں باغ کی سیر کرتا نکل آیا تھا اور مجھے راجہ چندر بھان ملا تھا… آہ… تو یہ ہے میرے باہر نکلنے کا راستہ۔ گویا اس تصویر والے سادھو نے بھی دھوکا دیا تھا۔ کیوں نہ دیتا سادھو جو تھا…!‘‘
’’بولو بھائی۔ مدد کرو گے میری؟‘‘
’’تم راجہ چندربھان ہو؟‘‘
’’ہاں۔ تمہارا مہاراج۔ میری مدد کرو… اتنا انعام دوں گا تمہیں کہ کئی پشتیں آرام سے رہیں گی!‘‘
’’راجہ چندربھان۔ میں خود یہاں قیدی ہوں۔‘‘
’’قیدی؟‘‘
’’ہاں… یہ ایک بڑا سا کمرہ ہے اس میں ایک دروازہ اور کچھ روشن دان ہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ چندربھان کے لہجے میں بھی مایوسی پیدا ہو گئی۔ کچھ دیر خاموش رہ کر اس نے کہا۔ ’’تمہاری کمر میں زنجیر بندھی ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پیروں میں؟‘‘
’’نہیں میں آزاد ہوں۔‘‘
’’ارے بھائی تو دروازہ کھول کر دیکھو۔ دیکھو کھلا تو نہیں ہے۔‘‘ چندربھان نے کہا اور میں چونک پڑا۔ میں نے دروازے کے قریب پہنچ کر اسے کھول کر دیکھا مگر وہ باہر سے بند تھا۔ چندربھان نے پوچھا۔ ’’کیا ہوا… پتہ چلا؟‘‘
’’بند ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ چندربھان مایوس ہو گیا تھا۔ میں نے اسے کئی آوازیں دیں لیکن اس نے جواب نہیں دیا۔ بعد میں، میں نے دیوار کے اس حصے پر بھی ہزاروں کوششیں کر لیں لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے چندربھان کو پھر پکارا۔ ’’ہاں۔ میں بیٹھا ہوں۔‘‘
’’ تم مہاوتی کے شوہر ہو چندر بھان؟‘‘
’’شوہر…؟‘‘ اس نے کہا۔ پھر بولا۔ ’’کیا تم مسلمان ہو؟‘‘
’’ہاں۔ تم نے شاید لفظ شوہر سے اندازہ لگایا ہے۔‘‘
’’ایسا ہی ہے مگر… تم… تم… اس نے… کسی مسلمان کو۔ تم اس کے پھیر میں کیسے آ پھنسے بھائی۔ کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’مسعود۔‘‘
’’کیا ہوس کے جال میں آ پھنسے تھے…؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’پھر کیا ہوا تھا۔ مہاوتی بری آتما ہے۔ چنڈولنی ہے وہ۔ کالی کی داسی ہے۔ جیسا من چاہے بن جاتی ہے۔ ایسی کہ انسان اسے دیکھے تو سدھ بدھ کھو بیٹھے۔ جسے وہ اپنی سندرتا کے جال میں پھانسنا چاہے اس کا بچنا مشکل ہو جائے۔ کیا تم اس کے جال میں پھنس کر اس حال کو پہنچے ہو؟‘‘
’’نہیں چندربھان۔ ایسا نہیں ہوا۔ میں تقدیر کے جال میں پھنس کر یہاں پہنچا ہوں۔‘‘
’’ہاں کھیل تو سارے بھاگ کے ہوتے ہیں، کہانیاں مختلف ہوتی ہیں۔‘‘ چندربھان افسوس بھرے لہجے میں بولا۔
’’تمہارے بدن پر زنجیریں کیوں باندھ دی گئی ہیں چندربھان؟ جب کہ تم ویسے بھی یہاں سے نہیں نکل سکتے؟‘‘ میں نے سوال کیا اور دوسری طرف سے چند لمحات جواب نہ ملا پھر اس نے کہا۔
’’کیونکہ وہ مجھے جانتی ہے۔ اسے میری قوتوں کا پتا ہے۔ اس نے مجھے یہاں رکھ کر جو تکلیفیں دی ہیں اس کے خیال میں میری طاقت اس طرح ختم ہو جائے گی مگر کتنی۔ آخر کتنی۔ چندنا پھر بھی چندنا رہے گا۔‘‘
’’چندنا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ہاں۔ بھٹنڈا، گورسی۔ آس پاس ہی نہیں دور دور تک تم چندنا کا نام پوچھ سکتے ہو۔‘‘
’’مگر چندنا کون ہے؟‘‘
’’راجہ چندربھان۔ میرے سورگباشی پتا مہاراجہ سورج بھان راجہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے نامی گرامی پہلوان تھے۔ پہلوانی ان کا شوق تھا مگر ان کا یہ شوق میری ماتا رانی سچندا کو پسند نہیں تھا۔ یہ شوق پتاجی کو دیکھ کر پیدا ہوا اور میں نے کھل کر پہلوانی نہیں کی مگر چندنا کے نام سے بڑے بڑے پہلوان پچھاڑتا رہا۔ ماتا جی مر گئیں، پتاجی سورگباش ہو گئے۔ میری شادی راج کماری روپ کلی سے ہو گئی مگر چندنا، چندنا رہا۔ لوگ کبھی یہ نہ جان پائے کہ چندربھان ہی چندنا پہلوان ہے۔ مگر وہ جانتی تھی۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’مہاوتی۔ پاپن چنڈولنی…‘‘
’’وہ تمہاری بیوی نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اور روپ کلی؟‘‘
’’روپ کلی…!‘‘ چندربھان کے حلق سے سسکی سی نکلی۔ پھر اس کی آواز نہیں سنائی دی۔ کچھ دیر کے بعد میں نے اسے پکارا مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں خاموش ہو گیا اور اس کے بارے میں غور کرنے لگا۔
’’نہ جانے کیا وقت ہوا تھا۔ جب میں نے دروازے پر آہٹیں سنیں اور چونک کر ادھر دیکھنے لگا۔ دروازہ کھلا اور مجھے وہی منحوس شکل والا نظر آیا جسے میں نے پہلے بھی دیکھا تھا۔ وحشی اور نیم پاگل۔ اس نے ایک بڑا سا تھال اندر کھسکا دیا۔ تھال میں پھلوں کے انبار تھے۔ کیلے، ناشپاتیاں، سیب، انگور اور بہت سے کچے ناریل جو پانی سے بھرے ہوئے تھے۔ تھال کھسکاتے ہی اس نے دروازہ پھرتی سے بند کر دیا تھا۔ یہ میرے لئے خوراک تھی اور جتنی تھی اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ شاید کئی دن کے لئے ہے۔ ناریل پانی کی ضرورت پوری کرتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ مہاوتی مجھے یہاں مستقل قید رکھنا چاہتی ہے۔ بھوک دیوانہ کئے دے رہی تھی۔ دو ناشپاتیاں، چار کیلے کھائے اور ایک ناریل کا پانی پیا۔ بدن پر کہولت طاری ہو گئی۔ زمین پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ پھر نہ جانے کب آنکھ کھلی تھی۔ گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ غالباً رات کا کوئی پہر تھا۔ کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ صبروسکون سے پھر آنکھیں بند کر لیں اور دوبارہ اس وقت جاگا جب سورج کی کرنیں چمکتے دن کا پتا دے رہی تھیں۔ دوران خون جاری رکھنے کے لئے اپنے اس قیدخانے کے بہت سے چکر لگائے۔ ابھی چکر لگا ہی رہا تھا کہ روشن دان کے دوسری طرف سے دیوار بجنے کی آواز سنائی دی۔
’’جاگ گئے؟‘‘ دوسری طرف سے چندربھان کی آواز آئی۔
’’ہاں۔‘‘
’’میں کئی بار دیوار بجا چکا ہوں۔‘‘
’’ہاں میں سو رہا تھا۔‘‘
’’کچھ کھایا؟‘‘
’’ہاں۔ وہ پھل رکھ گیا تھا۔‘‘
’’کون مچنڈا؟ وہی بڑے بالوں والا؟‘‘ چندربھان نے پوچھا۔
’’ہاں، وہی مگر…؟‘‘
’’کچھ کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’دوسری ضروریات کے لئے کیا ہوتا ہے چندربھان؟‘‘
’’جنگل پانی کی بات کر رہے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کچھ کریں گے۔ مجھے تو دس آدمی جنگل پانی کے لئے دن میں ایک بار لے جاتے ہیں۔ اگر تمہارے پاس وہ نہ آئیں تو سمجھو تمہیں سزا دے رہے ہیں۔ یہ سزا مجھے تین مہینوں کی قید میں ملی تھی۔‘‘
’’پھر تم نے کیا کیا تھا؟‘‘
’’وہی جو ایک مجبور انسان کر سکتا ہے…!‘‘ اس نے جواب دیا اور میں ایک پریشان کن کیفیت محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔ معمولی سی لیکن کتنی مشکل بات تھی۔
’’مسعود۔ یہی نام بتایا تھا تم نے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مجھ سے باتیں کرو بھائی۔ بڑا دل چاہتا ہے کسی سے باتیں کرنے کو…‘‘
’’ہاں، ہاں کیوں نہیں۔‘‘
’’تم نے اپنی بپتا مجھے نہیں سنائی۔‘‘
’’میری کوئی بپتا نہیں ہے۔ ایک مسلمان شخص کے ہاں ملازم ہوں، یہاں بنارسی کپڑے لے کر آیا تھا۔ رانی مہاوتی نے پہلے مجھے مہمان رکھا، پھر قید کر دیا۔‘‘
’’کیا تم ایک خوبصورت مرد ہو۔ نوجوان ہو۔ تم نے اس کا کوئی حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے؟‘‘
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
’’کچھ تو ہو گا، کیا تم نے ہمارے باغ کی سیر کی؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تم نے وہاں مجسمے دیکھے ہوں گے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے دم روک کر کہا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ بت ہیں؟‘‘
’’پھر…؟‘‘
’’نہیں مسعود۔ وہ سب انسان ہیں۔ سارے کے سارے انسان ہیں۔ انہیں کسی سنگ تراش نے نہیں بنایا بلکہ وہ مہاوتی کے عتاب کا شکار ہیں۔ جیتے جاگتے، ہٹ دھرمی کی حکم عدولی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
’’اوہ… تو وہ سب…؟‘‘
’’ہاں اور بھی نہ جانے کیا کیا ہے۔ وہ چڑیل ہے، ڈائن ہے، انسانی خون پیتی ہے، انسانی گوشت کھاتی ہے، نئے نئے منتر اور جاپ کرتی رہتی ہے۔ کالی شکتی حاصل کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ تم نے کالی داس کو دیکھا ہوگا۔‘‘
’’دیوان کالی داس؟‘‘
’’دیوان۔ آہ تمہیں یہی بتایا گیا ہوگا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’دیوان کالی داس میرا دوست تھا۔ بچپن کا وفادار دوست۔ اس نے میری منتیں کیں، مجھے بہت سمجھایا مگر میں نے نہ مانی اور اس نے میرے لئے… میرے لئے جان دے دی۔ مر گیا وہ میرے ہاتھوں۔ میرا دوست میرے ہاتھوں مر گیا۔‘‘ چندربھان کی آواز رندھ گئی۔
’’تو پھر یہ کالی داس؟‘‘
’’یہ مہاوتی کا بیر ہے جو دیوان کالی داس کے شریر میں رہتا ہے اور مہاوتی… مہاوتی…!‘‘
’’چندربھان تم مجھے اپنی پوری کہانی نہیں سنائو گے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’پوری کہانی۔ ہاں جی چاہتا ہے وہ کہانی دہرانے کو۔ اپنے پاپ سنانے کو جی چاہتا ہے۔ مہاراجہ سورج بھان زندہ تھے۔ مہارانی سچندا جیتی تھیں۔ میں اکیلا راج کمار تھا۔ ماتا پتا کی آنکھ کا تارا۔ ریاست انہی کے دور میں ختم ہو گئی مگر ہمارے پاس بہت کچھ تھا۔ ہم بھٹنڈا حویلی میں آ گئے۔ میں یہاں بھی خوش تھا۔ عیش کرتا تھا۔ پہلوانی کرتا تھا۔ ماتا پتا نے روپ کلی کو دیکھا۔ کلی ہی کا روپ تھا۔ مجھے دکھایا اور میں نے شادی کی ہامی بھر لی۔ میرا بیاہ ہو گیا۔ ہم دونوں عیش سے زندگی گزارنے لگے۔ روپ کلی پتی ورتا تھی، وفادار تھی، مجھ پر جان دیتی تھی۔ میری پہلوانی کے شوق کو اس نے میری وجہ سے ماتا جی سے چھپائے رکھا۔ بھگوان نے ہمیں پانچ سال تک اولاد نہ دی۔ اسے پروا تھی، مجھے نہ تھی۔ ایک بار میں بہت بڑی کشتی مار کر کالی داس کے ساتھ واپس آ رہا تھا۔ ہم دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ دوپہر کا سمے تھا۔ ٹیکاٹیک دوپہری تھی۔ دھوپ ایسی کہ چیل انڈہ چھوڑ دے۔ گھوڑے پسینے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بیچ میں پیپل کا ایک بہت بڑا درخت پڑتا تھا۔ آس پاس بھی بہت سے درخت ہیں۔ میرا من مچل اٹھا میں نے کالی داس سے کہا کہ وہاں رکیں گے۔ کالی داس بولا۔ ’’یہاں رکنا خطرناک ہے چندرمہاراج۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ سانسا کنڈل ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں بھوت پریت کا راج ہے۔ سر کٹے اور چڑیلیں رہتی ہیں۔‘‘ میں ہنسنے لگا۔ سانسا کنڈل کے بارے میں، میں نے بھی کہانیاں سنی تھیں مگر ہمیشہ اس کا مذاق اڑایا تھا۔ اس وقت بھی میں نے ہنس کر کالی داس کا مذاق اڑایا اور اس بڑے پیپل کے درخت کے نیچے گھوڑا روک دیا۔ یہاں بڑی ٹھنڈک تھی، ہوا بالکل ٹھنڈی اور مست کر دینے والی تھی۔ گھوڑوں نے بھی گردنیں ڈال دیں۔ کالی داس بھی خاموش ہو گیا۔ ہم دونوں آرام کرنے لگے۔ میں نے کہا۔ ’’کالی داس بھوت پریت کہاں ہیں؟‘‘ اس نے خوفزدہ ہو کر کہا کہ اس دوپہر میں ان چیزوں کا نام بھی نہیں لیتے۔ بہت دیر گزر گئی۔ اچانک میں نے چھن چھن کی آواز سنی۔ کالی داس کی تو گھگھی بندھ گئی۔ دہشت سے بولا۔ ’’چندر مہاراج آ گئی۔‘‘ کون۔ میں نے پوچھا مگر اس کے منہ سے آواز نہ نکلی۔ میں نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ رنگین کپڑوں میں ملبوس ایک سندری تھی۔ پیروں میں پہنے ہوئے جھانجھن چھن چھن بج رہے تھے، دھوپ سے چہرہ تمتما رہا تھا اور وہ آگ جیسی نظر آ رہی تھی۔ کالی داس نے آہستہ سے کہا کہ اس کے پائوں تو سیدھے ہیں۔ چڑیل تو نہیں لگتی۔ سندری نے ہمیں نہیں دیکھا تھا۔ پیپل کے درخت کے پیچھے دوسرے حصے میں وہ زمین پر بیٹھ گئی اور اپنی اوڑھنی کے پلو سے پنکھا کرنے لگی۔ ہم دونوں سانس روکے اسے دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر وہ پسینہ سکھاتی رہی پھر چھوٹے چھوٹے کنکر اٹھا اٹھا کر ادھر ادھر پھینکنے لگی۔ کسی دور کے درخت پر کوئل کوکی تو وہ بھی کوک اٹھی۔ دونوں میں مقابلہ ہو رہا تھا اور وہ کوئل کی بولی بول بول کر ہنس رہی تھی۔ میرا من اسے دیکھ کر ڈول گیا۔ بڑی سندر لگ رہی تھی وہ۔ پھر اس کے منہ سے آواز نکلی۔
’’کوئل کالی میٹھے میٹھے بول والی، بول میرا پی کہاں؟‘‘
اور میں اس کے سامنے آ گیا۔ وہ گھبرا گئی، ڈر گئی۔ اس نے سہمی سہمی کالی آنکھوں سے مجھے دیکھا مگر ان آنکھوں میں خوف کے ساتھ پسند بھی تھی۔ اسی وقت دور سے ہمیں گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی۔ ایک دیہاتی ہمارے دونوں گھوڑوں کی لگامیں پکڑے ادھر آ رہا تھا۔ قریب آ کر اس نے کہا۔ ’’مہاراج یہ گھوڑے آپ کے ہیں؟‘‘
’’ہاں۔ یہ کہاں سے پکڑے تم نے؟‘‘
’’ادھر ہماری کٹیا ہے۔ یہ چرتے ہوئے ادھر نکل آئے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ کوئی مسافر ہیں جو پیپل کے درختوں تلے سو گئے ہیں۔ سو ادھر آ گیا۔ پھر اس نے لڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے مہاوتی تو پھر دوپہری میں نکل بھاگی۔‘‘ اور وہ شرارت سے ہنسنے لگی۔
گھوڑے لانے والا بولا۔ ’’سنبھالو مہاراج اپنے گھوڑے اور تو چل چنڈولنی کہیں کی۔‘‘ وہ اسے ساتھ لے گیا مگر میں شکار ہو گیا تھا اور اس کے بعد میں چھپ چھپ کر شمبھو کے پاس آنے لگا۔
’’شمبھو۔‘‘ میرے منہ سے نکل گیا مگر چندربھان نے پھر میری بات کا جواب نہیں دیا اور بولا۔ ’’مہاوتی مجھ سے بے تکلف ہو گئی اور میں زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارنے لگا۔ میری ماتا کا دیہانت ہو گیا۔ کوئی سال بھر بعد پتا جی بھی مر گئے۔ روپ کلی اب مجھے بری لگنے لگی تھی مگر نبھا رہا تھا اسے۔ شمبھو سے میں نے کہا کہ مہاوتی کے مجھ سے پھیرے کرا دے۔ وہ بولا کہ مہاراج وہ آپ کی ہے جب چاہیں اسے لے جائیں۔ ہم چنڈولے ہیں، ہمارے ہاں پھیرے نہیں ہوتے۔ اس سمے میں چنڈولوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ روپ کلی سے میں لڑنے جھگڑنے لگا پھر ایک دن میں مہاوتی کو اپنے گھر لے آیا۔ روپ کلی اور دوسروں کو میں نے بتایا کہ وہ میری دوسری پتنی ہے۔ روپ کلی روئی پیٹی مگر بے بس تھی۔ آہستہ آہستہ محل پر مہاوتی کا راج ہونے لگا۔ کالی داس ہمیشہ روپ کلی کا پاٹ لیتا تھا، کئی بار میں نے اسے ڈانٹا تھا مگر وہ کہتا تھا کہ ایک دن مہاوتی مجھ پر مصیبت لائے گی۔ مجھے بہت برا لگتا تھا مگر دوستی کی خاطر خاموش ہو جاتا تھا۔ پھر محل میں کچھ انوکھے واقعے ہونے لگے۔ مہینے، دو مہینے میں ایک آدھ داسی ختم ہو جاتی تھی اور وہ بھی عجیب طریقے سے۔ اس کا بدن کسی جانور کا کھایا ہوا ملتا تھا۔ بڑی پریشانی ہو گئی۔ بہت سی داسیاں ماری گئیں۔ ایک دن اکیلے میں کالی داس نے ایک سادھو کو میرے سامنے پیش کیا اور کہا۔ ’’یہ دھنی رام جوگی ہیں۔‘‘
’’پھر میں کیا کروں؟‘‘
’’پچھلے دنوں یہ میرے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔‘‘
’’کیا کام کرتے رہے ہیں؟‘‘
’’مہاوتی کے بارے میں معلومات…؟‘‘ کالی داس نے کہا۔
میں نے غصے سے کالی داس کو دیکھا اور وہ جلدی سے دھنی رام جوگی سے بولا۔ ’’بتائو دھنی رام جی۔‘‘
’’تیرے محل میں چنڈولنی آ بسی ہے
چندربھان۔ یہ جادوگرنیاں ہوتی ہیں جو خون پیتی ہیں، ماس کھاتی ہیں اور اپنے جاپ پورے کرتی ہیں۔ جاپ پورے کرنے کے لئے انہیں عورتوں کا بلیدان دینا پڑتا ہے، ہو سکتا ہے وہ چنڈولنی تیری دوسری دھرم پتنی ہی ہو۔‘‘
’’تم یہاں سے فوراً نکل جائو جوگی مہاراج۔ ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔ سمجھے۔‘‘ میں نے دھکے دے کر جوگی مہاراج کو نکال دیا اور کالی داس سے کہا۔ ’’کالی داس تم حد سے بڑھ رہے ہو۔ تم نے مہاوتی سے جو بیر باندھا ہے وہ نہ تمہارے کام آئے گا، نہ روپ کلی کے۔ اس کے بعد مہاوتی کے بارے میں کچھ نہ کہنا۔ کالی داس خاموش ہو گیا۔ بہت دن گزر گئے۔ پھر ایک دن مہاوتی نے مجھ سے کہا۔
’’تمہارا نمک کھاتی ہوں چندربھان، تمہارے اچھے برے کا خیال رکھنا میرا دھرم ہے۔ کچھ کہنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کیا بات ہے مہاوتی؟‘‘
’’تمہارا دیوان تمہارا وفادار نہیں ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’اور نہ تمہاری دھرم پتنی روپ کلی۔ میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتی۔ اس سے زیادہ کچھ اور سننے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی تھی میں نے۔ میں غصے سے بے قابو ہو گیا۔ سیدھا روپ کلی کے پاس پہنچا اور اس سے نہ جانے کیا کیا کہہ ڈالا۔ روپ کلی آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھتی رہی اور پھر گردن جھکا کر خاموش ہو گئی۔ پھر دوسری صبح مجھے داسیوں نے آ کر بتایا کہ روپ کلی زہر کھا کر مر گئی۔
’’مر گئی۔‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’ہاں… عزت والی تھی۔ اپنے اوپر گندے الزام برداشت نہ کر سکی۔ زہر کھا لیا اس نے۔ اس کی ارتھی اٹھی تو کالی داس بے قابو ہو گیا۔ اس نے مجھے برا بھلا کہا۔ میں غصے میں تو تھا ہی میں نے کالی داس پر حملہ کر دیا مگر مہاوتی نے مجھے اسے مارنے سے روک دیا۔ اس نے کہا کہ کالی داس کو کال کوٹھری میں بند کر دیا جائے۔ یہی اس کی سزا ہے۔ میں کالی داس کو ختم کرنے پر تلا ہوا تھا۔ مگر مہاوتی نے مجھے ایسا نہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ پھر بھی میں نے نو دن تک کال کوٹھری میں رکھا۔ دسویں دن جب میں نے اسے نکالا تو وہ میرے قدموں میں گر گیا۔ اس نے مجھ سے معافیاں مانگیں اور تصدیق کی کہ روپ کلی بری عورت تھی۔ اس طرح میرے دل میں جو خلش پیدا ہو گئی تھی وہ ختم ہو گئی۔ میں شانت ہو گیا۔ روپ کلی کی آتم ہتھیا کا خیال میرے دل سے نکل گیا۔ یوں کئی سال بیت گئے۔ اب محل پر مہاوتی کا راج تھا، وہ ہی سیاہ و سفید کی مالک تھی۔ میں اس کے کسی معاملے میں نہیں بولتا تھا۔ مگر محل میں داسیاں پھر بھی مرتی رہیں، بہت سی بھاگ گئیں۔ یہ بھید میری سمجھ میں آتا تھا۔ بات یہیں تک نہیں رہی، کئی بار میں نے محل میں کچھ نوجوانوں کو دیکھا بعد میں ان کے مجسمے باغ میں سجے ہوئے دیکھے۔ مجھے پھولوں کا ہمیشہ سے شوق تھا اور میں نے نہ جانے کہاں کہاں سے پھول منگوا کر اپنے باغ میں سجائے تھے۔ ان پھولوں کے بیچ مجھے یہ بہت برے لگتے تھے۔ مہاوتی نے کہا کہ یہ اس کا شوق ہے۔ میں خاموش ہو گیا۔
کافی دن کے بعد ایک بار مجھے جوگی دھنی رام پھر مل گیا۔ مجھے دیکھ کر طنز سے مسکرایا اور بولا۔ ’’کیوں چندر سورما… مزے کر رہا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا۔‘‘
’’آنکھوں کے اندھے ہمیشہ دیکھے مگر عقل کے اندھے کو پہلی بار ہی دیکھا ہے۔‘‘
’’وہ کون ہے؟‘‘
’’تو اور کون…؟‘‘
’’اگر تم اتنے بوڑھے نہ ہوتے تو تمہیں اس کا جواب دیتا جوگی مہاراج۔‘‘ میں نے غصے میں کہا۔
’’ہاں۔ بہت بڑا پہلوان ہے تو، میری ہڈیاں چرمرا دیتا اور کیا کرتا۔‘‘
’’پہلوان…؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’چندنا پہلوان۔‘‘
’’کس نے بتایا تمہیں؟ سمجھ گیا۔ کالی داس نے بتایا ہوگا۔‘‘
’’بیچارا کالی داس اپنی نیکیوں کا گھائو کھا گیا، اپنی نیکیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ دھت تیرے کی اندھے۔ تجھے سزا ملے گی اس معصوم دھرم پتنی کی موت کی چندربھان جو پوتر تھی، اس وفادار دوست کی موت کی جو کتے کی طرح وفادار تھا تیرا۔‘‘ میں مسکرایا۔ میں نے کہا۔ ’’تمہیں کالی داس کی موت کے بارے میں کس نے بتایا مہاراج۔‘‘
’’تیری طرح عقل کا اندھا نہیں ہوں میں۔‘‘ دھنی رام نے غصے سے کہا۔
’’کالی داس سے ملو گے مہاراج۔‘‘ میں نے طنز سے کہا۔
’’اس گندے بیر سے جو کالی داس کے شریر میں رہتا ہے۔‘‘
’’کیا بکتے ہو؟‘‘ میں غرایا۔
’’بکتا نہیں سچ کہتا ہوں۔ کالی داس بیچارا تو اسی کال کوٹھری میں بھوکا پیاسا مر گیا اور جونہی اس کی آتما نے اس کا شریر چھوڑا چنڈولنی کے بیر نے اس کے شریر میں آ کر چنڈولنی کا کام پورا کر دیا۔ اسے کالی داس کی ضرورت جو تھی تاکہ تیرے بعد دیوان کے ذریعے تیری دولت سنبھال سکے۔‘‘
’’تو حد سے آگے بڑھ رہا ہے دھنی رام۔ گندے الزام لگا رہا ہے مہاوتی پر۔ میں تیری گردن اڑا دوں گا۔‘‘
’’مہاوتی نہیں، مہان وتی کہہ اسے بڑی مہان ہے وہ، تحقیقات کر۔ تجھے بہت جلد سب کچھ پتہ چل جائے گا۔ ذرا سورج ڈوبے اپنے باغ میں چلے جانا اور ان مجسموں سے ان کی بپتا پوچھ لینا، اپنی کہانی سنا دیں گے تجھے۔ اور آج… آہا… آج کی رات کام کی ہے۔ ٹھیک ہے۔ آج کی رات پرانی حویلی کے نیچے جو تہہ خانہ ہے اس میں خود اپنی پھوٹی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لینا۔‘‘
دھنی رام چلا گیا مگر وہ مجھے حیران کر گیا تھا مسعود۔ ایسی اندر کی باتیں کہی تھیں اس نے کہ کوئی انہیں نہیں جانتا تھا۔ پرانی حویلی یہی جگہ ہے جہاں ہم قید ہیں۔ اس کے نیچے تہہ خانہ بھی ہے جس کے بارے میں کسی دوسرے کو نہیں معلوم۔ میرے دل میں کرید سی پیدا ہو گئی۔ میں کچھ پریشان ہو گیا۔ اس شام میں باغ میں آ نکلا۔ ان مجسموں کے بیچ گھومنے لگا۔ تبھی مجھے کسی نے سرگوشی میں پکارا۔ میں نے حیرت سے اس مجسمے کو دیکھا جو مجھے بلا رہا تھا۔
’’تم زندہ ہو۔‘‘ میں نے اسے چھوتے ہوئے پوچھا۔
’’ہم تو جو ہیں وہ تم دیکھ رہے ہو مگر تم ضرور زندہ ہو، بھاگ جائو یہاں سے جتنی جلدی ہو بھاگ جائو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’وہ جادوگرنی تمہیں بھی پتھر کا بنا دے گی۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’مہاوتی۔ وہ کالکی ہے، کالی کی پجارن۔ وہ ہمیں اپنے کالے جادو کو پورا کرنے کے لئے نوکری کے دھوکے سے بلاتی ہے، ہمیں ایسے حکم دیتی ہے جو ہم پورے نہیں کر سکتے اور پھر وہ ہمیں سزا دیتی ہے، پتھر کا بنا دیتی ہے۔ تم بھاگ جائو۔ فوراً یہاں سے بھاگ جائو۔ بولتے مجسمے ایک ہی کہانی سنا رہے تھے اور میرا دل ڈوبا جا رہا تھا۔ روپ کلی یاد آ ر ہی تھی۔ کالی داس پر بھی غور کر رہا تھا اور اب غور کرنے پر وہ مجھے بھی بدلا بدلا لگنے لگا تھا۔ آہ اس کا مطلب ہے کہ دھنی رام سچ کہہ رہا تھا۔ میں پیپل کے نیچے بری آتما کا شکار ہو گیا تھا۔ اور، اور میں نے اپنے دوست کو، اپنی دھرم پتنی کو اس کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ میرا دل دکھتا رہا پھر میرے اندر دھواں اٹھا۔ میں نے دانت پیستے ہوئے سوچا کہ اگر یہ سچ ہے تو… تو یہیں مہاوتی کو زندہ جلا دوں گا۔ اسے جیتا نہیں چھوڑوں گا۔ دھنی رام کی دوسری بات بھی مجھے یاد تھی حویلی کے تہہ خانے والی۔ چنانچہ میں رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ پھر کافی رات گئے میں دبے پائوں حویلی کے تہہ خانے میں داخل ہوا۔ یہ تہہ خانہ ویران پڑا رہتا تھا مگر اس وقت وہاں روشنی تھی۔ سرخ روشنی جو ایک جلتے الائو سے اٹھ رہی تھی۔ تہہ خانے میں کوئی تھا، ضرور کوئی تھا۔ میں نے ایک ستون کی آڑ سے دیکھا اور جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر میرا دماغ سن ہو گیا۔ ایک داسی کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ اس سے خون ابل رہا تھا اور اس کے قریب مہاوتی جس کا رنگ اس سمے گہرا کالا تھا، چہرہ بھیانک اور خون میں لتھڑا ہوا تھا، دونوں ہاتھوں اور پیروں کے بل جھکی اس کا ماس کھا رہی تھی۔ میرے قدموں کی چاپ اس نے سن لی۔ آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا…!‘‘
وہ آنکھیں! وہ آنکھیں کسی انسان کی نہیں تھیں۔ ان کی سفیدیوں میں پتلیوں کی جگہ دو سیدھی کھڑی چمکدار لکیریں نظر آرہی تھیں۔ ان کا رنگ گہرا کالا ہورہا تھا۔ جگہ جگہ خون کے دھبے نظر آرہے تھے۔ مہاوتی کو اس کیفیت میں دیکھ کر میرا غصہ تو ہوا ہوگیا۔ خوف سے میری کپکپی بندھ گئی۔ میں نے بھاگنے کے لیے قدم اٹھائے مگر میرے پائوں میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے شاید میں اس کے سحر میں جکڑ گیا تھا۔ اس جادوگرنی نے مجھے دیکھ کر مجھ پر اپنا کوئی جادو آزما ڈالا تھا۔ پھر میں نے اپنے پیچھے تہہ خانے کا دروازہ بند ہوتے ہوئے سنا۔ میرا بدن تھراتا رہا اور وہ میری نگاہوں کے سامنے ایک انسانی جسم کو خونخوار درندے کی طرح بھنبھوڑتی رہی۔ پھر اس نے اپنی کوئی آٹھ انچ لمبی سرخ زبان باہر نکالی۔ اس زبان کو پورے چہرے پر گھما کر اس نے خون کے دھبے صاف کئے، اپنے ہاتھوں کو چاٹا۔ اس وقت وہ صرف ایک بھیانک درندہ معلوم ہورہی تھی جو انسانی روپ میں تھا۔
میں نے خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا تھا کہ جس کے ساتھ میں نے زندگی کا اتنا وقت گزار دیا، جس کے لیے میں نے نجانے کس کس کو قربان کردیا، وہ انسان نہیں بلکہ ایک گندی آتما ہے۔ دھنی سچ کہہ رہا تھا۔ وہ سچ ہی کہہ رہا تھا اور اب اس کی کسی بات میں کوئی شک نہیں رہا تھا۔ مجھ سے محل میں جو داسیاں گم ہوگئی تھیں، یقیناً ان کے جسموں کی ہڈیاں اسی تہہ خانے میں پڑی سوکھ رہی ہوں گی۔ وہ عورت ان سب کی قاتل تھی۔ اس نے انہیں کھا لیا تھا اور یہ تصور میرے لیے اتنا بھیانک تھا کہ میرا بدن ہی میرا ساتھ چھوڑ گیا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی قوتیں سلب ہوگئی تھیں۔ روپ کلی بھی یاد آرہی تھی۔ میری وفادار بیوی! جس پر میں نے اس پاپن کی وجہ سے شک کیا تھا۔ کالی داس میرا وفادار ساتھی، میرے بچپن کا دوست! اب اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ اسی پاپن کا بیر تھا۔ مجھے ابھی تک اپنی ذات کو درپیش کسی خطرے کا احساس نہیں ہوا تھا۔ اسی کے جال میں جکڑا ہوا تھا۔ وہ شاید اپنا پیٹ بھر چکی تھی۔ اس کے بعد اس نے مجھے دیکھا، مسکرائی اور بلی کی طرح دونوں ہاتھ آگے کرکے اور پائوں پیچھے کرکے اس نے انگڑائی لی پھر زمین پر دوچار لوٹیں لگائیں اور اس طرح آنکھیں بند کرکے لیٹ گئی جیسے سو گئی ہو لیکن میں نے اس کے وجود کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بدن کی سیاہی چھٹ گئی اور وہ بالکل پہلے جیسی ہوگئی۔ اس نے قریب ہی پڑا ہوا سفید لباس اپنے کاندھوں پر ڈالا اور پھر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میرے سامنے پہنچ گئی۔ اب اس کی آنکھیں بھی بالکل ٹھیک تھیں۔ میرے جسم میں جیسے دوبارہ زندگی دوڑ گئی۔ میں نے ایک پھریری سی لی اور خونخوار نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ میں نے پھٹی پھٹی آواز میں کہا۔
’’مہاوتی! تو کون ہے؟ آج تیری اصل شکل میرے سامنے آگئی۔ بتا مجھے تو کون ہے؟ میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا، تو… تو میری روپ کلی کی قاتل ہے اور تو نے اتنی داسیوں کو اپنی بھینٹ چڑھایا ہے۔ بتا تو کون ہے… کون ہے تو…؟‘‘
’’آرام سے بیٹھ کر باتیں کرو چندر بھان! یہ جگہ تمہیں کیسی لگی…؟‘‘
’’میں تجھ سے پوچھتا ہوں مرنے سے پہلے مجھے اپنے بارے میں بتا دے تو اچھا ہے۔ تجھے زندہ چھوڑنا میری زندگی کا بدترین گناہ ہوگا۔‘‘
’’کالکی ہوں۔ کالی مائی کی پجارن ہوں اور کیا بتائوں تمہیں! گیان حاصل کررہی ہوں، شکتی حاصل کررہی ہوں، جیون بڑھا رہی ہوں اپنا، یہ انسانی گوشت، انسانی خون میری زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ سمجھ رہے ہو نا اور کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘
’’مگر تو… تو…؟‘‘
’’ہاں… ہاں بولو…‘‘
’’تو نے مجھے دھوکا دیا۔ تو مجھے وہاں انسانی روپ میں ملی تھی۔‘‘
’’یہ تو ہمارا کام ہے چندر بھان جی! اگر میں وہاں تمہارے من کو نہ بھاتی تو تم مجھے یہاں تک کیسے لے آتے؟ اگر میں تمہیں سب کچھ سچ سچ بتا دیتی تو سوگندکھا کر کہو، وہی کرتے تم، جو تم نے کیا، مجبوری تھی ایسی کون سی بات ہے، مگر تمہیں اس کھوج میں پڑنا نہیں چاہیے تھا۔ جو کچھ میں کررہی تھی، مجھے کرنے دیتے۔ یہ سب کچھ تو سیکڑوں سال سے کررہی ہوں، سیکڑوں سال سے…!‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘
’’اب سارے ہی مطلب جان لو گے۔ ڈھائی سو سال ہے میری عمر سمجھے! ہوسکتا ہے اس سے بھی کچھ زیادہ ہو۔ ڈھائی سو سال سے جی رہی ہوں میں اور… اور ہزاروں سال جینا چاہتی ہوں، ہزاروں سال جیتی رہوں گی۔ تھوڑا سا کام کرنا ہے مجھے بس! شکتی حاصل کرنا میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے اور میں کافی شکتیاں حاصل کرکے اپنے آپ کو امر کرلینا چاہتی ہوں۔‘‘
’’دوسروں کی زندگیوں سے کھیل کر…؟‘‘
’’ہاں…! یہی تو کالی شکتی کی مانگ ہوتی ہے۔ کالے جادو کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تم! یہی وجہ ہے چندربھان جی! اور عام لوگوں کو جاننا بھی نہیں چاہیے۔ جو جان لیتے ہیں، وہ شکتی مان بن جاتے ہیں یا پھر شکتی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اب تم دیکھو نا جنہوں نے جان لیا، وہ پتھر کے مجسموں میں تبدیل ہوگئے مگر تمہارے ساتھ ایسا کرنا ذرا ٹھیک نہیں رہے گا۔ چندر بھان جی! پتی ہو نا تم میرے، راج محل کے مالک ہو۔ پتا نہیں کہاں تمہاری ضرورت پیش آجائے۔ میں اپنے کام تو کرسکتی ہوں لیکن جو کام تمہیں کرنے ہوتے ہیں، وہ کون کرے گا؟ اس کا ایک ہی طریقہ ہے چندر بھان مہاراج! وہ یہ کہ تم جیتے رہو اور ایسے جیو کہ سنسار سے تمہارا کوئی واسطہ نہ رہے۔ واسطہ رکھو گے تو میرے خلاف کام کرتے پھرو گے۔ جوگیوں، سادھوئوں اور سنتوں کے چکر میں پڑتے پھرو گے، مجھے بھی پریشانی ہوگی، تمہیں بھی اور انہیں بھی! اس سے بچائو کا ایک ہی طریقہ ہے تم بیمار ہوجائو چندر بھان! سمجھے، تم بیمار ہوکر اسی پرانی حویلی میں رہو ،کوئی تکلیف نہیں ہوگی تمہیں، جیتے رہو گے مگر ایسے نہیں کہ یہاں سے کہیں باہر چلے جائو اور میرے لیے پریشانیاں پیدا کرو۔‘‘
’’تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا میں! تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ وہ ہنس پڑی پھر اس نے زمین پر سے کوئی چیز اٹھائی، منہ کے قریب لا کر اس پر کوئی منتر پڑھا اور میری جانب اچھال دیا۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے بدن میں آگ لگ گئی ہو۔ ایسی آگ کہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ میرے کپڑے جل رہے تھے، نہ کہیں سے بدبو اٹھ رہی تھی، نہ دھواں نکل رہا تھا۔ لیکن مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے شعلے مجھے چاٹ رہے ہوں۔ میرے حلق سے دہشت بھری آوازیں نکل رہی تھیں اور میرا شریر جل رہا تھا۔ میں زمین پر گر کر لوٹنے لگا اور اس کے قہقہے تہہ خانے میں گونجتے رہے۔ پھر یہ آگ رفتہ رفتہ ٹھنڈی پڑتی چلی گئی۔ آگ ہی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی مسعود، بلکہ میرا دماغ بھی ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ جب ہوش آیا تو اس کمرے میں تھا جس کمرے میں تم اب مجھے دیکھ رہے ہو۔ میں اب بہتر کیفیت میں تھا۔ بس ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے بدن کا سارا خون نچوڑ لیا ہو، جان ہی نہیں رہی تھی میرے ہاتھوں، پیروں میں! زمین پر چت پڑا ہوا تھا میں۔ بہت دیر اسی طرح گزر گئی پھر ذرا بدن میں کچھ جان واپس آئی تو ہمت پکڑی۔ اٹھ کر بیٹھ گیا اور ان واقعات کے بارے میں سوچنے لگا۔ پرانی حویلی کے اس کمرے کو میں اچھی طرح پہچانتا تھا۔ ظاہر ہے میرے پرکھوں کی حویلی تھی۔ اس نے مجھے قید کردیا تھا اور یہ بات مجھے اچھی طرح معلوم تھی کہ وہ دروازہ کھولے بغیر میں باہر نہیں نکل سکتا اور دروازہ باہر سے بند ہو تو کوئی بڑے سے بڑا سورما اسے توڑ نہیں سکتا۔ یہ پرانے دور کے بنے ہوئے دروازے ہیں۔ ان پر بڑی ضربیں لگائی جائیں تب بھی ٹس سے مس نہ ہوں جبکہ میرے پاس یہاں کچھ نہیں تھا، خالی ہاتھ تھا میں۔ تب پہلی بار میں نے مچنڈا کو دیکھا۔ وہ آدمی جو اس دن تمہیں بھی نظر آیا تھا۔ گونگا مچنڈا! وہ کون ہے، کیا ہے، میں نہیں جانتا۔ شکل و صورت سے وہ بھی مجھے کوئی گندی آتما ہی لگتی ہے مگر میں مچنڈا کو دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ میرے لیے کھانے پینے کی چیزیں لایا تھا جو ایک تھال میں رکھی ہوئی تھیں۔ اس نے یہ تھال رکھا واپس پلٹا تو میں نے اس پر چھلانگ لگا دی اور اسے دبوچ لیا۔ وہ گینڈے جیسی طاقت رکھتا ہے۔ کسی بھینسے کی طرح ٹکر مار کر دیواریں ہلا سکتا تھا مگر مقابلہ چندنا سے ہوگیا تھا اور چندنا کے بارے میں، میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ اس کا ثانی بھٹنڈہ اور اس کے آس پاس کہیں نہیں تھا۔ میں اس سے زور آزمائی کرتا رہا۔ وہ مجھ پر حملے نہیں کررہا تھا بلکہ اپنا بچائو کررہا تھا۔ بالآخر میں نے اسے کندھے پر اٹھا کر زمین پر دے مارا اور اس کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا لیکن مجھے یہ محسوس ہوا کہ پیچھے کوئی آیا ہے اور ایک بار پھر میرے حلق سے دہشت بھری چیخیں نکلنے لگیں۔ اسی آگ نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ آہ…! دوبارہ میں اس آگ سے دوچار ہوچکا ہوں اور شاید الفاظ میں تمہیں اس کی جلن نہ بتا سکوں۔ ایسی شدید آگ ہوتی ہے وہ کہ بھگوان ہر انسان کو اس سے محفوظ رکھے۔ وہ نرکھ کی آگ ہے مسعود! نرکھ کی آگ ہے۔ اس آگ نے ایک بار پھر مجھے بے ہوش کردیا اور اس کے بعد جب دوبارہ مجھے ہوش آیا تو آگ ٹھنڈی ہوچکی تھی لیکن میرے ہاتھوں، پیروں اور کمر میں یہ زنجیریں پڑی ہوئی تھیں۔ زنجیروں کی لمبائی اتنی ہے کہ بس میں تھوڑی ہی دور تک پہنچ سکوں۔ مچنڈا آتا ہے میرے لیے کھانے پینے کی چیزیں لاتا ہے۔ مجھے جنگل پانی کو لے جاتا ہے مگر اپنا فاصلہ اتنا رکھتا ہے وہ کہ میں اس تک نہ پہنچ پائوں اور اس وقت سے میں اسی طرح جی رہا ہوں۔ بھگوان کی سوگند ایک بار مجھے ان زنجیروں سے نجات مل جائے تو میں کم ازکم مچنڈا کو ضرور ہلاک کردوں۔ اس پاپی کو جو گونگا ہے لیکن اس عورت کا ہرکارہ ہے۔ یہ ہے میری کہانی مسعود! میں نجانے کب سے یہاں قید ہوں۔ اس نے مجھے بیمار مشہور کررکھا ہے، کسی کو میرے پاس نہیں آنے دیتی۔ بہت چالاک ہے وہ نجانے کس کس طرح لوگوں کو ٹالتی رہتی ہے۔ میں جانتا ہوں جب تک میں جیتا ہوں، وہ میری ضرورت محسوس کرتی ہے۔ مر جائوں گا تو وہ اس وقت تک سارا نظام سنبھال چکی ہوگی۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے کاغذوں پر دستخط کرانے آتی ہے اور میں اس کے جادو کے زیراثر اس کے کہنے پر عمل کرلیتا ہوں مگر جب وہ چلی جاتی ہے تو جادو کا اثر مجھ پر سے ختم ہوجاتا ہے اور اس وقت اس کے لیے میرے دل میں نفرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسی زندگی گزار رہا ہوں میں! یہ زندگی گزار رہا ہوں۔‘‘
میں شدت حیرت سے گنگ تھا۔ زبان کچھ کہنے سے قاصر تھی۔ اس نے مہاوتی کی جو شکل بتائی تھی، اس شکل میں، میں بھی مہاوتی کو دیکھ چکا تھا۔ ایک لفظ جھوٹ نہیں معلوم ہوتا تھا چندر بھان کا اور اس طرح مہاوتی کی شخصیت بھی سامنے آجاتی تھی۔ کس جال میں پھنس گیا میں…! نہ مجھے اس جادوگرنی کی زندگی سے کوئی دلچسپی تھی، نہ موت سے…! میں تو یہاں سے واپس جانا چاہتا تھا۔ حاجی فیاض الدین احمد نے نجانے مجھے کس مصیبت میں پھنسا دیا تھا۔ کم بخت نوشاد چلا گیا تھا۔ بھگوتی پرشاد اپنی جان بچا کر نکل گیا تھا اور میں یہاں اس عذاب میں گرفتار ہوگیا تھا۔ اس نے مجھے کیوں قید کررکھا ہے۔ کیا وہ میرا بھی گوشت کھانا چاہتی ہے؟ لیکن اب تک تو جو بات علم میں آئی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ عورتوں ہی کو کھاتی ہے اور اس دن بھی میں نے ایک عورت ہی کے جسم کو دیکھا تھا یعنی رجنا وتی! معصوم اور مظلوم رجنا وتی…! چند لمحات کے بعد چندر بھان کی آواز سنائی دی۔ ’’ڈر گئے … ڈر گئے تم…؟‘‘
’’نہیں چندر بھان! سوچ رہا ہوں اس کے بارے میں۔‘‘
’’کوئی اس کے بارے میں ڈرے بغیر بھی سوچ سکتا ہے مگر تم سے وہ ضرور کچھ چاہتی ہوگی۔ دیکھو مشورہ دیتا ہوں تمہیں۔ بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جائو اور اگر نہیں بھاگ سکتے تو پھر جو کچھ وہ کہہ رہی ہے، وہ کرلو… ورنہ پتھر بنا دیئے جائو گے۔ ہوسکتا ہے اگر تم سے اس کا مقصد پورا ہوجائے تو وہ تمہیں نکل جانے دے یا پھر تمہیں اپنا مستقل ساتھی بنا لے۔ اگر ایسا بھی ہوجائے تو تمہارا ہی نہیں بہتوں کا بھلا ہوگا۔ اس سے یہ معلوم کرنا کہ وہ کیسے کسی جال میں پھنس سکتی ہے اور ہم سب کیسے بچ سکتے ہیں۔‘‘
’’چندر بھان! اگر مچنڈا ہلاک ہوجائے تو میں تمہیں یہاں سے رہا کرانے کی کوشش کرسکتا ہوں۔‘‘
’’مچنڈا تمہارے بس کی بات نہیں ہے، کسی کے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ میں ہی مار سکتا ہوں اسے! ایک بار وہ میرے قبضے میں آجائے۔ یقین کرو جو زبان سے کہہ رہا ہوں، کرکے دکھا دوں گا۔ نہ کروں تو کتا کہہ دینا، چندر بھان مت کہنا۔‘‘
’’تو پھر ٹھیک ہے چندر بھان! میں کوشش کروں گا کہ مچنڈا تمہارے ہاتھ لگ جائے۔‘‘ چندر بھان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یقینی طور پر میری بات ہی اس کی سمجھ میں نہیں آئی ہوگی لیکن یہ الفاظ بھی بلاوجہ نہیں کہے تھے۔ دروازے کے اوپر ایک ایسی چھوٹی سی جگہ بنی ہوئی تھی جو دروازے ہی کا ایک حصہ تھی لیکن…! لیکن کچھ کیا جاسکتا تھا وہاں سے، کچھ کیا جاسکتا تھا اور میں اس بارے میں سوچتا رہا۔ پھل ختم ہوگئے۔ گل سڑ گئے اور مجھے بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑا۔ غالباً تیسرا دن تھا جب آج مچنڈا پھر آیا۔ گلے سڑے پھل اٹھا کر لے گیا، نئے پھل رکھ گیا۔ ابھی تک مہاوتی کی طرف سے مجھے نہ تو کوئی پیام ملا تھا اور نہ ہی کسی نے میری خبرگیری کی تھی۔ مچنڈا کے بارے میں یہ اندازہ میں نے لگا لیا کہ وہ تیسرے ہی دن پھر آئے گا۔ اس دوران میری اور چندر بھان کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اپنے بارے میں تو میں نے چندر بھان کو کوئی خاص بات نہیں بتائی۔ مگر وہ اپنے پرکھوں کے بارے میں نجانے کیا کیا کہانیاں سناتا رہتا تھا۔ معذرت بھی کرتا تھا۔ مجھ سے کہ وہ زیادہ بولتا ہے مگر میں نے اسے اجازت دے دی تھی۔ میں جانتا تھا کہ انسان کی ذہنی کیفیت تنہا رہ کر کیا ہوجاتی ہے۔ پھر چھٹا دن ہوگیا۔ کچھ پھل بچ گئے تھے، زیادہ تر میں نے کھا لیے تھے۔ کمرے میں ناقابل برداشت بدبو پھیل چکی تھی۔ طبیعت ویسے ہی ہر وقت متلاتی رہتی تھی۔ آج زندگی اور موت کی بازی لگانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ پہلے مچنڈا سے نمٹ لیا جائے اور اگر اس میں کامیابی ہوجائے تو ٹھیک ہے ورنہ پھر جو بھی ہوگا، دیکھا جائے گا۔ یہاں رہنا اب میرے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔ مچنڈا کے آنے کا وقت ہوگیا۔ میں نے اپنے جسم کو سمیٹا اور دروازے کے اوپر بنی ہوئی چھوٹی سی جگہ چڑھ گیا۔ اس مختصر جگہ پر خود کو سنبھالنا بہت مشکل کام تھا لیکن یہ زندگی بچانے کا معاملہ تھا اور ایسے اوقات میں انسان وہ کچھ کر جاتا ہے جو عام حالات میںکسی طور ممکن نہ ہو۔ میں چھپکلی کی طرح وہاں چپکا رہا۔ خوش قسمتی سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ دروازے پر آہٹ ہوئی، دروازہ کھلا اور مچنڈا نئے پھل اٹھائے اندر داخل ہوگیا۔ وہ جھونک میں سیدھا آگے بڑھ گیا۔ یہی موقع تھا میں نے بدن کو سکوڑ لیا اور جھپاک سے دروازے سے باہر رینگ گیا۔ مجھے نہ پا کر مچنڈا کی کیا کیفیت ہوئی، اس کا اندازہ لگانا تو ممکن نہیں تھا لیکن اس وقت صورتحال اچانک دہری شکل اختیار کر گئی۔ یہاں سے نکل کر بھاگ سکتا تھا۔
ایسی سمت اختیار کرسکتا تھا جس سے محل سے ہی باہر نکل جائوں۔ لیکن یہاں ایک مصیبت زدہ اور تھا۔ تنہا بے آسرا…! یہ غیر انسانی عمل تھا۔ اپنی ذات سے پیار کسی اور سے اپنی ذات کے لیے اجتناب تو پوری زندگی نہیں کیا تھا، اب کیا کرتا۔ سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ جو کچھ بھی کرنا تھا، برق رفتاری سے کرنا تھا۔ چنانچہ آگے بڑھ کر چندر بھان کے کمرے کی کنڈی کھولی اور دروازے کا پٹ بھی تھوڑا سا کھول دیا۔ چندر بھان کی بتائی ہوئی کچھ باتیں یاد تھیں اور اس وقت ان پر عمل کرنا تھا۔ چھپنے کے لیے ایک ستون تلاش کیا ہی تھا کہ مچنڈا کی غراہٹیں سنائی دیں۔ وہ آندھی طوفان کی طرح باہر نکلا اور ادھر ادھر دوڑنے لگا۔ اس پر دیوانگی سی طاری تھی۔ میں ستون کی آڑ میں چھپ کر اسے دیکھنے لگا۔ پھر مچنڈا کی نگاہ چندر بھان کے قید خانے کے دروازے پر پڑی۔ وہ اس طرف دوڑا۔ دروازے کو پورا کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ مچنڈا کمرے میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا اور چندر بھان اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔ شاندار تن و توش کے مالک چندر بھان کے چہرے پر مچنڈا کے لیے نفرت کے آثار تھے۔ اس نے مجھے دیکھ لیا جبکہ مچنڈا کی پشت میری طرف تھی۔ دروازے سے اندر گھستے ہی میں نے خود کو سنبھالا اور پھر پوری قوت سے مچنڈا کو آگے دھکیل دیا۔ اس کے ساتھ ہی میں نیچے گر گیا۔
’’چندر بھان! سنبھالو اسے!‘‘ مچنڈا سنبھل نہ پایا اور چندر بھان سے کچھ فاصلے پر جاگرا۔ چندر بھان فوراً میرا مقصد سمجھ گیا۔ اپنی وزنی زنجیریں سنبھالے وہ مچنڈا کے پیچھے آگیا۔
’’کھڑا ہوجا اے مہاوتی کے کتے! بڑا لمبا حساب کرنا ہے تجھ سے۔‘‘ اس نے ہاتھ پھیلا کر کہا۔
مچنڈا کے چہرے پر خوف کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔ وہ بھاگنے کا راستہ تلاش کررہا تھا چندربھان چیخا۔ ’’دروازہ… دروازہ…!‘‘ میں نے پھرتی سے پلٹ کر دروازہ بند کردیا۔ مچنڈا نے بھیانک چیخ ماری اور ایک طرف ہوکر نکل بھاگنے کی کوشش کی لیکن چندر بھان نے زنجیر اٹھا دی اور وہ الجھ کر گر پڑا۔ ’’بڑے دنوں کی پیاس ہے سسرے! آج بجھے گی۔‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ مچنڈا پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے مچنڈا پر گرفت قائم کرلی اور مچنڈا اس کی گرفت سے نکلنے کے لیے زور لگانے لگا۔ چندر بھان بولا۔ ’’تم مسعود ہو نا۔‘‘
’’ایں… ہاں!‘‘
’’میں نے تمہیں چندنا کے بارے میں بتایا تھا؟‘‘
’’ایں… ہاں!‘‘
’’تو دیکھو چندنا کو! یہ حرام خور مہاوتی کا کتا ہے۔ گندی آتما کی پیداوار…! مگر جب چندنا اکھاڑے میں ہوتا ہے تو پھر چندنا ہی ہوتا ہے۔ ذرا دیکھو اس کو، یہ کلی پٹکا ہے، چندنا کا مخصوص دائو!‘‘ چندر بھان نے مچنڈا کے اوپری سمت آکر پہلے اس کی ٹانگوں میں دونوں ہاتھ پھنسائے، اپنی ٹھوڑی اس کی ریڑھ کی ہڈی پر رکھی اور اس کے بعد اپنے ہی لمبے ہاتھوں سے مچنڈا کی دونوں کلائیاں پکڑ لیں، حالانکہ زنجیریں اسے اس برق رفتاری سے اپنا عمل کرنے کا موقع نہیں دے رہی تھیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ چندر بھان جسمانی طور پر کسی ہاتھی جیسی قوت کا مالک تھا۔ مچنڈا کو اس طرح اٹھا لینا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔ ٹھوڑی اس کی ریڑھ کی ہڈی سے ٹکا کر اور اس کے دونوں ہاتھوں کی کلائیاں پکڑ کر چندر بھان نے اپنے گھٹنے زمین پر ٹکائے اور مچنڈا کے دونوں ہاتھ پیچھے سے گھسیٹ کر اسے اپنے شانوں پر لیے کھڑا ہوگیا اور اس کے بعد وہ برق رفتاری سے دوڑا اور مچنڈا کو دیوار سے دے مارا۔ مچنڈا کے حلق سے نکلنے والی چیخ اس قدر زور دار تھی کہ کانوں کے پردے جھنجھنا کر رہ گئے۔ اس کا سر پھٹ گیا تھا اور خون کی دھاریں بہنے لگی تھیں۔ چندر بھان نے ایک ہی دائو میں اسے ادھ مرا کردیا تھا لیکن اس کے باوجود مچنڈا نے زمین پر لوٹ کر اپنے آپ کو سنبھالا۔ چندر بھان ہی کی زنجیروں کا سہارا لیا اور اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس کا چہرہ خون سے سرخ ہوکر اتنا بھیانک لگ رہا تھا کہ کمزور دل والا آدمی اسے دیکھ لیتا تو وہیں اس کے دل کی حرکت بند ہوجاتی۔ اس کے فوراً بعد وہ اندھوں کی طرح چندر بھان پر لپکا تھا لیکن چندر بھان اپنی پہلوانی کے دائو پیچ دکھا رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اپنے بدن کو بل دیا۔ مچنڈا کی کمر میں دونوں ہاتھ ڈالے اسے اٹھا کر کندھے پر رکھا اور پشت کی طرف سے زمین پر دے مارا۔ ایک ضرب چہرے پر لگی تھی، دوسری سر کے پچھلے حصے میں شانے اور گردن پوری قوت سے زمین سے ٹکرائی تھیں۔ مچنڈا کے حلق سے اب درد بھری آوازیں نکلنے لگی تھیں۔ اس نے پھر اپنے آپ کو بچا کر نکلنا چاہا لیکن اس بار وہ جونہی گھٹنوں کے بل اٹھا، چندر بھان پہلے سے تیار تھا۔ اس نے موٹی کڑیوں والی زنجیر مچنڈا کے گلے میں لپیٹ دی اور اسے دو بل دینے کے بعد مچنڈا کی پشت پر سوار ہوگیا۔ درحقیقت اس وقت چندر بھان ایک وحشی جانور لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر شدید نفرت کے آثار تھے، دانت بھنچے ہوئے تھے اور وہ مچنڈا کی گردن زنجیر سے دبا رہا تھا۔
میں ساکت کھڑا طاقت کا یہ کھیل دیکھتا رہا۔ مچنڈا کے حلق سے نکلنے والی غراہٹیں اب خرخراہٹوں میں تبدیل ہونے لگی تھیں اور اس کے اعضاء ڈھیلے پڑتے جارہے تھے۔ دونوں ہاتھ سیدھے ہوکر بار بار نیچے گر رہے تھے۔ زبان باہر نکل آئی تھی۔ اب وہ زنجیر پکڑنے کی کوشش بھی نہیں کررہا تھا۔ غالباً اس کے ہاتھوں میں اتنی جان ہی نہیں رہی تھی کہ وہ اس کی مرضی کے مطابق رخ تبدیل کرسکیں۔ چندر بھان نے چند لمحات اس طرح اس کی گردن پر طاقت صرف کی اور پھر اسے چھوڑ دیا۔ اس کے چہرے پر شدید وحشت نظر آرہی تھی۔ پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا اور میری نگاہیں اس کی نگاہوں سے ملیں تو وہ کچھ معتدل ہوا۔ مچنڈا زمین پر بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا۔ چندر بھان نے اس کے سینے پر پائوں رکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ ہے مہاوتی کا بیر سمجھے مسعود، دیکھا تم نے چندنا کو میرے مدمقابل جب بھی اکھاڑے میں میرے سامنے آتے تھے، ان کے بدن پر پہلے ہی کپکپی طاری ہوجاتی تھی کیونکہ اس سے پہلے وہ میری دوسری کشتیاں دیکھ چکے ہوتے تھے۔ اپنے مدمقابل کے لیے میرا دل یہ کبھی نہیں چاہتا کہ وہ اپنے پیروں سے اکھاڑے سے واپس جائے۔ بعض اوقات تو بارہا میرے دل میں یہ خواہش ابھری کہ لوگ مجھے یہ بتائیں کہ جس نے مجھ سے کشتی لڑی تھی، وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے مگر میرے دوست اوہو… اوہو! تم… تم!‘‘ چندر بھان کو اب اس بات کا احساس ہوا تھا کہ یہ سب کیا ہوگیا۔ میرا اس قید خانے سے نکل آنا اور اس کے بعد مچنڈا کو چندر بھان کی طرف دھکیل دینا، ان ساری باتوں پر اب اسے حیرت ہوئی تھی۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے کہا۔
’’اور جو منصوبہ میں نے بنایا تھا چندر بھان! وہ اس حد تک کامیاب ہوگیا…؟‘‘
’’مگر تم نکلے کیسے وہاں سے…؟‘‘
’’بس! ایک تدبیر کارگر ہوگئی تھی۔‘‘
’’آہ! مچنڈا سے تو ہمیں نجات مل گئی ہے لیکن اس زنجیر کو اور ان کڑوں کو توڑنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں مچنڈا کے علاوہ اور کوئی پہریدار نہیں ہوتا تھا۔ تم…تم کوئی ایسی چیز تلاش کرو مسعود! جس سے میری زنجیریں کھل جائیں۔ کوئی بڑا ہتھوڑا، کوئی ایسی چیز یہ سب کچھ یہ سب کچھ توڑنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ ہزار کوششیں کرچکا ہوں۔ بس کلائیاں زخمی ہوجاتی ہیں، پائوں زخمی ہوجاتے ہیں، کمر دکھنے لگتی ہے اور کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
میں نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری، ان کڑوں کو ایک بار پھر قریب سے دیکھا۔ کھینچا تانی کی لیکن یہ ساری کارروائی مجھے مضحکہ خیز ہی لگ رہی تھی۔ یہ سب کچھ کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی اور اب اس کے علاوہ اور کوئی چارئہ کار نہیں تھا کہ باہر نکل کر کوئی ایسی چیز تلاش کروں۔ میں نے چندر بھان سے کہا۔
’’ہمت نہیں ہارنا چندر بھان! میں اگر چاہتا تو اکیلا بھی بھاگ سکتا تھا لیکن میںنے یہی سوچا کہ پہلے مچنڈا سے نجات حاصل کرلی جائے۔ اس کے بعد دونوں یہاں سے فرار کا پروگرام بنائیں گے۔‘‘ چندر بھان کے چہرے پر شکر گزاری کے آثار نظر آئے۔اس نے کہا۔
’’دیر نہ کرو، جائو کوئی ایسی چیز تلاش کرو جس سے یہ کڑیاں کھل سکیں اور کچھ نہ ہوسکے تو یہ زنجیروں کی کڑیاں ہی درمیان سے ٹوٹ جائیں۔ کام بن جائے گا۔‘‘ میں نے دروازے کی جانب رخ کیا۔ دل ڈر رہا تھا کہ مہاوتی اس طرح یہ سارا معاملہ مچنڈا کے شانوں پر چھوڑ کر بے خبر تو نہ ہوگئی ہوگی۔ پہلے صرف چندر بھان اس کا قیدی تھا۔ چلو ٹھیک ہے چندر بھان کے بارے میں وہ سب کچھ جانتی تھی لیکن میرے بارے میں بھی جانتی تھی۔ کہیں یوں نہ ہو کہ ساری محنت اکارت چلی جائے لیکن اب جبکہ اتنا عمل کرچکا تھا تو چندر بھان کو بے سہارا چھوڑنا حماقت کی بات تھی۔ میں وہاں سے نکلا اور چاروں طرف بھٹکنے لگا۔ یہ پرانی حویلی عجیب و غریب طرز تعمیر کا نمونہ تھی۔ پیچ در پیچ کمرے، پتلی پتلی راہداریاں جن کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ایک طرح سے بھول بھلیاں ہی بنی ہوئی تھیں اور میں ان بھول بھلیوں میں سے گزر کر چاروں طرف نگاہیں دوڑاتا ہوا کسی ایسی چیز کی تلاش میں تھا جس سے چندر بھان کے ان کڑوں کی زنجیریں توڑی جاسکیں لیکن یقین نہیں تھا۔ ایسی کون سی مضبوط چیز ہاتھ آسکتی ہے۔ وہ ایک کمرہ تھا جس میں، میں داخل ہوا۔ نیم تاریک ماحول میں وہاں مجھے کچھ چیزیں نظر آئیں اور جب میری آنکھوں نے ایک وزنی ہتھوڑا دیکھا تو خوشی سے چمک اٹھیں۔ یہ ہتھوڑا ایک سمت سپاٹ اور دوسری طرف سے چھینی کا سا ڈیزائن رکھتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ اسی مقصد کے لیے یہاں رکھا گیا ہو کہ میں چندر بھان کی زنجیر کاٹ دوں۔ پھرتی سے ہتھوڑے کی طرف لپکا اور میں نے اس کا دستہ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا۔ دستہ جونہی سیدھا ہوا، مجھے اپنے عقب میں سرسراہٹیں محسوس ہوئیں۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو لوہے کا ایک فولادی جنگلہ میرے اور اس دروازے کے درمیان حائل ہوگیا تھا جس سے میں اندر داخل ہوا تھا۔ عقبی سمت سپاٹ دیواریں تھیں اور بہت چھوٹی سی جگہ تھی۔ میں حیرت سے اس ہتھوڑے کو دیکھنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ وہ اپنی جگہ جتنا میں اسے اٹھا چکا تھا، وہاں ساکت ہوگیا ہے۔ اس کا اگلا سرا زمین پر ویسے ہی پڑا ہوا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے نیچے سے وہ زمین میں پیوست ہو۔ چند لمحات کے بعد یہ بات میری سمجھ میں آئی کہ یہ کوئی ہتھوڑا نہیں تھا بلکہ ایک ایسی چیز تھی جسے اس آہنی دروازے کا کنٹرول سسٹم کہا جاسکتا ہے۔ یعنی اس کا دستہ اٹھانے سے آہنی دروازہ چھت سے
نکل کر دستہ اٹھانے والے اور دروازے کے درمیان حائل ہوجائے۔ ناقابل یقین سی بات تھی۔ یہ سب کچھ کیسے سوچا گیا تھا ۔کیا مہاوتی مجھ پر نگاہیں رکھ رہی ہے، کیا یہ سب کچھ اس کی اسکیم کے مطابق ہے۔ اس کے علاوہ اور کیا سوچا جاسکتا تھا۔ ہتھوڑے کے دستے کو میں نے بدن کی پوری قوت سے نیچے دبانے کی کوشش کی۔ یہ سوچ کر کہ شاید آہنی دروازہ واپس اپنی جگہ چلا جائے لیکن وہ اس طرح ساکت ہوگیا تھا کہ ٹس سے مس نہیں ہورہا تھا۔ گویا میں قید ہوگیا۔
بیچارہ چندر بھان… بیچارہ چندر بھان! اس کی تقدیر میں شاید آزادی نہیں۔ فولادی سلاخوں والے دروازے کو میں نے بری طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر دیکھا لیکن اس میں کوئی جنبش نہیں تھی۔ بالکل سوچی سمجھی اسکیم تھی، بالکل سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ میں ایک قید خانے سے نکل کر دوسرے قیدخانے میں جا پڑا تھا اور اب مچنڈا بھی یہاں موجود نہیں تھا۔ بہت دیر تک جدوجہد کرتا رہا۔ ہتھوڑے پر بھی جس قدر طاقت صرف کرسکتا تھا، کرلی اور جب تھک ہار گیا تو ننگے فرش پر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ بلاشبہ تعجب خیز بات تھی لیکن کم ازکم میرے لیے نہیں کیونکہ اب تک جن حالات سے گزر چکا تھا، ان میں انہونے واقعات اس قدر ہوئے تھے کہ کسی بھی واقعے پر بہت زیادہ حیرت نہیں ہوتی تھی۔ دکھ ہورہا تھا یہ سوچ سوچ کر چندر بھان کی نگاہیں دروازے پر لگی ہوں گی۔ اس کے دل میں آس پیدا ہوگئی ہوگی۔ ہر آہٹ پر منتظر ہوگا اس بات کا کہ میں واپس پہنچوں اور اسے اس طویل ترین قید سے نجات مل جائے۔ درحقیقت اپنی کوئی فکر میں نے پہلے بھی نہیں کی تھی، اب بھی نہیں تھی لیکن بیچارہ چندر بھان ان تمام سوچوں کے علاوہ اس وقت اور کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ اس نئی قید میں میرا کیا حشر ہوتا ہے۔ مہاوتی کو میری اس نئی قید کے بارے میں معلوم ہے بھی یا نہیں اور جب اسے یہ معلوم ہوگا کہ مچنڈا مرچکا ہے تو اس پر کیا ردعمل ہوگا۔ وقت گزرتا رہا۔ رات گئی۔ بیٹھے بیٹھے تھک گیا تو لیٹ گیا۔ روشندانوں سے سفید چاندنی چھن رہی تھی۔ اب تک کوئی آواز نہیں سنائی دی تھی۔ کسی کو میری اس افتاد کے بارے میں نہیں معلوم ہوسکا تھا۔ اب جو ہوگا، دیکھا جائے گا۔ بھاڑ میں جائے سب کچھ! رات گزری، صبح ہوئی، دوپہر پھر شام! گھپ اندھیرا پھیل گیا اور اچانک مجھے کچھ سرسراہٹیں محسوس ہوئیں۔ سلاخوں دار دروازہ یونہی تھا لیکن پچھلی دیوار کھسک رہی تھی اور اس سے روشنی کی لکیریں اندر آنے لگی تھیں۔ پھر دیوار پوری ہٹ گئی اور سامنے وہی باغ نظر آنے لگا جسے میں دیکھ چکا تھا۔ ہوائوں کے جھونکے اندر آگئے اور بڑی تازگی محسوس ہوئی۔ دوڑ کر باہر نکل آیا مگر باہر قدم رکھتے ہی ٹھٹھک گیا۔ سامنے ہی سندری نظر آرہی تھی۔ وہ خاموشی سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس نے بڑے سکون سے کہا۔
’’آئو!‘‘ میں آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا اس کے قریب پہنچ گیا۔ اس کے نزدیک خوش رنگ پھلوں کے تھال رکھے ہوئے تھے۔ ’’بیٹھو!‘‘ وہ بولی۔
’’تم یہاں کیا کررہی ہو۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تمہارا انتظار! بیٹھو نا؟‘‘
’’نہ بیٹھوں تو…؟‘‘ میں نے کہا اور وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ پھر بولی۔ ’’کوئی فائدہ نہ ہوگا۔‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘
’’اپنی سمجھ سے کام نہیں لیتے۔‘‘
’’جو کچھ کہہ رہی ہو، صاف الفاظ میں کہو۔‘‘
’’اس سے پہلے تم اپنے قید خانے سے نکل سکے۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہیں نکالا گیا ہے اور جب نکالا گیا ہے تو یہ بھی سوچا گیا ہوگا کہ تم بھاگ سکتے ہو گے۔ یہ سوچا ہوگا تو بندوبست بھی کیا گیا ہوگا کہ بھاگ نہ سکو۔ کیا فائدہ ایک کے بعد دوسری مصیبت میں پھنسنے سے!‘‘
’’خوب! بات تو سمجھداری کی ہے۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’تو بیٹھو۔‘‘ اس نے کہا اور میں گہری سانس لے کر بیٹھ گیا۔
’’گویا اب میں ایک آزاد قیدی ہوں۔‘‘
’’لو پھل کھائو۔ تم بھوکے ہو۔‘‘
’’کیا چھپا ہے ان پھلوں میں؟‘‘
’’تمہاری سوگند یہ پوتر ہیں، پیڑوں سے اترے ہوئے۔‘‘
’’قسم بھی میری کھا رہی ہو۔‘‘
’’ہاں! اس کی وجہ ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے پوچھا اور سندری خاموش ہوگئی۔ دیر تک کچھ نہ بولی۔ پھر اس نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا اور مدھم لہجے میں بولی۔
’’پہلے میں صرف مہا دیوی کے حکم سے تم سے ملتی تھی۔ اب بھی انہی کے حکم سے یہاں آئی ہوں مگر میرے من میں تمہاری ہمدردی اتر آئی ہے۔ تم میرے محسن ہو، تم نے مجھ پر احسان کیا ہے۔‘‘
’’میں نے … احسان…؟‘‘
’’تو اور کیا…! مجھے شنکھا اٹھا لے گیا تھا بھینٹ چڑھانے، کوئی میری رکھشا نہ کرسکا تھا۔ اگر تم شنکھا کی بات ماننے سے انکار نہ کردیتے تو میرا جیون چلا گیا تھا۔ اس لیے اب تمہارا یہ احسان مجھ پر ہے۔‘‘
’’اوہو…! اچھا تو پھر اس احسان کے کچھ اور بدلے بھی چکائو۔‘‘
’’کہو۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے گردن ہلائی۔
’’کچھ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’یہ پھل کھائو، ان میں کوئی کھوٹ نہیں ہے، پیڑوں سے اتارے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’کھا لوں گا۔ مجھے جلدی نہیں ہے۔‘‘
’’عجیب ہو۔ خیر پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘
’’بہت سے سوال ہیں۔‘‘
’’پوچھو۔‘‘
’’پہلا سوال۔ مجھے کیوں نکالا گیا ہے؟‘‘
’’میں نہیں جانتی۔ بس مجھے یہاں تمہاری سیوا کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘
’’مہاوتی کہاں ہے؟‘‘
’’محل میں۔‘‘
’’اسے میری نئی قید کے بارے میں معلوم تھا؟‘‘
’’کیوں نہیں! جو ہورہا ہے، مہا دیوی کی مرضی سے ہورہا ہے۔ ویسے تمہارے لیے مہا دیوی بھی حیران ہیں۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’شمبھو مہاراج اور وہ باتیں کرتے ہیں۔ مہا دیوی کہتی ہیں کہ تم بڑے شکتی مان ہو۔ بہت کچھ کرسکتے ہو مگر نہیں کرتے۔ نہ جانے کیوں؟‘‘
’’اب وہ کیا چاہتی ہے؟‘‘
’’تمہاری ہی سوگند مجھے نہیں معلوم۔‘‘
’’سندری! تمہیں شنکھا اٹھا لے گیا تھا۔ فرض کرو اگر میں اس کی بات مان لیتا تو تمہاری زندگی تو ختم ہوگئی تھی۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مہاوتی نے تمہاری مدد نہیں کی؟‘‘
’’اوّل تو مہادیوی کالی جاپ کرنے گئی ہوئی تھیں اور پھر شنکھا سے تو وہ مقابلہ نہیں کرسکتی تھیں۔‘‘
’’وہ اپنے گیان میں شنکھا سے ہلکی ہے؟‘‘
’’اس کا کوئی جواب نہیں دے سکوں گی۔‘‘
’’مجھے یہاں سے نکال سکتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا اور وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگی۔ پھر اداسی سے بولی۔ ’’نہیں!‘‘
’’بس اور کچھ نہیں پوچھنا مجھے!‘‘
وہ خاموش بیٹھی رہی۔ میں نے ایک تھال سے انگوروں کا ایک گچھا نکال لیا۔ خود بھی سمجھتا تھا کہ ہزار آنکھیں میری نگرانی کررہی ہوں گی۔ نکلنا ممکن نہیں ہے، بہتر ہے کہ آئندہ پیش آنے والے واقعات کا انتظار کروں۔ پھل کھاتا رہا پھر آسمان پر چاند نے سر ابھارا اور مصنوعی روشنیاں مدھم پڑ گئیں۔ پورا کھلا چاند تھا۔ سندری بھی چاند کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ’’پورا چاند ہے۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’پورن ماشی ہے آج۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر کچھ سوچنے لگا۔ پھر اچانک ایک عمل ہوا۔ ایک جانا پہچانا عمل! چاند کی کچھ روشن کرنیں سیدھی زمین پر پڑیں اور انہوں نے میرے گرد احاطہ کرلیا۔ پھر یہ کرنیں سفید روشن غبار میں بدلنے لگیں اور میرے منہ سے بے اختیار یہ نکل گیا۔ ’’پورنیاں!‘‘ روشن غبار حسین عورتوں کی شکل اختیار کرنے لگا۔ یہ منظر ایک بار پہلے بھی سامنے آچکا تھا۔ ایک معصوم پنڈت کے گھر کے احاطے میں! گویا پورن ماشی کی رات یہ جادو کی پتلیاں نیچے اترتی ہیں اور پورن بھگتی کرتی ہیں۔ میری نگاہ سندری پر پڑی۔ وہ آنکھیں پھاڑے ششدر بیٹھی تھی۔ طرح طرح کے ساز لیے چھ عورتیں انسانی شکل اختیار کئے میرے سامنے تھیں۔ ان کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں اور ان آنکھوں میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
’’چھ…!‘‘ میں نے دل میں سوچا۔ پہلے یہ سات تھیں۔ ایک میں نے کشنا کی شکل میں ہلاک کردی تھی۔ بہت سی باتیں خود سمجھ میں آرہی تھیں۔ پورنیاں اس وقت میرے پاس آتی ہیں جب میں پورے چاند کے نیچے کسی کھلی جگہ موجود ہوں۔ کسی بند جگہ وہ نہیں آتیں۔ انہوں نے وہی کھیل شروع کردیا جو میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ سندری زمین پر اوندھی ہوگئی تھی۔ بہت دیر تک ان کا عمل جاری رہا پھر معمول کے مطابق ختم ہوگیا اور پورنیاں واپس چلی گئیں۔
’’سندری… سندری!‘‘ میں نے سندری کو پکارا مگر وہ کسی اور ہی جہان کی سیر کررہی تھی۔ عقب سے آواز آئی تو میں ایک دم گھوم کر پیچھے دیکھنے لگا۔ کالی داس کا منحوس چہرہ نظر آیا تھا۔
’’جے پورنا… جے بھگت۔‘‘ اس نے ہاتھ جوڑ کر گردن جھکاتے ہوئے کہا۔
’’دیوان کالی داس!‘‘
’’آپ کے چرنوں کی دھول بھگت۔‘‘
’’کہو… کیا بات ہے۔‘‘
’’آپ کو میرے ساتھ چلنا ہے مہاراج!‘‘
’’کہاں…؟‘‘
’’کالی نواس!‘‘
’’یہ کہاں ہے؟‘‘
’’زیادہ دور نہیں ہے مہاراج!‘‘
’’کیا کرنا ہے مجھے وہاں جاکر۔‘‘
’’ساری باتوں کے فیصلے ہوجائیں گے مہاراج! اس کے بعد کوئی راز، راز نہیں رہے گا پورنا! آخری باتیں کرنا چاہتی ہیں مہا دیوی آپ سے!‘‘ کالی داس نے ادب سے کہا۔
’’کیا باتیں کرنا چاہتی ہیں، آخر مجھے بتائو۔‘‘
’’دھول ہوں آپ کے چرنوں کی مہاراج! آپ سورج سمان ہیں، میں ذرہ۔ میں ایسی باتیں کیا جان سکتا ہوں۔ سولہ سو ستر منتروں کی سوگند مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم۔‘‘
’’چلو۔‘‘ میں نے گردن ہلا دی اور اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا۔ باغ کے دوردراز گوشے میں جہاں میں آج تک نہیں آیا تھا، ایک مصنوعی پہاڑی ٹیلا بنا ہوا تھا جس پر جگہ جگہ پھولوں کے جھاڑ اُگے ہوئے تھے۔ نیچے ایک قد آدم چوکور دروازہ نظر آرہا تھا۔ کالی داس مجھے اس دروازے سے اندر لے گیا۔ باہر سے کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا اور تاریکی نظر آتی تھی لیکن اندر ایک چوڑی سرنگ سی تھی جہاں خوب روشنیاں جگمگا رہی تھیں اور یہ روشنیاں دیواروں میں لگے ہوئے پتھروں سے ابھر رہی تھیں۔ یقینا یہ قیمتی ہیرے تھے جو کرنیں بکھیر رہے تھے۔ کالی داس نے کہا۔ ’’چلتے رہیے مہاراج! سرنگ لمبی ہے۔‘‘
’’کہاں تک گئی ہے یہ؟‘‘
’’کالی نواس تک مہاراج!‘‘
’’کیا کالی نواس اسی محل میں ہے؟‘‘
’’نہیں مہاراج…!‘‘
’’پھر…؟‘‘
’’وہ کالنکا بھنڈار میں ہے۔‘‘
’’تم تو کہہ رہے تھے کہ وہ زیادہ دور نہیں ہے۔‘‘
’’بس مہاراج، یہ سرنگ طے کرنی پڑے گی۔‘‘ کالی داس نے کہا۔ وہ بڑا باادب نظر آرہا تھا۔ وہ مجھ سے کئی قدم پیچھے چل رہا تھا۔ لمبی سرنگ میں سیکڑوں مشعلوں سے روشنی کی گئی تھی۔ بالآخر اس کا اختتام ایک روشن دروازے پر ہوا اور میں نے اس دروازے کے دوسری طرف قدم رکھ لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری طرف قدم رکھ کر مجھ پر ہیبت طاری ہوگئی۔ ایک عظیم الشان غار تھا جس کی بلندی ناقابل یقین تھی۔ پوری گردن پیچھے کرکے اوپر دیکھا جاتا تو چند چھوٹے چھوٹے سوراخ نظر آتے تھے جن کے اوپر چاند چمک رہا تھا۔ غار ٹھنڈا اور پرسکون تھا۔ اس میں پتھر کے ستون تھے اور ہر ستون پر انسانی کھوپڑیاں سجی ہوئی تھیں۔ ان کھوپڑیوں کے جبڑے ہل رہے تھے اور آنکھوں سے تیز روشنیاں خارج ہورہی تھیں۔ غار کے عین درمیان سنگ موسیٰ سے بنا ہوا ایک کالا چبوترہ تھا اور اس چبوترے پر کالی دیوی کا عظیم الشان مجسمہ استادہ تھا۔ سیاہ رنگ کا مجسمہ! جس کے بے شمار ہاتھ تھے۔ ان ہاتھوں میں قدیم ہتھیاراور دو انسانی کھوپڑیاں تھیں جنہیں بالوں سے پکڑ کر لٹکایا گیا تھا۔ ان کی کٹی ہوئی گردنوں سے تازہ تازہ لہو کے قطرے ٹپک رہے تھے جو نیچے سنگی چبوترے پر جمع ہورہے تھے۔ اصلی خون تھا اور شاید یہ کٹی ہوئی گردنیں بھی تازہ تھیں۔ نہ جانے کون بدنصیب تھے۔ مجسمے کی گردن میں تقریباً بیس انسانی کھوپڑیوں کو پرو کر ہار ڈالا گیا تھا۔ اس کی کئی فٹ لمبی زبان لہو سے لتھڑی ہوئی باہر لٹک رہی تھی اور بڑی بڑی آنکھوں سے وحشت نمایاں تھی۔ اس ہیبت کے ساتھ یہ بت اس سنگی چبوترے پر آویزاں تھا۔ سنگی بت کے عقب میں ایک عجیب سی جگہ بنی ہوئی تھی۔ کوئی پچاس سیڑھیاں تھیں جو ایک پلیٹ فارم پر جاکر ختم ہوگئی تھیں۔ پلیٹ فارم پر ایک عجیب سا شکنجہ لگا ہوا تھا جس کے اوپری حصے میں زنجیریں اور حلقے نظر آتے تھے۔ الغرض ایک تھرا دینے والی جگہ تھی اور میں اسے دیکھ کر ایک انوکھے خوف کا شکار ہوگیا تھا۔
’’یہ کالی نواس ہے مہاراج!‘‘ کالی داس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے اسے بغور دیکھا پھر کہا۔ ’’مجھے کیا کرنا ہے؟‘‘
’’مہا دیوی!‘‘ کالی داس نے ایک سمت اشارہ کرکے مودبانہ انداز میں کہا۔ میں نے مہا دیوی کو ایک نئے روپ میں دیکھا۔ بے حد چست لباس پہنے ہوئے تھی جو جھلملا رہا تھا۔ سر پر ہیروں کا ہار پہنا ہوا تھا، چہرہ انگاروں کی طرح چمک رہا تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بڑی شان سے آرہی تھی۔ اس کے پیچھے شمبھو آرہا تھا جس کی گردن میں ناگ لپٹا ہوا تھا جس نے اپنا چوڑا پھن اس کے سر پر پھیلا رکھا تھا۔ دونوں اسی سمت آرہے تھے۔ چند لمحات کے بعد وہ میرے سامنے پہنچ گئے۔
’’جے پورن بھگت…!‘‘ مہاوتی نے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے۔ میں اسے دیکھتا رہا۔ اس نے دونوں ہاتھ لہراتے ہوئے پھر کہا۔ ’’پدھاریئے مہاراج…! آج میں آپ کے شایان شان سواگت کروں گی۔ پدھاریئے!‘‘ کالی داس نے اس دوران نہ جانے کہاں سے ایک کرسی لا کر رکھ دی تھی مگر میں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔
’’اب کیا چاہتی ہو مہاوتی…؟‘‘ میں نے کہا۔
’’آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں مہاراج!‘‘
’’کہو…!‘‘
’’آپ بیٹھ جایئے۔‘‘
’’نہیں! تم بیٹھو۔‘‘
’’ہم کالی کے چرنوں کے سوا کہیں نہیں بیٹھتے۔ آپ کیوں نہیں بیٹھ رہے؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’پورن! کالی کو تو مانتا ہوگا۔‘‘ وہ معنی خیز لہجے میں بولی۔
میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ کرسی کو ایک ٹھوکر مارکر میں نے اس جگہ سے ہٹایا اور بیٹھ گیا۔ مہاوتی، شمبھو اور کالی داس کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے ناگواری کے آثار نظر آئے مگر مہاوتی نے فوراً خود کو سنبھال لیا۔ ’’شمبھو مہاراج کا کہا ٹھیک نکلا۔ پورن! کیا تم مجھ سے سچ بولو گے؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھتی رہی مگر میں نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ ’’کیا تم مسلمان ہو؟‘‘ کمبخت نے ایسا سوال کیا کہ مجھے بولنا پڑا۔
’’الحمدللہ۔‘‘ وہ تینوں گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ مہاوتی نے پھر کہا۔ ’’یہ پورنیاں تمہیں کہاں سے مل گئیں؟‘‘
’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’بڑے پریشان تھے ہم۔ ایک نظر میں ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ تم پورنا ہو مگر مسلمان بنے ہوئے تھے تم۔ یہ راز معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی مگر کسی طرح بھید نہ کھلا، ہر جتن کرلیا اور پھر پورن ماشی میں ہم نے پورنیاں دیکھیں۔ کوئی شک نہیں رہا اور یہ بھی شک نہیں رہا کہ تم مسلمان ہو۔ مگر تمہارا دھرم اب تمہارا نہیں رہا۔ پورنیاں اس سے ملتی ہیں جب کالا دھرم اپنا لیا جائے۔ ایک پوتر دھرم جو ہر گندگی سے پاک ہے۔ اس کالے دھرم کے ساتھ کیسے چل رہا ہے۔‘‘
میں چونک پڑا۔ مہاوتی کے یہ الفاظ میرے کانوں میں شہد گھول گئے تھے۔ میں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’دوبارہ اپنے الفاظ کہو۔‘‘
’’تمہارا دھرم پاک ہے۔ جس دھرم میں پانچ مرتبہ وضو کیا جاتا ہے، گندے پانی کی ایک چھینٹ جسے ناپاک کردیتی ہے، اس میں پورنیوں کے جاپ کی کیا گنجائش ہے، کالی شکتی تو ایک دور کی چیز ہے۔‘‘
’’تیرا کیا خیال ہے مہاوتی، میں کون ہوں؟‘‘
’’من سے مسلمان ضرور ہو۔ نہ ہوتے تو اتنے کشٹ نہ اٹھاتے۔ پورنیوں کے بیر تمہارے لیے سب کچھ کرسکتے تھے مگر تم نے کبھی ان سے بات نہ کی۔ ہم نے تمہیں بہت قریب سے دیکھا، تم سمجھ میں نہیں آئے۔‘‘
’’تیرے لیے میرے دل میں بہت کچھ ہے مہاوتی! مگر میرے دین کے لیے اتنے اچھے الفاظ کہہ کر تو نے میرا دل نرم کردیا ہے۔ اگر میرے پاس کچھ ہوتا تو اس وقت میں تجھے انعام دے دیتا۔‘‘ مہاوتی یہ سن کر اچھل پڑی۔ اس نے کہا۔ ’’مسلمان ہو تو زبان کے پکے بھی ہوگے؟‘‘
’’ہاں! ہوں۔‘‘
’’ساری باتیں بیکار ہوگئیں۔ تم نے کہا ہے کہ تمہارے پاس کچھ ہوتا تو اپنے دھرم کے نام پر مجھے دے دیتے۔‘‘
’’ ہاں اپنے ایمان کے علاوہ۔‘‘
’’تو مجھے انعام دو۔ تمہارے پاس ایک ایسی چیز ہے جو مجھے دے سکتے ہو، تمہارے دھرم کے علاوہ۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ میں کچھ حیران ہوگیا۔ عجیب سا لگ رہا تھا مجھے۔ کیا مانگنا چاہتی ہے وہ۔ ایسی کیا چیز ہے میرے پاس۔ ادھر اس کے انداز سے لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت بڑی چیز مانگنا چاہتی ہو۔
مہاوتی کا انداز ایک دَم بدل گیا۔ وہ کسی ایسے خیال میں ڈوب گئی جس نے اس کی سانسیں تیز کردیں۔ وہ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی۔ پھر اس نے لرزتی آواز میں کہا۔
’’پورنیاں مجھے دے دو، یہ چھ پورنیاں مجھے دے دو۔ مسلمان ہو، پورنیاں تمہارے دھرم میں ناپاک ہیں۔ یہ بوجھ کیوں اٹھائے پھر رہے ہو؟ دے دو یہ پورنیاں مجھے، انعام میں دے دو۔‘‘ اب میرے حیران ہونے کی باری تھی۔ میں اس کے جملوں پر غور کرنے لگا۔ پورنیاں اس طرح کسی کو دی جاسکتی ہیں؟ میں تو خود انہیں ہلاک کرنا چاہتا تھا، میں تو خود ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہ تو میری روح پر بوجھ تھیں۔ بڑی مشکل سے ان میں سے ایک سے چھٹکارا حاصل ہوسکا تھا۔ کیا ان سے پیچھا چھڑایا جاسکتا ہے؟ مہاوتی سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میرا فیصلہ سننے کی منتظر تھی۔ میں نے بہت دیر غور نہیں کیا اور گہری سانس لے کر بولا۔
’’ٹھیک ہے مہاوتی! مسلمان ہوں، اپنا وعدہ پورا کررہا ہوں۔ یہ چھ پورنیاں میں نے تیرے حوالے کیں مگر میں نہیں جانتا کہ مجھے اس کے لیے کیا عمل کرنا ہوگا؟ یہ تیری ذمہ داری ہے، میں اپنا وعدہ خوشی سے پورا کرتا ہوں۔‘‘
مہاوتی کے پورے جسم پر کپکپاہٹ طاری ہوگئی۔ وہ خوشی سے دیوانی ہوگئی۔ شمبھو اور کالی داس ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور خوشیاں منانے لگے۔ مہاوتی آگے بڑھی، گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھی، دونوں ہاتھ سیدھے کئے اور سر جھکا کر سجدے کی سی کیفیت میں آگئی۔ میں نے فوراً ہی رخ بدل لیا تھا۔ وہ نہ جانے کیا کیا بڑبڑاتی رہی پھر سیدھی ہوئی اور اس نے مجھے پکارا۔
’’پورنا… پورنیاں ہمیں دے کر تو اپنے بوجھ سے آزاد ہوجائے گا۔ تو سچ مچ مسلمان لگتا ہے مگر میرا گیان مجھے یہ نہیں بتا پاتا کہ پورنیاں ایک مسلمان کی غلام کیسے ہوگئیں۔ چلو ہوگا۔ تیری یہ بھینٹ ہم سوئیکار کرتے ہیں اور تیرا احسان مانتے ہیں لیکن یہ کام جلدی ہوجانا چاہئے۔ ارے کالی داس… شمبھو مہاراج! دیر کیوں کررہے ہیں۔ آپ جلدی کریں، جلدی کریں۔ کام پورا کرلیں، اسے مہان کنڈ لے جائیں۔ شمبھو مہاراج… کالی داس جلدی کریں۔ میں پورنا بننے جارہی ہوں۔ جلدی کریں۔‘‘ وہ اِدھر سے اُدھر بھاگنے دوڑنے لگی۔
شمبھو اور کالی داس میرے قریب پہنچ گئے۔ انہوں نے گردن جھکا کر کہا۔ ’’ہمارے ساتھ آئیں مہاراج۔‘‘ میں نے آمادگی کا اظہار کردیا۔ اب نتیجہ کچھ بھی ہو، یہ پورنیاں مجھ سے منتقل ہوجائیں تو کم ازکم میرے وجود کی غلاظت دھل جائے۔ وہ مجھے اس طرف لے گئے جہاں سیڑھیاں اوپر کو جاتی تھیں اور پھر انہوں نے بڑے احترام سے مجھے اوپر چڑھنے کا اشارہ کیا۔ کچھ سمجھ نہیں پایا تھا اور صرف ان کی ہدایت پر عمل کررہا تھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر میں اس پلیٹ فارم پر پہنچ گیا جو کالی کے ہیبت ناک مجسمے کے عین سر پر بنا ہوا تھا۔ بڑی عجیب سی جگہ تھی۔ ایک عجیب سی بدبو وہاں پھیلی ہوئی تھی، زمین پر خون کی تہیں کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ نہ جانے یہاں کیا ہوتا ہوگا۔ دیکھنے سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ انسانی خون ہے اور ہوسکتا ہے یہاں انسانی جسم ذبح کرکے ان کا خون کالی کے بت پر گرایا جاتا ہو۔ گویا قربانی کی وہ بھیانک رسم جس کے بارے میں قصے کہانیوں میں ہی پڑھا تھا لیکن اچانک ہی ذہن میں چھناکا سا ہوا۔ پورنیاں اسے دینے کا کیا مقصد ہے۔ کیا یہاں میری بھی گردن کاٹ دی جائے گی؟ شمبھو اور کالی داس کچھ فاصلے پر رک گئے تھے اور میں پلیٹ فارم کے بالکل آخری سرے پر تھا۔ کچھ سوچنے بھی نہیں پایا تھا کہ اچانک ہی میرے پیروں میں دونوں طرف سے زنجیروں کے دو کڑے آپڑے۔ ان سے زنجیریں بھی منسلک تھیں مگر کچھ ایسے انداز سے کہ اوپر سے نظر نہیں آتی تھیں۔ پھر اچانک سر چکرا سا گیا۔ پلیٹ فارم کو جنبش ہوئی۔ ایک چوڑی سل اچانک ہی آگے بڑھی۔ میں اس پر کھڑا ہوا تھا۔ بدن کو جھٹکا لگا تو اوندھے منہ گر پڑا لیکن سل برق رفتاری سے پیچھے ہٹ کر واپس اپنی جگہ پہنچ گئی اور پورا پلیٹ فارم اتنی تیزی سے پیچھے ہٹا کہ میں اوندھا لٹک گیا۔ زنجیریں پلیٹ فارم کے اوپری حصے پر بنے ہوئے ایک کرین نما راڈ میں پڑی ہوئی تھیں۔ یوں میرا چہرہ پلیٹ فارم سے ٹکرانے سے بچ گیا لیکن اب کیفیت یہ تھی کہ میں ان زنجیروں میں اوندھا لٹکا ہوا تھا اور کالی کے بت کے بالکل اوپر تھا۔ میرے جسم کا سارا خون سمٹ کر چہرے میں جمع ہوگیا تھا۔ ٹانگوں میں سخت تکلیف ہورہی تھی کیونکہ فولادی کڑے میری ہڈیوں کو دبا رہے تھے ۔میرے حلق سے کراہیں نکلنے لگیں۔ پہلے تو بدن کو کئی جنبشیں دیں لیکن جب اس عمل سے تکلیف کے علاوہ کچھ نہیں ملا تو ساکت ہوگیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ تکلیف ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔ ہاتھ نیچے لٹکے ہوئے تھے اور اس وقت کی کیفیت کو میں الفاظ میں بیان کرنے کے قابل نہیں تھا۔ دماغ شدید ہیجان کا شکار تھا۔ کچھ سوچنے سمجھنے کی اہلیت نہیں رہی تھی۔
شمبھو، کالی داس اور مہاوتی اب ساتھ ساتھ کھڑے ہوئے اوپر دیکھ رہے تھے۔ میں سخت پریشان تھا۔ چیخ کر انہیں اپنی تکلیف کے بارے میں بتانا چاہتا تھا لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی۔ پھر نہ جانے کہاں سے مہاوتی نے ایک تیر کمان اٹھا لیا۔ چوڑے پھل کی چمکدار اَنّی والا تیر تھا جسے وہ کمان میں جوڑ رہی تھی۔ میری آنکھیں دہشت سے پھٹ گئیں اور میں اپنی موت کا انتظار کرنے لگا۔ بارہا موت کو پکارا تھا، زندگی کو بے حقیقت جانا تھا لیکن اب جبکہ موت نگاہوں کے سامنے پہنچ گئی تھی تو زندگی مچل رہی تھی۔ جینا چاہتا تھا اور اس آفت سے چھٹکارا پانے کا خواہشمند تھا۔ مہاوتی کا چھوڑا ہوا تیر میری گردن کے پاس شانے میں پیوست ہوگیا۔ حلق سے دلخراش چیخ نکلی، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس قدر شدید تکلیف ہوئی تھی کہ جو ناقابل بیان تھی۔ میں اچھل کر تیر کو اپنے شانے سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا لیکن توازن نہیں بن پا رہا تھا اور مہاوتی دوسرا تیر کمان میں جوڑ رہی تھی۔ میں نے آنکھیں بند کیں اور موت کو یاد کرنے لگا۔ چلو ٹھیک ہے، زندگی کا یہ اختتام برا تو نہیں ہے۔ ٹھیک ہے مسعود احمد! موت قبول کرلو۔ جو کیا، سو پایا۔ اس میں کسی کا کیا قصور! کسی کو الزام دے کر سب کو مزید تباہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ نہ جانے کس طرح یہ سوچیں ذہن تک پہنچیں۔ کرب کا دوسرا دور شروع ہوا۔ دونوں شانے خون اگل رہے تھے اور پھر تیسرا تیر، پھر چوتھا! اب ذہن صحیح طور پر کام نہیں کررہا تھا۔ آنکھوں سے بینائی رخصت ہوگئی تھی۔ بس دھندلے دھندلے نقوش تھے۔ ایک بڑا سا چمکدار پیالہ کالی کے بت کے قدموں میں رکھ دیا گیا تھا۔ مہاوتی کا جسم پھر ویسا ہی سیاہ ہوگیا تھا جیسا میں نے اسے اس پہاڑی غار میں دیکھا تھا۔ مدھم مدھم شور کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ قہقہے ابل رہے تھے اور مہاوتی رقص کررہی تھی، ایک جنونی رقص…! وہ پورے ہال میں برق کی طرح کوندتی پھر رہی تھی۔ شمبھو اور کالی داس نظر نہیں آرہے تھے۔ مہاوتی بار بار کالی کے قدموں میں آتی اور میرے جسم سے بہنے والا خون چاٹتی پھر رقص کرتی ہوئی دور نکل جاتی۔ کالی کا ہیبت ناک مجسمہ میرے خون سے سرخ ہوگیا تھا۔ اس پر سیاہی کے بہت کم دھبے نظر آرہے تھے۔ بس مجھے نظر نہیں آرہا تھا لیکن یہ دھندلا دھندلا سا احساس تھا جو میرے ذہن پر سے گزر رہا تھا۔ نہ جانے کتنا وقت اس طرح گزر گیا۔ پھر کچھ سکون سا خودبخود محسوس ہوا۔ یوں لگا جیسے میرا بدن بے خون ہوگیا ہو۔ ٹانگوں میں پڑے ہوئے کڑے بھی اب ہڈیوں کو وہ دکھ نہیں دے رہے تھے جو پہلے محسوس کررہا تھا۔ بس کوئی احساس ہی باقی نہیں رہا تھا۔ اگر یہ منظر نگاہوں کے سامنے نہ ہوتا، مہاوتی کے جسم کی جنبشیں نظر نہ آتیں تو یہ سمجھتا کہ روح جسم سے نکل گئی ہے اور جسم خالی ہونے کے بعد بے وزن ہوگیا ہے۔ نگاہوں کے سامنے جو کچھ تھا، وہ ذہن تک بھی پہنچ رہا تھا۔ مہاوتی کے ہاتھ میں ایک چمکدار پیالہ تھا جس کے دونوں سمت کنڈے لگے ہوئے تھے، وہ کالی کے سامنے دوزانو بیٹھی تھی۔ میرے جسم کا بہا ہوا خون جو ایک دھار کی شکل میں اس پیالے تک پہنچا تھا، ہونٹوں سے لگا کر بدن میں اتارنے لگی۔ گاڑھا گاڑھا گہرا سیاہ خون اس کے جسم میں اترتا چلا گیا اور اس نے پیالے کو اپنی لمبی زبان سے چاٹنا شروع کردیا۔ پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور کالی کے بت سے چمٹ کر اس پر پڑا ہوا خون چاٹنے لگی۔ پھر اس نے چند بوندیں انگلی میں ڈبو کر کالی داس اور شمبھو کی طرف اچھالیں اور وہ کتوں کی طرح زمین پر گرنے والی بوندوں کو چاٹنے لگے۔ مہاوتی کے قہقہے اس ہال میں بری طرح گونج رہے تھے اور اس کی آواز میرے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔
’’میں پورنی ہوں… میں پورن واس ہوں، میں پورن واس ہوں۔ شمبھو مہاراج… کالی داس! جھک جائو میرے چرنوں میں، میں چھ پورنیوں کی مالک ہوں۔ میں نے مہان شکتی حاصل کرلی ہے۔ جھک جائو میرے چرنوں میں، جھک جائو۔ اب میں صرف مہاوتی نہیں بلکہ مہان وتی ہوں۔ جھک جائو… جھک جائو۔‘‘
کالی داس اور شمبھو ناتھ اس کے سامنے اوندھے گر پڑے تھے اور مہاوتی کے خوفناک قہقہے غار کے درودیوار ہلائے دے رہے تھے۔ بہت خوش تھی وہ… میری طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں تھی۔ میرے جسم میں اب بھی تیر چبھے ہوئے تھے لیکن اب کوئی تکلیف نہیں تھی بلکہ ایک عجیب سی ٹھنڈک رگ و پے میں دوڑ رہی تھی۔ پھر کچھ تبدیلیاں ہوئیں۔ اچانک ہی تیز ہوائوں کے جھکڑ چلنے لگے اور ہر چیز اڑنے لگی۔ مہاوتی سیدھی کھڑی ہوگئی۔ شمبھو اور کالی داس بھی اس کے پیچھے آکر کھڑے ہوگئے تھے۔ چمکدار ذرات کا ایک غبار غار کے اندر داخل ہوا اور پورے غار میں پھیل گیا۔ پھر اس نے سمٹ کر ایک شکل اختیار کرنا شروع کردی اور کچھ دیر کے بعد وہاں بھوریا چرن نظر آیا۔ وہی بدنما اور بدہیئت شکل لیے۔ وہ خونخوار نگاہوں سے مہاوتی کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر شدید نفرت کے آثار نظر آرہے تھے۔ مہاوتی اور اس کے دونوں ساتھیوں نے بھوریا چرن کو دیکھا اور بھوریا چرن کی نگاہیں ادھر ادھر بھٹکنے لگیں۔ پھر اوپر مجھ تک پہنچ گئیں اور اس کا چہرہ بگڑ گیا۔
’’مہاوتی… مہاوتی کالی کی پجارن! یہ ادھار کی شکتی اچھی تو نہیں ہے۔ تو نے اپنے گیان سے یہ بھی نہ معلوم کیا کہ اس مسلمان کو یہ شکتی کہاں سے مل گئی؟‘‘
’’جے شنکھا مہاراج! کیسے پدھارے، کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’تجھے بتانے آیا ہوں مہاوتی کہ تو نے چور دروازے سے پورن شکتی حاصل تو کرلی مگر چھ پورنیوں کی! ساتویں پورنی کہاں ہے، بتائے گی؟‘‘
’’یہ بات تو شاید شنکھا بھی نہ بتا سکے شنکھا مہاراج…!‘‘
’’پاگل مہاوتی! پورن شکتی میں نے ہی اسے دی تھی۔ میں نے پورن جاپ کیا تھا اور پورنیاں اس کے شریر میں اتار دی تھیں اور تو نے میری کمائی ہوئی چیز اس سے چھین لی۔ ساتویں پورنی کو اس نے مار ڈالا ہے اور تو یہ بات اگر نہیں جانتی تو مجھ سے سن لے کہ اگر پورنیاں سات نہ ہوں تو پورن پورا نہیں ہوتا، ادھورا رہتا ہے اور ایسے جاپ، ایسے منتر، ایسے گیان ہیں جو لنگڑے پورن کو بڑا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ میرا تیرا کوئی جھگڑا نہیں ہے مہاوتی…! لیکن اس بات پر جھگڑا ہوسکتا ہے کیونکہ تو نہیں جانتی کہ اس سے پورن شکتی چھین کر تو نے ایک بہت بڑا خطرہ پیدا کردیا ہے۔ اسے پورن بنا کر میں نے جو بڑا کام کیا تھا، وہ تو نہیں جانتی کہ وہ تیرے اور میرے اور ہمارے جیسے ہزاروں کے لیے کتنا بڑا کام تھا۔ عورت ہے نا بائولی! عورت ہے نا…! اگر عقل ہوتی تو آگے پیچھے دیکھ لیتی۔‘‘
’’جے شنکھا… جے مہاراج…! شنکھا مہاراج میرے گھر پدھارے۔ میرا بڑا مان ہوا لیکن اس سمے میں خوشی سے پاگل ہورہی ہوں۔ نہ کچھ سمجھ میں آرہا ہے، نہ سمجھ پائوں گی۔ آپ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں مہاراج! سچ کہہ رہے ہوں گے لیکن اگر آپ نے یہ شکتی اسے دے دی تھی تو دے کر آپ پیچھے ہٹ گئے تھے اور اس نے اپنی خوشی سے وہی چیز مجھے دے دی۔ بہرحال اس کا برا نہ مانیں۔‘‘
’’وہی تریاہٹ وہی عورت والا کھیل! چل ٹھیک ہے۔ میں تو اپنا بچائو کرلوں گا، تجھے بھی پورن شکتی کا مزہ آئے گا۔ ٹھیک ہے… ٹھیک ہے۔ اس کا کیا کرے گی اب؟‘‘
’’کس کا مہاراج؟‘‘
’’یہی پاگل کتا جو نجانے کیا کیا کرتا رہا جیون بھر، جس نے اپنی ذات کو کشٹ دیئے ہیں ہمیشہ۔ کیا نہیں ملا اسے اور کیا لیا اس نے اس سے، یہ کتا مجھے دے دے مہاوتی! اس کتے کو میں اپنے ساتھ لے جائوں گا۔ بڑا مہان بنتا ہے۔ سات پورنیوں کا پورن تھا۔ کبھی کسی سے کوئی کام نہیں لیا، کشٹ میں پڑا رہا، تکلیفیں اٹھاتا رہا، بھوکا پڑا رہا، بیمار پڑا رہا لیکن بیروں کو نہ پکارا۔ ارے دے دے اسے اس پاپی کو میں ہی ٹھیک کروں گا۔ بہت کچھ دکھانا ہے اسے سنسار میں ابھی، ایسے تھوڑی مرنے دوں گا۔ سارا خون دے دیا بدن کا۔ سترہ آدمی مارے تھے میں نے اس کے لیے، نکال دیا سارا خون بدن سے اور اب پڑا ہے بلی کا کھایا چھیچھڑا…! دھت تیرے کی۔ لا اتار اسے… اتار دے اسے!‘‘
’’بیرو… بیرو…‘‘ مہاوتی نے آواز دی اور پورا غار ان ٹیڑھے میڑھے ناپاکوں سے بھر گیا۔ جو پہلے میرے تھے اور اب مہاوتی کے غلام تھے۔ وہ سب مہاوتی کے سامنے جھک گئے۔ مہاوتی کی آنکھوں میں فخر اتر آیا اور اس نے فاتحانہ نگاہوں سے بھوریا چرن اور اس کے بعد شمبھو اور کالی داس کو دیکھا۔ پھر بولی۔
’’بیرو…! شنکھا یہ شریر مانگتا ہے۔ دے دو اسے، اتار دو یہ شریر اوپر سے!‘‘ سارے بیر اوپر کی جانب دوڑے اور انہوں نے مجھے احتیاط سے نیچے اتار کر زمین پر ڈال دیا۔ میرا جسم تو اب جسم تھا ہی نہیں بس ایک بے جان گوشت کا لوتھڑا تھا۔ پتا نہیں شکل و صورت کیسی ہوگئی تھی۔ دیکھ رہا تھا، سوچ رہا تھا، سمجھ رہا تھا۔ بول نہیں پا رہا تھا۔ اپنے چیخنے کی آواز بھی بلکہ کراہ تک منہ سے نہیں نکل پا رہی تھی۔ بھوریا چرن شدید غصے
میں تھا۔ اس نے ایک ہاتھ اوپر کیا۔ چمڑے کا ایک پٹا اور زنجیر اس کے ہاتھ میں آگئی۔ اس نے پٹا میری گردن میں ڈالا، زنجیر اپنی مٹھی میں پکڑی اور مجھے گھورتا ہوا بولا۔
’’ہاتھ، پیروں کے بل چلتا میرے ساتھ آجا۔ چل اٹھ۔‘‘ اس نے آگے بڑھ کر ایک لات میرے جسم پر رسید کی اور میں اپنے بدن کو سنبھال کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ شاید اس میں کامیاب بھی ہوگیا تھا لیکن کتے کی طرح نہیں چل سکا بلکہ اپنے پیروں پر ہی کھڑا ہوگیا۔ بھوریا چرن نے غرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’اگر تو چاروں ہاتھ، پیروں کے بل نہیں چلا تو میں تجھے آگ میں جلا دوں گا۔ کتا بن جا کتے! کتا بن جا…!‘‘ اس کی آواز میرے حواس پر مسلط ہونے لگی اور اس کے بعد میں دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں زمین پر ٹکائے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ غار سے باہر آگیا اور بھوریا چرن نے ایک عجیب سی سمت کا رخ کیا۔ آنکھوں میں دھندلاہٹیں تھیں اور بدن میں لرزشیں۔ نظر بھی نہیں آرہا تھا۔ کنکر، پتھر ہاتھوں اور پیروں میں چبھ رہے تھے لیکن انہی کے بل چلنا تھا۔ پھر شاید بدن کے نیچے گھاس آئی اور میں جانوروں ہی کی طرح اوندھا اس گھاس پر لیٹ گیا۔ بھوریا چرن نے زنجیر ایک طرف ڈال دی اور خود ایک پتھر پر جا بیٹھا۔ نجانے پرانی حویلی سے کس طرح باہر نکل آیا تھا۔ نجانے کتنا فاصلہ طے کرکے کہاں پہنچ گیا تھا۔ اب کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ بھوریا چرن سامنے موجود بھی ہے یا نہیں یا زنجیر ڈال کر کہیں چلا گیا تھا، کسی بات کی تصدیق نہیں ہوسکتی تھی۔ نجانے کب تک اسی طرح پڑا رہا اور نجانے کیا کیا کیفیات مجھ پر بیتتی رہیں۔ میرے بدن سے خون کا ایک ایک قطرہ نکل گیا تھا یا پھر کچھ خون باقی تھا۔ یقیناً باقی تھا۔ نہ ہوتا تو اعضاء کو جنبش کیسے دیتا۔ گردن اٹھائی تو یوں لگا جیسے سر کا وزن منوں بڑھ گیا ہو۔ بمشکل تمام آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو محسوس ہوا جیسے پپوٹے ایک دوسرے سے جدا ہونے کے لیے تیار نہ ہوں۔ آہ کاش! کچھ ہوجائے، اس عالم میں ہی کچھ ہوجائے۔ دم نکل جائے میرا…! بہتر یہی ہوگا۔ بے جان جسم، بند آنکھیں، بھاری دماغ یہ بھی کوئی زندگی ہے اور اس طرح بھی کیا زندہ رہنے میں مزہ آتا ہے۔ سوچیں، سوچیں صرف سوچیں…! اور وہ بھی اس طرح کہ کوئی سوچ ترتیب سے نہیں تھی۔ بس نجانے کیا کیا خیالات ذہن سے گزر رہے تھے۔ ایک بار یہ بھی سوچا کہ مہاوتی کی بات مان کر میں نے غلط تو نہیں کیا۔ مجھ سے تو پورنیوں کو قتل کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ یہ تو نہیں کہا گیا تھا کہ میں انہیں دان کردوں۔ کیا پھر مجھ سے غلطی ہوگئی؟ پورنیوں سے چھٹکارا ہی حاصل کرنے کے لیے کہا گیا تھا نا مجھ سے، کرلیا۔ جہاں تک کوشش ہوسکی، ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ رعایت ملنی چاہئے، ملنی چاہئے۔ بھوریا چرن کی آواز نے خیالات کا طلسم توڑ دیا۔ پکار رہا تھا مجھے، کہنے لگا۔
’’ارے او مہان پرش! ذرا گردن تو اٹھا رے۔ بہت بڑا انسان ہے تو… بڑا دھرماتما ہے۔ اب بول کیا بیت رہی ہے۔‘‘ میں نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا۔ بھوریا چرن کا چہرہ بگڑا ہوا تھا۔ میرے ہونٹ مسکراہٹ کے انداز میں کھنچ گئے۔ اس مسکراہٹ کو دیکھ کر بھوریا چرن اور آگ بگولہ ہوگیا۔ ’’بڑا بے غیرت ہے بھئی! نہ دیکھے تیرے جیسے، نہ دیکھے۔ حالت بکٹ ہے اور دانت نکل رہے ہیں۔‘‘
’’میرے دین میں اسے صبر کہتے ہیں بھوریا چرن!‘‘
’’چنتا مت کر بچہ سارا جیون صبر ہی کرنا پڑے گا۔‘‘
’’مجھ سے زیادہ تیری حالت خراب ہے بھوریا!‘‘
’’لات دوں گا جبڑا ٹوٹ جائے گا۔ زیادہ بک بک مت کر! کوئی نہ بچا سکے گا اب۔ نہ تیرا دھرم، نہ بیر، سب کچھ دے دیا اسے باپ کا مال سمجھ کر۔‘‘
اس بار مجھے زور کی ہنسی آگئی۔ بھوریا چرن کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ اپنی تمام تر تکلیفوں کے باوجود میں ہنسے بغیر نہ رہ سکا اور اس بات سے وہ بالکل ہی دیوانہ ہوگیا۔ دانت پیس کر آگے بڑھا۔ میرے قریب پہنچ کر رک گیا۔ پھر بولا۔
’’مرے ہوئے کو کیا ماروں۔ ایسا مرے گا، ایسا مرے گا کہ دیکھنے والے کان پکڑیں گے تجھے دیکھ کر۔ ایسا بدلہ لوں گا تجھ سے کہ سنسار میں کسی نے کسی سے ایسا بدلہ نہ لیا ہوگا۔ تو نے میرا تو ستیاناس کیا ہی ہے مگر بیٹا! اپنا بھی ستیاناس دیکھنا۔ ابھی کیا دیکھا ہے تو نے۔ بدلہ لوں گا تجھ سے! بدلہ لوں گا۔ ایسا بدلہ لوں گا کہ یاد کرے گا۔ ایسے گھائو لگائوں گا تیرے دل میں کہ میرے من کے سارے گھائو بھر جائیں گے۔ چل اٹھ اور اب تو بول کر دکھانا ذرا! دیکھوں گا کیسے تیری زبان چلتی ہے۔‘‘ اس نے جھک کر زمین پر سے تھوڑی سی مٹی اٹھائی۔ میرے قریب پہنچا اور یہ مٹی میرے منہ میں بھر دی۔ عجیب غلیظ سی مٹی تھی۔ بدبودار! میں تھو تھو کرنے لگا۔ مجھے ابکائیاں آنے لگیں مگر جسم اس طرح بے جان تھا کہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ غالباً ہاتھوں اور پیروں کے بل چل کر یہاں تک جو آیا تھا تو وہ بھی بھوریا چرن ہی کی دی ہوئی قوت تھی ورنہ جس شخص کے جسم سے سارا خون بہہ جائے، وہ جنبش کیسے کرسکتا ہے۔
بمشکل تمام منہ کی مٹی صاف کی اور اس کے بعد بھوریا چرن کو دیکھنے لگا۔ وہ بولا۔
’’اب ذرا ایک لفظ بھی بول کر دکھا دے اپنے منہ سے! بول دکھا اپنے منہ سے ایک لفظ بول کر مان لیں گے تیرے کو، کہ بہت دھر ماتما ہے۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر آنکھیں بند کرلیں۔
’’ارے او نواب کے جنے! ذرا چل آگے بڑھ۔‘‘ اس نے زنجیر پکڑی اور مجھے گھسیٹنے لگا۔ گھسیٹتا ہی رہا تھا۔ نجانے کتنی دور تک گھسیٹتا رہا تھا۔ پھر شاید کوئی آبادی آگئی تھی۔ دماغ تو ساتھ دے نہیں رہا تھا۔ کتوں کے بھونکنے کی آواز تھی جس نے یہ احساس دلایا تھا کہ اس وقت کسی آبادی کے قریب سے گزر رہا ہوں میں۔ نیچے چھوٹے چھوٹے پتھر کے ٹکڑے اور کچی زمین تھی۔ پتا نہیں بدن کی کیا حالت ہورہی تھی۔ پتا نہیں میرا جسم گھسٹ رہا تھا یا شاید مردہ حالت میں مجھے گھسیٹے لے جارہا تھا۔ پھر اس نے میری زنجیر چھوڑ دی، پٹا گلے سے نکال دیا اور مجھے وہیں ڈال کر کہیں چلا گیا۔ میں آسمان کو دیکھتا رہا، چت پڑا رہا۔ نجانے کیا کیفیت ہورہی تھی۔ میں اس کیفیت کو کوئی نام نہیں دے سکتا۔ بہت دیر کے بعد بھوریا چرن واپس آیا۔ خوش نظر آرہا تھا۔ مجھے آواز دی تو میں نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
’’کہو تیاگی جی مہاراج! کیسے حال ہیں تمہارے…؟‘‘ میں نے بولنے کی کوشش کی۔ منہ کھلا لیکن آواز غائب ہوچکی تھی۔ بہت ہی زور لگایا۔ پتا نہیں جسمانی کمزوری تھی یا پھر بھوریا چرن نے جو حرکت کی تھی، اس کا نتیجہ۔ بولنے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی تو وہ قہقہے لگانے لگا۔ خوب ہنسا پھر بولا۔
’’بھوک لگ رہی ہوگی ایں! لگ رہی ہے نا بھوک… کھانا کھلائیں تمہیں۔ لو یہ کھا لو۔‘‘ اس نے ایک برتن سامنے کیا۔ ایک عجیب سی تعفن زدہ چیز تھی۔ وہ اس نے میرے چہرے کے بالکل قریب کردی۔ ایک بار پھر حالت بگڑنے لگی تھی۔
’’ڈرو نہیں مہاراج! بہت اچھا بھوجن ہے۔ گائے کا گوبر ہے۔ یہ کھا لو… کھا لو۔ بہت اچھا ہوتا ہے اور پھر ہے بھی گائے کا، لو!‘‘ اس نے پلیٹ میرے منہ پر پھینک دی اور گوبر میرے چہرے پر جگہ جگہ تھپ گیا۔ ہاتھ اٹھا کر بمشکل تمام چہرہ صاف کیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ بھوریا چرن کہنے لگا۔
’’چلو یہ بھوجن ناپسند ہے تو ادھر دیکھو، وہ کھا لو۔‘‘اس نے پائوں سے میرا رخ دوسری جانب کردیا۔ ایک گندی نالی تھی جس میں سفید رنگ کے کیڑے کلبلا رہے تھے۔ بھوریا چرن ہنستا ہوا آگے بڑھا۔ کیڑوں کو مٹھی میں بھرا اور میرے چہرے کے قریب کردیا۔
’’بڑے بڑھیا ہیں یہ، کھا کر دیکھو آتما کو شانتی ملے گی، پیٹ بھی بھر جائے گا۔‘‘ میں نے وحشت کے عالم میں رخ بدل لیا اور بھوریا چرن قہقہے لگانے لگا۔ ’’ستیاناس مار دوں گا تیرا ستیاناس مار دوں گا تیرا! چل اٹھ… اٹھ۔‘‘ اس نے جھک کر میرے بال پکڑے اور اس کے بعد مجھے سیدھا کھڑا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ پیروں میں بالکل جان نہیں تھی۔ کھڑا ہوا تو زمین پر گر گیا۔ پھر دوبارہ کھڑا ہوا اور دوبارہ زمین پر گر گیا۔ بھوریا چرن بدستور قہقہے لگا رہا تھا اور میں نے اپنا ذہن و دل ساکت کرلیا تھا۔ نہ غصہ آرہا تھا، نہ افسوس ہورہا تھا۔ بس دل میں ایک ٹھنڈک سی اتر رہی تھی اور شاید یہ ہی ٹھنڈک مجھے زندہ رکھنے کا باعث تھی۔ بھوریا چرن نے میرے منہ پر تھوکا اور اس کے بعد وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میں وہیں پڑا رہا۔ بدن میں تحریک ہی نہیں ہورہی تھی۔ کئی بار اٹھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور اس کے بعد وہیں رخسار زمین پر رکھ کر ساکت ہوگیا۔ موت کتنی بے رحم ہے۔ وہ جو جینا چاہتے ہیں، وہ جو زندگی کی تمام آسائشیں چاہتے ہیں، وہ جو تندرست و توانا ہیں، انہیں ایک لمحے میں لپیٹ لے جاتی ہے اور وہ جو اس کے آرزومند ہوتے ہیں، وہ جن پر زندگی عذاب جہنم ہوتی ہے، انہیں وہ دور سے دیکھ کر مسکراتی رہتی ہے۔ اس وقت موت بھی میرے قریب آنے سے گریز کررہی تھی۔ ٹھیک ہے، کیا ہرج ہے۔ ہر حالت میں شکر ہی کرنا ہوگا کیونکہ اور کچھ کر نہیں سکتا۔ پڑا رہا۔ دماغ بے جان ہوگیا، سوچنے سمجھنے کی قوتیں سلب ہوگئیں۔ پھر شاید کسی نے چہرے پر پانی ڈالا تھا۔ لوٹے کی دھار سے پانی ڈالتا رہا۔ ہوش تو آگیا تھا لیکن آنکھیں نہ کھل پا رہی تھیں۔ بدن میں توانائی سی محسوس ہوئی۔ آنکھیں کھولیں دیکھا تو کوئی موجود نہیں تھا۔ البتہ ایک سنسان سڑک نظر آرہی تھی اور میں اس سڑک کے کنارے زمین پر ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ حیرانی سے ادھر ادھر دیکھا۔ کون یہاں لے آیا، منظر کیسے بدل گیا۔ رفتہ رفتہ رونق ہونے لگی۔ جوں جوں روشنی جاگنے لگی، لوگ آتے جاتے نظر آئے۔ کسی نے رک کر میرے سامنے کچھ ڈال دیا۔ دیکھا تو ایک روپے کا نوٹ تھا۔ میں نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ آنکھیں بند کرلیں پھر کوئی اور آیا اور میری گود میں کچھ رکھ گیا۔ ٹٹول کر دیکھا تو دو پوریاں اور ان پر رکھی ہوئی ترکاری تھی۔
یہ میری ضرورت تھی۔ چنانچہ میں نے اس من وسلویٰ کو احترام سے اٹھا لیا اور کانپتے ہاتھوں سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے لگا۔ اس نعمت کو کھا کر میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ دل نے خدا کا شکر ادا کیا۔ پیاس لگنے لگی تھی۔ پانی تھوڑے فاصلے پر نظر آرہا تھا۔ غالباً میونسپلٹی کا نلکا تھا جس سے تھوڑا تھوڑا پانی بہہ رہا تھا۔ بدن کو جنبش دی۔ پیروں سے کھڑا تو نہ ہوا گیا، گھسٹتا ہوا نلکے تک پہنچا۔ پانی پیا اور جسم آسودہ ہوگیا۔ ایک بار پھر پھل چکھ رہا تھا۔ ایک بار پھر پھل چکھ رہا تھا۔ ٹھیک ہے، کوئی ہرج نہیں ہے۔