مسعود کی پرورش نیک والدین کے سائے میں ہوئی تھی لیکن بری صحبت نے اسے جوئے اور سٹے تک پہنچا دیا اور وہ دولت کے آسان حصول کی طرف مائل ہوگیا۔ یہی لالچ اتفاقاً اسے کالے جادو کے ماہر بھوریا چرن تک لے گیا۔ بھوریا چرن نے اسے اپنا آلۂ کار بننے کی پیشکش کی لیکن مسعود کو بروقت عقل آگئی اور اس نے کسی بھی شیطانی عمل کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ مسعود کے انکار پر بھوریا چرن اس کا بدترین دشمن بن گیا۔ اس نے مسعود کو در در بھٹکنے پر مجبور کردیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ذہنی اور جسمانی صحت سے بھی محروم ہوگیا۔ اسے کہیں بھی جائے پناہ میسر نہیں تھی۔ نت نئی مشکلات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اس کی ملاقات ایک بزرگ بابا فضل سے ہوئی، انہوں نے نہ صرف بھوریا چرن کے شر سے اس کی حفاظت کی بلکہ اسے روحانی طاقت سے بھی نوازا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسعود کو خلق خدا کے کام آنے کی ہدایت کی تھی۔ مسعود نے ان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کئی لوگوں کی مشکلات حل کرنے میں ان کی مدد کی۔ اسی دوران اسے اپنے ماموں ریاض سے ملاقات کی امید نظر آئی تو وہ ان کی تلاش میں لگ گیا۔ اسے اپنے والدین، بہن بھائی اور ماموں کی بہت یاد آتی تھی لہٰذا وہ ہر صورت ان سے ملنا چاہتا تھا۔ اسی جستجو میں وہ ایک ویران حویلی تک جا پہنچا۔ یہ دراصل بھوریا چرن کا بچھایا ہوا جال تھا جس میں وہ گرفتار ہوگیا تھا۔ یہاں اس نے پانی کے دھوکے میں غلیظ خون پی کر اپنے وجود میں نجاست اتار لی۔ اس نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہا لیکن کچھ لوگوں نے اس کی جان بچالی۔ بھوریا چرن مسلسل اس کے تعاقب میں تھا۔ وہ مسعود کو پریشان کرنے کیلئے کبھی اپسرائوں کے روپ میں حسین عورتوں کو اس کے پاس بھیجتا تو کبھی عجیب الخلقت لوگوں کا ایک ہجوم اس کے پیچھے لگادیتا جو دراصل اس کے بیر تھے۔ مسعود کو ان بیروں سے گلوخلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی جو اپنے آپ کو اس کا خادم کہتے تھے۔ وہ بے مقصد ادھر ادھر بھٹکتا پھر رہا تھا کہ ایک جوہڑ کے کنارے پہنچ کر اسے یاد آیا کہ بھوریا چرن نے ایک بار اس کی مدد کرنے والے سفلی علم کے ایک ماہر رامانندی کو بوتل میں بند کرکے اسی جوہڑ میں پھینک دیا تھا۔ مسعود نے انہی بیروں کی مدد سے وہ بوتل نکلوائی اور رامانندی کو آزاد کردیا۔ راما نندی مسعود کا بے حد شکرگزار ہوا، دونوں میں بہت سی باتیں ہوئیں اور پھر وہ چلتے چلتے ایک بستی تک جا پہنچے۔ یہاں ایک مسجد دیکھ کر مسعود نماز ادا کرنے کیلئے اندر جانا چاہتا تھا کہ رامانندی نے اسے روک لیا کہ چونکہ اب وہ پاک صاف نہیں اس لئے اندر نہ جائے۔ مسعود نے ناچار اس کی بات مان لی اور ایک باہر درخت کے سائے میں سجدے میں گرگیا۔ راہ گیر اسے دیکھ کر حیران تھے، بالآخر ایک شخص نے تعجب سے سوال کر ہی دیا کہ وہ مسجد کو چھوڑ کر باہر نماز کیوں پڑھ رہا تھا۔
(اب آپ آگے پڑھیے)
میں نے تھوک نگل کر ادھر ادھر دیکھا کیا جواب دیتا اس بات کا لیکن گردن گھمائی تو ایک انوکھا منظر دیکھا۔ رامانندی بھی سجدے میں پڑا ہوا تھا۔ میں ششدر رہ گیا۔ تب ایک لزرتی ہوئی بوڑھی آواز بھری۔
’’آپ لوگ چلیں ہم پوچھ لیں گے۔‘‘
’’مسافر معلوم ہوتے ہیں امام صاحب ہوسکتا ہے لباس صاف نہ ہوں اس لیے اندر نہ آئے ہوں۔‘‘
’’اگر ایسا ہے تو اس کے گھر کے اس احترام کا جذبہ وہ قبول کرے۔ میاں انہیں اٹھائو، سجدے اتنے طویل مناسب نہیں ہوتے۔‘‘ میں نے حکم دینے والے کو دیکھا تقریباً اسی سال کی عمر کے سفید ریش انسان تھے۔ بھنوئوں کے بال بھی سفید تھے ڈھیلے سفید چغے اور عمامے میں ملبوس تھے۔ میں رامانندی کے قریب پہنچا اور اسے جھنجھوڑنے لگا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ حالانکہ اچھا خاصا اندھیرا پھیل گیا تھا۔ مگر رامانندی کی سجدہ گاہ بھیگی ہوئی نظر آرہی تھی اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی تھیں۔
میری عقل چکرا گئی۔ رامانندی کو کیا ہوگیا۔ اسی وقت نمازیوں میں سے کسی کی آواز سنائی دی۔ ’’مسافروں کے لیے کھانا لے آئوں امام صاحب…؟‘‘
’’نہیں میاں خانہ خدا کے مہمان ہیں۔ اس کے ہاں کیا کمی ہے۔ آپ کا بے حد شکریہ۔ گھر میں جو پکا ہے ان کے سامنے رکھ دوں گا۔‘‘ لوگ معلوم کرکے چلے گئے۔ امام صاحب ہمارے قریب ہی زمین پر بیٹھ گئے۔ وہ بغور ہمارا جائزہ لے رہے تھے پھر انہوں نے کہا۔ جو کچھ پوچھوں گا تفسیر احوال کیلئے پوچھوں گا۔ جس بات کا جواب دینا ناپسند ہو نہ دینا برا نہیں مانوں گامگر جھوٹ نہ بولنا۔ خانہ خدا کے سامنے ہو۔
’’نہیں امام صاحب آپ کچھ نہ پوچھیں جواب نہ دے سکیں گے۔‘‘
’’خدائے قدوس کی قسم بغرض تجسس نہیں انسان سے محبت مجبور کررہی ہے۔ کہ تم سے احوال دریافت کروں۔ عمر میں تم سے کہیں زیادہ ہوں۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ کسی مشکل میں مشورہ کرلینا ضروری ہے حل نکل آتا ہے۔ مجھے بتائو بچو… حلیے سے مشکل کا شکار معلوم ہوتے ہو کیا بات ہے؟‘‘
’’ہماری داستان طویل ہے۔‘‘
’’عشاء تک فراغت ہے مجھے بتائو کیا پریشانی ہے تمہارے نام کیا ہیں۔‘‘
’’میرا نام مسعود احمد ہے اور ان کا رامانندی ہے۔‘‘
’’رامانندی…‘‘ امام صاحب نے سرگوشی کے انداز میں کہا اور پھر گہری نظروں سے رامانندی کو دیکھا پھر بولے۔ ’’جیل سے فرار ہوئے ہو؟‘‘
’’نہیں…‘‘ رامانندی نے جلدی سے کہا۔
’’کسی قانونی مشکل میں ہو…؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ رامانندی ہی بولا۔
’’الحمدللہ پھر احوال کہو۔ تم بتائو میاں خاموش کیوں ہو…؟ پہلے تم اپنے بارے میں بتائو۔‘‘ زبان کھل گئی۔ میں نے اول سے آخر تک داستان امام صاحب کو سنادی اس میں رامانندی کا پورا ذکر بھی آگیا تھا۔ امام صاحب خاموشی سے سنتے رہے تھے۔ میرے خاموش ہونے کے بعد بھی وہ دیر تک خاموش رہے تھے۔ پھر وہ رامانندی سے مخاطب ہوکر بولے۔
’’عزیزی تمہاری داستان تو معلوم ہوگئی۔ مگر تم سجدے میں کیوں پڑے ہوئے تھے۔ تم کسے سجدہ کررہے تھے؟‘‘
’’ارے جس کی آواز مجھے سنائی دے رہی تھی۔ وہ جس کا کہا آپ بول رہے تھے۔ میں اسے سجدہ کررہا تھا۔ میرے گناہوں نے بھگوان سے تو میرا رشتہ توڑ دیا امام جی… مگر میں اس کی پناہ میں آنا چاہتا ہوں جس کی باتیں آپ لوگوں کو سنا رہے تھے۔ میں کالے دھرم سے نکل کر اس کے سائے میں آنا چاہتا ہو۔‘‘ رامانندی نے روتے ہوئے کہا۔ اور امام صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’آئو…‘‘ انہوں نے کہا… رامانندی سہما سہما کھڑا ہوگیا تھا میں بھی اٹھ کھڑا ہوا تو امام صاحب نے مڑ کر کہا۔ ’’نہیں تم یہاں رکو… تمہیں یہیں رکنا ہوگا۔ مسعود میاں جانا نہیں یہاں سے بہت سی باتیں کرنی ہیں تم سے تاکید کرتا ہوں۔ یہ ناآشنا ہے کہتا ہے بھگوان سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے ارے بائولے نام بدل لینے سے کچھ نہیں ہوتا افکار نہیں بدلنے چاہئیں وہیں سے کفر کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں افکار بدل کر نام بدلو تو بری بات ہے سچ کو کچھ بھی کہہ لو سچ رہتا ہے آئو۔‘‘ انہوں نے رامانندی کا ہاتھ پکڑا اور اسے مسجد میں لے گئے۔
میں ڈبڈبائی آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھتا رہا اندازہ ہورہا تھا اپنے بارے میں اندازہ ہورہا تھا وہ لامذہب مجھ سے بہتر ہے وہ اندر جاسکتا ہے اور میں… وہیں سر جھکائے بیٹھا رہا۔ بہت دیر گزر گئی۔ رات ہوگئی پھر وہ واپس آگئے۔ میں نے مسجد سے آنے والی مدھم روشنی میں دیکھا رامانندی کا لباس بدل گیا تھا۔ اس نے شاید امام صاحب کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اس کے ہاتھوں میں کھانے کے برتن تھے۔
’’کھانا کھالو مسعود میاں۔‘‘ امام صاحب بولے اور میں نے رامانندی کو بغور دیکھا۔ امام صاحب مسکراکر بولے… ’’ہم نے ان کا نام سرفراز رکھا ہے خدا کے فضل سے یہ مشرف بہ اسلام ہوگئے ہیں۔‘‘
’’اوہ اور میں…؟‘‘
’’کھانا کھالو۔‘‘
’’میرا کیا تعین ہے امام صاحب…‘‘
’’کھانے کے بعد پوچھ لینا…‘‘
’’نہیں میں آپ کا یہ حکم نہیں مان سکوں گا۔‘‘ میں نے قطعی لہجے میں کہا۔
’’سنو، ناآگہی کی معافی ہے اور جو آشنا ہوتے ہیں ان پر امانتوں کا بوجھ ہوتا ہے اس نے ہندو گھرانے میں جنم لیا اور وہی سیکھا جو دیکھاتھا!‘‘
’’ تم نے بھی وہی سیکھا جو دیکھا تھا اور تمہارا دیکھا وہ تھا جو مکمل تھا۔ تمہارا سنا وہ تھا جو حقیقت تھا۔ فرق صرف آشنا نا آشنا کا ہوا۔ مساجد میں عالم دین کتابوں میں وہ بتاتے ہیں جو نجات کی سمت تعین کرتا ہے اور جان کر بھٹکنا بدترین ہے۔ تم نے ملے سے منہ موڑا، بار بار ایک بار نہیں جب تم اس پر بھروسہ کرتے تھے تو خود قدم کیوں بڑھائے تمہیں تو سمت دی گئی تھی اور وہی سمت تمہیں آگے لے جارہی تھی رخ بدل لیا تم نے کوئی کیا کرے۔ بار بار رخ بدلتے ہو۔ اب انتظار کرو اپنی طرف چلنے والی ہوائوں کا۔ ہوا کے صحیح رخ کا اندازہ ہوجائے تو اس سمت چل پڑنا۔‘‘
’’گویا اب میں تنہا ہوں…‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں تمہارے ساتھ توبہ ہے۔ سانسوں کی آخری حد تک۔ موت کے ہوش چھین لینے سے پہلے تک۔ اور میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ تمہیں مایوسی نہیں ہوگی۔ ہاں قبولیت تک انتظار کرنا ہوگا۔‘‘
میں سکوت کے عالم میں کھڑا رہا۔ پھر میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’شکریہ میں چلتا ہوں۔‘‘
’’کہاں…؟‘‘
’’پتہ نہیں…‘‘
’’کھانا نہیں کھائو گے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’یہ برتن گندے ہوجائیں گے۔‘‘
’’ہم انہیں دوبارہ استعمال نہیں کریں گے۔‘‘
’’میں یہ نقصان نہیں کرنا چاہتا…‘‘ میں نے کہا اور امام صاحب خاموش ہوگئے میں پلٹا تو رامانندی بے قرار ہوکر بولا۔
’’ایک منٹ مسعود ایک منٹ، میں امام صاحب سے اجازت لے لوں۔ امام صاحب میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘
’’اللہ کے احکامات کی تعمیل کرنا بس اس کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ امام صاحب نے کہا اور کھانے کے برتن واپس لے کر اندر چلے گئے۔ میں نے رامانندی سے کہا۔
’’راما…! وہ معاف کرنا سرفراز تمہارا میرے ساتھ چلنا اب مناسب نہیں ہوگا ہم اسے عطیہ الٰہی کہتے ہیں تمہیں جو عطا ہوا وہ بہت قیمتی ہے۔ بہتر ہے کہ امام صاحب کے ساتھ کچھ عرصہ قیام کرکے دینی معلومات حاصل کرو وہ گریز نہیں کریں گے۔‘‘
’’آئو…‘‘ رامانندی نے کہا اور میرا بازو پکڑ کر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میں ہچکچایا تو اس نے میرے بازو پر گرفت مضبوط کرلی اور پھر مجھے ساتھ لے کر چل پڑا۔ رخ بستی کی طرف تھا۔ کافی دور چلنے کے بعد اس نے کہا تمہیں چھوڑ دوں گا میں۔ ابھی تو میرے اور تمہارے درمیان نیا رشتہ قائم ہوئے دیر بھی نہیں ہوئی۔
’’نہیں رامانندی بڑا دلچسپ واقعہ ہوگیا ہے۔‘‘ میں نے بے اختیار مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کیا…؟‘‘
ایک مصرع ہے کہیں سنا تھا۔ اس وقت بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔
’’میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا۔‘‘
’’خدا نہ کرے تم کافر کیسے ہوگئے۔‘‘
’’اب بھی یہ سوال کررہے ہو۔ امام صاحب نے مجھے مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ وہ برتن جن میں میں کھانا کھائوں گا ناقابل استعمال ہوجائیں گے۔‘‘
’’سب ٹھیک ہوجائے گا مسعود… سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’پتہ نہیں کیسے ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’دین کی بات ہے میں نہیں بول سکتا مگر دماغ کچھ الجھتا ہے میں نے تو وہ سارے کرم کیے تھے جن سے کالا جادو آتا ہے گندے اور غلیظ عمل… صحیح معنوں میں تو پاک میں ہوں جبکہ تم نے نہ کالا جادو کیا اور نہ اس کی خواہش کی۔ میں کیسے پاک ہوگیا…؟‘‘
’’نہیں میں امام صاحب کی بات سے متفق ہوں۔ گناہ کبیرہ، اور گناہ صغیرہ کا فرق ہے باریک نکتے ہیں کوئی عالم ہی سمجھا سکتا ہے مجھے جگہ جگہ اپنی غلطیوں کی گواہی ملتی ہے بابافضل نے مجھے کچھ نصیحتیں کی تھیں انہوں نے کہا تھا کہ عمل کا ایک راستہ ہوتا ہے۔ تمہارے نفس کی خواہش تحریک شیطانی ہوتی ہے اس سے بچنا۔ محبتوں کے جال میں پھنس کر فرض کو نہ بھولنا۔ مجھے ایک کراماتی کمبل ملا تھا جسے مجھے ہر وقت ساتھ رکھنا تھا مگر رشتوں کے جال میں پھنس کر ہی اسے چھوڑ کر چلا گیا اور کمبل گم ہوگیا۔ میں نے اپنی طاقت کے زعم میں کچھ ایسے عمل بھی کئے جن کے بارے میں یہ اندازہ نہیں کرسکا کہ وہ شیطان کے بچھائے ہوئے جال ہیں۔ مجھ سے ایسی غلطیاں بار بار ہوئی ہیں۔‘‘
’’امام صاحب نے تمہیں توبہ کرنے کے لیے کہا ہے۔‘‘
’’ہاں کروں گا مگر قبولیت کا وقت نہ جانے کونسا ہوگا تم جس رشتے کی بات کررہے ہو افسوس وہ قائم نہیں ہوسکا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’اب اور کیسے سمجھائوں۔ بتا تو چکا…‘‘ میں نے کہا۔
’’یعنی دین کا رشتہ…؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’میں اس رشتے کی بات کہاں کررہا ہوں۔‘‘
’’تو پھر…؟‘‘ میں نے اسے تعجب سے دیکھا۔
’’اوہ نہیں میرے بھیا… ماں کا رشتہ قائم ہوا ہے میرے اور تیرے درمیان میں نے ماں سے کہا تھا کہ اپنے دوسرے بیٹے کے لیے بھی ہاتھ اٹھالے اس نے ضرور میرے لیے دعا کی ہوگی اور دیکھ لے مسعود مجھے ماں کی دعا سے کیا مل گیا۔ کل ماں نے مجھ سے بھیا کے بارے میں پوچھا تو کیا جواب دوں اسے۔‘‘
میں خاموش ہوگیا ہم بستی میں داخل ہوگئے۔ بازار کھلے ہوئے تھے ایک نانبائی کی دکان پر بیٹھ کر اس نے کھانا طلب کیا اور سرگوشی میں مجھ سے بولا۔ ’’تمہیں میری قسم مسعود خاموش رہنا۔‘‘
میں نے خاموشی سے کھانا کھالیا تھا اپنی کیفیت کا خود اندازہ نہیں کرپارہا تھا کیا ہورہا ہے مجھے شکایت ہے بغاوت ہے صدمہ ہے نہ جانے کیا ہے نہ جانے اس وقت میری سوچ کیا ہے۔
’’اب بستی چھوڑ دیں کیا خیال ہے…؟ رامانندی بولا۔ نہ جانے کون سی بستی ہے۔‘‘
’’کوئی بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے ریلوے اسٹیشن کا پتہ پوچھے لیتے ہیں کہیں بھی نکل چلیں گے۔‘‘
’’تھکن ہوگئی ہے۔ رات گزار لیں کل چلیں گے۔‘‘
’’ضرور ٹھیک ہے وہ سامنے پیپل کا درخت ہے اس کے نیچے چبوترہ بنا ہوا ہے رات گزارنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔‘‘ ہم دونوں چبوترے پر جا لیٹے پیپل کی جڑ میں ایک مجسمہ رکھا ہوا تھا جس کے پاس مٹھائی کے دونے پڑے ہوئے تھے رامانندی نے مجھے بتایا… ’’یہ گوبر دھن پوجا کا سامان ہے صبح جلدی اٹھ جائیں گے یہاں سے ہوسکتا ہے ہندوئوں کو اعتراض ہو۔‘‘ میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ تم اب تک الجھے ہوئے ہو…؟
’’ٹھیک ہوجائوں گا…‘‘
’’کوشش کرکے سوجائو نیند سکون دے گی۔‘‘
’’ہاں‘‘ میں نے کہا سر کے نیچے ایک اینٹ رکھی اور کروٹ بدل لی۔ کافی دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے کہا۔ ’’سوگئے نندی…؟‘‘
’’یار مجھے سرفراز کہو…؟‘‘
’’سوگئے سرفراز…‘‘
’’کیا بھوریا چرن کو ان حالات کے بارے میں معلوم ہوگا…؟‘‘
’’ہوسکتا ہے…‘‘
’’اس پر کیا اثر ہوگا؟‘‘
’’اللہ جانتا ہے مجھے اب بالکل پروا نہیں ہے بڑا سکون ملا ہے مجھے مسعود بیان نہیں کرسکتا بھوریاچرن کا پدم معلوم ہے تمہیں؟‘‘
’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’شناختی نشان…‘‘
’’مکڑی…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں جہاں مکڑی دیکھ لو ہوشیار رہنا۔ اس کے بیراسی شکل میں ہوتے ہیں۔‘‘
’’ہاں میرا واسطہ پڑچکا ہے۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا اور پھر خاموش ہوگیا۔ آنکھوں میں غنودگی تیرنے لگی تھی۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نیند بھگانے لگا۔ سوگیا تو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکوں گا رامانندی کی گہری گہری سانسیں سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد میں اٹھا رامانندی کو ایک نگاہ دیکھا اور پھر بلی کی طرح دبے قدموں وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ بستی کے بارے میں مجھے کچھ نہیں معلوم تھا۔ بس منہ اٹھا کر چل پڑا تھا اور رفتار تیز رکھی تھی تاکہ رامانندی مجھے تلاش نہ کرے۔ میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا۔
سڑکوں اور گلیوں میں کتے بھونک رہے تھے۔ بستی کے آخری سرے پر پہنچا تھا کہ سیاہ رنگ کا ایک قد آور کتا مجھ پر جھپٹ پڑا۔ بہت خونخوار کتا تھا اور بہت غصہ ور معلوم ہوتا تھا اچانک ہی غراکر حملہ آور ہوا تھا میں بوکھلا گیا۔ قریب تھا کہ کتا میری ٹانگ پکڑلے لیکن اچانک ہی کسی نے اسے پیچھے سے پکڑ کر گھسیٹ لیا۔ اور پھر اس کی بھیانک چیخیں ابھرنے لگیں۔ میں نے اسے درمیان سے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کی دونوں ٹانگیں چیر دی گئی تھیں پھر اس کے جسم کی چندھیاں چندھیاں کرکے پھینک دی گئیں۔ اور مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ میرے بیر تھے… میرے محافظ…
بڑا شاک لگا تھا… یہ کالی قوتیں مسلسل میرا ساتھ دے رہی تھیں اور دوسری طرف کچھ نہیں تھا۔ ادھر میں صرف ملعون و مطعون تھا۔ اچانک سارے بیر ظاہر ہوگئے۔
’’پورنا کی جے… کوئی حکم…؟‘‘ ایک نے آگے بڑھ کر کہا میری رگیں کھینچنے لگیں۔ دماغ میں خون کی گردش تیز ہوگئی اعصاب چٹخنے لگے۔ بمشکل تمام میرے منہ سے نکلا۔
’’نہیں۔‘‘
’’سواری کورتھ لادیں؟‘‘
’’نہیں… تم جائو… روپوش ہوجائو۔‘‘
’’جے پورنا…‘‘ وہ سب غائب ہوگئے۔ میں کچھ دیر کھڑا حواس درست کرتا رہا پھر کیفیت کچھ تیز ہوئی تو برق رفتاری سے چلتا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ رفتار ہیجان کے عالم میں پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی تھی بستی پیچھے رہ گئی آگے جنگل کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ میں تاریکی میں ٹھوکریں کھاتا آگے بڑھتا رہا۔ راستے کا کوئی علم نہیں تھا۔ بس قدم اٹھ رہے تھے جنگل ختم ہوگیا میدان نظر آنے لگے اکا دکا خودرد درخت آجاتے تھے۔ چلتا رہا بہت دیر کے بعد کہیں دور سے گڑگڑاہٹ سنائی دی اور پھر ایک تیز روشنی جس کے عقب میں ننھی ننھی روشنیاں ٹمٹماتی گزر رہی تھیں ریل تھی جو کچھ دیر کے بعد آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔ چلتے چلتے تھک گیا تھا رات ابھی خاصی باقی تھی۔ جگہ کیا تلاش کرتا جہاں تھا وہیں بیٹھ گیا تھکن کے مارے برا حال ہورہا تھا نیند کے جھونکے بھی آرہے تھے چنانچہ لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ دماغ کو آزاد چھوڑ دیا تھا اس لیے نیند آنے میں دقت نہ ہوئی اور سکون کی وادیوں میں پہنچ گیا۔ صبح کو پرندوں کی چہچہاہٹ اور جنگلی خرگوشوں کی بھاگ دوڑ سے آنکھ کھل گئی۔ جاگنے کے بعد آس پاس کے مناظر دیکھے بس وہی ویرانہ جو میری تقدیر کی مانند تھا۔ تاحد نگاہ کچھ نظر نہیں آتا تھا سوائے ٹیلی فون کے تاروں کے ان کھمبوں کے جو فاصلے فاصلے سے لگے ہوئے تھے اور ان کے بیچ تاروں کا رابطہ تھا۔ پتہ نہیں آبادی کتنے فاصلے پر ہے لیکن یہ کھمبے کسی آبادی کی جانب میری رہنمائی کرسکتے ہیں اٹھا تو چکر سا آگیا۔ احساس ہوا کہ بھوک اور پیاس نے نڈھال کر رکھا ہے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر سرد آہ بھر کے رہ گیا۔ بھلا اس بے آب و گیاہ ویرانے میں کھانے کا کیا تصور ہوسکتا ہے قدرتی طور پر بھی یہاں کچھ نہیں تھا۔ بس جگہ جگہ بدنما جھاڑیاں اگی نظر آرہی تھیں کہیں کہیں بڑے بڑے جھاڑ تھے جو بعض جگہ خاصے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے یہی فیصلہ کیا میں نے کہ ان تاروں کو دیکھتا ہوا آگے بڑھتا رہوں۔ پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے حلق خشک ہونے لگا لیکن بے کار تھا سب کچھ بے کار تقریباً سو گز کے فاصلے پر ایک جھاڑ اگا ہوا تھا اس کے پیچھے سے گزر کر دوسری سمت پہنچا تو آنکھیں شدت حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایک دری بچھی ہوئی تھی جس پر سفید چادر بچھی تھی چادر کے کونے وزنی پتھروں سے دبے ہوئے تھے۔ درمیان میں پھل خشک میوے اور گوشت کے بھنے ہوئے ٹکڑے رکھے ہوئے تھے میں ساکت رہ گیا دور دور تک نظریں دواڑئیں لیکن کیا مجال کہ کسی انسانی وجود کا احساس بھی ہوجائے۔ ساری چیزیں تروتازہ تھی اور اعضاء چیخ رہے تھے کہ لپک اور شکم سیر ہوجا لیکن یہ سب آیا کہاں سے دوسرے لمحے اندر سے مایوسی کی ایک گھٹی سانس نکلی اور یاد کرنے پر یاد آیا کہ یہ سب کہاں سے آسکتا ہے بھوکا پیاسا تھا میری خواہش کو میرے بیروں سے زیادہ اور کون جان سکتا تھا ذرا سی دیر کے لئے ذہن کی کیفیت ڈانوں ڈول ہوئی اور دل نے کہا کہ پیٹ جو طلب کررہا ہے اسے نظرانداز مت کر ساری باتیں اس کے بعد شروع ہوتی ہیں چنانچہ پہلے اس مسئلے سے نمٹاجائے اور اس کے بعد سوچا جائے کہ آگے کیا کرنا ہے دو قدم آگے بڑھا تو کانوں میں آواز ابھری کہ توبہ تیرے ساتھ ہے تو تنہا نہیں ہے۔ توبہ کے دروازے اس لمحے تک کھلے رہیں گے جس لمحے تک تیری سانس تیرے بدن میں ہوگی۔ آگے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور اس کے بعد رخ تبدیل کرلیا تیز رفتاری سے وہاں سے دور نکل آیا۔ کافی دور جانے کے بعد جب ایک پتھر سے ٹھوکر لگی تو ایک دم سے آنکھیں کھول کر دیکھا وہ پتھر نہیں تھا بلکہ ایک بڑا سا برتن تھا جس میں کھانے پینے کی اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے پلٹ کر حیرانی سے اسی جھاڑ کو دیکھا اتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی میں وہاں سے دور نہیں نکلا لیکن یہاں تو جھاڑ کا نام و نشان نہیں تھا وہ جھاڑ تو بہت پیچھے نظر آرہا تھا مگر پھر یہ برتن میں نے دانت پیسے اور ایک زوردار لات سامنے رکھے ہوئے برتن پر دے ماری۔ اس میں رکھی ہوئی اشیاء زمین پر لڑھک گئیں اور میں وہاں سے آگے دوڑنے لگا۔
لیکن اس بار میں نے آنکھیں بند نہیں کی تھیں سینہ دھونکنی بنا ہوا تھا۔ سانس چڑھ رہی تھی بہت دور نکلنے کے بعد جنون میں کسی حد تک کمی واقعی ہوئی تو میں نے ایک اور جھاڑی کو دیکھا جو خاصی سرسبز تھی اور اس میں لیموں جیسے گول گول پھل لگے ہوئے تھے۔ قدم خود بخود رک گئے ایک لمحے کے لئے ذہن نے کچھ سوچا دوسرے لمحے میں اس جھاڑی کے پاس بیٹھ گیا۔ انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے پھلوں کو دباکر دیکھا رسیلے تھے اندر سے کیسے ہوں اللہ بہتر جانتا ہے دو پھل توڑے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کی خاصیت کیا ہے۔ وہ کیسے پھل ہیں انسانی صحت کے لئے مضر تو نہیں ہیں یہ سب کچھ سوچھے سمجھے بغیر میں نے ایک پھل کو دانتوں سے کاٹا زیادہ سخت نہیں تھا اندر کسی قدر کھٹاس اور کڑواہٹ تھی لیکن لیموں نہیں تھے تاہم ان میں بڑے ریشے موجود تھے میں نے پورا پھل چبالیا پھر دوسرا اور اس کے بعد جھاڑی سے پھل توڑ توڑ کر کھاتا رہا یہ بھی اپنے آپ کو سزا دینے کے مترادف تھا اگر کچھ ہوجاتا ہے ان پھلوں کے کھانے سے تو ہوجائے کیا فرق پڑتا ہے لیکن معدہ پوری طرح پُر ہوگیا تھا۔ بھوک اور پیاس دونوں کی شدت مٹ گئی تھی۔ بدن کو توانائی کا احساس بھی ہورہا تھا آگے بڑھنے کی ہمت بھی پیدا ہوگئی تھی چنانچہ آگے بڑھنے لگا۔ دوپہر تک کے سفر کے دوران دوبارہ ریل گزرتے دیکھی اس کا مطلب ہے کہ فاصلے پر ہی آگے آبادی ضرور مل جائے گی۔ مناظر بدل رہے تھے زمینوں پر کچھ متعدد نشان نظر آئے جو چونے سے بنائے گئے تھے۔ پھر ٹائروں کے نشان بھی نظر آئے اور اس کے بعد ایک باقاعدہ پگڈنڈی مزید کچھ دور چل کر اس پگڈنڈی پر ایک جیپ دیکھی۔ گزرگاہ وہی تھی چنانچہ ادھر سے ہی گزرا… مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جیپ خالی تھی اس کے آس پاس کوئی موجود نہیں تھا۔ حیران کن بات تھی یہاں اس ویرانے میں یہ جیپ کون چھوڑ گیا۔ پھر ایک دم ہنسی آگئی یہ بھی شاید میرے بیروں کا احسان تھا ان کارتھ جدید ہوگیا تھا ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ قدموں کی چاپ سنائی دی اور میں نے پلٹ کر دیکھا مضبوط جسم کا مالک کوئی تینتیس چونتیس سالہ شخص تھا جو ہاتھ میں موبل آئل کا ڈبہ سنبھالے آرہا تھا۔ اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا اور رفتار تیز کردی تھی۔ شاید سوچ رہا تھا کہ کہیں جیپ لے کر نہ بھاگ جائوں قریب پہنچ کر اس نے مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں بھائی ادھر سے گزر رہا تھا کہ یہ جیپ کھڑی ہوئی دیکھی حیران ہورہا تھا کہ اس کا مالک کہاں گیا۔‘‘
’’ریڈی ایٹر خشک ہوگیا تھا یار مصیبت بن گئی۔ دور دور تک پانی کا پتہ نہیں تھا بہت دور جاکر ایک نالی سے پانی ملا… لعنت ہے‘‘ اس نے گردن جھٹکی اور جیپ کا بانٹ کھولنے لگا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کی مدد کی تھی وہ بولا ’’بعض اوقات ایک چھوٹی سی حماقت اتنی بڑی مصیبت بن جاتی ہے کہ بس مزا آجاتا ہے۔ حالانکہ پانی کا گیلن ساتھ رہتا ہے مگر حماقت ہوگئی۔ جانتے ہو کیا؟‘‘ اس نے ریڈی ایٹر میں پانی انڈیلتے ہوئے کہا۔
’’کیا ہوا…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
سائٹ سے چلتے ہوئے میں نے گیلن نکال کر شمسو کو دیا اور کہا کہ پانی بھر لائے وہ گیلن لے کر ادھر گیا اور میں جیپ اسٹارٹ کرکے چل پڑا۔ یاد ہی نہ رہا کہ شمسو کو
پانی لانے کے لئے بھیجا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ موبل آئل کا یہ خالی ڈبہ گاڑی میں پڑا مل گیا ورنہ گئے تھے اس نے ریڈی ایٹر فل کیا۔ اور اس کا ڈھکن لگاکر بانٹ گرادیا پھر چونک کر بولا مگر تم کہاں گھوم رہے ہو کیا تلیری سے آرہے ہو۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ خود ہی بولا ریل میں بیٹھ گئے ہوتے سوا روپیہ لگتا ہے سانسی کا، سانسی ہی جارہے ہوتا؟
’’ہاں‘‘ میرے منہ نے نکلا۔
’’چلو میں چھوڑ دوں گا آئو بہت دیر ہوگئی۔‘‘ میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ’’کہاں رہتے ہو، سانسی میں…‘‘
’’نہیں‘‘
’’اچھا تلیری میں رہتے ہو گے سانسی میں کہاں جانا تھا؟‘‘
’’پہلی بار جارہا ہوں۔‘‘
’’سانسی پہلی بار جارہے ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’کیوں جارہے ہو؟‘‘ اس کے انداز میں تمسخر تھا۔
’’کسی نوکری کی تلاش میں۔‘‘ نہیں ایک خیال کے تحت جلدی سے کہا۔
’’سانسی۔ اور نوکری کی تلاش میں۔ کسی نے مشورہ دیا تھا؟‘‘
’’کسی نے نہیں۔‘‘
’’اچھا خود ہی چار روٹیاں پکواکر چل پڑے ہوگے۔ چاروں کھاگئے یا کوئی بچی ہے۔ بھلے آدمی سانسی میں نوکری کہاں ملے گی تمہیں۔ کسی سے بات ہوئی ہے؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’کمال کے آدمی ہو۔ کسی سے پوچھ تو لیا ہوتا۔ کیا نام ہے۔‘‘
’’مسعود احمد‘‘
’’میرا نام شاہد علی ہے۔ کنسٹرکشن کا کام کرتا ہوں۔ ایک مصیبت میں پھنس گیا ہوں یار۔‘‘ بے تکلف آدمی تھا میں نے اس سے اس کی مصیبت کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا۔ اماں کچھ منہ سے تو بولو۔ یہی بات سن کر پریشان ہوگئے ہو گے وہ خود ہی بولا۔
’’ہاں ایسا ہی ہے۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے دنیا کے کام ایسے ہی چلتے ہیں۔ کیا کام جانتے ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں!‘‘
’’سبحان اللہ۔ سبحان اللہ اماں کیا آدمی ہو۔ کوئی کل سیدھی نہیں لگ رہی کچھ پڑھے لکھے ہو۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’شکر ہے۔ شکر ہے۔ کتنی تنخواہ میں کام چل جائے گا کوئی آگے پیچھے ہے یا۔‘‘
’’اکیلا ہوں۔‘‘
’’مبارک ہو۔ مبارک ہو۔ تمہیں نہیں انہیں جو تمہارے کوئی بھی نہیں ہیں۔ ورنہ بھوکے مرتے بے چارے۔ بار برا مت ماننا میری بات کا۔ مگر تم تو بہت ہی سیدھے آدھی ہو مجھے وہ شیخ چلی یاد آرے ہیں جو چار روٹیاں باندھ کر نوکری تلاش کرنے چل پڑے تھے۔ ان کا کام ہوا ہو یا نہ ہوا ہو تمہارا کام ہوگیا۔ بس یوں سمجھ لو تمہیں نوکری مل گئی اب پیسوں ویسوں کی بات مت کرنا۔ ذرا اطمینان سے بیٹھیں گے تو یہ مسئلہ بھی حل کرلیں گے ان دنوں تو میں ایک مصیبت میں گرفتار ہوں فی الحال تم یوں کرو کہ میری مصیبت میں شریک ہوجائو، دونوں مل کر مصیبتیں بھگتیں گے، ساتھ کھائیں گے ساتھ پیئیں گے، یار یقین کرو، میں ہنس بول رہا ہوں تمہارے ساتھ، مگر جو مجھ پر بیت رہی ہے میرا دل ہی جانتا ہے۔‘‘
یہ آدمی واقعی اچھا معلوم ہوتا تھا، فوراً ہی میں نے اپنے خیالات میں ذراسی تبدیلی پیدا کی تھی نوکری کا تذکرہ یہی سوچ کر کیا تھا کہ جو کچھ گزر رہی ہے وہ تو گزر ہی رہی ہے کم از کم کچھ حلال کی کھائوں، بیچارے پنڈت جی کے ہاں گھر کے کام کاج کی نوکری کی تھی تو وہ گھر ہی چھوڑ بھاگے تھے اب مجھے کیا معلوم تھا کہ ان پر اور مجھ پر کیا مصیبت پڑنے والی ہے لیکن یہ دوسری نوکری جو مجھے مل رہی تھی وہ پہلے سے کسی مصیبت زدہ کے ہاں کی نوکری تھی، دل تو چاہ رہا تھا کہ اس سے اس کی مصیبت کے بارے میں پوچھوں لیکن ہمت نہیں پڑرہی تھی پھر اس نے خود ہی کہا۔
’’یار کچھ منہ سے تو پھوٹو، سانسی ابھی یہاں سے کافی دور ہے اور میں بہت زیادہ تیز گاڑی نہیں چلا سکتا کچھ گڑبڑ ہے اس کے انجن میں۔‘‘
’’آپ نے اپنی کسی پریشانی کا تذکرہ کیا تھا۔ کیا بات ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں اس وقت یہی مسئلہ میری زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ بس یار ایک انوکھی مشکل میں مبتلا ہوگیا ہوں، اللہ سے دعا کرو کہ مجھے اس مصیبت سے گزارے، ہوا یہ ہے کہ تمہیں بتاچکا ہوں کہ کنسٹرکشن کا کام کرتا ہوں اور عمارتیں وغیرہ بنواتا ہوں، ہمارے ایک جاننے والے ہیں بڑی پرانی شناسائی ہے بس یوں سمجھو کہ اللہ نے پیٹ بھی بھردیا ہے اور تجوریاں بھی، ایک باغ خریدا تھا انہوں نے اسی علاقے میں جدھر سے ہم لوگ گزر رہے تھے، بڑا پرانا باغ پڑا ہوا تھا، موصوف کو وہاں فارم ہائوس بنانے کی سوجھی، ایک عمارت، ٹیوب ویل اور ایک طویل رقبے میں احاطہ بنوانے کا ارادہ کیا اور اس کا ٹھیکہ مجھے دے دیا، پیسے بھی لے لیے میں نے ان سے اور اس کے بعد سارے کام ختم کراکے اس طرف چل پڑا مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ باغ آسیب زدہ ہے۔‘‘ شاہد علی بولتے ہوئے رک گیا۔ میں خاموشی سے اس کے آگے بولنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔
’’باغ کا کٹوانا ضروری تھا اور ایسے بھی پرانا باغ تھا سارے درخت سوکھے پڑے ہوئے تھے، کوئی دیکھ بھال کرنے والا موجود نہیں تھا یہاں تک کہ مالی بھی نہیں اور اس کی وجہ یہی تھی کہ باغ آسیب زدہ مشہور تھا درختوں پر پھل نہیں آتے تھے اور اس کا مالک بھی اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ کسی ہندو کا باغ تھا۔ بہر طور میں نے کام شروع کرادیا۔ درخت کٹوانے میں بھی دو ڈھائی مہینے لگ گئے۔ اور پھر مصیبت آگئی، مصیبت ایسے آئی کہ بس کیا بتائوں یار۔ پتہ نہیں تم میری باتوں کو مذاق سمجھو یا سچ۔ ایک بہت پرانا درخت تھا وہاں بستی کے آس پاس کے لوگوں کا کہنا تھا کہ اصل میں یہی درخت آسیب زدہ ہے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی آسیب وغیرہ دیکھے نہیں تھے۔ مگر کچھ ایسے آثار نمودار ہوئے جس سے مجھے بھی شبہ ہونے لگا کہ لوگوں کا کہنا غلط نہیں ہے، میں نے درخت کی کٹائی شروع کرادی اور اس دن دوپہر کا وقت تھا۔ مزدور جڑیں کھود رہے تھے کہ درخت کی جڑ میں انہیں ایک عجیب و غریب صندوق جیساملا، پتھر کا صندوق تھا مزدوروں نے اس پر کدالیں مارنا شروع کردیں اور اس صندوق کا ڈھکن کھول دیا مجھے اطلاع ملی تو میں فوراً ہی متوجہ ہوگیا بے شمار بار ایسی کھدائیاں کراتے ہوئے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ کہیں کوئی خزانہ وزانہ مل جائے۔ اس وقت بھی جب مجھے پتہ چلا کہ درخت کی جڑ میں ایک صندوق برآمد ہوا ہے تو میں نے لگائی دوڑ اور پہنچ گیا وہاں… مزدروں کو ہٹاکر میں نے اس چوکور گڑھے میں جھانکا۔ گڑھے میں کسی خاص درخت کے پتے بچھے ہوئے تھے جن میں خاص بات یہ تھی کہ وہ تروتازہ تھے حالانکہ درخت پرانا اور سوکھا ہوا تھا مگر وہ پتے بالکل ہرے تھے اور ان پتوں پر پتھر کی ایک مورتی لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اس مورتی کو غور سے دیکھا ہندوئوں کے دیوی دیوتائوں کے بہت سے بت دیکھے ہیں میں نے مگر وہ مورتی ان میں سے کسی کی نہیں تھی۔ ایک عجیب سی شکل کی تھی وہ میں نے وہ مورتی نکال لی اور مزدوروں سے پورا کنواں کھدوادیا۔ اس لالچ میں کہ شاید یہ کوئی نشانی ہو خزانے کی۔ مگر کچھ نہیں ملا وہاں بڑی مایوسی ہوئی مزدوروں نے وہ درخت بھی گرادیا کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی۔ کئی بار کھدائی کراتے ہوئے بہت سی چیزیں ملی تھیں مجھے۔ کمبخت کام کی کوئی چیز آج تک نہیں ملی لیکن اس بار جو مصیبت گلے پڑی ہے اللہ ہی اس سے نکالے۔‘‘
وہ جیسے خود ہی اپنی کہانی میں کھوگیا۔ میں خاموشی سے اس کے آگے بولنے کا انتظار کرنے لگا وہ سوچ میں ڈوب کر خاموش ہوگیا تھا پھر کچھ دیر کے بعد اس نے کہا۔ ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کیا کہہ رہا تھا؟‘‘
’’وہ درخت گرادیا گیا۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’کونسا درخت؟‘‘
’’جس کے نیچے سے مورتی نکالی گئی تھی۔‘‘
’’معاف کرنا۔ زیب النساء کا خیال آگیا تھا۔ ہاں تو وہ مورتی جو اس پتھر کے صندوق سے نکلی تھی میرے پاس ہی تھی۔ میں نے اسے بس یونہی جیپ میں رکھوالیا تھا۔ پھر میں دوسرے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ شام کو گھر چل پڑا درخت کا واقعہ دوسرے کاموں کی وجہ سے بھول ہی گیا تھا۔ گاڑی سے اترا تو مورتی نظر آگئی۔ اسے اٹھا لایا اور اپنی خواب گاہ کے کارنس پر رکھ دیا۔ زیب النساء کے ساتھ کھانا کھایا بچوں سے باتیں کیں دو بچے ہیں میرے بیٹی بڑی ہے بیٹا چھوٹا دونوں دوسرے کمرے میں سوتے ہیں۔ رات کو ہم میاں بیوی اپنے کمرے میں معمول کے مطابق سوگئے۔ کوئی پونے ایک بجے سوئے تھے اور اس وقت ڈھائی بجے تھے جب ایک دھماکہ سا ہوا اور اس کے ساتھ ہی میری بیوی زیب النساء کی خوف ناک چیخ سنائی دی۔ میں اچھل پڑا۔ کمرے میں مدھم روشنی چل رہی تھی اور زیب النساء فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ میں نے مسہری سے چھلانگ لگائی اور اس کے قریب پہنچ گیا۔ زیب النساء پسینے میں ڈوبی ہوئی تھی اس کی آنکھیں دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں لیکن وہ ہوش میں تھی اور بار بار انگلی سے کارنس کی طرف اشارہ کررہی تھی میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا بڑی مشکل سے میں اسے اٹھا کر مسہری پر لایا۔ پانی پلایا دلاسے دیئے تو اس کی کیفیت بحال ہوئی۔ اس نے بتایا کہ وہ واش روم گئی تھی باہر نکلی تو مدھم روشنی میں اس نے کارنس پر کوئی تحریک دیکھی۔ وہ سمجھی کوئی چوہا کسی طرح اوپر چڑھ گیا مگر پھر اس نے غور سے دیکھا تو وہ مورتی ہل رہی تھی جسے میں لایا تھا۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے مورتی اٹھ کر بیٹھ گئی پھر اس کے باریک پائوں نیچے لٹکے اور اتنے لمبے ہوئے کہ زمین تک پہنچ گئے اس کے بعد اس نے گھور کر زیب النساء کو دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر دروازے کے پاس پہنچ گئی۔ پھر اس نے دروازہ کھول اور باہر نکل گئی زیب النساء دہشت سے چیخ کر میری طرف بھاگی اور لباس میں الجھ کر گرپڑی۔ یار میں اسے اس کا وہم سمجھ سکتا تھا مگر دونوں باتیں اس کے بیان کی تصدیق کرتی تھیں۔ مورتی کارنس سے غائب تھی اور دروازہ کھلا ہوا تھا…!‘‘
میں یہ اعتراف کرنے میں شرم نہیں محسوس کرتا کہ خود میری بھی سٹی گم ہوگئی تھی۔ ایسے واقعات سے کبھی واسطہ تو نہیں پڑا تھا لیکن دوسروں سے قصے بہت سنے تھے۔ اتنی بھی ہمت نہیں ہوسکی کہ کھلے دروازے سے باہر جاکر دیکھتا۔ زیب النساء نے جو کچھ بتایا تھا، وہ مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس ہورہا تھا۔ ثبوت کے طور پر کارنس سے مورتی بھی غائب تھی۔ زیب النساء سے تسلی کے الفاظ بھی نہیں کہہ سکا۔ وہ بری طرح ڈری ہوئی تھی، ساری رات نہ خود سوئی، نہ مجھے سونے دیا۔
صبح کو اس نے کہا۔ ’’تم چلے جائو گے شاہد اور میں خوف سے مرتی رہوں گی۔‘‘
’’کام ضروری ہیں ورنہ میں نہ جاتا۔ تم ہمت رکھو۔ وہ جو کچھ بھی تھا، چلا گیا۔ اب خوف بیکار ہے۔‘‘
’’بچے اسکول چلے جائیں گے، میں تنہا رہوں گی۔‘‘ بڑی مشکل سے میں نے اسے سمجھایا بجھایا اور پھر جیپ لے کر چل پڑا۔ سائٹ پر پہنچا تو وہاں دوسری مصیبت انتظار کررہی تھی۔ مزدوروں نے کام نہیں شروع کیا تھا بلکہ وہ باغ سے بہت فاصلے پر بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔ حالانکہ عام حالات میں وہ کام شروع کردیتے تھے۔ سب میرے گرد جمع ہوگئے۔
’’کیا بات ہے…؟‘‘
’’ہم یہاں کام نہیں کریں گے ٹھیکیدار! یہ بھوت باغ ہے، ہمارا ایک آدمی زخمی ہوگیا۔‘‘
’’کیسے…؟‘‘ میں نے پوچھا اور مزدور مجھے تفصیل بتانے لگے۔ یہاں کام کرنے والے مزدوروں نے اپنے لیے ایک گوشے میں آرام گاہ بنا رکھی تھی۔ پہلے کسی نے ایک مزدور کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور وہ ہکابکا رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا کس نے کیا۔ ابھی دوسرے مزدور اس پر حیرت کررہے تھے کہ ایک اور مزدور کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنا لباس اتار پھینکا اور بھیانک آواز میں چیخ چیخ کر گانا شروع کردیا۔ وہ ناچ بھی رہا تھا۔
’’صاحب! میں اپنے بچوں کی قسم کھاتا ہوں کہ جھوٹ نہیں بول رہا۔ منجو کی زبان کوئی آٹھ انچ باہر نکل آئی تھی اور آنکھیں اتنی تیز روشنی دے رہی تھیں کہ اس روشنی میں آس پاس دیکھا جاسکتا تھا۔ وہ ناچتا رہا اور پھر ہماری وہاں رکنے کی ہمت نہیں پڑی۔ منجو وہیں رکا رہا اور ہم سب وہاں سے بھاگ آئے۔ صبح کو وہ زخمی حالت میں واپس آگیا۔ اس نے کہا کہ یہاں کام بند کردو ورنہ سب مارے جائو گے۔ ہم کام نہیں کریں گے ٹھیکیدار! ہمارا حساب کردو۔‘‘ میں نے مزدوروں کو سمجھایا۔ ان سے کہا کہ وہ بیشک کچھ دن کے لیے کام بند کردیں مگر وہ نہ رکے اور کام بند کرنا پڑا۔ میرا ہزاروں روپے کا سامان وہاں پڑا تھا، ہزاروں خرچ ہوچکے تھے۔ بڑا پریشان ہوگیا میں! پھر یہ سوچا کہ شہر سے مزدور لے کر آئوں گا۔ کام تو شروع کرانا ہی ہے۔ جو بن پڑا، کیا اور پھر زیب النساء کے خیال سے واپس چل پڑا۔ دھڑکتے دل سے گھر میں داخل ہوا۔ دل بری طرح پریشان تھا مگر زیب النساء کو پرسکون دیکھ کر اطمینان ہوا۔ بچوں کے بارے میں پوچھا تو زیب النساء نے بتایا کہ اسکول سے آنے کے بعد کھانا کھا کر سو گئے ہیں۔
’’تم ٹھیک ہو…؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’کھانا پکایا ہے؟‘‘
’’ہاں!‘‘ اس نے کہا۔ عجیب ٹھہرا ٹھہرا لہجہ تھا۔ وہ اپنے مزاج کے خلاف بول رہی تھی۔ ہمارے درمیان بہت محبت ہے، ایک دوسرے کے مزاج سے آشنائی رکھتے ہیں۔ اس نے میری واپسی کے بارے میں بھی نہیں پوچھا تھا۔ بہت عجیب سا لگا۔ وہ کھانا لینے چلی گئی تھی۔ پھر وہ ٹرے لیے اندر داخل ہوگئی۔ ٹرے سینٹرل ٹیبل پر رکھی، واپس مڑی اور دروازہ بند کردیا۔ یہ بھی سمجھ میں نہ آنے والا عمل تھا۔ میں نے گردن جھٹکی۔ بھوک لگ رہی تھی۔ سالن کی قاب سے ڈھکن اٹھایا تو حلق سے چیخ نکل گئی۔ بہت سی مردہ چھپکلیاں پیلے رنگ کے بدنما شوربے میں تیر رہی تھیں۔ میں نے بے اختیار چیختے ہوئے قاب اٹھا کر پھینک دی۔ پھر وحشت زدہ نظروں سے زیب النساء کو دیکھا اور میرا سانس بند ہونے لگا۔ وہ سیدھی کھڑی تھی۔ اس کے دانت ایک ایک انچ لمبے ہوگئے تھے، آنکھوں کا رنگ سرخ تھا اور ان کی پتلیاں غائب ہوچکی تھیں۔ سر کے بال اس طرح بار بار سیدھے ہورہے تھے جیسے سانپ کلبلا رہے ہوں۔ اس کی یہ ہیبت ناک صورت دیکھ کر میرا رواں رواں کانپ اٹھا، اعصاب بے جان ہوگئے۔ بولنے کی کوشش کی مگر آواز نہیں نکلی۔ دہشت سے اسے دیکھتا رہا۔ اس نے کچھ دیر مجھے گھورا پھر زمین پر پڑی چھپکلیوں کو دیکھنے لگی۔ پھر آگے بڑھ کر ان کے قریب بیٹھ گئی اور الٹی ہوئی قاب سیدھی کرکے چھپکلیاں چن چن کر اس میں رکھنے لگی۔ میں سکتے کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے کام میں منہمک تھی اور میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں۔ پھر میں نے محسوس کیا جیسے وہ اونگھ رہی ہے۔ بار بار اس کے سر کو جھٹکے لگ رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد وہ وہیں فرش پر سیدھی سیدھی لیٹ گئی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے وہ بے ہوش ہوگئی ہو۔ اس کے چہرے میں بھی تبدیلیاں رونما ہونے لگی تھیں اور وہ اپنی اصلی صورت میں واپس آگئی تھی۔ میرے اعصاب بھی آہستہ آہستہ سنبھلنے لگے اور میں اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش میں کامیاب ہوگیا۔ اسے چھوڑ کر بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔ میری بیوی تھی، میرے بچوں کی ماں تھی۔ صرف اپنی ہی زندگی بچانا تو مقصود نہیں تھا۔ وہ جس عذاب میں گرفتار ہوئی تھی، اسے بھی دیکھنا تھا۔ قریب پہنچا۔ اب اس کی صورت بالکل ٹھیک ہوگئی تھی، سانس چل رہی تھی اور اطراف میں پڑی ہوئی مردہ چھپکلیاں بڑا گھنائونا منظر پیش کررہی تھیں لیکن میں نے اسے نظر انداز کردیا اور زیب النساء کی گردن اور پائوں میں ہاتھ ڈال کر اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن مجھے پسینہ آگیا۔ حالانکہ وہ ایک نرم و نازک جسم کی مالک، پھول جیسے وزن والی عورت تھی لیکن اس وقت یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا بدن ٹھوس پتھر سے تراشا گیا ہو۔ میں اسے جنبش بھی نہ دے پایا۔ میری دہشت اور خوف انتہا کو پہنچا ہوا تھا کہ دفعتاً ہی زیب النساء نے آنکھیں کھول دیں۔ میرا جسم اس کے جسم سے بالکل قریب تھا اور میرا چہرہ اس کے چہرے کے سامنے! جونہی اس کی آنکھیں کھلیں، ہونٹ بھی اوپر اٹھ گئے اور لمبے لمبے دانت باہر جھانکنے لگے۔ اس نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر مجھے دبوچنے کی کوشش کی اور میں نے بندر کی طرح الٹی چھلانگ لگا دی۔ اس کے بعد میرا اس کمرے میں رکنا ممکن نہ رہا۔ ساری محبت، سارے جذبات اپنی جگہ لیکن جو منظر تھا، وہ ایسا ہولناک تھا کہ میں ہی کیا، کوئی بھی ہوتا وہاں نہ ٹک سکتا تھا۔ دوڑتا ہوا بچوں کے کمرے میں آیا اور دروازہ کھول کر اندر گھس گیا۔ اس کے بعد دروازہ ہی اندر سے بند کرلیا تھا۔ میرا دل سینے سے نکلا جارہا تھا۔ جو بپتا مجھ پر پڑی تھی، وہ ایسی تھی کہ حال خراب سے خراب تر ہوگیا تھا۔ بچوں کے پاس بیٹھ گیا۔ ان کے جسموں پر ہاتھ رکھے اور یہ سوچنے لگا کہ یہ کیا مصیبت آگئی اور اب اس مصیبت سے چھٹکارہ کیسے ممکن ہے۔ یہ ساری باتیں، یہ ساری کہانیاں، جن بھوت، کالے علم، سفلی علوم! ان کے بارے میں سن تو رکھا تھا لیکن گزری پہلی ہی بار تھی حالانکہ اس آسیب زدہ باغ کی کہانیاں مجھے سنائی گئی تھیں لیکن میں نے تو شاید سنجیدگی سے کوئی بات سنی ہی نہیں تھی اور اب یہ سب کچھ میری نگاہوں کے سامنے آگیا تھا۔ بہت خوفناک تھا یہ سب! چلیں ٹھیکہ جہنم میں جائے۔ جو رقم پھنس گئی ہے، وہ بھی غرق ہوجائے۔ مجھے اس کا افسوس نہیں ہوتا لیکن میرا گھر، میری بیوی، میرے بچے اس مصیبت سے کیسے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔ قرب و جوار میں لوگ رہتے تھے۔ اگر کسی کو صورتحال بتاتا تو پتا نہیں لوگوں پر کیا اثرات ہوتے۔ تاہم کچھ نہ کچھ کرنا ہی تھا۔ بڑی مشکل سے ہمت کی۔ سوتے ہوئے بچوں کو جگایا، ساتھ لیا اور کمرے سے باہر نکل آیا لیکن سامنے ہی زیب النساء نظر آگئی۔ عجیب اداس اداس سی کھڑی تھی۔ بالکل مناسب حالت میں، مناسب کیفیت میں۔ میں نے خوف بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔ اس نے بوجھل لہجے میں بچوں کے نام لے کر انہیں پکارا اور دونوں بچے اس کے پاس پہنچ گئے۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور تعجب سے بولی۔ ’’آپ… آپ کب آئے، آگئے آپ…؟‘‘
’’ہیں… ہاں…!‘‘ میں نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ اس کے پوچھنے کے انداز میں بالکل مصنوعی پن نہیں تھا۔ صورتحال پر غور کرنے لگا۔ زیب النساء بچوں کے ساتھ میرے قریب آگئی اور بولی۔ ’’خیریت تو ہے؟ رنگ پیلا پڑ رہا ہے آپ کا… کیا ہوگیا تھا آپ کو…؟ کیا بات ہے، جلدی کیسے آگئے۔‘‘
’’تمہاری وجہ سے زیب النساء! تمہاری وجہ سے۔ تم کہاں تھی اور کیا کررہی تھیں؟‘‘
’’بس! دوپہر کا کھانا کھایا، بچوں کو سلایا اور خود بھی اپنے کمرے میں آکر سو گئی۔ گہری نیند آگئی تھی۔ کچھ آوازیں سنیں تو آنکھ کھل گئی۔ باہر آکر دیکھا تو آپ تھے۔‘‘
’’ہوں… ہاں…! میں جلدی آگیا۔‘‘ میں نے نجانے کس طرح اپنے دل و دماغ پر قابو پا کر کہا۔ جو کچھ مجھ پر بیت چکی تھی، وہ تو ایک الگ کہانی تھی لیکن اگر زیب النساء کو ساری کہانی سنا دیتا تو اس کا تو خوف کے مارے دم ہی نکل جاتا۔ اس کا مطلب ہے کہ جو کچھ اس پر بیتی ہے، وہ اس کے علم میں بالکل نہیں ہے۔ خاموشی ہی مناسب سمجھی۔ بعد میں زیب النساء کی کیفیت خاصی بہتر رہی اور اس طرح رات ہوگئی۔ بچوں کو آج ہم نے اپنے کمرے میں ہی سلا لیا تھا۔ زیب النساء نے اس کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا۔
بس یونہی! پچھلی رات والے واقعہ سے میں بھی کافی متاثر ہوگیا ہوں۔ ویسے جو کام میں کررہا ہوں، وہ بھی کچھ دن کے لئے رک گیا ہے۔ میرا خیال ہے اب چند روز تک میں جائوں گا نہیں۔‘‘ زیب النساء میری مزاج شناس تھی۔ بیوی تھی، طویل عرصے کی رفاقت تھی۔ مجھے دیکھتے ہوئے بولی۔
’’کوئی بات ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں… کوئی خاص بات نہیں ہے زیب النساء! بس رات کے واقعہ کے بارے میں سوچتا رہا۔ آخر وہ سب کیا تھا۔ اس کے بعد تمہیں تو کوئی احساس نہیں ہوا؟‘‘
’’نہیں! کوئی خاص بات نہیں لیکن بس دماغ گم گم سا رہا۔ ایسا محسوس ہوتا رہا ہے دن بھر جیسے پورے وجود پر کوئی بوجھ طاری رہا ہے۔ ایسا انوکھا بوجھ جسے میں کوئی معنی نہیں دے سکتی۔‘‘
میں اس کی بات سن کر خاموش ہوگیا تھا لیکن دل میں ہزاروں وسوسے جنم لے رہے تھے۔ یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ مصیبت باقاعدہ مجھ سے منسلک ہوگئی ہے اور چونکہ ان واقعات کا اس سے پہلے کوئی اندازہ نہیں تھا اس لیے یہ بھی نہیں سمجھ میں آرہا تھا کہ ان سے چھٹکارہ کیسے حاصل ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سب کچھ خودبخود ہی ٹھیک ہوجائے لیکن ذہن پر جو بوجھ طاری تھا، وہ سونے میں رکاوٹ بن رہا تھا جبکہ تھوڑی دیر کے بعد زیب النساء سو گئی تھی۔ بچے پہلے ہی گہری نیند سو رہے تھے۔ میں پریشانی کے عالم میں بہت سی باتیں سوچتا رہا۔ ٹھیکے کا مسئلہ بھی درمیان میں تھا۔ جو وعدہ کیا تھا اس فارم ہائوس کو مکمل کرنے کا، اس میں رکاوٹ پیدا ہوگئی تھی۔ شہر سے مزدوروں کو تلاش کرنا اور وہاں تک لانا اور پھر اس کے بعد یہ بھی ہوسکتا تھا کہ یہ شہری مزدور بھی فرار ہوجائیں۔ کیا کروں؟ کیا ٹھیکہ کینسل کردوں لیکن ساٹھ، ستر ہزار روپے نقصان اٹھانا پڑے گا اور بھی بہت سے ایسے معاملات تھے جو اس ٹھیکے کو کینسل کرنے کی وجہ سے پیدا ہوسکتے تھے۔ انہی سوچوں میں گم تھا۔ رات کے تقریباً سوا دو بجے تھے۔ زیب النساء کو میں نے گہری نیند سوتے ہوئے دیکھا تھا لیکن اچانک ہی میں چونک پڑا۔ وہ اس طرح اٹھ کر بیٹھ گئی جیسے کسی نے اسے مشینی انداز میں اٹھا دیا ہو۔ منہ کھول کر اس سے کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ میں نے اسے دونوں ہاتھ سیدھے کئے، اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا اور جس چیز نے میری زبان بند کردی، وہ اس کا چہرہ تھا جو انگارے کی طرح روشن ہوکر چمکنے لگا تھا۔ آنکھیں بند تھیں، سر کے بال چھتری کی مانند کھڑے ہوگئے تھے۔ وہی کلبلاتے بال جیسے کچھ سانپ لہرا رہے ہوں۔ وہ آہستہ آہستہ ہاتھ سیدھے کئے ہوئے دروازے کی جانب بڑھنے لگی اور پھر میرے خوف میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب میں نے دیکھا کہ وہ ہاتھ ہلائے بغیر دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوگئی ہے یا پھر دروازہ جو اندر سے بند تھا، خودبخود کھل گیا۔
زیب النساء رات کی تاریکی میں کھلے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئی۔ میرا بدن کانپنے لگا، پورا جسم پسینے سے تر ہوگیا تھا۔ اعصاب کہہ رہے تھے کہ ہوش و حواس سے عاری ہوجائوں، گہری نیند سو جائوں تاکہ اس خوف سے نجات مل جائے لیکن بیوی تھی، آخر میرے بچوں کی ماں! پورا مستقبل میرے سامنے تھا۔ نجانے کونسی قوت نے مجھے بھی اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ میں آہستہ آہستہ دبے پائوں اٹھا اور دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ جھانک کر باہر دیکھا۔ زیب النساء آگے جارہی تھی۔ میرے مکان کا احاطہ بہت وسیع ہے اور اس کا آخری گوشہ کافی فاصلے پر ہے۔ آخری گوشے پر بھی میں نے ایک کمرہ بنا رکھا تھا جس میں کاٹھ کباڑ بھرا رہتا تھا۔ یہ کاٹھ کباڑ عموماً کنسٹرکشن کے سامان سے تعلق رکھتا تھا۔ زیب النساء کا رخ اسی کمرے کی جانب تھا۔ کمرے کے بالکل قریب ایک بڑ کا درخت تھا جس کا سایہ پورے کمرے پر رہتا تھا۔ زیب النساء بڑ کے اس درخت کے قریب پہنچ گئی اور پھر میں نے اسے درخت کی جڑ میں کچھ ٹٹولتے ہوئے دیکھا۔ ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ آگے بڑھ کر اس کے قریب پہنچ جائوں چنانچہ احاطے کی دیوار کا سہارا لیتا ہوا بالکل بلی جیسے قدموں سے چل کر اتنے قریب پہنچ گیا کہ وہاں سے اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے سکوں۔ وہ اسی طرح زمین کھود رہی تھی جیسے بلی اپنے پنجوں سے زمین کھودتی ہے۔ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی اور کچھ دیر کے بعد میں نے اس کے ہاتھ میں کوئی شے دیکھی۔ چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ ویسے بھی سامنے کے حصے پر ہمیشہ ایک طاقتور بلب روشن رہتا تھا۔ یہی میری ہمیشہ کی عادت تھی۔ ان دونوں روشنیوں میں نے جو منظر دیکھا، وہ دل کی حرکت بند کردینے کے لیے کافی تھا۔ بھلا اس مورتی کو میں کیسے نہ پہچانتا جسے میں خود مصیبت بنا کر اپنے ساتھ گھر لایا تھا۔ وہی مورتی تھی جو کارنس سے غائب ہوئی تھی۔ زیب النساء نے اسے درخت کی جڑ میں ایک اونچی جگہ پر رکھا پھر تقریباً چار فٹ پیچھے ہٹی اور گھٹنوں کے بل ہاتھ اسی طرح سیدھے کئے ہوئے بیٹھ گئی۔ اس کے بعد اس نے ایک عجیب و غریب عمل شروع کردیا۔ سامنے کے ہاتھ اس نے زمین پر ٹکائے اور خود اس کے ساتھ جھکتی چلی گئی۔ پھر سیدھی ہوئی اور پیچھے کی سمت جسم کو موڑنے لگی۔
اس کے بعد اسی انداز میں اس کی رفتار تیز ہونے لگی۔ وہ ہاتھ سیدھے کرکے سر نیچے جھکا کر زمین سے لگاتی اور پھر اسی طرح پیچھے ہوکر اپنا سر عقب میں زمین پر لگاتی۔ میں اسے اس عالم میں دیکھتا رہا۔ دل رو رہا تھا لیکن آگے بڑھنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔
زیب النساء کے اس انداز میں جنبش کرنے کی رفتار تیز ہونے لگی اور پھر اتنی تیز ہوئی کہ اس پر نگاہیں جمانا مشکل ہوگیا۔ میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہورہا تھا۔ وہ میری بیوی تھی۔ اس انداز میں جنبش کرنے سے اس کی ہڈیوں کی جو کیفیت ہوسکتی تھی، مجھے اس کا احساس تھا۔ فطرتاً نازک طبع تھی لیکن اس وقت، اس وقت…! اس وقت میں دونوں ہاتھ دل پر رکھے اسے دیکھتا رہا اور میری آنکھوں میں نمی پیدا ہوگئی۔ بڑے پریشان کن حالات تھے۔ تقریباً پندرہ منٹ تک زیب النساء وہی عمل دہراتی رہی اور اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کی رفتار مناسب ہوگئی۔ میں نے اسے مورتی کو اٹھا کر واپس اس کی جگہ رکھتے ہوئے دیکھا۔ پھر وہ اس کام سے فارغ ہوکر غالباً واپس پلٹی تو میں جلدی سے دوڑتا ہوا اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔ دل کی جو کیفیت ہورہی تھی، اس کا اندازہ بس خدا ہی کو تھا۔ کسی سے کیا کہہ سکتا تھا۔ بستر پر آکر لیٹ گیا مگر جسم جیسے ہوا میں اڑا جارہا تھا، دماغ قابو میں نہیں تھا۔ آہ…! کیا ہوگیا، یہ کیا ہوگیا زیب النساء کو، کچھ بتانا بیکار ہی تھا۔ وہ جس کیفیت میں تھی، اس سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ ایسے عالم میں وہ اپنے ہوش و حواس سے عاری ہوتی ہے لیکن دوسرے دن میں نے سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا۔ اس طرح تو وہ ہلاک ہوجائے گی اور میرے بچے ماں سے محروم ہوجائیں گے۔ کیا کروں، کسی سے کوئی مشورہ کروں، واقعات چونکہ ایسے انوکھے تھے کہ کسی کو بتاتے ہوئے بھی شرم آتی تھی۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے بلکہ بعض اوقات تو الزام لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ کوئی یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ میری بیوی مجھے ناپسند کرتی ہے اور اس نے یہ کھیل مجھ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے شروع کیا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں! بھلا کہنے والی زبان کو کون روک سکتا ہے۔ سانسی کے بہت سے علاقوں میں، میں نے ایسے بورڈ دیکھے تھے جن پر جادو ٹونوں اور سفلی علم کا توڑ کرنے کے دعوے تحریر تھے۔ ظاہر ہے میری معلومات اس سے زیادہ تو تھی نہیں چنانچہ میں نے ایسے لوگوں سے رجوع کرلیا۔ ایک صاحب ملے۔ کوئی سنیاسی باوا تھے جن کا تجربہ ستر سال تھا اور عمر چالیس سال…! بہرحال جو کچھ بھی تھا، انہی سے رجوع کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے کچھ رقم طلب کی اور یہ دیکھا کہ میرا مسئلہ کیا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک تجربہ کیا اور اس تجربے نے مجھے کافی متاثر کیا۔ پھر میں نے ساری صورتحال سنیاسی باوا کو بتائی اور انہوں نے اپنا حساب کتاب بنا کر بل میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ بل کی مجھے پروا نہیں تھی۔ میں نے ان سے یہ کہا کہ اگر وہ میری بیوی کو بالکل ٹھیک کردیں اور اسے مصیبت سے نکال دیں تو میں انہیں منہ مانگی رقم دوں گا۔ سنیاسی باوا میرے ساتھ میرے گھر آگئے۔ میں نے انہیں وہ درخت دکھایا جس کی جڑ میں وہ خوفناک مورتی دفن تھی۔ جو پہلے وہاں سے برآمد ہوئی اور اس کے بعد میرے گھر کے کارنس سے غائب ہوگئی۔ سنیاسی باوا نے عمل کے ذریعے اس مورتی کو باہر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ لکڑی کی ایک چھڑی سے انہوں نے درخت کی جڑ کے گرد ایک دائرہ قائم کردیا اور مجھ سے کچھ چیزیں طلب کرنے کے بعد مجھے واپس کردیا۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ چیزیں دینے کے بعد اپنے کمرے میں جاکر بند ہوجائوں اور اپنی بیوی پر نظر رکھوں۔
بچوں کو اسکول بھیج دیا تھا۔ بیوی کو ان صاحب کے بارے میں کوئی خاص بات نہیں بتائی تھی۔ بس یہ کہہ دیا تھا کہ میرے ایک شناسا ہیں جو کچھ عمل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ سنیاسی باوا نے حکم دیا تھا کہ انہیں ان کے کام میں مداخلت کرکے پریشان نہ کیا جائے۔ ایک گھنٹہ، دو گھنٹے پھر ڈھائی گھنٹے گزر گئے اور اس کے بعد میں برداشت نہ کرسکا اور باہر نکل آیا لیکن جیسے ہی صحن میں قدم رکھ کر درخت کی طرف دیکھا، ہوش و حواس رخصت ہوگئے۔ سنیاسی باوا بے ہوش پڑے ہوئے تھے اور ان کا پورا لباس دھجی دھجی ہورہا تھا۔ سر کے بال جگہ جگہ سے نچے ہوئے تھے، چہرے اور جسم کے مختلف حصوں میں خون کی لکیریں نظر آرہی تھیں۔ کئی جگہ بری طرح نیل پڑے ہوئے تھے۔ ایک آنکھ رخسار تک بالکل کالی پڑ چکی تھی۔ میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ جلدی سے پانی لے کر آیا اور سنیاسی باوا پر انڈیلنے لگا۔ میرے پیچھے ہی پیچھے زیب النساء بھی آگئی تھی۔ اس نے حیرانی سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ارے یہ کیا ہوگیا۔ یہ تو… یہ تو یوں لگتا ہے جیسے کسی سے لڑائی ہوگئی ہے ان کی…؟‘‘
’’ہاں! ایسا ہی لگتا ہے۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’یہ آپ کے ہی دوست ہیں نا جو آپ کے ساتھ آئے تھے؟‘‘ زیب النساء نے پوچھا۔
’’ہاں…!‘‘
’’مگر یہ یہاں کر کیا رہے تھے؟‘‘
’’خدا جانے…!‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں آپ…! آپ کو یہ معلوم نہیں کہ یہ یہاں درخت کے پاس بیٹھے ہوئے کیا کررہے تھے؟‘‘ زیب النساء حیرت سے بولی۔
میں نے گہری نگاہوں سے زیب النساء کو دیکھا۔ لیکن اس کے چہرے پر بالکل سادگی اور معصومیت تھی۔ وہ کہنے لگی۔ ’’آپ مجھے کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘
’’نہیں سوچ رہا ہوں کہ یہ واقعی ہوا کیا… ہوش ہی میں نہیں آرہا یہ تو؟‘‘ زیب النساء اور پانی لے آئی اور بمشکل تمام تھپڑ مار مار کر ہم نے سنیاسی باوا کو ہوش دلایا۔ وہ اٹھے، متوحش نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتے رہے۔ مجھ پر نظر پڑی، میری بیوی کو دیکھا اور اس کے بعد اس بری طرح بھاگے کہ اپنا ایک جوتا بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ دروازے سے ٹکرائے تھے، گرے تھے اور اٹھ کر پھر اسی طرح بھاگ لیے تھے۔ زیب النساء کو ہنسی آگئی۔
اس نے کہا۔ ’’یہ کوئی تماشا کرنے آئے تھے یہاں…؟‘‘
’’پتا نہیں۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔ اب یہ اندازہ ہورہا تھا کہ سنیاسی باوا کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے، اس نے ان کے ہوش درست کردیئے ہیں۔ آئے تو تھے رقم کمانے کے لیے لیکن مار کھا کر گئے ہیں۔ بس میرے دوست یہ ہے میری کہانی…! سانسی آگیا ہے اور میں اپنے گھر پہنچنے والا ہوں۔ اس تمام مصیبت کو مجھ پر نازل ہوئے خاصے دن گزر گئے ہیں۔ بہت سے لوگوں سے رجوع کرچکا ہوں، کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا کروں۔ جس مصیبت میں گرفتار ہوا ہوں، میں جانتا ہوں اور میرا جی جانتا ہے۔ وہاں باغ پر چند لوگوں کو اس سامان کی نگرانی پر رکھا ہوا ہے جو کافی قیمتی ہے اور وہاں موجود ہے۔ شمسو میرا ملازم ہے۔ ذہنی طور پر بالکل غیر حاضر رہتا ہوں۔ کبھی کبھی وہاں چلا جاتا ہوں۔ کالے جادو کے ماہروں، مولویوں اور عالموں کے لیے نجانے کہاں کہاں چکر لگا چکا ہوں۔ کیفیت وہی ہے۔ وہ راتوں کو اٹھتی ہے، درخت کی جڑ میں جاکر بیٹھ جاتی ہے اور عمل کرتی ہے۔ اب تو بچے بھی اس سے خوف زدہ رہنے لگے ہیں۔ مجھے خطرہ ہے کہ اگر یہ کیفیت زیادہ عرصے تک رہی تو کہیں بچوں کو کچھ نہ ہوجائے۔ جہاں تک تمہاری ملازمت کا تعلق ہے، یقین کرو میں خلوص دل سے تمہیں اپنے گھر رکھنے کے لیے تیار ہوں۔ جو مانگو گے دے دیا کروں گا، بچوں کا خیال رکھنا ہوگا، گھر کی چھوٹی موٹی ذمہ داریاں سنبھالنی ہوں گی لیکن اول تو راستہ بھی کاٹنا تھا۔ پھر تم نے مجھ سے خود ملازمت کی فرمائش کی ہے۔ چنانچہ تمہیں حقیقت حال سے آگاہ کرنا ضروری تھا تاکہ یہ نہ کہو کہ میں نے تمہیں دھوکے میں رکھا لیکن اس صورتحال میں فیصلہ کرنا تمہارا کام ہے کہ تم اس گھر میں ملازمت کرسکو گے یا نہیں۔‘‘
میں نے مسکراتے ہوئے گردن ہلائی اور کہا۔ ’’اگر آپ واقعی مجھے ملازم رکھنا چاہتے ہیں تو میں خلوص دل سے آپ کے گھر ہر طرح کی خدمت سرانجام دینے کے لیے حاضر ہوں۔‘‘ شاہد علی نے حیران نگاہوں سے مجھے دیکھا، دیکھتا رہا پھر ایک دم ہنس پڑا۔ دیر تک ہنستا رہا۔ جیپ آبادی میں داخل ہوگئی تھی۔
میں نے اس سے کہا۔ ’’آپ ہنس کیوں رہے ہیں شاہد صاحب! مجھے بتایئے؟‘‘
’’بس ہنس رہا ہوں یار! کسی بات پر، میرا خیال ہے تم نے میری کہانی کو صرف کہانی سمجھا ہے اور مجھے ایک کہانی گو، لیکن مجھے وہ سنیاسی باوا یاد آرہے ہیں جن کا تجربہ ستر سالہ تھا اور عمر چالیس سال! لیکن اس ستر سالہ تجربے نے انہیں بڑی مار کھلوائی۔ اگر تم بھی اس کہانی کو غلط سمجھ رہے ہو تو دیکھو سب کچھ تمہارے اپنے حساب میں ہوگا مجھ پر دھوکا دہی کا الزام مت لگانا۔‘‘
’’آپ مطمئن رہیں شاہد صاحب! ایسا بالکل نہیں ہوگا۔‘‘ میں نے کہا اور اس نے عجیب سے انداز میں گردن اور شانے ہلائے۔ پھر بولا۔ ’’اگر یہ بات ہے تو میرے لیے تو اس سے زیادہ خوشی کی اور کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ ایک ایسا شخص وہاں میرے ساتھ موجود ہو جو ان تمام حالات سے اچھی طرح واقف ہو۔‘‘ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تھوڑی دیر کے بعد جیپ ایک وسیع و عریض احاطے والے مکان کے سامنے کے حصے میں رک گئی۔ دروازہ عام مکانوں جیسا تھا لیکن اس کے پیچھے بڑا وسیع احاطہ تھا۔ جیپ کو کھڑا کردیا گیا اور اس کے بعد شاہد علی مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے دروازے پر پہنچ گیا۔ دستک دینے پر دروازہ زیب النساء نے ہی کھولا تھا۔ میں نے ایک نگاہ اس کے چہرے کو دیکھا۔ نرم اور دلکش خدوخال کی مالک خاتون تھیں۔ چہرہ بالکل زرد پڑ رہا تھا، آنکھوں کے گرد حلقے چھائے ہوئے تھے، لباس بھی سلیقے سے پہنا ہوا تھا، سر پر دوپٹہ بھی اوڑھے ہوئے تھیں۔ مجھے دیکھ کر جھجکیں تو شاہد علی نے کہا۔
’’نہیں زیب النساء ان سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا تعارف اندر چل کر کرائوں گا۔ آئو مسعود اندر آجائو۔‘‘ میں خاموشی سے اندر داخل ہوگیا۔ زیب النساء چند قدم آگے چل رہی تھی۔ احاطہ عبور کرکے ہم سامنے والے چھوٹے سے برآمدے میں پہنچ گئے۔ یہاں چارپائیاں اور مونڈھے بچھے ہوئے تھے۔
شاہد
علی نے کہا۔ ’’آئو ابھی یہیں بیٹھتے ہیں۔ بھئی زیب النساء آج تو تم ہمارے مہمان کی خاطر کرو پھر ہمارے یہ مہمان تمہاری خدمت کریں گے۔‘‘ بات پتا نہیں زیب النساء کی سمجھ میں آئی تھی یا نہیں لیکن وہ خاموشی سے اندر چلی گئی اور میں نے شاہد علی کی طرف دیکھا۔
’’اب سے چند روز پہلے اس کا رنگ سرخ و سفید تھا۔ چہرہ گلاب کی مانند کھلا ہوا رہتا تھا لیکن جو کچھ ہوگیا ہے، بس کیا بتائوں۔ دیکھو مسعود! ایک بار پھر کھلے دل سے کہہ رہا ہوں کہ تمہاری یہاں آمد میرے لیے بہت ہی خوشی کا باعث ہے لیکن ان حالات کی ذمہ داری تمہیں خود قبول کرنا ہوگی۔ وہ دیکھو سامنے وہ کاٹھ کباڑ والا کمرہ ہے اور اس کے برابر جو درخت نظر آرہا ہے، اس کی جڑ میں وہ مورتی پوشیدہ ہے۔‘‘
میں نے گردن ہلائی، کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر کے بعد زیب النساء چائے اور اس کے ساتھ کچھ بسکٹ وغیرہ لے کر آگئی تھی اور میں شاہد علی کے ساتھ چائے پینے میں مصروف ہوگیا تھا۔ شاہد علی باہمت انسان تھا۔ جن حالات سے گزرا تھا۔ وہ سخت پریشان کن تھے۔ اس کے باوجود وہ ہنس بول رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس دوران اسے کتنے دلچسپ تجربات ہوئے ہیں۔ جن بھوت اتارنے والے، سفلی عمل کا توڑ کرنے والے اور نہ جانے کون کون سے اور انہوں نے نہ جانے کیا کیا کیا۔ اس نے مجھ سے بھی چند باتیں پوچھیں اور میں نے محتاط جواب دے دیئے۔ اس کے بچے بھی ملے۔ پھول جیسے تھے مگر سہمے سہمے… رات ہوگئی۔ اس نے بتایا کہ گھر کے عقبی حصے میں ایک کمرہ ہے جسے میرے لیے درست کردیا جائے گا۔ آج رات اندر کسی بھی کمرے میں گزارہ کرلوں۔
’’اگر میں یہیں، اسی برآمدے میں سو جائوں تو کوئی حرج ہے؟ یہاں یہ چارپائی موجود ہے۔‘‘
’’یہاں برآمدے میں…؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’بالکل حرج نہیں ہے مگر تمہیں الجھن نہیں ہوگی۔‘‘ وہ لفظ خوف استعمال نہیں کرسکا تھا۔
’’نہیں! میں یہاں خوش رہوں گا۔‘‘
’’تمہاری مرضی ہے۔ مجھے تو اور ڈھارس ہوجائے گی۔‘‘ چارپائی پر دری، چادر بچھا دی گئی۔ تکیہ رکھ دیا گیا۔ اس دوران کئی بار زیب النساء سامنے آئی تھی۔ ایک پاکیزہ چہرہ تھا اور آنکھوں میں شرافت اور حیا نظر آتی تھی۔ کوئی جنبش مشکوک نہیں تھی۔
رات کے کھانے کے بعد کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں پھر شاہدعلی اندر چلا گیا اور میں چارپائی پر دراز ہوگیا۔ مکمل خاموشی چھا گئی۔ دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ نہ جانے کیا کیا خیالات دل میں آتے رہے کہ جانے کتنی رات ہوگئی۔ پھر اچانک میں چونک پڑا۔ اندر کا بند دروازہ کھلا اور میں نے زیب النساء کو باہر نکلتے ہوئے دیکھا۔ شب خوابی کے لباس میں تھی۔ چہرہ الائو کی طرح دہک رہا تھا، زبان باہر نکلی ہوئی تھی، چلنے کا انداز بے حد بھیانک تھا۔ میری طرف رخ کئے بغیر وہ آگے بڑھ گئی۔ ابھی میں اسے دیکھ رہا تھا کہ دروازے سے کوئی اور باہر نکلا۔ شاہد علی کے سوا کون ہوسکتا تھا۔ اسے دیکھ کر میں چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دوسرے لمحے وہ میری طرف لپکا اور میرے پاس آگیا۔ بری طرح کانپ رہا تھا۔ کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن آواز ہچکیوں کی شکل میں نکل رہی تھی۔
’’حوصلہ رکھو… حوصلہ رکھو۔ بیٹھ جائو۔‘‘ میں نے اس کا بازو پکڑ کر اسے بٹھا دیا۔ وہ انگلی سے زیب النساء کی طرف اشارہ کرنے لگا۔ مجھے اس کے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔
’’ہاں! میں نے دیکھ لیا ہے۔ تم آرام سے بیٹھو، میں اسے قریب سے دیکھتا ہوں۔‘‘میں وہاں سے آگے بڑھا۔ اس وقت دل میں کوئی احساس، کوئی خیال نہیں تھا بس ہمت تھی۔ احاطہ طے کرکے زیب النساء کے عقب میں پہنچ گیا۔ وہ زمین کھود رہی تھی۔ پھر اس نے مورتی نکال لی، اسے سامنے رکھا اور اس کے سامنے دو زانو ہوگئی۔ میں نے اس مورتی کا حجم بڑھتے ہوئے دیکھا۔ پھر وہ ایک انسانی جسم کے برابر ہوگئی مگر اس کی نگاہ مجھ پر تھی۔ ایک نہایت مکروہ شکل ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ اس نے بھاری لہجے میں کہا۔
’’یہ کسے ساتھ لے آئی ہے تو…؟‘‘ زیب النساء نے گردن گھمائی، میں کھڑا تھا مگر وہ حواس میں کہاں تھی۔ ’’کاہے آیا ہے مورکھ! موت گھیرن لا گے رہے گا۔‘‘
’’کون ہے تو…؟‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’اٹھ ری ہمارے سامنے سے! ہم ای کا بتائیں کہ ہم کون ہیں۔ سسروا لونا چماری کے کنٹھ کو نا جانے۔ اٹھ جرا ای کا بتائی ہے۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ زیب النساء سامنے سے سرک گئی تھی۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھا کر سامنے کیا اور دفعتاً اس کی انگلیاں لمبی ہونے لگیں۔ لمبی اور لچکدار…! ان کے سرے سانپوں کے منہ بن گئے جن کی زبانیں لہرا رہی تھیں۔ یہ لمبے سانپ میری طرف بڑھ رہے تھے مگر پھر اچانک اس کے حلق سے چیخ کی سی آواز نکلی، انگلیاں غائب ہوگئیں۔ اس کا بازو کندھے کے پاس سے کٹ گیا تھا اور اس سے خون کا فوارہ بلند ہوگیا تھا۔ اس نے حیرت سے اپنے بازو کو دیکھا۔ پھر قہقہہ لگا کر بولا۔ ’’تو ای بات رہے۔ ٹھیک ہے رہے۔ بات مکابلے کی رہے تو مکابلہ ہوئی ہے پر تیری بیڑ کا رہے ہمکا بتائی دے؟‘‘
مجھے علم نہیں تھا کہ اس کا بازو کیسے کٹا لیکن اپنے قرب و جوار میں بے شمار سرسراہٹیں میں بخوبی سن رہا تھا اور ان کے بارے میں اندازہ بھی ہوچکا تھا کہ وہ کون ہیں۔ میرے ایک سو اکہتر بیر۔ البتہ شاید وہ بدروح ان کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔ اس نے اپنا دوسرا ہاتھ کٹے ہوئے بازو پر رکھا اور خون کی سیاہ دھار بند ہوگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے دوسرا بازو برآمد ہوگیا۔ اس نے دونوں بازوئوں کو جنبش دی اور انہیں عجیب انداز میں لہرانے لگا۔ دفعتاً فضا میں پروں کی پھڑپھڑاہٹ بلند ہوئی اور پھر لاتعداد پرندے غوطہ لگا کر میرے سر پر پہنچ گئے۔ ان کی چونچیں لمبی اور آنکھیں سرخ تھیں۔ عین ممکن تھا کہ وہ مجھے نوچ کر پھینک دیتے لیکن اچانک پٹ، پٹ کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور وہ فضا میں پھٹنے لگے۔ ان کے خون کے چھینٹوں سے زمین کا یہ حصہ، میں اور زیب النساء سرخ ہوگئے۔ پرندے گھبرا کر اونچے اٹھنے لگے اور لونا چماری کے خادم نے غرائی ہوئی آواز میں پکارا۔
’’بھیروں…!‘‘ اسی وقت میرے سامنے زمین پر سیاہ رنگ کا ایک ریچھ جیسا انسان برآمد ہوگیا۔ اس کا چہرہ گول اور بہت خوفناک تھا۔ شکل کسی بن مانس سے ملتی جلتی تھی۔ پہلے وہ چاروں ہاتھ، پائوں سے چلتا ہوا اس شخص کے پاس پہنچا اور اس کے پیروں سے چہرہ ملنے لگا۔ پھر سیدھا کھڑا ہوگیا۔ ’’ارے دیکھ اسی حرام کھور کا۔ کون رہے اے۔‘‘
’’پورنا ہے دھیر مکٹ پورنا ہے۔ کاہے مرنے جائو ہو۔‘‘ بھیانک ریچھ کے حلق سے انسانی آواز ابھری۔
’’ہیں۔ کا۔ ارے کا…؟‘‘ خبیث روح کی آواز بلند ہوئی۔ اس کے چہرے پر خوف نظر آنے لگا۔
’’کوڑی بیروں کا مقابلہ کرو گے دھیر مکٹ…؟‘‘
’’نا رے نا! بھول ہوگئی۔ جے پورن بھگت! ہمیں کا معلوم تھا کہ… کہ…! اری اٹھ انجائی کھڑی ہوجا۔ اری اٹھ!‘‘ یہ الفاظ اس نے زیب النساء سے کہے تھے۔
زیب النساء کھڑی ہوگئی۔ ’’ہم جات ہیں پورنا! اب کبھو نہ آئی ہے رے۔ ہمکا پتا نہ رہے جات ہے پورنا!‘‘ وہ جھکا اور سجدے کی سی کیفیت میں آگیا۔ پھر اس کا اور اس کے طلب کئے ہوئے بھیروں کا بدن وہیں تحلیل ہوگیا۔ میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ جو کچھ کیا تھا، بھوریا چرن کے بیروں نے کیا تھا۔ البتہ کام ہوگیا تھا۔ میں نے زیب النساء سے کچھ نہ کہا اور خاموشی سے واپس اپنی جگہ آگیا مگر یہاں ایک اور مشکل انتظار کررہی تھی۔ شاہد علی صاحب نے یقیناً یہ مناظر دیکھے ہوں گے چنانچہ اس کے نتیجے میں وہ اوندھے ہوگئے تھے۔ اس کے پائوں چارپائی پر تھے اور خود وہ زمین پر لٹک رہے تھے۔ بڑی مشکل سے انہیں سیدھا کیا۔ پیچھے پیچھے زیب النساء وہاں آگئی۔
’’ارے انہیں کیا ہوا…؟‘‘ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ پریشان نظر آرہی تھی۔ میں نے شاہد علی کو سیدھا لٹاتے ہوئے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ بس! ایسے ہی ٹہلنے کے لیے باہر نکل آئے تھے۔ سو گئے ہیں شاید۔‘‘
’’اس طرح غافل ہوکر سوتے ہیں۔ جگائو انہیں، اندر پہنچا دو۔‘‘ وہ حضرت جاگتے تو کیا، بڑی مشکل سے انہیں اندر پہنچایا گیا۔ میرے باہر نکلنے کے بعد زیب النساء نے دروازہ بند کرلیا تھا۔ میں برآمدے میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔ نگاہیں اس درخت کی طرف اٹھی ہوئی تھیں جہاں تھوڑی دیر قبل ایک معرکہ ہوچکا تھا مگر میں نے کیا کیا، بلکہ جو کچھ ہوا، میرے نام پر ہوا۔ اس میں بھی بھوریا چرن کا ہاتھ ہے۔ سامنے ہی کچھ نظر آیا اور میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ لمبے لمبے ہاتھ، پائوں والی بھیانک مکڑی تھی جس کا رخ میری طرف تھا۔ چارپائی کے نزدیک آکر وہ رکی۔ اگلے ہاتھ اوپر اٹھائے، پچھلے پیروں سے کھڑی ہوگئی۔ پھر اس کا قد بڑھتا چلا گیا۔ آج میں نے ایک خاص بات پر غور کیا۔ بھوریا چرن انسان نما مکڑا تھا۔ صرف اضافی پائوں اس میں اور مکڑی میں تفریق کرتے تھے ورنہ شکل و صورت، جسمانی ہیئت سب مکڑی جیسی تھی۔ وہ میرے سامنے کھڑا مجھے گھورتا رہا پھر وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔
’’تجھ سے دو باتیں ہوجائیں۔ بول کرے گا۔‘‘
’’کیوں نہیں بھوریا چرن!‘‘ میں نے بے خوفی سے کہا۔
’’تیرا ہمار کیا رشتہ ہے؟‘‘
’’نفرت کا۔ نظریات کا۔ دین، دھرم سے اختلاف کا!‘‘
’’ہمارا کوئی دین، دھرم کہاں ہے رے۔ ماتا، پتا کا دھرم ہوگا۔ پیدا ہوئے تو نام بھوریا رکھ دیا۔ کسی مسلّے کے گھر پیدا ہوتے تو تیرا جیسا کوئی نام ہوتا۔ اصل نام تو ہوش آنے کے بعد ملتا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے…؟‘‘
’’کرموں سے۔ کرم ہی سارے راستے بتاتے ہیں۔ ہم نے گیتا پڑھی، رامائن پڑھی پھر برہمنوں کو دیکھا۔ خوب غور سے دیکھا۔ پنڈت کتھائوں کا پاٹ کرتے ہیں، نرکھ اور سورگ دکھاتے ہیں۔ اپنے سورگ انہوں نے اپنے گھروں میں بنا رکھے ہیں۔ میں نے ان کے سورگ دیکھے، ان سے سبق لیا۔ جب کرم نرکھ اور سورگ بناتے ہیں تو وہ ایسے کیوں نہ ہوں جن کا نتیجہ فوراً ملے۔ ہمارے لیے مرن یگ اور، اپنے لیے سارا جیون سورگ ہی سورگ! سو ہم نے بھی اپنا سورگ تلاش کرلیا۔ کالا جادو سیکھا۔ جس طرح ایک پتی ہزار پتی بن کر لکھ پتی بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ پھر کروڑ پتی اور ارب پتی بن کر اس کا من چاہتا ہے کہ اب وہ سارے سنسار کا پتی ہو، اسی طرح طاقت کے ہر کھیل میں ہوتا ہے۔ میں نے بھی سارے کھیل کھیلے، شنکھا تک بنا اور پھر کھنڈولا بن کر مہان شکتی حاصل کرنا چاہی مگر دھوکا کھا گیا۔ تجھے پرکھ لینا چاہئے تھا مجھے۔ دیکھ لینا چاہئے تھا کہ تو اندر سے کیا ہے۔ تو اوپر سے تو ٹھیک تھا۔ میرے کام کا تھا مگر اندر سے دوسرا نکلا۔ میں مارا گیا مگر تو آج بھی اتنا ہی بائولا ہے۔ ارے پاپی! اس سنسار میں صرف طاقت کھیل رہی ہے۔ آنکھ کھول کر دیکھ! جو شکتی مان ہے، اس نے اپنی سورگ دھرتی پر اتار لی ہے۔ اس میں عیش کررہا ہے اور تو! اتنی بڑی شکتی لے کر نوکریاں کرتا پھر رہا ہے۔ تو نے دیکھا وہ لونا کا بھیروں تجھے دیکھ کر دم دبا کر بھاگ گیا۔ پورنیوں کے بیروں نے اسے چک گھنی بنا کر بھگا دیا۔ یہ تیری اپنی شکتی ہے۔ ابھی تو تو نے اس کے چمتکار ہی نہیں دیکھے۔ اسے استعمال کرے گا تو آنکھیں کھل جائیں گی۔ میں نے تیرے لیے بڑا کام کیا ہے کہ اگر تو خود کرتا تو تیرا آدھا جیون لگ جاتا۔ بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے مگر تجھے پکی پکائی مل گئی، اس لیے قدر نہیں کررہا۔ میں تجھ سے ایک بار پھر بات کرنے آیا ہوں۔‘‘
’’وہ کیا بھوریا…؟‘‘
’’ایک نیا کھیل کھیل لے تو… تیری آتما شانت ہوجائے گی۔‘‘
’’کیا کھیل ہوگا وہ…؟‘‘
’’تو پورنا بن گیا ہے، میرے ساتھ رہ کر جاپ کر … شنکھا میں تجھے بنا دوں گا پھر تو کھنڈولا بن جا۔ جب کھنڈولا بن جائے تو کھنڈولا شکتی مجھے دان کردینا۔ جیسے میں نے تجھے پورنا شکتی دی۔ میں کھنڈولا بن جائوں گا تو شنکھا رہ جائے گا۔ میرا چیلا بن کر ساتھ رہنا۔ ہم دونوں مل کر سنسار کو ٹیڑھا کردیں گے۔ دیکھ بالکا… اب تو تیتر ہے، نہ بٹیر۔ اپنے دھرم سے نکالا جا چکا ہے اور پورن لاگ تیرے شریر میں رینگ رہا ہے۔ جب تک یہ پورن لاگ تیرے شریر میں ہے، اپنے دھرم سے تو تیرے سارے ناتے ٹوٹ گئے مگر یہ شکتی ابھی تیری ہے۔ اندرسبھا کی سات پورنیاں تیری داسیاں ہیں۔ بائولے! وہ سات کنواریاں ہیں جو تیرے ساتھ اپنی سہاگ پوجا کا انتظار کررہی ہیں۔ تیری اور تک رہی ہیں اور تو انہیں بھول کر اس چارپائی پر پڑا ہوا ہے۔ تجھے ایک آسانی ہے۔‘‘
’’وہ کیا…؟‘‘
’’ابھی تو مسلمان بنا ہوا ہے، بنا رہ، کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو تجھ پر شک نہ ہوگا جس طرح دھرم ہوا کرتا ہے، کرتا رہ، کوئی نہیں سوچے گا تو شنکھا ہے اور جب تو کسی مسلمان لڑکے سے کہے گا کہ وہ تیرا اتنا سا کام کردے کہ تیرے پتلے کو کسی مزار تک پہنچا دے تو وہ تجھے مسلمان سمجھ کر انکار نہ کرے گا۔ تو کھنڈولا بن جائے گا اور میں تجھے بتائوں گا کہ تو اپنی شکتی مجھے کیسے دے سکتا ہے۔‘‘
میں بھوریا چرن کو دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا۔ ’’تو قابل رحم ہے بھوریا چرن۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’تیری زندگی بھی اسی کوشش میں گزر گئی۔‘‘
’’ہاں! مجھے بڑا گھاٹا ہوا ہے۔‘‘
’’جو قوتیں تجھے حاصل ہیں بھوریا! تو انہی میں خوش کیوں نہیں رہتا۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وجہ ہے اس کی۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’بتادوں تجھے؟‘‘
’’بتانے میں کوئی حرج ہے؟‘‘
’’حرج تو بہت بڑا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’تو کھنڈولا شکتی مجھے کبھی نہ دے گا۔‘‘
’’کھنڈولا شکتی میرے پاس کہاں ہے، میں وہ جاپ کبھی نہیں کرسکوں گا کہ میں شنکھا بن جائوں کیونکہ… کیونکہ میرا دل ایک مسلمان کا دل ہے۔‘‘ میں نے آہ بھر کر کہا۔
’’ہاں! یہیں تو مار کھائی ہے میں نے… تیرا دل ہی تو قبضے میں نہیں آیا۔ تو اگر تیار ہوجائے تو تیرے سارے جاپ میں کروں تیرے لیے اور تجھے شنکھا شکتی دے دوں۔ مگر اس کے بعد تجھے ہی سب کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
’’تو وجہ بتا رہا تھا بھوریا چرن۔‘‘
’’دل سے تو مسلمان ہے نا؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اپنے دھرم کی سوگند کھا سکتا ہے کہ اگر اس شرط پر تو کھنڈولا بن جائے تو وہ شکتی اپنے قبضے میں نہیں رکھے گا، مجھے دے دے گا!‘‘
’’میری قسم پر تو یقین کرلے گا؟‘‘
’’ہاں! کرلوں گا۔‘‘
’’جب میں اپنے دین ہی سے ہٹ جائوں گا تو وہ قسم میرے لیے بے معنی ہوجائے گی۔‘‘
’’تو بائولا ہے۔ اگر نہ ہوتا تو… تو… سن بائولے! کھنڈولا امر ہوتا ہے۔ وہ اپنا شریر بدل سکتا ہے۔ جب اس کے بدن کی طاقت ختم ہونے لگتی ہے تو وہ اپنی پسند کا کوئی بھی شریر تلاش کرسکتا ہے۔ اپنی آتما اس شریر کو دے کر دوبارہ جی سکتا ہے۔ اس طرح اسے صدیوں کا جیون مل جاتا ہے۔ یہ ہے کھنڈولا شکتی جو نہ شنکھا میں ہے اور نہ کسی اور کالی شکتی میں! تجھے ایک بات اور بتائوں؟‘‘
’’ضرور بتا۔‘‘
’’مذاق اڑا رہا ہے میرا…؟‘‘
’’نہیں… تو بتا۔‘‘
’’پورنا شکتی سے تو اپنے ماتا، پتا کو پا سکتا ہے۔ تیرے بیر تجھے ان کے پاس لے جاسکتے ہیں، انہیں تیرے پاس لا سکتے ہیں مگر …تجھے اس کے لیے ایک کام کرنا ہوگا۔ میں نے تجھے پورنا بناتے ہوئے یہ نکتہ اپنے پاس رکھا تھا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے بے چین ہوکر پوچھا۔
’’پاگل سمجھتا ہے مجھے۔ اس بیچ بڑا وقت خرچ کیا ہے میں نے تجھ پر! ایسے ہی میں نے تجھے پورنا بھگت نہیں بنا لیا۔ اپنے ماتا، پتا کے سوا سنسار میں کچھ نہیں مانتا۔ اپنوں کی کوئی آرزو تیرے من میں نہیں ہے اور میں نے تیری اس بات پر خاص نگاہ رکھی ہے۔ پورنا شکتی میں یہ تھوڑا میں نے اپنے پاس رکھا ہے۔ بیروں کو بلا کر دیکھ لے۔ ان سے پوچھ لے، سارے کام کردیں گے تیرے، یہ نہ کر پائیں گے۔ اس کے لیے تجھے ایک جاپ کرنا ہوگا اور وہ شکتی تجھے اس سے ملے گی۔‘‘
’’وہ جاپ کیا ہے؟‘‘
’’بتا دوں گا تجھے! بتا دوں گا پہلے اور بہت سی باتیں ہیں۔ ویسے سب تیرے کام کی ہیں۔ جاپ تجھے وہ طاقت دے دے گا کہ تو اپنے ماتا، پتا کو اپنے پاس بلا لے یا خود ان کے پاس پہنچ جا۔ ان کے سامنے تو مسعود احمد ہی بنے رہنا۔ بہن کی شادی ایسے کرنا جیسے کسی راج کماری کی شادی ہوتی ہے۔ ماتا، پتا کو راج کرا دینا۔ سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہوگا اور جب تیرا یہ کام ہوجائے تو پھر تو میرا کام کردینا۔ بول راضی ہے؟‘‘
’’وہ جاپ کیا ہوگا؟‘‘
’’ایسے نہیں بالک…! پہلے ہاں یا نہ میں جواب دے۔ کہیں تو مٹھی میں آ ہماری، تیری بھی تو کوئی کل رہے ہمارے ہاتھ میں…! اسی کل کو گھماتے رہے ہیں ابھی تک تو نے ہمارے پھیر میں پڑ کر اپنے دھرم کی شکتی حاصل کرلی تھی اور آگے بڑھتا چلا جارہا تھا۔ تیرے ماما کا چکر دے کر ہم نے بڑی مشکل سے تیری وہ شکتی توڑی اور تجھ سے تیرے من کی شانتی چھیننے کے لیے تجھے اتنی بڑی شکتی دان کی۔ کچھ تو ہمارے ہاتھ رہنے دے۔‘‘
’’اگر تو مجھے یہ بتا دے کہ مجھے یہ جاپ کیسے کرنا ہوگا تو میں تجھے جواب دے سکتا ہوں۔‘‘
’’بتا بھی دیں تجھے تو اکیلے کچھ نہ کرسکے گا۔ ہماری ضرورت تو رہے گی تجھے! اچھا سن ایک پائل کی کھوپڑی حاصل کرنا ہوگی۔ تجھے اس کھوپڑی پر جاپ کرنا پڑے گا۔‘‘
’’پائل کی کھوپڑی…؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’وہ لوگ جو ماں کے پیٹ سے پیروں کے بل پیدا ہوتے ہیں، پائل کہلاتے ہیں۔‘‘
’’انسان…؟‘‘ میں نے کہا۔
’’تو اور کیا بلی، کتے…‘‘ وہ ہنس پڑا۔
’’یہ کھوپڑی مجھے کہاں سے ملے گی؟‘‘
’’سنسار میں ہزاروں پائل مل جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کی کھوپڑی کاٹنی ہوگی۔ پائل میں تجھے تلاش کردوں گا۔‘‘
مجھے چکر آگیا۔ کسی انسان کا خون! اس کی کھوپڑی کاٹنی ہوگی اور… اور…! ذہن میں ایک چھناکا سا ہوا۔ اس کے بعد مجھے میرے ماں، باپ ملیں گے۔ بالکل ہی بے دین ہوکر…! سخت غصہ آگیا۔ دیوانوں کی طرح اٹھا اور ایک زور دار لات بھوریا چرن کو رسید کردی۔ وہ بے خبر بیٹھا تھا، اچھل کر دور جا گرا۔ خاصی چوٹ لگی تھی اسے! میں آگے بڑھا تو وہ اچھل کر سیدھا ہوگیا۔ اس نے خونی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر اچانک اس کے گال پھول گئے۔ وہ سانسیں کھینچنے لگا اور اس کے بدن میں غبارے کی طرح ہوا بھرنے لگی۔ اس کی آنکھیں غضبناک ہوتی جارہی تھیں مگر اس وقت میرے بیر ظاہر ہونے لگے۔ لنگڑے لولے، ٹوٹے پھوٹے…! وہ روتے پیٹتے میرے گرد اکٹھے ہوگئے۔ ان کے بین کرنے کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔
’’شما کردے شنکھا! معاف کردے شنکھا…! اسے نقصان نہ پہنچا۔ ہم سب ختم ہوجائیں گے۔ ہم تیری پھلواری ہیں شنکھا…! ہمیں نہ اجاڑ۔‘‘ سب دہائی دے رہے تھے، رو پیٹ رہے تھے اور کان پڑی آواز نہ سنائی دے رہی تھی۔
عجیب منظر تھا۔ بھوریا چرن اپنے بدن میں مسلسل ہوا بھر رہا تھا اور پھولتا چلا جا رہا تھا۔ اس کا قد بھی بلند ہوگیا تھا اور بدن کا پھیلائو بے پناہ ہوگیا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس طرح وہ کیا کرے گا مگر میرے بیروں کی سمجھ میں آ رہا تھا۔ وہ بُری طرح بے چین تھے۔ حلق پھاڑ پھاڑ کر رو رہے تھے۔ اِدھر سے اُدھر بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ کبھی زمین پر گرتے بھوریا چرن کے پیروں پر سر رگڑتے۔ پھر اُٹھ کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگتے۔
بھوریا چرن کا حجم اتنا بڑھ چکا تھا کہ اب وہ بہت بڑا گولا نظر آنے لگا تھا۔ کمبخت پھٹ ہی جائے تو اچھا ہے۔ دفعتاً میرے سارے بیر دھاڑتے ہوئے مجھ پر آ گرے۔ اتنی بڑی تعداد تھی کہ میں ان کے نیچے دَب کر رہ گیا۔ میرا دَم گھٹنے لگا ان کے جسموں سے سخت سڑاند اُٹھ رہی تھی۔ میں انہیں پرے دھکیلنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پوری فوج نے حملہ کیا تھا۔ انہیں ہٹانا ممکن نہیں ہوا اورمیرے حواس جواب دینے لگے۔ خاص طور سے ان کے جسموں سے اُٹھنے والی بدبو نے مجھ سے ہوش چھین لیے تھے۔ میں بے ہوش ہوگیا۔ ہوش آیا تو صبح ہو چکی تھی۔ اندر کا دروازہ بند تھا۔ اسی جگہ زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اُٹھا۔ پورا بدن دُکھ رہا تھا۔ رات کے سارے واقعات یاد آگئے پتہ نہیں کیا ہوا۔ وہ مردود کہاں گیا۔ بڑا عجیب لالچ دیا تھا اس نے۔ بڑی مشکل سے چلتا ہوا چارپائی تک آیا اور بیٹھ گیا۔ بھوریا چرن کی ساری باتیں یاد آ رہی تھیں۔ کیسا انوکھا تصور تھا۔ کمبخت دائمی زندگی چاہتا تھا۔ ناممکن ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا۔ کم از کم میرا دل تو نہیں تسلیم کرتا تھا۔ موت اور زندگی تو صرف ایک ہی طاقت کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے انسان کو بہت کچھ دے دیا ہے اور اسی بہت کچھ نے انسان کو حقیقتوں سے بہت دُور کر دیا ہے۔ کالا جادو ہو، پیلا جادو ہو یا سائنس کا جادو، ٹھیک ہے اس سے کچھ بھی کر لو مگر نمود، اور موت، یہ اس نے اپنے پاس محفوظ رکھے ہیں۔ جسے بھیجا جائے وہی آتا ہے اور جسے بلایا جائے اسے جانا پڑتا ہے۔ اگر دائمی زندگی ممکن ہوتی تو یہ افراسیاب اور سامری بھی سوئٹزرلینڈ یا سنگاپور میں عیش کر رہے ہوتے یا ان جیسے دُوسرے نمرود، شداد اور فرعون بھی۔ مگر سب غائب ہوگئے۔ جدید سائنس ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیش کرتی ہے۔ سائنس سے تو بہت کچھ ملا ہے۔ مگر دینے والے ہاتھ کوئی اور ہی ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ دربار خواجہ حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے ایک سوالی بیٹھا نعرے لگا رہا تھا۔ خواجہ دس ہزار چاہئیں۔ خواجہ دس ہزار ہی لوں گا۔ ایک پیسہ کم نہیں لوں گا۔ دس ہزار دے دے خواجہ…! ایک دولت مند آدمی نے اس سوالی کو دیکھا، سنا اور مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ واپسی میں اس نے پھر اسے وہی نعرہ لگاتے ہوئے سنا۔ ہنسا اور بولا۔ ’’توکب سے ایک ہی رَٹ لگائے ہوئے ہے۔ کیا تو احمق نہیں ہے۔ یہ رقم تجھے آخر ملے گی کہاں سے۔ مگر میں تجھے یہ رقم دے سکتا ہوں۔ لے اور بھاگ جا بلاوجہ یہاں سر کھپا رہا ہے۔‘‘ اس نے جیب سے دس ہزار نکال کر سوالی کو دے دیئے۔ اس نے رقم گنی جیب میں رکھی زور سے قہقہہ لگایا اور بولا۔
’’واہ خواجہ… خوب دلائی۔ بڑے موذی سے دِلائی…‘‘ اور بھاگ گیا۔ تو حیات دائمی ایک تصور تو ہو سکتا ہے چشمۂ حیواں اور آب حیات دلکش افسانے تو ہو سکتے ہیں مگر ان تک انسانی پہنچ ممکن نہیں۔ اور پھرکائنات کی تخلیق کا ایک ایک پہلو رمز رکھتا ہے۔ زندگی تو ایک روشن صبح ہے جدوجہد اور ضروری امور نمٹانے کے لیے اور موت دن بھر کی تھکن کے بعد سکون بخش اور تھکن اُتارنے والی رات۔ کوئی کب تک جاگتا رہے گا۔ آخر تھکے گا اور نیند کی خواہش کرے گا۔ نہ جانے یہ حیات دائمی کی ہوس کیوں جنم لیتی ہے۔
دروازے پر ہونے والی ہلکی سی آواز نے خیالات کا طلسم توڑ دیا دیکھا تو زیب النساء بیگم تھیں۔ جھانکا اور غڑاپ سے اندر ہوگئیں۔ کچھ دیر کے بعد دونوں میاں بیوی نمودار ہوئے۔ زیب النساء کے ہاتھوں میں ٹرے تھی جن سے تازہ کباب، پراٹھوں اور انڈے کی خوشبو اُڑ رہی تھی۔ بڑے احترام سے ناشتہ میرے سامنے رکھا گیا اور شاہد علی نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
’’حضور، مرشد۔ ناشتہ تناول فرما لیجئے؟‘‘
’’اے بھائی، اے بھائی، ہوش میں آ میرے بھائی، بے کار باتوں سے گریز کر، یہ کیا ہوگیا۔‘‘ میں نے شاہد علی کو دیکھتے ہوئے کہا، وہ نیچے جھکا اور اس نے میرے پائوں پکڑ لیے۔
’’پہچان نہیں سکا تھا مرشد، میری آنکھوں میں بھلا اتنی بینائی کہاں، معاف کر دیجئے، اگر کوئی گستاخی ہوئی ہے تو، آپ نے تو ہم پر احسان کر ڈالا…‘‘
’’دھت تیرے کی۔ اس کا مقصد ہے کہ یہاں سے بھی آب و دانہ اُٹھ گیا۔‘‘ میں نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
’’حضور مسعود شاہ صاحب ناشتہ کر لیجئے۔‘‘ اس بار زیب النساء نے کہا۔
’’آیا تو تھا آپ کی خدمت کرنے، اگر ذرا عزت مل جاتی تو آپ کو محبت سے بھابی کہنا شروع کر دیتا، لیکن یہاں بھی رزق راس نہیں آیا۔ میاں شاہد علی کوئی نوکری دو گے ہمیں، یا اپنا راستہ ناپیں۔‘‘
’’حضور کے قدموں کی برکت کو تاحیات حاصل کرنے کیلئے تیار ہوں، میری مجال کہ ایسے مرشد کامل کو نوکری دوں، حضور کہیں نہیں جانے دوںگا اب آپ کو، کہیں نہیں جانے دوں گا اور اگر آپ نے جانے کی بات کی تو سر پھوڑ لوں گا آپ کے سامنے، جان دے دوں گا۔ آپ نے جو احسان مجھ پر کر ڈالا، آہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس طرح سرِ راہ بھی کوئی مل جاتا ہے، حقیقت ہے کہ پہچاننے والی نگاہ ہونی چاہیے۔‘‘
’’تو تم نے مجھے پہچان لیا…؟‘‘
’’اب بھی نہ پہچانوں گا حضور، جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اس کے بعد بھی اندھا بنا رہوں، آپ کی شان میں گستاخی کروں۔‘‘
’’اچھا بھائی تمہاری مرضی، نوکری نہیں دو گے نا تم ہمیں؟‘‘
’’حضور کیا نوکری چاہتے ہیں اور پھر میری مجال کہ نوکری دوں۔ وہ بولا اور میں ہنس پڑا۔ یہی سب کچھ ہو رہا ہے، کہیں بھی میرا آب و دانہ نہیں ہے، اب یہ حضرت مجھے مرشد بنا بیٹھے ہیں، مرے پر سو دُرّے، یہاں بھی گناہوں کا بوجھ اُٹھائوں، مرشد کہلوائوں، ایک لمحے کے لیے تو جی چاہا کہ کوئی ہرج نہیں ہے، بیٹھ جائوں دھونی مار کر اور گزاروں عیش سے، اب یہ دُنیا اپنی پسند ہی سے کسی کو عزت دے سکتی ہے تو کیا کروں آخر، مجمع لگا لوں اپنے گرد، لوگوں کے مسائل حل کروں، کھائوں پیوں، عیش کروں، لیکن… لیکن کیا یہ بھی کوئی زندگی ہوگی۔ فریب اور جعلسازی، گندے علوم کا سہارا لے کر ان تمام لوگوں کی طرح پیٹ بھرنا، جو ایمان کو بیچ دیتے ہیں، نہیں ایسا نہیں کروں گا، اس کے لیے شاہد علی کا گھر ہی کیا ضروری ہے۔ یہ جو گندی رُوحیں میرے اردگرد بکھری ہوئی ہیں انہیں اشارہ کر دوں تو کیا سے کیا نہیں بنا دیں گی یہ، نہیں۔ ایسے نہیں جیوں گا، کچھ بھی ہو جائے، بھوریا چرن تو نے اپنے جیسی ہر کوشش کرلی، مگر جوتے ہی کھائے میرے ہاتھوں اور عزم ہے میرا کہ تیری دی ہوئی کسی شے کو کبھی قبول نہیں کروں گا اور تجھے جوتے ہی مارتا رہوں گا۔‘‘ کباب کی خوشبو ناک میں پہنچی تو بھوک چمک اُٹھی، میں نے مسکراتے ہوئے ناشتہ اپنے سامنے سرکا لیا اور کہا…
’’دیکھو بھائی شاہد علی تم مجھے ملازم بنا کر یہاں لائے تھے، دھرم ایمان سے میں یہی ہوں اور یہی بننا چاہتا ہوں، جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ صرف تمہارا اپنا معاملہ ہے، میں نے تم سے اس دھوکے میں کچھ نہیں طلب کیا، سمجھ رہے ہو نا میری بات۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ میں مرشد کامل ہوں، بزرگ ہوں، پیر ہوں، فقیر ہوں، اب بھی تم سے یہی الفاظ کہتا ہوں، ایک عام آدمی ہوں بھائی، دو روٹیوں کا دھندا دے دو مجھے، محنت کر کے کمائوں گا کھائوں گا اور خوش رہوں گا، یہ سب کچھ جو تم کر رہے ہو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے…‘‘
’’شاہ صاحب آپ ناشتہ تو کیجئے، ہماری خوش بختی ہوگی۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے اور یقینا تم لوگ میرے ساتھ ناشتے میں شریک نہیں ہو گے…‘‘
’’ہم یہ جرأت نہیں کر سکتے۔‘‘ زیب النساء نے ہاتھ جوڑ کر کہا اور میں ناشتے پر پل پڑا۔ کیا عمدہ ناشتہ ملا تھا طویل عرصے کے بعد، گھریلو قسم کا، خوب کھایا، ڈٹ کر کھایا اور پھر ہنستا ہوا بولا۔
’’آخر تم پر مصیبت کیا نازل ہوئی ہے…؟‘‘
’’شاہ صاحب کیا اب آپ یہ خوشخبری ہمیں نہیں دیں گے کہ وہ مصیبت ہم پر سے ٹل چکی ہے۔‘‘ شاہد علی نے کہا، اور میں کسی سوچ میں ڈُوب گیا۔ پھر میں نے آہستہ سے کہا۔
’’ہاں شاہد علی، میری چند باتیں گرہ سے باندھ لو، بالکل بے فکر ہو کر اب اپنے باغ میں کام شروع کرائو، جو مصیبت تھی وہ واقعی ٹل گئی ہے۔ وہ ایک گندی اور خبیث رُوح تھی جس نے تمہارے ہاتھوں نجات پائی۔ اب یہ پتہ نہیں کہ اسے وہاں قید کس نے کیا تھا لیکن آزادی اسے تمہارے ہی ہاتھوں ملی اور اس کے بعد وہ جو گندگی نہ پھیلاتی کم تھا لیکن بھاگ گئی اور اب وہ تمہاری جانب رُخ نہیں کرے گی۔ مزدوروں کو نئے سرے سے اکٹھا کرو، میرے خیال میں اب وہاں کوئی ایسا واقعہ رُونما نہیں ہوگا…‘‘
’’اور زیب النساء…؟‘‘
’’وہ بھی اس کے زیرِ اثر تھی، ظاہر ہے وہ تمہارے گھر تک پہنچ چکا تھا اور اسے کچھ نہ کھ کرنا ہی تھا اب نہیں آئے گا، اطمینان رکھو…‘‘
’’اور اس کے باوجود آپ یہ کہہ رہے ہیں حضور شاہ صاحب کہ میں آپ کی خدمت نہ کروں آپ کے لیے۔ آپ کے لیے…‘‘
’’بس بس اس سے آگے کی باتیں رہنے دو تو تمہاری بڑی مہربانی ہوگی ہم نے تو یہی سوچا تھا کہ یار چلو تھوڑے بہت عرصے یہاں کی نوکری میں زندگی گزار لو، مگر ہماری تقدیر میں ہی نہیں ہے…‘‘
’’یہ سب کچھ آپ کا ہے شاہ صاحب، آپ کی برکت رہے گی تو مجھے بھی دن دونی رات چوگنی ترقی ملے گی۔ میں خاموش ہوگیا۔ اب بھلا اس سے زیادہ کیا کہتا اس سے لیکن طے یہ کر لیا تھا کہ فوراً ہی یہاں سے نکل بھاگوں گا، میں ان ڈرامہ بازیوں میں نہیں پڑ سکتا تھا۔ چنانچہ یہی ہوا حالانکہ بعد میں بھی دونوں میاں بیوی نے مجھے آرام سے رہنے کی پیشکش کی، اندر بڑے اہتمام سے میرے لیے کمرہ سجایا، سب کچھ خاموش آنکھوں سے دیکھتا رہا اور اس کے بعد جیسے ہی شاہدعلی اپنی گاڑی لے کر باہر نکلا میں بھی پیچھے ہی پیچھے نکل آیا اور اس کے بعد میرے لیے یہ ضروری تھا کہ یہ بستی چھوڑ دوں، سفر کے لیے ظاہر ہے اور کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن پیدل چلتا رہا اور تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ایک چھوٹی سی پگڈنڈی سے ایک بس اُچھلتی کودتی آگے بڑھتی نظر آئی، میں نے ہاتھ کے اشارے سے روکا تو بس رُک گئی اور میں اس میں سوار ہوگیا۔‘‘
’’کہاں جارہی ہے یہ بس؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’تمہیں کہاں جانا ہے…؟‘‘
’’جہاں یہ بس جارہی ہے۔‘‘ میں نے بس کے کنڈکٹر کو جواب دیا۔
’’تو پھر نکالو ڈھائی روپیہ۔‘‘ اس نے ہاتھ پھیلا کر کہا۔ پیسے تھوڑے بہت میرے پاس موجود تھے، میں نے ڈھائی روپیہ نکال کر بس کنڈکٹر کو دے دیا اور جب اس نے مجھے ٹکٹ دیا تو مجھے پتہ چلا کہ بس کہاں جا رہی ہے۔ بس جلیسر جا رہی تھی۔ جلیسر کیا ہے، کون سی جگہ ہے، وہاں کی آبادی کتنی ہے، کتنا بڑا شہر ہے مجھے کچھ معلوم نہیں تھا لیکن کوئی ہرج بھی نہیں تھا۔ اب تو ساری دُنیا ہی وسیع ہے میرے سامنے، جلیسر تک کا سفر طے ہوا، راستہ کچا ہی تھا اور مزہ آ گیا تھا۔ سفر کرتے ہوئے بدن کی چولیں ہل گئی تھی۔ شام کو تقریباً ساڑھے سات بجے بس نے جلیسر پر اُتارا۔ اچھی خاصی آبادی تھی۔ ٹھیک ٹھاک ہی شہر تھا، میں نیچے اُتر کر احمقوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، نہ کوئی پتہ، نہ کوئی ٹھکانہ لیکن خدا کی زمین وسیع ہے بس جدھر منہ اُٹھا چلتا چلا گیا۔ اور پھر میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا۔ کھیتوں کی پگڈنڈیوں سے گزر گزر کر ایک ہی سمت جا رہے تھے، کچھ ایسا انداز تھا ان کا، جیسے کسی خاص جگہ جا رہے ہوں، چنانچہ میں پیچھے پیچھے چل پڑا اور تھوڑے ہی فاصلے کے بعد مجھے ایک جگمگاتی جگہ نظر آئی۔ یہ کوئی بہت بڑی عمارت تھی، جس میں خوب صورت گنبد بنے ہوئے تھے، وسیع و عریض احاطے میں پھیلی ہوئی تھی اور اس کے سامنے جو پتھر کی سل پر ایک کتبہ نظر آ رہا تھا جس پر کچھ اشعار کے ساتھ لکھا ہوا تھا۔‘‘
’’درگاہ سیّد ابراہیم شاہ صاحب۔‘‘ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، میں تو راندۂ درگاہ تھا، پتہ نہیں اس درگاہ کے احاطے میں مجھے جگہ ملے گی یا نہیں۔ لوگ جوق در جوق آگے بڑھ رہے تھے، ویسے کوئی باقاعدہ میلہ وغیرہ نہیں تھا۔ بس درگاہ کے اندر روشنیاں ہو رہی تھیں اور درگاہ شریف کے مجاور اِدھر سے اُدھر آ جارہے تھے۔ سیاہ رنگ کے لباسوں میں ملبوس، لمبے لمبے بالوں والے، میں ذرا فاصلے پر ہی رُک گیا۔ اطراف میں نیچی اُونچی جھاڑیاں اُبھری ہوئی تھیں اور ان جھاڑیوں کے آس پاس لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اندر مکمل خاموشی طاری تھی۔ بڑا وقار، بڑا جلال تھا درگاہ شریف کا… میرے دل سے دُعا نکلی کہ کسی بھی بزرگ کے طفیل میری مشکل حل ہو جائے… آہ میری مشکل حل ہو جائے۔
میں وہیں بیٹھا رہا، رات کو تقریباً گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تک لوگ درگاہ شریف میں آتے جاتے رہے، پھر درگاہ کے دروازے بند ہوگئے اور تمام لوگ واپس چلے گئے، بس احاطے کے دُوسری جانب مجاور نظر آرہے تھے، جو اپنے اپنے مشاغل میں مصروف تھے، میں جھاڑیوں کے پاس خاموش بیٹھا پیاسی نگاہوں سے درگاہ شریف کا کتبہ دیکھتا رہا اور میرے ذہن میں نجانے کیا کیا تصورات اُبھرتے رہے۔ درگاہ شریف کے بائیں حصے میں ایک چھوٹا سا دروازہ کھلا ہوا تھا جس سے کبھی کبھی کوئی باہر نکل آتا تھا اور کسی کام سے شہری آبادی کی جانب چل پڑتا تھا۔ میرے ذہن میں نجانے کیا سمائی۔ آہستہ آہستہ اُٹھا اور چھوٹے دروازے کی جانب چل پڑا، ابھی میں چھوٹے دروازے سے کوئی دو گز کے فاصلے پر تھا کہ دفعتاً مجھے سانپ کی پھنکار سنائی دی۔ میں چونک کر رُکا۔
چھوٹے دروازے کے عین سامنے طباق جیسے چوڑے پھن کا مالک بھنورے کی سی رنگت لیے خوب موٹے چمکدار جسم کا سانپ پھن پھیلائے کنڈلی مارے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی ننھی چمکدار آنکھوں میں نفرت کی سرخی جھلک رہی تھی۔ میرے قدم رُک گئے۔
’’راستہ بند ہے؟‘‘ میں نے پوچھا اور پھر گردن جھکائے وہاں سے پلٹ پڑا۔ یہ تو ہونا چاہئے تھا۔ اپنے گندے وجود کو میں اس پاک درگاہ میں کیسے لے جا سکتا تھا۔ میں تو غلاظت کی پوٹ تھا۔ بے دلی سے وہاں سے پلٹا اور ایک گھنے درخت کے نیچے جا بیٹھا۔ درخت کے موٹے تنے سے میں نے پشت لگا لی تھی۔ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا۔ دماغ میں سنسناہٹ ہو رہی تھی اپنی حالت زار پر رونا آ رہا تھا مگر اتنے آنسو بہہ چکے تھے کہ اب ان کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اچانک پتھر کا ایک ٹکڑا سینے پر آ کر لگا اور میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ کالے بھجنگ رنگ کا ایک لمبا تڑنگا آدمی میرے سامنے بے لباس کھڑا ہوا تھا۔ رات کی تاریکی کے باوجود اس کی آنکھیں گہری سرخ چمک رہی ہیں۔
’’تخت شاہی تیرے باپ کا ہے۔ ہماری سلطنت پر قبضہ جمانے کی فکر میں ہے بھولتو کہیں کا، ہٹ جا اِدھر سے نہیں تو کھوپڑی رنگین کر دوں گا۔‘‘ اس نے جھک کر دوسرا پتھر اُٹھا لیا۔
’’ہٹ جاتا ہوں، ہٹ جاتا ہوں۔ مگر کہاں جائوں۔ بتا تو دو۔‘‘
’’ابے ہٹ وہاں سے غلیظ ناپاک، تجھے تو میں ایسی جگہ پہنچائوں گا جہاں تیری نک چٹی ہو جائے پٹ پٹی کا ترنگا۔‘‘ میں درخت کے نیچے سے ہٹ گیا۔ وہ شخص میری جگہ جا بیٹھا اور اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ میں کچھ فاصلے پر کھلے آسمان تلے جا بیٹھا۔ چاروں طرف ہو کا عالم طاری تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ بدن دُکھ گیا۔ بیٹھے بیٹھے تو لیٹ گیا۔ آنکھیں بند ہوگئیں مگر نیند نہیں آئی تھی۔ اچانک قریب ہی سرسراہٹ سنائی دی اور میں نے چونک کر آنکھیں کھول دیں جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر دَم ہی نکل گیا۔ اس خوفناک شخص کا چہرہ دو فٹ کے فاصلے پر تھا۔ آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں، دفعتاً اس نے میرے منہ پر تھوک دیا اور پھر قہقہے لگاتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا۔ ایک بار پھر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ چہرے پر تھوک کی نمی تھی مگر میں نے اسے صاف نہیں کیا۔ یہ چہرہ اسی قابل ہے۔ میں نے دل میں سوچا رات نہ جانے کیسے گزری، پھر صبح ہوگئی، شاید سو گیا تھا۔ اُٹھ کر بیٹھ گیا چند لوگ میری طرف آ رہے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں کچھ تھا۔
’’کھانا کھائو گے میاں صاحب۔‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’ہاں، بھائی ہاں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’لو ہاتھ دھو لو۔‘‘ دُوسرے نے پانی سے بھرا لوٹا سامنے کر دیا۔ ہاتھ دھوئے۔ پوریاں، حلوہ اور ترکاری تھی۔ کھا کر خدا کا شکر ادا کیا۔ انہوں نے مجھے پانی پلایا اور پھر برتن اُٹھا کر چلے گئے۔ درگاہ کی طرف سناٹا تھا۔ کچھ اور وقت گزر گیا۔ دُھوپ چلچلانے لگی، درخت میرے سامنے تھا مگر دوبارہ اس کے نیچے جانے کی ہمت نہ کرسکا۔ پھر درگاہ کے عقبی حصے سے شور اُٹھا۔ بچوں کا شور تھا۔ میں نے دن کی روشنی میں اسی بے لباس شخص کو دیکھا۔ بے تحاشا دوڑتا آ رہا تھا۔ دس بارہ بچّے اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے اور پاگل ہے۔ پاگل ہے کا شور مچا رہے تھے۔ وہ اسے
پتھر بھی مار رہے تھے۔ دفعتاً وہ میرے قریب آ کر رُک گیا اس نے غور سے مجھے دیکھا پھر ہنس پڑا۔ بچّے کچھ فاصلے پر آ کھڑے ہوئے تھے اور شریر نظروں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ اس نے بچوں کی طرف دیکھا اور بولا۔
’’اسے بھی مارو… یہ بھی اپنا بھائی ہے، مارو۔ ہی ہی ہی۔‘‘بچوں نے میری طرف بھی پتھر اُچھالنے شروع کر دیئے۔ وہ ہنستا ہوا درخت کے تنے کے پیچھے جا چھپا تھا۔ کئی پتھر میرے بدن کے مختلف حصوں پر لگے اور ایک سر پر آنکھ کے بالکل قریب اور پیشانی پھٹ گئی۔ خون بھل بھل کر کے بہنے لگا اور میں نے زخم پر ہاتھ رکھ لیا۔ بچّے خون دیکھ کر ڈر گئے اور سب وہاں سے بھاگ گئے۔ میں پیشانی پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا۔ خون زمین پر گرتا رہا مگر دُوسری آنکھ سے میں نے کچھ اور بھی دیکھا۔ میرے خون میں زندگی تھی، ہاں میں نے اچھی طرح دیکھا تھا۔ خوب اچھی طرح۔ وہ ننھی ننھی مکڑیاں تھیں جو میرے خون میں کلبلا رہی تھیں اور خون سے نکل نکل کر اِدھر اُدھر رینگ رہی تھیں۔ مگر چند انچ چلنے کے بعد وہ چرمرا کر رہ جاتی تھیں۔ جب تک خون ہوا سے خشک نہ ہوگیا یہ تماشا جاری رہا۔ بچّے توغائب ہوگئے تھے مگر وہ درخت کے پیچھے موجود تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ درخت کے پیچھے سے نکل کر میرے پاس آ بیٹھا۔ اس نے دونوں ہاتھ پیچھے کئے ہوئے تھے۔ وہ سرگوشی کے عالم میں بولا۔
’’ایک سو اکہتّر کہاں گئے، ایں… ایک سو اکہتّر کہاں گئے۔ کچھ پتہ ہے ان کا…؟‘‘ میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ آنکھ پر رینگ کر آنے والا خون صاف کیا اور اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔ ’’ہاتھ دکھائوں اپنے، دیکھ۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھ سامنے کر دیئے۔ ان میں پتھر دبے ہوئے تھے۔ اس نے دونوں پتھر میرے سر پر دے مارے اور میرے حلق سے دل خراش چیخیں نکل گئیں۔ دو گہرے زخم اور لگے تھے اور ان سے خون اُبل رہا تھا۔ وہ اُٹھ کر بھاگ گیا۔ مجھے زور سے چکر آیا اور میں بے ہوش ہوگیا۔
اسپتال کے بستر پرہوش آیا تھا۔ سر پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ نرسیں آ جا رہی تھیں، کچھ دیر کے بعد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ اسپتال ہے۔ پھر ایک نرس نے گزرتے ہوئے مجھے ہوش میں دیکھا اور زور سے چیخی۔
’’سسٹر ملہوترہ۔ تیرا پیشنٹ ہوش میں آ گیا۔‘‘
’’میں ڈاکٹر کو بتا دوں۔‘‘ دُوسری آواز آئی۔ کچھ دیر کے بعد ایک نرس ہی آئی۔ اس نے پورا بازو کھول کر ایک انجکشن لگایا اور بولی۔
’’کیسی طبیعت ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہوں۔‘‘
’’تمہارے سر میں زخم کیسے لگے۔ کس نے مارا ہے؟‘‘
’’بچوں نے۔‘‘
’’کسی کی رپورٹ کرائو گے۔‘‘
’’نہیں سسٹر۔ وہ بچّے تھے۔‘‘
’’اوکے، میں ڈاکٹر کو بول دوں۔ تمہیں پولیس والے لائے تھے۔ وہ تمہارا بیان لینا چاہتے ہیں۔‘‘ پولیس والوں کو میں نے کوئی خاص بیان نہیں دیا ابھی تک میں ان سے خوفزدہ رہتا تھا۔ کچھ دیر کے بعد مجھے اسپتال سے رُخصت کر دیا گیا۔ چھوٹی چھوٹی گلیاں، چھوٹے بازار، چلتا رہا۔ درگاہ کے سامنے سے گزرا اور ایک آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔ یہاں میری جگہ نہیں تھی۔ میں ناپاک تھا کسی کا کیا قصور۔ مجھے خود اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ مارے مارے پھرنے کی عادت ہوگئی تھی۔ تانگے چل رہے تھے ، بسیں بھی نظر آ رہی تھیں مگر میں پیدل چل پڑا۔ کوئی کمزوری نہیں پیدا ہوئی تھی حالانکہ کافی خون بہا تھا۔ لباس پر بھی جمے ہوئے خون کے دھبّے نظر آ رہے تھے۔ اس راستے سے ہٹ گیا جس پر لوگ آتے جاتے نظر آ رہے تھے۔ بہت دُور نکل آیا ایک کھیت نظر آیا جس میں کچریاں بکثرت پڑی ہوئی تھیں۔ کھیت میں گھس کر بہت سی کچریاں اُٹھائیں اور کنارے بیٹھ کر کھانے لگا۔ پیٹ کا جہنم سرد کرنے کے بعد وہاں سے بھی آگے بڑھ گیا۔ جنگل بیابان، درخت اُڑتے ہوئے پرندے، دوڑتے ہوئے ہرن۔ کہیں کہیں چھوٹے درندے بھی نظر آ جاتے تھے۔ وہ بھی کوئی درندہ ہی تھا۔ زمین کے سوراخ سے نکلا تھا۔ مجھ سے دس گز کے فاصلے پر رُک کر غرّانے لگا۔ اس کی آنکھوں میں بھوک تھی۔ پھر اس نے وحشیانہ انداز میں مجھ پر چھلانگ لگائی لیکن دوبارہ زمین پر نہ آ سکا۔ فضا میں ہی اس کی چندھیاں بکھر گئی تھیں۔ خون اور ہڈیوں کا ملغوبہ زمین پر آ رہا۔ پھر وہی خاموشی… یہ منظر دُوسری بار نگاہوں میں آیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ درندے کو ہلاک کرنے والا کون ہے۔ مگر ایک تیز ٹیس کے ساتھ ایک اور احساس ذہن میں جاگا تھا۔ وہاںدرگاہ شریف کے پاس یہ پلید نہ آ سکے تھے۔ اس شخص کو پتھر مارنے سے نہ روک سکے تھے اور… اور… اس نے کہا تھا کہ ’’ایک سو اکہتّر کہاں گئے۔ کچھ پتہ ہے ان کا۔‘‘ ظاہر ہے یہ گندے اس جگہ نہ جا سکے تھے۔ ورنہ جس طرح بھی سہی انہوں نے بھوریا چرن تک سے مجھے بچایا تھا۔ اس خیال نے ذہن میں نہ جانے کیا کیا خیالات پیدا کر دیئے بعد کے سفر میں میں انہیں محسوس کرتا رہا۔ پھر دو دن اور دو راتوں کے بعد ایک بہت بڑا شہر نظر آیا۔ پتہ چلا کہ اس کا نام ہاتھرس ہے۔ یہاں کچھ وقت گزارا اور پھر ریل میں بیٹھ گیا کچھ عجیب سی کیفیت ہوگئی تھی۔ ہر عمل سے رغبت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ خاموش رہنے کو جی چاہتا تھا۔ جس ڈبے میں بیٹھا ہوا تھا اس میں ایک ہندو خاندان بھی سفر کر رہا تھا۔ ایک فربہ جسم کا مالک معمر شخص ایک معمر خاتون دو نوجوان لڑکیاں، ایک نوجوان لڑکا۔ دو ملازم قسم کے لوگ۔ معمر شخص نے کئی بار مجھے دیکھا تھا لیکن کچھ بولا نہیں تھا۔ البتہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ مجھے دیکھنے لگتا تھا۔ پھر ٹکٹ چیکر آ گیا۔
’’میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے بھائی۔‘‘ میں نے اسے جواب دیا۔
’’کوئی بات نہیں، اگلے اسٹیشن پر پولیس موجود ہے۔‘‘ ٹکٹ چیکر نے بھی اطمینان سے کہا۔
’’ارے ارے، کیسی باتیں کرتے ہو بھائی، آدمی آدمی کو دیکھنا چاہئے، لو کتنے پیسے بنتے ہیں تمہارے، ٹکٹ مجھ سے لے لو۔‘‘ اسی معمر شخص نے کہا اور جیب سے نوٹ نکال کر ٹکٹ چیکر کو دے دیئے، ٹکٹ چیکر نے مجھ سے پوچھا۔
’’کہاں جائو گے…؟‘‘ میں نے گھبرا کر معمر شخص کو دیکھا تو معمر شخص نے جلدی سے کہا۔
’’دِلّی…‘‘ اور اس کے بعد ٹکٹ چیکر میرا ٹکٹ بنا کر چلا گیا۔ میں شکرگزار نگاہوں سے معمر شخص کو دیکھنے لگا، وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور میرے قریب آ بیٹھا،کہنے لگا۔
’’بہت دیر سے تمہیں دیکھ رہا تھا سوامی مہاراج، ایسی جانی پہچانی صورت لگ رہی تھی کہ بتا نہیں سکتا، پھر یاد آیا کہ میں نے تمہیں کہاں دیکھا تھا۔‘‘ میں سوالیہ نگاہوں سے اس شخص کو دیکھنے لگا، وہ بولا…‘‘
’’ڈاکٹر بھلّا جی کو جانتے ہو نا…؟‘‘ میں نے یاد کیا تو ڈاکٹر بھلّا مجھے یاد آ گیا۔ وہ شخص جس نے اس لڑکی کو مردہ قرار دے دیا تھا جو بعد میں ٹھیک ہوگئی تھی۔ میں نے گردن ہلائی تو معمر شخص مسکرا کر بولا۔
’’بھلّا میرا جوائی ہے۔ میری بیٹی بیاہی ہے اس سے اور ان دنوں میں بھی وہیں موجود تھا جب تم نے ایک لڑکی کے زندہ ہونے کی بات کی تھی اور وہ زندہ ہوگئی تھی۔ بھلّا نے مجھے پوری کہانی سنائی تو میں نے اس سے کہا کہ بھائی ذرا مجھے بھی اس مہان پُرش کی صورت دکھا دے، سو اس نے دُور ہی سے مجھے تمہیں دکھایا تھا۔ کیا تم اس بات سے انکار کرو گے کہ تم وہ نہیں ہو…؟‘‘
میں آہستہ سے ہنس دیا پھر میں نے کہا۔ ’’آپ کا نام کیا ہے مہاراج…؟‘‘
’’اوم پرکاش۔‘‘ اس شخص نے جواب دیا۔
’’آپ نے صرف اتنی سی بات پر میرا ٹکٹ بنوا لیا۔‘‘
’’اس کا ذکر مت کرو، بھلا مجھے یہ بات معلوم نہیں ہے کیا کہ اتنا بڑا کام کرنے کے بعد بھی تم نے فقیروں کی طرح ان لوگوں کی دولت ٹھکرا دی، میری مراد فقیروں سے یہ ہے کہ وہ فقیر جو کسی کی دولت پر نگاہ نہیں کرتے، ہاتھ پھیلانے والے فقیروں کی بات نہیں کر رہا میں…‘‘
’’دولت۔‘‘ میں نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’ہاں مہاراج میں جانتا ہوں، بھلا آپ جیسوں کے لیے یہ کاغذ کے ٹکڑے کیا حیثیت رکھتے ہیں، بھگوان نے آپ کو دُوسری ہی شکتی دی ہے، ویسے میں نے آپ کا دلّی کا ٹکٹ بنوا لیا ہے، آپ کو کہیں اور تو نہیں جانا…؟‘‘
’’نہیں! بس یہی کہہ سکتا ہوں پرکاش جی مہاراج کہ دُنیا سچ مچ ہی گول ہے، دلّی بھی آ چکا ہوں ارے اب پھر دلّی جا رہا ہوں۔ چلیں ٹھیک ہے، تقدیر جہاں لے جائے، وہی جگہ غنیمت ہے۔‘‘
’’گویا آپ دلّی نہیں جا رہے تھے، پھر کہاں جانے کا ارادہ تھا؟‘‘
’’آپ سے جھوٹ نہیں بول رہا، بس ریل میں بیٹھ گیا تھا۔ سوچا تھا کہ جدھر ریل جائے گی، چلا جائوں گا۔‘‘ اوم پرکاش جی ہنس پڑے۔ پھر بولے… ’’تو پھر ایسا کریں کاشی جی چلیں، بڑی بڑھیا جگہ ہے، میں اپنے اس چھوٹے سے خاندان کے ساتھ کاشی ہی جا رہا ہوں، وہاں تھوڑے دن رہوں گا اور اس کے بعد واپس چلا آئوں گا، میرا اصلی گھر آگرے میں ہے۔‘‘
’’آپ کا بہت بہت شکریہ، میں آپ کے ساتھ جا کر کیا کروں گا۔‘‘
’’آپ کی مرضی ہے، دیکھ لیں کاشی جی بھی اگر کوئی خاص کام نہیں ہے تو، سنسار کو دیکھنا چاہئے۔‘‘ اوم پرکاش جی بولے۔
’’اوم پرکاش جی آپ کو پتہ ہے کہ میرے پاس ریل کا ٹکٹ لینے کے لیے پیسے نہیں تھے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے ساتھ گھومنے پھرنے چلوں؟‘‘
’’دیکھو مہاراج، نام کیا ہے آپ کا، خیر نام کچھ بھی ہو بات یہ ہے کہ ہر چیز پیسے ہی سے تعلق نہیں رکھتی۔ اس وقت مجھے آپ سے عقیدت ہو گئی تھی، مگر وقت ہی نہیں مل سکا، کہا تو تھا میں نے اپنے داماد سے کہ مجھے ملا بھی دو۔ مگر اس نے بتایا کہ آپ کسی اور کام سے جا رہے ہیں۔ میری خوشی ہوگی کہ اگر آپ میرے ساتھ بنارس چلیں۔‘‘ میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا پھر آہستہ سے کہا۔
’’بھلّا جی نے آپ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ میرا دھرم کیا ہے۔‘‘
’’بتایا تھا، کہا تھا آپ مسلمان ہیں؟‘‘
’’اوہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو معلوم ہے مگر اس کے باوجود آپ مجھے اپنی مقدس یاترا پر لے جا رہے ہیں۔‘‘ اوم پرکاش کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، انہوں نے کہا۔
’’میں نے آٹھ سال لندن میں پڑھ کر گزارے ہیں۔ تین سال تک ذاتی طور پر ریسرچ کرتا رہا ہوں۔ دین دھرم کے بارے میں بس ایک ہی بات پتہ چلی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’سارے دھرم انسان پر انسان کے حق کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ جو سب سے بڑا ہے کسی انسان سے کچھ نہیں مانگتا، نہ اسے ضرورت ہے۔ دھرم کے ساتھ اگر صورتیں الگ الگ ہو جاتیں تو ہم مان لیتے کہ سارے دھرم الگ الگ ہیں۔ مگر صورتیں تو ایک جیسی ہیں پھر بات کیا ہے تم بھی اپنے پیدا کرنے والے کو پکارتے ہو۔ اسے پیار سے اللہ کہتے ہو، ہم اسے بھگوان کہہ کر بلا لیتے ہیں۔ اسے بُرا تو نہ لگتا ہوگا۔‘‘
’’میرا نام مسعود احمد ہے … اوم پرکاش جی۔‘‘
’’تو پھر چل رہے ہو کاشی ہمارے ساتھ۔‘‘
’’آپ سے اتنا متاثر ہوا ہوں کہ ضرور چلوں گا۔‘‘
’’کوئی بھی سوگند لے لو۔ ہم نے یہی سوچا تھا کہ وہ جو سنسار کے لیے جیتے ہیں کسی جگہ کے نہیں ہوتے ان کے لیے تو سارا سنسار ایک جیسا ہے، تمہارے ساتھ سے ہمیں خوشی ہوئی۔‘‘
میں خاموش ہوگیا۔ اوم پرکاش جی بڑے گیانی تھے۔ بہت اچھی باتیں کرتے تھے انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ایک بات کہوں مسعود جی۔‘‘
’’جی!‘‘
’’تمہارے بارے میں ان میں سے کسی کو نہیں بتائوں گا، ان سب کے بارے میں تمہیں بتا دوں۔ وہ میری دھرم پتنی ہیں۔ اوم پرکاش نے مجھے سب کے بارے میں بتایا پھر بولے۔ ’’اگر میں انہیں بتا دوں کہ تم کون ہو تو جینا حرام کر دیں گی تمہارا۔ کیونکہ انہیں میں نے اس لڑکی کی کہانی سنا دی تھی اور یہ بہت متاثر ہوئی تھیں۔ خاص طور سے ہماری دھرم پتنی۔‘‘
’’جی…!‘‘ میں ہنس کر بولا۔
دلّی آ گئی یہاں سے دُوسری ٹرین پکڑنا تھی مگر اوم پرکاش جی کے ایک دوست یہاں ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ وہ اس خاندان کو ساتھ لے گئے۔ مجھے انہوں نے حیرت سے دیکھا تھا کیونکہ میرا حلیہ کسی معزز انسان کا سا نہیں تھا اور خود مجھے اس کا احساس تھا۔
’’یہ سادھو سنت آدمی ہیں۔ ان کے حلیے پر نہ جانا مادھولال۔‘‘ اوم پرکاش نے کہا۔
’’اوہ۔ سادھو!‘‘ مادھولال نے کہا اور خاموش ہوگیا۔ بنیاقسم کا آدمی تھا شاطر اور چالاک۔ اس کے گھر دو دن رُکے۔ یہاں سے آگے جانے کا بندوبست کرنا تھا۔ گھر جا کر جب اطمینان سے بیٹھنے کا موقع ملا تو مادھولال نے کہا۔
’’سنت جی مہاراج۔ آپ اتنی چھوٹی سی عمر میں سنت کیسے بن گئے؟‘‘ اوم پرکاش نے چونک کر اسے دیکھا اور میرے بجائے خود بول پڑے۔
’’عمر کا گیان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
’’ہے!‘‘ مادھولال پُرزور لہجے میں بولا۔
’’تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’صرف ایک بات۔ ان دنوں گلی کوچوں میں سادھو ہی سادھو نظر آتے ہیں۔ گیروا کپڑے پہنے، ہاتھ میں کمنڈل پکڑا اور خود کو سادھو کہلانا شروع کر دیا۔ ایسے ناکارہ نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ دھرم کا مذاق اُڑانے والی بات ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جس کے پاس گیان شکتی ہوتی ہے اسے ہی سنت کہلانے کا حق ہوتا ہے۔‘‘
’’مگر میں نے تو گیروا کپڑے نہیں پہنے مادھولال جی۔ کمنڈل بھی میرے پاس نہیں ہے۔‘‘
’’آ جائے گا کچھ عرصے بعد۔‘‘
’’آپ گیان شکتی کسے کہتے ہیں؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کوئی چمتکار دکھائیں مہاراج۔ کچھ تو دیا ہوگا آپ کو تیاگ نے۔‘‘ مادھولال نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
اوم پرکاش جی نے بے چین ہو کر کہا۔ ’’تم کچھ غلط باتیں نہیں کر رہے مادھولال؟‘‘
’’چرن چھو کر معافی مانگ لوں گا سنت مہاراج سے مگر جاننا چاہتا ہوں انہیں کتنا گیان ملا ہے۔ کوئی چمتکار دکھایئے مہاراج۔‘‘ رات کا وقت تھا اور ہم لوگ اس وقت مادھولال جی کی حویلی کی چھت پر بیٹھے ہوئے تھے اور یہ چھت بہت بڑی تھی۔ مجھے بھی نہ جانے کیا سوجھی، دراصل ان باتوں میں مزا آ رہا تھا اور کچھ دیر کے لیے دل بہل گیا تھا۔
’’بیکار باتیں مت کرو مادھولال تم میرے…!‘‘
’’آپ خود بتایئے مادھولال جی۔ کیا چمتکار دیکھنا چاہتے ہیں آپ؟‘‘ میں نے اوم پرکاش کی بات کاٹ کر کہا۔
’’کوئی بھی۔ کچھ بھی۔‘‘
’’آپ کی مرضی‘‘ میں نے کہا اور پھر پہلی بار میں نے اپنے بیروں کو پکار کر کہا۔ ’’سنو، سامنے نہ آنا ورنہ مادھولال جی مر جائیں گے۔ یہ میرے میزبان ہیں بہت بڑے ساہوکار ہیں یہ، اور پھر مجھے ان سے بڑی عقیدت ہے میں ان پر عقیدت کے پھول نچھاور کرنا چاہتا ہوں۔ اتنے پھول برسائو ان پر کہ مادھو لال جی پھول جیسی چیز سے پریشان ہو جائیں، آیئے اوم پرکاش جی ہم ذرا پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔‘‘ میں نے اوم پرکاش کا ہاتھ پکڑ کر انہیں پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔ میں جانتا تھا کہ وہی ہو گا جو میں نے کہا ہے، اور میرے منہ سے ان الفاظ کو نکلے ہوئے کچھ لمحات ہی گزرے تھے کہ دفعتاً فضا سے پھولوں کی بارش شروع ہوگئی۔ طرح طرح کے پھول، موتیا، گلاب، گیندا اور نجانے کیا کیا۔ یہ پھول ہزاروں کی تعداد میں مادھولال جی پر آ آ کر گر رہے تھے اور مادھولال جی پریشان ہو کر کھڑے ہوگئے تھے۔ حویلی کی وسیع و عریض چھت کا گوشہ گوشہ پھولوں سے لدتا چلا جا رہا تھا۔
مادھولال جی کے منہ سے ارے ارے ارے… کی آوازیں نکل رہی تھیں اور وہ بے وقوفوں کی طرح ادھر گردن گھما رہے تھے، پھول برستے رہے، صرف وہ جگہ خالی رہ گئی تھی جدھر میں اور اوم پرکاش جی کھڑے ہوئے تھے۔ ورنہ حویلی کی ساری چھت پر منوں پھولوں کے انبار لگتے جا رہے تھے، مادھولال جی آدھے بدن سے پھولوں سے ڈھک گئے، تو انہوں نے ہاتھ اُٹھا کر کچھ کہنا چاہا، لیکن حلق سے آواز ہی نہیں نکل پا رہی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے، خود اوم پرکاش جی پر سکتہ طاری تھا دفعتاً مادھولال نے گھبرا کر کہا۔
’’ارے بھائی رُکو تو سہی، میں پھولوں میں دَب کر مر جائوں گا، ارے رُکو، ارے رُکو۔‘‘ لیکن رُکنے والے جانتے تھے کہ کس کے حکم پر رُکنا ہے، بھلا وہ کیوں رُکتے، پھول مادھولال جی کے شانوں تک پہنچ گئے تو میں نے ہی دونوں ہاتھ اُٹھائے اور کہا۔
’’بس کرو، ورنہ مادھولال جی کی سمادھی انہی پھولوں میں بن جائے گی۔ بہت بڑے ساہوکار ہیں یہ، بہت بڑے آدمی ہیں اب ایسا کرو، ہماری طرف سے انہیں کچھ بھینٹ دے دو۔ سونا، چاندی بس یہی چیزیں انسان کو زیادہ پسند ہوتی ہیں۔‘‘ میرے بیروں کو پہلی بار مجھ سے کوئی حکم ملا تھا، سو تھال کے تھال پھولوں پر آ کر سجنے لگے اور اوم پرکاش جی نے آنکھیں بند کرلیں ان سے دیکھا نہیں جارہا تھا۔ مادھولال جی کے چاروں طرف ان تمام اشیاء کے انبار لگ گئے۔ میں نے سوچا کہ کہیں ان چیزوں کو دیکھ کر ان کا دَم ہی نہ نکل جائے چنانچہ ہنس کر ہاتھ اُٹھائے اور کہا۔ ’’بس کرو۔ بس کرو۔ اگر پھولوں کی طرح ان کی چھت سونے چاندی سے بھی بھر گئی تو حویلی ہی بیٹھ جائے گی، بس جائو تمہاری چھٹی۔‘‘ اور سونے چاندی کی آمد بند ہوگئی۔ اوم پرکاش جی نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں اور یہ سب کچھ دیکھا۔ مادھولال پتھرائے ہوئے کھڑے تھے، میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ہمارے دو دن کے قیام کا یہ معاوضہ آپ کے لیے میرے خیال میں کافی ہوگا مادھولال جی، اب پھولوں سے باہر نکل آیئے۔ کیا فائدہ کہ آپ یہیں کھڑے کھڑے مر جائیں۔‘‘ مادھولال جی نے کچھ کہنا چاہا لیکن آواز نہیں نکل سکی اوم پرکاش جی آہستہ سے بولے۔
’’مسعود۔ مسعود یہ سب کچھ۔‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہا جو آگیا ہے وہ واپس نہیں جا سکتا، باقی باتیں آپ جانیں اور آپ کے دوست۔ مجھے اب ان چیزوں سے کوئی غرض نہیں ہے…‘‘ میں نے کہا اور اس کے بعد ہم بمشکل تمام مادھولال جی کو نیچے لانے کے لیے سہارا دے کر چل پڑے۔
پھولوں پر چلنا ان کیلئے مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ ’’آپ آپ کو بیٹھنے کیلئے کوئی دُوسری جگہ چاہئے ہوگی مادھولال مہاراج!‘‘
’’نیچے نیچے چلو۔‘‘ وہ گھٹے گھٹے لہجے میں بولے۔ ہم سب نیچے آ گئے۔ ’’مجھے کہیں بٹھا دو۔ دوسروں کو۔ بھگوان کیلئے دُوسروں کو کچھ نہ بتانا۔‘‘
نیچے بھی بہت بڑا صحن تھا۔ یہاں بھی پھلواری لگی ہوئی تھی۔ ایک جگہ بیٹھ کر مادھولال جی نے کچھ دیر سانس درست کی۔ پھر دونوں ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے گر پڑے۔ ’’شما کردیں مہاراج۔ شما کر دیں۔ بڑی بھول ہوگئی مجھ سے۔ بڑی بھول ہوگئی؟‘‘
’’کوئی بات نہیں مادھولال جی۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’ارے اب ان پھولوں کا کیا ہوگا۔ کیا بتائوں گا میں دُوسروں کو؟‘‘
’’اب یہ آپ کا کام ہے مہاراج۔‘‘
’’اور وہ۔ وہ جو اُوپر ہے۔ ارے باپ رے۔ وہ تو کروڑوں کا مال ہے۔ کروڑوں کا۔‘‘
’’اب وہ آپ کا ہے۔ یاد کرلیا کریں گے اپنے دوست اوم پرکاش کو، کہ انہوں نے آپ کو کروڑوں کا مالک بنا دیا۔‘‘ میں نے کہا اور مادھولال نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لیے۔ ’’کوئی سونے کی جگہ مل جائے گی اوم پرکاش جی۔ مجھے نیند آ رہی ہے۔‘‘
’’میں بتاتا ہوں۔‘‘ مادھولال جی ایک دم کھڑے ہوئے اور گرتے گرتے بچے۔ بڑی مشکل سے وہ ہمیں ساتھ لے کر آئے اور ایک کمرے تک پہنچا دیا۔ ’’یہ کمرہ آپ کیلئے ہے مہاراج۔ اوم پرکاش جی کے اہل خاندان کیلئے الگ انتظام کیا گیا تھا۔‘‘ میں چلتا ہوں۔ مادھولال بولے اور باہر نکل گئے۔ اوم پرکاش البتہ میرے پاس بیٹھے رہے تھے، گم صم اور خاموش۔ بہت دیر کے بعد انہوں نے زبان کھولی۔
’’اور آپ کے پاس ٹکٹ خریدنے کے پیسے بھی نہ تھے۔‘‘ میں ہنسنے لگا۔ ’’مگر اب کیا ہوگا۔‘‘
’’کیوں اوم پرکاش جی؟‘‘
’’اُوپر جو کچھ ہے۔ اس کا کیا ہوگا؟‘‘
’’اب کیا ہوسکتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’وہ واقعی کروڑوں کی دولت ہے۔‘‘
’’جو کچھ بھی ہے۔ اس کی واپسی ممکن نہیں ہے۔‘‘
’’اس کے تو دن پھر گئے۔‘‘
’’میں کیا کہہ سکتا ہوں۔‘‘
’’چمتکار دیکھ لیا اس نے اب ان ساری چیزوں کو واپس ہو جانا چاہئے، آپ ایسا ضرور کریں مسعود جی، یہ تو۔ یہ تو مناسب نہیں ہوگا، میں محسوس کررہا تھا کہ خود اوم پرکاش جی کی حالت بہتر نہیں ہے۔ ان دولت کے متوالوں کو یہی سب کچھ دُنیا کی سب سے بڑی چیز محسوس ہوتی تھی لیکن کوئی مجھ سے پوچھتا کہ کائنات کی سب سے بڑی دولت کیا ہے ماں باپ کی قربت، بہن بھائیوں کا ساتھ، ایک پرسکون جدوجہد سے پُرزندگی جس میں صبح کو تلاش رزق کیلئے گھر سے باہر نکلنا اور اس کے بعد ضرورتیں پوری ہو جانے کی حسرتیں لے کر واپس لوٹنا ہی اصل زندگی ہے، ساری خواہشیں پوری ہو جائیں تو پھر کس حساب میں جیا جائے، جو چھن گیا ہو اس کو پانے کی آرزو اور اس آرزو کی تکمیل ہی کائنات کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ اوم پرکاش جی بھی چلے گئے اور میں نجانے کب تک سوچوں کے دھارے پر بہتا رہا۔ میں نے سوچا کہ جلد بازی میں یا ان واقعات سے متاثر ہو کر میں نے یہ دُوسرا عمل غلط تو نہیں کر ڈالا۔ ایک عمل کیا تھا تو کمبل چھن گیا اور اب اس عمل سے نجانے کیا کیا چھن جائے گا۔ مگر کیا کروں کیسے جیئوں، یہ تنہا سوچیں، یے بے یقینی، یہ ناطلب قوتیں، ان سب کا کیا کروں۔ کتنا لڑ سکتا ہوں، موت کیلئے تو تیار ہوں، اگر یہ سب کچھ ناقابل معافی گناہ ہے تو مجھے موت چاہیے۔ نہیں جیا جارہا اس طرح۔ ہر آنکھ میں گناہگار بن کر۔‘‘
’’بیروں۔‘‘ میں نے آواز دی۔ ’’سامنے نہ آنا، مجھ سے بات کرو۔‘‘ اور بے شمار آوازیں میرے کانوں میں اُبھرنے لگیں۔ وہ نجانے کیا کیا کہہ رہے تھے۔
’’سنو سنو، میری بات سنو، جو کچھ تم نے میرے کہنے سے چھت پر لا پھینکا ہے اسے واپس اُٹھا لو۔ جہاں سے لائے ہو وہاں واپس پہنچا دو۔‘‘
’’نہیں پورنا، نہیں بھگت، وہ پورنا دان ہے تیری پہلی مانگ ہے وہ واپس نہ کر۔ ہماری بھینٹ سوئیکار کر۔ نہیں بھگت ایسا نہ کر۔ یہ ہماری موت ہوگی۔‘‘ آوازیں آئیں اور میں خاموش ہوگیا۔
دُوسری صبح بڑی افراتفری مچی ہوئی تھی۔ حویلی کے رہنے والے بری طرح بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ میں باہر نکل آیا۔ بڑی مشکل سے اوم پرکاش جی ہاتھ لگے تھے۔
’’کچھ ہو گیا کیا؟‘‘
’’وہی جو ہونا تھا۔‘‘ اوم پرکاش جی آہستہ سے بولے۔
’’کیا؟‘‘
’’پوری حویلی میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ چھت پر پھولوں کے انبار سب کو پاگل بنائے ہوئے ہیں۔ سب اُوپر جا رہے ہیں اور نیچے آ رہے ہیں۔‘‘
’’مادھولال جی کیا کر رہے ہیں۔‘‘ اوم پرکاش نے فوراً جواب نہیں دیا کچھ دیر سوچ کر بولے۔
’’تقریباً پاگل ہو چکا ہے۔ ساری رات چھت سے سونے چاندی کے تھال اُتارتا رہا ہے۔ حویلی کے نیچے قیدخانے میں اس نے وہ سارے تھال چھپا دیئے ہیں۔ خود یہ سب کچھ کیا ہے اور تھک کر نڈھال ہوگیا ہے۔ میرے کمرے میں بھی آ گھسا تھا۔ میرے پیروں سے لپٹ کر بھوں بھوں روتا رہا ہے۔ کہتا ہے کہ آدھی دولت میں لے لوں۔ بڑی مشکل سے میں نے اسے باہر نکالا۔ اب دُوسرے کمرے میں دری بچھائے لیٹا ہے اور سر پر برف کی تھیلیاں رکھوا رہا ہے۔‘‘
’’اوہ۔ یہ تو برا ہوا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’مجھے تو لگتا ہے پاگل ضرور ہو جائے گا۔ ویسے یہ بہت بڑی سزا ہے اس کے لیے اور… اور مجھے اس سے بڑی عبرت حاصل ہوئی ہے۔ آپ سے بھلا کیا چھپا سکوں گا مسعود صاحب۔ آپ جو کچھ ہیں میری توقع سے کہیں بڑی بات ہے، میں تو حیران ہوں کہ ایسی مہان شخصیت مجھے کیسے مل گئی۔ آپ آکاش سمان ہیں مسعود صاحب دُوسروں کو آپ یہ سب کچھ دے سکتے ہیں اور خود ریلوے کے بابو سے کہتے ہیں کہ میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔ رات مجھ پر بھی کٹھن گزری ہے اس دولت کے بارے میں سوچتا رہا ہوں جو چھت پر پڑی ہوئی تھی۔ لالچ بھی آیا دل میں۔ مگر… اب آپ کے بارے میں سوچتا ہوں۔ آپ نے سب کچھ ٹھکرا رکھا ہے تو اس کی بھی کوئی وجہ ہوگی۔ ضرور کچھ وجہ ہوگی۔‘‘
میں نے ان باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اوم پرکاش جی بولے۔ ’’کاشی چلو گے میرے ساتھ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا۔
’’بس یونہی پوچھ رہا ہوں۔‘‘
’’ضرور چلوں گا۔‘‘
’’دراصل میں نے اپنے بیٹے کو ریلوے اسٹیشن بھیج دیا ہے۔ ٹکٹ لینے کیلئے، ہمیں فوراً چلنا ہے۔ اس پاگلخانے میں میرا دَم گھٹ رہا ہے۔ میں فوراً یہاں سے نکل چلنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اب ایک ایک کر کے یہ سب پاگل ہو جائیں گے۔ چمتکار دیکھنا چاہتا تھا مادھول لال۔ دیکھ بیٹا۔ اب خوب دیکھ چمتکار۔‘‘ اوم پرکاش جی نے اس انداز میں کہا کہ مجھے ہنسی آ گئی۔
پنڈت اوم پرکاش جی کو اپنا ایمان بچانا مشکل ہورہا تھا۔ بال، بچوں کے ساتھ مقدس یاترا کو نکلے تھے اور یہاں پڑے جا رہے تھے دولت کے پھیر میں۔ مادھو لال نے آدھی دولت کی پیشکش کردی تھی اور یہ آدھی دولت اتنی تھی کہ اوم پرکاش جی نے ساری عمر نہیں کمائی تھی۔ انہیں پارس پتھر ملا تھا مگر یہ پتھر ان کے بجائے مادھو لال کو چھو گیا تھا۔ ان سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ تقدیر کو انہیں اس مصیبت سے نکالنا تھا کہ ان کے بیٹے کو بنارس کے ٹکٹ مل گئے۔ بارہ بجے ریل روانہ ہونے والی تھی۔ مادھو لال تو واقعی دیوانہ ہوگیا تھا۔ کسی سے مل ہی نہیں رہا تھا۔ رخصت ہوتے ہوئے ہم مادھو لال کے اس کمرے کے دروازے پر پہنچے جسے وہ بند کئے بیٹھا تھا۔
’’پتا جی… دروازہ کھولیے۔‘‘ مادھولال کے بیٹے نے آواز لگائی۔
’’ابے کیوں بار بار آجاتا ہے؟ میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
’’اوم پرکاش چاچا جارہے ہیں۔‘‘
’’کہاں جارہے ہیں…؟‘‘
’’بنارس۔‘‘
’’کہاں ہیں؟‘‘
’’یہ کھڑے ہیں دروازے پر۔‘‘ مادھو لال کا بیٹا بولا۔
’’تو بھاگ جا یہاں سے، بات کروں گا میں ان سے۔‘‘ مادھو لال کا بیٹا تو نہ گیا مگر مادھو لال دروازے پر آگئے تھے۔ ان کی آواز ابھری۔ ’’اوم پرکاش! آدھی لے لو۔ تمہیں بھگوان کا واسطہ، آدھی لے لو۔‘‘
’’میں جارہا ہوں مادھو لال! جیتا رہا تو واپسی میں تم سے ملوں گا۔‘‘
’’میں الگ کرلوں گا۔ دھرم ایمان سے آدھی تمہاری…‘‘ مادھو لال بولا اور اوم پرکاش جی وہاں سے پلٹ آئے۔کچھ دیر کے بعد ہم لوگ اسٹیشن پہنچ گئے اور پھر ریل ہمیں لے کر چل پڑی۔ اوم پرکاش میرا بڑا احترام کررہے تھے۔ ویسے حالت ان کی بھی زیادہ بہتر نہیں تھی۔
’’مسعود جی۔ بھگوان نے یہ سونا چاندی بھی کیا چیز بنائی ہے۔ اس کے سارے کھیل نیارے ہیں مگر ساتھ ہی اس نے منش کو صبر بھی دیا ہے۔ ایک وہ ہے جو ہنسی ہنسی میں دھن دولت کے انبار لگا کر پھینک دیتا ہے اور ایک وہ جو ان پھینکی ہوئی چیزوں کو اٹھا کر پاگل ہوجاتا ہے۔‘‘
’’ہاں اوم جی۔ ملتا کسی کو کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’وہ کونسی شکتی ہے مسعود جی جو انسان کو دھن دولت سے نفرت کرا دیتی ہے۔‘‘
’’ایمان… اللہ پر ایمان! جو کچھ اس کائنات میں ہے، اس کا ہے۔ اسے اپنا سمجھنا حماقت ہے۔ جو سامنے آجائے، اسے اس کا سمجھ کو دیکھو۔ اپنا سمجھ کر نہیں، تمہارا کچھ بھی نہیں ہے۔ جب تمہاری سانسیں تمہاری اپنی نہیں تو اور کیا چیز ہوگی۔ لالچ اور ہوس سے دوسروں سے چھین کر جو چاہو اکٹھا کرلو، اسے کہیں لے جائو تو مانیں۔ سب کچھ رہ جائے گا اور تم ہاتھ پسارے چلے جائو گے۔‘‘
’’ اوم پرکاش! سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر میرے ہاتھ پکڑ کر بولے۔ ’’ایسے کچھ بول اور بول دو مہاراج…! میرا بھلا ہوجائے گا۔‘‘
’’کیوں اوم پرکاش جی۔‘‘ میں نے مسکرا کر پوچھا۔
’’نیک دلی سے تیرتھ یاترا کو نکلا تھا کہ یہ کھیل سامنے آگیا۔ غلطی میری بھی نہ تھی۔ مجھے معلوم نہ تھا اور اب من ادھر ہی اٹکا ہوا ہے۔ مادھو لال تو کروڑ پتی بن گیا اور… چولہے میں جائے سب کچھ! ارے کیا کروں گا میں سونے چاندی کا، سب دوسروں کے کام ہی آئے گا۔‘‘ اوم جی خود کو سمجھا رہے تھے۔ سفر جاری رہا۔ ان پر کیا بیت رہی ہے، میں نہیں جانتا تھا میرے اپنے ہی تفکرات کیا کم تھے۔ اب تو درد حد سے گزر چکا تھا، دوا کی حاجت ہی ختم ہوتی جارہی تھی۔ دل چاہ رہا تھا کہ خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دوں۔ خود کچھ نہ کروں۔ کوئی کچھ کرتا ہے تو کرنے دوں۔ آنکھیں بند کرکے سو جانے کو جی چاہتا تھا۔
بنارس آگیا۔ مندروں کی دنیا! ہندو، مسلمان کی ملی جلی آبادی، یاتریوں کے ہجوم۔ عقیدت مندوں کے ڈیروں کے درمیان اوم پرکاش جی نے بھی ڈیرہ جما لیا۔ دولت مند انسان تھے۔ جیسا چاہتے، بندوبست کرسکتے تھے مگر بڑی عقیدت سے آئے تھے اس لئے سارے عمل وہی کرنا چاہتے تھے جو ان کے دھرم کے مطابق ہوں۔ مجھے ساتھ تو لے آئے تھے مگر اب شاید سوچ رہے تھے کہ میرا کیا کریں۔ وہ خود اپنے مخصوص انداز میں پوجا پاٹ کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں میرا ساتھ چھوڑنا ضروری تھا۔ بولے۔ ’’مسعود میاں! تمہارا جہاں جی چاہے سیر کرو، ہم پوجا کریں گے۔ ڈیرہ تمہارا ہے۔ جیسے من چاہے رہو، شام یہاں بتا لیا کرو۔‘‘
’’آپ بالکل بے فکر رہیں اوم پرکاش جی! میں اپنی جگہ تلاش کرلوں گا۔‘‘ میں نے انہیں اطمینان دلا دیا۔ پھر میں ڈیرے سے چل پڑا۔ کاشی واقعی ہندو دھرم کی بڑی مقدس جگہ ہے۔ ہندوستان کے ہر گوشے سے لوگ آئے ہوئے تھے بلکہ شاید نیپال، سری لنکا اور بھوٹان کے یاتری بھی تھے۔ طرح طرح کے چہرے، طرح طرح کے نقوش! عورتیں، مرد، بچے، بوڑھے، نوجوان لڑکیاں، طرح طرح کے سوانگ اور روپ!
رات کے کوئی دس بجے تھے۔ ایک پرانے مندر کے قریب بیٹھا میں آنے جانے والے یاتریوں کو دیکھ رہا تھا۔ چار آدمی ایک لمبے تڑنگے شخص کے پیچھے بڑی عقیدت سے چلتے ہوئے میرے قریب سے گزرے۔ لمبے تڑنگے شخص کے سر کے بال کمر تک لٹکے ہوئے تھے۔ اس نے سر سے پائوں تک دھوتی جیسا لباس لپیٹا ہوا تھا، بازو کھلے ہوئے تھے، سینے تک داڑھی تھی، آنکھوں پر چشمہ لگا ہوا تھا۔ مجھ سے چند قدم آگے بڑھ کر وہ رک گیا۔ ادھر ادھر دیکھا اور پھر اس کی نظریں مجھ پر جم گئیں۔ وہ چاروں آدمی بھی میری طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ وہ شخص پلٹ کر میرے قریب آکھڑا ہوا اور میں بھی کسی قدر گھبرائے ہوئے انداز میں کھڑا ہوگیا۔ اس نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے تھے۔
’’آپ یہاں مہاراج… آپ یہاں کب آئے؟‘‘
’’آج…‘‘ میں نے بدستور گھبرائے ہوئے انداز میں کہا۔ میں اسے بالکل نہیں پہچان سکا تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر کہا۔
’’مجھے میرے بہت پرانے دوست ملے ہیں، کچھ دیر ان سے بات کروں گا۔ آپ لوگ اپنے استھان پر جائیں اور آرام کریں، کل پھر ملیں گے۔‘‘ وہ چاروں ہاتھ جوڑ کر جھکے اور واپس چلے گئے۔ جب وہ دور نکل گئے تو اس نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔ ’’کالی شکتی والے! یہ بھگوان دوار ہے، یہاں تیرا کیا کام…؟‘‘
’’تم کون ہو، میں نے تمہیں نہیں پہچانا۔‘‘
’’ساگر سروپ ہے ہمارا نام! تو ہمیں کیا پہچانے گا۔ ہم نے تجھے اوش پہچان لیا ہے۔‘‘
’’کیا جانتے ہو میرے بارے میں۔‘‘
’’تیرے شریر سے کالی بساندھ اٹھ رہی ہے۔ تیری پہچان کے لیے یہ کافی ہے۔‘‘
’’اوہ! میں سمجھا کچھ اور جانتے ہو تم میرے بارے میں۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’کیا کررہا ہے یہاں…؟‘‘
’’یاترا!‘‘ میں نے کہا اور ہنس پڑا۔
’’بھسم ہوجائے گا۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’کالی گندگی لے کر تو بھگوان کے چرنوں میں جائے گا۔‘‘
’’تم بڑے گیانی معلوم ہوتے ہو۔ فوراً کالی شکتی کو پہچان لیا۔ اس سے آگے بھی کچھ جانتے ہو یا اتنا ہی…؟‘‘ وہ مجھے غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے کہا۔
’’اپنے دونوں ہاتھ سامنے کرو۔‘‘ اس نے کہا اور میرے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا تھا۔ تھوڑی بہت روشنی ہر جگہ سے چھن رہی تھی۔ وہ میرے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔ دیر تک وہ میرے ہاتھوں پر نظریں جمائے رہا۔ پھر اس کے منہ سے ایک چونکی ہوئی آواز سنائی دی۔ ’’ارے اوہ… اوہ…‘‘ اس نے غور سے میرا چہرہ دیکھا اور پھر ہاتھ آگے بڑھا کر میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیے پھر آہستہ سے بولا۔
’’جیوتش ودیا پر وشواس رکھتے ہو؟‘‘
’’خود بولتے رہو ساگر سروپ جی! ہم سے کچھ نہ پوچھو۔‘‘
’’ہم نے تھوڑا سا جیوتش کا علم سیکھا ہے۔ تمہاری ریکھائوں میں جو نظر آرہا ہے، وہ عجیب ہے۔ کچھ کہہ سکو گے؟ کچھ پوچھیں بتائو گے؟‘‘
’’اگر بتانے کی بات ہوئی تو!‘‘
’’ہندو دھرم سے نہیں ہو۔‘‘وہ میرے ہاتھوں پر نظریں جما کر بولا۔
’’آگے چلو!‘‘
’’وقت کے مارے ہو، مگر شکتی مان ہو۔ بڑا دل رکھتے ہو مگر دکھوں سے بھرا…! کالا جادو جانتے ہو مگر… مگر…! کرتے نہیں ہو۔‘‘
’’اورٖٖ!‘‘
’’حیرانی کی بات ہے۔ سمجھ میں نہ آنے والی تمہاری ریکھائیں عجیب ہیں۔ ریکھائوں میں سارے جیون کی کہانی نہیں ہوتی۔ ستاروں کی چال بدلتی رہتی ہے، ریکھائیں بنتی بگڑتی رہتی ہیں مگر سب سے زیادہ ایک بات حیران کررہی ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’تمہارا دھرم کیا ہے…؟‘‘
’’کیا کالا جادو صرف ہندو جانتے ہیں؟‘‘
’’نہیں جو بھی شیطان سے قریب ہوجائے، جو اسے دیوتا مان لے، دھرم کی قید نہیں ہوتی لیکن شیطان کا ایک ہی دھرم ہوتا ہے یعنی شیطنت! نہ پھر ہندو، ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان، مسلمان! وہ سب شیطان کے چیلے ہوتے ہیں۔‘‘
’’تم خود کیا ہو؟‘‘
’’صرف انسان! بچپن سے گیان دھیان سے دلچسپی تھی۔ سب کچھ چھوڑ کر اس کی کھوج میں لگ گیا۔‘‘
’’کیا پایا…؟‘‘
’’شانتی… صرف شانتی!‘‘
’’جیوتش سیکھی؟‘‘
’’ہاں! ایک مہان آتما مل گئی تھی، اس نے اپنا گیان دے دیا۔‘‘
’’اور…!‘‘ میں نے کہا اور وہ مسکرا دیا۔
’’میری ایک بات پوری نہیں کی۔ اپنی پوچھے جارہے ہو۔‘‘
’’میں کچھ بھی نہیں ہوں، دو کوڑی کا انسان ہوں، کالا جادو نہیں جانتا۔ بس اس کے جال میں پھنس گیا ہوں۔ راستے کی تلاش میں بھٹک رہا ہوں۔ تلاش کرتا رہوں گا اس وقت تک جب تک موت نہ آجائے۔‘‘
’’اتنا انتظار کیوں کرتے ہو؟‘‘
’’پھر کیا کروں…؟‘‘
’’سورج کا سفر! دوڑنا پڑے گا۔ کرنوں کے ساتھ دوڑنا پڑے گا۔ رک گئے تو کبھی منزل نہ پائو گے اور پہنچ گئے تو فیصلہ ہوجائے گا۔ منزل کتنی دور ہے، کوئی نہیں جانتا مگر چلنا پڑتا ہے، دوڑنا پڑتا ہے، وہیں فیصلہ ہوجائے گا۔‘‘
’’سورج کا سفر…؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’کیسے…؟‘‘
’’میں بتا سکتا ہوں۔‘‘
’’بتائو!‘‘
’’ایسے نہیں۔ گرو ماننا پڑے گا، گرودچھنا دینا پڑے گی۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کیا…‘‘ میں نے پوچھا۔
’’محنت سے کمائی کرکے چار لڈو۔ جب ہوجائیں، اسی جگہ آجانا۔ انتظار کروں گا۔‘‘ اس نے کہا اور آگے بڑھ گیا۔ میں اے دیکھتا رہ گیا۔ عجیب سا آدمی تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ بہت بڑا ہو مگر چھوٹا بنتا ہو۔ سورج کا سفر، گرودچھنا، محنت کی کمائی سے، محنت کی کمائی سے۔ کہاں سے کمائوں؟‘‘
رات ہوگئی۔ بہت دور نکل آیا تھا۔ اوم پرکاش کا ڈیرہ کہاں ہے، یاد ہی نہیں رہا تھا۔ ساگر سروپ یاد تھا۔ وہ جو کچھ کہہ گیا تھا، جی کو لگ رہا تھا۔ ایک سنسان گوشہ دیکھ کر وہیں پڑ رہا۔ وہاں صبح ہوگئی۔ کوئی دس بجے تھے۔ میں نے ایک ادھیڑ عمر مرد کو دیکھا ٹین کا صندوق
سر پر رکھے، اس پر بستر رکھ ہوا تھا ساتھ میں اسی کی عمر کی عورت تھی جو دو وزنی تھیلے لٹکائے ہوئے تھی۔ ڈگمگاتے قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا۔ میرے قریب سے گزرا تو گردن گھما کر مجھے دیکھا اور صندوق سے بستر گر پڑا۔ اس نے صندوق بھی بستر پر پھینک دیا اور وہیں بیٹھ گیا۔ عورت نے تھیلے زمین پر پٹخ دیئے۔
’’اب آگے ناہیں بڑھو گے کا؟‘‘ عورت غصے سے بولی۔
’’ارے چپ! آگے کی بچی… کھپڑیا پچک کر سڑا ہوا خربوزہ بن گئی اور تے کہے ہے آگے بڑھو۔‘‘ مرد جھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔
’’اور پکڑو پائی پائی داتن سے۔ یاترا کو آویں کی کا جرورت تھی؟ گھر کو ہی کاسی جی بنا لیتے۔‘‘
’’اور ریل کا کرایہ تے جیسے تیرے میکے سے آیا تھا۔ وہ سسر پندرہ روپے مانگ رہا تھا۔ ہم نے آٹھ لگا دیئے تب بھی نہ مانا۔‘‘ مرد نے کہا اور پھر اس کی نگاہ مجھ پر پڑی۔ وہ جلدی سے کھڑا ہوگیا۔ ’’ارے بھائی اورے بھائی! ارے ذرا ادھر آنا میرے بھائی! ارے مزدوری کرے گا کیا رے۔ یہ سامان اٹھا کے ذرا تلسی نواس پہنچا دے بھیا! ایک بکس اور ایک بسترا ہے رے بھائی!‘‘
’’ارے ارے تمہاری کھوپڑیا تے سچی مچی کھربوجا بن گئی ہے۔ وہ مجدور لاگے ہے تمہیں کا۔‘‘ عورت نے مرد کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’ایں؟‘‘ مرد مجھے دیکھنے لگا مگر میرے ذہن میں چھناکا ہوا تھا۔ مزدوری، محنت کی کمائی۔ یہ محنت کی کمائی ہی ہوگی۔ چنانچہ میں نے آگے بڑھ کے کہا۔
’’کتنے پیسے دو گے؟‘‘
’’ارے چار روپئے دیں گے پورے!‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے گردن ہلا دی اور پھر وزنی بکس بستر اٹھا کر سر پر رکھ دیئے۔ عورت نے دونوں تھیلے میرے بازوئوں میں لٹکا دیئے تھے۔ میں چل پڑا اور پھر انہیں تلسی نواس مندر پہنچا دیا۔ بہت سے یاتری یہاں موجود تھے۔ مرد نے سامان ایک جگہ رکھوا دیا اور پھر انٹی سے مڑے تڑے نوٹ نکالے اور گھگھیا کر بولا۔ ’’ارے تین روپے لے لے بھائی تیرا بھلا ہوگا۔‘‘
’’بھگوان تمہیں سیدھا کرے۔ نکالو پانچ روپے اور اسے دو۔‘‘ عورت جھلا کر بولی۔
’’اری او ساہوکارنی! پانچ روپے کاہے کے ری۔‘‘
’’یہ تھیلے جو اٹھائے ہیں اس نے!‘‘’’تے یہ سامان نہیں کیا… ارے لے بھائی! ایک روپیہ اور لے۔ تو جا اس ساہوکارنی کو تو ہم دیکھ لیں گے۔‘‘ مرد نے ایک روپیہ اور دے کر جان چھڑائی۔ میں چار روپے لے کر پلٹا تو اپنے عین سامنے اوم پرکاش جی کو کھڑے پایا۔ وہ تند نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔
’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’مزدوری…!‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’کیوں…؟‘‘
’’میری بھی ضرورتیں ہیں اوم پرکاش جی! آیئے یہاں کہاں؟‘‘
’’مجھے دکھ ہوا ہے مسعود میاں! میرے دل میں تمہارا کیا مقام ہے، بتا نہیں سکتا اور تم…!‘‘
’’دوسرے لوگ کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ موجود ہیں۔ رات کو بھی ڈیرے پر واپس نہیں آئے؟‘‘
’’بس! آپ کی کاشی دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’ایسے…؟‘‘ وہ شکایتی انداز میں بولے۔
’’ہاں! اپنا اپنا انداز ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ دوپہر ڈھلے تک اوم پرکاش کے ساتھ رہا پھر موقع پا کر دوبارہ نکل بھاگا۔ وہ لوگ پوجا پاٹ میں مصروف تھے، مجھے موقع مل گیا۔ تلاش کرکے میں نے ایک دکان سے لڈو خریدے۔ دو روپے کے مل گئے تھے۔ ایک فقیر نے ہاتھ پھیلایا تو بچے ہوئے دو روپے اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ پھر اس جگہ پہنچ گیا جہاں ساگر سروپ ملا تھا۔ بے شمار لوگ ادھر سے ادھر گھوم پھر رہے تھے۔ ایک شخص ٹاٹ کی بوری سر پر رکھے گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا۔ متجسس نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ تبھی مجھے ’’شی شی!‘‘ کی آواز سنائی دی اور میں چونک کر پلٹا۔ ساگر سروپ نے بوری اُتار کر بغل میں دبائی اور اُٹھ کھڑے ہوئے۔
’’تمہارا انتظار کررہا تھا۔ آئو چلیں یہاں سے!‘‘ ہم دونوں آگے بڑھ گئے۔ پھر وہ کافی دور جاکر ایک پتھر پر بیٹھ گئے اور مسکرا کر بولے۔ ’’لڈو لے آیا بیٹا…؟‘‘
’’ہاں… یہ ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ گرو بھگتی کر۔ ایک لڈو ہمارے منہ میں رکھ۔‘‘ انہوں نے کہا اور میں نے ان کی ہدایت پر عمل کیا۔ انہوں نے ایک لڈو اٹھا کر میرے منہ میں رکھا اور بولے۔ ’’اب ہمارے چرن چھو کر ماتھے سے لگا۔ ہاتھ جوڑ کر ہمارے سامنے دوزانو بیٹھ جا۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں حیرت سے بولا۔
’’ہاں! یہ گرو کا احترام ہے۔‘‘
’’نہیں ساگر سروپ جی! یہ میرے لیے ممکن نہ ہوگا۔ کچھ ہو یا نہ ہو مگر یہ نہیں ہوگا۔‘‘ میں کئی قدم پیچھے ہٹ گیا اور ساگر سروپ مجھے غور سے دیکھنے لگے۔ پھر مسکرا کر بولے۔
’’مسلما ن ہے۔ مسلمان ہے تجھ سے تیرا دھرم کون چھین سکتا ہے بھلا۔ سب سسرے بے وقوف ہیں، پاگل ہیں۔ آ یہاں بیٹھ جا میں تجھے بتائوں سورج کا سفر کیا ہے۔ آ بیٹھ جا! تو فولاد ہے، تجھے کوئی آسانی سے نہیں توڑ سکتا۔‘‘ میں بیٹھ گیا۔ ’’میرے ساتھ چلنا ہوگا تجھے۔‘‘
’’کہاں…؟‘‘
’’زیادہ دور نہیں۔ بس کسی بھی ایسی جگہ جہاں رکاوٹیں نہ ہوں۔ جو بتائوں وہ کرنا ہوگا۔‘‘
’’میرے حکم نہ ماننے سے آپ ناراض تو نہیں ہوئے ساگر جی!‘‘
’’نہیں! تیرا دھرم پتا چل گیا۔ مسلمان کسی کو وہ تعظیم نہیں دیتے جو ان کے رب کے لیے مخصوص ہے۔ اس پر تو لاکھوں گردنیں کٹی ہیں، اتنا مجھے معلوم ہے۔ خیر ان باتوں کو چھوڑو۔ کیا کہتا ہے چلیں…؟‘‘
’’جیسا آپ پسند کریں۔‘‘
’’تو نے لڈو کھلایا ہے بھائی! اتنا تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘ ساگر سروپ ہنستے ہوئے اٹھ گئے اور پھر ہم وہاں سے چل پڑے۔ ساگر سروپ نے کہا تھا کہ کچھ دور جانا ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ ہم آبادیوں کو پیچھے چھوڑ آئے۔ جنگل شروع ہوگئے۔ جھٹپٹا ہوا، چڑیوں کا شور، بندروں کی خوں خوں ابھرتی رہی۔ پھر رات ہوگئی۔ نہ وہ رکے نہ میں! نہ وہ تھکے نہ میں اور جب چاند نکلا تو ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں ایک بدشکل ویرانہ پھیلا ہوا تھا۔ چاروں طرف ابھری ہوئی ناہموار زمین، سوکھے درخت، مکمل خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔
’’یہ جگہ ہے۔‘‘ ساگر سروپ نے کہا اور رک گیا۔ چاروں طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔ ’’سورج وہاں سے بلند ہوگا۔‘‘ اس نے انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا تھا۔
’’مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘
’’راستہ چاہتا ہے نا…؟‘‘
’’ہاں! راستہ چاہتا ہوں۔‘‘
’’سورج تجھے راستہ بتائے گا۔ اجالا ہونے سے پہلے تیار ہوجانا، اپنے بدن کو ہوا کا بدن بنا لینا، کسی سے مدد نہ مانگنا پھر جب سورج سر ابھارے گا تو اس کی کرنیں زمین کی طرف لپکیں گی۔ جو کرن پہلے زمین کو چھوتی ہے، وہ سرتاج ہوتی ہے۔ اس کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اس میں ہزار رنگ تڑپ رہے ہوتے ہیں۔ وہ زمین پر دوڑتی ہے، دور تک سورج کا پیغام لے جانے کے لیے! اس دن کی بادشاہی اسے ملتی ہے۔ تجھے سرتاج کرن کے ساتھ ساتھ دوڑنا ہوگا۔ اس کی رفتار کے ساتھ۔ کرن کھو گئی تو تیرا مستقبل بھی کھو جائے گا اور تو نے اس کا ساتھ دے لیا تو منزل پر پہنچ جائے گا۔ وہاں تجھے تیرا مستقبل مل جائے گا۔ بس یہی بتانا تھا تجھے!‘‘
’’یہ سب کیا ہے؟‘‘
’’بھگوان ہی جانے!‘‘ ساگر سروپ نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
’’مجھے تو یہ کہانی لگتی ہے۔‘‘
’’یہ سچی کہانی ہے۔‘‘
’’پہلے میں نے یہ کرن کہانی نہیں سنی۔‘‘
’’بہت سوں نے نہ سنی ہوگی، تو ہی کیا لیکن یہ کرن سب کے لیے ہوتی ہے۔ سورج کی اس کرن کو پکڑ لیا جائے تو سارے کام بن جاتے ہیں۔ تو نہیں جانتا، بہت سے نہیں جانتے مگر پنکھ پکھیرو جانتے ہیں۔ وہ پرواز کرتے ہیں، اس کرن کے ساتھ…! تو کیا سمجھتا ہے پنکھ پکھیرو بھگوان کے داس نہیں ہوتے، سب اسے جانتے ہیں، سب اسے پہچانتے ہیں، اس کی پوجا کرتے ہیں، اس کی عبادت کرتے ہیں، اسے سانچی مانتے ہیں۔ صبح کو سورج نکلنے سے پہلے اسے یاد کرتے ہیں۔ کرن کے ساتھ دوڑنے میں کچھ رہ جاتے ہیں، کچھ پار لگ جاتے ہیں۔ جو رہ جاتے ہیں، وہ دوسری صبح پھر جاگ جاتے ہیں اور کرن کے پیچھے دوڑتے ہیں۔‘‘
’’کرن کہیں جاکر رکے گی؟‘‘
’’ہاں! کرنوں کا ملاپ ہوجائے گا، دھوپ پھیل جائے گی۔‘‘
’’وہاں میں کیا کروں گا؟‘‘