سلامت علی صاحب چلتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے۔ مجھے ان کی حالت کا اندازہ ہوگیا۔ وہ خود کو لاکھ سنبھالنے کی کوشش کررہے تھے مگر خوف سے ان کا برا حال تھا۔ غلطی کی تھی انہوں نے ان جادوگروں کی زد میں آسکتے تھے۔ میں نے انہیں سہارا دیا اور انتہائی مشکل سے یہ طویل سفر طے ہوا۔ ہم گھر میں داخل ہوگئے۔
’’اب کیاکرو گے؟‘‘ انہوں نے پوچھا اور میں مسکرا دیا۔
’’اللہ بہتر جانتا ہے۔‘‘
’’میں جائوں…؟‘‘
’’جی۔ آرام کیجیے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ سلامت علی اندر چلے گئے اور میں اپنی رہائش گاہ میں داخل ہوگیا۔ پھر نہ جانے کب تک بستر پر میں اس بارے میں سوچتا رہا تھا۔ دوسری صبح معمول کے مطابق تھی ناشتے پر سلامت علی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ فراست بھی نہیں ملا تھا۔ فرخندہ کچھ دیر کے بعد نظر آئی کچھ پریشان تھی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’ابو کا بخار اور تیز ہوگیا ہے۔‘‘ اس نے تشویش سے کہا اور میں چونک پڑا۔
’’سلامت علی صاحب کو بخار آگیا ہے۔ مجھے کسی نے بتایا بھی نہیں۔‘‘
شدید بخار ہے۔ بے ہوشی طاری ہے۔ بحرانی کیفیت ہے اور نہ جانے کیا کیا بڑبڑا رہے ہیں۔ کبھی ’’بھینسا بھینسا چیختے ہیں۔ کہتے ہیں ہٹ جائو سینگ مار دے گا۔ کبھی کہتے ہیں لے گیا لے گیا سر لے گیا…!‘‘ فرخندہ نے بتایا… اور میں نے گہری سانس لی۔ اس بات کا خدشہ تھا مجھے رات ہی کو ان کی کیفیت کا اندازہ ہوگیا تھا۔
’’فراست کہاں ہیں؟‘‘
’’کسی کام سے گئے ہیں۔ آپ چاہیں تو ابو کے پاس چلیں۔‘‘
’’ہاں ضرور…!‘‘ میں نے کہا۔ سلامت علی کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ کبھی آنکھیں کھول کر دیکھتے کبھی عجیب عجیب سا منہ بناتے کسی پر نگاہ نہیں جما رہے تھے۔ میں نے ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو وہ چیخ پڑے۔
’’ٹکر مار دی۔ سر پھٹ گیا۔ گردن کٹ گئی اور دیکھو وہ دیکھو گردن لے گیا۔‘‘
’’سلامت علی صاحب۔ مجھے دیکھیے میں کون ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔ پھر گردن گھما کر مجھے دیکھا۔ میں نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ دل میں ایک آیت کا ورد کیا اور وہ مجھے دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ اتنی دیر میں فراست واپس آگیا۔
’’ڈاکٹر اشتیاق بھی گئے ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے میں…‘‘
’’نہیں فراست، ضرورت نہیں ہے۔ بخار ابھی تھوڑی دیر میں اتر جائے گا۔‘‘ میں نے کہا۔ فراست نے عجیب سے انداز میں مجھے دیکھا اور پھر ماں کی طرف دیکھنے لگا سب پریشان تھے۔ فراست میرے ساتھ باہر نکل آیا پھر بولا۔
’’کچھ دیر پہلے میں نے ٹمپریچر دیکھا تھا۔ تم یقین کرو ایک سو پانچ بخار ہے یہ بہت خطرناک ہے۔‘‘
’’نہیں ٹھیک ہوجائیں گے فکر مت کرو…!‘‘
’’مسعود ایک بات بتائو گے؟‘‘ فراست عجیب سے لہجے میں بولا۔
’’ہوں۔ ضرور۔‘‘
’’پچھلی رات تم اور ابو کہاں گئے تھے۔‘‘ فراست عجیب سے لہجے میں بولا اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ اس نے کہا اس وقت میں جاگ رہا تھا۔ میں نے تمہیں اور ابو کو آتے ہوئے دیکھا اور پھر صبح کو… امی نے بتایا کہ بخار رات ہی کو چڑھ آیا۔ وہ سردی سے کپکپا رہے تھے۔ مجھے گمان ہوا کہ فراست کسی بدگمانی کا شکار ہورہا ہے۔ ایک لمحے سوچنے کے بعد میں اسے ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیا۔ پھر میں نے کہا۔
’’رات کو میں کالی موری گیا تھا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ سلامت علی صاحب میرا پیچھا کررہے ہیں۔ وہ کالے جادو کی بستی ہے۔ بس وہاں پہنچ کر وہ ڈر گئے ہیں اور کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
’’گویا ہمارا اندازہ ٹھیک تھا۔ فرخندہ کہہ رہی تھیں کہ تم مانو یا نہ مانو مسعود اس ساحرہ کا شکار ہوگئے ہیں، ان کے انداز سے پتہ چلتا ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں حیرت سے بولا۔
’’اس کا حسن شیطانی صفات کا حامل ہے اس کی آنکھوں میں سحر ہے جسے دیکھ لیتی ہے وہ مصیبت میں پھنس جاتا ہے وہ ضرور جادو گرنی ہے۔‘‘
’’کون… خدا کے بندے۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔
’’بننے کی کوشش مت کرو، میں پوجا کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔‘‘ فراست نے سرد لہجے میں کہا۔ میں حیران نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر میں نے ملامت آمیز لہجے میں کہا۔
’’فراست، وہ ہندو ہے اور میں خدا کے فضل سے مسلمان، میرے اور اس کے درمیان ایسا کوئی رابطہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ فراست نے سنجیدہ نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ پھر بولا۔
’’اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو پھر تم کالی موری کیوں گئے تھے؟‘‘
’’تمہارے خیال میں کیوں جاسکتا تھا؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’بھئی ہمارے ذہن میں تو صرف یہی آتا ہے کہ تم بھی اس کے حسن سے متاثر ہوگئے اور اس کے چکر میں مارے مارے پھر رہے ہو۔‘‘
’’میرا خیال تو یہ ہے کہ بلکہ تھا فراست کہ چونکہ سری رام جی اور سلامت علی صاحب کے انتہائی گہرے دوستانہ تعلقات ہیں بلکہ یہ بات بھی میرے علم میں آئی ہے کہ تمہاری دادی جان کی دعائوں سے سری رام جی کے ہاں پوجا پیدا ہوئی تھی، ایسے حالات میں تم دونوں بہن بھائی کے بھی اس سے گہرے تعلقات ہوں گے، لیکن یوں لگتا ہے جیسے تم دونوں کے دل میں اس کے لیے کوئی کدورت ہے یا پھر یا پھر…‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے مسعود صاحب، حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگوں نے بچپن ساتھ گزارا ہے۔ پوجا بہت حسین ہے اسے اپنے حسن پر ناز بھی تھا لیکن ہمارے لیے وہ صرف چاچا جی کی بیٹی ہے۔ ہم نے کبھی اسے نہ بہت زیادہ حسین سمجھا اور نہ کوئی مختلف شے مگر بس عجیب و غریب فطرت کی مالک ہے وہ اور پچھلے کچھ عرصے سے تو اس کی کیفیت عجیب ہی ہوگئی ہے، کسی کو منہ ہی نہیں لگاتی لیکن ہمیں ہمیں…‘‘
فراست نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’ہاں کہو آگے کہو…‘‘
’’نہیں بس، فرخندہ کا یہ خیال تھا کہ تم اس میں غیر معمولی دلچسپی لینے لگے ہو۔‘‘
’’دلچسپی تو میں اس میں لے رہا ہوں فراست…‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’اس کے متعلق جو کہانیاں میں نے سنی ہیں وہ بڑی سنسنی خیز ہیں۔‘‘
’’کوئی خاص کہانی نہیں سنی ہوگی، سوائے ابو کی زبانی، ابو نے جوکچھ تمہیں بتایا ہوگا، بس اتنا ہی ہوگا اور ابو بھلا حقیقتیں کیسے بتاسکتے ہیں کیونکہ معاملہ ان کے دوست سری رام کا ہے۔‘‘
’’اچھا کچھ اور حقیقتیں بھی ہیں؟‘‘
’’ہاں ہیں، بہت سے لوگ جانتے ہیں، مگر مجھے معلوم ہے کہ یہاں چندوسی میں تمہاری ملاقات ہوئی ہی کتنے لوگوں سے ہے۔‘‘
’’کیا کہانی ہے فراست مجھے بتائو…؟‘‘
’’کوئی طویل کہانی نہیں ہے، بس یوں سمجھ لو کہ گووندا اور اس کا خاندان ہندوئوں کی زبان میں نیچ ذات لوگوں کا خاندان ہے۔ گووندا کے ماں باپ سری رام کے نوکر تھے۔ گووندا خود بھی بچپن سے سری رام کی چاکری کرتا رہا تھا اور اسی دوران اسے پوجا سے محبت ہوگئی۔ پوجا بھی سب کچھ بھول کر کہ وہ نیچ ذات ہے یا اونچ ذات اس سے محبت کرنے لگی۔ اب یہ کوئی ایسی بات تو نہیں تھی۔ دونوں جوان ہوگئے اور پھر سری رام جی کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔‘‘
’’اوہ تو تمہارا مطلب ہے کہ پوجا بھی گووندا کو چاہتی ہے؟‘‘
’’یقینی طور پر ایسے معاملات یکطرفہ نہیں ہوتے اور اس کے بعد جب سری رام جی کو یہ بات معلوم ہوگئی تو بس یوں سمجھو کہ گووندا کے خاندان پر عتاب نازل ہوگیا۔ ان کا ذریعۂ معاش ہمیشہ سے سری رام جی کی ملازمت تھا۔ سری رام جی نے انہیں اس سے محروم کردیا۔ وہ بھوکے مرنے لگے۔ گووندا کی ماں مرگئی۔ کچھ عرصے کے بعد باپ مرگیا، بس خاندان کے دوسرے لوگ باقی رہ گئے تھے۔ خود گووندا کی حالت بھی بہت زیادہ خراب تھی۔ سری رام جی نے جب اس سے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ وہ پوجا کو چاہتا ہے تو اس نے سچائی سے اظہار کردیا تھا۔ نتیجے میں اسے چار دن تک بھوکا پیاسا سری رام جی کے گھر کے ایک بند کمرے میں رہنا پڑا اور جب سری رام جی نے یہ محسوس کیا کہ وہ بھوک سے مرجائے گا اور اپنی ضد نہیں چھوڑے گا تو اسے جوتے مار کر وہاں سے نکلوادیا کہ کہیں وہ ان کے گھر میں ہی نہ مرجائے۔ نجانے کیا کیا تکلیفیں اٹھائیں بے چارے گووندا نے، اور اس کے بعد وہ یہاں سے غائب ہوگیا تھا، پھر اس نے کیا کیا، یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ واپس آیا تو وہ شیطان کے مقابلے میں شیطان بن چکا تھا۔ اب یہ دیکھو ناں مسعود کہ اونچی اور نیچی ذات کیا ہوتی ہے۔ ہمارے مذہب میں تو اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کے بعد اب گووندا نے سری رام جی کو صحیح طور پر سنبھال رکھا ہے۔‘‘
’’پوجا خود کچھ نہیں کہتی۔‘‘
’’نہیں وہ پاکباز خاتون بس خاموش رہتی ہیں ہر ایک سے ملنا جلنا بات کرنا چھوڑ دیا ہے۔ سری رام جی سے بھی کوئی شکایت نہیں کرتیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں، لیکن لیکن یہ سب دکھاوا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی گووندا کی سازش میں شریک ہے۔‘‘
’’کمال ہے، کمال ہے۔‘‘ میں نے کہا اور اس کے بعد میں خاموش ہوگیا۔ یہ کہانی واقعی عجیب اور دلچسپ تھی اور اب میں الجھ کر رہ گیا تھا۔ فراست تو کچھ دیر میرے پاس بیٹھنے کے بعد چلا گیا۔ میں نے اسے اطمینان دلایا تھا کہ ایسا کوئی احمقانہ تصور میرے ذہن میں موجود نہیں ہے، اور شاید اسے یقین بھی آگیا تھا لیکن اب میرے لیے ذرا الجھن کا مقام پیدا ہوگیا تھا۔ اونچ نیچ ذات کا معاملہ تھا۔ گووندا نے شیطانی علوم سیکھ لیے تھے اور اس کے ذریعے اب وہ طاقت حاصل کرچکا تھا لیکن مجھے اب اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے، دو محبت کرنے والے جن کا تعلق ایک دوسرے سے روحانی تھا، میری وجہ سے کسی عذاب میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ یہ مجھے نہیں کرنا چاہیے اور جواب دینے والا ضمیر تھا، اور ضمیر میرے اس خیال سے غیر مطمئن نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ کسی بھی طرح اس کے اس مسئلے میں ٹانگ اڑانا مناسب نہیں ہے۔ اگر میں گووندا کو کوئی نقصان پہنچادوں تو یہ ظلم ہوگا۔ کیونکہ وہ ظلم سے مجبور ہونے کے بعد شیطانی حرکتوں پر اترا ہے، البتہ میں اس کی کسی شیطانی حرکت میں اس کا ساتھ بھی نہیں دے سکتا تھا۔ بہت غور کرنے کے بعد میں نے یہی فیصلہ کیا کہ اس مسئلے میں سری رام جی کی کوئی مدد نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی گووندا کا کوئی ساتھ دیا جاسکتا ہے۔ مجھے ان دونوں کے معاملات سے الگ ہوکر چندوسی سے نکل جانا چاہیے۔ پابند تو تھا نہیں کسی کا، کوئی قید نہیں تھی میری مرضی تھی، جس مسئلے میں چاہتا ٹانگ اڑاتا اور جس میں نہ چاہتا نہ اڑاتا۔ یہ فیصلہ قطعی اور آخری تھا لیکن اب ایسی مصیبت بھی نہیں آئی تھی کہ میں فوراً ہی یہاں سے فرار ہوجاتا۔
کافی وقت یہاں گزرا، فراست تو پہلے ہی چلا گیا تھا، میں اپنی آرام گاہ میں خاصا وقت گزارنے کے بعد باہر نکلا تو فرخندہ نظر آگئی۔ میں نے اسے روک کر سلامت علی صاحب کے بارے میں پوچھا تو اس نے پرسکون لہجے میں بتایا کہ بخار اتر چکا ہے اور اب وہ گہری نیند سو رہے ہیں۔ مجھے یقین تھا کہ بخار اتر جائے گا۔ فرخندہ اب خاصی مطمئن نظر آرہی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد میں تیار ہوکر چل پڑا۔ گووندا سے ملاقات کرنا چاہتا تھا۔ پچھلی رات ہی کو اس سے ملتا، اگر سلامت علی صاحب میرا پیچھا کرتے ہوئے وہاں نہ پہنچ جاتے۔ گھر سے نکل آیا، پیدل چلتا رہا۔ کالی موری کا فاصلہ اچھا خاصا تھا۔ دھوپ آہستہ آہستہ تیز ہوتی جارہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں کالی موری کے کھنڈرات میںداخل ہوگیا۔ یہاں وہی لامتناہی سناٹا چھایا ہوا تھا اور کہیں کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ میں گووندا کو تلاش کرتا ہوا آگے بڑھنے لگا اور پھر میں نے اسے آواز دی۔ میرے آواز دینے پر وہ ایک بڑے سے پتھر کے پیچھے سے باہر نکل آیا۔ عجیب سا حلیہ بنا رکھا تھا۔ چہرے پر سنگین خاموشی طاری تھی۔ میں اسے دیکھ کر مسکرادیا اور وہ سنجیدہ نگاہوں سے مجھے دیکھتا رہا۔ میں نے کہا۔
’’تمہیں مبارکباد دینا چاہتا ہوں گووندا کہ تم نے نہ صرف اپنا قول نبھایا بلکہ اپنے دشمن کا خاتمہ بھی کردیا…‘‘
’’وہ ہمارا دشمن نہیں تھا میاں جی۔ وہ، بس یوں سمجھ لیں کہ ہم نے یہ سب کچھ نہیں چاہا تھا۔ کالا جادو کرتے ہیں مگر کسی کا جیون نہیں لیتے، پر آپ نے ایسی بات کہہ دی تھی اور، اور وہ نہ ماننے والوں میں سے تھا۔ سو ہم نے اس سے مقابلہ کیا اور وہ ہمارے سامنے شکست کھاگیا۔‘‘
’’مجھے اس کا علم ہے گووندا اور تمہاری کہانی بھی میرے علم میں آگئی ہے۔ تم پوجا سے محبت کرتے ہو…‘‘ گووندا کے چہرے پر عجیب سے آثار پھیل گئے، اس نے کہا۔
’’یہ کہانی، میاں جی! تمہیں چندوسی والوں ہی نے سنائی ہوگی لیکن چندوسی والے سری رام جی کے خوف سے ہمیشہ ادھوری کہانی سناتے ہیں۔ اگر پوری کہانی سننا چاہو تو میں تمہیں سنا سکتا ہوں۔‘‘
’’نہیں گووندا میں نے پوری کہانی ہی سنی ہے۔ مجھے علم ہوگیا ہے کہ سری رام جی نے تمہارے اہل خاندان کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے اور اور تمہیں بھی کافی اذیتیں پہنچائی ہیں۔‘‘
’’اگر سن چکے ہو میاں جی تو پھر خود فیصلہ کر لو کہ ہمارا کیا قصور ہے۔ میں سری رام جی کے مظالم سے تنگ آکر باہر نکل گیا۔ میرے اندر ہمت تھی، میں اگر چاہتا تو بے شمار دولت کما کر ایک امیر آدمی بن سکتا تھا لیکن سری رام جی جیسے ہٹ دھرم کبھی اس بات کو تسلیم نہ کرتے اور یہ نہ مانتے کہ، کہ ایک نیچ ذات ان کا برابر والا ہوسکتا ہے۔ بس اس خیال نے میاں جی دماغ گھمادیا اور پھر میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایسی طاقتیں حاصل کی جائیں جن کے ذریعے سری رام جی کو مجبور کردیا جائے۔ میں نے یہاں پر بھی دھوکہ نہیں کیا اور سری رام جی کو یہ سمجھا دیا کہ میرے پاس کالی قوتیں ہیں۔ وہ اگر سیدھی طرح نہ مانیں گے تو پھر میں بھی انگلیاں ٹیڑھی کر لوں گا۔ میاں جی سب کچھ کر سکتا تھا میں ان کالی قوتوں کو حاصل کرنے کے بعد لیکن میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں سری رام جی کو دھوکہ بھی دے سکتا تھا۔ پوجا کو ایسے نقصانات پہنچا سکتا تھا کہ اس کے بعد سری رام جی اسے اپنے ہاتھوں سے نکال کر گھر سے باہر ڈال دیتے، مگر، مگر میں پوجا کو اسی عزت کے ساتھ اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں جس طرح لڑکیاں اپنے گھروں سے وداع ہوتی ہیں۔ یہ اس کی عزت کے لیے ہے میاں جی کیونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ ورنہ میرے کالے جادو کے سامنے کیا سری رام جی اور کیا ان کی اوقات۔‘‘ گووندا نے کہا۔ میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا۔
’’ٹھیک ہے گووندا، بہرطور میں تمہیں دعائیں ہی دے سکتا ہوں، اس کے علاوہ اور کیا کرسکتا ہوں۔‘‘
’’میاں جی، دیکھو ہمارے کالے علم نے بتایا ہے کہ تم کالے علم کے خلاف عمل کرتے ہو۔ ہمارے ساتھ ایسا مت کرنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یہ ایک مظلوم کے ساتھ اور ظلم ہوگا۔ بس اس کے علاوہ ہم تم سے اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘‘
گووندا نے کہا اور میں پُرخیال انداز میں گردن ہلانے لگا۔ پھر میں نے کہا۔
’’نہیں گووندا۔ یہ سب کچھ معلوم کرنے کے بعد میں تمہارے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہتا مگر تم سے کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کہو مہاراج…‘‘
’’گووندا۔ میرا تجربہ زیادہ نہیں ہے لیکن ایک بات سب ہی جانتے ہیں محبت آسمانی جذبہ ہوتا ہے۔ تمہارے دین دھرم میں بھی اسے بھگوان کا روپ کہا جاتا ہے۔ بھگوان کے اس سندر روپ کو تم نے شیطان کی آغوش میں کیوں دے دیا؟‘‘
گووندا میری صورت دیکھتا رہا۔ پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ سسکیاں لیتے ہوئے بولا۔ ’’جیون سے زیادہ پیاری ہے وہ ہمیں۔ بچپن سے ہماری ہے وہ۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کے سوا کچھ نہیں سوچا۔ بچپن میں بھی وہ کہتی تھی کہ گووندا ہم ہمیشہ ساتھ کھیلا کریں گے، چاہے بوڑھے ہوجائیں، چاہے مرجائیں۔ جوانی میں بھی اسے پوری امید تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ماتا پتا کی اکیلی ہے وہ اس کے لیے جیون دے دیں گے۔ وہ اس کے لیے اونچ نیچ کی ساری دیواریں گرادیں گے اور ہمیں ایک کردیں گے، مگر یہ نہ ہوا۔ سری رام جی اتنے کٹھور ہوگئے کہ انہوں نے ان پر بھی دیا نہ کی جنہوں نے جیون بھر ان کی سیوا کی۔ ہم نے اپنے ماتا پتا اپنے پریم کی بھینٹ چڑھا دیئے۔ میاں جی ہمیں یہ حق نہ تھا۔ ہزار بار مرجاتے ہم اپنے ماتا پتا کے لیے مگر۔ مگر سری رام جی نے۔ پھر ہم پر شیطان آگیا اور، اور ہم شیطان بن گئے۔ سب کچھ کھودیا ہم نے۔ جیون میں بس ایک آشا ہے، پوجا۔ نہیں میاں جی، اتنا بڑا بلیدان دینے کے بعد ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب… پوجا ہماری ہوگی… ورنہ کسی کی نہ ہوسکے گی۔ وہ بھی اس سنسار سے جائے گی ہم بھی جائیں گے۔ شیطان اب انسان نہیں بن سکتا میاں جی، ہمیں معاف کردینا۔‘‘ وہ مڑا اور واپس چلاگیا۔ یہ بات میں خود بھی جانتا تھا کہ شیطان انسان نہیں بن سکتا۔ نتیجہ کیا ہوگا۔ مگر نتیجہ کچھ بھی ہو میرے لیے اب یہ معاملہ غیر اہم ہوگیا تھا۔ میں وہ نہیں کرسکتا تھا جو سری رام چاہتے تھے۔ کچھ دیر کے بعد میں واپس چل پڑا…
سلامت علی کی حویلی کا ماحول عجیب ہورہا تھا۔ چچی جان یعنی بیگم سلامت علی سب سے پہلے نظر آئی تھیں، مجھے دیکھ کر یکدم ساکت ہوگئیں۔ پھر بے اختیار مجھے سلام کیا اور غڑاپ سے کمرے میں گھس گئیں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔ حیران حیران اپنے کمرے میں داخل ہوگیا۔ ایک ملازم کھانے کے لیے پوچھنے آیا تو میں نے کہا۔
’’کھانا نہیں کھائوں گا۔ فراست کہاں ہے؟‘‘
’’اندر ہیں۔‘‘
’’میرے پاس بھیج دو۔‘‘ میں نے کہا اور ملازم چلاگیا۔ میں انتظار کرنے لگا۔ کافی دیر گزر گئی فراست نہیں آیا تھا۔ نہ جانے کیا قصہ تھا۔ صورت حال معلوم کرنے کے لیے نکلنا ہی چاہتا تھا کہ دروازے پر آہٹیں محسوس ہوئیں پھر فرخندہ اور فراست ایک ساتھ اندر آئے تھے۔ دونوں نے سر پر ہاتھ رکھ کر مجھے سلام کیا تھا۔ میں مسکراتی نظروں سے انہیں دیکھنے لگا، پھر میں نے کہا۔ ’’یہ کوئی نیا ڈرامہ ہے؟‘‘
’’ہمارا قصور نہیں ہے۔ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا تھا…‘‘ فرخندہ نے کہا۔
’’جو بدتمیزی ہوئی صرف اس خیال کے ساتھ ہوئی کہ آپ ابو کے دوست کے بیٹے ہیں اور پھر آپ ہمارے ہم عمر بھی ہیں۔‘‘ فراست بولا۔
’’کیا ہوگیا تم دونوں کو؟‘‘
’’ہمیں اصل بات پتا چل گئی ہے۔‘‘
’’کونسی اصل بات…؟‘‘
’’سری رام چچا، ابو کے پاس آئے تھے۔ ہم دونوں نے ان کی باتیں سنیں اور ہمیں سب معلوم ہوگیا۔ رات کو گنگولی مارا گیا نا…؟‘‘
’’ہمیں معاف کردیجیے شاہ صاحب! ہم نے واقعی آپ کی شان میں بڑی گستاخیاں کی ہیں۔‘‘
’’ارے خدا تمہیں سمجھے۔ تم نے مجھے ایک اور نام دے دیا۔ آئو بیٹھو کیا بات ہوئی سری رام جی اور سلامت علی صاحب کے درمیان…‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ دونوں بڑے احترام سے میرے سامنے بیٹھ گئے۔ پوری طرح سنجیدہ نظر آرہے تھے۔
’’چاچا جی ابو کے بخار کی سن کر آئے تھے، مگر ابو تو اسی وقت ٹھیک ہوگئے جب آپ نے کہا تھا کہ بخار ابھی تھوڑی دیر میں اتر جائے گا۔ ان کی بحرانی کیفیت بھی اسی وقت ٹھیک ہوگئی تھی۔ ابو نے چاچا جی سے کہا کہ سری رام میں تمہیں ایک ایسی خوشخبری سناتا ہوں کہ تم خوشی سے پاگل ہوجائو گے۔ ہمیں بھی دلچسپی پیدا ہوگئی اور ہم دونوں نے چھپ کر ان کی باتیں سنیں تب ہمیں معلوم ہوا۔‘‘
’’کیا معلوم ہوا…؟‘‘
یہی کہ آپ ایک نوجوان درویش ہیں اور جمال گڑھی میں آپ نے بہت کچھ کیا ہے جس کی بناء پر بھلاّ صاحب اور سری رام آپ کو وہاں سے بلاکر لائے اور پچھلی رات آپ کے علم سے گنگولی مارا گیا۔
’’یہ غلط ہے۔ اسے گووندا نے مارا ہے لیکن تم دونوں نے… اوہ میرے خدا کیاچچی جان کو بھی سب کچھ معلوم ہوگیا ہے… تبھی… وہ بھی سلام کررہی تھیں… تو یہ قصہہے۔‘‘
’’شاہ صاحب۔ آپ ہمیں معاف کردیں۔ فرخندہ نے کہا۔ ’’ہم نے انجانے میں بڑی گستاخیاں کی ہیں۔ میں نے تو نہ جانے کیا کیا بکواس کی ہے۔‘‘
’’میں نے کیا کم حماقتیں کی ہیں۔‘‘ فراست بولا۔
’’بھئی تم لوگوں نے خوب روپ بدلا ہے۔‘‘ میں بدستور ہنستے ہو ئے بولا۔
’’آپ اتنی چھوٹی سی عمر میں درویش کیسے بن گئے شاہ صاحب …اور یہ سب کچھ آپ کو کیسے آگیا؟‘‘
’’چلو تم لوگوں کو یہ معلوم ہو ہی گیا تو میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں خوب غور کر کے مجھے جواب دینا۔‘‘
’’جی شاہ صاحب!‘‘
’’گووندا پوجا سے محبت کرتا ہے۔ پوجا بھی اسے چاہتی ہے۔ تم لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوگا۔ سری رام جی اپنی جیسی کر کے ہار گئے اور اب وہ میرے ذریعہ گووندا کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ جائز ہوگا؟‘‘
’’بالکل نہیں!‘‘ فرخندہ نے فوراً کہا۔
’’ہمارے مذہب میں تو اونچ نیچ نہیں ہے، جو صدق دل سے کلمہ پڑھتا ہے وہ دوسرے کلمہ گو کا ہم پلہ ہے اور پھر سری رام نے گووندا کے ساتھ کیا نہیں کیا۔ اب اگر اس نے مجبور ہو کر شیطانی طاقتوں کا سہارا لے لیا ہے تو سری رام چاچا بھاگتے پھر رہے ہیں۔ ’’فراست بولا اور میں مسکرا خاموش ہوگیا۔ ان دونوں کے الفاظ نے مجھے ڈھارس دی تھی۔ شام کو سری رام جی پھر آگئے ۔ میں سلامت علی کے پاس آکر بیٹھا ہی تھا اور ہم کوئی گفتگو شروع بھی نہ کر پائے تھے کہ سری رام جی کے آنے کی اطلاع ملی تھی۔ سلامت علی نے انہیں یہیں بلوا لیا۔ سری رام جی ہاتھ جوڑے اندر آگئے تھے۔ آج ان کی کھیسیں نکلی ہوئی تھیں۔
’’جے ہو مہاراج کی۔ اندھے ہیں، ہم کیا جانیں کہ کونسا روپ مہان ہے وہ سیوا نہ کر پائے آپ کی جو کرنی چاہیے تھی۔آپ نے تو مشکل ہی ختم کردی ہماری۔ ہمارے آدمی دیکھ آئے سلامت ، پاپی گنگولی کا ڈیرہ اجڑا پڑا ہے۔ بدبو پھیلی ہوئی ہے چاروں طرف… سڑاند اٹھ رہی ہے، جے ہو مہاراج کی اب اس پاپی گووندا کا کریا کرم اور کر دیں مہاراج، جان چھوٹ جائے کمینے سے۔‘‘
’’کچھ کہنا ہے آپ سے سری رام جی، اچھا ہے آپ آگئے۔‘‘
’’حکم دیں مہاراج حکم دیں۔‘‘ سری رام مجسم نیاز بنے ہوئے تھے۔
آپ کا ذاتی معاملہ ہے ہم کسی بات پر زور نہیں دیں گے مگر پتا چلا ہے کہ آپ کی بیٹی بھی بچپن سے گووندا کو چاہتی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہے۔‘‘
’’بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں مہاراج، بال ہٹ جانتے ہیں آپ، مگر ذات پات بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ریت رواج بھی کچھ ہوتے ہیں، ہم کھرے برہمن ہیں اور وہ سسرا اچھوت ہے، کوئی جوڑ تو ہو، کوئی میل تو ہو۔ ہمارے در کے ٹکڑے کھا کر جوان ہوا ہے۔ ہمارے برابر کیسے کھڑا ہوسکتا ہے۔ ذات برادری ہے ہماری، بھول کر بھی ایسی بات نہیں سوچ سکتے۔‘‘
’’آپ نے اس پر سختیاں بھی بہت کی ہیں۔‘‘
’’غلطی بھی کی ہے ہم نے۔ رحم کھا گئے اس پر‘‘ زندہ پھنکوا دیا۔ بس اسی کئے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اسی وقت کھیل ختم کر دیتے تو اچھا تھا مگر سمے گزر گیا، اب آپ ہی اسے ٹھکانے لگا سکتے ہیں مہاراج۔‘‘
’’نہیں سری رام جی، یہ کام ہم نہیں کرتے، ہمارا ہر قدم اللہ کے حکم سے اٹھتا ہے۔ کسی انسان کو دوسرے انسان کی زندگی لینے کا حق نہیں ہے۔ اگر اس کا عمل شیطانی ہے تو اسے قدرت سے سزا ملے گی۔ ہم اس کے جادو کا توڑ کر سکتے تھے مگر اس کا ایک مقصد ہے۔ وہ برائی کے راستے چھوڑ کر نیک راستوں پر آسکتا ہے۔ ہمارے دین میں اونچ نیچ نہیں ہوتی۔ انسان سب ایک جیسے ہوتے ہیں، نہ کوئی اچھوت نہ برہمن۔ وہ اگر چاہتا تو شیطانی طاقتوں کا سہارا لے کر کبھی کا آپ کی بیٹی کو اٹھا لے جاتا لیکن بقول آپ کے نیچ ذات ہو کر بھی اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے اپنے پیار کی بے حرمتی نہیں کی۔ وہ اب بھی یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ آپ نے اس کے کالے جادو کی قوتیں اب تو خود دیکھ لیں، میرے خیال میں اب ضد نہ کریں اسے اپنالیں ورنہ وہ آپ کو آسانی سے تباہ کرسکتا ہے۔‘‘
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘ سلامت علی نے کہا۔
’’ہاں سلامت علی صاحب، بات ذات پات کی آگئی ہے اور یہ تفریق ہمارے مذہب میں گناہ ہے۔ میں اس بنیاد پر کچھ نہیں کرسکتا، مجبوری ہے اگر کوئی شیطان، سفلی قوتوں کا سہارا لے کر کسی بے گناہ کو نقصان پہنچا رہا ہوتا تو دوسری بات تھی مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔‘‘
ارے یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ سلامت انہیں سمجھائو، کیا میں، کیا میں اپنی بیٹی اس اچھوت کو، اس چمار کو دے دوں۔‘‘ سری رام کلس کر بولے۔
’’ایسا ہوتا نہیں ہے مسعود میاں۔‘‘ سلامت علی بولے۔
’’اللہ جانے، میں معذور ہوں۔‘‘
’’ڈر گئے ہو گووندا سے میاں جی، یہ کیوں نہیں کہتے۔‘‘ سری رام بولے۔
>’’آپ کو سب کچھ کہنے کا اختیار ہے، سری رام جی۔‘‘
’’ارے بھائی، ہمارا کام کر دو۔ جو مانگو گے دیںگے۔ بیس ہزار، پچاس ہزار بولو کیا لو گے۔ سلامت انہیں سمجھائو۔‘‘ سری رام بے حواس ہوتے جارہے تھے۔
’’یہ پیشکش آپ گووندا کو دیں، ممکن ہے وہ راضی ہو جائے۔ ویسے میری یہی رائے ہے۔ آپ چاہیں تو خاموشی سے کسی دوسرے شہر جا کر یہ کام خاموشی سے کردیں، کچھ بھی کریں یہ ہوگا ضرور۔‘‘
’’ہوں، ٹانگ برابر چھو کرے ہو میاں جی… باتیں لمبی کرتے ہو۔ بڑے آئے پیر ٹنڈن شاہ بن کر۔ ارے تم سن رہے ہو اس کی باتیں سلامت علی۔‘‘ سری رام بگڑ گئے۔ میں مسکراتا رہا۔ سلامت علی دم بخود تھے۔ سری رام کھڑے ہوگئے۔ پھر بولے۔’’ میں جارہا ہوں سلامت، آگ لگا دی ہے میرے من میں اس نے۔ اسے سمجھائو، نہ مانے تو …تو… تم جانو تمہارا کام۔‘‘ وہ تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ سلامت علی مسلسل خاموش تھے…! میں نے مسکرا کر انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جی محترم سلامت صاحب، کیا حکم ہے آپ کا۔‘‘ سلامت علی خاموشی سے کچھ سوچ رہے تھے۔ پھر انہوں نے کہا۔
’’دوستی دنیا تک ہے۔ مسعود شاہ صاحب، اس کے بعد قبر میں جانا ہے۔ ایک ایسے کام کی حمایت کیسے کرسکتا ہوں، جس کی اجازت مذہب نہ دیتا ہو۔ آپ سب کچھ بہتر سمجھتے ہیں، میں بھلا یہ بینائی کہاں رکھتا ہوں۔ آپ کا فیصلہ بہتر ہے اب وہ جانے اور اس کا کام۔‘‘
’’شکریہ… بیشک وہ ہمارے ہم مذہب نہیں مگر جیتے جاگتے انسان ہیں۔ خیر میرا فیصلہ اٹل ہے مگر اب یہاں میرا رکنا مناسب نہیں ہے۔ آپ کی دوستی میں رخنہ پڑے گا۔ سری رام میرے یہاں رہنے سے خوش نہیں ہوگا چنانچہ آپ مجھے اجازت دیجیے۔‘‘
’’ابھی… اسی وقت۔‘‘
’’ہاں جب ایک کام کرنا ہے تو دیر مناسب نہیں ہے۔ آپ سری رام سے کہہ دیں کہ اس گفتگو کے بعد میں یہاں نہیں رکا۔‘‘ میں نے کہا اور سلامت علی صاحب افسردہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا۔
’’ہمیں تو خدمت کی سعادت حاصل ہی نہ ہو سکی۔ کم نگاہ تھے کہ آپ کو سمجھ ہی نہ سکے۔ بچے آپ کے جانے سے اداس ہو جائیں گے۔‘‘ میں نے سلامت صاحب سے کہا کہ وہ فراست اور فرخندہ کو کچھ نہ بتائیں ورنہ وہ مجھ سے رکنے کی ضد کریں گے۔ انہیں دونوں کی وجہ سے میں جلدی وہاں سے چل پڑا۔ سلامت علی کو میں نے اسٹیشن تک چلنے کے لیے منع کردیا تھا اور خود تانگے میں بیٹھ کر چل پڑا تھا۔ چندوسی کے چھوٹے سے اسٹیشن پر کہیں سے ایک ٹرین آکر رکی تھی۔ میں خاموشی سے اس میں سوار ہوگیا۔ سلامت علی نے انتہائی خوشامد کر کے کچھ پیسے دے دیئے تھے۔ مجبوری تھی کیونکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا، ٹکٹ وغیرہ خریدنے کے جھمیلے میں اس لیے نہیں پڑا تھا کہ کہیں فراست اور فرخندہ کو میری روانگی کے بارے میں معلوم نہ ہو جائے اور وہ جذباتی ہو کر اسٹیشن دوڑ پڑیں۔ ٹرین کہاں سے آئی ہے کہاں جائے گی، کچھ پتا نہیں تھا، چند لمحات کے بعد اس نے اسٹیشن چھوڑ دیا۔ نچلے درجے کا ڈبہ تھا۔ معمولی قسم کے مسافر بھرے پڑے تھے۔ ایک مسافر نے اپنے قریب جگہ دے دی اور میں بیٹھ گیا۔ ٹرین کی آواز ذہن کو سلائے دے رہی تھی، رات کے بارہ بجے کے قریب ٹکٹ کلکٹر آگیا اور سوتے ہوئے مسافروں کو جگا جگا کر ٹکٹ مانگنے لگا۔ میں نے جیب سے پیسے نکال لیے اور ٹکٹ کلکٹر کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا، جب وہ قریب پہنچا تو میں نے پیسے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’چندوسی کے اسٹیشن سے سوار ہوئے ہیں بھائی، یہ ریل جہاں جا رہی ہے وہاں کا ٹکٹ دے دو۔‘‘ ٹکٹ چیکر نے چونک کر مجھے دیکھا اور پھر سلام کر کے آگے بڑھ گیا۔ میں ہاتھ میں پیسے لیے منہ کھولے اسے دیکھتا رہ گیا۔ میرے برابر ہی ایک میلے کچیلے سے کمبل میں منہ ڈھک کر سوتے ہوئے شخص نے کمبل کا کونہ سرکایا اور ’’شی شی‘‘ کا اشارہ کر کے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ ایک بوڑھا باریش آدمی تھا، ہنس کر بولا۔
’’آرام بڑی چیز ہے، منہ ڈھک کر سوئیے۔‘‘ میں نہیں سمجھ سکھا کہ اس نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے۔ اس نے دوبارہ کمبل منہ پر ڈھک لیا تھا۔ میں پریشان نظروں سے دور پہنچ جانے والے ٹکٹ چیکر کو دیکھنے لگا تو اچانک باریش شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور بڑی زور سے مجھے اپنی طرف گھسیٹ لیا اور پھر کمبل میرے چہرے پر بھی ڈھک دیا۔ میرے بدن میں سناٹا سا پھیل گیا تھا۔ کمبل کی تاریکی میں ایک لمحے کے لیے گھٹن کا احساس ہوا اور پھر فنا ہوگیا۔ مدھم مدھم سے مناظر نگاہوں میں ابھرنے لگے۔ آہستہ آہستہ عجیب سی روشنی پھیلتی جارہی تھی۔ میں حیرانی سے اس روشنی کو دیکھنے لگا۔ ایک شخص ہاتھ میں جھاڑو لیے قریب آتا ہوا محسوس ہوا اور پھر مجھ سے کچھ فاصلے پر رک کر اس نے جھاڑو دینا شروع کردی۔ گرد اُڑ رہی تھی۔ میں نے گرد سے بچنے کے لیے کمبل سر پر اوڑھ لیا اور چہرہ ڈھک لیا۔ جھاڑو کی آوازیں مسلسل ابھر رہی تھیں۔ جب وہ دور چلی گئیں تو میں نے چہرہ کھول کر دیکھا۔ صبح کا سہانا وقت تھا۔ کافی فاصلے پر لال رنگ کے پتھروں سے بنی ہوئی ایک عمارت نظر آرہی تھی۔ غالباً مسجد تھی، اس کی سیڑھیوں سے نمازی نماز پڑھ کر نیچے اتر رہے تھے۔ دماغ کو ایک جھٹکا سا لگا، چونک کر چاروں طرف دیکھا۔ نہ ٹرین تھی، نہ ٹرین کے مسافر اور نہ ہی وہ کمبل پوش مسافر، لیکن کمبل میرے پاس تھا اور سو فیصدی وہی تھا جس میں مجھے چھپا لیا گیا تھا۔ دل کو احساس ہوا جیسے میرے پاس کائنات کی ساری دولت آگئی ہو، مگر حیرانی اپنی جگہ تھی۔ یہ سب ہوا کیا۔ ہوش و حواس کے عالم میں ریل میں بیٹھا تھا اور سب کچھ غائب ہوگیا۔ یہ کونسی جگہ ہے اور… آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ دور سے ایک گھوڑا گاڑی نظر آئی جو اسی طرف آرہی تھی۔ میرے قریب سے گزر کر وہ مسجد کے سامنے رک گئی۔ اس سے کچھ لوگ نیچے اترے اور کچھ سامان اتارنے لگے۔ پھر کچھ خواتین گھوڑا گاڑی سے نیچے اتر آئیں۔ قیمتی لباس پہنے ہوئے تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس سے بہت سے گدڑی پوش مرد عورتیں گھوڑا گاڑی کے پاس آگئے اور ہنگامہ آرائی ہونے لگی، لیکن گاڑی سے اترنے والے چار آدمیوں نے انہیں دھکے دے کر پیچھے ہٹایا اور پھر شاید ان کے کہنے سے وہ قطار بنا کر بیٹھ گئے۔ میں دلچسپی سے یہ تماشا دیکھنے لگا۔ انہیں شاید کھانا تقسیم کیا جارہا تھا۔ میرے پیٹ میں ایک دم کھلبلی مچ گئی۔ شدید بھوک کا احساس ہوا مگر قدم اس طرف نہ اٹھ سکے۔ میں خاموشی سے ادھر دیکھتا رہا۔ اچانک ایک آدمی میری طرف بڑھا اور قریب آگیا۔
’’ناشتہ لے لو بابا جی۔ ادھر قطار میں آجائو۔‘‘ ایک دم سے دل میں انا جاگی۔ میں فقیر تو نہیں ہوں مگر ذہن نے فوراً ٹوکا۔ رزق ٹھکرانا گناہ ہے اور جھوٹی انا دشمنی۔ رزق کے لینے کے لیے بڑھنے والے ہاتھ انسان کے سامنے نہیں اللہ کے سامنے پھیلتے ہیں۔ اٹھا اور اس شخص کے ساتھ چل پڑا… کمبل جسم سے لپٹا ہوا تھا۔ اس لیے جسم کا صاف ستھرا لباس چھپا رہا، فراست کے دیئے ہوئے کپڑے تھے، قیمتی اور خوبصورت۔ ان لوگوں نے دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے۔ اس لیے کمبل اور سنبھال لیا۔ اس شخص نے مجھے بھی قطار میں بٹھا دیا۔ حلوہ پوریاں اور ترکاری تھی۔ یہ چیزیں بڑے بڑے تھالوں میں سجی ہوئی تھیں۔ ڈھاک کے پتوں کے دونے بنے ہوئے تھے۔ ایک شخص تھال سنبھالے ہوئے تھا۔ دو اس کے پیچھے تھے۔ دونوں جوان لڑکیاں جو قیمتی پوشاک پہنے ہوئے تھیں تھال کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ ایک لڑکی دونے اٹھا کر دوسری کو دیتی اور دوسری یہ دونے فقیروں کو دے دیتی۔ غالباً یہ خیرات دوسری لڑکی کے ہاتھوں تقسیم کرائی جارہی تھی۔ تھال خالی ہوتا تو دوسرا تھال گھوڑا گاڑی سے آجاتا۔ آہستہ آہستہ وہ میرے قریب پہنچتے جارہے تھے۔ دونوں لڑکیاں بے حد خوبصورت تھیں۔ میں نے ایک نگاہ ان پر ڈال کر جھکائی مگر اس سرسری نگاہ ہی سے مجھے ایک انوکھا احساس ہوا۔ میں نے کچھ دیکھا تھا… اور جو کچھ دیکھا تھا ناقابل یقین تھا۔ گہرے کالے رنگ کا ایک ناگ ایک لڑکی کے جسم کے گرد بل ڈالے لپٹا ہوا تھا۔ وہ بہت لمبا اور پتلا تھا۔ اس کا نچلا حصہ لڑکی کی کمر سے لپٹا ہوا تھا اور باقی بدن بل کھاتا اوپر چلا گیا تھا۔ اپنے اس شہبے کو یقین کی شکل دینے کے لیے میں نے جلدی سے گردن اٹھائی، اسے دوبارہ دیکھا۔ وہ دونوں اب میرے سامنے تھیں۔ دونے لڑکی کے ہاتھ میں تھے اور وہ مجھے دینے کے لیے جھک رہی تھی۔ میں نے اس بار سانپ کو بخوبی دیکھ لیا، اس کا پھن لڑکی کے سر کے اوپر رکھا تھا اور اس کی آنکھیں بند تھیں۔ ایک دم انسانی کمزوری کا غلبہ ہوا۔ لڑکی جھکی تو میں چیخ مار کر پیچھے ہٹ گیا۔ اور میرے منہ سے آواز نکلی۔
’’سانپ، سانپ۔‘‘
دونے لڑکی کے ہاتھ سے نیچے گر گئے اور ان کا سامان بکھر گیا۔ سب چونک پڑے تھے۔ دونوں لڑکیاں بھی متوحش ہوگئی تھیں۔
’’کہاں ہے سانپ… کیسا سانپ؟ ‘‘ تھال سنبھالنے والوں نے کپکپاتے ہوئے بمشکل تھال سنبھال کر نیچے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ… یہ… میں انگلی سے سانپ کی طرف اشارہ کر کے ایک دم کھڑا ہوگیا۔ سانپ کا اونگھتا ہوا سر جنبش کرنے لگا۔ اس نے ایک دم آنکھیں کھول دیں اور اس کی ننھی سرخ چنگاریوں جیسی آنکھیں مجھے گھورنے لگیں۔ ان میں کینہ توزی کی جھلک تھی۔ میرا اشارہ چونکہ لڑکی کے جسم کی طرف تھا اس لیے ان لوگوں نے لڑکی کو بھی دیکھا۔ پھر ایک بولا۔
’’پاگل لگتا ہے۔ اٹھا یہ رزق… سب کچھ گرا دیا۔‘‘
’’تم لوگ…تم لوگ۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ میرے چہرے سے کمبل سرک گیا تھا۔ دوسری لڑکی نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر سے دونے اٹھا کر تقسیم کرنے والی لڑکی کو دے کر بولی۔
’’لو مہر، زمین پر گری چیزیں خراب ہوگئی ہیں اور دے دو!‘‘ میں شدت حیرت سے گنگ ہوگیا۔ یہ لوگ لڑکی کے جسم سے لپٹے سانپ کو دیکھ نہیں پا رہے یا…! اس بار دونے میرے ہاتھوں میں آگئے تھے مگر میں نے کچھ پیچھے ہٹ کر انہیں لیا تھا۔ وہ آگے بڑھ گئیں مگر میں پاگلوں کی طرح انہیں دیکھ رہا تھا۔ یا الٰہی یہ کیا قصہ ہے۔ کالے سانپ نے لڑکی کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور یہ لوگ نہ تو اس سے خوف کھا رہے ہیں اور نہ اسے کوئی اہمیت دے رہے ہیں۔ دونوں لڑکیاں ناشتہ تقسیم کرنے والے آخری فقیروں کو بھی ناشتہ دے چکے تو واپس پلٹے۔ انہوں نے مجھے دیکھا میں اسی طرح دونے پکڑے بیٹھا ہوا تھا۔ اس بار انہوں نے مجھے ہمدردی سے دیکھا تھا۔ سب گھوڑا گاڑی میں بیٹھ گئے اور کوچوان نے اپنی جگہ سنبھال لی۔
’’ابے پیٹ بھرا ہوا ہے کیا پہلوان۔‘‘ میرے برابر بیٹھے ہوئے فقیر نے للچائی ہوئی نظروں سے میرے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ایں…! میں چونک پڑا۔
’’میرے کو دے دے خلیفہ، کلّن کا پیٹ چار پوریوں سے نہیں بھرنے کا۔ دے دے استاد اللہ تیرا بھلا کرے گا۔‘‘ اس نے لجاجت سے کہا اور میں نے دونے اس کی طرف بڑھا دیئے۔
’’ارے ارے، کھانے دے اسے کلن، اللہ تیرا پیٹ کبھی نہیں بھرے گا۔‘‘ قریب بیٹھی ایک عورت نے کہا۔ اس کے ساتھ دو بچے تھے جو جلدی سے نیچے گری ہوئی پوریاں اور حلوہ اٹھا کر بھاگے۔
’’اے بی تمہیں کیا ہو رہا ہے۔ اپنی خوشی سے دیا ہے اس نے، آئیں کہیں سے بی ہمدرد۔ کلّن نے پوریوں کے نوالے بناتے ہوئے کہا۔ اسی وقت دوسرا فقیر چیخا۔
’’لو اور ناشتہ آرہا ہے کلّن استاد… ‘‘ گھوڑا گاڑی پھر واپس آرہی تھی۔ کلّن نے سرگوشی میں کہا۔
’’میاں بھائی۔ تیرے کو اگر ضرورت نہیں ہے تو میرے لیے لے لیجیئو۔ اللہ تجھے خوش رکھے میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘ گھوڑا گاڑی کچھ فاصلے پر رک گئی۔ اس بار اس سے عورتیں نیچے نہیں اتری تھیں بلکہ ایک بھاری جسامت کا دراز قامت شخص نیچے اترا تھا۔ اس کے جسم پر قیمتی شیروانی تھی، چوڑی دار پاجامہ، سیاہ وارنش کے پمپ پہنے ہوئے تھا۔ اس کے پیچھے ہی دونوں آدمی بھی نیچے اترے تھے جو پہلے تھال اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ تینوں اس طرف بڑھنے لگے۔ کلّن نے انہیں غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ابے لو، پھوٹ لے خلیفہ… کوئی اور چکر ہے‘ نکل لے، نکل لے۔‘‘ وہ جلدی سے اٹھا اور پیچھے کھسک گیا۔
شیروانی والا شخص پروقار چال چلتا ہوا میرے سامنے آگیا۔ ان دونوں افراد نے میری طرف اشارہ کردیا۔ دوسرے فقیر ابھی ناشتہ ہی کر رہے تھے۔
’’آپ ناشتہ نہیں کر رہے میاں صاحب۔‘‘ پُر رعب شخص نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ایل لو، کیسے ناشتہ کرے بے چارہ، وہ کالیا کلّن جو چار سو بیسی کر کے اس کا ناشتہ لے گیا۔ بے چارے کو اور دے دو میاں جی بھوکا ہے۔‘‘ عورت نے سفارش کی۔
’’آپ کو تھوڑی سی زحمت دینا چاہتا ہوں میاں صاحب، غریب خانے تک زحمت کرنی ہوگی۔‘‘
’’مم میں… وہ…وہ۔‘‘ میں گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔
’’بعد میں آپ جہاں حکم دیں گے وہاں پہنچا دیا جائے گا، خدارا انکار نہ کیجیے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔ میاں فتح محمد کوئی تانگہ کر کے میاں صاحب کو احترام سے گھر لے آئو۔ وہ دیکھو، وہ خالی تانگہ گزر رہا ہے۔‘‘ اس شخص نے ایک سمت اشارہ کیا، اور دوسرا آدمی تانگے کی طرف دوڑ گیا۔ میں گہری سانس لے کر خاموش ہوگیا۔ تقدیر کے فیصلے اہم ہوتے ہیں۔ ہر تحریک کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ آخر مجھے کسی کام کے لیے ہی یہاں بھیجا گیا ہے اور کام… وہ تو شاید میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔
تانگہ آگیا، اس شخص نے مجھے اپنے سامنے تانگے میں سوار کرایا۔ دونوں ملازم نما آدمی بھی تانگے میں بیٹھ گئے اور شیروانی والے نے تانگے والے سے کہا ’’ہماری گاڑی کے پیچھے پیچھے آ جائو۔‘‘
’’جی سرکار عالی۔‘‘ تانگہ گھوڑا گاڑی کے پیچھے چلتا رہا۔ میں دونوں طرف بنی عمارتوں کو دیکھ رہا تھا۔ کوئی بڑا شہر تھا مگر میرے لیے اجنبی تھا۔ اپنا تجسس نہ روک سکا اور پوچھ بیٹھا۔
’’یہ کونسا شہر ہے بھائی…‘‘ میرے قریب بیٹھے دونوں ملازم چونک پڑے۔ ’’تانگے والا بے اختیار بول پڑا۔‘‘
’’دلی ہے بھائی میاں، کہیں باہر سے آئے ہو۔‘‘
’’تم تانگہ چلائو شیخ جی، میاں صاحب کا بھیجہ ٹلاّ ہے۔‘‘فتح محمد نے کہا اور دوسرا ملازم اسے گھورنے لگا۔
’’تیری کترنی کبھی قابو میں نہیں آئے گی، فتے چپکا بیٹھ…‘‘
’’اماں تو مرچی کائے کو چبارئے ہو، میں نے کیا کر دیا؟‘‘ فتح محمد نے برا مانتے ہوئے کہا۔
’’بس تو چپکا بیٹھا رہ…‘‘
’’کمال ہے۔ عمر قید نہیں۔ کائے کو میرے اوپر حکم چلاتے رہتے ہو، تمہارا دبیل ہوں؟‘‘
’’ لڑنا بری بات ہے بھائی تحمل سے کام لو…‘‘ میں نے انہیں ٹوکا۔
’’ابے لے، بول پڑے مرلی داس، میاں بھائی سب تمہارا کیا دھرا ہے۔‘‘ فتح محمد نے کہا۔
’’میرا؟‘‘
’’تو اور کیا میاں بھائی، وہ سانپ کاں سے نظر آگیا تمہارے کو…‘‘
’’سانپ۔‘‘ میں آہستہ سے بولا۔
’’سن لو بندو خاں صاحب، میاں جی بھول گئے، اور سنائو بڑے میاں صاحب کو سانپ کی کہانی۔‘‘
’’خدا کے لیے چپ رہو ۔ گھر جاکر بات کرلینا۔‘‘ دوسرے ملازم نے کہا۔
’’یہ شہر دہلی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اماں تم کیا بارہ بنکی سے آئے ہو۔‘‘
’’ہاں، میں یہاں اجنبی ہوں۔‘‘
’’کاں کے رہنے والے ہو۔‘‘ فتح محمد بولا۔
’’چندوسی سے آیا ہوں۔‘‘
’’تو یہ نہیں پتا کہ دلی میں اترے ہو۔ ابے بھائی میاں کیا ہوائی جہاز سے گر گئے تھے۔‘‘
’’نہیں بس یونہی۔‘‘ میں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’دلی میں ہو پہلوان اور فتح پوری کی جمعہ مسجد پر بیٹھے تھے۔ اب سمجھ میں آگئی مگر وہ سانپ کاں سے نظر آگیا تمہیں۔‘‘
فتح محمد بولنے کا مریض تھا…!
’’وہ کون صاحب ہیں جو شیروانی پہنے ہوئے تھے؟‘‘
’’شیخ عبدالقدوس اچھے نواب بہت بڑی سرکار ہے۔ آدھی دلی ان کی ہے اللہ کے فضل سے۔‘‘ فتح محمد بولا۔
وہ دونوں لڑکیاں کون تھیں…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ایک مہر النسا، شیخ صاحب کی چھوٹی بٹیا اور دوسری…‘‘
’’فتح محمد قسم کھا رہا ہوں اچھے نواب سے تیری شکایت ضرور کروں گا۔ رستے میں بک بک کیے جارہا ہے یہ کوئی اچھی بات ہے۔‘‘ ملازم بندو خان نے کہا اور فتح محمد برا سا منہ بناکر خاموش ہوگیا۔
میں نے بھی خاموشی اختیار کرلی لیکن حالات کا کچھ اندازہ ضرور ہو رہا تھا۔ وہ لڑکی میرے لیے معمہ بنی ہوئی تھی جس کے جسم پر میں نے پورے ہوش و حواس کے عالم میں سانپ لپٹے ہوئے دیکھا تھا۔ مگر دوسرے اس سے لاعلم تھے۔ کیوں آخر کیوں پھر ایک قدیم طرز کی شاندار حویلی کے احاطے کے سامنے تانگہ رک گیا۔ گھوڑا گاڑی اندر داخل ہوگئی تھی۔ ہم تانگے سے نیچے اتر آئے۔ گھوڑا گاڑی کی سواریاں اندر چلی گئی تھیں۔ شیروانی والے شیخ صاحب ہمارا انتظار کررہے تھے۔ ان کے پاس ایک اور شخص کھڑا ہوا تھا جسے دیکھ کر اچانک میرے دماغ میں ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ یہ چہرہ، یہ چہرہ میں پہچان گیا تھا۔
یہ وہی نواب قسم کا آدمی تھا جسے میں نے اس وقت دیکھا تھا جب لوگ مجھے رتنا کہتے تھے۔ اسی شخص کے ساتھ میں نے ماموں ریاض کو شکنتا کے کوٹھے پر جاتے ہوئے دیکھا تھا اور بعد میں یہ مجھے نہیں مل سکا تھا۔ مجھے اس کا نام نہیں یاد تھا مگر اتنا پتا چلا تھا کہ یہ لوگ الٰہ آباد کے رہنے والے تھے۔ بعد میں ان لوگوں کا کوئی پتا نہیں چل سکا تھا۔ آہ کیا ماموں ریاض بھی اس کے ساتھ ہیں۔ شیخ عبدالقدوس احترام سے آگے بڑھے اور بولے۔
’’تکلیف دہی کی معافی چاہتا ہوں قبلہ! دلی آرزو ہے کہ ایک مختصر وقت کے لیے مجھے شرف میزبانی بخشیں۔‘‘
’’آپ کو کوئی کام ہے ہم سے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اس حقیقت سے انکار کرکے جھوٹ بولنے کا جرم نہیں کروں گا۔‘‘ شیخ صاحب بولے۔
’’اگر آپ کا خیال ہے کہ ہم آپ کے کسی کام آسکتے ہیں تو ہم حاضر ہیں۔ اگر آپ کا کام ہم سے نہ ہوسکے تو ہمیں مجرم قرار نہ دیجیے گا۔‘‘
’’وہ میری تقدیر ہوگی۔ آپ کے قدموں کی برکت ہی سے فیضیاب ہولوں گا۔‘‘ شیخ صاحب نے کہا۔ پھر فتح محمد سے بولے۔ ’’میاں فتح محمد! میاں صاحب کو مہمان خانے لے جائو اور عزت و احترام سے وہاں قیام کرائو۔ تمہاری خدمات ان کے لیے ہیں، انہیں کوئی تکلیف ہوئی تو سزا پائو گے۔‘‘
’’جی سرکار۔‘‘ فتح محمد نے خم ہوکر کہا۔ پھر میرے سامنے گردن جھکا کر بولے۔ ’’آیئے میاں صاحب!‘‘ میں شانے ہلا کر اس کے ساتھ چل پڑا۔ مہمان خانہ حویلی کے بغلی حصے میں تھا۔ اس میں داخل ہونے کا راستہ بھی دوسری سمت سے تھا۔ اس طرف آم اور شریفے کے درختوں کی بھرمار تھی۔ تین چوڑی سیڑھیاں عبور کرکے ایک عریض دالان آیا اور فتح محمد نے دالان میں بنے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا۔
’’سب سے بڑھیا کمرہ دے رہا ہوں میاں صاحب! تمہارے کو قسم اللہ کی نصیب کھل گئے تمہارے تو۔ ابھی چار دن پہلے نواب مینڈو گئے ہیں۔ اس کمرے سے جاتے ہوئے سو روپے دے گئے تھے میرے کو، کہنے لگے میاں فتح! جب بھی یاں سے نوکری چھوڑو، میرے پاس آجائیو نہال کردوں گا۔ ویسے بھائی میاں! کونسی بینٹی گھما دی تم نے ہمارے شیخ صاحب پر! بڑا دم بھر رہے ہیں تمہارا۔‘‘
’’تم واقعی بہت زیادہ بولتے ہو فتح محمد!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میاں صاحب! ہم تو یہ سوچیں ہیں کہ زندگی زندہ دلی کا نام ہے اور مردہ دلی کو دلی سے باہر نکال پھینکنا چاہیے۔ بالکل ٹھیک کہا ہے مرزا جی نے! میاں ہنس بول کر زندگی گزار لو۔‘‘
’’ہاں! یہ تو ٹھیک ہے۔ ایک بات بتائو فتح محمد! یہ شیخ صاحب کے ساتھ جو ایک صاحب کھڑے ہوئے تھے، وہ کون تھے؟‘‘
’’نبّن میاں!‘‘
’’میں ان کا نام نہیں جانتا۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’ابے وہ ہاں… ایل لو… میاں صاحب! وہ اچھے نواب کی بڑی بٹیا فخرالنساء کے ممیا سسر ہیں۔ نام ہے ان کا الیاس خان الٰہ آبادی امرود… پیار سے سب لوگ انہیں نبّن میاں کہتے ہیں۔ ایک بات بتائوں پتے کی۔‘‘
’’بتائو!‘‘
’’بس میاں کھائو کمائو ہیں۔ کبھی اس کے گھر جا پڑے، کبھی اس کے گھر جا پڑے۔ شیخ صاحب بٹیا کے سسرال کا خیال کرتے ہیں۔ اب کوئی بیس دن ہوگئے یاں پڑے ہوئے، کھا رہے ہیں، اینڈ رہے ہیں۔‘‘
’’الٰہ آباد کے رہنے والے ہیں۔‘‘
’’ہاں! بڑی بٹیا کی سسرال الٰہ آباد میں ہے۔‘‘
’’ان کے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔‘‘
’’لو ان کے ساتھ اور کون ہوگا۔ آگے ناتھ نہ پیچھے پگا! بس یار دوست ہیں اور رنگ رلیاں…! ابے کیا بتائوں میاں صاحب!‘‘ فتح محمد کی بات ادھوری رہ گئی۔ بندو خان ناشتہ لے آئے تھے۔
’’تم میاں باتیں منٹھار رہے ہوگے۔ پتا ہے میاں صاحب نے ناشتہ نہیں کیا تھا۔‘‘
’’اماں ہاں… لو! بھول ہی گیا۔ تم بھی خدمت کر لو میاں صاحب کی۔ ایک سٹے کا نمبر مل گیا تو وارے نیارے ہوجائیں گے۔‘‘ فتح محمد نے ہنستے ہوئے کہا۔ ناشتہ بڑے اہتمام سے لایا گیا تھا۔ میری بھوک پھر چمک اٹھی۔ میں خاموشی سے ناشتہ کرنے میں مصروف ہوگیا۔ بندو خان نے فتح محمد کو کوئی کام بتا کر وہاں سے بھیج دیا تھا۔ خود بندو خان سمجھدار اور سنجیدہ آدمی تھا۔ خاموش بیٹھا رہا۔ میں نے بھی اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ پھر وہ برتن اٹھا کر چلا گیا۔ مہمان خانے کا یہ کمرہ بے مثال سجاوٹ کا حامل تھا۔ مسہری بے حد قیمتی تھی، دوسری چیزیں بھی اسی معیار کی تھیں۔ میں گہری سانسیں لے کر ایک گوشے میں جا بیٹھا۔ جو کچھ ہوا تھا، اس پر غور کررہا تھا۔ چندوسی سے ریل میں بیٹھا تھا۔ کمبل پوش کے الفاظ سنے تھے اور بس! اس کے بعد یہ سب کچھ۔ وہ کمبل اب میرے پاس تھا۔ اس سے بڑی حقیقت اور کیا ہوسکتی تھی۔ مگر دل سے سوال کرتا تو جواب ملتا کہ مجھے یہاں بھیجا گیا ہے اور یہ سب کچھ بے مقصد نہیں ہے۔ مجھے اس مقصد کے سامنے آنے کا انتظار کرنا چاہیے۔ البتہ دل میں رہ رہ کر الٰہ آباد کے الیاس خان کا خیال آرہا تھا۔ اس شخص سے اگر ماموں ریاض کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکے تو۔ باہر آہٹیں ابھریں۔ پھر شیخ عبدالقدوس اندر داخل ہوگئے۔ میں نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا۔
’’مجھے گناہ گار نہ کیجیے میاں صاحب! آپ تشریف رکھیے۔ کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں آپ سے!‘‘
’’حکم فرمایئے۔‘‘
’’میاں صاحب! اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دیتا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ اس نے آپ کو کیا دولت عطا کی ہے۔ آپ نے میری بچی کو دیکھ کر کچھ سانپ کا حوالہ دیا تھا، وہ کیا تھا؟ تانگے میں بیٹھ کر میرے ملازموں نے یہ تذکرہ کیا تھا اور میرا دل بے اختیار چاہا تھا کہ آپ کو غریب خانے پر زحمت دوں۔‘‘
’’وہ خاتون آپ کی صاحبزادی ہیں۔‘‘
’’جی! میری دو بیٹیاں ہیں۔ معبود کریم نے یہی دو بیٹیاں عنایت فرمائی ہیں۔ بڑی کے فرض سے سبکدوش ہوچکا ہوں، چھوٹی کے لیے ابھی کچھ نہیں سوچا تھا کہ وہ اس مصیبت کا شکار ہوگئی۔‘‘
’’وہ مصیبت کیا ہے؟‘‘
’’آپ کے سوال کا جواب دینا میرا فرض ہے۔ حالانکہ میرا سوال تشنہ رہ گیا ہے۔ آپ نے اس وقت سانپ، سانپ کیوں کہا تھا؟‘‘
’’کیا آپ لوگ ان کے بدن سے لپٹے ہوئے سانپ سے خوف زدہ نہیں ہوتے؟‘‘
’’بدن سے لپٹے ہوئے سانپ سے…؟‘‘ شیخ صاحب نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔
’’ہاں! اس کا پھن ان کے سر پر رکھا ہوا تھا۔ وہ نیلا، چمکیلا سانپ گہرا سیاہ تھا اور وہ ان کے پورے بدن کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا۔‘‘ میں نے کہا اور شیخ صاحب دہشت زدہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے کہا۔ ’’وہ آپ کو نظر آیا تھا؟‘‘
’’آپ کو نظر نہیں آتا؟‘‘
’’نہیں! ہمیں یہ بصیرت نہیں ملی، حضرت! اب میں آپ کو پوری تفصیل بتانا چاہتا ہوں۔ مختصر عرض کرتا ہوں۔ میں دہلی کا قدیم باشندہ ہوں، اجداد دور مغلیہ سے یہاں آباد تھے، یہ حویلی بھی اسی دور کی ہے۔ دہلی میں تھوڑی بہت جائداد اور کاروبار ہے۔ اللہ کے کرم سے عزت سے گزر رہی ہے۔ اولاد نرینہ سے محروم ہوں اور یہی دو بچیاں سرمایۂ حیات ہیں۔ مہرالنساء میری چھوٹی بچی کا نام ہے۔ کوئی آٹھ ماہ پہلے وہ ایک خوش گفتار، ہنس مکھ اور زندگی سے بھرپور بچی تھی۔ اچانک ایک رات وہ خواب کے عالم میں ڈر گئی اور سانپ، سانپ چیخنے لگی۔ ہم سب جاگ گئے اور اسے بیدار کیا تو وہ پسینے میں ڈوبی ہوئی تھی اور دہشت زدہ نظروں سے چھت میں لٹکے ہوئے فانوس کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ فانوس میں سانپ ہے۔ وہ نیچے لٹکا ہوا تھا اور اس پر گرنا چاہتا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ خواب دیکھ رہی تھی۔ تاہم اس وقت سارے ملازموں کو بلا کر بھاری فانوس اتارا گیا اور اس کے سامنے چکناچور کردیا گیا۔ سانپ کہیں نہیں تھا۔ اسے اطمینان تو ہوگیا تھا مگر وہ بدستور سہمی رہی۔ پھر دوسری صبح اس نے اپنی والدہ کو بتایا کہ وہ یہ سانپ کئی دن سے دیکھ رہی ہے۔ کبھی یہ اسے پائیں باغ کے کسی درخت کی جڑ میں بیٹھا نظر آتا ہے، کبھی پھولوں کے کسی کنج میں مگر پھر وہ غائب ہوجاتا ہے لیکن اس کی ننھی، چمکدار آنکھیں اسے نظر آتی رہتی ہیں۔ نذر نیاز کی گئی، صدقے اتارے گئے۔ جو ممکن تھا، کرلیا گیا مگر اسے افاقہ نہ ہوا۔ وہ ملول اور خوف زدہ رہنے لگی۔ دو تین بار اس نے سانپ کا تذکرہ کیا اور پھر خاموش ہوگئی۔ اس کے بعد بارہا اس سے سانپ کے بارے میں پوچھا گیا مگر اس نے کچھ نہیں بتایا بلکہ اس تذکرے پر وہ خاموش ہوجاتی ہے۔ اس میں وہ تمام صفات ختم ہوگئیں۔ پہلے وہ بلبل کی طرح چہکتی رہتی تھی، اب بالکل خاموش بلکہ ایک طرح سے نیند کے عالم میں رہتی ہے۔ بس کبھی کبھی وہ اس خول سے نکلتی ہے۔ اس سے کچھ پوچھا جاتا ہے تو رونے لگتی ہے۔ ساتھ ہی کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے ہیں جو ناقابل فہم ہیں۔‘‘
’’وہ کیا…؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا اور شیخ صاحب کسی سوچ میں گم ہوگئے جیسے ان عجیب و غریب واقعات کو یاد کر رہے ہوں۔ پھر انہوں نے کہا۔
’’اس کے کمرے میں خوشبوئیں بکھری رہتی ہیں۔ گلدانوں میں ایسے ایسے حسین پھولوں کے گلدستے سجے نظر آتے ہیں جو شاید پورے ہندوستان میں کہیں نہ ملیں، دہلی تو کیا۔ شادی کی ایک تقریب میں شرکت کرنا تھی۔ اس کے لباس کی الماری میں اطلس کا ایک ایسا جوڑا ملا جس میں ہیرے ٹنکے ہوئے تھے۔ وہ آدھی آدھی رات کو باغ میں چلی جاتی ہے اور وہاں بیٹھی رہتی ہے۔ بس ایک بار رات کا چوکیدار اسے دیکھ کر اس کے پاس چلا گیا تھا دوسری صبح وہ بے ہوش ملا اور پھر پاگل ہوگیا۔ ایسے ہی کچھ اور واقعات!‘‘
’’انہوں نے سانپ کا تذکرہ دوبارہ نہیں کیا۔‘‘
’’نہیں! اس کے بعد نہیں۔‘‘
’’آپ لوگوں نے ان کے پاس کسی سانپ کو نہیں دیکھا؟‘‘
’’کبھی نہیں!‘‘
’’آج کل بھی نہیں؟‘‘
’’بالکل نہیں۔‘‘
’’آپ نے انہیں کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا؟‘‘
’’میرے خاندان کے بزرگوں نے منع کردیا۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘
’’ان کا کچھ اور خیال ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’مجھے منع کیا گیا ہے کہ اپنے منہ سے کچھ نہ کہوں۔‘‘
’’آٹھ ماہ سے ان کی یہ حالت ہے۔‘‘
’’ہاں… لگ بھگ!‘‘
’’کوئی ایسا واقعہ جس کا رابطہ ان واقعات سے کیا جاسکے؟‘‘
’’ہاں!‘‘ شیخ صاحب نے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’بتایئے۔‘‘
’’دہلی سے کچھ فاصلے پر غازی آباد ہے۔ غازی آباد میں بھی میری زمینیں اور جائداد ہے۔ وہیں ایک قدیم حویلی بھی ہے جو کوئی سو سال سے ویران پڑی ہے۔ ایک ہندو بنیے نے اس پر اپنا حق جتا دیا اور ہمارے درمیان مقدمہ بازی شروع ہوگئی۔ میں وہ مقدمہ جیت گیا۔ مقدمے کے دوران حویلی سیل کردی گئی تھی۔ مجھے اس کا قبضہ دیا گیا اور چونکہ یہ تنازع عرصے سے چل رہا تھا اس لیے جب ہم قبضہ لینے گئے تو تمام گھر والے ساتھ تھے۔ مہرالنساء بھی تھی۔ حویلی تباہ حال پڑی ہوئی تھی، جھاڑ جھنکاڑ سے بھری ہوئی۔ میں نے ایک کمرہ صاف کرایا اور ہم نے ایک رات وہاں قیام کیا تھا۔‘‘
’’جی۔ پھر…؟‘‘
’’بس! اس کے بعد ہی مہر النساء کی یہ کیفیت شروع ہوگئی۔‘‘
’’اس رات کے قیام میں کوئی واقعہ پیش آیا تھا۔‘‘
’’بالکل نہیں۔ خوشگوار چاندنی رات تھی۔ بچے صاف ستھرے علاقے میں ساری رات آنکھ مچولی کھیلتے رہے تھے۔‘‘
’’آپ نے کسی عالم سے رجوع کیا؟‘‘
’’نہیں! دراصل میرا ذہن کچھ مختلف ہے۔ اس بارے میں، میں نے اپنے اہل خاندان سے اختلاف کیا ہے مگر اب۔ اور پھر میاں صاحب! آپ نے براہ راست مجھے متاثر کیا ہے۔ ایسے کام میں کرتا رہتا ہوں۔ اس کا صدقہ اتارتا رہتا ہوں، کھانا وغیرہ اس طرح تقسیم کرتا رہتا ہوں جس طرح آج آپ نے دیکھا۔‘‘
’’میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟‘‘
’’آپ بہتر سمجھتے ہیں میاں صاحب! اللہ کا حکم ہوا ہے تو آپ میری مدد کریں۔ وہ بچپن سے اپنے پھوپھی زاد بھائی سے منسوب ہے۔ میری بہن، بہنوئی یورپ میں رہتے ہیں اور ہمارے درمیان طے ہے کہ ہم دونوں بچوں کی شادی کریں گے۔ سلطان میاں کی تعلیم مکمل ہونے والی ہے۔‘‘
’’صاحبزادی اپنے منگیتر سے مطمئن ہیں؟‘‘
’’اس نے خالص مشرقی ماحول میں میری والدہ سے تربیت حاصل کی ہے اور مشرقی لڑکیاں صرف اتنا سوچتی ہیں جتنا انہیں بتایا جائے۔ اس کی اداسی اور غم آلود کیفیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اسے اپنے مستقبل کا خیال ہے۔‘‘ شیخ صاحب نے کہا اور میں سوچ میں ڈوب گیا۔ نہ میں عالم تھا، نہ درویش! ان حالات پر اپنا تبصرہ کیا کرتا۔ مجھے تو رہنمائی درکار تھی۔ سوچنے لگا کہ شیخ صاحب کو کیا جواب دوں۔ بالآخر کہا۔
’’قبلہ شیخ صاحب! میں آپ سے اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ میں خود بھی ایک ناواقف انسان ہوں۔ ہاں اس اعتراف سے گریز کرکے جھوٹ کا مرتکب نہ ہوں گا کہ میں نے مہرالنساء کے جسم سے ایک پتلا، لمبا سانپ لپٹے ہوئے دیکھا تھا جس کا پھن ان کے سر پر رکھا ہوا تھا، اسی لیے ناشتے کے دونے میرے ہاتھ سے گر گئے تھے۔ میرا خیال تھا کہ آپ سب لوگ بھی اسے دیکھ رہے ہوں گے مگر اللہ کا حکم! اگر اس نے مجھے یہ بینائی بخشی ہے تو اس کی کچھ وجوہ بھی ہوں گی۔ میں دہلی میں نووارد ہوں، چندوسی سے آیا ہوں۔ بس یوں سمجھ لیجیے خدا کے نیک بندوں سے فیض حاصل کرنے نکلا ہوں۔ ہوسکتا ہے اس بارے میں، میں کوئی خدمت سرانجام دینے میں کامیاب ہوجائوں۔ آپ کے درِ دولت پر چند روز قیام کا خواہشمند ہوں۔ دو وقت کی روٹی کے سوا کچھ درکار نہ ہوگا۔ اگر بزرگان دین سے کچھ رہنمائی حاصل ہوئی تو یہاں ٹھہروں گا ورنہ آپ سے اجازت لے کر چلا جائوں گا۔ خدارا مجھے ایک گناہ گار انسان کے سوا کچھ تصور نہ فرمایئے گا۔ ہوسکتا ہے صاحبزادی کی صحت یابی کی سرخروئی مجھے عنایت ہوجائے۔‘‘
’’سبحان اللہ۔ میاں صاحب! آپ کا لب و لہجہ بتاتا ہے کہ اللہ نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے۔ جسے عاجزی اور انکساری کی دولت مل جائے، اس سے زیادہ امیر کون ہوسکتا ہے ورنہ یہاں تو دو ٹکوں پر اچھلنے والوں کی بہتات ہے۔ آپ کا قیام میرے لیے بڑی ڈھارس کا باعث ہوگا۔ آپ یہاں قیام فرمایئے، میں آپ کا احسان مانوں گا۔ ویسے حضور! کوئی نام تو ہوگا آپ کا؟‘‘
’’جی! آپ مجھے مسعود احمد کہہ سکتے ہیں۔‘‘
’’جس شے کی حاجت ہو، ارشاد فرما دیجیے گا۔‘‘
’’شکریہ! مہرالنساء بیگم سے ملتے رہنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ مجھے ان کے لیے بھائی کا درجہ دیا جائے اور حویلی کے اندرونی حصے میں داخل ہونے کی اجازت بھی!‘‘
’’سب کو ہدایت مل جائے گی۔ آپ اطمینان رکھیں۔‘‘
’’مہرالنساء پر کسی بھی وقت کوئی خاص کیفیت طاری ہو، مجھے ضرور اطلاع دیجیے گا۔‘‘
’’بہت بہتر۔ ویسے آپ چاہیں تو ابھی اس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ نورجہاں میری بھتیجی ہے اور مہر کے ساتھ رہتی ہے۔ اسے سب سے زیادہ مہر سے لگائو ہے میں اسے بھی ہدایت کردوں گا۔‘‘
’’ابھی کچھ توقف فرمایئے، بعد میں ان سے ملاقات کرلوں گا۔‘‘ میں نے کہا اور شیخ صاحب اٹھ گئے۔ رخصتی الفاظ ادا کرکے وہ باہر نکل گئے اور میں احمقوں کی طرح دروازہ دیکھتا رہ گیا۔ کیا میں اس سلسلے میں کچھ کرسکوں گا، مگر کیسے۔ میرا عمل کیا ہونا چاہیے۔ بابا فضل میں نابینا ہوں، میں کچھ نہیں جانتا۔
’’آرام بڑی چیز ہے، منہ ڈھک کے سویئے۔‘‘ میرے کانوں میں آواز ابھری اور میں اچھل پڑا۔ آواز اتنی صاف تھی کہ کوئی دھوکا نہیں ہوا تھا اور یہ آواز… یہ آواز! میری نگاہ اس کمبل کی طرف اٹھ گئی۔ اس کمبل کا ان الفاظ سے گہرا تعلق تھا۔ مگر اس وقت پھر میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور اس طرح آیا کہ میں خود کو اس سے باز نہ رکھ سکا۔ میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور کمبل کو بڑے احترام سے اٹھا کر مسہری کی طرف بڑھ گیا۔ مسہری پر دراز ہوکر میں نے کمبل اوڑھ لیا۔ تاریکی پھیل گئی۔ سب کچھ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا مگر میں صبر و سکون سے لیٹا رہا۔ پھر اچانک میری نظروں میں روشنی کا ایک نکتہ ابھرا۔ یہ نکتہ رفتہ رفتہ پھیل رہا تھا۔ پھر احساس ہی نہ رہا کہ میں کہاں ہوں، کس حال میں ہوں۔ میرے اطراف تیز روشنی تھی اور اس روشنی میں، میں بہت کچھ دیکھ رہا تھا، سن رہا تھا، سمجھ رہا تھا۔ میرے ذہن کے دریچے کھلتے جارہے تھے اور ان دریچوں میں نہ جانے کیا کیا تھا۔
دروازہ زور زور سے پیٹا گیا تو میں جاگا اور آنکھیں پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ مہمان خانہ ہی تھا۔ میں مسہری پر تھا اور دروازہ مسلسل پیٹا جارہا تھا۔ کمبل احترام سے تہہ کرکے میں نے ایک طرف رکھا اور اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ فتح محمد تھا۔
’’اماں بھائی میاں روٹی نئیں کھائو گے کیا، ڈیڑھ بج رہا ہے۔ اماں گھوڑے بیچ کر سو گئے تھے کیا؟‘‘
’’نہیں فتح محمد! کھانا لے آئے ہو کیا؟‘‘
’’اماں کھانا لانے میں کونسی دیر لگے گی، ابھی لائے۔‘‘ فتح محمد نے کہا اور چلا گیا۔ میرا سر چکرا رہا تھا۔ جو کیفیت طاری ہوئی تھی، وہ نیند نہیں تھی بلکہ کچھ اور تھا اور اس میں جو کچھ بتایا گیا تھا، اس نے مجھے بہت اعتماد بخشا تھا۔ کھانے کے بعد فرصت تھی۔ کچھ دیر آرام کیا پھر غسل کرکے لباس سلیقے سے پہنا۔ فراست کا دیا ہوا یہ لباس قیمتی تھا۔ مجھے وہ حلیہ بنانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی جو درویشوں اور گوشہ نشینوں کا ہوتا ہے۔ کہا گیا تھا۔
’’وہ روپ ہوتا ہے، بہروپ نہیں۔ اور روپ ملتا ہے، بنایا نہیں جاتا۔ جذب کی وہ منزل عمر ناتمام کی گرفت میں نہیں ہاں کسی مرد حق کی نظر ہوجائے۔ سو جو بہروپ بھرتے ہیں، وہ جھوٹے ہوتے ہیں اور جھوٹ سے ہمیشہ خسارہ ہوتا ہے۔ سو دنیا کو دنیا داروں ہی کی طرح گزارنا بہتر ہے اور بہروپ بھرنا گناہ!‘‘ تب میں نے سوچا کہ مجھے دوسرے لباس بھی درکار ہیں اور میرے ہاتھ، پائوں مضبوط۔ کسی کے چھوٹے موٹے کام کے لیے اس کے در پر جانا پڑتا۔ رزق حلال کا حصول تو نہیں۔ اس کے لیے تو بساط بھر محنت کرنی ہوتی ہے۔ لیکن ابھی کچھ ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ اس کے بعد یہ سوچوں گا کہ کیا کرنا چاہیے۔‘‘
شام کے چھ بجنے والے تھے۔ مہمان خانے سے نکلا اور حویلی کے باغ کی بہار دیکھتا ہوا درختوں کی آڑ میں دور نکل آیا۔ تب ایک برگد کا قدیم درخت نظر آیا جو کئی سو سال پرانا ہوگا۔ اس کی داڑھیاں بے شمار تھیں اور نیچے آکر زمین کی گہرائیوں میں اتر گئی تھیں مگر مجھے جس شے نے اپنی طرف متوجہ کیا وہ ایک زنگ خوردہ کلسا تھا جو تانبے کا بنا ہوا تھا اور زنگ تانبہ کھا گئی تھی مگر کلسے میں سونا چمک رہا تھا۔ کلسا چمکدار سونے کی گنیوں سے بھرا ہوا تھا اور یہ مال تھا زمانہ قدیم کے ایک سود خور بنیے کا جس نے ہر اچھے برے ذریعے سے اسے جمع کیا اور یہاں دفن کردیا مگر وہ اسے استعمال نہ کرسکا اور مر گیا اور اب اسے کسی کی ملکیت بن جانا چاہیے مگر میری نہیں۔ نہ ہی میرے دل میں اس کی طمع پیدا ہوئی تھی مگر میں نے پائوں سے اس جگہ کو کرید کر دیکھا اور اندازہ ہوگیا کہ کلسا گہرائی میں ہے۔ پھر کچھ باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دیں اور گردن گھوم گئی۔ وہ دونوں اسی طرف آرہی تھیں اور زیادہ دور نہیں تھیں۔ میں نے انہیں پہچان لیا اور انہوں نے مجھے مگر وہ خود میری طرف بڑھ آئی تھیں۔ اور اس وقت مہرالنساء سانپ کی گرفت میں نہیں تھی۔
’’لو دیکھ لو یہی ہیں۔‘‘ نورجہاں نے شوخی سے مسکرا کر کہا اور مہرالنساء نے اسے ٹہوکا دیا۔ ’’مجھے کیوں پیٹ رہی ہو۔ خود ہی تو دیکھنا چاہ رہی تھیں مگر کمال ہے اس عمر میں فقیری! مجھے تو کچھ اور ہی لگتا ہے۔ کیوں جناب شاہ صاحب! آپ کچھ بتائیں گے؟‘‘
’’کیا بتائوں…؟‘‘
’’انہیں تو پہچان لیا ہوگا آپ نے؟‘‘ نورجہاں نے مہرالنساء کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
’’جی ہاں!‘‘
’’اس وقت ہم نے بھی آپ کو غور
سے نہیں دیکھا تھا۔ مگر بعد میں آپ کی بڑی تعریفیں سنیں۔ وہ تعریفیں سچ ہیں یا کوئی اور قصہ ہے؟‘‘
’’قصہ کیا ہوسکتا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بس وہی کہ اک محلے میں تھا ہمارا گھر۔ وہیں رہتا تھا ایک سوداگر یعنی مثنوی زہرعشق۔ یا پھر زیب النساء اور عاقل خان والا معاملہ۔‘‘ نورجہاں بہت تیز اور شوخ تھی۔
’’اتنی بے لگامی اچھی نہیں ہوتی نورجہاں!‘‘ مہرالنساء نے واپس ہوتے ہوئے کہا۔
’’سنو تو، ارے رکو تو۔‘‘ نورجہاں نے کہا۔ مگر مہرالنساء تیزی سے آگے بڑھ گئی تھی۔ مجبوراً نورجہاں کو بھی اس کے پیچھے جانا پڑا۔ میں خاموشی سے ان دونوں کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور دوبارہ اس وقت چونکا جب ایک درخت کے عقب سے تالیاں بجنے کی آوازیں سنیں۔ دیکھا تو الیاس خان، فتح محمد کے ساتھ نظر آئے اور درخت کے عقب سے نکل کر میرے پاس پہنچ گئے۔
’’سڑکوں پر بھیک مانگنے والے بھی بعض اوقات بڑے ذہین نکل آتے ہیں جیسے ہمارے شاہ صاحب! مگر تمہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نورجہاں سچ کہہ رہی تھی۔‘‘ میں نے الیاس خان کو دیکھ کر سلام کیا۔ اس شخص سے میں بھی راہ رسم چاہتا تھا۔ ’’جیتے رہو، جیتے رہو۔ ہمارا کیا جاتا ہے۔‘‘ الیاس خان مکاری سے بولا۔ صورت سے ہی شاطر آدمی معلوم ہوتا تھا۔
’’کیسے مزاج ہیں خان صاحب؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میاں! ہم تو سدابہار ہیں مگر تمہارا چکر ذرا سمجھنے سمجھانے کا ہے۔‘‘ الیاس خان صاحب نے معنی خیز نگاہوں سے مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میں سمجھا نہیں خان صاحب!‘‘
’’خیر سمجھ تو سب کچھ گئے ہوگے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بننے کی کوشش کررہے ہو۔ مگر سنو! ہم تو یاروں کے یار ہیں۔ بڑے چکر چلا چکے ہیں خود بھی جوانی کی عمر کا اندازہ ہے ہمیں! یہ عمر ایسے ہی کھیل کھیلنے کے لیے ہوتی ہے مگر کسی سمجھدار کو رازدار بنا لینا اچھا ہوتا ہے۔ کیا چکر ہے جان من؟‘‘ الیاس خان نے ایک آنکھ دبا کر مسکراتے ہوئے کہا اور میں بھی مسکرا دیا۔
’’گو آپ کی باتیں واقعی میری سمجھ میں نہیں آئیں لیکن سمجھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ملی بھگت چل رہی ہے، کس سے! نورجہاں سے یا مہرالنساء سے؟‘‘
’’اوہ یہ بات ہے۔ نہیں خان صاحب! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کا یہ خیال غلط ہے۔‘‘
’’دیکھو میاں! جب آدمی بہت زیادہ چالاک بننے کی کوشش کرے تو اگلے کو بھی غصہ آسکتا ہے اور پھر یہ تو تمہیں پتا چل ہی گیا ہوگا فتح محمد سے، فتح محمد نے ہمیں بتایا تھا کہ تم ہمارے بارے میں بھی پوچھ رہے تھے۔ تو یہ تو تمہیں معلوم ہو ہی گیا ہوگا کہ اس گھر میں ہماری رشتے داری ہے دور کی سہی۔ مگر آتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور پھر بیچارے اپنے شیخ عبدالقدوس اللہ میاں کی گائے ہیں بلکہ اللہ میاں کے بیل! ایک منٹ میں ہر ایک پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ملی بھگت کی بات ہے اور کوئی کھیل کھیل رہے ہو۔ صورت سے بھی فقیر نہیں معلوم ہوتے، یہ سوٹ بھی بڑھیا پہنا ہوا ہے، حلیہ بگاڑنے سے کیا ہوتا ہے۔ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں لیکن یاروں سے یاری کرنا زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ یہ فتح محمد تو بائولا ہے، کہنے لگا کہ خان صاحب ذرا شاہ جی سے بات چیت کرکے سٹے کا نمبر معلوم کریں، اسی لیے پیچھے لگا آیا تھا۔ ہم نے تمہیں مہمان خانے میں دیکھا اور پھر اس طرف آتے ہوئے تب پتا چلا کہ صاحبزادے کوئی دوسرا ہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ رازدار بنا لو، فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔‘‘ میں بدستور مسکراتا رہا۔ میں نے کہا۔
’’خان صاحب! سٹے کا نمبر معلوم کرنا چاہتے ہیں آپ…؟‘‘
’’پہلے تو یہی سوچا تھا کہ فتح محمد کی بات پر یقین کرلیں مگر اب جو کچھ سامنے آیا ہے، وہ کچھ اور ہے۔‘‘
’’ہوں! آپ سے اس کے علاہ بھی کچھ باتیں کرنی ہیں مجھے خان صاحب!‘‘
’’ابے دیکھا، بھائی فتے بھیا! اپنی عمر سے اونچی اڑان اڑنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہم نے بھی اچھے اچھوں کے حوصلے پست کردیے ہیں۔ چلو بولو کیا بات ہے، کیا قصہ ہے، ہوسکتا ہے ہم کام آہی جائیں۔‘‘
’’تنہائی میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’چل بے فتح محمد پھوٹ لے اور سن زبان بند رکھیو۔ ورنہ تو جانتا ہے الیاس خان کو۔‘‘
’’نہیں خان صاحب! ہم تو نوکر ہیں آپ کے جی! مجال ہے قسم اللہ کی کہ ادھر سے ادھر ہوجائیں، مگر ایک وعدہ کرلینا بھائی میاں! کچھ ہاتھ لگے تو اس میں تھوڑا سا حصہ ہمارا بھی ہونا چاہیے۔‘‘
’’اب جاتا ہے یا لگائوں لات!‘‘ الیاس خان نے کہا اور فتح محمد ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا۔ الیاس خان ایک بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔
’’آئو پہلوان! بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ کسی اچھے گھرانے کے لگتے ہو۔ صورت شکل سے بھی، حلیے اور لباس سے بھی! کیا چکر تھا مہرالنساء سے کوئی معاملہ چل رہا ہے یا نورجہاں سے! ویسے آدمی ذہین ہو۔ سانپ وانپ کا قصہ سن لیا ہوگا کہیں سے اور عین موقع پر پوبارہ کردیے اور شیخ عبدالقدوس تمہیں یہاں لے آئے۔‘‘
’’خان صاحب! میں آپ کو جانتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور الیاس خان چونک پڑے۔ چند لمحات میرا چہرہ دیکھتے رہے پھر بولے۔
’’فتح محمد سے پوچھا ہوگا میرے بارے میں؟‘‘
’’نہیں! میں نے آپ کو شکتی پور میں دیکھا تھا۔‘‘
’’کہاں…؟‘‘ خان صاحب چونک کر بولے۔
’’شکتی پور میں، شکنتا کے کوٹھے پر! آپ کے ساتھ چند افراد اور تھے اور آپ شکنتا بائی کے ہاں رقص و سرود دیکھنے گئے تھے۔‘‘ الیاس خان صاحب نے حیران نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ دیکھتے رہے پھر ایک دم ہنس پڑے اور بولے۔
’’تم وہاں کیا کررہے تھے شہزادے۔‘‘
’’آپ کے ساتھ جو افراد تھے، الیاس خان صاحب! میں ان کے بارے میں تفصیل جاننا چاہتا ہوں۔ جہاں تک آپ کے اس خیال کا معاملہ ہے کہ میں یہاں مہرالنساء یا نورجہاں کے چکر میں آیا ہوں تو بہتر یہ ہوگا کہ اسے دل سے نکال دیجیے۔ میں کوئی فقیر یا درویش نہیں ہوں، ایک گناہ گار بندہ ہوں اللہ کا! بس کبھی کبھی نظر عنایت ہوجاتی ہے اللہ والوں کی اور حکم ملتا ہے کہ کسی کا کوئی کام کردیا جائے تو کوشش کرتا ہوں۔‘‘
’’لے وہ کتے کی دم والی بات ہورہی ہے کہ بارہ برس نلکی میں رہی مگر ٹیڑھی کی ٹیڑھی! یعنی اب تمہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہم نے اور تم پھر وہی رام کہانی سنا رہے ہو ہمیں۔‘‘ الیاس خان صاحب نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
’’میں آپ کو یقین دلا دوں گا الیاس خان صاحب! لیکن ان لوگوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں جو شکتی پور میں آپ کے ساتھ تھے۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے مگر تمہاری اس معلومات سے ہمارے اوپر کیا فرق پڑتا ہے، بھائی دنیا دار ہیں، کم ازکم فقیر بن کر عشق و محبت کا ناٹک نہیں کھیلتے، جیسے تم کھیل رہے ہو۔ رنگین مزاج ہیں، شوق رکھتے ہیں، مال خرچ کرتے ہیں، کوٹھوں پر جاتے ہیں۔ اگر تمہیں یہ پتا چل گیا تو اس سے ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوگا شہزادے! مگر تم ان لوگوں کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’ان میں ایک صاحب میرے شناسا تھے۔ ان کے بارے میں آپ سے معلومات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیا نام تھا…؟‘‘ الیاس خان نے پوچھا۔
’’ریاض…!‘‘ میں نے جواب دیا اور الیاس خان سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر بڑبڑاتے ہوئے بولے۔
’’اس دن ہمارے ساتھ رشید خان صاحب تھے، غلام علی تھا، فرید احمد تھے۔ ہاں… ہاں! یاد آگیا۔ تم منشی ریاض کی بات کررہے ہو، بالکل ٹھیک ہے۔ فرید احمد کے ہاں منشی ہے وہ شخص! فرید احمد ذرا یارباش قسم کا آدمی ہے، نوکروں سے بھی دوستی ہی رکھتا ہے۔ کسی کام سے گئے تھے ہم لوگ شکتی پور، منشی ریاض بھی ساتھ تھا اور جب ہم گانا سننے گئے تو منشی ریاض کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔ بس اس کے علاوہ اور کوئی ریاض نہیں تھا ہمارے ساتھ…!‘‘ میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں نے حسرت بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’کیا منشی ریاض صاحب، فرید احمد کے ساتھ الٰہ آباد میں رہتے ہیں؟‘‘
’’ہاں بھئی فرید احمد الٰہ آباد کا ایک بڑا کاروباری ہے۔ منشی ریاض بہت عرصے سے اس کے ساتھ کام کرتا ہے۔‘‘
’’آپ کو کچھ اور بھی معلوم ہے اس شخص کے بارے میں…؟‘‘ میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا اور الیاس خان مجھے گھورنے لگے۔
’’ابے عقل کی بات کرو بھائی! کسی آدمی کے منشی کے بارے میں، میں اس سے زیادہ اور کیا جان سکتا ہوں؟‘‘
’’میرا مطلب ہے کہ منشی ریاض اس وقت بھی الٰہ آباد ہی میں ہیں۔‘‘
’’جب فرید احمد الٰہ آباد میں ہے تو منشی ریاض الٰہ آباد میں کیوں نہ ہوں گے مگر تمہارا اس شخص سے کیا تعلق ہے؟‘‘ میں گہری سانس لے کر خاموش ہوگیا۔ الیاس خان کہنے لگے۔ ’’اچھا! اب تو بتا دو کہ قصہ کیا ہے؟‘‘
’’اگر کوئی قصہ ہے بھی خان صاحب تو آپ اس میں دلچسپی کیوں لے رہے ہیں؟‘‘
’’تمہارے بھلے کے لیے سمجھے، تمہارے بھلے کے لیے! ہوسکتا ہے ہم تمہارے کسی کام آجائیں ویسے سچ مچ بتا دو یہ روپ بدلا ہے ناں تم نے یا کچھ جانتے بھی ہو۔‘‘
’’ان باتوں کو جانے دیجیے الیاس خان صاحب! آپ اپنی بات کیجیے۔ سٹے کا نمبر معلوم کرنا چاہتے ہیں آپ…؟‘‘
’’چلو بے وقوف بنانا شروع کردیا تم نے ہمیں! بتا سکتے ہو تم سٹے کا نمبر…؟‘‘ الیاس خان نے پوچھا۔
’’نہیں! لیکن آپ کی خواہش پوری کرسکتا ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا اور الیاس خان چونک پڑا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘
’’میں آپ کو سٹے سے حاصل ہونے والی رقم یہیں اور اسی جگہ دے سکتا ہوں لیکن اس کے لیے ایک شرط ہوگی۔‘‘
الیاس خان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ خاموشی سے مجھے گھورتا رہا۔ غالباً بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ ’’سٹے کا نمبر معلوم کرکے ظاہر ہے آپ سٹہ کھیلیں گے، اس سے آپ کو رقم حاصل ہوگی۔ وہ سب کچھ اگر یہیں مل جائے تو کیا حرج ہے؟‘‘
’’کیا آسمان سے دولت برسے گی؟‘‘ الیاس خان کہا۔
’’نہیں! زمین سے حاصل ہوگی، لیکن الیاس خان صاحب! آپ پر وہ دولت اس وقت حلال ہوگی جب آپ میرا بھی ایک کام کردیں۔‘‘ الیاس خان عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے پھر کہا۔ ’’میں آپ کو ایک چھوٹا سا خزانہ دے رہا ہوں لیکن اس کے بدلے جب آپ الٰہ آباد جائیں تو فرید احمد کے ہاں موجود منشی ریاض سے ملاقات کریں اور ان سے کہیں کہ ایک شخص کچھ عرصے کے بعد آپ سے ملنے آرہا ہے، کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ اس شخص کا آپ سے ملنا بے حد ضروری ہے، آپ اس کا انتظار کریں، اس کا نام مسعود احمد ہے اور اس کے باپ کا نام محفوظ احمد بتایئے الیاس خان صاحب، آپ میرا یہ کام کردیں گے؟‘‘
’’یہ سب کچھ تو خیر میں کر ہی دوں گا مگر تم وہ دولت والی بات کیا کہہ رہے تھے؟‘‘
’’آپ وعدہ کرتے ہیں کہ میرا یہ کام کردیں گے؟‘‘ میں نے پھر کہا۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا، آنکھوں میں امیدوں کی چمک آگئی تھی۔ الیاس خان نے شانے ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’کردیں گے بھائی! کردیں گے چلو وعدہ کرتے ہیں۔ مگر وہ بات ادھوری رہ گئی۔‘‘
’’دولت کی ضرورت ہے؟‘‘
’’کس کو نہیں ہوتی؟‘‘ الیاس خان نے کہا۔
’’تمہاری ضرورت برگد کے اس درخت کے اس حصے کو کھود کر پوری ہوسکتی ہے جہاں وہ اس کی سب سے چوڑی داڑھی زمین میں پیوست ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘
’’میاں! تانبے کا ایک کلسا گڑھا ہوا ہے جس میں سونے کی اشرفیاں بھری ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
الیاس خان مجھے گھورنے لگا۔ پھر بولا۔ ’’کیوں بے تکی چھوڑ رہے ہو شہزادے! وہاں اشرفیاں گڑھی ہوئی ہیں اور تم یہاں بیٹھے ہوئے ہو…‘‘ اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
’’وہ تمہارے لیے ہیں۔ لیکن انہیں نکالنے کے لیے مناسب وقت کا تعین کرنا اور پا لو تو میری بات کا خیال رکھنا۔ صلے میں مجھے بس وہی چاہیے جو میں نے تم سے کہا ہے۔‘‘
’’اور اگر نہ پائوں تو…؟‘‘ وہ بولا۔
’’مجھے اپنی پسند کے مطابق سزا دے لینا۔‘‘
’’کان کھول کر سن لو شہزادے! مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش خطرناک ثابت ہوگی تمہارے لیے میرا نام الیاس خان ہے۔‘‘ اس نے کہا اور میں مسکرا دیا۔ وہ چلا گیا تھا۔
عشاء کی نماز کے بعد رات کا کھانا کھایا اور پھر بستر پر دراز ہوگیا۔ دل کمبخت بڑی ظالم چیز ہوتی ہے۔ کچھ بھی ہوجائے، یہ سرکشی ضرور کرتا ہے۔ الیاس خان کے مل جانے سے نہ جانے کیا امنگیں جاگ اٹھی تھیں۔ ایک بار پھر وہ سارے چہرے آنکھوں میں آبسے تھے۔ ایک بار پھر اسی پُر بہار زندگی کے خواب نظر آنے لگے تھے۔ ماموں ریاض نوکری کررہے ہیں۔ محمود ملک سے باہر ہے۔ ہوسکتا ہے ابو ان حالات کا شکار ہوکر صاحبِ فراش ہوگئے ہوں اور گھر کی ذمہ داریاں ماموں نے سنبھال لی ہوں۔ ایک بار، صرف ایک بار ان لوگوں کے سارے حالات معلوم ہوجائیں۔ اس کے بعد… اس کے بعد۔
دروازہ زور سے بجا اور سارے خیالات چکناچور ہوگئے۔ جلدی سے اٹھا اور دروازہ کھول دیا۔ بندو خان صاحب تھے۔ سلام کرکے بولے۔ ’’وہ حضور اچھے نواب نے سلام کہا ہے۔‘‘
’’شیخ صاحب…؟‘‘
’’جی! بلایا ہے۔‘‘
’’خیریت ہے؟‘‘
’’بٹیا کی طبیعت بگڑ گئی ہے، آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘
’’رکو۔ چلتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور جلدی سے متبرک کمبل شانے پر ڈال کر بندو خان کے ساتھ چل پڑا۔ حویلی کے اس حصے میں پہلی بار داخل ہوا تھا جو قابل دید تھا۔ بندو خان میری رہنمائی کررہے تھے۔ راستے طے کرتا ہوا اندرونی حصے میں داخل ہوگیا۔ مکمل خاموشی طاری تھی مگر ایک کمرے کے سامنے روشنی میں کئی افراد نظر آئے ان میں خواتین بھی تھیں جنہوں نے دوپٹے سر پر ڈال لیے۔ شیخ صاحب کراہتے ہوئے میرے قریب آگئے۔
’’پھر… پھر حالت بگڑی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’کیا کیفیت ہے…؟‘‘
’’آپ کو طلب کیا ہے۔‘‘ شیخ صاحب نے کہا۔
’’مجھے…؟‘‘
’’ہاں! نام لے کر… کہا بلائو اس استاد اعظم کو۔ ذرا اس سے بات کرلوں۔ اس کی یہاں آنے کی جرأت کیسے ہوئی۔ میں نے پوچھا کسے تو جواب ملا مسعود کو اور میں نے آپ کو بلا بھیجا۔‘‘
’’خوب! مجھے انتظار تھا آیئے۔‘‘ میں نے کہا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ حسین خواب گاہ تھی۔ ایک تپائی پر مہرالنساء بیٹھی ہوئی تھی۔ دراز گھنے سیاہ بال چھتری کی طرح کھلے ہوئے تھے۔ دروازے کی طرف پشت تھی اور رخ دوسری طرف تھا لیکن اچانک گردن گھومی اور چہرہ مڑ کر پیچھے ہوگیا۔ بڑا خوفناک انداز تھا۔ یعنی جسم کا رخ دوسری طرف تھا اور چہرہ مکمل میری طرف! مہرالنساء کو شام کو بھی دیکھا تھا۔ سبک اور ملیح چہرہ، چمپئی رنگ، نرم و نازک نقوش، گہری سیاہ آنکھیں لیکن اس وقت جو چہرہ نظر آیا، یہ شام والا چہرہ نہیں تھا۔ خدوخال بگڑے ہوئے تھے، آنکھیں شرر بار تھیں اور ان میں نیلاہٹیں جگمگا رہی تھیں۔ رنگ میں تپش تھی۔
’’السلام علیکم۔‘‘ میں نے کہا۔ مگر وہ مجھے گھورتی رہی۔ میں نے ترش لہجے میں کہا۔ ’’کیا والدین نے سلام کا جواب دینا بھی نہیں سکھایا؟‘‘
’’وعلیکم السلام۔‘‘ ایک کرخت مردانہ آواز مہرالنساء کے منہ سے ابھری۔ میں مسکرا دیا۔ پھر میں نے کہا۔ ’’جب ہم ایک دوسرے کی سلامتی کے خواہاں ہیں تو دشمنی کا تصور تو خودبخود مٹ جاتا ہے۔‘‘
’’اس دشمنی کی داغ بیل تو تم ڈال رہے ہو۔‘‘
’’میں نے تو ابھی کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘
’’یہاں سے چلے جائو۔‘‘
’’یہی مطالبہ میرا ہے۔‘‘
’’تم کون ہوتے ہو؟‘‘ وہ مردانہ آواز میں بولی۔
’’بندئہ خدا ہوں اور اس بچی کو مشکل سے بچانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’خود مشکل میں پڑ جائو گے۔‘‘
’’اللہ مالک ہے۔‘‘
’’سوچ لو۔‘‘
’’سوچنا تو تمہیں ہے غلام جلال، مسلمان کے بیٹے ہو، سب کچھ جانتے ہو، تمہیں علم ہے کہ وہ بچپن سے ایک نوجوان سے منسوب ہے۔ نیک والدین کی نیک اولاد ہے اور اس تصور سے دور نہیں ہوسکتی جو بچپن سے اس کے ذہن میں ہے۔ تم اسے کیوں پریشان کررہے ہو؟‘‘
’’بہت کم وقت رہ گیا ہے جب اس کے دل میں میرے سوا کوئی تصور نہیں ہوگا۔‘‘
’’یہ تصور نہیں، تسلط کہلائے گا اور اس سے ایک خاندان بدترین المیے کا شکار ہوجائے گا۔‘‘
’’مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔‘‘
’’یہ بات شرافت کے منافی ہے۔‘‘
’’جو کچھ بھی ہو۔‘‘
’’میں تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’نہ مانوں تو۔‘‘
’’خود ذمہ دار ہوگے۔ تم نے مجھے بلایا ہے اور اب جب میرا اور تمہارا آمنا سامنا ہوگیا ہے تو پھر فیصلہ ہی ہوجانا چاہیے۔‘‘
’’میں تمہیں فنا کردوں گا۔‘‘
’’یہ الفاظ کفر کے مترادف ہیں۔ آئو ذرا تمہاری قوت کا جائزہ لے لیا جائے۔‘‘ میں آگے بڑھا اور میں نے مہرالنساء کے چھتری کی طرح بکھرے بالوں کا کچھ حصہ اپنی مٹھی میں جکڑ لیا۔ شیخ صاحب کے ساتھ کچھ دوسری چیخیں بھی سنائی دی تھیں۔ نہ جانے کون کون اندر آگیا تھا مگر میں کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ میں نے شانے پر پڑا کمبل مہرالنساء پر ڈال دیا۔ اس کے ساتھ ہی مہرالنساء تپائی سے نیچے آرہی۔ مگر فوراً ہی کمبل کے ایک کھلے ہوئے حصے سے ایک کالے ناگ کا پھن برآمد ہوا اور وہ برق کی سی تیزی سے باہر نکل آیا۔ باہر آتے ہی اس نے پھن اٹھا کر مجھ پر حملہ کیا مگر میں غافل نہیں تھا۔ میں نے پینترا بدل کر ایک زوردار تھپڑ اس پھن پر رسید کیا اور سانپ اچھل کر دیوار سے ٹکرا گیا۔ کمرے میں ڈری ڈری چیخیں ابھر رہی تھیں۔ سانپ ایک لمحے بے حس و حرکت پڑا رہا۔ پھر وہ ادھر ادھر رینگنے لگا جیسے نکل بھاگنے کی راہ تلاش کررہا ہو۔ میری نظر اس کھلی کھڑکی پر پڑی جو کمرے کی پشت پر تھی۔ اس کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے، سانپ دیواروں سے ٹکریں مار رہا تھا جیسے اسے نظر نہ آرہا ہو۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے اٹھایا اور کھلی کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ اسے پھینکتے ہوئے میں نے کہا۔
’’بہتر یہ ہوگا غلام جلال کہ آئندہ ادھر کا رخ نہ کرنا۔ ورنہ اس کے بعد جو کچھ ہوگا، اس میں میرا قصور نہیں ہوگا۔‘‘
میں نے کھڑکی کے دونوں پٹ بند کیے اور واپس پلٹا۔ پھر میں نے کمبل سمیٹ کر تہہ کیا اور اسے شانے پر ڈال لیا۔ مہرالنساء بے سدھ پڑی ہوئی تھی۔ میں نے شیخ صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’انہیں مسہری پر لٹا دیں۔‘‘ میری ہدایت کی تعمیل کی گئی۔ عورتیں کمرے میں رہ گئیں۔ شیخ صاحب میرے ساتھ باہر نکل آئے۔ ان کا بدن کپکپا رہا تھا اور منہ سے آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔ ’’خود کو سنبھالیے شیخ صاحب!‘‘
’’آپ… مسعود صاحب! آپ تو میرے لیے امداد غیبی ثابت ہوئے۔ سخت شرمسار ہوں کہ آپ کو وہ مقام نہ دے سکا جو ہونا چاہیے تھا۔ آہ! میں آپ کو آپ کے شایان شان تعظیم نہ دے سکا۔‘‘ شیخ صاحب نے کہا۔
’’گناہ گار نہ کریں شیخ صاحب! مجھے اور کیا درکار تھا۔ بڑی عزت دی ہے آپ نے مجھے! اللہ آپ کو عزت بخشے۔‘‘
’’آپ اس کا نام بھی جانتے تھے شاہ صاحب! وہ کون تھا اور…؟‘‘
’’ابھی خاموشی اختیار کریں۔ جوانی سرکش ہوتی ہے۔ اگر اس نے مزید سرکشی کی تو اسے نقصان پہنچانا پڑے گا لیکن آپ اطمینان رکھیں، ہم فیصلہ کرکے ہی واپس جائیں گے۔ اجازت ہے؟‘‘ شیخ صاحب میرے ساتھ اٹھنے لگے تو میں نے انہیں روک دیا اور خود باہر نکل کر خاموشی سے مہمان خانے کی طرف چل پڑا۔ مجھے یہی کرنا تھا اور اسی کی ہدایت کی گئی تھی مجھے۔ اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا۔ نہ جانے کب تک لیٹا اس بارے میں سوچتا رہا۔ غلام جلال کا نام بھی مجھے بتایا گیا تھا ورنہ میں اس کو کیا جانتا البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ اس کے بعد غلام جلال کا قدم کیا ہوگا۔ پھر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کوشش میں شاید کامیاب ہوگیا تھا مگر یہ رات سونے کے لیے نہیں تھی۔ پھر دروازہ بجایا گیا تھا۔ دروازہ کھولا تو اندھیرے میں کوئی کھڑا نظر آیا لیکن جو کوئی بھی تھا، کالی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ میں اسے پہچان نہ پایا کہ اس کی آواز ابھری۔
’’پیر و مرشد! میں الیاس خان ہوں۔‘‘
’’الیاس خان! اندر آجائو۔‘‘ میں نے کہا اور الیاس خان اندر داخل ہوتے ہی جھک کر میرے پیروں سے لپٹ گیا۔
’’معاف کردیں مرشد! معاف کردیں شاہ صاحب! بڑی گستاخیاں کی ہیں آپ کی شان میں۔ معاف کردیں۔ آپ تو اللہ والے ہیں۔ میں نے بڑی بدتمیزی کی آپ سے۔‘‘
’’خدا کے بندے! اٹھو کیوں مجھے گناہ گار کررہے ہو۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں…؟‘‘
’’مجھے وہ مل گیا جو آپ نے بتایا تھا۔ دلدر دور ہوگئے میرے تو… بڑا مقروض تھا مرشد! عزت پر بنی ہوئی تھی۔ قرض خواہوں سے چھپتا پھرتا تھا۔ اب آپ کی عنایت سے عزت سے جی سکوں گا۔ اتنا عاجز آگیا تھا اپنی بداعمالیوں کے نتیجے میں چڑھ جانے والے قرض سے کہ دو ہی صورتیں رہ گئی تھیں میرے لیے یا تو جرم کروں یا خودکشی! مگر مرشد! آہ آپ کتنے رحم دل ہیں۔ میری بدتمیزی کو نظرانداز کرکے آپ نے مجھے نئی زندگی دے دی۔‘‘ الیاس خان کا رنگ ہی بدلا ہوا تھا۔ نہ وہ تیکھا پن تھا، نہ اکڑفوں! مجسم نیاز بنا ہوا تھا۔
’’چلو تمہارا کام بن گیا۔ ہمیں بھی خوشی ہوئی مگر ہماری وہ شرط قائم ہے۔‘‘
’’حضور! میرے ساتھ ہی الٰہ آباد چلیے، غلاموں کی طرح خدمت کروں گا۔ سارے کام کروں گا جو آپ حکم دیں گے۔‘‘
’’ہمیں بس اپنا پتا بتا دو۔ ہم آئیں گے تمہارے پاس، ابھی یہاں کام ہے۔‘‘
’’آپ مجھے بس حکم دے دیں، خود لینے آجائوں گا دوبارہ آپ کہیں تو ریاض صاحب کی بھی خدمت کروں۔‘‘
’’جو تمہارا دل چاہے کرنا، ہمیں پتا بتا دو۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا اور الیاس خان نے مجھے الٰہ آباد میں اپنا پتا ذہن نشین کروایا۔ اس کے بعد وہ نہ جانے کیا کیا اول فول بکتا رہا تھا۔ بمشکل تمام ٹلا۔ صبح کو جارہا تھا۔ یہ سونا چاندی بھی کیا چیز ہوتی ہے۔ انسان میں کیا کیا تبدیلیاں رونما کردیتی ہے۔
سورج کی کرنوں نے پپوٹے چیرنے شروع کر دیئے۔ نیند ایسی ٹوٹی تھی کہ آنکھ کھولنے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ دفعتاً ہی حواس جاگے اور ہڑبڑا کر اُٹھ گیا۔ فجر کی نماز قضا ہوگئی تھی۔ دِل ہی دِل میں لاحول پڑھتا ہوا اُٹھ گیا۔ نہ جانے آنکھ کیوں نہیں کھلی تھی۔ غسل خانے جا کر وضو کیا اور قضا پڑھنے بیٹھ گیا۔ غلطی مجھ سے ہی ہوئی تھی۔ جائے نماز بچھانے سے پہلے دروازہ کھول دینا چاہیے تھا۔ نماز شروع ہی کی تھی کہ دروازہ بجایا جانے لگا۔ جو شخص بھی دروازہ بجا رہا تھا نہایت احمق تھا۔ اسے جواب نہ ملنے پر رُکنا چاہیے تھا۔ مگر وہ ہاتھ ہٹانے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ سخت غصّہ آیا مگر کیا کرتا۔ خدا خدا کر کے سلام پھیرا اور غصّے سے دروازے کی طرف بڑھا، اندازہ ہوگیا تھا کہ فتح محمد کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا۔
’’شکر ہے اللہ کا زندہ ہو۔ ہمیں تو اندیشہ ہو گیا تھا کہ چل بسے۔ اماں کیا ازار بند نکل گیا تھا؟‘‘
’’فتح محمد، تم نہایت بے وقوف انسان ہو۔‘‘
’’لو اول لو، ماں بھائی جی یہ تو سب ہی کہتے ہیں تم نے کونسی نئی کئی، کچھ خبر بھی ہے بسنت کی؟‘‘
’’کیا ہوا بندئہ خدا؟‘‘
’’بھائی پھوٹ لیے نہار منہ، خبر دینے آئے ہیں۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’الیاس خاں، منہ اندھیرے بسترا بغل میں دبا کر نکل لیے۔ اللہ خیر کرے اچھے نواب کو دَبی زبان سے بتا تو دیا ہے، کچھ بولے نہیں، بس اتنا کہا کہ فتح محمد انہیں جانا تھا مگر قسم اللہ کی دال میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ وہ… دو دن پہلے سے کہتے ہیں جانا ہے۔ ناشتے کے بعد جانے کا فیصلہ کرتے ہیں پھر سوچتے ہیں کھا کر جائیں گے۔ مگر اس مرتبہ تو وہ چپ چاپ نکل لیے۔ ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔‘‘
’’اماں کچھ ہاتھ لگ گیا، لے کر نکل لیے بھائی کے سُسرال کا مال سمجھ کے۔‘‘
’’کیا تمہیں ایسی باتیں کرنی چاہئیں فتح!‘‘ میں نے ملامت کرتے ہوئے کہا۔
’’اماں تو کونسی کسی غیر سے کر رئے ہیں، تم اتے شریف آدمی ہو کہ دل کی کہہ لیتے ہیں۔ پر ایک بات ہے بھائی میاں، غریب کا کوئی نئیں ہوتا، گھٹنے پیٹ کی طرف ہی مڑتے ہیں۔ کل تم نے بھی انہیں سٹّے کا نمبر بتاتے ہوئے ہمیں بھگا دیا۔ اماں ان کی کیا ہے خود بھی گھر کے کھاتے پیتے ہیں اور پھر اِدھر اُدھر سے مارتے کھاتے رہتے ہیں۔ اماں بھائی میاں ہمیں بھی کچھ دے دو بڑے غریب آدمی ہیں۔ بال بچوں کو دُعا دیں گے۔‘‘
’’میں نے انہیں سٹّے کا نمبر نہیں دیا فتح محمد!‘‘ میں نے کہا۔
’’اماں ہم سے اَڑ رہے ہو۔ اُڑتے کبوتر کے پر گن لیتے ہیں، ہم بھی تاڑ میں لگے رئے تھے ان کی، رات کو برگد کی جڑ میں تعویذ گاڑتے ہوئے بھی دیکھ لیا تھا ہم نے۔‘‘
’’تعویذ گاڑتے ہوئے…؟‘‘ میں حیرت سے بولا۔
’’قسم اللہ کی برگد کی جڑ میں گڑھا کھود رئے تھے۔ پھر برابر بھی کر دیا۔ جب چلے گئے تو ہم نے قریب جا کر بھی دیکھا مٹی برابر کی گئی تھی۔ تعویذ کی بات نہ ہوتی تو کھود کر دیکھتے۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ میں نے گہری سانس لی بات سمجھ میں آ گئی تھی، باہر سے آواز آئی۔
’’فتح محمد، او فتے لگ گئے باتیں بنانے میں۔‘‘
’’لو وہ آ گئے نصیحت علی خاں، اب نصیحتیں کریں گے۔‘‘
’’اماں آ رہا ہوں بندو خاں پوچھ رہا تھا کہ…‘‘
’’ناشتے کی پوچھنے آئے تھے تم… اور یہاں جم گئے… لو چلو ناشتہ رکھو سنبھال کر۔‘‘ بندو خاں خود ناشتے کی ٹرے لے آئے تھے۔ فتح محمد نے جلدی سے ٹرے سنبھال لی۔ ’’ناشتے کے بعد رحیم الدین کے پاس چلے جانا۔‘‘
’’اور کچھ…؟‘‘ فتح محمد نے پوچھا۔
’’اور یہ کہ میاں صاحب کا بھیجہ مت کھایا کرو۔‘‘
’’بہت بڑھ بڑھ کر بولنے لگے ہو بندو خاں صاحب… برابر کے عہدے ہیں ہمارے تمہارے۔ حکم مت چلایا کرو میرے پر…!‘‘
’’عہدے برابر ہیں فتح محمد، مگر عمر تم سے زیادہ ہے سمجھے۔‘‘ بندو خاں مسکرا کر بولے اور پھر کہنے لگے۔ ’’اچھا یوں کرو تم میاں کو ناشتہ کرائو، میں رحیم الدین کے پاس چلا جاتا ہوں۔‘‘ اچھا چلتا ہوں۔ ’’بندو خاں مسکرا کر باہر نکل گئے۔ فتح محمد نے گردن ٹیڑھی کی، منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا اور اس کے بعد میرے لیے ناشتہ لگانے لگا۔ میں نے اسے بھی ناشتے کی پیشکش کی تو وہ کہنے لگا۔‘‘
’’نہیں میاں صاب، آپ کر لو آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں پوچھا، مگر شکایت یہی کرتے رہیں گے غریب آدمی کی بھی سننی چاہیے، اصل ضرورت ہماری ہے ان کا کیا ہے، سٹّہ لگائیں گے، مال کمائیں گے، عیاشی کریں گے، یہاں تو بارہ بچوں کا معاملہ ہے۔‘‘ میں خاموشی سے ناشتہ کرتا رہا پھر میں نے کہا۔
’’برتن لے جائو…‘‘ وہ شاید مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر سکا تھا۔ برتن اُٹھا کر باہر نکل گیا۔ میں تھوڑی دیر تک بیٹھا سوچتا رہا اور اس کے بعد خود بھی باہر نکل آیا۔
حویلی کے ملازم اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ مالی کیاریاں دُرست کر رہا تھا۔ دُوسرے لوگ اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ صفائی کرنے والا، صفائی کر رہا تھا، میں ٹہلتا ہوا دُور تک نکل آیا اور اتفاق سے ہی اس وقت برگد کے اسی درخت کے قریب پہنچ گیا، جس کی جڑ سے الیاس خاں کا کام بنا تھا، یونہی نگاہ اس کی جڑ پر جاپڑی اور بس، قدرت نے یہ عطیہ عطا فرما دیا تھا، جس کا احساس اس وقت پھر ہوا، آنکھوں نے ان گہرائیوں میں دیکھا، کلسا غائب تھا لیکن مٹی میں چند اشرفیاں نظر آ رہی تھیں، دس بارہ سے کم نہیں ہوں گی، فوراً ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ وہ اشرفیاں ہیں جو مٹی میں مل جانے کی وجہ سے الیاس خاں کو نظر نہیں آ سکیں، ویسے بھی اس نے یہ کام رات میں کیا تھا اور یقینی اَمر ہے کہ افراتفری کے عالم میں کیا ہوگا، چنانچہ یہ اشرفیاں رہ گئیں۔ دل خوش ہو گیا بیچارے فتح محمد کے کام آ سکتی ہیں۔ یہ بتا دوں گا اسے پھر وہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر چلا تھا کہ فتح محمد نظر آ گیا، میں اسے دیکھ کر مسکرایا اور وہ بھی مسکراتا ہوا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میں نے ابھی اسے کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ چھوٹا آدمی تھا، چھوٹی طبیعت کا مالک، میرے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی پاگل ہو جاتا اور پھر خواہ مخواہ کہانی عام ہو جاتی، دُوسروں کو پتا چلتا تو نجانے کیا کیا قیاس آرائیاں ہوتیں۔ ٹہلتا ہوا حویلی کے عقبی حصے میں جا نکلا اور اس وقت پیچھے سے مہرالنساء، نورجہاں کے ساتھ آتی ہوئی نظر آئی، دونوں تیز تیز قدموں سے میری طرف آ رہی تھیں، نورجہاں نے مجھے سلام کیا۔ مہرالنساء البتہ عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں بھی رُک گیا، سلام کا جواب دے کر میں نے ان دونوں کی خیریت پوچھی، اور مہرالنساء کہنے لگی۔
’’مسعود صاحب، ہم مہمان خانے میں آپ کی قیام گاہ تک گئے تھے۔ آپ اس طرف چہل قدمی کے لیے نکلے ہوئے تھے۔‘‘
’’اب آپ کی طبیعت کیسی ہے مہرالنساء؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’بہت عرصے کے بعد میں اپنے آپ کو زندہ محسوس کر رہی ہوں اور مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں بھی جینے والوں میں شامل ہوں، مطلب یہی ہے کہ جو کچھ مجھ پر بیت رہی تھی میں صحیح الفاظ میں تو ان لوگوں کو نہیں بتا سکتی تھی لیکن، لیکن زندگی سے بیزار تھی۔ میں آہ کاش میری یہ کیفیت مستقل ہو، میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی اور اسی لیے آپ کے پاس پہنچی تھی۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ آپ کو مکمل صحت عطا فرمائے، میری یہی دُعا ہے۔‘‘
’’اب جبکہ مہرالنساء نے آپ کو، آپ کے نام سے مخاطب کیا ہے مسعود صاحب، تو میں بھی اس میں کوئی ہرج نہیں سمجھتی، براہ کرم آپ ہماری گستاخی کا برا نہ مانئے گا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ ہماری ہی عمر کے ہیں، اور اگر ہم آپ کو کسی احترام کے نام سے پکاریں تو بڑا مضحکہ خیز لگے گا۔‘‘
’’کوئی ہرج نہیں ہے نورجہاں صاحبہ آپ کو میرا نام معلوم ہے، بس اتنا کافی ہے۔ آپ مجھے میرے نام سے پکار لیجیے۔‘‘
’’بے حد شکریہ، دراصل مہرالنساء چاہتی ہیں کہ اگر آپ کسی بھی طرح یہاں قیام کے لیے کچھ وقت نکال سکیں تو ان کا خوف دُور ہو جائے۔ مجھ سے باتیں کرتی رہی ہیں اور شیخ صاحب سے بھی، انہوں نے یہی کہا ہے۔ اوہو دیکھیے وہ شیخ صاحب آ گئے۔‘‘ نورجہاں ایک دَم بولی اور میری نظریں بھی اس جانب اُٹھ گئیں، شیخ عبدالقدوس ادھر ہی چلے آ رہے تھے۔ سلام کر کے مجھ سے ہاتھ ملایا اور پھر کہنے لگے۔
’’یہ اچھا ہوا کہ یہ لڑکیاں خود ہی آپ کے پاس آ گئیں مسعود میاں، کیا انہوں نے اپنا مقصد بتایا آپ کو؟‘‘
’’جی جی، مہرالنساء صاحبہ کا کہنا ہے کہ اگر میں یہاں کچھ عرصے قیام کروں تو ان کے دل سے خوف نکل جائے گا، لیکن اچھا ہوا آپ تشریف لے آئے، آپ کے سامنے کچھ حقیقتیں عرض کر دوں۔ میں بے شک ابھی کچھ وقت یہاں ہوں، لیکن جائوں گا تو ایک ایسا اطمینان بخش حل چھوڑ جائوں گا جس کے بعد یہ خطرہ موجود نہ رہے گا۔ اس سے زیادہ قیام ظاہر ہے کسی بھی طرح میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
مہرالنساء اور نورجہاں اس اطمینان کے بعد واپس لوٹ گئیں کہ ابھی میں یہاں قیام کروں گا۔ نورجہاں واقعی بڑی شوخ و شریر تھی، نجانے کیا کیا مہرالنساء کے کان میں بدبداتی رہی تھی، لیکن مہرالنساء سنجیدہ لڑکی تھی۔ بہرحال شیخ صاحب بھی چلے گئے اور میں واپس اپنی آرام گاہ میں آ گیا۔ اب یہاں قیام کرنا واقعی ایک مشکل اَمر تھا۔ دِل میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایسا کیا عمل ہو جس کی بنیاد پر مہرالنساء مکمل محفوظ سمجھی جائے، اور میں یہاں سے الٰہ آباد کا رُخ کروں۔ وہاں ہو سکتا ہے ماموں ریاض کے ساتھ ساتھ امی، ابو اور بہن بھی مل جائیں، آہ کیا ایسا ہو سکے گا۔ کیا میری زندگی میں ایک بار پھر وہی دن لوٹ آئیں گے۔ بس حسرتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ نجانے کیوں تقدیر پر اتنا بھروسہ نہیں رہا تھا کہ وہ مجھے میری لٹی ہوئی دُنیا واپس کر دے۔
شام کو تقریباً ساڑھے آٹھ بجے میں نے خود فتح محمد کو اپنے پاس بلایا اور وہ میرے قریب آ گیا۔
’’لگتا ہے فتح محمد کچھ ناراض ہوگئے ہو مجھ سے۔‘‘
’’کیا لے لیں گے میاں جی آپ سے ناراض ہو کر ہم نے تو پہلے بھی کہا تھا کہ بس شکایت ہے ہمیں تم سے۔‘‘
’’فتح محمد دیکھو، میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ الیاس خان کو میں نے کوئی نمبر وغیرہ نہیں بتایا، وہ وہاں کیا کر رہا تھا، یہ وہ جانتا ہے لیکن میرے علم نے مجھے بتایا ہے کہ برگد کے اسی درخت پر، اس کے نیچے نظر آنے والے مٹی سے ڈھکے ہوئے گڑھے میں کوئی ایسی چیز موجود ہے، جو تمہارے کام آ سکتی ہے۔‘‘
’’ایں…‘‘ فتح محمد نے منہ پھاڑ کر کہا۔
’’ہاں فتح محمد تم بھی اسی وقت جب الیاس خاں نے درخت کی جڑ میں گڑھا کھودا تھا وہاں پہنچنے کے بعد وہ گڑھا کھودنا اس کی مٹی کو اچھی طرح تلاش کر لینا، ممکن ہے تمہیں اس میں کوئی ایسی چیز مل جائے جو تمہارے لیے کارآمد ہو۔ بڑی احتیاط کی ضرورت ہے اگر واقعی کچھ مل جائے تو اسے اپنے پاس پوشیدہ کر کے گڑھا برابر کر دینا سمجھ رہے ہو ناں۔‘‘
’’ابھی چلا جائوں۔‘‘ فتح محمد نے کہا۔
’’ابھی تمہیں وہاں دیکھ لیا جائے گا اور جو کچھ تمہارے ہاتھ لگا وہ اس گھر کے مالکوں کی ملکیت ہوگا تم اسے اپنے قبضے میں نہیں لے سکو گے۔‘‘
’’اماں تو کیا الیاس کو بھی وہاں کچھ مل گیا تھا؟‘‘ فتح محمد نے پوچھا۔
’’اب یہ تو مجھے نہیں معلوم، الیاس خاں نے مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی مگر تم یہ کام احتیاط کے ساتھ کر لینا، بعد میں مجھ سے یہ مت کہنا کہ میں نے تمہارے لیے کچھ نہیں کیا۔‘‘
’’ارے بھائی میاں تم نے تو دِل ہولا دیا ہے قسم اللہ کی، اب میرے کو صبر کیسے آئے گا، ابے کیا کروں پیارے بھائی، بب… بس، خدا جانے رات کس وقت ہوگی۔‘‘
’’جائو جائو سکون سے اپنا کام سرانجام دینا، جلد بازی کی تو جو نقصان اُٹھائو گے اس کے خود ذمّے دار ہو گے۔‘‘
’’نہیں، نہیں، میاں صاحب جو آپ نے کہہ دیا ہے وہی کروں گا قسم اللہ کی۔‘‘ فتح محمد نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ بس اس کے بعد کوئی خاص مشغلہ نہیں تھا… لیکن یہاں اس حویلی میں گھسے رہنا بھی ایک مشکل کام تھا۔ رات کو دل میں یہ آئی کہ یہاں دہلی میں جو مقدس مزارات کا شہر ہے۔ کیوں نہ مزارات کی زیارتیں کروں اور کچھ نہیں تو کم از کم دل کو سکون ہی ملے گا۔ زیادہ تو نہیں سن سکا تھا، لیکن تھوڑی بہت باتیں کانوں تک پہنچی تھیں کہ دہلی میں بڑے بڑے جیّد بزرگوں کے مزارات ہیں، اب مجھے ان تمام چیزوں سے دلچسپی ہوگئی تھی۔
دُوسرے دن صبح معمول کے مطابق جاگا۔ ناشتہ فتح محمد لایا تھا۔ آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ زبان بند تھی۔ چہرے پر سرخی چھائی ہوئی تھی۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کا مقصد ہے کہ فتح محمد کا کام ہوگیا۔ اس نے ناشتہ میرے سامنے رکھا، حیرت انگیز طور پر خاموش تھا، میں نے ہی اسے مخاطب کیا۔
’’فتح محمد!‘‘ اور وہ اس طرح اُچھل پڑا جیسے بچھو نے ڈنگ مار دیا ہو۔
’’کتنی تھیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’تیرہ۔‘‘ وہ بے اختیار بولا اور پھر چونک کر کہنے لگا۔ ’’کیا میاں صاحب کیا؟‘‘
’’کام ہو جائے گا تمہارا؟‘‘ میں نے پوچھا اور فتح محمد ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ چند لمحات سوچتا رہا پھر جلدی سے آگے بڑھا اور جھک کر میرے پائوں پکڑ لیے۔
’’قسم اللہ کی، زندگی بھر غلام رہوں گا آپ کا میاں صاحب، دن پھیر دیے آپ نے میرے، معاف کر دیجیے مجھے معاف کر دیجیے، رات کو یہ سوچ رہا تھا بلکہ ساری رات سوچتا رہا تھا کہ آپ سے قبول کر ہی نہیں دوں گا چپ لگا جائوں گا مم… مگر غلطی تھی گستاخی تھی میری، معاف کر دیجیے۔‘‘
’’ارے فتح محمد ہم سے چھپانے کی کیا ضرورت تھی۔ بھئی ہم بھلا کس سے کہنے جا رہے ہیں۔ ٹھیک ہے اب تم جانو اور تمہارا کام۔‘‘
’’میاں صاحب آپ نے، آپ نے…‘‘
’’بس بس بیکار باتوں سے گریز کرو۔ اچھا ہاں ذرا ہمیں یہ بتائو یہاں کون کون سے بزرگوں کے مزارات ہیں اور کہاں سے کہاں جانا ہوگا ہمیں…؟‘‘
’’مزارات! ابے لو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ دلی کی کسی بھی سڑک پر نکل جائو، کسی چلتے پھرتے سے پوچھ لو، وہ سارے کے سارے مزاروں کے پتے بتا دے گا۔ پہلے تو حضرت سلطان جی ہی ہیں ان کے دربار میں جائو، میاں صاحب مزا آ جائے گا۔ قسم اللہ کی کیا جگہ ہے۔ اس کے بعد فتح محمد تمام بزرگوں کے نام گنانے لگا اور میں نے انہیں ذہن نشین کرلیا۔ فتح محمد بولا…‘‘
’’جانے کا ارادہ ہے
کیا…؟‘‘
’’ہاں فتح محمد، جی چاہتا ہے۔‘‘
’’تو پھر موٹر نکلوا لو شیخ صاحب کی، ڈرائیور سارے میں گھما دے گا۔‘‘
’’نہیں فتح محمد ،میں پیدل ہی جائوں گا۔‘‘
’’تمہاری مرضی ہے میاں صاحب۔‘‘ فتح محمد بولا۔ آج اس نے ایک بھی فضول بات نہیں کی تھی اور میں جانتا تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ پھر ناشتے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد میں وہاں سے باہر نکلا، فتح محمد سے کہہ دیا تھا کہ اگر شیخ صاحب پوچھیں تو بتا دے کہ میں سیر کرنے نکلا ہوں، شام تک واپس آ جائوں گا۔ دہلی کی سڑکوں پر آ گیا۔ پتے پوچھتا رہا، روایتوں کا شہر تھا، وقت کتنا ہی گزر جائے دلی کی قدیم روایتیں کبھی دم نہیں توڑیں گی۔ اس کی ادائوں میں فرق نہیں آئے گا۔ ایک جگہ رُک کر ایک شخص سے حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مزار کا پتہ پوچھا اور اس نے حیرت سے منہ کھول دیا۔
’’اماں نئے لگتے ہو، دلی میں کہیں باہر سے آئے ہو۔‘‘
’’یہی بات ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا اور وہ سر ہی پڑ گیا، مجھ سے پوچھے بغیر تانگہ روکا اور مجھے سوار ہونے کا اشارہ کیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’اماں آ جائو تکلف نہ کرو، ہمارے سلطان جی کی زیارت کو آئے ہو، چلو ہم پہنچا دیں ان کے کنے۔‘‘ لاکھ منع کیا نہ مانا، تانگہ چل پڑا اور وہ مجھے راستوں کے بارے میں بتانے لگا۔ ’’یہ ببر کا تکیہ ہے، یہ مٹکوں والے پیر کا مزار ہے اور یہ نیلی چھتری۔ یہاں سے تانگہ دائیں ہاتھ کو مڑ گیا۔ یہ بائیں ہاتھ والی سڑک ہمایوں کے مقبرے کو جاتی ہے۔ میرے راہنما نے بتایا… بالآخر درگاہ شریف پہنچ گئے۔ وہ اسی تانگے میں واپس چلا گیا۔ اس کی محبت نے دل پربڑا اَثر کیا تھا، اندر داخل ہوگیا۔ زیارت سے دل شاد ہوگیا۔ فاتحہ خوانی کی اور بہت دیر تک یہاں رُکا رہا۔ اُٹھنے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ بہرحال آگے بڑھنا تھا۔ وہاں سے نکلا، کوٹلہ، پرانا قلعہ شیر منڈل پھر مہر ولی اور پھر قطب صاحب، دوپہر کا وقت تھا، تیز دُھوپ پڑ رہی تھی، ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے۔ گرمی اور دُھوپ کی وجہ سے کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہوائوں کے مرغولے ریت کو بلند کرتے اور بعض جگہ بھنور کی شکل میں بلند ہوتے اور چکراتے دُور نکل جاتے۔ بچپن کی کچھ باتیں یاد آ گئیں۔ اکثر دوپہر کو کھیلنے نکل جاتا تھا ایسے ہی جھکڑ چل رہے ہوتے، اماں دیکھ لیتیں تو کہتیں۔
’’ایسی دوپہر میں گھر سے نہ نکلا کرو چمر بائولے اُٹھا لے جاتے ہیں۔‘‘
’’یہ کیا ہوتا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا تو ماں نے مجھے چمر بائولے دکھائے، ہوا کے بھنور جو ریت کو رول کرتے ہوئے انسانوں کی طرح چلتے نظر آتے تھے۔
’’ان میں کیا ہوتا ہے۔‘‘
’’جنوں کی سواری، جن اِن پر سوار ہو کر سیر کو نکلتے ہیں اور اگر کوئی ان کے راستے میں آ جائے تو انہی میں لپٹ کر چلا جاتا ہے اور جن اُسے اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بچپن کی باتیں شاید عمر کے آخری حصے تک یاد رہتی ہیں اور انہیں بھلانا ناممکن ہوتا ہے۔ ان بگولوں کو دیکھ کر دل میں وہی خوف طاری ہوگیا جو بچپن میں ہو جایا کرتا تھا۔ اس خوف میں بھی ایک لذت کا احساس ہوا۔ ماں یاد آ گئی تھی اور یہ یاد تو اب ایک ایسی کیفیت اختیار کر چکی تھی جسے الفاظ میں منتقل کرنا ممکن نہیں۔ آگے بڑھتا رہا اور پھر ایک چمربائولے کی زد میں آ گیا۔ اچانک ہی ہوا کا ایک زوردار جھکڑ عقب میں نمودار ہوا، اِس جھکڑ نے ایک وسیع دائرے کی شکل اختیار کرلی۔ گہری اور گاڑھی مٹی کئی فٹ اُونچی بلند ہوئی اور چکراتی ہوئی اس برق رفتاری سے میری جانب بڑھی کہ میں اس کی لپیٹ سے نہ نکل سکا۔ یوں لگا جیسے زمین سے پائوں اُکھڑ گئے ہوں۔ بڑا شدید دبائو تھاہوا کا۔ میں نے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے اور تیز ہوائوں کا یہ زوردار جھکڑ مجھے زمین سے بلند کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ تمام محسوسات جاگ رہے تھے اور کسی بھی قسم کے وہم کا گمان نہیں تھا بس میں یہی سوچ رہا تھا کہ اب زمین پر گرا تب گرا… سنبھلنے کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں۔ ہوا کا یہ جھکڑ پلک جھپکتے مجھے میری جگہ سے کافی دُور لے گیا اور اس کے بعد میں گر پڑا۔ گھٹنوں میں چوٹ لگی تھی۔ باریک باریک پتھروں کے ٹکڑے ہتھیلیوں میں چبھ گئے تھے اور میں گرد کی وجہ سے آنکھوں میں کڑواہٹ محسوس کر رہا تھا۔ ہوا کا یہ تیز جھکڑ مجھ پر سے گزر گیا۔ کئی فٹ دُور لا پھینکا تھا اور اب وہ مجھ سے آگے نکل گیا تھا۔ آنکھیں کھولیں تو مٹی چبھنے لگی۔ بمشکل تمام شانے سے کمبل اُتار کر ایک سمت رکھا اور قمیض کے دامن سے آنکھیں صاف کرنے لگا۔ بڑی مشکل سے آنکھیں اس قابل ہوگئی تھیں کہ زمین نظر آ سکے۔ مسکراہٹ آ گئی تھی چہرے پر اور بدستور ماں کی ہدایت یاد کر رہا تھا، پھر زمین پر ہاتھ ٹکا کر اپنے آپ کو سنبھالا اور سیدھا کھڑا ہوگیا، لیکن دماغ کو جو خوفناک جھٹکا لگا تھا اس نے آنکھیں تاریک کر دیں۔ جو منظر نظر کے سامنے آیا تھا اس پر یقین کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، چند لمحات تک جھنجھناتے ہوئے دماغ کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اردگرد کا ماحول دیکھا۔ خدا کی پناہ یہ وہ جگہ ہی نہیں تھی جہاں اب سے چند لمحے پیشتر موجود تھا۔ یہ تو ماحول ہی بدلا ہوا تھا۔ لکھوری اینٹوں کی بنی ہوئی ایک انتہائی بوسیدہ اور وسیع عمارت، ٹوٹی پھوٹی دیواریں، بڑے بڑے جھروکے، عجیب سے فصیل نما ستون اور جگہ جگہ لکھوری اینٹوں کے ہیبت ناک ڈھیر، کہیں ٹوٹے ہوئے دروازے تو کہیں محرابیں۔ کہیں چبوترے جو صاف ستھرے اور کشادہ اور کہیں کچھ منبر نما جگہ، کوئی ایک بات جو سمجھ میں آئی ہو نگاہوں کا دھوکا تو ہو نہیں سکتا اور اگر دماغ کی کوئی خرابی ہے تو ان باتوں کو محسوس کرنے کی قوت ذہن میں کیسے موجود ہے۔ لیکن کچھ بھی نہیں تھا۔ جنوں کی سواری گزر رہی تھی اور میری ماں کے کہنے کے مطابق جن مجھے یہاں اُٹھا لائے تھے۔ بھلا اس کے علاوہ اور کیا سوچ سکتا تھا۔ بچپن کی حدود سے گزرا تھا اور ماں کی ہدایات پر غور کیا تھا تو یہی سوچا تھا کہ ماں دُھوپ سے بچانے کے لیے یہ الفاظ ادا کر کے خوف زدہ کرنا چاہتی ہے تا کہ دُھوپ مجھ پر اثرانداز نہ ہو، لیکن وہ کہانی اس وقت مجسم تھی۔ چمر بائولوں میں سفر کرنے والی جنوں کی سواری کے بیچ آ گیا تھا اور انہوں نے مجھے یہاں لا پٹخا تھا۔ کیا اسی بات پر یقین کر لوں مگر جگہ کونسی ہے اور جو کچھ ہوا ہے وہ کیا واقعی سچ ہے۔ ایک انوکھا سچ، اب کسی شبے کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی۔ اُٹھا، کمبل احترام سے اُٹھا کر شانے پر ڈالا، اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ یہ ٹوٹی عمارت کہاں ہے کچھ اندازہ تو ہو۔ آس پاس ٹوٹی دیواریں، جھاڑیاں اور ویران اور ہیبت ناک مناظر کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اینٹوں سے بنے ہوئے اس چبوترے کی جانب بڑھ گیا جس کی سیڑھیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ہو سکتا ہے بلندی پر کھڑے ہو کر کچھ اندازہ ہو سکے۔ چبوترے پر پہنچا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ دُور دُور تک ویران میدان بکھرے ہوئے نظر آ رہے تھے جن میں جگہ جگہ چھدرے درخت سنسان کھڑے ہوئے تھے۔ پتھریلے چبوترے کے ایک گوشے میں ایک کنواں نظر آیا جس کے کنارے اینٹوں سے بنے ہوئے تھے۔ وہاںپانی کا ایک ڈول رکھا ہوا تھا اور رسّی کا لچھا بہت بڑا نظر آ رہا تھا جس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ کنواں بہت گہرا ہے، لیکن جگہ، یہ جگہ کونسی ہے، دفعتاً ہی قدموں کی آہٹیں سنائی دیں اور سمت کا اندازہ کر کے دہشت زدہ سا اس طرف مڑ گیا۔ تین در ایک ساتھ بنے ہوئے تھے اور ان کے دُوسری طرف اندھیرا سا چھایا ہوا تھا اس طرف کا حصہ سالم نظر آ رہا تھا۔
آنے والے انہی دروں سے برآمد ہوئے تھے۔ تینوں دروں سے ایک ایک فرد باہر نکلا تھا۔ شانوں سے لے کر ٹخنوں تک کے سفید لباس میں ملبوس چہروں پرداڑھیاں تھیں اور یہ چہرے عام انسانوں جیسے ہی تھے۔ میں ان کے مخصوص لباس سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا کہ یہ کون ہو سکتے ہیں۔ یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ میری یہاں موجودگی سے واقف ہیں اور میرے ہی لیے اندر سے نکل کر آئے ہیں۔ بہرطور انسان تھے، خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں انہیں دیکھنے لگا اور وہ تینوں قدم بڑھاتے ہوئے میرے نزدیک پہنچ گئے۔ پھر ان میں سے ایک نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے آگے بڑھنے کے لیے کہا، لیکن میں نے فوراً ہی انہیں سلام کیا تھا۔ سلام کا جواب تینوں نے دیا اور اس کے بعد اس شخص نے جس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے آگے بڑھنے کے لیے کہا تھا مدھم لہجے میں کہا۔‘‘
’’اندر چلو تمہیں طلب کیا گیا ہے۔‘‘ میں کچھ اور سوال پوچھنا چاہتا تھا لیکن ان میں سے دو میرے عقب میں آ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ہاتھ سے میرے شانوں کو ڈھکیلا، خاصا طاقتور دھکا تھا۔ میں کئی قدم آگے بڑھتا چلا گیا اور اس کے بعد یہی مناسب سمجھا کہ خاموشی سے ان کی ہدایت پر عمل کروں، ان کا انداز سخت تھا۔ وہ لوگ مجھے لیے ہوئے درمیان کے بڑے در سے اندر داخل ہوگئے۔ یہاں چھت تھی اور یہ جگہ خاصی وسیع تھی، اس کے دُوسری جانب ایک دروازہ نظر آ رہا تھا جس سے روشنی چھن رہی تھی اور یہ روشنی قدرتی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ دُوسری طرف بھی کوئی کھلی جگہ موجود ہے۔ وہ لوگ مجھے اسی دروازے کی سمت لے چلے اور پھر میں اس دروازے سے بھی دُوسری طرف نکل گیا۔ تب میں نے اس کھنڈر نما عمارت کا وہ صحیح و سالم حصہ دیکھا جو بہت خوبصورتی سے بنا ہوا تھا۔ غالباً عمارت کا بیرونی حصہ ٹوٹ پھوٹ کر تباہ و برباد ہو گیا تھا لیکن یہ اندرونی حصہ بالکل دُرست تھا اور یہاں بڑے بڑے دروازے نظر آ رہے تھے۔ کچی زمین تھی اور اس پر گھاس اُگی ہوئی تھی۔ اسی گھاس سے گزار کر مجھے ایک بڑے دروازے تک لایا گیا اور پھر وہاں دو آدمی رُک گئے۔ البتہ ان میں سے ایک مجھے اسی طرح لیے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ یہ ایک وسیع و عریض کمرہ تھا جس پر دری اور چاندنی بچھی ہوئی تھی۔ سامنے ہی بڑا سا گائو تکیہ لگائے ہوئے ایک عمر رسیدہ شخص بیٹھا ہوا تھا۔ سر پر صافہ بندھا ہوا تھا۔ شانوں پر خاص طریقے سے چادر ڈالی گئی تھی۔ ڈھیلے ڈھالے سفید لباس میں ملبوس تھا۔ براق داڑھی سینے تک پھیلی ہوئی تھی۔ سرخ و سفید چہرے کے ساتھ بڑی پُر رعب شخصیت کا مالک نظر آتا تھا۔ اس کے دونوں سمت نیم دائرے کی شکل میں دس بارہ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ کچھ فاصلے پر ہٹ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے لانے والے نے بڑھنے کا اشارہ کیا اور اس شخص نے گردن اُٹھا کر مجھے دیکھا۔ پھر انگلی سے ایک سمت اشارہ کر دیا۔ مجھے ایک الگ گوشے میں بٹھا دیا گیا۔ لیکن معمر شخص سے میرا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ اس وسیع و عریض کمرے میں اور بھی دروازے تھے۔ ایک دروازے سے چند افراد اندر داخل ہوئے اور پھر ایک اور دروازے سے جو شخص اندر آیا وہ میرے لیے بڑا حیران کن تھا۔ ایک خوبصورت سی شکل کا نوجوان جس کی پیشانی پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور جس کی تیز نگاہیں مجھے گھور رہی تھیں۔ معمر شخص کے قریب آ کر وہ دوزانو بیٹھ گیا۔ اس کے برابر ہی ایک اور کالی داڑھی والا شخص آ کر بیٹھ گیا تھا۔ معمر شخص نے گردن اُٹھا کر گہری نگاہوں سے مجھے دیکھا پھر کالی داڑھی والے شخص کو اور اس کے بعد اس کی آواز اُبھری۔
’’ثابت جلال اپنے بیٹے غلام جلال سے پوچھو کہ کیا یہی وہ شخص ہے جس پر غلام جلال نے اپنے آپ کو زخمی کرنے کا الزام لگایا ہے۔‘‘ جس شخص کو ثابت جلال کہہ کر پکارا گیا تھا، اس نے خونی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور پھر پاس بیٹھے ہوئے نوجوان کو لیکن غلام جلال کا نام سن کر میں خود چونکا تھا، میری جس قدر رہنمائی ہوئی تھی اس میں غلام جلال کا نام تو شامل تھا لیکن اس کی صورت سے آشنائی نہ ہو پائی تھی۔ ایک لمحے میں مجھے ساری حقیقت کا اندازہ ہو گیا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی دل سے خوف بالکل ختم ہو گیا تھا۔ نوجوان لڑکے نے مجھے گھورتے ہوئے مؤدب انداز میں کہا۔
’’ہاں معزز قاضی صاحب، حقیقت یہی ہے کہ یہی وہ شخص ہے جس نے مجھے زخمی کیا۔‘‘
’’اے شخص تیرا نام کیا ہے…؟‘‘ جس شخص کو قاضی کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا اور جس کی سفید داڑھی اس کے سینے پر لہرا رہی تھی اس نے کرخت لہجے میں مجھ سے پوچھا۔
’’میرا نام مسعود احمد ہے اور میرے والد کا نام محفوظ۔‘‘
’’ہم تجھ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ غلام جلال سے تیرا کیا اختلاف تھا اور اس جھگڑے کی بنیاد کیا تھی۔ کیا تجھے اس بات کا علم تھا کہ غلام جلال ہمارے قبیلے سے ہے اور کیا تو یہ نہیں جانتا تھا کہ ہمارے قبیلے کے ایک نوجوان کو زخمی کرنے کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔‘‘
’’معزز قاضی صاحب نہایت احترام کے ساتھ تفصیل عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے بے خوفی سے کہا۔
’’ملاحظہ فرمایا آپ نے قاضی محترم یہ شخص کتنا سرکش ہے۔ اس کا انداز گفتگو ایسا ہے جیسے یہ ہمیں گردانتا ہی نہ ہو…‘‘ ثابت جلال نے کہا۔
’’تمہیں خاموش رہنے کا حکم دیا جاتا ہے ثابت جلال۔‘‘ باریش بزرگ نے کہا اور سیاہ داڑھی والا ثابت جلال خاموش ہوگیا۔ باریش بزرگ نے مجھے دیکھا تو میں نے کہا۔
’’غلام جلال نے ایک ایسی پاکباز لڑکی پر تسلط قائم کرلیا تھا جو بچپن سے ایک نوجوان سے منسوب تھی اور اسے چاہتی تھی۔ اس نے اس کے اہل خاندان کو خوفزدہ کر رکھا تھا اور وہ نیک مسلمان گھرانہ غمزدہ اور پریشان تھا۔ میں نے اس سے درخواست کی مگر اس نے مجھے ضرر پہنچانا چاہا اور میں نے اپنے دفاع کے لیے اسے جھٹک دیا۔ یہ سانپ کی شکل میں مجھے ڈسنا چاہتا تھا۔ یہ دیوار سے جا ٹکرایا اور زخمی ہو گیا۔ کیا یہ میرا قصور ہے۔‘‘
’’کیا یہ سچ ہے غلام جلال۔‘‘
’’ہاں قاضی محترم۔ وہ دوشیزہ میرے جی کو بھا گئی تھی۔‘‘
’’وہ تجھے کہاں ملی تھی؟‘‘
’’اسی بوسیدہ حویلی میں، یہ حویلی اس کے باپ کی ملکیت ہے۔ وہ چاندنی رات میں کلیلیں کر رہی تھی اور اچانک میرے سامنے آ گئی تھی۔‘‘
’’گویا وہ شیخ عبدالقدوس کی بیٹی ہے۔‘‘
’’دُرست ہے قاضی محترم۔‘‘
’’مگر یہ تو گناہ کبیرہ ہے۔ اوّل تو شیخ عبدالقدوس ایک دیندار اور خدا ترس انسان ہے۔ مسلمان ہے، سخی اور پابند احکامات الٰہی ہے۔ دوم وہ دوشیزہ نسبت رکھتی ہے۔ تجھے یہ لازم نہ تھا غلام جلال کہ اس پر فریفتہ ہوتا اور اسے گمراہ کرتا۔ پس یہ ثابت ہوا کہ یہ شخص بے قصور ہے اور جو کچھ ہوا اس میں غلام جلال کی نادانی تھی۔ چنانچہ ثابت جلال تجھ پر لازم ہے کہ اسے ہرجانہ ادا کرے اور وہیں پہنچائے جہاں سے اسے لایا گیا ہے۔‘‘
’’قاضی محترم میرا بیٹا غمزدہ ہو جائے گا۔‘‘ ثابت جلال نے کہا۔
’’تو کیا تو چاہتا ہے کہ کوئی غیر شرعی فیصلہ کیا جائے۔‘‘ دُوسرے احتجاج پر تو بھی سزا کا حق دار ہوگا۔ تیرا فرض ہے کہ تو اپنے سرکش بیٹے کی نگرانی کرے، اگر اسے نافرمانی کا مرتکب پایا گیا تو اس کے لیے سزائے موت تجویز کی جائے گی۔
’’قاضی کا فیصلہ سر آنکھوں پر۔‘‘ ثابت جلال نے کہا اور قاضی صاحب اپنی جگہ سے اُٹھ گئے۔ ان کے ساتھ بقیہ افراد بھی اُٹھ گئے تھے۔ ثابت جلال نے ایک تھیلی ہرجانے کے طور پر مجھے دی جو مجھے لینا پڑی۔ پھر وہ مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے چل پڑا۔ حویلی کے بیرونی صحن میں ایک گھوڑا کھڑا ہوا تھا۔
’’یہ جانتا ہے تجھے کہاں جانا ہے۔ اس پر سوار ہوجا۔‘‘ میں نے رکاب پر پائوں رکھا اور گھوڑے کی پشت پر بیٹھنا چاہا مگر دُوسری سمت جا گرا۔ بڑی خفت ہوئی تھی مگر معاملہ دُوسرا ہی تھا، جگہ ایک دم بدل گئی تھی۔ وہی دُھوپ، وہی ہوائیں، وہی ماحول جہاں سے میں ہوائوں کا قیدی بنا تھا۔ واپس چل پڑا اور شیخ صاحب کی حویلی پہنچ گیا۔ یہاں کے ماحول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ اپنی آرام گاہ میں آکر میں اس پورے واقعے پر غور کرنے لگا۔ کیا کچھ عطا ہوگیا تھا مجھے۔ جنوں کی نگری پہنچ گیا تھا۔ ان کی عدالت میں حاضری ہوئی تھی اور مقدمہ جیت گیا تھا۔ جو کچھ ظہور پذیر ہوا تھا اس کے بعد مہرالنساء بالکل محفوظ ہوگئی تھی۔ چنانچہ اب شیخ صاحب کی حویلی میں قیام بے معنی تھا۔ یہ لوگ خدشے کے پیش نگاہ مجھے اجازت نہیں دیں گے اور میرے دل کو اب الٰہ آباد کی لگن لگی ہوئی تھی۔ ثابت جلال نے ہرجانے کی جو تھیلی دی تھی اس میں ضرورت کے لیے بہت کچھ تھا، چنانچہ حویلی کے مکینوں سے غائبانہ معذرت کرکے ایک بار پھر وہاں سے نکل آیا۔ کمبل شانے پر موجود تھا لیکن چند جوڑے لباس درکار تھے جو بازار سے خریدے انہیں یکجا کرکے ایک سوٹ کیس میں رکھا اور اسٹیشن پہنچ گیا۔ الٰہ آباد جانے والی ریل کے بارے میں معلوم کیا اور جب ریل آئی تو اس میں بیٹھ گیا۔ اب دل والدین میں اُلجھ گیا تھا۔ ایک عجیب ہوک اُٹھ رہی تھی۔ کانوں میں ان کی آواز اُبھر رہی تھی۔
ریل میں بہت سے مسافر تھے مگر میں سب سے لاپروا اس وقت اس تصور میں کھویا ہوا تھا۔ آہ کاش الیاس خان نے میرا پیغام ماموں ریاض کو دے دیا ہو۔ آہ کاش وہ اسے مل گئے ہوں۔ نہ جانے یہ سفر کیسے طے ہوا، نہ جانے یہ سفر کتنا طویل تھا۔ الٰہ آباد اسٹیشن کا بورڈ نظر آیا اور میں مختصر سامان سمیٹے نیچے اُتر آیا۔ بڑا تاریخی شہر تھا اور زمانۂ طالب علمی میں اس کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوئی تھیں مگر اس وقت دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں۔ اس احساس نے خوف چہرے پر جمع کر دیا تھا کہ ماموں ریاض اسی شہر میں ہیں اور ماں باپ کے بھی یہاں ہونے کے امکانات ہیں۔ آہ کیا انہیں دوبارہ دیکھنا نصیب ہو جائے گا۔ کیا میری تقدیر ایسی ہے۔ باہر تانگے کھڑے ہوئے تھے۔ ایک تانگے والے سے کہا۔
’’حویلی شاہ پور چلو گے؟‘‘
’’بیٹھو بھیا جی۔ تین روپے ہوں گے۔‘‘ میں تانگے میں بیٹھ گیا اور تانگہ سفر کرنے لگا۔ کوئی پچاس منٹ کا سفر طے کرنا پڑا تھا۔ ایک جگہ تانگہ رُک گیا۔ ’’اب کہاں چلوں؟‘‘
’’حویلی کہاں ہے…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کونسی حویلی…؟‘‘
’’حویلی شاہ پور۔‘‘
’’یہی محلہ ہے بھیا جی۔ حویلی تو کہیں نہیں ہے۔‘‘ تانگے والے نے کہا اور میں نے نیچے اُتر کر کرایہ ادا کر دیا۔ گھروں میں دُکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ ایک دکاندار سے وہ پتہ پوچھا جو الیاس خان نے بتایا تھا۔
’’الیاس خان وہ سامنے والے گھر میں رہتا ہے۔‘‘ دکاندار نے خوشگواری سے بتایا۔ بڑی صحیح جگہ پہنچا تھا مگر گھر دیکھ کر عجیب سا احساس ہوا تھا۔ شیخ عبدالقدوس تو بڑے کرّوفر کے آدمی تھے اور الیاس خان ان کی بیٹی کا سُسرالی رشتے دار، ظاہر ہے شیخ صاحب نے بیٹی کسی معمولی گھر میں تو نہ بیاہ دی ہوگی۔ یہ گھر تو بہت معمولی تھا۔ میں اس کے دروازے پر پہنچ گیا۔ دستک دی تو ایک عمر رسیدہ شخص نے دروازہ کھولا۔
’’جی فرمایئے…‘‘
’’الیاس خان صاحب یہیں رہتے ہیں…؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’میں دہلی سے آیا ہوں، ان کا شناسا ہوں، مجھے یہاں آنے کی دعوت دے کر آئے تھے۔ اگر وہ موجود ہوں تو انہیں بتا دیجیے کہ شیخ عبدالقدوس کے ہاں سے مسعود آیا ہے۔‘‘
’’اوہو تم شیخ صاحب کے ہاں سے آئے ہو۔ بیٹا ایک منٹ رکو، ذرا بیٹھک کھول دوں۔‘‘
بزرگ اندر چلے گئے۔ پھر بڑے احترام سے مجھے اندر لے گئے۔ مجھے بٹھا کر بولے۔ ’’جوتے وغیرہ اُتار لو میں لوٹے میں پانی لے آتا ہوں، منہ ہاتھ دھو لو۔ کھانے کا وقت ہو گیا ہے پہلے کھانا کھائیں گے پھر باتیں ہوں گی۔ آرام سے بیٹھو بیٹے یہ تمہارا اپنا گھر ہے۔‘‘
’’الیاس خان موجود ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں مگر آ جائے گا۔ اوہو میرا بھی کیسا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ ستّر سال عمر ہوگئی ہے کیا کروں۔ بیٹے میں الیاس خان کا باپ ہوں۔ جمال احمد خان ہے میرا نام۔ وہ گیا ہوا ہے آ جائے گا۔ ابھی آتا ہوں۔ بزرگ باہر نکل گئے کچھ دیر کے بعد لوٹے میں پانی لے آئے۔ میں نے بھی تکلف ختم کر دیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد کھانا آ گیا۔ بزرگ میرے ساتھ خود بھی کھانے میں شریک ہوگئے۔ اَرہر کی دال تھی، پیاز اور لیموں کی چٹنی۔ باہر سے گرم گرم روٹیاں آ رہی تھیں۔ دستک ہوتی اور بزرگ اُٹھ کر روٹیاں لے لیتے۔ کھانے میں لطف آ گیا تھا۔ پھر جب برتن وغیرہ سمٹ گئے تو بزرگ میرے پاس آ بیٹھے۔‘‘
’’ہاں میاں صاحب سنائو دلی کی داستانیں۔ شیخ صاحب کیسے ہیں۔‘‘
’’بالکل خیریت سے ہیں۔ میں نے کچھ دن وہاں قیام کیا تھا۔ میرا شیخ صاحب سے کوئی رشتہ نہیں، ایک غرض سے وہاں مقیم تھا۔ وہیں الیاس خان صاحب سے شناسائی ہوئی تھی۔ دعوت دے آئے تھے مجھے۔‘‘
’’میاں محبتوں کے رشتے سب کچھ ہوتے ہیں۔ تم اتنا فاصلہ طے کر کے یہاں آئے اتنا ہی کافی ہے۔ تو الیاس خان دلی میں تھا…؟‘‘
’’جی…؟‘‘ میں نے بزرگ کو دیکھا۔
’’ایں ہاں مجھے پتا نہیں تھا۔ خیر چھوڑو… دراصل علیم الدین خان میرے ماموں زاد بھائی ہیں۔ ان کے بیٹے جمیل الدین خان سے شیخ عبدالقدوس کی بیٹی کی شادی ہوئی ہے۔ ہم غریب لوگ ہیں مگر شیخ صاحب ایسے وضع دار آدمی ہیں کہ بیٹی کی سُسرال کے کتے کی بھی عزت کرتے ہیں۔ یہ الیاس اسی حوالے سے وہاں پہنچ جاتا ہے حالانکہ کسی کو زیر بار کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ اچھا میاں سفر سے تھک گئے ہوگے، آرام کرو، سو جائو، شام کو باتیں ہوں گی۔ دروازہ چاہو تو اندر سے بند کر لو… اچھا خدا حافظ‘‘ وہ باہر نکل گئے۔ یہ کمرہ بھی شاید مہمان خانے کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں کے حالات کا کچھ کچھ اندازہ ان چند باتوں سے ہو گیا تھا۔ حالانکہ شیخ صاحب کی حویلی میں کچھ اور ہی سنا تھا الیاس خان کے بارے میں، مگر وہ نوکروں کی بات تھی جو بس اتنا جانتے ہوں گے کہ الیاس خان بڑی بٹیا کے سُسرال والے ہیں مگر الیاس خان… وہ جو کچھ لایا ہے وہ اس گھر کی تقدیر بدل سکتا ہے، اس نے آغاز کیوں نہیں کیا۔ الیاس خان رات کے کھانے پر بھی نہیں تھا۔ بزرگ شرمندہ شرمندہ نظر آتے تھے۔ میرے اصرار پر انہوں نے بتایا۔
’’بس میاں تقدیر کا کھوٹا ہوں… بری صحبتوں میں رہتا ہے وہ، حالانکہ میرا اکیلا بیٹا ہے، ایک بہن ہے اس کی جو ہماری غربت کا شکار ہو کر کنواری بیٹھی ہے۔ مگر وہ توجہ نہیں دیتا۔ بالاخانے میں برے دوستوں کی صحبت ہے اور…‘‘
مجھے بے حد افسوس ہوا تھا۔ میرے خیالات کی تصدیق ہوگئی تھی۔ بزرگ سے کچھ نہ کہا رات کے بارہ بجے ہوں گے کہ دروازے پر آہٹیں ہوئیں اور پھر الیاس خان اندر داخل ہوگیا۔ نشے میں دُھت تھا، قدم لڑکھڑا رہے تھے، چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ میرے قدموں میں بیٹھ گیا۔
’’پیر و مرشد آپ آ گئے۔ میرے مرشد…‘‘ وہ میرے پائوں چومنے کی کوشش کرنے لگا اور میں نے اسے زور سے دھکا دے دیا۔
’’تم اتنے گرے ہوئے ہو الیاس خان، ایک بوڑھے باپ کے بیٹے، ایک جوان بہن کے بھائی ہو کر تمہیں شرم نہیں آتی۔ وہ کہاں ہے جو تمہیں ملا تھا۔‘‘
’’آپ نے میری تقدیر بنا دی ہے۔ میری عزت بنا دی ہے۔ ایک بار پھر لوگ مجھے جھک جھک کر سلام کرنے لگے ہیں۔ کملا وتی نے میرے لیے ناچنا شروع کر دیا ہے۔ گلنار مجھ پر جان چھڑکنے لگی ہے۔ پیر و مرشد خوش آمدید… خوش آمدید۔‘‘ وہ نشے میں لڑکھڑاتی آواز میں بولا۔ اسی وقت بزرگ اندر آ گئے۔
’’اسے لے جائوں مسعود میاں۔ اب یہ صبح ہی کو ہوش میں آئے گا۔‘‘ وہ الیاس خان کا بازو پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ مجھے سخت دُکھ ہوا تھا۔ اس گھر کی کسمپرسی کا عالم آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ الیاس خان کے چند جملوں سے مکمل صورت حال میرے علم میں آ گئی تھی۔ میں سمجھ گیا تھا کہ اشرفیوں سے بھرا وہ کلسا کہاں گیا۔ دفعتاً ہی مجھے ایک عجیب احساس ہوا، ایک فاش غلطی کا احساس، برگد کی جڑ میں مدفون وہ خزانہ مجھے نظر آیا تھا، اس کی کہانی بھی مجھے پتا چل گئی تھی۔ لیکن وہ خزانہ میری ملکیت کہاں سے ہوگیا۔ مجھے یہ حق کہاں تھا کہ میں اسے اپنی مرضی سے کسی کو دے دوں۔ یہ جانے بوجھے بغیر کہ یہ کہاں استعمال ہوگا پھر الیاس خان کی شخصیت کسی حد تک میرے علم میں آ گئی تھی جو شخص سٹّہ کھیلتا ہو وہ اچھا آدمی تو نہیں ہو سکتا۔ اس کے بارے میں تو مجھے اندازہ ہو جانا چاہیے تھا مگر میں نے یہ سب سوچے بغیر اسے کلسے کا پتا بتا دیا صرف اس لیے کہ میری اس سے ذاتی غرض تھی۔ میں اس کے ذریعے ماموں ریاض کا پتا معلوم کرنا چاہتا تھا۔ ایک دم اس سنگین غلطی کا احساس ہوا تھا یہ تو… یہ تو بالکل غیر مناسب بات تھی۔ مجھے بے اختیار ہو کر یہ قدم نہیں اُٹھانا چاہیے تھا۔ مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب کیا کر سکتا تھا۔ دل بڑا بے چین رہا۔ رات بھر سکون سے سو نہ سکا، علی الصباح جاگ گیا، نماز پڑھی اس دوران جمال احمد خان صاحب وہاں آ گئے۔ مجھے دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے۔
’’نماز پابندی سے پڑھتے ہو بیٹے؟‘‘
’’کوشش کرتا ہوں محترم۔‘‘
’’اللہ قبول کرے۔ جوانی کی عبادت قبول ہوتی ہے۔ نیک والدین کی اولاد ہو۔ ہم اس خوشی سے محروم ہیں ہمارے صاحب زادے خراٹے بھر رہے ہیں۔‘‘
’’ایک نذرانہ پیش کرنا چاہتا ہوں محترم انکار نہ کیجیے گا۔‘‘ میں نے کہا اور ہرجانے کی تھیلی سے مٹھی بھر اشرفیاں نکال کر انہیں پیش کر دیں۔ باقی اس لیے رہنے دی تھیں کہ مجھے ضرورت تھی۔
’’یہ کیا ہے…؟‘‘ بزرگ لرز کر بولے۔
’’ایک ناچیز نذرانہ… اپنی بہن کے لیے آپ کے بوجھ میں حصہ بٹانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’نہیں بیٹے ہمارا تو صحیح تعارف بھی نہیں ہے۔ اس پر ہمارا حق نہیں ہے۔‘‘
’’آپ نے فرمایا تھا کہ محبتوں کے رشتے سب کچھ ہوتے ہیں، مجھ سے یہ رشتہ توڑ رہے ہیں؟‘‘
’’مگر بیٹے…‘‘
’’انکار نہ کریں اور انہیں محفوظ رکھیں۔‘‘ بڑے جتن کے بعد جمال احمد نے یہ اشرفیاں قبول کی تھیں۔ ہم ناشتہ کر چکے تھے جب الیاس خان کی صورت نظر آئی، مجھے دیکھ کر خوشی سے بے قابو ہوگیا تھا۔
’’رات کو بھی آپ کی خدمت میں حاضری دی تھی مرشد مگر اس وقت…‘‘
وہ باپ کو دیکھ کر خاموش ہوگیا۔
’’ہوش میں نہ تھے۔‘‘ جمال احمد خان نے کہا اور اُٹھ کر باہر چلے گئے۔
’’ساری رات آپ کو خواب میں دیکھتا رہا۔ اس وقت بھی یہ دیکھنے آ گیا تھا کہ رات کی وہ کیفیت بھی تو خواب نہیں تھی۔ مرشد آپ کے آنے سے نئی زندگی ملی ہے مجھے بھی اور میرے دوستوں کو بھی۔ مرشد آپ دیکھیے گا کہ یہاں آپ کا کیسا استقبال ہوتا ہے۔ وہ لوگ تو مسلسل اصرار کر رہے تھے کہ آپ کو لینے دہلی چلا جائے سب غائبانہ مرید ہوگئے ہیں آپ کے۔‘‘
’’کون لوگ…؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’وہ فرید خان، نواب دلبر، رحمت یار خان، بڑی مشکل سے باز رکھا اور یقین دلایا کہ مرشد یہاں ضرور آئیں گے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اور اللہ والے جھوٹا وعدہ نہیں کرتے۔‘‘
’’تم نے سب کو بتا دیا ہمارے بارے میں…‘‘
’’وہ میرے بہترین دوست ہیں مرشد، آپ نے کیا میرے ابا کو اس دولت کے بارے میں بتا دیا جو آپ نے مجھے عطا فرمائی ہے۔‘‘
’’نہیں…‘‘ میں نے افسردگی سے کہا۔ یہ ساری باتیں سن کر مجھے افسوس ہو رہا تھا، سب کچھ میری حماقت کے سبب ہوا۔ میں نے کہا۔ تم نے میرا کام بھی کیا الیاس خان۔
’’بھلا بھول سکتا تھا۔‘‘
’’ماموں ریاض ملے…؟‘‘
’’منشی ریاض آپ کے ماموں ہیں۔‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر
کہا۔
’’ہاں وہ مل گئے۔‘‘
’’میرے بارے میں انہیں بتایا؟‘‘ میں نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پوچھا۔
’’آپ کا پیغام دے دیا تھا انہیں…‘‘
’’کچھ بولے… کچھ کہا انہوں نے…؟‘‘
’’نہیں خاموشی سے مجھے دیکھتے رہے پھر ٹھنڈی سانس لے کر بولے۔ اچھا۔‘‘
’’اچھا…؟‘‘ میں حیران رہ گیا۔ ’’اور کچھ نہیں کہا انہوں نے، کچھ خوشی نہیں ہوئی انہیں اس خبر سے…؟‘‘
’’اندازہ تو نہیں ہوتا تھا۔‘‘
’’تم نے انہیں وہی سب کچھ بتایا تھا جو میں نے کہا تھا۔‘‘
’’من و عن…؟‘‘ الیاس خان نے کہا اور میرا دل ڈوبنے لگا، ایسا کیوں ہوا، اس کی کیا وجہ ہے۔ ماموں ریاض کو کوئی خوشی نہیں ہوئی میرے بارے میں سن کر … کیوں آخر کیوں۔
’’اس وقت وہ کہاں ہوں گے…‘‘
’’فرید خان کے ساتھ ہی ملیں گے۔‘‘
’’مجھے وہاں لے چلو، الیاس خان مجھے فوراً وہاں لے چلو۔‘‘ میں نے دل گرفتہ لہجے میں کہا۔
’’بس ذرا ناشتہ کر لوں اتنی دیر میں آپ تیار ہو جایئے۔‘‘ الیاس خان بولا اور میں نے گردن ہلا دی۔ ایک ایک لمحہ شاق گزر رہا تھا، ہزاروں پریشان کن خیالات نے گھیر رکھا تھا۔ آہ کیا ہوا ہے ایسا کیوں ہوا کچھ دیر کے بعد الیاس خان تیار ہو کر آ گیا اور میں اس کے ساتھ گھر سے باہر نکل آیا۔
ماموں ریاض مجھ سے اس قدر بے گانہ ہو گئے۔ انہیں کوئی خوشی نہیں ہوئی میرے بارے میں سن کر۔ کیوں؟ کیا انہیں الیاس خان کی بات پر یقین نہیں آیا۔ یا پھر وہ لوگ۔ وہ لوگ میری وجہ سے اس قدر پریشان ہوئے ہیں کہ ان کے دِلوں میں میرا کوئی مقام نہیں رہا، وہ مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ کیا امی بھی، ابو بھی اور میری بہنیں۔ حلق میں گولا سا اَٹک گیا۔ الیاس خان نے تانگہ روک لیا تھا۔
’’آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔‘‘ الیاس خان نے کہا۔
’’کیا؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔
’’یہی کہ منشی ریاض آپ کے ماموں ہیں۔‘‘
’’ہاں بس یونہی۔‘‘
’’آپ کا پورا خاندان ہو گا مرشد۔‘‘
’’ہاں ہے۔‘‘
’’کہاں کے رہنے والے ہیں آپ؟‘‘
’’الیاس خان میں خاموش رہنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور الیاس خان نے گردن ہلا دی تانگہ دوڑتا گیا۔ الیاس خان نے تانگے والے کو ایک پتا بتایا تھا مگر میں نے اس پر غور نہیں کیا تھا۔ الٰہ آباد کے گلی کوچے نگاہوں سے گزرتے رہے مگر میں نگاہ بھر کر انہیں نہیں دیکھ سکا، دماغ بجھا ہوا تھا۔ دل میں آرزوئوں کی کسک تھی۔ ماں باپ کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ یہاں ماموں ریاض کے ساتھ ہیں بھی یا نہیں۔ ویسے اُمید تو یہی تھی کہ وہ بھی ماموں ریاض کے ساتھ ہوں گے۔
ماموں ریاض بچپن ہی سے امی کے ساتھ تھے۔ مشکل حالات میں وہ کبھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ آہ! کاش وہ سب یہاں ہوں۔
بہت فاصلہ طے ہوگیا پھر تانگہ ایک بہت بڑے مکان کے سامنے رُکا اور الیاس خان نیچے اُتر گیا۔ اس نے تانگے والے کو پیسے دیے اور میں نیچے اُتر آیا۔ وسیع و عریض مکان کا احاطہ پکی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ لکڑی کا بڑا دروازہ نظر آ رہا تھا۔ اندر کی عمارت احاطے کی بلند دیواروں میں چھپی ہوئی تھی۔ دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ الیاس خان نے اسے کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ ’’آیئے مرشد بے دھڑک چلے آیئے۔‘‘ وہ بولا۔
’’کیا یہ فرید خان کا گھر ہے؟‘‘ میں نے دروازے سے اندر قدم رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں یہ نواب دلبر کی حویلی ہے۔‘‘
’’یہاں کیوں آئے ہو۔‘‘
’’سب یہیں ملیں گے۔‘‘
’’ماموں ریاض بھی۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ وہ آگے بڑھتا ہوا بولا۔ میں جھجھکتے قدموں سے آگے بڑھا۔ احاطے کی یہ دیوار بعد میں بنوائی گئی تھی۔ اندر کی عمارت بوسیدہ تھی۔ وسیع احاطے میں جگہ جگہ جھاڑ جھنکاڑ اُگے ہوئے تھے۔ ٹوٹی دیواروں کے ڈھیر نظر آ رہے تھے، سامنے ہی ایک بڑا دروازہ تھا جسے کھول کر الیاس خان نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔
’’یہاں خواتین نہیں ہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ الیاس خان بولا ۔ہم دروازے سے اندر داخل ہوئے تھے کہ ہمیں دو افراد نظر آئے۔ وسیع ہال میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے میز پڑی ہوئی تھی جس پر خالی بوتل اور خالی گلاس رکھے ہوئے تھے۔ وہ چونک کر ہمیں دیکھنے لگے۔ میں نے ان دونوں کو بھی پہچان لیا تھا۔ یہ بھی اس وقت موجود تھے جب میں نے ماموں ریاض کو دیکھا تھا۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور پھر سوالیہ نظروں سے الیاس خان کو دیکھنے لگے۔
’’مرشد ہیں۔‘‘ الیاس خان بولا۔
’’کون مرشد۔‘‘ ان میں سے ایک نے پوچھا۔
’’کمال ہے مرشد کو نہیں جانتے، میں نے بتایا تھا تمہیں کہ آنے والے ہیں۔‘‘
’’ارے وہ! ارے توبہ یہ ہیں وہ۔ معاف کیجئے گا محترم ہم پہچان نہیں سکے تھے۔‘‘ وہ آگے بڑھے اور میرے ہاتھ پکڑ پکڑ کر چومنے لگے۔
’’مرشد یہ فرید خان صاحب ہیں اور یہ رحمت یار خان میں نے آپ کو بتایا تھا۔‘‘
’’اوہ ہاں۔ فرید خان صاحب ہمیں منشی ریاض صاحب سے ملنا ہے۔‘‘
’’کام سے گئے ہوئے ہیں۔ آتے ہی ملوا دیا جائے گا آپ سے مرشد۔‘‘ فرید خان نے کہا اور بولا۔ ’’آپ تشریف رکھیے۔‘‘
’’شکریہ۔ کب تک آ جائیں گے۔‘‘ میں نے بے صبری سے پوچھا۔
’’ہمیں آپ کی آمد کا علم نہیں تھا عالی حضور، ورنہ انہیں نہ جانے دیتے۔ چند کاموں سے گئے ہوئے ہیں واپسی میں کچھ دیر لگ جائے گی۔ آپ تشریف رکھیں، رحمت تم نواب صاحب کو خبر دے دو۔‘‘ رحمت یار خاموشی سے اُٹھ کر اندر چلا گیا تھا۔ فرید خان بار بار مجھے دیکھنے لگتا تھا۔ پھر دو آدمی اندر داخل ہوئے۔ ایک رحمت یار تھا دُوسرا یقیناً نواب دلبر ہوگا، یہ شخص ان سب میں نمایاں نظر آ رہا تھا۔ گہری سرخ آنکھیں، نکیلی مونچھیں، بلند و بالا قد، مضبوط ہاتھ پائوں، موٹے ہونٹوں پر پان کی دھڑی جمی ہوئی اس کے دو دانت سونا چڑھے تھے۔
’’تو یہ ہیں تمہارے مرشد الیاس خان۔‘‘ نواب دلبر نے کہا۔
’’ہاں یہی ہیں۔‘‘
’’ہمیں تو اب بھی یقین نہیں آیا۔‘‘ وہ بولا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’سکھا پڑھا کر لائے ہوگے کونسا مشکل کام ہے۔‘‘
’’تم لوگوں نے انہیں سمجھایا نہیں، پہلے بھی انہوں نے ایسی ہی باتیں کی تھیں، برداشت کی ایک حد ہوتی ہے، اب مرشد کے سامنے بھی یہی باتیں ہو رہی ہیں۔ میری غلطی یہی ہے کہ دوبارہ تم لوگوں کے پاس آ گیا اور سب کچھ ایمانداری سے تمہارے حوالے کر دیا۔‘‘
’’نواب دلبر یہ تمہاری زیادتی ہے۔‘‘ رحمت یار بولا اور دلبر نے قہقہہ لگایا۔
’’اچھا زیادتی ہے تو کمی کئے دیتے ہیں مگر بڑے چھوٹے سے ہیں مرشد ابھی تو ان کے گلی ڈنڈا کھیلنے کے دن ہیں۔ خیر ہمیں کیا یاروں کا کہنا ہے مان لیتے ہیں، اماں کچھ خاطر مدارت کرو ان کی، الیاس خان اندر لے چلو انہیں یہاں چوراہے پر کیوں بٹھا رکھا ہے۔‘‘
’’الیاس خان تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’یہ سب آپ سے ملنا چاہتے تھے مرشد۔ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ مرشد آئے تو ان سے ضرور ملائوں گا۔‘‘
’’مگر میں صرف منشی ریاض سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ان سے بھی مل لینا میاں خان پریشانی کی کیا بات ہے، ہم بھی اتنے بُرے نہیں ہیں۔‘‘ نواب دلبر تمسخرانہ انداز میں بولا۔ مجھے بے چینی کا احساس ہونے لگا۔ سب کچھ غلط ہوتا جا رہا تھا۔ یہ لوگ بُرے لوگ معلوم ہوتے تھے۔ ان کا اندازہ مجھے پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ ابتدا ہی سے اندازہ ہو جانا چاہیے تھا۔ وہ مجھے کسی بہتر جگہ نہیں ملے تھے۔ طوائفوں کے کوٹھوں پر نظر آنے والے لوگ اچھے تو نہیں ہوتے۔ میں اتنا فیاض ہو گیا کہ زیر زمین نظر آنے والا خزانہ الیاس خان کے سپرد کر دیا۔ اپنی ملکیت کی طرح اور پھر۔ آہ بڑی غلطی ہوگئی اس کا احساس تو پہلے ہی ہو گیا تھا۔
’’اُٹھیے مرشد۔‘‘ الیاس خان نے کہا۔
’’میں واپس جانا چاہتا ہوں ماموں ریاض مل جائیں تو بعد میں مجھے ان سے ملا دینا۔‘‘ میں نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’’ارے کہاں میاں خان۔ مہمان آتے اپنی مرضی سے ہیں جاتے میزبان کی مرضی سے ہیں۔ ابے تم لوگ آنکھیں پھاڑ رہے ہو، لے چلو انہیں اندر۔‘‘ اس بار نواب دلبر کا لہجہ سخت تھا، وہ کھڑے ہوگئے۔ الیاس خان کے انداز میں جھجھک نظر آ رہی تھی اس نے کہا۔
’’چلیے مرشد۔‘‘
’’گویا تم لوگ میرے ساتھ سختی پر آمادہ ہو۔‘‘
’’اماں ہم سے بات کرو خان، ہمارا نام ہے دلبر، چھری کا کھیل کھیلتے ہیں اور پکے دوزخی ہیں۔ جنت تو ہمیں ملنے کی نہیں ہے گناہ ہی اتنے کیے ہیں۔ تم جانو ہو ایک قتل کی سزا بھی موت ہے اور دس قتل کی بھی، سمجھ گئے ہوگے۔ سو پچاس گناہ اور کریں گے سو بھی دوزخ میں جائیں گے۔ یہ بے چارے کچے ہیں تم سے ڈر رہے ہیں، اُٹھو اور اندر چلو ورنہ چھری بھونک دیں گے اور انتڑیاں نکال کر الگنی پر لٹکا دیں گے۔‘‘ اس نے نیفے سے چھری نکال لی۔ مجھے اُٹھنا پڑا تھا۔ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’ٹھیک ہے الیاس خان۔‘‘
’’آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی مرشد ،بلکہ ہم تو آپ کو آسمان پر بٹھا دیں گے۔ خلقت آپ کے پائوں چومے گی۔ آپ دیکھیں تو سہی۔ نواب صاحب آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ الیاس خان بولا۔
’’اور تم ہمیں دھوکا دے کر یہاں مجرموں کے درمیان لے آئے۔ خیر حساب ہو جائے گا بعد میں۔‘‘ اُٹھ کر ان لوگوں کے ساتھ اندر آ گیا باہر سے بُرے حال نظر آنے والی یہ عمارت اندر سے بہت بہتر تھی۔ مجھے کافی اندر ایک کمرے میں لایا گیا یہاں خوب روشنی تھی، کچھ قدیم فرنیچر بھی پڑا ہوا تھا۔ نواب دلبر نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا پھر خود بھی میرے سامنے بیٹھ گیا۔
’’ہاں میاں خاں، کہانی یہ ہے کہ یہ الیاس خان دلی گیا، واپس آیا تو سونے کے ڈھیر لایا تھا۔ ہم لوگ پرانے ساتھی ہیں، کبھی اچھے خاندانوں کے تھے مگر وہ پرانی بات ہے۔ وقت نے جو دکھائی دیکھنی پڑی اور جو کرایا کرنا پڑا، اب تو ماضی کی ساری باتیں بھول گئے ہیں، جہاں سے جو کچھ مل جائے ہے سارے مل کر کام چلا لیویں ہیں۔ سو جب الیاس خان گنیّوں کے توڑے لے کر آیا تو سیدھا ہمارے پاس پہنچا، دوستوں میں یہ معاہدہ ہے مگر اس نے کہانی بڑی عجیب سنائی۔ ہمیں تو خیر ایسی باتوں پر یقین نہیں آتا مگر یہ سب لگو ہوگئے کہ ایسے میاں صاحب مل جائیں تو پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں۔ ہم بھی چپ ہوگئے کہ چلو تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو مگر یہ تمہیں پکڑ ہی لایا بھائی جی، پہلے تو یہ
تم ہو کون۔ تم نے ہمیں شکتی پور میں دیکھا تھا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’کہاں؟‘‘
’’شکنتا نامی طوائف کے کوٹھے پر۔‘‘
’’تم وہاں کیا کر رہے تھے؟‘‘
’’کچھ کر رہا تھا تمہیں بتانا ضروری نہیں ہے۔‘‘
’’یہی تو کانٹے کی بات ہے، یہیں سے تو پول کھلتی ہے، ایسے شوقین درویش کہاں ملتے ہیں۔ چلو مان لیا مگر وہ گنّیاں کہاں سے آئیں، کیا سچی مچی تم نے وہ خزانہ بتایا تھا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تب تو پیارے اور بھی خزانے معلوم ہوں گے تمہیں؟ کیوں؟‘‘
’’کچھ نہیں معلوم مجھے۔‘‘
’’وہ کیسے معلوم ہوگیا جو الیاس خان کو دیا تھا۔‘‘
’’تمہیں بتانا ضروری نہیں ہے۔‘‘
’’گویا شرافت سے کام نہیں نکلے گا، تمہاری مرضی ہے میاں خاں۔ آئو ہم تمہیں اپنا خزانہ دکھائیں۔ لے کر آئو مرشد کو۔‘‘ نواب دلبر نے کہا۔
’’میری جدوجہد بیکار تھی، اندازہ ہوگیا تھا کہ ایک بار پھر دلدل میں پھنس گیا ہوں۔ جو کیا ہے اس کا خمیازہ شروع ہوگیا ہے۔ اب نقصانات کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ جانا پڑا۔ بڑی پُراسرار حویلی تھی۔ کمرے در کمرے سب کے سب ویران پڑے تھے۔ ایک کمرے میں قید خانے کا دروازہ تھا۔ یہ دروازہ ایک الماری کے پیچھے تھا جسے دو آدمیوں نے پوری قوت سے سرکایا تھا، تب وہ دروازہ نمودار ہوا تھا، الماری سرکانے سے جو جگہ پیدا ہوئی تھی اس میں کواڑ کھلا تھا اور گہری تاریکی تھی، رحمت یار خان نے میرا ہاتھ پکڑا، الیاس خان نے ماچس نکال کر تیلی جلائی اور مجھے وہ زینہ نظر آ گیا جو نیچے جاتا تھا۔ بارہ سیڑھیاں تھیں، اس کے بعد کوئی لامحدود جگہ جو تاریک پڑی تھی۔ نواب دلبر پہلے ہی نیچے اُتر گیا تھا۔ پھر اس نے ایک شمعدان میں لگی لمبی لمبی شمعیں روشن کر دیں۔ شمع دان ایک بلند اسٹینڈ پر رکھا ہوا تھا جس کی وجہ سے روشنی پھیل گئی تھی۔ یہاں ایک بیڈ پڑا ہوا تھا اور بید کی کچھ آرام کرسیاں پڑی ہوئی تھیں مگر یہ تہہ خانہ وسیع لگتا تھا۔ روشنی بہت دُور تک نہیں جا رہی تھی۔‘‘
’’بٹھا دو انہیں!‘‘ دلبر نے کہا اور مجھے ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا، دُوسرے لوگ بھی بیٹھ گئے۔ ’’تو میاں مرشد۔ اصل بات تو تم ہی جانو ہو بیرا۔ ہم سے جو کچھ کہا گیا ہے ہمیں تو وہی معلوم ہوگا!‘‘
’’تم اچھا نہیں کر رہے نواب دلبر۔‘‘
’’زندگی بھر نہیں کیا اب کیا کریں گے۔ مگر تم نیکی کرلو!‘‘
’’کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’خزانہ۔ خزانے۔ سٹّے کے نمبر۔ ڈربی کی ریس میں انعام۔ سترہ تاریخ کو بمبئی میں ڈربی ہو رہی ہے۔ گھوڑوں کے نمبر بتائو۔ سٹّے کے دو چار نمبر بتا دو۔ کوئی خزانہ دبا پایا ہو تو وہ بتا دو۔ ہماری ضرورت پوری ہو جائے تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے۔‘‘
’’منشی ریاض کہاں ہیں؟‘‘
’’ان سے بھی ملا دیں گے۔‘‘
’’مجھے ان سے ملا دو۔‘‘
’’ہمارا کام ہونے کے بعد۔‘‘
’’تمہارا کوئی کام میرے لیے ممکن نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بس وہ خزانہ مجھے زمین میں دفن نظر آ گیا تھا، میں نے الیاس خان کو بتا دیا۔‘‘
’’زمین میں خزانوں کی کیا کمی ہے۔ تمہیں سیر کرا دیں گے چندا۔ یہاں بڑے بڑے راجوں مہاراجوں کے محل دو محلوں کے کھنڈر بکھرے پڑے ہیں۔ کہیں تو کچھ ملے گا۔ ویسے چندا یہ تو تمہیں کرنا ہی ہوگا۔ ہم بڑے سر پھرے ہیں، زمین میں چھپے خزانے دیکھ سکتے ہو تو اس تہہ خانے کے فرش کے نیچے بھی جھانک لینا، چار بندوں کی ہڈیوں کے ڈھانچے نظر آ جائیں گے تمہیں۔ ان سے لگی ہوئی تھی ہماری۔ گلا دبا کر یہیں قبرستان بنا دیا سسروں کا۔ پوچھ لینا ان سے ساری رام کہانی سنا دیں گے تمہیں۔ پانچویں تم ہو گے ہماری نہ مانی تو ویسے بھی تم اللہ والے ہو یہاں دفن ہوگئے تو برکت رہے گی کیا سمجھے؟‘‘
’’ٹھیک ہے جو تمہارا دل چاہے کرو!‘‘
’’مذاق سمجھ رہے ہیں میاں صاحب ہماری بات کو۔ چلو تھوڑا سا آرام کرنے دو۔ دو تین دن کے بعد دیکھیں گے۔‘‘
’’نہیں نواب دلبر، ایسے کہیں کام ہوتا ہے۔‘‘ الیاس خان بولا۔
’’ابے رحمت یار۔ فرید خاں۔ یہ الیاس خان کچھ زیادہ نہیں بولنے لگا ہے، کئی دفعہ دیکھ چکا ہوں۔ میاں چار گنّیوں پر اکڑ رہے ہو تو حساب کتاب کرلو۔ لاکھوں خرچ کر چکا ہوں تم پر۔ تمہیں جو کرنا تھا وہ تم کر چکے اب ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ آئو۔‘‘ نواب دلبر نے سخت لہجے میں کہا اور اس بار الیاس خان کچھ نہ بولا۔ وہ سب سیڑھیاں عبور کر کے باہر نکل گئے اور دروازہ بند ہوگیا۔
میرے بدن میں ٹھنڈی لہریں پیدا ہو رہی تھیں۔ دماغ پر ایک عجیب سا سکوت چھایا ہوا تھا، جو کچھ ہوا تھا وہ ہونا چاہیے تھا، بلکہ یہ تو کم ہے اس سے زیادہ ہونا چاہیے تھا۔ پھل چکھنے کے دور سے گزر رہا تھا، پھل کھانے کی اجازت ملی تھی مگر میں نے باغ لٹانے شروع کر دیے تھے۔ مجھے اس کا حق کہاں پہنچتا تھا۔ اس غلطی کا احساس تو پہلے ہی ہو چکا تھا نہ جانے کیوں میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب میرا کوئی محاسب نہیں ہے، یہی غلطی کی تھی۔ اب؟ کچھ ذہن میں نہیں تھا، کچھ بھی نہیں تھا۔ دیر تک بیٹھا سوچتا رہا۔ شمعیں روشن تھیں ان کی لو لرز رہی تھی، ماحول بڑا ہولناک ہو گیا تھا۔ آہ۔ الفاظ نہیں تھے میرے پاس۔ اب تو معافی بھی نہیں مانگ سکتا تھا۔ فرش پر لیٹ جانے کو جی چاہا اور میں نے اس پر عمل کر ڈالا۔ تھک گیا تھا، شدید تھکن کا احساس ہو رہا تھا۔ دماغ کو خالی کر دیا تھا میں نے اس عالم میں، کافی دیر گزر گئی۔ شمعیں آنکھوں کے سامنے تھیں پلکوں پر پیلی روشنی پڑ رہی تھی۔ مگر اتنی ہمت نہیں تھی کہ اُٹھ کر شمعیں بجھا دیتا، جیتا جاگتا انسان تھا، اندھیرے سے ڈرتا تھا۔ پھر اپنی جگہ سے اُٹھا، شمع دان اُٹھایا اور اس وسیع تہہ خانے کے دُوسرے گوشے دیکھنے لگا۔ بہت بڑے حصے میں تھا، خالی پڑا ہوا تھا سوائے ان چند چیزوں کے فرش جگہ جگہ سے کھدا ہوا تھا اور چار ایسے نشانات صاف مل گئے تھے جن سے نواب دلبر کے بیان کی تصدیق ہوتی تھی۔ یعنی اس نے چار انسانوں کو ہلاک کر کے یہاں دفن کر دیا تھا۔ مگر میں اس سے خوفزدہ نہیں تھا، وہ کیا اور اس کی اوقات کیا، میں تو خود سے ڈر رہا تھا جو کیا تھا اس سے دہشت زدہ تھا۔
بہت وقت گزر گیا کوئی آواز نہیں تھی۔ احتیاطاً چند شمعیں بجھا دی تھیں، بس ایک روشن رہنے دی تھی۔ زیادہ وقت گزارنا پڑا تو تاریکی میں رہنا پڑے گا۔ نواب دلبر تو کئی دن کی بات کر گیا تھا۔ شاید رات ہوگئی۔ تہہ خانے میں اس کا تعین تو نہیں کیا جا سکتا تھا بس وقت سے اندازہ ہو رہا تھا۔ تھکن سے نڈھال ہو رہا تھا، فرش سے اُٹھ کر بیڈ پر جا لیٹا بستر سے بدبو اُٹھ رہی تھی، مگر اس پر پڑا رہا۔ پھر اچانک سرسراہٹیں سنائی دیں اور میں اُچھل کر اُٹھ بیٹھا۔ نگاہیں دروازے پر ہی تھیں مگر کوئی تحریک نہیں ہوئی۔ آوازیں پھر سنائی دیں۔ سمت کا بھی اندازہ ہوگیا پھرتی سے پلٹا اور تاریکی کی عادی آنکھوں نے اس انسانی سائے کو دیکھ لیا جو ایک گوشے میں نظر آ رہا تھا، میں ششدر رہ گیا۔ یہ کون ہے اور کہاں سے آیا۔ دروازہ تو بند ہے۔ ہمت کر کے آواز دی۔ ’’کون ہے؟‘‘
’’ہم ہیں۔‘‘ جواب ملا۔
’’کون؟‘‘
’’ارے ہم اور کون تمہارے پاس ہمارا ایک کمبل ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوئے۔
’’ریل میں تھے تم۔ ہمارا کمبل لے گئے تھے۔ واپس نہیں دیا تم نے۔‘‘ یہ وہی آواز تھی جس نے کہا تھا۔ ’’آرام بڑی چیز ہے منہ ڈھک کر سویئے اور اس کے بعد کمبل میرے چہرے پر ڈھک دیا تھا۔ کمبل ہٹا تو میں دہلی میں تھا۔ وہی آواز تھی مگر کمبل۔ واقعی میں دیوانہ ہوگیا تھا، اپنی لگی میں سب کچھ بھول گیا تھا، کمبل میں الیاس خان کے گھر پر ہی چھوڑ آیا تھا اور وہ کمبل۔ وہ تو میری رہنمائی کرتا تھا اسے میں نے ہر لمحہ ساتھ رکھا تھا، اس سے مجھے ہمیشہ مدد حاصل ہوئی تھی اس نایاب چیز کو میں اس طرح چھوڑ آیا تھا۔‘‘
’’ہمارا کمبل واپس دو گے بھائی۔ ہمیں ضرورت ہے۔‘‘
’’اس وقت وہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘
’’کہاں گیا؟‘‘
’’میں اسے وہاں بھول آیا ہوں جہاں میں تھا۔‘‘
’’تم ایک اچھے امانت دار نہیں ہو بھائی، ارے واہ ہمارا کمبل ہی کھو بیٹھے۔ یہ کوئی بات ہوئی۔‘‘
’’معافی کا کوئی راستہ ہے میرے لیے، جو غلطی ہوگئی ہے اس کا ازالہ ہو سکتا ہے کسی طرح؟‘‘ میں نے سرد لہجے میں پوچھا۔
’’راستے مشکل سے ملتے ہیں۔ نظر آ جائیں تو یاد رکھنا ضروری ہوتا ہے، بھول بھلیّاں ہیں سب بھول بھلیّاں ہیں۔ سورج تو بڑا روشن ہے ایک دھبّے کو سورج سمجھ لینا دانشمندی تو نہیں ہے، جو دانشمند نہیں وہ کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’معافی کا کوئی راستہ ہے میرے لیے۔‘‘ میں چیخ کر بولا۔
’’ارے ہمیں کیا معلوم، ہم پر کیوں بگڑ رہے ہو، ایک تو ہمارا کمبل کھو دیا اُوپر سے بگڑ رہے ہو۔‘‘
’’دیکھو، انسان ہوں، گوشت پوست کا بنا ہوا انسان ہوں، بہت تھک گیا ہوں، بھٹک جائوں گا، مجھے سہارا دو۔ مجھے سہارا چاہیے ورنہ راستہ بھول جائوں گا۔‘‘
’’ہمیں کچھ نہیں معلوم ہمارا کمبل دے دو۔‘‘
’’سہارا چاہیے مجھے سہارا چاہیے مجھے سہارا دو۔‘‘
’’سہارا دینے کا کام ہمارا نہیں ہمارے بھائی کا ہے۔‘‘ انسانی ہیولا غائب ہوگیا۔ مجھ پر دیوانگی سوار ہوگئی تھی، جنون طاری ہوگیا تھا، میں چیختا رہا مگر اب میری آواز سننے والا کوئی نہیں تھا۔ پھر میں خاموش ہوگیا۔ دماغ بند بند سا ہوگیا تھا۔ میں نے تند نظروں سے چاروں طر ف دیکھا، آگے بڑھا، اکلوتی شمع سے ساری شمعیں روشن کر دیں۔ تبھی میری نظر شمع دان کے اسٹینڈ پر پڑی۔ وزنی فولاد کا بنا ہوا تھا، کوئی تین فٹ لمبا اور ٹھوس شمع دان اس پر سے اُتار کر میں نے ایک طرف پھینک دیا۔ وزنی اسٹینڈ اُٹھا کر میں دروازے کی طرف بڑھا۔ نیچے گری ہوئی شمعیں روشن تھیں اور مجھے دروازہ نظر آ رہا تھا۔ آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر میں نے اسٹینڈ ہاتھوں میں تولا اور پھر پوری قوت سے اسے دروازے پر مارا۔ لکڑی تڑخنے کی آواز سنائی دی اور دروازے میں سوراخ ہوگیا۔ میرے ہاتھ مشینی انداز میں چلتے رہے اور تہہ خانہ میں دھماکے گونجتے رہے۔ میں نے دروازے کے پرخچے اُڑا دیے تھے جب اس کے دونوں کواڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تو میں نے اس اسٹینڈ سے الماری پر وار شروع کر دیے، الماری ٹوٹ تو نہیں سکی مگر کھسک ضرور گئی۔ تھوڑی سی جگہ بنی تو میں نے اس میں ہاتھ ڈال کر اسے مزید سرکایا اور اتنی جگہ بنا لی کہ باہر نکل آئوں
اور میں باہر نکل آیا۔ اتنے زوردار دھماکے ہوئے تھے، اتنی آوازیں ہوئی تھیں مگر کوئی متوجہ نہیں ہوا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ کوئی موجود نہیں ہے، اچھا ہی تھا ورنہ۔ نہ جانے میری دیوانگی کہاں تک جاتی۔ راستہ تلاش کرتا باہر نکل آیا، آسمان پر چاند چمک رہا تھا۔ خاموش چاندنی تا حدِ نگاہ بکھری ہوئی تھی۔ لوہے کا اسٹینڈ پھینک دیا، دماغ تاریک ہو رہا تھا، اس عمارت سے باہر نکل آیا اور آگے بڑھ گیا۔ چلتا رہا بے مقصد۔ کوئی منزل نہیں تھی۔ نہ جانے کونسی قوت سیدھے راستے پر لے آئی، چونک کر دیکھا تو الیاس خان کے مکان پر کھڑا تھا، یقین نہیں آیا، کسی راستے کا تعین نہیں تھا، نہ جانے یہاں تک کیسے پہنچا تھا، اگر حواس کے عالم میں ہوتا تو راستہ تلاش کرنا ناممکن تھا۔ لیکن بے حواسی رہنما بن گئی تھی اب کیا کروں۔ اس مکان سے میرا کیا واسطہ ہے۔ مجھے اب دوبارہ یہاں نہیں آنا چاہیے مگر یہاں میرا کمبل تھا۔ دُوسرا سامان تھا اور پھر الیاس خان۔ آہ کچھ بھی ہو جائے الیاس خان ہی مجھے ماموں ریاض کے پاس پہنچا سکتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو وہ میرا بدترین دُشمن ہے۔ اس کی وجہ سے مجھے راندئہ درگاہ ہونا پڑا ہے۔ وہ بھی ان کا شریک کار ہے اس نے بدعہدی کی ہے مجھ سے۔ حالانکہ رات بہت ہوگئی تھی مگر دستک دینا پڑی۔ دُوسری دستک پر دروازہ کھل گیا۔ جمال احمد خاں صاحب تھے چونک کر بولے۔
’’ارے بیٹے آپ۔ آ جائو۔ الیاس کہاں ہے؟‘‘
’’گھر نہیں آئے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘
’’صبح ہی کے گئے ہوئے ہیں؟‘‘
’’ہاں آپ کے ساتھ ہی گیا تھا۔‘‘
’’وہ اپنے دوستوں کے ساتھ تھے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں۔ دوستوں نے تو اسے تباہ کیا ہے۔ آئو میاں اندر آئو۔ آرام کرو اس کا کیا انتظار کرنا۔‘‘ میں اندر داخل ہوگیا، مجھے بہرحال اس کا انتظار کرنا تھا۔ ’’کسی چیز کی ضرورت ہو بیٹے تو بتا دو۔‘‘
’’نہیں بے حد شکریہ۔‘‘ میں نے کہا اور وہ چلے گئے۔ میں اس کمرے میں داخل ہوگیا جو میری آرام گاہ تھا۔ سب سے پہلے میں اپنے سامان کی طرف لپکا۔ مجھے کمبل کی تلاش تھی۔ مگر کمبل موجود نہیں تھا۔ سارا سامان اسی طرح موجود تھا سوائے کمبل کے۔ کمبل کہاں گیا۔ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کمبل کسی نے غائب کر دیا ہوگا کوئی اور ہی معاملہ تھا۔ اس وقت پوچھ گچھ بھی نہیں کر سکتا تھا بہرحال صبح ہونے کا انتظار کرنا تھا۔ نیند کا تو اب تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ جاگتا رہا، سوچتا رہا۔ رات شاید آخری پہر میں داخل ہوگئی تھی۔ دروازے پر ہولے ہولے دستک ہوئی اور میں اُچھل پڑا۔ الیاس خان۔ میرے ذہن میں گونجا۔ اندر سے سارا وجود کھول اُٹھا۔ آنکھوں سے شرارے اُبل پڑے۔ میں جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا، کہیں اندر اس دستک کو نہ سن لیا جائے، اس سے پہلے ہی الیاس خان کو چھاپ لینا ضروری تھا۔ برق رفتاری سے ننگے پائوں باہر نکلا دروازے پر پہنچ گیا، آہستہ سے زنجیر کھولی وہی تھا۔ اس نے اندر قدم رکھا تو میں اس پر ٹوٹ پڑا۔ ایک ہاتھ اس کی گردن میں ڈالا دوسرے سے منہ بھینچ لیا تاکہ وہ چیخ نہ سکے اور اس طرح دبوچے ہوئے اسے اپنے کمرے میں لے آیا۔ الیاس خان کچھ نہ سمجھ سکا تھا، میں نے اسے فرش پر لا پٹخا۔ پوری زندگی میں مجھ پر یہ کیفیت کبھی طاری نہیں ہوئی تھی جو اس وقت محسوس ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا۔ الیاس خان نے پلکیں پٹپٹا کر مجھے دیکھا اوراس کے چہرے پر خوف کے آثار پھیل گئے۔
’’تم۔‘‘ اس کے منہ سے سرسراہٹ نکلی۔
’’ہاں الیاس خان۔ تمہیں گمان بھی نہیں ہوگا کہ میں تمہارے قید خانے سے نکل آئوں گا‘‘
’’نہیں مجھے یقین تھا۔‘‘ وہ بولا۔ اور پھر سہارا لے کر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’میں نے ان لوگوں سے بھی کہہ دیا تھا۔‘‘
’’تم نے میرا برسوں کا مجاہدہ ختم کر دیا الیاس خان۔ صرف تم ہو جس نے مجھ سے بہت کچھ چھین لیا۔ نہ جانے کیا کیا جتن کئے تھے میں نے، نہ جانے کیا کیا مگر تم نے الیاس خان۔ تم نے!‘‘
’’کچھ کہنا چاہتا ہوں سن لو گے؟‘‘ وہ بولا اور میں اسے گھورتا رہا۔ ’’صدیوں کے بعد جاگا ہوں۔ برسوں کے بعد آنکھ کھلی ہے، بے ہوش تھا یا سو گیا تھا تمہاری وجہ سے آنکھ کھلی ہے۔ ایک اور بات بھی سن لو۔ سزا چاہتا ہوں، ہر قیمت پر سزا چاہتا ہوں۔ بدترین سزا بہتر ہے وہ موت ہو۔ تمہارا احسان ہوگا اتنا کچھ کھو چکا ہوں کہ ہوش میں آنے کے بعد جینا مشکل ہوگا۔ بے حد مشکل۔ تمہیں بہلا نہیں رہا یہ سب کچھ کہہ کر رعایت نہیں مانگ رہا بلکہ کچھ سن لو۔ ایک تھکا ہوا بے بس انسان ہوں۔ میرا اختتام ہو چکا ہے۔ آخری باتیں کہہ رہا ہوں تم سے۔ وہ لوگ تمہیں نہیں جانتے مگر میں جانتا ہوں۔ نواب دلبر نے جو کچھ کیا وہ اس کا قدم تھا مجھے اس کی خبر نہیں تھی جو کچھ ہوا مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا مگر میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ وہ ہوا کو قید نہیں کر سکتے۔ یہ ان کی بھول ہے۔‘‘
’’میں فضول کہانیاں نہیں سننا چاہتا الیاس خان۔‘‘
’’سن لو۔ خدا کے لیے سن لو۔ اس کے بعد میں مر جانا چاہتاہوں، تم نے مجھے چھوڑ بھی دیا تو میں خودکشی کر لوں گا، دل اُکتا گیا ایک دم سے۔ دُنیا بہت بُری ہے، میرے تصور سے بھی زیادہ بُری۔ میں خود بھی اتنا ہی برا ہوں۔ ایک بُرے انسان سے دُنیا کو چھٹکارا دلانا چاہتا ہوں۔‘‘
میں الیاس خان کو گھورنے لگا، اس کا لہجہ عجیب تھا جیسے۔ جیسے وہ سچ بول رہا ہو، جیسے وہ فریب نہ کر رہا ہو وہ کہنے لگا۔
’’جتنی برائیوں کا تصور کیا جا سکتا ہے وہ مجھ میںموجود ہیں۔ بوڑھا باپ ہے جوان بہن ہے مگر میں نے کبھی ان کے بارے میں نہیں سوچا۔ اپنے تعیشات میں مگن رہا۔ میرے گھر والے فاقے کرتے رہے اور میں اعلیٰ درجے کے کھانے کھاتا رہا۔ میری بہن کے پا س دو جوڑے کپڑے بھی نہ تھے اور میں طوائفوں کو تحفوں سے خوش کرتا رہا، یہ سب کچھ کیا ہے میں نے۔ آج تک یہی کیا ہے مگر نہ جانے کیسے ہوش آ گیا نہ جانے کیسے۔‘‘
’’الیاس خان۔ میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔‘‘ میں نے غرا کر کہا اور اس نے ہاتھ جوڑ دیئے۔ وہ سسک کر روتے ہوئے بولا۔
’’خدا کے لیے مسعود صاحب، خدا کے لیے آپ کو اللہ نے بڑا بنایا ہے، میری سن لیجیے دل ہلکا کرنا چاہتا ہوں، بڑا بوجھ ہے سینے پر۔ آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ نواب دلبر ہم پر حاوی ہے۔ حالانکہ ہم بچپن کے دوست ہیں۔ وہ بگڑا ہوا رئیس ہے۔ پہلے اس کے پاس بہت کچھ تھا مگر عیاشیوں میں گنوا بیٹھا، ہم تینوں ہمیشہ سے اس کے شریک تھے جب اس کے اپنے پاس سب کچھ ختم ہوگیا تو ہم چھوٹے موٹے جرائم کرنے لگے۔ جوا، سٹّہ کھیلنے لگے، ہمیں پیسہ درکار تھا جس کے حصول کے لیے سب کوششیں کرتے تھے، ہر وہ جگہ تلاش کرتے تھے جہاں سے کچھ ہاتھ لگ جائے۔ سب یہی کرتے تھے میں اکیلا نہیں تھا۔ میں نے اپنے گھر میں چوری کی، ماں باپ کو رُلایا، میں رشتے داروں سے قرض لیتا رہا جسے میرے والد ادا کرتے رہے، بے چارے شیخ عبدالقدوس صاحب سے بھی میں نے بہت کچھ لیا۔ وہ مجھے صرف اس لیے یہ رقم دیتے رہے کہ میں ان کی بیٹی کا سسرالی رشتے دار تھا۔ ہم سب جو بھی حاصل کرتے اسے یکجا ہو کر خرچ کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ نے مجھے جو قیمتی خزانہ دیا وہ میں نے لا کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ وہ دنگ رہ گئے۔ پھر میں نے انہیں آپ کے بارے میں بتایا مرشد۔ اور وہ بضد ہوگئے کہ آپ کو لینے دلی چلا جائے، میں نے انہیں منشی ریاض کے بارے میں بتایا اور یقین دلایا کہ آپ منشی ریاض سے ملنے ضرور آئیں گے۔ اس دن سے سب آپ کا انتظار کر رہے تھے مگر میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ آپ کے ساتھ یہ سلوک کرے گا۔ اس نے آپ کو قید کر دیا اور اس وقت میرے ضمیر پر ضرب پڑی۔ مجھے احساس ہوا کہ خدا کے ایک برگزیدہ بندے کے ساتھ یہ سلوک میری وجہ سے ہوا۔ بعد میں، میں ان سے لڑ گیا، میں نے کہا کہ انہوں نے غلطی کی ہے، اچھا خاصا جھگڑا ہوگیا ہمارا اور میری آنکھیں اچانک کھل گئیں۔ میں اسی احساس میں ڈوبا ہوا اس وقت گھر میں داخل ہوا تھا۔ راستے بھر میں یہ سوچتا رہا تھا کہ اب کیا کروں، کچھ کرنا تو میرے بس میں نہیں ہے مگر خودکشی تو کر سکتا ہوں۔‘‘
میں خاموشی سے اس کی کہانی سنتا رہا۔ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ یہ تو اللہ جانے مگر اب میں اس کا کیا کروں۔ اب میں اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہوں۔ غصّہ اُتر گیا تھا میں نے اسے اُٹھا کر بٹھا دیا۔
’’میں نے تمہارے ساتھ نیکی کی تھی الیاس خان مگر تم نے!‘‘
’مجھے احساس ہے مسعود صاحب۔‘‘
’’اگر دل میں واقعی سچائیاں اُتر آئی ہیں تو کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’فرمایئے۔‘‘
’’تم خودکشی کر لو۔ اس الیاس خان کو ختم کرو جو بُرا انسان تھا۔ اسے فنا کر دو ایک باپ کا سہارا بن جائو۔ ایک جوان بہن کے محافظ بن جائو۔ محنت مزدوری کر کے اس بُرے انسان کی برائیوں کا کفارہ ادا کرو۔ خود کو مٹا کر ایک اور گناہ نہ کرو۔ اس بوڑھے شخص کو جوان بیٹے کی موت کا داغ نہ دو، جو بے کس ہے بلکہ اس کے ناتواں بدن کو اپنے طاقتور جسم کا سہارا دو۔ ہو سکتا ہے اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے۔‘‘
وہ گردن جھکائے آنسو بہاتا رہا، یہ آنسو مکر کے آنسو نہیں تھے، میں نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’اب وہ لوگ کہاں ہیں؟‘‘
’’اسی عمارت میں گئے ہیں۔‘‘
’’تم اب تک انہی کے ساتھ تھے؟‘‘
’’ہاں ان سے قطع تعلق کر کے آیا ہوں۔‘‘
’’وہ یہ تو نہ سوچیں گے کہ تم نے مجھے وہاں سے نکالا ہے؟‘‘
’’نہیں میں تو اسی وقت سے ان کے ساتھ تھا مگر میں نے دعویٰ کیا تھا کہ آپ وہاں قید نہیں رہ سکیں گے، نواب دلبر ہنسنے لگا تھا۔ وہ مجھے بھی وہیں لے جا رہا تھا مگر میں واپس آ گیا۔‘‘
’’نواب دلبر تمہارے لیے خطرہ تو نہیں بن جائے گا؟‘‘
’’اس میں میرے مقابل آنے کی ہمت نہیں ہے مرشد۔‘‘
’’تو پھر میری ہدایت کے متعلق کیا خیال ہے۔‘‘
’’مرشد۔ میں آپ کا مجرم ہوں۔‘‘
’’تو اسے میری طرف سے سزا سمجھ کر قبول کر لو!‘‘
’’آپ کا دل صاف ہو جائے گا میری طرف سے؟‘‘
’’ہاں مگر بعد میں تم مجھ سے سٹّے کا نمبر مت مانگ بیٹھنا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’نہیں مرشد۔ حرام کا پیسہ اب میرے لیے حرام ہے۔ میں محنت کی کمائی کر کے اپنے ماں باپ کو کھلائوں گا۔ آپ سے وعدہ کرتا ہوں مرشد جو کر چکا ہوں وہ اب نہیں کروں گا۔ مرشد میرے حق میں دُعا کریں۔ اللہ مجھے زندگی دے تو اب اسے میرے گناہوں کے کفارے کے لیے وقف کر دے پھر سے، گناہوں کی دلدل میں پھنسوں تو مجھے موت دے دے۔‘‘ اس کے الفاظ سچائی کا اظہار کر رہے تھے میں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اب کچھ اور پوچھوں تم سے الیاس خان۔‘‘
’’پوچھیں مرشد۔‘‘
’’منشی ریاض سے واقعی ملے تھے؟‘‘
’’ہاں۔ وہ میں نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔‘‘
’’ان سے میرا تذکرہ کیا تھا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اور ان پر وہی ردعمل ہوا تھا جو تم نے بتایا تھا۔‘‘
’’بالکل وہی۔‘‘
’’وہ فرید خاں کے پاس کام کرتے ہیں۔‘‘
’’بالکل یہی بات ہے۔‘‘
’’مجھے ان سے ملا سکتے ہو۔‘‘
’’آپ اسے میری ذمّہ داری پر چھوڑ دیں مسعود صاحب، میں کل ہی انہیں یہاں لے آئوں گا۔‘‘
’’وہ فرید خاں کے پاس رہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں اس کے ساتھ نہیں رہتے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’ان کا کوئی اور گھر ہے۔ شام کو چھٹی کر کے چلے جاتے ہیں۔‘‘
’’تم ان کا گھر جانتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کل مجھے وہاں پہنچا سکتے ہو جہاں وہ کام کرتے ہیں۔‘‘
’’فرید خاں کے گھر پر رہتے ہیں وہ۔‘‘
’’وہیں سہی۔‘‘
’’مرشد۔ فرید خاں کے گھر پر ان سے ملنا دُرست نہیں ہوگا۔ ان لوگوں کو آپ کے نکل آنے کا پتا چل چکا ہوگا۔ وہ پاگلوں کی طرح آپ کو تلاش کریں گے اس بارے میں بات ہوئی تھی۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔
’’مرشد، میں نے نواب دلبر کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ کچھ لینے کا طریقہ یہ نہیں ہوتا جو اس نے اختیار کیا ہے۔ اس کے لیے آپ کی خدمت کی جاتی۔ آپ کی محبت حاصل کی جاتی مگر اس نے کام ہی دُوسرا شروع کر دیا۔ میں نے یہ بھی کہا تھا اس سے کہ اس کا وہ قید خانہ مرشد کو نہ روک سکے گا اور وہ اپنی رُوحانی قوتوں سے کام لے کر وہاں سے نکل جائیں گے۔ اس پر فرید خان نے کہا تھا کہ ایسا ہوا تو نواب دلبر کی گردن میں پھانسی کا پھندہ فٹ ہو جائے گا کیونکہ وہ مرشد کو ان چار لاشوں کے بارے میں بتا چکے ہیں جو تہہ خانے میں دفن ہیں اور جنہیں نواب دلبر نے قتل کیا ہے۔‘‘
’’اوہ۔ ہاں۔‘‘ میں چونک پڑا۔
’’نواب دلبر اس بات پر پریشان ہوگیا تھا اسی وجہ سے وہ واپس پرانی گڑھی گیا تھا۔‘‘
’’پرانی گڑھی؟‘‘
’’اسی حویلی کا نام ہے وہ رہتا الگ ہے، پرانی گڑھی اس کے پرکھوں کی ملکیت ہے اور جائداد میں بس وہی باقی رہ گئی ہے، باقی سب وہ ختم کر چکا ہے۔ ان باتوں کے بعد وہ اُٹھ گیا اور اس نے سب سے کہا کہ پرانی گڑھی چلیں، کہیں کچھ ہو ہی نہ جائے، میں اس سے اختلاف کر کے چلا آیا تھا۔‘‘
’’تب تو اس وقت اس کی جان ہی نکلی ہوئی ہوگی۔‘‘
’’یقینا مرشد۔‘‘
’’ہوں تو پھر یوں کرنا الیاس خان کہ تم مجھے دُور سے فرید خاں کا گھر دکھا دینا۔ میں اس وقت منشی ریاض سے ملوں گا جب وہ فرید خاں کے گھر سے نکلیں گے اور اپنے گھر جائیں گے۔‘‘
’’جو حکم مرشد۔‘‘ مگر آپ خود کو محفوظ رکھیں۔
’’اطمینان رکھو۔‘‘ میں نے کہا اور الیاس خان نے گردن جھکا لی۔ میں نے خود ہی کہا۔ ’’اور اب تم جائو آرام کرو۔ اس نئی زندگی پر سب سے پہلی مبارک باد میں تمہیں پیش کرتا ہوں۔‘‘ وہ ایک بار پھر رو پڑا۔ میرے ہاتھ چومے اور باہر نکل گیا۔ مجھے خوشی ہو رہی تھی۔ جمال احمد خاں کا بڑھاپا سنور جائے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوگی۔ دیر تک ان کی خوشیوں کا اندازہ لگاتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اُداسیوں میں ڈوبتا چلا گیا، میری خوشیاں کہاں ہیں مجھے خوشیاں کب ملیں گی مجھ پر یہ نحوستیں کب تک طاری رہیں گی، وہ میری تقدیر کی صبح کب ہوگی۔ الیاس خان نے کہا تھا کہ منشی ریاض، فرید خاں کے ساتھ نہیں رہتے، ان کا کوئی گھر ہے۔ اسی گھر میں مجھے میرے ماں باپ اور بہن نظر آئیں گے۔ آہ! ماموں ریاض انہی کے لیے تو نوکری کر رہے ہوں گے آہ! صبح کب ہوگی کب صبح ہوگی۔
صبح ہوگئی دروازے سے الیاس خان اندر داخل ہوگیا۔ اس کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھی۔ آنکھیں سرخ اور مغموم تھیں۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ ’’جلدی جاگ گئے الیاس خان۔‘‘
’’جی!‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔
’’خیریت۔‘‘
’’جی ہاں ناشتہ کر لیجیے۔‘‘
’’آ جائو۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’تم بھی ناشتہ کر لو۔‘‘
’’میں نے چائے پی لی ہے ابھی کچھ نہیں کھائوں گا۔‘‘
’’کب چلو گے۔‘‘
’’بتا دوں گا ابا آ رہے ہیں۔‘‘ وہ بولا۔ اسی وقت جمال خان صاحب اندر آ گئے تھے۔ انہوں نے سرد نگاہوں سے الیاس خان کو دیکھا اور وہ گردن جھکا کر باہر نکل گیا۔
’’ناشتہ کریں میاں۔‘‘ جمال خان صاحب بیٹھتے ہوئے بولے اور میں نے ٹرے سامنے سرکا لی۔ ’’آج یہ کوئی ناٹک کر رہا ہے، ضرور کوئی چکر ہے۔‘‘ وہ پُرخیال انداز میں بولے۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’صبح میں جاگا تو یہ وضو کر چکا تھا۔ رات کو کسی وقت آیا اور کیسے اندر داخل ہوا پتا نہیں۔ وضو کے بعد باقاعدہ نماز پڑھی پھر ماں کے پاس جا بیٹھا اور انہیں دیکھتا رہا۔‘‘
’’خوب مگر یہ ناٹک کیسے ہوا؟‘‘
’’وہ اور نماز۔ میرے خیال میں تو اسے نماز آتی بھی نہیں، بھائی مجھے تو شبہ ہوگیا اور میں نے فوراً احتیاطی تدابیر کر ڈالیں۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تم نے جو عنایت کی ہے اس نے مجھے جینے کا حوصلہ دیاہے۔ سچ جانو بیٹے! ہمارے ٹوٹے ہوئے دل جڑ گئے ہیں۔ میری اہلیہ نے تو اتنے سجدے کئے ہیں کہ گنے نہ جا سکیں، بیٹی کے چند رشتے ہیں جن پر اس لیے غور نہیں کیا تھا کہ پاس پلے کچھ نہیں تھا، ہاں یا نا کرتے تو کس برتے پر۔ مگر اب اب مجھے شبہ ہوا کہ کہیں اسے پتا نہ چل گیا ہو اس لیے میں نے تمہارے عطیے کو محفوظ کر دیا۔‘‘
’’میرا ناقص علم کچھ اور کہتا ہے محترم بزرگ۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’صبح کا بھولا شام کو واپس آ گیا ہے، ایک گزارش بھی ہے آپ سے۔‘‘
’’کیا بیٹے؟‘‘
’’وہ اگر نیکیوں کی طرف واپس آئے تو اسے سہارا دیں ماضی کو بھول جائیں، اسے طعنہ نہ دیں۔‘‘
’’آہ! مجھے اگر بیٹے کا سہارا مل جائے تو، تو کاش ایسا ہو جائے۔‘‘ جمال احمد خان آبدیدہ ہوگئے۔ بہت دیر تک وہ میرے پاس بیٹھے رہے تھے۔ پھر جب اُٹھنے لگے تو مجھے اچانک کچھ یاد آ گیا۔
’’وہ جمال احمد صاحب یہاں ایک کمبل تھا کسی کی امانت ہے وہ نظر نہیں آیا۔ ذرا چچی جان اور بہن سے پوچھ لیں دُھوپ لگانے کو تو نہیں ڈالا۔‘‘
’’کمبل، اچھا پوچھے لیتا ہوں۔‘‘ کچھ دیر کے بعد وہ واپس آئے اور بولے۔ ’’نہیں میاں کمبل یہاں سے کسی نے نہیں اُٹھایا۔ کہاں گیا، کہاں جا سکتا ہے۔‘‘ وہ پریشانی سے بولے اور دل ہولنے لگا، نہ جانے کمبل کہاں گیا۔ جمال احمد پھر باہر نکل گئے نہ جانے کیسے تفتیش ہوئی مگر کمبل نہیں ملا، وہ پریشان اور شرمندہ تھے اور میں۔‘‘
الیاس خان نے دوپہر کے کھانے کے بعد تیاری کر لی، اس بارے میں میری اس سے بات ہوگئی تھی اور طے ہوگیا تھا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ پھر ہم تانگے میں بیٹھ کر چل پڑے۔ کافی فاصلہ طے ہوا تھا اور پھر فرید خان کا مکان آیا تھا، شاندار مکان تھا، فرید خان کھاتے پیتے گھر کا فرد تھا۔ منصوبے کے مطابق الیاس خان مجھے چھوڑ کر فریدخان کے مکان میں چلا گیا، یہاں اس کا آنا جانا تھا اور چونکہ اس کی ابھی ان لوگوں سے باقاعدہ نہیں ٹھنی تھی اس لیے کوئی مشکل بھی نہیں تھی، دس منٹ کے بعد وہ واپس آ گیا۔
’’وہ رات سے غائب ہے واپس نہیں آیا۔ یقیناً وہ پرانی گڑھی میں ہوں گے اور آپ کے نکل جانے سے خوفزدہ ہوں گے۔ خیر منشی ریاض اندر موجود ہیں۔ کام میں لگے ہوئے ہیں پانچ بجے چھٹی کر کے نکلیں گے۔‘‘
’’کچھ کہا تو نہیں تم نے اُن سے۔‘‘
’’بالکل نہیں آپ نے منع کیا تھا۔‘‘
’’ہاں یہ اچھا کیا۔‘‘
’’اب کیا حکم ہے مرشد؟‘‘
’’الیاس خان تم واپس جائو جس نئی زندگی کا تم نے آغاز کیا ہے اسی پر ثابت قدم رہنا ہی ذریعۂ نجات ہے۔ برائی بہت خوبصورت ہوتی ہے مگر اس کی انتہا بے حد بھیانک، اس کے برعکس نیکیوں کا سفر مشکل ترین لیکن منزل نہایت سکون بخش۔‘‘
’’میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا لیکن مرشد ابھی میں آپ کے پاس رُکنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’مرشد ان سوؤروں کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ انہوں نے آپ کی تلاش شروع کر دی ہوگی۔ ان کے بہت سے گرگے ہیں وہ انہیں بھی استعمال کریں گے۔‘‘
’’اور تم میری حفاظت کرو گے؟‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’نہیں مرشد میں تو خود ایک کمزور انسان ہوں۔ لیکن میں ان لوگوں کو جانتا ہوں اگر کوئی نظر آیا تو آپ کو ہوشیار تو کر سکتا ہوں۔‘‘
تمہارا شکریہ الیاس خان میری نصیحت ہے کہ ان لوگوں سے تصادم کی کیفیت نہ اختیار کرنا، اب تم ایک ذمّے دار شخص ہو، تمہارے شانوں پر جوان بہن اور بوڑھے ماں باپ کا بوجھ ہے۔ بہت مشکل ہے تمہارے ماں باپ کو اپنی خوش بختی پر یقین آئے مگر انہیں یقین دلانا تمہارا فرض ہے۔ جائو دوست خدا تمہاری حفاظت کرے
’’آپ مرشد؟‘‘
’’میں آ جائوں گا میری فکر مت کرو!‘‘ بمشکل تمام میں نے اسے روانہ کیا اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو فرید خان کے گھر کے دروازے کو دیکھنے لگا، اندر ماموں ریاض موجود تھے۔ میرے ماموں ریاض جنہیں معلوم تھا کہ امی ابا کہاں ہیں۔ آہ! میں انہیں دیکھ سکوں گا ان سے مل سکوں گا۔ میری امی، میرے ابا ، میری بہن دل میں سرور اُتر آیا تھا، میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ماموں ریاض کے سامنے نہیں آئوں گا۔ ان کے گھر تک ان کا پیچھا کروں گا اور پھر سب کے سامنے ایک دم جائوں گا، کیا کیفیت ہوگی ان کی۔ کیا ہوگا۔
بدن اینٹھ رہا تھا، اعصاب کشیدہ ہو رہے تھے کہ جانے کتنے عرصے کے بعد پانچ بجے اور پھر، پھر میں نے فرید خان کے گھر کے دروازے سے ماموں ریاض کو نکلتے دیکھا۔ ہاں وہ ماموں ریاض ہی تھے!
کھوئے کھوئے سے، مضمحل مضمحل سے، شیو بڑھا ہوا تھا، ہاتھ میں کپڑے کا بنا ہوا تھیلا تھا جس میں کوئی چیز محسوس ہوتی تھی، لباس بھی بہت معمولی تھا، ان کی پریشان حالی کا صاف احساس ہوتا تھا۔ آہ! نہ جانے کیسی زندگی گزار رہے ہیں یہ لوگ، ظاہر ہے ابو تو کچھ کرنے کے قابل نہ رہے ہوں گے، ان سب کی کفالت کا بوجھ ماموں پر ہو گا، دل بے اختیار ہو رہا تھا، جذبات مچل رہے تھے، خواہش ہو رہی تھی کہ سب کچھ بھول کر دوڑوں اور ان سے لپٹ جائوں، اتنا روئوں کہ عرصہ کے رکے ہوئے سارے آنسو بہہ جائیں لیکن خود کو سنبھالا، احتیاط ضروری ہے، مجھے ماضی کو نہیں بھولنا چاہیے۔
ماموں ریاض کافی دور نکل گئے تھے۔ میں چل پڑا، خیالات کے ہجوم میں گھرا ہوا تھا، سونے کے چند سکے میرے پاس موجود تھے، یہ ان کے کام آئیں گے اس کے بعد، اس کے بعد جس طرح بھی بن پڑا میں ان کے حالات بدل دوں گا آہ… یہ تو میرا فرض ہے، میری تو ابتدا یہیں سے ہونی چاہیے تھی مگر یہ تقدیر میں نہیں تھا، اگر امی، ابو اور شمسہ وہاں موجود ہوئے جہاں ماموں جا رہے ہیں تو مجھے دیکھ کر ان پر کیا گزرے گی، کیا کیفیت ہو گی، کہیں یہ لوگ بھی مجھ سے بددل نہ ہوں، مجھے اپنی پریشانیوں کا ذمہ دار سمجھ کر مجھ سے نفرت نہ کرنے لگے ہوں۔ یہ احساس مجھے الیاس خان کے ان الفاظ سے ہوا تھا جن میں اس نے ماموں ریاض کے بارے میں بتایا تھا کہ میرے پیغام کا ان پر کوئی رد عمل نہیں ہوا تھا۔ خیر اگر ایسا ہوا بھی تو کیا بالآخر میں انہیں خود سے راضی کر لوں گا، اپنی کہانی انہیں سنا کر بتائوں گا کہ میں نے اپنے گناہوں کا کیا کفارہ ادا کیا ہے۔ ان سوچوں نے، ان احساسات نے اس سفر کی طوالت کا احساس ختم کر دیا تھا جو ماموں ریاض نے رکے بغیر طے کر لیا تھا۔ یہ بہت طویل سفر تھا، نہ جانے کتنی سڑکیں، گلیاں، بازار، محلے عبور کر آئے تھے وہ، آبادی خال خال رہ گئی تھی جس جگہ وہ پہنچ گئے تھے وہاں کھیت بکھرے ہوئے تھے اور ان کھیتوں کے دوسرے سرے پر کچھ بوسیدہ مکانات دور دور نظر آ رہے تھے غالباً یہاں بجلی نہیں تھی، کھمبے بھی نہیں لگے ہوئے تھے، ان ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں سے چند میں ملگجی مدھم روشنیاں ٹمٹما رہی تھیں۔ میں چونک پڑا ان روشنیوں کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ کتنا فاصلہ پیدل طے کیا گیا ہے کہ چلتے چلتے رات ہو گئی اور پھر یہ آبادی عجیب سی تھی۔ یہاں رہتے ہیں یہ لوگ اتنی دور اور ایسی جگہ جو زندگی کی سہولتوں سے محروم ہے! اس کی وجہ بھی غربت ہی ہو سکتی تھی۔ دل رونے لگا، کتنی بے بسی کا شکار ہیں یہ لوگ، کیا بیت رہی ہے ان پر…
ماموں ریاض ایک دروازے پر رک گئے، ایک لمحے رکے رہے پھر اندر داخل ہو گئے۔ میرا دل بند بند سا ہو گیا۔ منزل آ گئی تھی وہ جگہ آ گئی جس کی مجھے صدیوں سے تلاش تھی۔ قدم من من بھر کے ہو گئے نہ جانے کتنی مشکل سے یہ بقیہ راستہ طے کیا تھا، ان مکانوں کو قریب سے دیکھا۔ زمانہ قدیم کے بنے ہوئے تھے، دیواروں میں ایک اینٹ سلامت نہیں تھی اس کے باوجود مضبوط تھے جس دروازے میں ماموں ریاض داخل ہوئے تھے، اس کی زنجیر بجائی اور دھڑکتے دل کے ساتھ انتظار کرنے لگا، دروازہ کون کھولے گا شمسہ، امی، ابو… یا ماموں ریاض… کس سے کیا کہوں گا، کیا وہ لوگ مجھے ایک نگاہ میں پہچان لیں گے، مشکل ہو جائے گا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد زنجیر دوبارہ بجائی پھر تیسری بار بہت زور سے لیکن کوئی جواب نہیں ملا، جگہ شاید بہت بڑی ہے، یہ لوگ دروازے سے دور ہوتے ہوں گے یا کوئی اور یہاں آتا نہ ہو گا…؟ یا ماموں ریاض اکیلے… اس خیال سے دل لرز گیا اگر ماموں ریاض یہاں اکیلے ہیں تو امی، ابو… ایک دم بے چینی طاری ہو گئی، زور زور سے زنجیر بجانے لگا پھر دروازے کو زور سے اندر دھکیلا تو دروازہ کھل گیا، بے صبری سے اندر قدم رکھ دیا، گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، جگہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔
’’ماموں ریاض۔‘‘ میں نے آواز لگائی اور میری آواز گونج کر رہ گئی۔ دل پر وحشت چھانے لگی تھی۔ اس بار پہلے سے زیادہ زور سے چیخا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ ’’یہاں کوئی ہے۔‘‘ میں نے پھر حلق پھاڑا اور اس بار روشنی کی ایک مدھم سی کرن ابھری۔ یہ کرن کسی دروازے کی جھری سے ابھری تھی۔ اسے دیکھ کر میں اندھوں کی طرح اس طرف لپکا بہت مدھم کرن تھی لیکن اس کی نشاندہی میں، میں دروازے تک پہنچ گیا۔ اس دروازے کو بھی دھکا دے کر میں نے کھول دیا اور دوسری طرف نکل آیا۔ یہاں زیادہ تاریکی نہیں تھی۔ گول سا بڑا صحن نظر آ رہا تھا جس کی زمین اینٹوں سے بنی ہوئی تھی لیکن وہی کیفیت یہاں بھی موجود تھی۔ ٹوٹی پھوٹی اینٹیں درمیان میں کیاریوں جیسی جگہ چھوڑ دی گئی تھی جن میں درخت اُگے ہوئے تھے۔ بہت اونچے اونچے چار درخت نظر آ رہے تھے جو اوپر جا کر آپس میں ایک دوسرے سے پیوست ہو گئے تھے اور انہوں نے اس صحن پر سایہ کر لیا تھا لیکن چونکہ آسمان پر ابھی تھوڑی بہت مدھم مدھم روشنی تھی اس لیے یہ صحن زیادہ تاریک نہیں ہوا تھا۔ روشنی کی وہ کرن جس نے دروازہ اجاگر کیا تھا، اس دروازے کے عین سامنے ایک اور دروازے سے ابھر رہی تھی اور ایک چھوٹی سی کھڑکی سے اس کی روشنی باہر چھن رہی تھی۔ خوف و دہشت کا ایک ہولناک احساس میرے وجود پر طاری ہو گیا، ہاتھ پائوں پھولنے لگے اور کانوں میں شائیں شائیں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ شاید یہ خوف کا احساس تھا جو میرے ذہن پر مسلط ہو گیا تھا۔ ماموں ریاض کہاں گئے، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میرے ہاتھ پائوں لرز رہے تھے اور دل چاہ رہا تھا کہ بیٹھ جائوں، سانس بے حد تیز ہو گیا تھا۔ اس حالت میں کئی منٹ یہاں کھڑے کھڑے گزر گئے، نہ جانے کس طرح میں نے ایک بار پھر اپنے حلق سے آواز نکالی اور ماموں ریاض کو پکارا لیکن جواب ندارد۔ دل کے کسی گوشے میں یہ احساس ابھر رہا تھا کہ جو کچھ ہوا ہے وہ غیرحقیقی ہے۔ کچھ ہو گیا ہے، کوئی ایسی بات جو آنے والے وقت میں میرے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ آہ یہ کیا ہوا، سوچا تو کچھ تھا اور ہو کچھ رہا تھا، کیسے کیسے احساس لے کر یہ طویل اور تھکا دینے والا سفر کیا تھا۔ کیا کیا امیدیں باندھیں تھیں۔ کیا ہونے والا ہے۔ آخر کیا ہونے والا ہے۔
لرزتے قدموں سے اس دروازے کی جانب بڑھا جہاں سے روشنی آ رہی تھی۔ یہاں پہنچ کر دروازہ زور زور سے بجایا۔ میرے ہاتھوں سے پیدا ہونے والی آواز کئی گنا زیادہ ہو کر پھیل رہی تھی۔ اس میں ہوا کی شائیں بھی شامل تھی۔ درختوں کے پتے ایک دوسرے سے ٹکرا کر بج رہے تھے اور ماحول پر ایسا دہشت ناک سناٹا پھیلتا جا رہا تھا کہ دل کی دھڑکنیں چیخ اٹھیں۔ میرے زور زور سے دروازہ بجانے سے یہ دروازہ بھی اندر کو دب گیا اور میں نے کسی انوکھے جذبے کے تحت اندر قدم رکھا۔ اس بار میں ایک وسیع و عریض کمرے میں داخل ہوا تھا جس کی قدامت کا اندازہ اس میں موجود اشیاء سے ہوتا تھا۔ گرد کی ایک دبیز اور بدبودار تہہ اس کے فرش پر جمی ہوئی تھی۔ اونچی چھت کے درمیان میں ایک بہت بڑا جھاڑ لٹک رہا تھا۔ دیواروں پر چاروں طرف جالے لگے ہوئے تھے اور ایک طرف آتش دان میں مدھم مدھم سی زرد روشنی ہو رہی تھی۔ اسی آتش دان کے اوپر ایک شمع روشن تھی۔ میں نے اس کمرے کی فضا میں ہلکی ہلکی گرمی محسوس کی اور میرا بدن ایک بار پھر دہشت سے لرز اٹھا کیونکہ اچانک ہی کمرے کی روشنی میں اضافہ ہونے لگا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے کوئی سات فٹ کے فاصلے پر آتش دان کے اوپر رکھی چند شمعیں خود بخود روشن ہو گئی تھیں۔ یہ شمعیں پرانے قسم کے ایک شمع دان میں لگی ہوئی تھیں۔ سفید سفید لمبی لمبی خدا جانے ان شمعوں کو روشن کس نے کیا تھا، میں اب شدید دہشت کا شکار ہو چکا تھا۔ آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر میں ان شمعوں کے قریب پہنچ گیا۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ پہلے تو صرف ایک ہی موم بتی جل رہی تھی لیکن اب یہ شمعیں کس نے روشن کیں۔ وہ نادیدہ ہاتھ مجھے نظر نہیں آ رہے تھے جنہوں نے یہ حرکت کی تھی۔ موم بتیوں کے شعلے بالکل سیدھے اوپر اٹھ رہے تھے جیسے ہوا سے محفوظ ہوں۔ میں غیر ارادی طور پر ان پر پھونکیں مارنے لگا اور ایک بار پھر میری آنکھوں میں خوف ابھر آیا۔ میری پھونکوں سے کسی نہ کسی شعلے کو بجھ تو جانا چاہیے تھا لیکن وہ جنبش بھی نہیں کر رہے تھے۔ دل بری طرح دھک دھک کرنے لگا۔ پورا بدن پسینے میں ڈوب گیا اور اب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچا جا سکتا تھا کہ جو کچھ ہوا وہ فریب نظر تھا۔ ماموں ریاض حقیقت نہیں تھے بلکہ کوئی خوفناک دھوکا تھے جس کا تعاقب کرتا ہوا میں اس ہولناک مکان میں پہنچ گیا ہوں لیکن اس دھوکے کی بنیاد کیا ہے، یہ سب کچھ، یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے، بہت عرصے تک میں اس سے محفوظ رہا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ میری ایک حیثیت بن گئی تھی آہ … اس کے بعد اس کے بعد یہ سب کچھ، یہ سب کچھ، کیا کروں، کیا کرنا چاہیے مجھے، بے شک شدید ترین حالات کا شکار رہ چکا تھا، ان حالات میں رہنے کی عادت پڑ گئی تھی لیکن کچھ عرصے سے، صورتحال ذرا مختلف ہو گئی تھی اور اب یہ سب کچھ میرے لیے بڑا دہشت ناک تھا۔ میں نے پریشان نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا۔ دروازہ در دروازہ، ایک کے اندر ایک۔ ایک اور دروازہ نظر آ رہا تھا۔ ماموں ریاض کا تصور تو اب دل سے نکلتا ہی جا رہا تھا۔ میری تقدیر میں بھلا یہ روشنی کہاں ہے، میں تو تاریک اندھیروں کا مسافر ہوں، مجھے انہی تاریکیوں میں زندگی بھر کا سفر کرنا ہے، ان خوشیوں سے بھلا میرا کیا واسطہ جو انسان کی زندگی میں آتی ہیں مگر اب یہ نیا جال، نیا فریب کیا معنی رکھتا ہے۔ آہ! پچاس بار غور کر چکا تھا اس بات پر کہ غلطی ہوئی ہے مجھ سے اور میری اس غلطی نے مجھ سے میرا سائبان چھین لیا ہے، وہ کمبل جو میرے لیے ایک بزرگ کا عطیہ تھا، مجھ سے واپس مانگا گیا تھا، صاف کہا گیا تھا کہ میں اس کی حفاظت کرنے میں ناکام رہا تھا، میں نے اسے چھوڑ دیا، ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کچھ ہوا تھا اس میں میری غلطی نمایاں تھی لیکن اب اب کیا کرنا چاہیے۔ اپنی اس غلطی کو تسلیم کر کے کیا ایک بار پھر موت کی آرزو کرنے لگوں یا زندگی کی جانب رخ کیے رہوں جیسا بھی ہو جو کچھ بھی ہو گزاروں اسی میں گزاروں۔ زندگی کتنی قیمتی شے ہے کوئی جینے والوں سے پوچھے جو کسی بھی طور مرنا نہیں چاہتے۔ میں بھی مرنا نہیں چاہتا ہوں ہاں بے شمار بار دل اس دنیا سے اکتایا، اپنے آپ سے اکتایا لیکن جب موت کو گلے لگانے کی آرزو کروں گا تو نہ جانے کیا احساس ہو گا دل میں، کافی دیر تک میں اسی طرح اس پراسرار کمرے میں کھڑا سوچوں میں گم رہا اور اس کے بعد میں نے سوچا کہ کم از کم یہاں کا تھوڑا سا جائزہ اور لے لوں اور اس کے بعد اس گھر سے باہر نکل جائوں جہاں میں صرف ایک دھوکے کے تعاقب میں آیا تھا۔ سامنے ہی جو کمرہ نظر آ رہا تھا اس کے دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ میں اس دروازے کے رنگ کو دیکھ رہا تھا۔ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اسے مدت سے نہیں کھولا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے دوسری طرف تاریکی ہی تاریکی ہو کیونکہ روشنی نظر نہیں آ رہی تھی اس لیے میں واپس پلٹا۔ ایک شمع ہاتھ میں اٹھائی اور دوبارہ دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ پھر میں نے دروازے کو آہستہ سے دھکیلا اور ایک لمحے میں دروازہ کھل گیا۔ شمع کی روشنی میں مجھے ایک اور بڑا اور وسیع کمرہ نظر آیا۔ یہاں بھی فرش بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے اس پر صدیوں سے انسانی قدموں کا گزر نہ ہوا ہو۔ دیواریں پلاسٹر کے بغیر تھیں اور ان سے ٹوٹی پھوٹی اینٹیں جھانک رہی تھیں۔ ایک سمت ایک زینہ سا بنا ہوا تھا جو اوپر جا کر چھت میں گم ہو گیا تھا۔ یہ کمرہ پہلے کمرے سے بھی زیادہ پراسرار تھا۔ ابھی میں یہیں کھڑا ہوا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً ہی مجھے اوپر قدموں کی سی آہٹ سنائی دی اور میرا دل دہشت سے اچھل پڑا۔ میرے حلق سے ڈری ڈری آواز نکلی۔
’’ماموں ریاض، ماموں ریاض کہاں ہیں آپ، ماموں ریاض کیا آپ یہاں اس گھر میں موجود ہیں۔‘‘ اپنی آواز کے کھوکھلے پن کا خود بھی احساس ہوا تھا، جسے پکار رہا تھا اب اس کی موجودگی سے مایوس ہو گیا تھا لیکن کوئی اوپر ہے ضرور۔ یہ مکان خالی نہیں ہے، یہاں یقینی طور پر زندگی ہے۔ آہ کوئی نظر تو آئے، کوئی دکھائی تو دے اس سے پوچھوں کہ مجھے اس طلسم خانے میں لانے کا مقصد کیا ہے۔ آخر میں یہاں کیوں آیا ہوں بس دماغ پر ایک دھند سی طاری ہو گئی اور میرے قدم ان سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئے۔ گیارہ سیڑھیاں تھیں اور اس کے بعد لکڑی کی بنی ہوئی چھت۔ اوپر پہنچا شمع کی روشنی نے ایک اور دروازہ اجاگر کیا لیکن
اس دروازے کے دوسری جانب روشنی تھی، یقینی طور پر وہاں کوئی موجود تھا۔ کچھ سرسراہٹوں کی سی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ میں نے دروازے کو دھکا دیا۔ یہ دلچسپ بات تھی کہ یہاں کوئی دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ یہ دروازہ بھی میرے دھکا دینے سے کھل گیا اور وہاں مجھے تیز روشنی نظر آئی۔ یہ روشنی بالکل نیچے لگی ہوئی شمعوں کی جیسی روشنی تھی۔ یہاں بھی پانچ شمعیں جو بہت لمبی لمبی تھیں، روشن تھیں اور یوں لگتا تھا جیسے انہیں ابھی ابھی روشن کیا گیا ہو کیونکہ ان کا موم پگھلا نہیں تھا لیکن کمرے کے منظر میں کچھ ایسی انوکھی باتیں تھیں جنہیں دیکھ کر میرا دل اینٹھنے لگا، اعصاب میں عجیب سی کھنچاوٹ پیدا ہوئی۔ سامنے ہی ایک تابوت جیسی شے رکھی ہوئی تھی اور سرسراہٹوں کی آوازیں وہیں سے آ رہی تھیں۔ کمرہ روشن تھا لیکن میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی شمع پھینکی نہیں اور آہستہ آہستہ اس تابوت کے قریب پہنچ گیا۔ میرے خدا، میرے خدا میں نے جو کچھ دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔ تابوت خاص قسم کا بنا ہوا تھا۔ اس کے کنارے اونچے اونچے تھے اور اس کے اندر ایک لاش نظر آ رہی تھی۔ ایک انسانی لاش جس کی بے نور آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں اور یہ چہرہ، یہ چہرہ ماموں ریاض کا چہرہ تھا۔ ہاں میں اس چہرے کو صاف پہچانتا تھا۔ ماموں ریاض ہی تھے لیکن جو چیز مجھے ایسی نظر آئی جو میرے حواس کو بالکل ہی بے قابو کر رہی تھی وہ ماموں ریاض کی لاش سے چمٹی ہوئی لاتعداد پیلی پیلی مکڑیاں تھیں جو ان کے جسم پر ادھر سے ادھر پھر رہی تھیں اور جگہ جگہ ان کے کھلے جسم میں اپنے پنجے جمائے ان کا خون چوس رہی تھیں۔ آہ ماموں ریاض… ماموں ریاض… میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔ شمع میرے ہاتھ سے چھوٹ کر کھلے ہوئے تابوت میں جا گری۔ مکڑیاں ایک دم منتشر ہونے لگیں۔ ان کی تعداد بے پناہ تھی، ان کا سائز بھی مختلف تھا۔ شمع گرنے سے ان میں سے کچھ مکڑیاں جل بھی گئی تھیں۔ وہ ایسے انداز میں اوپر کی جانب لپکیں جو بے حد لرزہ خیز تھا۔ میں بدحواس ہو کر پیچھے ہٹا لیکن پائوں کسی چیز میں الجھ گیا اور میں چاروں شانے چت نیچے گر گیا۔ دفعتاً ہی مجھے ایک دھماکہ سا سنائی دیا اور اس کی وجہ بھی مجھے معلوم ہو گئی۔ وہ دروازہ جس سے میں اندر داخل ہوا تھا، زوردار آواز کے ساتھ بند ہو گیا تھا، ہوا بالکل نہیں چل رہی تھی اگر ہوا چلتی تو شمعوں کے شعلے بھڑکتے۔ اس کا مقصد ہے کہ کسی نادیدہ شیطانی قوت نے یہ دروازہ بند کیا ہے۔ میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگا۔ سہارا لے کر اٹھنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا لیکن جسم جیسے مفلوج ہو گیا تھا۔ آن واحد میں لاتعداد سفید اور پیلی مکڑیاں میرے جسم تک پہنچ گئیں اور میں اپنے جسم کے کھلے ہوئے حصوں پر ان کے نوکدار پیروں کی گردش محسوس کرنے لگا۔ وہ میرے جسم سے چمٹ رہی تھیں، جسم کے کھلے ہوئے حصوں میں باریک باریک سوئیاں سی چبھنے لگیں اور درد کی شدت سے میرے حلق سے بے اختیار چیخیں نکلنے لگیں، اعصاب اچانک ہی قابو میں آ گئے تھے۔ میں نے جوش وحشت میں ان مکڑیوں کو ہاتھ مار مار کر دور کرنا چاہا مگر بے سود ان کی نوکیلی ٹانگیں میری کھال میں پیوست ہو رہی تھیں اور وہ اپنے باریک باریک دانت میرے جسم میں چبھو رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ وہ میری گردن تک پہنچ گئیں اور اس کے بعد انہوں نے میرے چہرے پر چڑھنے کی کوشش کی۔ ایک خوفناک دھاڑ میرے منہ سے نکلی اور میں نے ایک دم کروٹ بدل کر زمین پر ہاتھ ٹکائے اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ جسم میں انتہائی خوف کے عالم میں قوتیں بیدار ہو گئی تھیں۔ میں نے بہت زور زور سے ہاتھ اور پائوں جھٹک جھٹک کر ان مکڑیوں کو نیچے گرایا اور اس کے بعد دروازے کی جانب دوڑ لگائی۔ پوری قوت سے میں نے دروازے کو پکڑ کر کھینچا۔ دروازہ کھل گیا لیکن میں باہر نکلتے نکلتے ایک بار پھر گر پڑا تھا۔ چند مکڑیاں جو میرے لباس پر چڑھ گئی تھیں، میرے ساتھ ہی باہر آ گئی تھیں۔ میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔ مکڑیوں نے میرے جسم کے کھلے حصوں کی طرف دوڑنا شروع کر دیا اور وہاں پہنچ کر مجھے کاٹنے لگیں۔ میں بار بار چیخ رہا تھا اور ان مکڑیوں کو چٹکیوں سے پکڑ پکڑ کر نیچے پھینک رہا تھا، ساتھ ہی میں انہیں پائوں سے مسلتا بھی جا رہا تھا۔ یہ ایک بے حد گھنائونا کام تھا لیکن اس وقت زندگی بچانا سب سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ مکڑیاں اپنا کام کر رہی تھیں مگر میری کوششوں سے ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ آخری مکڑی بھی میرے پائوں کے نیچے آ کر مر گئی۔ اس مصیبت سے چھٹکارا پاتے ہی میں اس راستے کی طرف دوڑا جہاں سے اندر داخل ہوا تھا۔ سامنے ایک دروازہ کھلا نظر آیا اور میں اس میں گھس گیا مگر وہ ایک کمرہ تھا اور اس میں کوئی دروازہ نہیں تھا۔ وہاں سے نکل کر ایک راہداری میں بھاگا جو آگے جا کر دوسری طرف گھوم گئی تھی لیکن دوسری طرف مڑ ہی رہا تھا کہ سامنے بند دیوار آ گئی اور بمشکل دونوں ہاتھوں کا سہارا لے کر ٹکرانے سے بچا۔ آہ وہ راستہ کہاں گیا جہاں سے اندر آیا تھا، کہاں گیا وہ راستہ… وہاں سے پلٹا اور پھر جہاں تک بھاگ سکا، بھاگا لیکن جہاں پہنچتا راستہ بند ملتا۔ حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے، آواز نہیں نکل رہی تھی۔ پھر ایک تاریک کمرے میں داخل ہو گیا۔ گہرا گھپ اندھیرا تھا، پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔ غالباً غسل خانہ تھا، میں ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھنے لگا، ایک جگہ پانی کی دھار گر رہی تھی پانی ہلکا گرم تھا مگر پیاس اتنی شدت کی تھی کہ میں نے منہ کھول دیا۔ پانی کے کئی گھونٹ حلق سے اتارے مگر یہ پانی ہلکا نمکین تھا اور اس میں پانی جیسا پتلا پن نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ایک عجیب سی بو ایک عجیب سی سڑاند… میں ایک دم پیچھے ہٹ گیا، دونوں ہاتھوں کا چلو بنایا، پانی اس میں لیا اور اسے انگلیوں سے مسل کر دیکھنے لگا، ایک عجیب سی چپکن تھی اس میں مگر تاریکی میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، اس سڑاند سے الٹی آ رہی تھی، پیٹ اور سینے پر ایک دم بڑا بھاری پن پیدا ہو گیا تھا، میں کراہتا ہوا وہاں سے بھی نکل آیا، کوئی شیطانی جال تھا جس میں میں بری طرح جکڑ گیا تھا۔ آہ کیا ہے یہ سب کچھ۔ کہاں جائوں کئی جگہ روشنی نظر آئی، اس سے پہلے یہ روشنی نہیں تھی مگر اس طرف رخ کرتے ہوئے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ ادھر کلیجہ تھا کہ حلق کے راستے باہر نکل آنا چاہتا تھا۔
’’راستہ کہاں ہے… کوئی ہے اس منحوس گھر میں۔ ارے کوئی ہے، ماموں ریاض، ابو، امی، شمسہ… کوئی ہے، کوئی ہے۔‘‘ میری آواز گھٹ گئی، متلی آ گئی تھی اور میری حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی تھی، سر چکرا رہا تھا، آنکھوں کے سامنے ستارے ناچ رہے تھے لگ رہا تھا یہی آخری وقت ہے، مر جائوں گا۔ آہ پھر وہی سب کچھ آہ… آگے بڑھا، رخ ایک روشنی کی طرف تھا نہ جانے وہاں کیا ہے، نہ جانے وہاں کیا ہے۔ کھلا ہوا دروازہ تھا، چوکور کمرہ تھا، کھردرا فرش دیواریں، کارنس پر روشن شمع، سامنے ایک اور دروازہ بھی تھا، نقشہ بدل گیا تھا اس گھر کا میرے داخل ہونے کے بعد۔ کیسے، آخر کیسے۔ روشنی میں ہاتھوں پر نظر پڑ گئی، ایک اور چیخ حلق سے بلند ہو گئی، دونوں ہاتھ سرخ ہو رہے تھے انگلیاں ایک دوسرے سے چپک گئی تھیں، خون، آہ خون، پورا جسم خون میں ڈوبا ہوا تھا، وہ دھار جو نہ جانے کہاں سے گر رہی تھی پانی کی نہیں خون کی دھار تھی اور … اور میں نے کئی گھونٹ خون پیا تھا۔ اس بار تو یوں لگا جیسے آنتیں حلق کے راستے باہر نکل رہی ہوں۔ بری طرح متلی ہورہی تھی اور مجھے بیٹھ جانا پڑا تھا۔ آنکھیں بند کر لی تھی تاکہ حلق سے نکلنے والی آلائش نظر نہ آئے۔ سر بالکل خالی ہو گیا تھا۔ جب حالت کچھ بہتر ہوئی تو اپنی جگہ سے اٹھا اور سامنے نظر آنے والے دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔ بے نور سی آنکھوں سے کمرے کے ماحول کو دیکھا، وہی کمرہ تھا جہاں تابوت دیکھا تھا اور اس تابوت میں ماموں ریاض کی لاش نظر آئی تھی مگر اب وہاں مکڑیاں نہیں تھیں، فرش صاف پڑا تھا۔ مکڑیاں یقیناً دوبارہ تابوت میں جا گھسی تھیں۔ ماموں ریاض مر گئے۔ میں نے دل میں سوچا۔ بے اختیار قدم آگے بڑھے، تابوت میں جھانکا، لاش موجود تھی مگر مکڑیاں نہیں تھیں، ایک بھی مکڑی نہیں تھی، البتہ ماموں ریاض کی لاش خون سے عاری تھی بالکل زرد، بے رونق، سرد…! تابوت میں جھکا دونوں ہاتھ نیچے کئے ان کے شانوں کو مضبوطی سے پکڑا اور اوپر اٹھایا بالکل ہلکا جسم تھا مگر اچانک یوں محسوس ہوا جیسے ماموں ریاض نے پائوں اٹھایا ہو۔ یہ صرف احساس نہیں تھا ایسا ہوا تھا میرے ہاتھوں کے سہارے وہ تابوت سے باہر نکلنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ میں نے دہشت زدہ نظروں سے ان کا چہرہ دیکھا اور پھر جلدی سے انہیں چھوڑ دیا۔ یہ ماموں ریاض نہیں تھے بلکہ اب یہ چہرہ مکروہ صورت بھوریا چرن کا چہرہ بن چکا تھا۔ وہ سو فیصد بھوریا چرن تھا، اس کی شکل نامعلوم سے انداز میں کسی مکڑی کی شکل سے مشابہ تھی۔ ہاتھ پائوں بھی اسی طرح مڑے مڑے تھے۔ اب اسے میرے سہارے کی ضرورت نہیں تھی، وہ اچھل کر تابوت سے باہر نکل آیا۔
’’کیسے ہو میاں جی…؟‘‘ اس نے چہکتی آواز میں پوچھا۔
’’بھوریا چرن‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’پہچان لیا نا…؟ ہاہا… چلو اچھا ہے ہم تو سمجھے بھول گئے ہو گے ہمیں، بہت سمے بیت گیا تھا۔‘‘
’’ماموں ریاض کہاں ہیں بھوریا چرن…؟‘‘
’’سب مل جائیں گے میاں جی… سب مل جائیں گے، اب کیا رہ گیا ہے مگر تم بھی دھن کے پکے نکلے۔‘‘
’’وہ کیسے بھوریا چرن…‘‘
’’ہمارا کام ہی کر کے نہ دیا۔‘‘
’’اب بھی نہیں کروں گا بھوریا چرن۔ اب بھی نہیں کروں گا۔‘‘
’’اب…؟‘‘ اس کے لہجے میں طنز تھا۔
’’ہاں تو کیا سمجھتا ہے ہار مان لی میں نے تجھ سے، تو پاگل ہے بھوریا چرن۔‘‘
’’ڈوب مرو میاں جی کہیں چلو بھر پانی میں… ڈوب ہی مرو تو اچھا ہے اب تم ہو کیا میاں جی ذرا اس پر تو غور کرلو۔‘‘
’’میں تو کبھی کچھ نہیں تھا بھوریا چرن مگر تو دیکھ لے آج تک تو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔‘‘
’’مقصد میں تو ہم ایسے کامیاب ہوئے ہیں میاں جی کہ جانو گے تو جی خوش ہو جائے گا تمہارا…‘‘
’’اچھا… کیا تو کھنڈولا بن گیا…؟‘‘
’’ہم تو کھنڈولے نہ بنے… پر تم بھی دھرماتما نہ بن سکے۔ یہ ہے تمہارا دھرم، جیون بھر کشٹ اٹھائے، پر ایک غلطی کری اور مارے گئے۔‘‘ اس نے مسرور لہجے میں کہا اور میں اسے گھورنے لگا۔ ’’اب تم ہم میں سے ہو میاں جی… نام اور بدل لو اپنا…! دھرم داس رکھ لو یا کالی چرن، مسعود احمد تو نہ رہے اب تم۔‘‘ وہ خوشی سے دیوانہ ہو رہا تھا اور میں اس کے الفاظ پر غور کر رہا تھا، کیا کہہ رہا ہے، یہ کیوں کہہ رہا تھا، اتنا عرصہ دور رہا تو دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ اب اس سے جان چھوٹ گئی جو ذمہ داری مجھے دی گئی ہے اگر اسے پورا کر لوں تو شاید اس کرب کی زندگی سے نجات پا لوں مگر … اور اب اسے برا بھلا کہہ لوں تو کیا ملے گا۔ کم از کم معلومات ہی حاصل کروں، کچھ سمجھ میں ہی آئے۔
’’تم کس مقصد میں کامیاب ہوئے ہو بھوریا چرن۔‘‘
’’ہا…بھاگ ہوتے ہیں منش کے شنکھا بنے تو من میں آئی کہ کھنڈولے بنیں مگر بھاگ میں نہیں تھا، ملا بھی تو تم جیسا پاگل دھرم کے پیچھے بھاگنے والا، ارے پاپی تو دھرم داس بننے تو نہیں آیا تھا، ہمارے پاس برے کاموں کے لیے ہی تو آیا تھا ریس کے گھوڑے، سٹے کے نمبر، دولت کے انبار، ابلائوں کی قربت یہی سب مانگنے آیا تھا تو ہم سے، ہم نے کب منع کیا تھا تو ہمارا کام کر دیتا تو ہم تجھے وہ دیتے کہ جیون بھر مزے کرتا، دھرم ضرور بھرشٹ ہوتا تیرا مگر دھرم داس تو ہی بتا کیا تیرے ہی دھرم میں یہ سب جائز ہے ریس میں دوڑے ہوئے گھوڑوں کے کھیل سے جو دولت ملتی ہے وہ نیک کمائی ہے پھر تیرے من میں نیکیاں کیوں پھوٹ پڑیں… ہمارا ستیاناس مار دیا تو نے اور اس کے بعد جو کچھ تو کرتا رہا وہ مرے پر سو درے تھے، طرح طرح کے لوگوں سے دہائی دی تو نے اور ہمیں نقصان پہنچایا، تو کیا سمجھتا تھا چھوڑ دیتے ہم تجھے۔‘‘
’’تو تم میرے پیچھے لگے رہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’پہلے تو یہی سوچا تھا ہم نے کہ ایک دن راستے پر آ جائے گا مگر اس مُسلے نے کھیل بگاڑ دیا۔‘‘
’’کس نے…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ارے اسی فضل نے۔‘‘
’’بابا فضل کی بات کر رہے ہو۔‘‘
’’ہاں اس نے جیون دان دے کر تیری رکھشا کی نہ صرف رکھشا کی بلکہ بلکہ…!‘‘
’’بلکہ…؟‘‘ میں نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’رستے کھول دیے تیرے تو نے جو گناہ کئے تھے اپنے دھرم کی نگاہ میں اس نے انہیں دھونے کے لیے اپنی قربانی دے دی اور تو بچ گیا، تیری گھٹنائیں دور ہونے لگیں مگر ہمارے لیے مشکل پیدا ہو گئی۔‘‘
میرے حلق میں گولا سا آ پھنسا۔ بڑا روح فرسا انکشاف تھا، بابا فضل نے میری مشکلات دور کرنے کے لیے جان کا نذرانہ دیا تھا، اتنا بڑا ایثار کیا تھا انہوں نے اتنا بڑا ایثار… بھوریا چرن میری کیفیت سے بے نیاز بولا۔
’’ہماری بھی کچھ مشکلیں ہوتی ہیں، کچھ بھید بھائو ہوتے ہیں اگر تو مہان بن جاتا اگر تیرے ہاتھوں کالے جادو والوں کو نقصان پہنچتا تو وہ ہمارے حساب میں لکھا جاتا۔ ہمیں جواب دینا ہوتا اس کا اور ہمارے درجے کم ہوتے جاتے۔ مصیبت گلے پڑ گئی تھی ہمارے تو، لینے کے دینے پڑ گئے تھے، اپنا کام بھولنا پڑا تیری تاک میں لگے رہے، تجھے دیکھتے رہے، تیرے راستے روکنے تھے ہمیں اور ہم کامیاب ہو گئے۔ چولہے میں جاگھسی تیری مہانتا۔‘‘ وہ پھر ہنس پڑا۔
وہ کیسے بھوریا چرن۔‘‘ میں نے خود کو سنبھال کر پوچھا۔
’’بتائیں گے سسر۔ سب کچھ بتائیں گے، تجھے بھی تو کچھ دکھ ہو، تو بھی تو ہماری طرح کلسے۔‘‘
’’بتائو بھوریا چرن۔‘‘
’’دیوتا بن رہے تھے مہاراج مہان پرش بن رہے تھے، سنسار کو دکھوں سے دور کرنے جا رہے تھے، اپنے دین دھرم کے بارے میں کچھ جانتے ہو۔‘‘
’’تم جانتے ہو…؟‘‘
’’کیوں نہیں ہمیں سب سے پہلے دشمنوں سے ہوشیار رہنے کی سکھشا دی جاتی ہے اس کے لیے دوسرے دھرموں کے بارے میں جاننا ہوتا ہے۔‘‘
’’میرے دین کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟‘‘
’’جتنا جانتے ہیں وہ تجھ سے زیادہ ہے۔ تیرے دھرم میں ایک نکتہ ہے، سب سے بڑی چیز ایک نکتہ ہے۔‘‘
’’وہ کیا…؟‘‘
’’ساری ہم سے پوچھ لے گا کیوں بتائیں تجھے۔‘‘
’’اس لیے کہ تم نے میرے دین کو جاننے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں ہم جانتے ہیں نکتے کی بات بالکل ٹھیک کہی ہم نے، تیرے دھرم میں واسنائوں کی گنجائش نہیں، نفس کی موت کو پہلا درجہ حاصل ہے اور جو نفس کے جال میں پھنسا ڈوب گیا، تجھے ڈبونا ضروری ہو گیا تھا ہمارے لیے دھن کے چکر سے تو نکل گیا، سندر ناریاں تجھے متاثر نہیں کر سکتی تھیں اور ہمارا کام اس سمے تک نہیں بن سکتا تھا جب تک تو ایسے کسی پھیر میں نہ پڑے۔ سو ہم لگے رہے تیری تاک میں اور موقع مل گیا ہمیں، بڑا دین دیال بنا ہوا تھا تو اور لوگوں کے بڑے کام آ رہا تھا، ہم نے حساب کتاب لگایا اور کام میں مصروف ہو گئے، بائولے وہ مٹکا جو تجھے درخت کی جڑ میں نظر آیا تھا کسی کا دبایا ہوا خزانہ نہیں تھا وہ تو ہم نے سونے کی مہروں سے بھر کر وہاں گاڑ دیا تھا سو تجھے وہ نظر آ گیا، وہیں پر ہمارا کام بن گیا، تو وہ نکتہ بھول بیٹھا، تجھے بتایا گیا تھا یاد ہے نا تجھ سے کہا گیا تھا کہ پہلا کام انسانوں کے کام آنا ہے، دوسرا کام اپنے نفس کو مار کر اپنی منزل کی تلاش۔ اس کے بغیر مہانتا مکمل نہیں ہوتی، اگر تو اپنی خواہشوں کے جال میں پھنس گیا تو کچھ نہیں حاصل کر سکے گا اس سنسار میں۔ بول یہی بتایا گیا تھا ناں تجھے سو یوں ہوا کہ تو نے دیکھا اس آدمی الیاس خان کو اور تجھے یاد آ گئے اپنے ماماجی۔ ارے ہم نے سوچا کہ اس سے بڑھیا موقع ملنا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ ماما جی کے پھیر میں تو لمبے سے لمبے پھیر میں پڑ سکتا ہے اور بات بن گئی بھیا ہماری۔ سونے کا وہ مٹکا تو نے الیاس خان کو دے دیا اس لیے کہ وہ تیرے ماما جی کا پتا تجھے بتا دے، بس کام تو وہیں سے ہو گیا تھا ہمارا۔ تو خود سوچ دھرتی تو بہت بڑی ہے نہ جانے کتنے خزانے بھرے ہوئے ہیں اس دھرتی میں اور سب کے سب آ جاتے تیری آنکھوں میں کیونکہ تجھے آہستہ آہستہ روشنی مل رہی تھی تو تو بہت بڑا بن جاتا بھائی مگر راستے روکنا ہی تھے سو تو نے وہی کیا جو ہم نے چاہا اور نکل گیا تو ان پابندیوں سے جو تجھ پر قائم کی گئی تھیں بس ایک کے بعد ایک، ہمارا کام بنتا رہا اور پھر بن گئے ہم تیرے ماما جی۔
’’تم!‘‘ میں خوف سے آنکھیں پھاڑ کر بولا۔
’’ہاں رے اس سمے تو یہی سب کچھ کرنا تھا، لگا لائے تجھے اپنے پیچھے ہم اور سب کچھ بھول گیا تو جو کچھ تجھے دیا گیا تھا اسے بھول کر تو پڑ گیا اپنے ماماجی کے پھیر میں، ماتا پتا کے جال میں اور یہی ہم چاہتے تھے اور یہ جگہ اب جہاں تو آیا ہے، کہلاتی ہے بیر منڈل۔ یہاں سارے کے سارے ہمارے بیر رہتے ہیں۔ وہ مکڑیاں جو تیرے ماما جی کی لاش سے چمٹی ہوئی تھیں، تیرا کیا خیال ہے مار دیں تو نے، ارے جا بائولے بیر کہیں مرتے ہیں وہ تو اپنا کام کر رہے تھے ہمارے کہنے سے اور پھر ہم نے وہ خون تیرے شریر میں اتار دیا جو ہم نے سات پورن ماشیاں منتر پڑھ پڑھ کر تیار کیا تھا۔ سترہ آدمیوں کا خون جنہیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے مارا تھا اور جن پر سات پورن ماشیاں منتر پڑھا تھا ہم نے، کالے جادو کا وہ سب سے بڑا منتر جس سے بڑا منتر اور کوئی نہیں ہوتا اور جو ایک شنکھا ہی کو معلوم ہوتا ہے بس وہ خون پانی سمجھ کر پی لیا تو نے اور تیرے اندر سے سب کچھ صاف ہو گیا، کچھ نہیں ہے اب تیرے پاس، سمجھا، تو ایک کورے مٹکے کی طرح ہے جو اندر سے خالی ہے اور کورا ہے۔ یقین نہ آئے تو آزما لے اپنی کسی بھی بات کو۔ ارے پاگل تیری ساری تپسیا ایک لمحے میں ختم ہو گئی، اس طرح کم از کم ہمارا ایک کام تو بنا، ایک کام سے تو فارغ ہوئے ہم، نہ تو اپنے دھرم کا رہا اور نہ اس سنسار کا… اب جا بھاڑ چولہے میں ہمارا کام کر دیتا تو بہت کچھ مل جاتا، نہیں کیا تو ہمارا کیا بگاڑ لیا ہم شنکھا تو ہیں نا مگر تو کیا ہے، تو کیا رہ گیا اب اگر کہے تو کتا بنا کر باہر نکال دیں تجھے یہاں سے۔ بول کیا کریں تیرے ساتھ…؟‘‘ میں بھوریا چرن کو دیکھتا رہا جو کچھ اس نے بتایا تھا، دل میں اتر رہا تھا۔ کمبخت اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا، نہ جانے کیا کیا جتن کئے اس نے اپنے کام کے لیے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کا کہنا بالکل درست تھا۔ ایک نکتہ صرف ایک نکتہ ہی تو اصل حیات ہوتا ہے۔ بڑے بڑے عالم دین، بڑے بڑے ولی، درویش، قلندر اپنے آپ کو تیاگ کر کچھ حاصل کرتے ہیں۔ اپنی خواہشوں کے آگے سر جھکا دیا، اپنی محبتوں کے ہاتھوں دیوانے ہو گئے تو پھر کیا باقی رہ گیا۔ عام انسان بھی تو یہی سب کچھ کرتا ہے۔ میرا تو آزمائشی دور تھا اور میں اس امتحان میں نامکمل رہ گیا۔ میں نے وہ نعمتیں ٹھکرا دیں جو مجھے دی گئی تھیں، اتنی ساری نعمتیں دے کر صرف ایک ہدایت کی گئی تھی مجھے کہ اپنی خواہشوں کا غلام نہ بنوں، وہ نہ مانگوں جن کا دینا ابھی آسمانوں میں منظور نہیں ہوا ہے لیکن کر ڈالا میں نے وہ سب کچھ ماموں ریاض کے چکر میں پڑ کر وہ کمبل بھی وہیں چھوڑ آیا جس نے میری آنکھوں کو روشن کر دیا تھا، جس نے میرے دل و دماغ کو منور کر دیا تھا۔ بھوریا چرن قہقہے لگانے لگا۔ پھر بولا۔
’’اور اب جا مر اس سنسار میں۔ جا دیکھوں آگے تو کیا کرتا ہے، چھوڑوں گا نہیں تجھے پاپی، ہتھیارے تو نے میرے راستے روکے ہیں، میں سنسار کے سارے راستے تجھ پر بند کر دوں گا، چل بھاگ رے یہاں سے اب تو مٹی کا ڈھیر ہے میرے لیے کچھ نہیں رہا۔‘‘
میں گردن جھکائے وہاں سے واپس پلٹ پڑا۔ اندر سے یہ احساس ہو رہا تھا کہ درحقیقت خالی ہو چکا ہوں اور اب کچھ نہیں ہے میرے پاس۔ ایک بار پھر یہ دنیا میرے لیے امتحان گاہ بن گئی تھی اور اس بار میں نے خود کو اس امتحان میں ڈالا تھا، بلاشبہ یہی ہوا تھا یہی سب کچھ ہوا تھا آہ… میں نے اپنے ہاتھوں اپنے منصب گنوا دیئے تھے، یہ میرا گناہ تھا صرف میرا گناہ اس میں کسی کا قصور نہیں تھا، مجھے تو جگہ جگہ سمجھایا گیا تھا، مجھ سے کہا گیا تھا کہ پہلے پھل چکھوں پھر کھانے کو ملے گا۔ بھوریا چرن نے بالکل درست کہا تھا میرا مذہب سچا ہے، انہیں چھوٹ ہے جو کچھ نہیں جانتے لیکن جو واقف ہوں ان پر ذمہ داری ہوتی ہے۔ مجھے بتایا گیا تھا مگر میں نے اپنی خواہشوں کو اوّل قرار دیا، اس بار سارے راستے کھلے ہوئے تھے۔ میں باہر نکل آیا۔ باہر گہری رات چھا چکی تھی نہ جانے کیا بج گیا تھا، چاروں طرف ہُو کا عالم طاری تھا، جگہ جگہ درخت بکھرے ہوئے تھے۔ میں آگے بڑھتا رہا کچھ سوچے بغیر اب تو کچھ سوچنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ کچھ فاصلے پر دریا کا شور ابھر رہا تھا۔ آواز میرے کانوں تک آ رہی تھی مگر احساس کچھ نہیں تھا۔ تھک گیا تو جہاں تھا وہیں لیٹ گیا، وہیں سو گیا، خوب گہری نیند آ گئی تھی۔ صبح کو اس وقت جاگا جب کہیں دور سے اذان کی آواز سنائی دی۔ اس آواز نے اعضاء میں تھرتھری سی پیدا کر دی۔ بے اختیار اٹھ گیا، دماغ کھویا کھویا سا تھا، دل کچھ چاہ رہا تھا، اعضاء کچھ طلب کر رہے تھے مگر کیا… یاد نہیں آ رہا تھا۔ کھڑا ہو گیا اسی جگہ کھڑا ہو گیا، دونوں ہاتھ نیت کے انداز میں بندھ گئے مگر اب اب کیا کروں آہ… اب کیا کروں کچھ یاد نہیں آ رہا تھا، کچھ بھی یاد نہیں آ رہا تھا، بہت کوشش کی مگر سب کچھ بھول گیا تھا، جھکا پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر سجدے میں گر پڑا، آنکھوں سے آنسو ابل پڑے، بلک بلک کر رونے لگا، بھول جانے کا غم تھا، یاد کرنا چاہ رہا تھا مگر یادداشت ساتھ چھوڑ چکی تھی، سارے آنسو بہہ گئے، آنکھیں خشک ہو گئیں تو اٹھ کھڑا ہوا، کانوں میں ایک آواز ابھری۔
گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے سے
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا
میری عمر ہی کیا ہے آہ… چند لمحے میری بخشش کا ذریعہ تو نہیں بن سکیں گے مگر یہ زندگی جو ایک سزا ہے، یہ تو میرے لیے مزید گناہوں کا باعث بن جائے گی… مزید گناہ نہیں اور گناہ نہیں اور گناہ نہیں اس سزا کو ختم ہو جانا چاہیے، برائی میرے لیے نہیں ہے، میں برائی کے قابل نہیں ہوں اور گناہ کرنے کے لیے مجھے اس دنیا میں نہیں رہنا چاہیے، مر جانا چاہیے… مجھے مر جانا چاہیے… ہاں مجھے مر جانا چاہیے۔ میں نے وحشت ناک نظروں سے چاروں طرف دیکھا پھر میری سماعت نے مجھے اس شور کی طرف متوجہ کیا جو مجھ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ میرے قدم تیزوتند دریا کی طرف بڑھ گئے۔ میں عالم بے خودی میں اس طرف چل پڑا۔ وسیع و عریض چوڑا پاٹ میرے سامنے تھا۔ پانی برق رفتاری سے اپنا سفر طے کر رہا تھا، مٹیالی لہریں جھاگ اڑا رہی تھیں۔ میں دریا میں اتر گیا، آگے اور آگے اور آگے اور پھر پانی نے میرا وزن سنبھال لیا، ایسی پٹخی لگائی کہ سر نیچے، پائوں اوپر ہو گئے، دوسری پٹخنی اور اس کے بعد تاریکی گہری اور پرسکون تاریکی پھر روشنی دھندلی روشنی پھر ایک آواز۔
’’ہل رہا ہے کاکا…‘‘
’’ہل رہا ہے…؟‘‘
’’کراہ بھی رہا ہے۔‘‘
’’ماتھو… ارے دیکھ بٹو… اوکا ہوس آئے رہے۔‘‘
’’آت رہیں کاکا… ابھو آت رہیں۔‘‘
’’اب کا کرت ہے جانکی۔‘‘
’’آنکھیں پٹپٹا رہا ہے۔‘‘
’’ہیں… اب آئی سسروا کو ہوس… اری جانکی دودھ گرم کر لئی ہے کا؟‘‘
’’ہاں کاکا… ہنڈیا چولہے پر رکھی ہے۔‘‘
’’بھر دو کٹورے ماں…وید جی اے ہی کہہ گئے تھے، جاری جلدی کر…‘‘
یہ ساری باتیں سن رہا تھا۔ ہوش میں تھا، سوچ رہا تھا کہ اب کہاں ہوں، یہ بھی یاد آ گیا کہ دریا میں کود کر جان دینا چاہی تھی۔ یہ بھی سمجھ میں آ گیا تھا کہ موت نے قبول نہیں کیا ہے۔ یہ بھی یاد تھا کہ مسعود احمد نام ہے میرا اور بھوریا چرن بھی یاد تھا۔
’’کہاں ہوس آئی کاکا۔‘‘ ایک مردانہ آواز سنائی دی۔
’’نا آئی۔ جانکی ہی بولت رہی۔‘‘ دوسری آواز نے کہا اور میں نے آنکھیں کھول دیں۔ اتنی دیر میں ایک لڑکی بڑا سا کٹورا لیے اندر آ گئی جس سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ نوجوان مجھے دیکھ کر مسکرا دیا پھر بولا۔
’’جائو کاکا دودھ کی کھس بو پڑتے ہی ہوس آ گئی انجائی کو۔ چل ببوا دودھ پی لے۔‘‘ اس نے سہارے سے مجھے اٹھاتے ہوئے کہا۔ سخت بھوکا تھا۔ لڑکی نے کٹورا میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے اپنی اوڑھنی کا ایک حصہ گرم کٹورے کے نیچے رکھ دیا۔ باقی اوڑھنی اس کے شانوں پر تھی اور اسے نیچے اس طرح جھکنا پڑا تھا کہ اس کا چہرہ میرے عین سامنے آ گیا تھا۔ دودھ کا گھونٹ لیتے ہوئے میں نے اسے دیکھا سانولا سلونا چہرہ سادہ سے نقوش، انیس بیس سال کی عمر، جوانی کی تمازت سے تپتے ہوئے سانس، کاجل بھری آنکھوں میں دوڑتی زندگی۔ مجھے اپنی طرف دیکھتے پا کر آنکھیں ’’جھکیں‘‘ چہرے کا رنگ بدلا پھر آنکھیں اٹھیں، کڑے انداز میں مجھے دیکھا، پرکھا اور پھر جھک گئیں۔ ہونٹ آہستہ سے کپکپائے جیسے انہوں نے کچھ کہا ہو۔ مگر بے آواز۔ میں کچھ بدحواس ہو گیا مگر گرم دودھ کے دو بڑے گھونٹوں نے سنبھال لیا، آنتیں تک جل گئی تھیں۔
’’دودھ پیوت ہے کہ نا؟‘‘ کاکا پھر بولا۔
’’ہرے سب ڈکوس گئی سسر۔‘‘ نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا۔ لڑکی نے جلدی سے کٹورا میرے ہاتھ سے لے کر اپنی اوڑھنی سنبھال لی اور پھر کٹورا لیے باہر نکل گئی۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا تھا۔ بہت سی لڑکیاں دیکھی تھیں، شکنتا نے مجھ سے اظہار عشق کیا تھا، کشنا میری دیوانی تھی، یہ لڑکی ان کے مقابلے میں کچھ نہیں تھی مگر نہ جانے دل اس کی طرف مائل کیوں ہو رہا تھا۔ وہ باہر نکل گئی تو اس کی جگہ کا جائزہ لیا، کچی مٹی کی دیواروں سے بنا کمرہ تھا۔ چھت پھونس کے چھپر سے بنی ہوئی تھی۔ تین چارپائیاں کل کائنات تھیں جن میں سے ایک پر ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا، وہ غالباً اندھا تھا، یہی احساس ہوا تھا۔
’’ہاں بھائی ٹیسو رام۔ اب بولو جمنا ماں کا کر رئے تھے۔‘‘ نوجوان نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جمنا میں؟‘‘
’’ارے تو اور کا۔ کا اندر مہاراج کے رتھ ماں سیر کر رئے تھے۔‘‘
’’نہیں بس کنارے پر تھا پائوں پھسل گیا۔‘‘
’’بھلے پھسلے ببوا۔ اور ہم نا نکالتے تو…‘‘
’’مر جاتا۔‘‘ میں نے کہا اور ایک بیکس مسکراہٹ میرے ہونٹوں پر پھیل گئی۔ اس نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا۔
’’لیو کاکا۔ ببو مرن لیے گرے تھے جمنا ماں۔‘‘
’’کاہے ٹبؤ۔ جیون بھاری ہو گیا کا۔‘‘
’’ہاں چاچا۔‘‘
’’دکھی لاگو ہو۔ ارے نا تھورے۔ مہمان بنالو اپنا اسے جی بہل جائے تو جان دینا۔‘‘
’’ارے ای کہاں جائے رہے اب کاکا۔ ہم محنت کری ہے اس پر، ایسے کاہے جانے دیں گے سسروا کو۔‘‘
’’بس ٹھیک ہے۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔
دھوبیوں کی آبادی تھی۔ جمنا گھاٹ پر آباد تھی۔ بستی کا نام تھا پوریا۔ کوئی سو گھر تھے پوری بستی میں۔ بوڑھے شخص کا نام راگھو تھا۔ بیٹے کا ناتھو اور لڑکی کا نام جانکی تھا۔ ناتھو گھاٹ پر چھیؤرام کر رہا تھا کہ میں بہتا ہوا اس کے سامنے سے گزرا اور اس نے مجھے نکال لیا۔ جانکی کی نگرانی میں پیٹھ پر لادھ کر مجھے اپنے جھونپڑے میں لے آیا۔ کچھ فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا جہاں سے یہ لوگ بیل گاڑیوں پر گھروں کے کپڑے دھونے لاتے تھے اور پھر وقت پر انہیں ان کے مالکوں کے پاس پہنچا دیا کرتے تھے۔ سادہ سی زندگی۔ جو روکھا سوکھا ملا کھا لیا اور خوش۔ کیا عجیب بات ہے بس اسے تقدیر ہی کہا جا سکتا ہے۔ نمود ہوتی ہے اور کوئی طلب نہیں ہوتی کہ کون کہاں پیدا ہو۔ لیکن اس کے بعد کی کہانیاں انوکھی ہوتی ہیں۔ سادگی کی حد یہ تھی کہ مجھ سے میرا نام تک نہ پوچھا گیا اور ناتھو نے مجھے ٹیسو کہا تو سب اس نام سے پکارنے لگے۔ یہ بستی بڑی اچھی لگی تھی۔ میں یہاں رہ پڑا۔ کہاں جاتا، کیا طلب کرتا جو مانگا وہ گناہ بن گیا۔ اور اب یہ سوچا تھا کہ کچھ نہیں مانگوں گا جو ملے گا قبول کر لوں گا۔ بھول جائوں گا سب کو۔ کوئی فائدہ نہیں کسی کو یاد کرنے سے، وہ بھی مجھے بھول گئے ہوںگے۔ صبر کر لیا ہو گا، مجھے خدا کرے محمود اپنی کوشش میں کامیاب ہو جائے، خدا کرے اس کا ماں باپ سے رابطہ ہو جائے۔ خدا کرے میری بہن شمسہ اپنا مستقبل پا لے، میں تو ان کا قاتل تھا۔ اب کیا کروں گا ان کے پاس جا کر۔ جو چھن گیا تھا وہ نہیں ملا تھا۔ آہ جب بھی وقت ملتا جب دوسروں کی نظروں سے محفوظ ہوتا قبلہ رو کھڑا ہو جاتا، ہاتھ باندھ لیتا پھر سجدے میں چلا جاتا لیکن جو چھن گیا تھا یاد نہ آتا۔ ایسے لمحوں میں ذہن سو جاتا تھا۔
’’راگھو بابا۔ میں کپڑے دھوئوں گا۔‘‘
’’کاہے بٹؤ؟‘‘
’’اسی بستی میں رہوں گا میں۔‘‘
’’رہو بٹؤ!‘‘
’’تمہارا کھاتا رہوں۔‘‘
’’سو کا ہے۔‘‘
’’ٹھیک تو کہے ہے کاکا۔ دئی مٹی ہو جاوے گی۔ کام کرنے دے اسے۔‘‘ ناتھو نے کہا اور وہ میرا استاد بن گیا۔ میں اس کے ساتھ کپڑے دھونے لگا۔ اس کا کام بڑھ گیا تھا۔ ایک دن جانکی نے شرماتے ہوئے کہا۔
’’کچھ معلوم ہے تجھے ٹیسوا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کاکا اور بھیا ہمارے بیاہ کی بات کر رہے تھے۔ کاکا کہہ رہا تھا کہ چھورا بڑھیا ہے، کام بھی کرے ہے۔ جانکی کے ساتھ پھیرے کرا دیں اس کے چوکھا رہے گا۔‘‘
میرے ہاتھ رک گئے۔ میں عجیب سی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ جانکی مجھے اچھی لگتی تھی، اس کی قربت سے ایک نشہ سا چھایا رہتا مجھ پر۔ وہ بھی میرا بہت خیال رکھتی تھی، مجھے چاہتی تھی جس کا صاف اظہار ہوتا تھا مگر وہ میری ہم مذہب نہیں تھی۔ کچھ بھی تھا، مجھے اپنا نام یاد تھا، اپنا مذہب یاد تھا اور مجھے اس سے محبت تھی۔ جو کچھ مجھ سے چھن گیا تھا وہ میری بدقسمتی تھی لیکن باقی سب… کیا… کیا خود کو بھول جائوں۔
جانکی نے کہا۔ ’’کیا سوچنے لگا۔‘‘
’’کچھ نہیں جانکی۔‘‘
’’اپنے یاد آ رہے ہوں گے۔‘‘
’’ہاں!‘‘
’’سب کچھ بھلا دوں گی تجھے۔ سب کچھ۔‘‘ میں نے کوئی جواب نہیں دیا مگر میں بہت بے چین ہو گیا تھا۔ اس رات میں بہت بے کل تھا۔ ساری رات بے کلی میں گزری۔ صبح کو اٹھا۔ دل کی بے چینی کسی طور دور نہیں ہو رہی تھی۔ ایک گوشہ تلاش کیا اور بے کسی سے کھڑا ہو گیا، ہاتھ باندھ لیے پھر سجدے میں گر گیا۔ بہت دیر گزر گئی، چہرہ آنسوئوں سے بھیگا ہوا تھا۔ اٹھا تو… ناتھو پر نظر پڑی۔ وہ اچنبھے سے مجھے گھور رہا تھا۔ اس کے منہ سے سرسراتی آواز نکلی۔ ’’کیا تو مسلمان ہے؟‘‘
پورا وجود مجسم آواز بن گیا۔ رُواں رُواں پکارنے لگا۔ ’’ہاں، ہاں، ہاں۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے جو سکون ملا تھا اس کی قیمت کائنات کے سارے خزانے نہیں تھے۔ یہ الفاظ میری گمشدہ بینائی تھے۔
’’مسلمان ہے تو۔‘‘ ناتھو نے اس بار کڑک کر پوچھا۔
’’ہاں میں مسلمان ہوں۔ میں مسلمان ہوں۔‘‘ میں نے عجیب سی کیفیت میں کہا۔
’’ہم کا دھوکا کاہے دیت رہے تے۔ ہمارے سامنے ٹیسو کاہے بنا رہے۔‘‘
’’نہیں ناتھو۔ نہیں۔ میں کچھ نہیں بنا۔ میں تو مصیبت کا مارا ہوں ناتھو میں نے تو… میں نے تو…‘‘
’’ہمار بہنیا سے بیاہ کرنے لاگا تھا تے۔ ارے ہم سب کی آنکھن ما دُھول جھونک رہے رے۔‘‘
’’ناتھو، تم لوگوں نے جمنا سے مجھے اس وقت نکالا جب میں بیہوش تھا۔ میں تو خود اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے دریا میں گرا تھا، میں کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کیسے کر سکتا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے ناتھو، تم جانتے ہو کہ مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ کل جانکی نے مجھے بتایا کہ تم لوگ ایسا سوچ رہے ہو۔ میں ایسا کبھی نہ کرتا۔ اپنے اُوپر احسان کرنے والوں کو میں کبھی دھوکا نہ دیتا۔ اگر میں تمہیں حقیقت نہ بتاتا تو کم از کم یہاں سے چلا جاتا۔‘‘
’’اور جانکی سے بیاہ نہ کرتا۔‘‘
’’کبھی نہیں ناتھو، کبھی نہیں۔‘‘ ناتھو میرا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ ان سچائیوں پر غور کر رہا تھا، بات اس کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ اس نے پریشانی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’بڑی بکٹ بات ہوگئی رہے ٹیسوا۔ جانکی تیرے سپنے دیکھن لاگی رہے اس نے اپنی سکھیوں کو بھی بتا دیا ہے۔ اب بات برادری ما نکل جئی ہے تو ہم پر کرپا کر بیرا۔ کرپا کر ہم پر رے۔ تو یہاں سے چلا جا، چپ چاپ چلا جا۔ سب سوچیں گے کہ تے بھاگ گیا۔ ہم کہہ دئی ہے کہ تے ہمارے روپے لے کر بھاگ گیا۔ ہماری عجت بچ جئی ہے۔ لوگ تو کا برا بھلا کہہ کر کھاموس ہو جئی ہے۔ تیرا کچھ نا بگڑے گا۔ ہماری مان لے، ہماری عجت بچا لے بیرا۔‘‘ ناتھو نے ہاتھ جوڑ دیئے۔
’’میں جا رہا ہوں۔ ابھی جا رہا ہوں ناتھو میرے بھائی۔ تیری عزت مجھے زندگی سے زیادہ پیاری ہے۔ ابھی چلا جاتا ہوں میں۔ ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا ہے۔‘‘ میں نے اس کے جڑے ہوئے ہاتھ الگ کئے اور پھر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ وہ اپنی جگہ ساکت کھڑا تھا۔ میں نے پلٹ کر اسے نہیں دیکھا تھا۔
بستی بہت چھوٹی تھی۔ میں آخری مکان سے بھی گزر گیا، آگے کھیت بکھرے ہوئے تھے اِکّا دُکّا لوگ نظر آ رہے تھے کسی نے توجہ نہیں دی۔ میں نے رفتار تیز رکھی تھی کسی رُخ کا تعین نہیں کیا تھا۔ رُخ کدھر کرتا، کہاں جاتا۔ بس چل پڑا تھا، ناتھو اور دُوسرے دھوبی کسی بستی کا تذکرہ کرتے تھے کہتے تھے کوئی بڑا شہر ہے جہاں سے وہ کپڑے لاتے ہیں اور دھو کر ان کے مالکوں کو پہنچا دیتے ہیں۔ مگر میں نے کبھی اس شہر کے بارے میں کسی سے نہیں پوچھا تھا۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ چلتا رہا اس وقت صرف ناتھو رام کی عزت پیش نگاہ تھی اور کچھ نہیں سوچ رہا تھا۔ چلتے چلتے دوپہر ہوگئی۔ اب ویران جنگلوں کے سوا کچھ نہیں تھا، درخت نظر آ رہے تھے، پرندے پرواز کر رہے تھے، آسمان شفاف تھا، دُھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ جب پیروں نے جواب دے دیا تو ایک درخت کے نیچے پناہ لی اور زمین پر بیٹھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ نیند تو نہیں آئی تھی البتہ نقاہت نے غنودگی طاری کر دی تھی، بدن کو سکون ملا۔ پچھلے کچھ دن آرام سے گزارے تھے اس لیے برداشت کی قوت میں کمی نہیں ہوئی تھی۔ سورج ڈھلے اُٹھا اور پھر چل پڑا۔ شام جھلک آئی اور پھر میں نے سیاہ رنگ کی ایک عمارت دیکھی۔ ٹوٹی دیواریں، بکھری ہوئی زمینوں کے ڈھیر، ایک بڑا سا گنبد۔ قدم اسی جانب بڑھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد وہاں پہنچ گیا۔ کوئی قدیم مسجد تھی۔ سیڑھیاں تک سلامت نہیں تھیں۔ بڑا سا صحن تھا جو میری طرح اُدھڑا ہوا تھا۔ چاروں طرف پتّے بکھرے ہوئے تھے۔ دل میں عقیدت کا ایک جذبہ اُبھر آیا۔ پیار اُبھر آیا یہ سب مجھ سے رُوٹھے ہوئے تھے۔ گناہ گار تو تھا میں لیکن… لیکن مجھے پیار تھا اس احساس سے پیار تھا کہ میں مسلمان ہوں۔ کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس سے یہ صحن صاف کرتا۔ قمیض اُتاری اورصحن کی صفائی میں مصروف ہو گیا۔ وسیع و عریض صحن کو صاف کرتے کرتے اتنی دیر ہوگئی کہ رات ہوگئی۔ سوکھے پتّے سمیٹ کر میں نے مسجد کے پچھلے حصے میں پھینکے اور وہاں ایسے پتّوں کے انبار دیکھ کر حیران رہ گیا۔ یوں لگا جیسے کوئی باقاعدگی سے صحن صاف کر کے یہ پتّے یہاں پھینکتا ہو۔ نہ جانے کون، کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ زیادہ غور بھی نہیں کیا۔ اب کوئی کام نہیں تھا۔ سیڑھیوں کے پاس آ کر ایک جگہ صاف کی اور لیٹ گیا۔ بھوک لگ رہی تھی، دن بھر پیاس کی شدت بھی رہی تھی کہیں سے پانی بھی نہیں پیا تھا۔ بس چلتا رہا تھا اور یہاں آ کر اس مسجد کے پاس کام میں مصروف ہوگیا تھا۔ بھوک پیاس بے شک تھی لیکن اسے رفع کرنے کا کوئی ذریعہ سامنے نہیں آیا تھا۔ لیٹے لیٹے ایک بار پھر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور شاید سو گیا۔ نجانے کتنا وقت گزرا تھا عالم ہوش میں نہیں تھا کہ دفعتاً کچھ آہٹیں سنائی دیں۔ شاید ان آہٹوں سے نہیں جاگا تھا کہ بلکہ کسی نے پائوں پکڑ کر جھنجھوڑا بھی تھا۔ چونک پڑا، اِدھر اُدھر دیکھا۔ تین چار آدمی نزدیک کھڑے ہوئے تھے۔ چاند نکلا ہوا تھا اور مسجد کا پورا ماحول روشن تھا ان میں سے ایک نے کہا۔
’’یہ سونے کی جگہ نہیں ہے میاں صاحب، یہاں کیوں سو رہے ہو، راستہ ہے گزر گاہ ہے۔‘‘ میں ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا اس ویرانے میں اس وقت مسجد میں آنے والے کون ہیں، جن لوگوں نے مجھے جگایا تھا، وہ آگے بڑھ گئے تھے۔ میں ادھر اُدھر نگاہیں دوڑانے لگا۔ سفید لباسوں میں ملبوس پاکیزہ نورانی چہرے والے بزرگ، نوجوان اور چھوٹی عمر کے لوگ جوق دَر جوق مسجد کی جانب آ رہے تھے اور اندر مسجد میں بڑا اہتمام تھا، میں پُرشوق انداز میں آگے بڑھ گیا۔ اس وقت یہ اجتماع کیوں ہوا ہے۔ یہ تجسس میرے دل میں جاگ اُٹھا تھا۔ لوگ صفیں بنا کر بیٹھے تھے، میں بھی ایک سمت بیٹھ گیا۔ سامنے ہی ایک منبر لگایا گیا تھا، پہلے یہاں موجود نہیں تھا، غالباً یہاں آنے والے اپنے ساتھ لائے تھے۔ میں نے قریب بیٹھے ہوئے ایک نوجوان آدمی سے جس کی داڑھی سیاہ تھی اور رنگ سفید تھا مدھم لہجے میں پوچھا۔
’’یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور بولا۔
’’درس، کیا تم درس میں شرکت کے لیے نہیں آئے؟‘‘ میں نے نہ سمجھنے والے انداز میں گردن ہلا دی تھی، پھر میں نے ایک معمر شخص کو دیکھا، ٹخنوں تک چغہ پہنا ہوا تھا۔ سر پر سفید عمامہ تھا۔ براق سفید داڑھی جو سینے تک لٹکی ہوئی تھی۔ بھنویں تک سفید تھیں، وہ منبر کی جانب بڑھے اور پھر منبر پر جا بیٹھے اور اس کے بعد انہوں نے وہاں موجود تمام لوگوں کو سلام کیا سب نے بلند آواز میں جواب دیا اور معمر بزرگ کہنے لگے۔
’’اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج تو مسجد پوری بھری ہوئی ہے سبھی آ گئے ہیں۔‘‘
’’جی امام صاحب، آج ایک عجیب واقعہ بھی ہوا ہے۔‘‘ ایک شخص نے کہا۔
’’کیا؟‘‘
’’ہمارے آنے سے پہلے ہی کسی نے مسجد کا صحن صاف کر دیا ہے۔ جب ہم یہاں پہنچے تو صحن صاف ملا تھا۔‘‘
’’ہوگا کوئی بندئہ خدا، خدا کے بندے کہاں موجود نہیں ہوتے۔‘‘
’’ایک اجنبی شخص کو ہم نے
سیڑھیوں کے پاس پڑے پایا، سو رہا تھا۔ غالباً اسی شخص نے صحن صاف کیا ہوگا۔‘‘
’’کہاں ہے وہ…؟‘‘ جن بزرگ کو امام صاحب کہہ کر پکارا گیا تھا انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا اور پھر کسی کے بتائے بغیر ان کی نگاہیں میری جانب اُٹھ گئیں۔ فاصلہ کافی تھا لیکن مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ان آنکھوں سے روشنی کی ایک لکیر نکل کر آگے بڑھی ہو اور مجھ تک پہنچ گئی ہو۔ اس روشنی نے میرا احاطہ کرلیا تھا اور اس کے بعد مجھے امام صاحب کی گونج دار آواز سنائی دی تھی۔
’’آگے آئو۔ کون ہو تم؟‘‘ مجھے یوں لگا جیسے کچھ نادیدہ ہاتھوں نے میری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر مجھے اُٹھا کر کھڑا کیا ہو۔ قدم بھی خودبخود ہی آگے بڑھے تھے۔ درمیان میں آنے والوں نے مجھے امام صاحب تک پہنچنے کا راستہ دیا تھا اور میں وہاں تک پہنچ گیا تھا۔ جونہی میں امام صاحب کے قریب پہنچا، انہوں نے عمامے کا لٹکتا ہوا حصہ بائیں ہاتھ میں پکڑ کر ناک پر رکھ لیا۔ پیشانی پر ناگواری کی شکنیں نمودار ہوگئی تھیں۔ انہوں نے کڑی نگاہوں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
’’کون ہے تو، اور یہاں کیا کر رہا ہے؟‘‘ میں نے بولنے کی کوشش کی لیکن آواز نہیں نکل سکی تھی، امام صاحب کہنے لگے۔
’’کیا تو نے اس مسجد کا صحن صاف کیا تھا؟‘‘ میرے منہ سے تو آواز نہ نکل سکی البتہ گردن ہل گئی تھی۔
’’کیا تجھے علم نہیں ہے کہ یہ مسلمانوں کی مسجد ہے؟‘‘ میں نے امام صاحب کو دیکھا ان کی نگاہیں مجھ پر گڑھی ہوئی تھیں میری آنکھوں میں نجانے کیا کیا کیفیات تھیں، وہ چونک کر بولے۔
’’مسلمان ہے تو…؟‘‘
’’ہاں، ہاں…‘‘ میرے حلق سے جیسے رُکی ہوئی بے شمار آوازیں نکل گئیں۔
’’مگر تیرے جسم سے تو بدبو اُٹھ رہی ہے، ایک ایسی بدبو جو کبھی کسی مسلمان کے جسم میں نہیں ہوتی۔ ایسا کیسے ہوا، نہیں نوجوان تو صاحب ایمان نہیں ہے، یہ بدبو جو تیرے بدن سے اُٹھ رہی ہے، کسی ایمان والے کے جسم سے نہیں اُٹھ سکتی، یہ تو ، یہ تو غلاظت کی بو ہے، براہ کرم صحن مسجد سے باہر نکل جا، یہاں درس الٰہی ہوگا اور اس کے بعد نماز تہجد، تجھ جیسے کسی بے ایمان شخص کوہم اپنے درمیان جگہ نہیں دے سکتے۔ براہ کرم باہر نکل جا اس سے پہلے کہ تجھے مسجد کے صحن کو ناپاک کرنے کی سزا دی جائے۔ یہ سزا تجھے صرف اس لیے نہیں دی جائے گی کہ تو نے کسی بھی جذبے کے تحت سہی، صحن مسجد کو صاف کیا ہے مگر تجھے اپنے درمیان جگہ نہیں دیں گے ہم۔‘‘ میں بلک بلک کر رو پڑا میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہا۔
’’سارے زمانے کا ٹھکرایا ہوا ہوں میں، میں ایک بدنصیب انسان ہوں، مجھے سہارا چاہیے، میں قصوروار ہوں، لاکھوں گناہ کیے ہیں میں نے، تائب ہو رہا ہوں۔ میری مدد کرو، خدا کے لیے میری مدد کرو۔‘‘ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے تھے کسی نے چیخ کر کہا۔
’’اس ملحد کو دھکے دے کر مسجد سے باہر نکال دو، اس بدنما شخص کو مسجد میں داخل ہونے کی سزا دو، آخر یہ یہاں آیا کیوں ہے نکالو اسے، نکالو اسے۔‘‘
امام صاحب نے ہاتھ اُٹھا کر کہا۔ ’’ایمان والو! ایمان والوں جیسی باتیں کرو، وہ جو کچھ بھی ہے اس نے کوئی دُشمنی نہیں کی ہے، کوئی بھولے سے اگر خدا کے گھر میں داخل ہوگیا ہے تو خدا کے گھر سے اسے دھکے دے کر نہیں نکالا جا سکتا، کیسی باتیں کر رہے ہو تم لوگ؟‘‘
چاروں طرف سناٹا چھا گیا، لوگ خاموش ہوگئے کسی کے منہ سے ہلکی سی آواز بھی نہیں نکلی، امام صاحب نے کہا۔
’’اور تو کہتا ہے کہ تو مسلمان ہے، مگر کیا یہ بتا سکے گا کہ یہ بدبو تیرے جسم میں کیسے داخل ہوئی؟‘‘
’’یہ میرے گناہوں کا پھل ہے۔ یہ میرے گناہوں کا پھل ہے، میری مدد کرو، میری مدد کرو۔‘‘ میں گڑگڑا کر بولا۔
’’گناہوں کے لیے توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، مگر یہ کیسا گناہ ہے جس سے تیرے جسم میں کفر کی بدبو پھیل گئی ہے۔ خدا کے لیے ہمارے ان لمحات کو ضائع نہ کر۔ ہم نے اپنے طور پر جو انتظام کیا ہے اور جس مقصد کے لیے کیا ہے ہمیں اس کی تکمیل کرنے دے تو باہر جا، تیرے لیے توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور یہ دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ جب بھی بارگاہ ایزدی میں تیری توبہ قبول ہوگئی تجھے تیری مشکلات کا حل مل جائے گا لیکن تو جا یہاں سے۔ یہاں سے چلا جا، فوراً چلا جا۔ ہم اپنی عبادت میں تیری مداخلت پسند نہیں کرتے، اسے راستہ دو…‘‘ امام صاحب نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب مجھے ان کے درمیان جگہ نہیں ملے گی۔ پھر یہاں رُکنا بے مقصد ہی ہے۔ نڈھال اور مضمحل قدموں سے وہاں سے واپس پلٹا تو امام صاحب نے کہا۔
’’سیدھے راستے پر چلے جانا کافی دُور جا کر تجھے ایک درخت نظر آئے گا اس درخت میں پھل ہوں گے۔ ان پھلوں سے تو اپنی شکم سیری کر سکتا ہے بس اس سے زیادہ اور تیری کوئی مدد نہیں کی جا سکتی۔‘‘ میں نے کچھ نہ سنا نجانے کیسے کیسے خیالات دِل میں آ رہے تھے، جو کچھ ہوا تھا اس پر غور بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ بس یہ احساس تھا کہ میرے جسم سے ایک ایسی بو اُٹھنے لگی جو کسی مسلمان کے جسم میں کبھی نہیں پیدا ہوتی اور اس بو کی وجہ میں جانتا تھا، بھوریا چرن نے میرے وجود میں کفر اُتار دیا تھا۔ یہ کفر میرے دل پر تو اثرانداز نہیں ہو سکتا تھا، میرے دماغ تک نہیں پہنچ سکا تھا لیکن جسم غلیظ ہوگیا تھا اور بقول امام صاحب اس جسم سے وہ بُو اُٹھ رہی تھی جو ان کے لیے ناقابل برداشت تھی، آہ جو کچھ ہوا ہے، جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں کافی حد تک میرا قصور ہے بلکہ قصور ہی میرا ہے، بلاشبہ انسان کو اس کی حیثیت سے زیادہ مل جائے تو وہ بھول جاتا ہے اپنے آپ کو کھو جاتا ہے، لیکن ایک لمحہ صرف ایک لمحہ ایسا آتا ہے جس کے بعد ساری عمر کی توبہ بھی ناکافی ثابت ہوتی ہے، جو ہوگیا تھا وہ ہو گیا تھا، بے عزت کر کے ہر جگہ سے نکالا جا رہا تھا، پوریا بستی سے بھی اور اب اس مسجد سے بھی، آہ یہ سب کچھ میرے لیے ازحد ضروری تھا، گناہوں کی سزا میں جس قدر تذلیل ہو کم ہے۔ وہاں سے بھی چل پڑا کوئی منزل تو تھی نہیں بس چلتا رہا اور پھر کسی شہری آبادی کے آثار نظر آئے تھے، اُجالا پھیل رہا تھا۔ قدم اس طرف بڑھ گئے بستی کے پہلے مکان سے سنکھ بجنے کی آواز سنائی دی، اس کے بعد پیتل کا گھنٹہ کئی بار بجا اور پھر ایک موٹی بھدّی آواز سنائی دی۔
بھجن قسم کی کوئی چیز تھی، لیکن اس کے بول بڑے دل ہلا دینے والے تھے اور ان کا مفہوم میری سمجھ میں آ رہا تھا۔
جب تک ہنس ریو چولا میں، چولا جب تک بنوریو، (جسم میں جب تک رُوح رہی، جسم برقرار رہا)
اڑگیو ہنس رہ گئی ماٹی بولن ہارو کدر گیو، (رُوح جسم سے نکل گئی تو بس مٹی کا بدن رہ جاتا ہے، اور جب تک چراغ میں تیل رہتا ہے چراغ جلتا رہتا ہے، تیل ختم ہوا چراغ کی بتی جل گئی، تب پھر اس روشنی کو پیدا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟)
بھجن کے ان الفاظ نے ذہن کے نجانے کون سے گوشوں کو چھو لیا تھا۔ دیر تک وہیں کھڑا ان الفاظ پر غور کرتا رہا جب گردن گھمائی تو اُوپر سے برہنہ جسم کے مالک، دھوتی باندھے ہوئے، ماتھے پر تلک لگائے، ایک بھاری بدن کے شخص کو دیکھا، چہرے پر شوخی سی چھائی ہوئی تھی، دونوں ہاتھ کمر پر رکھے مجھے گھور رہا تھا، مجھ سے نگاہ ملی تو گردن مٹکاتے ہوئے بولا۔
’’آج بھی رہ گئے مہاراج، آج بھی کامیابی نہیں ہوئی تمہیں۔‘‘
’’جی!‘‘ میں نے حیران نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بھینس کھولنے آئے تھے نا پنڈت کاشی رام کی، ارے بہت دن سے تم ہماری بھینس کی تاک میں ہو اور ہم تمہاری تاک میں، آج ملاپ ہو ہی گیا، ارے دیا کرو مہاراج دیا کرو۔ غریب آدمی ہیں، اس بھینس کے علاوہ اس سنسار میں اپنا کوئی نہیں ہے، ارے اسی کے دُودھ پر اپنا جیون گزار رہے ہیں، کیا کرو گے اسے لے جا کر۔‘‘ ہنسی آ گئی، میں نے آہستہ سے کہا۔
’’نہیں پنڈت جی، میں نے تو آپ کی بھینس دیکھی بھی نہیں بھلا اسے چرانے کا خیال کیسے آتا میرے دل میں۔‘‘
’’تو پھر کیا یہاں پوجا کررہے ہو کھڑے ہوئے۔‘‘ وہ کسی قدر طنزیہ لہجے میں بولا۔
’’آپ بھجن گا رہے تھے، اسے سننے کھڑا ہوگیا تھا۔‘‘
’’ارے ارے ارے ، بھجن سننا ہے تو بیٹھ کر سنو بھیّا، ایسے کیوں کھڑے ہو، جیسے بھینس چرانے آئے ہو، آئو آئو تمہیں اور بھی بہت سے بھجن سنائیں گے، ایک تم ہو کہ ہمارا بھجن سن کر چلتے چلتے رُک گئے اور ایک وہ ہے جو کہتی ہے کہ بھینس کی اور ہماری آواز میں کوئی فرق ہی نہیں ہے، ذرا آئو بتائو اسے، کیا بھجن گاتے ہیں ہم‘‘ اس نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑا اور احاطے سے اندر لے گیا۔ چھوٹا سا مکان تھا بڑا سا دروازہ، اسی چھوٹے سے احاطے کے ایک گوشے میں بھینس بندھی ہوئی تھی، اس کے آگے کھانے پینے کا سامان پڑا ہوا تھا، ایک طرف بانوں سے بنی ہوئی جھلنگا چارپائی جو بیٹھنے کے لیے تھی اور کاشی رام جی نے مجھے اسی چارپائی پر بٹھا دیا اور خود مجھ سے کچھ فاصلے پر پتھر سے بنی ہوئی ایک سل پر بیٹھ گئے اور اس کے بعد انہوں نے لہک لہک کر پھر سے اپنا بھجن شروع کر دیا۔ کافی زوردار آواز میں گا رہے تھے، آواز میں ذرّہ برابر دلکشی نہیں تھی لیکن بول مست کر دینے والے تھے پھرکاشی رام جی اس وقت چپ ہوئے، جب اندر سے ایک دھاڑ سنائی دی۔
’’کسے پکڑ لائے تم صبح ہی صبح۔ اور کیوں بھینس کی طرح ڈکرائے جارہے ہو، میں کہتی ہوں تمہاری کھوپڑی بالکل ہی خراب ہوگئی ہے… ارے تو کون ہے رے؟‘‘ میں نے اور کاشی رام دونوں ہی نے چونک کر اس بھیانک آواز کو سنا تھا اور گردن موڑ کر دیکھا تھا، چہرہ تو اتنا بھیانک نہیں تھا، لیکن آواز اور جسامت خوفزدہ کر دینے والی تھی، سفید دھوتی باندھے، ماتھے پر تلک لگائے، آنکھیں نکالے کھڑی، وہ ہم دونوں کو گھور رہی تھی۔ کاشی رام اُچھل کر کھڑے ہوگئے اور خاتون آگے بڑھ کر ہمارے سامنے پہنچ گئیں، پھر ایک پوز بنا کر دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اور باری باری ہم دونوں کو گھورتے ہوئے بولیں۔
’’یہ تم دونوں صبح ہی صبح کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’ارے وہ، دیورانی، دیورانی جی، یہ بے چارہ مسافر ہے، بھجن سن کر کھڑا ہوگیا تھا کہنے لگا کہ من کھنچ رہا ہے، یہ بھجن سن کر، اب سب تیرے جیسے ہی تو نہیں ہوتے کہ کاشی رام کی آواز پسند ہی نہ آئے اب اس سے پوچھ کیا حال ہوا ہے اس کا میرا بھجن سن کر۔‘‘
’’اور جو حال میں کروں گی اس کا وہ کون دیکھے گا پنڈت جی۔‘‘ خاتون نے کہا اور اِدھر اور اُدھر کوئی چیز تلاش کرنے لگی، اصولاً تو مجھے بھاگ جانا چاہیے تھا، لیکن کاشی رام جی میرے سامنے آ گئے۔
’’دیکھو دیومتی، گھر کی بات گھر تک رہنی چاہیے، بے چارہ باہر سے آیا ہے، کیا سوچے گا ہمارے بارے میں۔ ارے پربھو بھیّا یہ دیومتی جی ہیں دیورانی، پرنام کرو انہیں۔ کہنے کو تو ہماری دھرم پتنی ہیں، مگر… مگر اصل میں یہ ہمارے دھرم پتی ہیں، سمجھ رہے ہو نا، ارے پرنام کر لو انہیں پرنام کرو۔‘‘
’’کون ہو تم، کیوں آئے ہو یہاں؟‘‘
’’بس وہ دیوی جی، میں، میں۔‘‘
’’تو اور کیا، صورت سے نہیں لگتا تمہیں، کچھ شرم کرو دیومتی، بھگوان نے صبح ہی صبح تمہارے گھر مہمان بھیجا اور تم اس کے ساتھ یہ سلوک کر رہی ہو۔‘‘
’’اور تم بڑا اچھا سلوک کر رہے ہو اس کے ساتھ اپنی پھٹے ڈھول جیسی آواز سے اسے بھجن سنائے جا رہے ہو، کاشی رام جی بھینس نے دُودھ دینا چھوڑ دیا ہے، جب سے تم نے یہ بھجن وجن گانے شروع کیے ہیں۔‘‘
’’ہرے رام ہرے رام، سن رہے ہو پربھو بھیّا، بھینس نے دُودھ دینا چھوڑ دیا ہے۔ اچھا اب تو جا، زیادہ باتیں نہیں کرتے، پتنی ہے، پتنی ہی رہ، میری ماتا بننے کی کوشش مت کر جا مہمان کے لیے بھوجن تیار کر، اری جاتی ہے یا نہیں۔‘‘ کاشی رام جی غرّائے اور خاتون کچھ ڈھیلی پڑ گئیں، اس کے بعد مڑیں اور پائوں پٹختی ہوئی اندر چلی گئیں۔ کاشی رام انہیں جاتے دیکھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے رازداری سے کہا۔
’’ایسا بھی کبھی کبھی ہی ہوتا ہے، پتا نہیں کیوں تم بتا سکتے ہو کہ اس وقت میرے چہرے پر کیسے تاثرات تھے؟‘‘ کاشی رام کا انداز عجیب سا تھا، میں کچھ نہیں سمجھ پایا تھا، میں نے آہستہ سے کہا۔
’’سمجھا نہیں کاشی رام جی۔‘‘
’’ارے بھائی یہ دیومتی ہے میری دھرم پتنی، مگر دیومتی ہی نہیں دیونی بھی ہے، تم نے دیکھا، ایک ہاتھ کسی پر پڑ جائے تو بھگوان کی سوگند گھنٹوں بیٹھا گال سہلائے، وہ تو کبھی کبھی میری دھونس میں آ جاتی ہے، پر کبھی کبھی ہی ایسا ہوتا ہے، اس سمے بھی ایسا ہی ہوا ہے، میں یہی تو پوچھ رہا تھا تم سے کہ میں نے کیسا چہرہ بنایا تھا جس کی وجہ سے یہ ڈر کر اندر چلی گئی، ایسا کم ہی ہوتا ہے، ارے بیٹھو، بس اب سب ٹھیک ہوگیا ہے، اب ہمت نہیں پڑے گی اس کی، تو تمہیں میرا بھجن پسند آیا؟‘‘
’’ہاں کاشی رام جی۔‘‘
’’بھگوان تمہیں سکھی رکھے، کچھ دن ہمارے مہمان رہو، ارے لیکن یہ صبح ہی صبح تم آئے کہاں سے ہو؟‘‘
’’مسافر ہوں، بس اس بستی میں نکل آیا، دراصل یہاں نوکری کی تلاش میں آیا ہوں، کچھ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’نوکری… کیسی نوکری؟‘‘
’’صرف ایسی نوکری کاشی رام جی، جس میں دو روٹیاں اور بدن ڈھکنے کے لیے لباس مل جائے…‘‘
’’لو تو پھر تم کون سی غلط جگہ آئے، سیدھے نوکری کے پاس چلے آئے… نوکری مل گئی تمہیں۔‘‘ کاشی رام جی بولے۔
’’جی…؟‘‘ میں نے حیرانی سے منہ پھاڑ کر کہا۔
’’جی…‘‘ کاشی رام نے گردن جھکا کر مسخرے پن سے کہا۔
’’کاشی رام جی اگر… اگر مجھے واقعی نوکری مل جائے تو میں ہر قسم کی نوکری کر لوں گا۔‘‘
’’دیکھ پربھو بھیّا بات اصل میں یہ ہے کہ ہم تو بڑے اچھے آدمی ہیں لیکن عورتیں عام طور سے بُری ہوتی ہیں اور دھرم پتنیاں بن کر تو وہ بہت ہی بُری ہو جاتی ہیں، بس یوں سمجھ لو کہ دھرم پتنی بن کر دھرم کے علاوہ اور سب کچھ ہوتا ہے ان کے پاس، تو ایسا کرتے ہیں پربھو جی کہ ہم تمہیں نوکر کہہ کر اپنے گھر میں رکھ لیتے ہیں، روٹی اور کپڑے کی تو بالکل چنتا مت کرنا۔ خرچ کے پیسے بھی لے لیا کرنا ہم سے، کوئی مشکل بات نہیں، مگر ذرا ان دیومتی کو برداشت کرنا ہوگا۔ بھینس کے کام کرنا آتے ہیں تمہیں…؟‘‘
’’آپ فکر نہ کریں، میں بھینس کا کام تمام کر دوں گا۔‘‘ میں نے کہا…
’’ارے ارے ارے، نا بھیا نا، اس بھینس پر تو جیتے ہیں ہم، کچھ نہیں کھاتے پیتے بس دُودھ پیتے ہیں اور جیتے ہیں۔ تھوڑی سی گھر کی صفائی ستھرائی، بازار کا سودا سلف اور کوئی کام نہیں ہے، رسوئی میں وہ اپنے علاوہ اور کسی کو نہیں جانے دیتی، پکاتی کھاتی بھی اپنا ہی ہے، بچہ وچہ کوئی نہیں ہے ہمارے ہاں، بس یہ کام ہوگا تمہارا اور اس کے بعد مزے ہی مزے… ہم تمہیں بھی بھجن سکھا دیں گے پربھو بھیّا۔‘‘
میں عجیب سی نظروں سے کاشی رام جی کو دیکھتا رہا، انہوں نے اپنی بیوی کے خوف سے میرا نام پربھو رکھ لیا تھا اور اب مجھے اسی نام سے پکار رہے تھے، ویسے سیدھا سچا آدمی معلوم ہوتا تھا، کام بھی میرے سپرد کر دیا تھا، اس کے نتیجے میں اگر روٹیاں مل جائیں تو کوئی ہرج تو نہیں ہے ویسے بھی اب کون سا میرا سلیکشن رہ گیا تھا کہ یہ کام کروں اور وہ کام نہ کروں۔ زندگی اگر تھوڑی سی سکون سے گزر جائے تو کیا ہرج ہے اب تو کوئی بات بھی اپنے بارے میں سوچنا مضحکہ خیز لگتا تھا۔ یہ کروں، وہ کروں، سب بے کار ہے بس زندگی کی سانسیں پوری ہو جائیں، موت اپنی مرضی سے مجھ تک پہنچ جائے بس یہی میری زندگی کا مصرف رہ گیا ہے۔ اب اس میں کوئی تبدیلی بے کار ہے، کوئی مجھے پربھو کے نام سے پکارے یا مسعود کے نام سے، جب زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیںرہ گیا تو ان ناموں میں بھی کیا رکھا ہے، ٹھیک ہے مسعود احمد ٹھیک ہے، اب وقت جو کچھ کہہ رہا ہے وہی مناسب ہے۔‘‘
میں نے کاشی رام سے کہا… ’’آپ کی دیا ہے مہاراج۔ دیا ہے آپ کی۔ میں تیار ہوں…‘‘
’’ارے تو پھر بات ہی کیا رہ گئی مگر ذرا ناشتہ کر لینا اس کے بعد بتائیں گے یہ بات اسے، پہلے سے پتا چل گئی تو سوچے گی کہ گھر کے نوکر کی، خاطر مدارت ہو رہی ہے اور ناشتہ اُٹھا کر لے جائے گی کھا پی لینا، بعد میں بتائیں گے اسے کہ تم کون ہو اور ہم کون ہیں…‘‘ میں نے گہری سانس لے کر گردن ہلا دی تھی۔ دونوں کردار دلچسپ تھے، دونوں خاصے پرلطف میاں بیوی معلوم ہوتے تھے۔ چلو اچھا ہے ذہن بٹانے میں آسانی ہو گی اب دل پر لدے ہوئے اس بوجھ کو کہاں تک اپنے آپ پر لادے رکھوں، ٹھیک ہے، ٹھیک ہے جیسے بھی گزرے وقت کی آواز ہے، وقت جو کچھ کہے گا وہی سب سے مناسب ہوگا، کچھ دیر کے بعد کاشی رام کی دھرم پتنی نے ناشتہ لا کر رکھ دیا، گرم پوریاں اور آلو کی بھاجی۔ بہت بھوکا تھا پل پڑا کاشی رام جی کوئی بھجن گنگنانے لگے تھے۔
’’آپ ناشتہ نہیں کریں گے پنڈت جی…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ڈٹے رہو… ڈٹے رہو پربھو مہاراج… بھگوان نے اپنے بھاگ میں بس بھینس لکھ دی ہے اسی پر گزارا کر رہے ہیں۔‘‘ پنڈت جی نے کہا پنڈتائن مزید گرم پوریاں لے کر اندر داخل ہوئی تھیں، پنڈت جی کی پشت ان کی جانب تھی اور وہ اس وقت یہی الفاظ ادا کر رہے تھے، پنڈتائن کچھ اور سمجھیں، پوریاں بڑی زور سے سامنے رکھی ہوئی تھالی میں پٹخیں اور غرائے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’آج فیصلہ ہو ہی جائے پنڈت جی، اب دُوسروں کے سامنے بھی تمہاری زبان کھلنے لگی ہے، میں بھینس ہوں، بھینس پر گزارہ کر رہے ہو تم…؟‘‘
’’ہرے رام، ہرے رام، ارے کیا بک رہی ہے، کون بھینس کیسی بھینس، ارے پربھو بھیّا گڑ بڑ ہوگئی۔ ذرا سمجھائو ان دیوی جی کو ہم کیا کہہ رہے تھے، ارے دیورانی، ہم تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم ناشتہ واشتہ نہیں کرتے بلکہ ویدی جی نے پیٹ کی بیماری ٹھیک کرنے کے لیے ان بند کر دیا ہے اور بھینس کے دُودھ پر گزارہ ہے۔‘‘
’’پنڈت جی کسی اور کو چترائو، تمہارے منہ سے کئی بار یہ بات سن چکی ہوں۔‘‘ پنڈتائن نے غرّا کر کہا۔
’’ارے پربھو جی اب پوریاں منہ میں ٹھونسے جا رہے ہو یا کچھ بولو گے بھی، ذرا بتائو تم ان پنڈتائن کو کہ بات کس کی ہو رہی تھی ان کی یا بھینس کی…؟‘‘
’’جج جی ہاں، جی ہاں… جی ہاں، جی ہاں…‘‘
’’جی ہاں جی ہاں ارے بھائی میں ان پوریوں میں سے ایک بھی پوری نہیں چھوئوں گا، میری جان تو چھڑا دے تو، پنڈتائن بھگوان کی سوگند، میں تمہیں بھینس نہیں کہہ رہا تھا بلکہ بلکہ، ذکر ہو رہا تھا ناشتے کا، میں نے کہا بھائی اپنے بھاگ میں بس بھینس کا دُودھ لکھا ہے اس پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ہرے رام تو تو ہوائوں سے لڑتی ہے۔‘‘
’’پنڈت جی زبان سنبھال کر بات کیا کرو اپنی، میں بھی کسی ایسے ویسے گھر کی نہیں ہوں۔ تم سے کھرے تھے میرے پتا، کیا سمجھتے ہو تم مجھے؟‘‘
’’کھرے پنڈت کی بیٹی اور کیا…‘‘ کاشی رام نے جلدی سے کہا اور مجھے ہنسی آنے لگی۔ پنڈتائن بکتی جھکتی اندر چلی گئی تھیں اور پنڈت جی سینے پر پھونکیں مار رہے تھے پھر انہوں نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
’’پربھو جی تم بھی بس اپنے گن کے پکے ہو، ناشتہ کئے جا رہے ہو، میری کوئی مدد نہیں کی تم نے، اب تین دن تک اس کا منہ پھولا رہے گا، ویسے چلو اچھا ہے تم سے ذرا اطمینان سے باتیں ہو جائیں گی…‘‘
پنڈت جی کافی دلچسپ آدمی تھے، میرا بھی جی لگنے لگا پنڈتائن نے بس آ کر برتن اُٹھائے تھے اور پنڈت جی ان کا چہرہ دیکھتے رہے تھے، دیر کے بعد پنڈت جی نے کہا۔
’’تو پھر پربھو بھیّا آئو ہمارے ساتھ، گھر کے پچھواڑے ہم نے اپنی دُکان کھولی ہوئی ہے، آ جائو آ جائو، وہیں بیٹھ کر تمہارے ساتھ ساری باتیں کریں گے۔‘‘
’’گھرکا یہ پچھواڑا ایک چوڑی گلی تھا اور یہاں پنڈت جی نے واقعی اپنے بیٹھنے کے لیے ایک بڑے سے کمرے جیسی جگہ بنا رکھی تھی، ایک چھوٹا سا ڈیسک رکھا ہوا تھا وہاں پر چادر بچھی ہوئی تھی، دری چاندنی تھی، پنڈت جی ڈیسک کے پیچھے بیٹھ گئے اور میں ان سے تھوڑے فاصلے پر… پھر میں نے ان سے پوچھا…؟‘‘
’’آپ کیا کرتے ہیں پنڈت جی…؟‘‘
’’بڑے مہان ہیں ہم بس بھگوان جس کام سے دو روٹی دے دیتا ہے وہی کر لیتے ہیں، جیوتش ودیا بھی جانتے ہیں حالانکہ ستاروں سے ہماری کبھی نہیں بنی، ہمیں دیکھ کر ہمیشہ اُلٹے سیدھے ہو جاتے ہیں اور مجال ہے جو کبھی صحیح بات بتا دیں، مگر ایک بات ہے ان کا اُلٹا سیدھا پن بھی اپنے کام آ جاتا ہے ہم بھی لوگوں کو ان کے ہاتھوں کی ریکھائیں دیکھ کر اُلٹی سیدھی باتیں ہی بتا دیتے ہیں۔ بس جیسے ستارے ویسی بات، کام چل جاتا ہے اس کے علاوہ کبھی کسی کے گھر میں بھجن کیرتن ہوں تو بھلا پنڈت کاشی رام کے بغیر کیسے ہو سکتے ہیں، دچھنا بھی ٹھیک ٹھاک ہی مل جاتی ہے، کتھا کہہ دی، کام چل گیا، شادی بیاہ کی مہورتیں نکال دیں جس کا جو کام ہوا کر ڈالا، ویسے اپنا صحیح دھندہ جیوتش ہی ہے… اور پھر پربھو جی نمک کھا چکے ہو اپنا اس لیے وشواش ہے کہ نمک حرامی نہیں کرو گے۔ بتا چکے ہیں ہم تمہیں کہ ہمیں جیوتش ویوتش نہیں آتی، کہو کیسی رہی…؟‘‘ پنڈت جی ہنسنے لگے، پھر بولے… ’’اب تین دن تک تو تم عیش کی اُڑائو، مہمان کہہ ہی دیا ہے ہم نے تمہیں، اس میں ساری برائیاں ہیں مگر سب سے بڑی اچھائی یہ ہے کہ جو بات ایک بار کہہ دی جائے، اس میں منہ پھلا لے سو پھلا لے، کوتاہی نہیں کرتی، تین دن تک تو مزے سے ہمارے مہمان رہو اور چوتھے دن جب اس کا منہ بگڑے تو کام دھندہ شروع کر دینا۔‘‘
میں پنڈت جی کی باتوں پر ہنستا ہی رہا تھا۔ پھر میں نے ان کے پاس بیٹھ کر یہ بھی دیکھا کہ ان کا کاروبار ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے اِکّا دُکّا لوگ ہاتھ دکھانے بھی آ جاتے ہیں اور پنڈت جی پوری کہکشاں زمین پر اُتار کر اس کا جائزہ لے کر اس شخص کے ستارے نکالتے ہیں اور پھر ان ستاروں کے بارے میں ایسی باتیں بتاتے ہیں اپنے گاہکوں کو کہ نہ خود پنڈت جی کی سمجھ میں آئیں نہ ان کی سمجھ میں آئیں۔ بحالت مجبوری وہ بے چارے پنڈت جی کی فیس ادا کر کے اپنی جان چھڑا کر چلے جاتے تھے۔ اگر پنڈت جی کی دی ہوئی ہدایات میں سے کچھ باتیں واقعی کارآمد ثابت ہوگئیں تو بس پنڈت جی کا بول بالا۔ دن بڑا دلچسپ گزارا تھا شام کو پنڈت جی کو کتھا کہنے کہیں جانا تھا مجھ سے کہنے لگے۔
’’چلو میرے ساتھ چلو، کتھا میں بڑا مزاہ آتا ہے اپنی کتھا بھی بس ایسی ہی ہوتی ہے لوگوں کو کبھی کبھی اعتراض بھی ہو جاتا ہے، بھئی دیکھو نا اب پڑھے لکھے تو ہیں نہیں جو رامائن کا ہر صفحہ کھنگال ڈالیں گیتا کو ایک ایک لفظ کر کے پڑھ لیں جو جی میں آتی ہے سنا دیتے ہیں پبلک کو، کچھ لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں اور کچھ تحقیقات کرنے نکل جاتے ہیں۔ ایک دو دفعہ ایسا بھی ہوا کہ تحقیقات کرنے والوں نے گلا پکڑ لیا مگر تجربہ ہے ہمارا زبانیں بند کرنا آتا ہے چلو گے کتھا میں؟‘‘
’’پھر کسی دن چلوں گا پنڈت جی، آج رہنے دیجئے۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے تمہارے آرام کی جگہ بتا دیتے ہیں۔‘‘ پیپل کا ایک درخت جو پنڈت جی کے گھر کے صحن کے ایک گوشے میں تھا میری رہائش گاہ قرار دیا گیا۔ اس کے نیچے بانوں کی چارپائی بچھا دی گئی ایک لٹیا رکھ دی گئی۔ بس اس کے علاوہ اور کیا درکار تھا لیکن اسی شام میں نے یہاں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ شروع کر دیا، صحن میں پیپل کے درخت کے پتے بکھرے ہوئے تھے۔ جھاڑو لے کر ان کی صفائی پر تل گیا اور پنڈتائن کے چہرے کی لکیروں میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ میں نے پورا صحن صاف کر دیا تھا اور رات ہونے پر چارپائی پر جا لیٹا تھا۔ دماغ کو ایک عجیب سی بند بند سی کیفیت کا احساس ہو رہا تھا اور میں ہر احساس کو ذہن سے جھٹک کر آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ پنڈت جی کے گھر دُوسرا، تیسرا اور چوتھا دن گزر گیا۔ بڑے دلچسپ آدمی تھے، میں انہی تک محدود تھا اور میں نے باہر جا کر کچھ دیکھنا ضروری نہیں سمجھا تھا جو کچھ دیکھ چکا تھا وہی کافی تھا، چوتھے دن پنڈتائن ، ساڑھی کا پلّو کمرے کے گرد اُڑسے پنڈت جی کے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔
’’ایک دن کا مہمان، دو دن کا مہمان، تین دن کا مہمان، کیا تمہارا یہ مہمان ہمارے لیے بلائے جان نہیں ہوگیا۔‘‘ انہوں نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔
’’ارے ارے ارے بکے جا رہی ہے بکے جا رہی ہے یہ بات پیچھے بھی تو کی جا سکتی تھی۔‘‘
’’میں عورت ہوں کھری، جو کہتی ہوں سامنے کہتی ہوں کب تک یہ مہمان رہے گا ہمارے ہاں؟‘‘
’’یہ مہمان ہے کہاں پنڈتائن میں نے تو اسے گھر کے کام کاج کے لیے رکھ لیا ہے، دو روٹی کھائے گا سال سوا سال میں ایک دو جوڑی کپڑے بنا دیں گے اور بس۔‘‘ پنڈت جی نے کہا اور پنڈتائن اس بات سے خوش ہوگئیں۔ انہوں نے اس حقیقت سے مجھے بخوشی قبول کرلیا تھا کیا برا تھا ویسے بھی کون سے تیر مار رہا تھا بس بیکار زندگی کا بوجھ جسے کہیں بھی رہ کر گھسیٹا جا سکتا تھا۔ اب تو آرزوئیں بھی مرتی جا رہی تھیں۔ کب تک زندہ رکھتا اپنے آپ کو کیسے زندہ رکھتا صحن کی جھاڑو اس کے بعد بھینس کی دیکھ بھال اس کے لیے کٹی کرنا، سانی بنانا، اسے نہلانا۔ پھر گھر کی ساری صفائی بازار کا سودا سلف لانا۔ یہ میری ذمہ داری بن چکی تھی ویسے ذمہ داری معمولی نہیں تھی۔ صبح منہ اندھیرے اُٹھتا تو شام ہی ہو جاتی تھی اب تو پنڈت جی کا ساتھ بھی مشکل ہی سے ملتا تھا۔ البتہ وہ جب بھی مجھ سے ملتے ان کی آنکھوں میں تاسف کے آثار نظر آنے لگتے تھے میرا حلیہ خراب سے خراب تر ہوگیا تھا پنڈت جی نے ایک شام مجھ سے کہا۔
’’ایسے تو تیری اَرتھی نکل جائے گی پربھو، مرجائے گا تو تو کام کاج کرتے کرتے یہ آج کل کچھ زیادہ ہی کام ہونے لگا ہے دیکھا تو نے عورتیں ایسی ہوتی ہیں، شادی مت کریو، کبھی بالک یہ ہماری ہدایت ہے تجھے ورنہ اس سے زیادہ کام پڑ جائیں گے مگر کچھ کرنا پڑے گا تیرے لیے کچھ کرنا پڑے گا، تجھے اتنا کام کرتے دیکھ کر تو ہمیں بڑا ہی افسوس ہوتا ہے۔‘‘
’’نہیں پنڈت جی ایسی کوئی بات نہیں۔ کاموں میں تو جی لگ جاتا ہے اور دن گزرنے کا پتا بھی نہیں چلتا۔‘‘
’’انگ انگ جو ٹوٹ جاتا ہوگا اس کی بات کبھی نہیں کرے گا ویسے آدمی تو شریف ہے پربھو، اس میں کوئی شک نہیں ہے سوچیں گے تیرے لیے سوچیں گے کہ کیا کریں؟‘‘
پنڈت جی اگر سوچ رہے ہوں تو سوچ رہے ہوں۔ میں کچھ نہیںسوچ رہا تھا۔ یہاں رہ کر دل و دماغ کو ایک عجیب سا سکون ملا تھا میں نے ساری سوچیں بھی ذہن سے نکال ڈالی تھیں۔ وہ رشتے وہ ناتے جن کی تڑپ نے دل کو مایوسیوں کے اندھیروں میں ڈبو دیا تھا سب کچھ بھلا دیا تھا میں نے صبح جاگتا اور اپنے کاموں کا آغاز کر دیتا۔ پنڈت جی کے بھجن سننے کو ملتے اور پنڈتائن کی جھڑکیاں اور گالیاں، انہوں نے سب کچھ بھول کر بس ایک مالکن کا رویہ اختیار کرلیا تھا۔ ایک بے حد بدمزاج مالکن کا، ہر کام میں کیڑے نکالتی تھیں۔ بات بات پر جھڑکیاں سناتی تھیں لیکن مجھے کوئی بات بری نہیں لگتی تھی۔ میں جانتا تھا کہ میری تذلیل ہو رہی ہے اور ہو سکتا ہے یہی چیز میرے لیے باعث نجات بن جائے مگر پنڈت کے انداز میں اب سنجیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ پنڈتائن سے عموماً ڈرے ڈرے رہتے تھے۔ کچھ کہنے کی مجال نہیں ہوتی تھی کوئی ایسی ترکیب سوچ رہے تھے شاید جس سے بقول ان کے میرا کلیان ہو سکے۔
پھر ایک دن چھٹی کا دن تھا غالباً کوئی ہلکا پھلکا تہوار بھی تھا۔ پنڈتائن نے صبح ہی صبح مجھ سے سارے گھر کی صفائی کرائی تھی اور میرے سر پر کھڑے ہو کر ایک ایک چیز کی نگرانی کرتی رہی تھیں۔ پنڈت جی بیٹھے ہوئے تھے اچانک ہی انہوں نے مجھ سے کہا۔
’’پربھو، تو نے اپنا ہاتھ نہیں دکھایا کبھی مجھے؟‘‘
’’ہاتھ؟‘‘ میں نے پنڈت جی کو دیکھا۔
’’ہاں دیکھیں تو سہی تیری ریکھائیں کیا کہتی ہیں؟‘‘
’’بس بس ، دماغ مت خراب کرو اس کا پنڈت جی اس کی ریکھائیں جوکچھ کہتی ہیں وہ تمہیں کبھی نہیں معلوم ہوگا، بیکار اس کا من خراب کرو گے کام کرنے دو اسے۔‘‘
’’اری بھاگوان کچھ پتا تو چلنا چاہیے کہ کون کتنے پانی میں ہے، میں تو یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کے ہاتھ میں چوری کی لکیر ہے یا نہیں۔‘‘
’’چوری کی؟‘‘
’’تو اور کیا گھر کھلا رہتا ہے کسی دن بھینس لے کر نکل گیا تو بتا کیا تو مجھے دُوسری بھینس خرید کر دے سکے گی؟‘‘ پنڈتائن ہول کر خاموش ہو گئیں، پنڈت جی نے ایک آنکھ دبائی اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سامنے کرلیا، کان سے پینسل نکال کر کاغذ پر لکیریں کھینچنے لگے اور پھرایک دَم اُچھل پڑے۔
’’ہے بھگوان، ہے بھگوان یہ میں نے کیا کیا۔‘‘ پنڈتائن قریب ہی کھڑی ہوئی تھیں چونک کر بولیں۔
’’ہائے رام کیا ہوگیا؟‘‘
’’اری تیرا ستیاناس، تو نے اپنے ساتھ میری بھی لٹیا ڈبو دی۔‘‘ پنڈت جی انتہائی خوف زدہ لہجے میں بولے، پنڈتائن کے چہرے کا رنگ بھی بدل گیا تھا، قریب آ کر بیٹھ گئیں اور بولیں۔
’’کیا ہو گیا کیا ہوگیا؟‘‘
’’بس یہ سمجھ لے جو ہو گیا وہ بہت بُرا ہوگیا اور … جو ہو چکا ہے اس سے آگے کچھ نہیں ہونا چاہیے، ہے پربھو جی ہے معاف کر دیں ہمیں شما کر دیں غلطی ہوگئی پربھوجی غلطی ہوگئی جو کچھ ہوا اس کی غلطی ہوگئی۔‘‘
میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے پنڈت جی کو دیکھنے لگا تو پنڈت جی اپنی پتنی کی جانب رُخ کر کے بولے۔ ’’پربھو مہاراج کا ہاتھ تو دیکھ ذرا، نظر تو ڈال ایک اس پر سات ستارے جگمگا رہے ہیں ان کی ریکھائوں میں یہ دیکھ ایک دو تین۔‘‘ وہ پینسل سے اشارہ کر کے ستارے گنوانے لگے اور پنڈتائن میرے ہاتھوں میں ستارے تلاش کرنے لگیں جبکہ مجھے خود ان ستاروں کی جھلک کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
’’ایسے لوگ مہان ہوتے ہیں سات پورنیاں ہیں ان کی ریکھائوں میں اور کسی بھی سمے ساتوں پورنیاں ان کا گھیرا کرسکتی ہیں اور ایسے لوگ اچانک ہی دیوتا بن جاتے ہیں پربھو مہاراج! آپ تو دیوتا ہیں، ہمارے لیے ہمارے بھاگ بھی بدل دیں پربھو مہاراج جے بھگوتی جے بھگوتی۔ پنڈت جی دونوں ہاتھ جوڑ کراوندھے ہوگئے، پنڈتائن کے چہرے پر بھی کسی قدر خوف کے آثار نظر آنے لگے تھے، انہوں نے آہستہ سے کہا۔‘‘
’’مجھے کیا معلوم تھا یہ تو ہیں ہی ایسے مگر مگر یہ سات پورنیاں ارے تمہاری ایسی تیسی، مجھے بھی اُلّو بنا رہے ہو تمہاری جیوتش اور میں اسے مان لوں کبھی کوئی بات سچ بھی کہی ہے تم نے۔‘‘ پنڈت جی سیدھے ہو کر پنڈتائن کو گھورتے ہوئے بولے۔
’’دیکھ دیورانی ساری باتیں مان لیں میں نے تیری جیون بھر تیری مانتا رہا ہوں مگر مگر اس بات میں تو نے کوئی برائی نکالی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘
’’کیوں اسے بہکا رہے ہو کام کاج سے بھی جائے گا سُسرا۔‘‘ پنڈتائن نے کہا۔
’’تیری مرضی ہے۔ سوچ لے دیکھ لے جتنا اسے ستائے گی بعد میں اتنا ہی نتیجہ بھگتنا ہوگا تجھے، اب تو جانے اور تیرا کام، مجھے ضرور شما کر دیں مہاراج بلکہ پورن مہاراج، پورنیاں آپ کا گھیرا ضرور ڈالیں گی، کسی بھی دن کسی بھی سمے، یہ میں کہے دیتا ہوں مگر اس سمے آپ صرف دیورانی کی طرف رُخ کریں گے جو آپ کے ساتھ زیادتی کرتی ہے میرا کوئی دوش نہیں ہوگا اس میں۔‘‘
’’لو میں کونسی زیادتی کرتی ہوں گھر کے کام کاج ہی تو کرا لیتی ہوں، ٹھیک طریقے سے، نہ کریں ہم کونسا کہتے ہیں ان سے ہم خود کرلیا کرتے ہیں اپنا یہ کام، ارے واہ سات پورنیاں گھیرا ڈالیں گی دیکھیں گے کیسے گھیرا ڈالیں گی؟‘‘ پنڈتائن نے کہا اور پائوں پٹختی ہوئی چلی گئیں میں پنڈت جی کا چہرہ دیکھ رہا تھا، پنڈت جی بولے۔
’’بس سمجھ لے تیرا کام بن گیا، خود تھوڑا بہت کام کر دیا کر بلکہ ہماری بھینس سنبھال لے تو گھر کے کام کاج سے تو چھٹی مل گئی پنڈتائن سامنے کی بہادر ہیں اندر جا کر جب سوچیں گی تو حلیہ خراب ہو جائے گا کیا سمجھا۔‘‘ اور پنڈت جی کا کہنا کافی حد تک دُرست ہی ثابت ہوا، پنڈتائن کی زبان ایک دم بند ہوگئی تھی مجھے خود بھی گھر کے کام کاج سے دلچسپی تھی اپنی پسند سے سارے کام کر لیتا تھا لیکن اب پنڈتائن نے میرا پیچھا کرنا چھوڑ دیا تھا اور عموماً مجھ سے دُور ہی دُور رہنے لگی تھیں۔ پنڈت جی کے اس ناٹک پر مجھے اکثر ہنسی آ جاتی تھی مگر میں خود گھر کے کاموں میں اُلجھ کر اپنا ذہن بٹائے رکھتا تھا، پنڈت جی سچے جیوشی تھے یا نہیں میں نہیں جانتا تھا، دال روٹی البتہ کما لیا کرتے تھے اور لوگ ان کے پاس آتے رہتے تھے۔
مگر پورن ماشی کی رات عجیب واقعہ ہوا، پورے چاند کی روشنی بکھری ہوئی تھی۔ میں پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا پنڈت جی پوتھی سجائے بیٹھے تھے، پنڈتائن کسی بات پر ان سے اُلجھ رہی تھیں کہ اچانک صحن میں عجیب سی روشنی پھیل گئی۔ اتنی روشنی کہ پورا گھر جگمگانے لگا۔ دھنک کے سات رنگوں میں بٹی ہوئی سات حسین دوشیزائیں نہ جانے کہاں سے نمودار ہوئی تھیں ان کے ہاتھوں میں طرح طرح کے غیرمانوس ساز تھے اور ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ، میں نے آنکھیں پھاڑ کر پنڈت جی کو دیکھا کہ یہ شاید میرا وہم ہو۔ مگر پنڈت جی اور پنڈتائن کی آنکھیں بھی پھٹی ہوئی تھیں اور دونوں تھر تھر کانپ رہے تھے۔
میں نے پریشان نظروں سے ان عورتوں کو دیکھا۔ ایک سے ایک بڑھ کر حسین تھی، انہوں نے جگمگاتے ہوئے لباس پہن رکھے تھے۔ سب کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ پیپل کے درخت کے نیچے میرے چاروں طرف دوزانو ہو کر بیٹھ گئیں۔ اپنے ساز انہوں نے سامنے رکھ لیے اور پھر فضا میں ان سازوں کی آوز اُبھرنے لگی۔ ایک ایسا سحرانگیز نغمہ پھوٹنے لگا کہ دِل کھنچ جائے۔ کچھ دیر سازوں کی آواز اُبھرتی رہی۔ پھر ان کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ کچھ گا رہی تھیں۔ سُر حسین تھے، آوازیں درد بھری لیکن بول نامعلوم۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، بس دماغ سوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ پنڈت کاشی رام اور دیومتی جی بھی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھیں۔ دیر تک یہ نغمہ جاری رہا۔ پھر وہ اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے ساز بلند کیے اور وہ ان کے ہاتھوں سے غائب ہوگئے۔ پھر اچانک ان کے ہاتھوں میں چراغوں سے جگمگاتی چاندی کی تھالیاں آ گئیں۔ تھالیوں میں سات سات چراغ روشن تھے۔ وہ تھالیاں کندھے تک بلند کیے میرے گرد رقص کرنے لگیں۔ رقص کا یہ انداز بھی بے حد دلنشیں تھا۔ ایک ایک میرے سامنے آتی تھالی کو میرے سر سے چھوتی پیروں تک لے جاتی، پھر دُوسری کے لیے جگہ خالی کر دیتی۔ یہ شغل بھی خوب دیر تک جاری رہا۔ چاند آدھے سے زیادہ سفر کر چکا تو انہوں نے اپنا یہ مشغلہ ختم کر دیا اور پھر میں نے آخری حیرت انگیز منظر دیکھا۔ وہ اچانک زمین سے بلند ہونے لگیں، ان کے پیروں نے زمین چھوڑ دی۔ ساتوں کی ساتوں بلند ہورہی تھیں۔ وہ پیپل کے درخت سے اُونچی ہوگئیں اور اُونچی۔ پھر اور اُونچی یوں لگ رہا تھا جیسے سات قندیلیں فضا میں اُوپر اُٹھتی چلی جا رہی ہوں۔ یہاں تک کہ وہ ٹمٹماتے ہوئے مدھم ستاروں کی مانند ہوگئیں پھر یہ ستارے بھی ڈُوب گئے۔
میں خود بھی اس انوکھے منظر میں اتنا کھو سا گیا تھا کہ باقی سب میری نظر سے اوجھل ہوگیا تھا۔ پنڈت کاشی رام اور ان کی دھرم پتنی بھی یاد نہیں رہے تھے۔ جب سب کچھ نظروں سے دُور ہوگیا تو مجھے وہ دونوں یاد آئے اور میری نظریں ان کی طرف اُٹھ گئیں۔ پنڈتائن تو اوندھی پڑی ہوئی تھیں اور پنڈت جی کو جاڑا چڑھا ہوا تھا۔ بالکل ایسے ہی کانپ رہے تھے وہ جیسے سخت سردی لگ رہی ہو۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھا اور پنڈت جی کی طرف چل پڑا۔ جیسے جیسے میں آگے بڑھ رہا تھا پنڈت جی سمٹتے جا رہے تھے۔ وہ منہ ہی منہ میں کچھ بُدبُدا بھی رہے تھے۔
’’یہ سب… یہ سب کیا تھا پنڈت جی…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’شما… شما… شما کرو مہاراج۔ اندھے ہیں ہم۔ اندھے ہیں۔ تم تو دیوتا ہو۔ ہے مہاراج… ہے بھگوتی ہمیں شما کر دو… شما کر دو ہمیں۔‘‘ کاشی رام جی میرے پیروں کی طرف لپکے۔
’’ارے… ارے کاشی رام جی… یہ کیا کر رہے ہیں آپ…؟‘‘ میں جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔
’’جے بھگوتی۔ شما کر دو ہمیں۔ اسے بھی شما کر دو۔ ہم نے تو ٹھٹھول کیا تھا ہمیں کیا معلوم تھا کہ تم سچ مچ پورن بھگت ہو۔ ہے پورن بھگت ہمیں شما کر دو۔ اَری اُٹھ اندر چل۔ یہ بے ہوش ہوگئی ہے مہاراج… اسے معاف کر دو… ہم سنسار باسی کیا جانیں کون کس رُوپ میں ہے۔‘‘
’’میری بات تو سنیں پنڈت جی…!‘‘ میں نے پریشان ہو کر کہا۔
’’بس ایک بار مہاراج… ہم سچے جیوتشی نہیں ہیں۔ ناٹک کرتے ہیں پیٹ بھرنے کے لیے۔ دیومتی۔ اَری اُٹھ جا کم بخت۔ اَری اُٹھ جا ورنہ ماری جائے گی۔‘‘ پنڈت جی دہشت کے عالم میں بے ہوش پنڈتائن کو جھنجھوڑنے لگے۔ وہ میری کچھ نہیں سن رہے تھے بس اپنی کہے جا رہے تھے۔
’’میں پانی لاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور پانی لینے چل پڑا۔ خود میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔ پانی لایا پنڈتائن کو خوب نہلایا گیا۔ تب کہیں جا کر وہ ہوش میں آئیں۔ مجھے دیکھ کر چیخ ماری اور پنڈت جی سے لپٹ گئیں۔
’’ارے ارے۔ گرائے گی کیا۔ ہتھنی کی ہتھنی ہو رہی ہے۔ اری سیدھی ہو چل اندر چل…‘‘ پنڈت جی نے انہیں دھکا دیا وہ خود میری طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔ بمشکل تمام وہ پنڈتائن کو سنبھالے اندر داخل ہوگئے۔ پھر انہوں نے دروازہ بھی اندر سے بند کرلیا۔ حالانکہ اس سے پہلے یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا تھا۔ میں بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان لوگوں کو کیسے سمجھائوں میں تو خود ان سے سمجھنا چاہتا تھا۔ پھر کچھ نہ بن سکا تو واپس آ کر اپنی چارپائی پر لیٹ گیا۔ وہ انوکھا منظر بار بار آنکھوں میں آ رہا تھا۔ نہ جانے وہ کون تھیں اوریہ سب کچھ کیا کر رہی تھیں۔ پیپل کے پتوں کو تکتے تکتے نیند آ گئی… اور پھر گہری نیند نے سب کچھ بھلا دیا۔
صبح کوہمیشہ جلدی آنکھ کھل جاتی تھی۔ عادت پڑ گئی تھی اس کی۔ پنڈتائن دُودھ دوہنے کی بالٹی ایک مخصوص جگہ رکھ دیا کرتی تھیں اور میں جاگ کر پہلا کام یہی کیا کرتا تھا۔ اس وقت بھی جاگ کر ادھر ہی رُخ کیا مگر دُودھ کا برتن اپنی جگہ موجود نہیںتھا اور اسے نہ پا کر مجھے رات کے واقعات ایک دَم یاد آ گئے تھے۔ میں اُچھل پڑا آنکھیں زور زور سے بند کر کے کھولیں۔ رات کے واقعات خواب نہیں تھے۔ پنڈت جی خوفزدہ ہو کر اندر جا گھسے تھے اور انہوں نے دروازہ بند کر لیا تھا اور شاید اسی خوف کے عالم میں آج دُودھ کا برتن بھی اپنی جگہ نہیں پہنچا تھا۔ کچھ دیر سوچتا رہا پھر آگے بڑھ کر بند دروازے کے قریب پہنچ گیا مگر قریب پہنچ کراندازہ ہوا کہ وہ دروازہ کھلا ہوا ہے۔
’’پنڈت جی… چاچی جی۔ دُودھ کی بالٹی دے دیں۔‘‘ میں نے آواز لگائی مگر اندر خاموشی ہی رہی۔ دروازے کو دھکیل کر میں اندر داخل ہوگیا۔ پہلے بھی اندر آ چکا تھا۔ دُوسری اور تیسری بار بھی آواز دینے پر جواب نہیں ملا تو یہ خیال گزرا کہ دونوں گھر میں نہیں ہیں۔ رسوئی سے دُودھ کی بالٹی لے کر بھینس کے پاس آ گیا اور اپنا کام مکمل کر کے دُودھ گرم کر کے چولہے پر رکھ دیا۔ بھوک لگ رہی تھی۔ دُودھ کا ایک گلاس پی کر باہر نکل آیا۔ احاطہ صاف کیا۔ پنڈت جی اور پنڈتائن نہ جانے کہاں چلے گئے تھے۔ انتظار کرتا رہا۔ دس بجے پھر بارہ۔ پھر ایک اور دو… اب بات پریشانی کی تھی۔ کہاں گئے وہ دونوں پہلے تو سوچا تھا کہ ہو سکتا ہے کسی کام سے نکل گئے ہوں مگر اب تو آدھا دنگزر چکا تھا۔ اچانک دِل میں خیال آیا کہ کہیں وہ خوفزدہ ہو کر گھر سے بھاگ تو نہیں گئے۔ اس تصوّر سے خود حیرت زدہ رہ گیا۔ گھر ان کا تھا۔ ان کے بغیر تو یہاں رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ آہ ایسا ہی ہوا ہے اب انہیں کہاں تلاش کروں۔ وہ اس گھر کے مالک ہیں، اگر میری وجہ سے خوفزدہ ہوئے ہیں تو مجھے گھر چھوڑ دینا چاہئے۔ وہ کہاں چلے گئے۔ انہیں کہاں تلاش کروں۔ ہو سکتا ہے کسی سے پوچھنے سے پتہ چل جائے۔
احاطے میں دُھوپ چلچلا رہی تھی۔ انتہائی گرم دن تھا مگر اس خیال کے بعد گھر میں بیٹھے رہنا بھی ممکن نہیں تھا، چنانچہ احاطہ عبور کر کے دروازے پر آ گیا۔ گرم لُو کے تھپیڑوں نے مزاج پوچھا۔ اندر تو پھر بھی پیپل کی وجہ سے اَمن تھا مگر باہر… پھر دفعتہ ان بے شمار لوگوں پر نظر پڑی جو پنڈت جی کے گھر کے سامنے والے میدان میں سر نیہوڑائے بیٹھے ہوئے تھے۔ میلے کچیلے چیتھڑوں میں ملبوس وہ قطاریں بنائے بیٹھے ہوئے تھے بالکل خاموش۔ حیرانی سے آگے بڑھا اور ابھی ان سے چند قدم دُور تھا کہ اچانک وہ اُچھل اُچھل کر کھڑے ہونے لگے۔ تب میں نے انہیں بغور دیکھا اور میرے بدن میں خون کی گردش رُک گئی۔ آہ وہ انسان نہیں تھے۔ لاتعداد بھیانک صورتیں میرے سامنے تھیں۔ چھوٹے بڑے قد، چیتھڑوں میں لپٹے، پتلی ٹانگیں، سوکھے ہاتھ، گنجے سر اور بڑی کھوپڑیاں۔ گول آنکھیں ہیبت ناک انداز میں پھٹی ہوئیں۔ دہشت کے عالم میں پلٹا اور دروازے سے اندر گھس جانا چاہا مگر… دروازہ… وہاں تو کوئی دروازہ نہیں تھا۔ پنڈت جی کا گھر ہی غائب ہوگیا تھا۔ پیچھے وسیع میدان نظر آ رہا تھا۔ میں آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا۔ پنڈت جی کا مکان کہاں رہ گیا۔ آہ پھر گڑ بڑ شروع ہوگئی۔ پھر کسی نئی مصیبت نے میری طرف رُخ کیا۔ اب کیا کروں کیا پوری بستی ہی غائب ہوگئی۔ کیا… مگر سامنے کے رُخ پر بہت دُور مکانات نظر آ رہے تھے اور میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اب ان کے درمیان سے گزر کر آگے بڑھوں۔ لرزتے دل کو سنبھال کر آگے بڑھا اور وہ اس طرح اَدب سے پیچھے ہٹ گئے جیسے مجھے راستہ دینا چاہتے ہوں۔ میں ان کے بیچ سے نکل کر آگے بڑھا تو پورا مجمع میرے ساتھ ہولیا۔ وہ مارچ پاسٹ کرتے میرے پیچھے آ رہے تھے۔ دم ہی نکلا جا رہا تھا۔ خوف کے عالم میں سوچنے سمجھنے کی قوتیں گم ہوگئی تھیں۔ دفعتہ ٹھوکر لگی اور گرنے سے بچنے کے لیے کئی قدم دوڑنا پڑا۔ شیطانی گروہ پیچھے رہ گیا اورمیں نے اس موقع سے فائدہ اُٹھایا۔ ایک دَم دوڑ لگا دی تھی مگر خدا کی پناہ۔ انہوں نے بھی دوڑنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے قدموں کی دھمک اور ہولناک آوازیں سن کر گھروں کے دروازے کھلنے لگے۔ مگر جب میں ان گھروں کے درمیان سے گزرا تو ہر گھر سے دہشت بھری چیخیں اُبھرنے لگیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ دُوسروں کو بھی نظر آ رہے تھے۔ کون ہیں یہ کون ہیں۔ یقیناً یہ بھیانک وجود انسان نہیں تھے۔ میں دوڑتا ہوا ایک بازار میں پہنچ گیا۔ دُکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ دُھوپ اور گرم ہوا کی وجہ سے خریداری تو نہیں ہو رہی تھی مگر دکاندار دُکانوں میں موجود تھے۔ انہوں نے حیرانی سے اس جلوس کو دیکھا اور پھر ان کا بھی وہی حشر ہوا۔ بہت سوں نے دُکانوں کے شٹر گرائے اور بہت سے دکانوں سے اُتر کر بھاگے۔ میں نے رفتار سست کی تو میرے پیچھے دوڑنے والوں کی رفتار بھی سست ہوگئی۔ وہ میرا پیچھا چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ دوڑنا ترک کر کے سست قدمی اختیار کی مگر ان سے پیچھا چھڑانا ناممکن نظر آ رہا تھا۔
پھر کسی طرح پولیس کو خبر ہوگئی۔ جونہی بازار ختم ہوا اور ایک بڑی سڑک آئی میں نے سامنے سے پولیس کی دو گاڑیاں آتے ہوئے دیکھیں۔ پولیس کو دیکھ کر میری جان ہی نکل گئی۔ اب آئی میری شامت۔ میں نے سوچا اور رُک گیا۔ پولیس گاڑیاں تیز رفتاری سے ہمارے قریب پہنچ گئیں اور ان سے لاٹھی بردار پولیس والے نیچے کودنے لگے۔ دونوں گاڑیوں سے پولیس افسر بھی نیچے اُترے تھے۔
’’ارے۔ کون ہو تم اور…‘‘ ایک افسر نے کڑک کر مجھے اور پھر میرے پیچھے مجمع کو دیکھتے ہوئے کہا مگر پھر وہ صرف انہیں دیکھتا رہ گیا۔ میرا تعاقب کرنے والے ہولناک بھوتوں نے بولنا اور منمنانا شروع کر دیا تھا۔ وہ دَبی دَبی آواز میں ہنسنے بھی لگے۔ ان کی صورتیں اور حلیے ہی کونسے کم بھیانک تھے کہ انہوں نے ایک اور عمل بھی شروع کر دیا وہ دُور تک پھیل گئے۔ پھر ان میں سے ایک نے اپنی کھوپڑی شانوں سے اُتار کر دُوسرے کی طرف پھینکی اور دُوسرے نے اسے گیند کی طرح لپک لیا۔ پھر اس نے وہ کھوپڑی تیسرے کی طرف پھینک دی پھر وہ سب کے سب ہی یہ کھیلنے لگے۔
دوپہر کا وقت ہُو کا عالم۔ اور یہ بھیانک کھیل۔ پولیس کے جوانوں نے پہلے تو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یہ کھیل دیکھا پھر حلق پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہوئے جدھر منہ اُٹھا دوڑ پڑے۔ افسر جہاں تک ممکن ہو سکا دلیری کا مظاہرہ کرتے رہے۔ پھر ان میں سے ایک چیختا ہوا ایک پولیس گاڑی کے نیچے گھس گیا اور دُوسرا جان توڑ کر مخالف سمت بھاگا۔ میں نے بھی موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اور اسی پولیس افسر کی طرف دوڑ پڑا۔ میں اس کے ساتھ نکل جانا چاہتا تھا مگر افسر کچھ اور ہی سمجھا۔ اس نے مجھے اپنا پیچھا کرتے دیکھ کر بُری طرح چیخنا شروع کر دیا۔
’’ہرے، ہرے، مر گیا رے، ہرے، مم، میں ہرے بچائو… ہرے بچائو… بچائو۔ رام دیال… ہرے رامورے، ہوئے ہوئے ہوئے۔‘‘ وہ ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور میں چونکہ اس کی سیدھ میں دوڑ رہا تھا اس لیے اس سے اُلجھ کر میں اس کے اُوپر ہی گرا تھا۔ افسر ذبح ہونے والے بکرے کی طرح چیخا اور ساکت ہوگیا مگر میں چوٹوں کو بھول کر پھر اُٹھا تھا۔ نگاہ پیچھے بھی اُٹھی تھی۔ وہ اپنے اپنے سر دُوسروں سے مانگ کر اس طرح شانوں پر رکھ رہے تھے جیسے ٹوپیاں پہن رہے ہوں، اور پھر وہ مستعدی سے دوبارہ میرے پیچھے لگ گئے۔ میں پولیس افسر کو بھول کر پھر دوڑ پڑا تھا۔ آبادی ختم ہوگئی اور کچھ دُور جا کر سڑک بھی ختم ہوگئی۔ آگے کچا راستہ آ گیا تھا اور اس سے آگے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ نہ جانے کس طرح میں خود کو سنبھالے ہوئے تھا ورنہ اس عالم میں حرکت قلب بھی بند ہو سکتی تھی۔ نکلا تھا پنڈت جی اور پنڈتائن کو ڈھونڈنے اور یہاں یہ آفت گلے پڑ گئی تھی۔ میں نے ایک لمحے کے لیے رُک کر کھیتوں پر نظر دوڑائی، کھیتوں کے بیچوں بیچ مجھے ایک پگڈنڈی نظر آئی تو میں اس پگڈنڈی پر ہوگیا۔ لیکن صاحب کہاں، میرے جاں نثار بدستور میرا تعاقب کر رہے تھے، وہ کھیت روند رہے تھے۔ انہوں نے اپنی گردنیں شانوں سے اُتار کر مضبوطی سے اپنے بازوئوں میں پکڑ لی تھیں تا کہ کہیں وہ گر نہ جائیں اور وہ میرا پیچھا کر رہے تھے۔ کھیتوں کا سلسلہ تو تاحد نگاہ چلا گیا تھا۔ چیخیں کھیتوں میں بھی سنائی دیں۔ یہ ان غریب کسانوں کی چیخیں تھیں جو کھیتوں میں کام کر رہے تھے، عورتیں بھی چیخی تھیں، مرد بھی چیخ رہے تھے مگر میرا پیچھا کسی طرح نہیں چھوٹ رہا تھا۔ بہت فاصلہ طے ہوگیا اور اب میرے دوڑنے کی قوت بھی جواب دے گئی تھی۔ کہاں تک دوڑتا سانس بُری طرح پھول گیا تھا، چہرہ سرخ ہوگیا تھا، بمشکل تمام میں نے خود کو زمین پر گرنے سے بچایا اور ایک جگہ بیٹھ کر بُری طرح ہانپنے لگا۔ وہ سب پھر میرے گرد مجمع لگا کر اکٹھے ہوگئے اور عجیب و غریب انداز میں اُچھلنے کودنے لگے۔ پھر شاید کچھ اور ہوا، تھوڑی دیر کے بعد بیلوں کی گھنٹیوں کی آوازیں سنائی دی تھیں اور میں نے ایک بہت ہی خوبصورت رَتھ دیکھا۔ یہ رتھ آہستہ آہستہ قریب آ رہا تھا۔ ساز و سامان سے سجا ہوا تھا اور بڑی خوبصورتی سے اسے بنایا گیا تھا۔ رتھ قریب آ گیا اور رتھ سے ایک رتھ بان نیچے اُترا۔ یہ اچھی خاصی شکل و صورت کا مالک تھا پیلے رنگ کی دھوتی اور کرتا پہنا ہوا تھا۔ گلے میں مالائیں پڑی ہوئی تھیں، بڑی بڑی مونچیں بڑی بڑی آنکھیں ماتھے پر تلک، میرے سامنے آ کر اس نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اور نیچے جھک کر بولا۔
’’رتھ حاضر ہے مہاراج جہاں بھی چلنا ہو رتھ میں بیٹھ جایئے ہمیں آگیا دیجئے ہم لے چلیں گے آپ کو…‘‘
’’بھاگ جائو میں کہتا ہوں بھاگ جائو، بھاگ جائو، یہاں سے، لے جائو یہ رتھ مجھے نہیں بیٹھنا اس میں، میں کہتا ہوں بھاگ جائو…‘‘ رتھ بان نے خوفزدہ سی شکل بنائی۔ گردن خم کی اور مرے مرے قدموں سے چلتا ہوا واپس رتھ میں جا بیٹھا اور اس کے بعد اس نے بیلوں کو واپس ہانک دیا۔ کچھ دیر کے بعد یہ رتھ میری نگاہوں سے غائب ہوگیا تھا لیکن وہ مجمع پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا، میں نے تھک ہار کر ان سے کہا۔
’’آخر تم کون لوگ ہو، کیوں میرے پیچھے لگے ہوئے ہو، کیوں لگے ہوئے ہو میرے پیچھے؟‘‘ ان میں سے ایک خوفناک شکل کا شخص آگے بڑھا اس کی گردن شانوں پر ہی تھی۔ اس نے منمناتی آواز میں کہا۔
’’بیر ہیں مہاراج آپ کے، ایک سو اکہتّر ہیں پورے، ہمیں آپ کی سیوا کا حکم دیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ ہر سمے آپ کی سیوا میں رہیں۔‘‘
’’اور اس طرح مجھے دوڑاتے رہو…‘‘
’’مہاراج آپ کا ساتھ تو دینا ہی تھا آپ چلے سو ہم چلے، آپ دوڑے سو ہم دوڑے، ہم تو بیر ہیں آپ کے، آپ کی پرجا ہیں مہاراج، آپ کی پرجا ہیں ہم۔‘‘
’’کیا تم اپنی یہ صورتیں گم نہیں کر سکتے؟‘‘ میں نے غرّاتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’کرسکتے ہیں۔‘‘ اس شخص نے معصومیت سے جواب دیا اسے شخص کہنا اس کے لیے عجیب سا بے شک لگتا ہے لیکن میں کسی ایسے جاندار کو کیا کہوں جس کے دو ہاتھ دو پائوں سر گردن آنکھیں سب کچھ ہوں بس ذرا ہیئت بدلی ہوئی ہو، میرے ان الفاظ کے ساتھ ہی اچانک ہی سارا مجمع نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اورمیں منہ پھاڑ پھاڑ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بڑی عجیب و غریب صورت حال تھی۔ لگ رہا تھا کہ وہ سب کے سب یہیں موجود ہیں لیکن بس آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ آہ کیا کروں میں کیا کروں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا، اتنا دوڑا تھا کہ بھوک لگنے لگی تھی، ایک گلاس دُودھ ہی تو پیا تھا۔ بھلا اس سے کیا بھلاہوتا، میں نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر ادھر اُدھر دیکھا اور اسی وقت وہ شخص پھر نمودار ہوگیا۔
’’بھوجن لگا دیتے ہیں مہاراج۔‘‘ اس نے میرے اندر کی آواز سن لی تھی، آہ بڑا خوفناک وقت آ پڑا تھا مجھ پر۔ میں نے کوئی جواب بھی نہیں دیا تھا کہ دفعتہ ہی میں نے اپنے سامنے ایک قالین کھلتے ہوئے دیکھا بڑا خوبصورت قالین تھا وہ اور وہیں کچی زمین پر کھل گیا تھا اور پھر قالین پر بے شمار پھل اور کھانے پینے کی دُوسری اشیاء سجنے لگیں۔ میں حیران نگاہوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ پورا قالین کھانے پینے کی چیزوں سے بھر گیا تھا، ہنسی بھی آ رہی تھی اپنے آپ پر اور اپنے ان بیروں پر جو نجانے کہاں سے میرے بیر بن گئے تھے۔ میں بڑی پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھتا رہا۔ وہ شخص اب بھی میرے سامنے اس طرح ہاتھ باندھے کھڑا ہوا تھا جیسے میرے دُوسرے حکم کا انتظار کر رہا ہو۔ یہ سارے کے سارے بڑی انکساری کا مظاہرہ کر رہے تھے لیکن جو چیز حقیقت ہی نہ ہو اسے تسلیم کرنا ناممکنات میں سے ہوتا ہے، میں تو انہیں حقیقت ہی ماننے کو تیار نہیں تھا۔ سب کالا جادو تھا سب کالا جادو اور یہ سب جو میرے سامنے آ کر سجا تھا یہ بھی کالے جادو ہی کے زیر اثر تھا۔ حرام اور ناپاک چیز میں اسے اپنے شکم میں نہیں اُتار سکتا، آہ جو غلاظت میرے وجود میں داخل ہوگئی ہے وہی کونسی کم ہے کہ میں اپنی بھوک کا شکار ہو کر مزید غلاظت اپنے وجود میں اُتار لوں۔ میں نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’اُٹھا لو، اس سب کو اُٹھا لو مجھے نہیں چاہیے یہ سب کچھ، سمجھے اُٹھا لو، ورنہ میں اسے اُٹھا کر پھینک دوں گا۔‘‘ میں نے جھک کر قالین کے دونوں سرے پکڑے اور اسے اُلٹ دیا۔ ساری چیزیں اوندھی ہوگئی تھیں اور سہما ہوا بیر پیچھے ہٹ گیا تھا، اس نے مایوس نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھا دُوسرا کوئی میرے سامنے نہیں تھا لیکن ان سب کی موجودگی کا احساس مسلسل ہو رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ سب موجود ہیں۔ بہرحال یہ کھانا پھینک دیا گیا اور میری نگاہیں سامنے کھیتوں میں ان پھوٹوں پر پڑیں جو خودرو تھیں، کھیتوں میں اُگ آئی تھیں، بھوک واقعی لگ رہی تھی، جو واقعات پیش آئے تھے اب ان میں ایڈجسٹ ہوتا جا رہا تھا، آگے بڑھا، ایک پھوٹ توڑی اور اس کا چھلکا دانتوں ہی سے اُتار کر اسے آہستہ آہستہ کھانے لگا۔ پھوٹ نے شکم سیر کر دیا تھا لیکن جس مصیبت میں گرفتار ہوگیا تھا اس سے چھٹکارے کا کوئی ذریعہ نہیںتھا۔ دل میں سوچا کہ یہاں سے آگے بڑھوں اور چند قدم آگے بڑھائے لیکن اچانک ہی یوں محسوس ہوا جیسے زمین سے اُوپر اُٹھتا چلا جا رہا ہوں اور میں زمین سے خاصا اُونچا اُٹھ گیا، میرے منہ سے بوکھلاہٹ بھری آوازیں نکل رہی تھیں۔
’’ارے ارے، یہ کک… کون، کون کیا کیا ہے؟‘‘ جواب میں مجھے آواز سنائی دی۔
’’ہم اپنے کندھوں پر آپ کو لے کر چل رہے ہیں مہاراج آپ تھک گئے ہیں دھرتی پر سفر نہیں کر سکیں گے، بیٹھے رہیں، بیٹھے رہیں ہم آپ کو گرنے نہیں دیں گے۔‘‘
’’نیچے اُتارو مجھے، میں کہتا ہوں مجھے نیچے اُتارو…‘‘ میں نے کہا اور مجھے نیچے اُتار کر کھڑا کر دیا گیا۔ وہ میری وجہ سے پریشان تھے اور میں ان کی وجہ سے پریشان تھا۔ ان بیروں کے بارے میں کچھ بھی تو نہیں جانتا تھا۔ دل کی حالت بڑی عجیب ہو رہی تھی۔ سخت پریشان ہو رہا تھا۔ نیچے اُترا اور ایک لمحے کھڑا رہا۔ پھر چند قدم آگے بڑھا لیکن جیسے ہی پیر آگے بڑھایا پائوں کے نیچے کوئی لجلجی سی شے محسوس ہوئی۔ دُوسرا پائوں آگے بڑھایا تو اس کے نیچے بھی بالکل ایسا ہی لگا۔ پھر یہ ہوا کہ میں قدم نہیں بڑھا رہا تھا لیکن آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے پیروں کے نیچے اس ذریعے کو دیکھا جو مجھے آگے بڑھا رہا تھا تو ایک بار پھر میرے حلق سے دہشت بھری چیخ نکل گئی۔ وہ بڑی بڑی مکڑیاں تھیں اتنی بڑی کہ میرے پائوں بآسانی ان کے جسموں پر ٹکے ہوئے تھے اور وہ اپنے بے شمار قدموں سے مجھے آگے بڑھا رہی تھیں۔ میں نے خوفناک چیخ کے ساتھ چھلانگ لگائی لیکن جہاں گرا تھا وہاں بھی ایک مکڑی کی پشت پر ہی گرا تھا۔ اس کے پائوں میرے وزن سے پھیل گئے لیکن رفتہ رفتہ وہ پھر پائوں جما کر کھڑی ہوگئی، دُوسرا پائوں آگے بڑھایا تو پھر وہی مکڑی آ گئی، میں نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔
’’آہ مجھے آزاد کر دو، مجھے آزاد کرو میں، میں تھک گیا ہوں، میں تنگ آ گیا ہوں۔‘‘ سامنے ہی ایک درخت نظر آ رہا تھا اس کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں، میں مکڑیوں سے پائوں اُتار کر جہاں بھی قدم رکھتا ایک نئی مکڑی نمودار ہو جاتی اور میرا پائوں اس کی پشت پر ہی پڑتا۔ میں بری طرح بدحواس ہوگیا تھا۔ بھلا اس لجلجی اور منحوس شے پر کیسے سفر کرتا، کس عذاب میں گرفتار ہوگیا آہ کس عذاب میں گرفتار ہوگیا ہوں۔
میں نے بے بسی سے درخت کی جانب نظر اُٹھائی تو ایک بار پھر ایک دہشت بھری کیفیت کا سامنا کرنا پڑا، ہاں وہ درخت تھا تو درخت ہی لیکن اس کی دو شاخیں جو سامنے کی سمت پھیلی ہوئی تھیں وہ انسانی بازوئوں کی شکل رکھتی تھیں اور اس کا تنا انسانی جسم کی کیفیت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ تنے کے اس حصے پر جہاں سے بقیہ شاخیں مختلف سمتوں کو تقسیم ہو جاتی تھیں بھوریا چرن کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ بھوریا چرن جو مسکرا رہا تھا، ایک طنز بھری شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی۔ یہ بھی نظر کا واہمہ نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھی جو روشن دوپہر میں چلچلاتی دُھوپ میں میرے سامنے عیاں ہوگئی تھی۔ پھر مجھے بھوریا چرن کی وہی مخصوص مکروہ آواز سنائی دی۔
’’کیسے ہو میاں جی، کیا حال چال ہیں تمہارے؟‘‘ میں نے نفرت بھری نگاہوں سے بھوریا چرن کو دیکھا اور کوئی جواب نہیں دیا بلکہ شدید غصے کے عالم میں اس پر تھوک دیا۔ بھوریا چرن ہنسنے لگا پھر بولا۔
’’اب تو تمہارا۔ یہ تھوک بھی بڑا قیمتی ہوگیا ہے کبھی کسی پر تھوک کر دیکھ لینا مہاراج مگر بڑے بے ایمان ہو تم، بہت ہی ناشکرے اگر یہ سب کچھ کسی اور کو مل جاتا تو چرن دھو دھو کر پیتا بھوریا چرن کے، ہمارے کسی دھرم والے کو یہ شکتی مل جاتی مہاراج تو نجانے کیا کر ڈالتا وہ۔ گرو مان لیتا ہمیں اپنا۔ مگر تم تم ہو ہی برے خون والے گرو، پر تھوک رہے ہو۔ ارے سات پورن ماشیاں بنائی ہیں ہم نے تمہارے لیے۔ سات پورنیوں کو سترہ انسانوں کا خون دے کر جگایا ہے اور وہ ساری کی ساری اب تمہاری سیوک بن گئی ہیں۔ ایک سو اکہتّر بیر ان کے قبضے میں ہوتے ہیں اور یہ سارے کے سارے تمہارے اُوپر بلیدان ہونے کو تیار ہیں۔ دیکھ لیا تم نے، کس کی مجال ہے کہ تمہاری طرف اُنگلی اُٹھا جائے۔ لڑ مریں گے یہ سُسرے تمہارے لیے اور وہ سات پورنیاں جو اس بائولے جیوتشی کے گھر میں اُتری تھیں۔ سات اَپسرائیں ہیں کسی کو مل جائیں تو وہ آکاش پر قدم رکھنے کی کوشش کرے، آکاش باسی بن جائے، مگر تم تھوک رہے ہو ہمارے اُوپر، یہ ہے ہمارے دیئے کا انجام…‘‘
’’بھوریا چرن میں ان ساری چیزوں پر لعنت بھیجتا ہوں کمینے کتّے، لعنت بھیجتا ہوں میں تیرے اس دیئے پر۔‘‘ میں نے طیش کے عالم میں کہا۔
’’تو ہم نے کیا کس لیے ہے یہ سب کچھ میاں جی، من کی شانتی چھینی ہے ہم نے تمہاری سمجھے، من کی شانتی چھین لی ہے اب کیا کرو گے بڑی قوتوں کے مالک بن گئے ہو کسی بستی میں قدم رکھو گے تو لوگ پوجا کریں گے تمہاری، چرنوں میں آنکھیں رگڑیں گے مگر تمہارے من کی شانتی کہاں ہے، تم نے ہم سے ہمارا سب کچھ چھینا ہمیں کھنڈولا نہ بننے دیا تو ہم نے بھی تمہارے من کی شانتی چھین لی، بڑے دھرم داس بنے پھرتے تھے ایں۔‘‘ بھوریا چرن نفرت بھرے لہجے میں بولا۔
’’دیکھو بھوریا چرن دیکھو دیکھو۔‘‘
’’ارے کیا دیکھیں، دیکھ لیا سب کچھ، تم نے جو کچھ کیا اس کے نتیجے میں ہم نے تمہارا دھرم بھرشٹ کر دیا اب بھاگتے پھرو سارے سنسار میں، دھرم دھرم چیختے چلاتے… کچھ نہ ملے گا جب تک تمہارے بدن میں ہمارے پہنچائے ہوئے خون کا ایک ذرّہ بھی باقی ہے ذرا واپس آ کر دیکھ لو اپنے دھرم میں بھوریا چرن ہے ہمارا نام، شنکھا ہیں، کھنڈولا بنا دیتے تو کیا بگڑ جاتا مہاراج اس وقت بھی یہی شکتی دے دیتے ہم تمہیں سمجھے اور اس شکتی کے ذریعے گھوڑے تمہارے اشارے پر دوڑتے، جوا تمہارے اشارے پر ہوتا، نجانے کیا کیا مل جاتا تمہیں مگر مگر تقدیر کی بات ہے بھاگ کے پھیر ہیں۔ تم اس قابل ہی نہیں تھے، اس قابل ہی نہیں تھے۔‘‘
’’مگر بھوریا چرن اب میں کیا کروں؟‘‘
’’بھاگتے پھرو پاگلوں کی طرح اتنی بڑی طاقت ہے تمہارے پاس مگر تم اسے استعمال نہیں کر سکتے مہاراج سمجھے کیونکہ تم نے مانا ہی نہیں ہے من سے، انہیں۔ جب انہیں استعمال کرو گے تو بات دُوسری ہو جائے گی اور تم بڑے مہان بن جائو گے سمجھے مگر تم ایسا کبھی نہیں کر سکو گے کبھی نہیں۔ من کی شانتی نہیں ملے گی تمہیں یہی ہمارا فیصلہ ہے، یہی بھوریا چرن کا بدلہ ہے۔‘‘ بھوریا چرن نے اپنے شاخوں جیسے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اور اس کے بعد اس کے نقوش درخت میں معدوم ہوتے چلے گئے، وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا تھا اس کے دیئے ہوئے بیر اور پورنیاں اب میری سمجھ میں آ رہی تھیں۔ پنڈت کاشی رام نے تو صرف اپنی بیوی کو ڈرانے کیلئے اور یہ سمجھانے کیلئے کہ میں بڑا مہان ہوں، سات پورن ماشیوں کا اور پورنیوں کا ذکر کیا تھا مگر کمبخت بھوریا چرن نے وہ ساری بلائیں میرے اُوپر نازل کر دی تھیں وہیں بیٹھ گیا اور گھٹنوں میں سر دے کر سوچنے میں مصروف ہوگیا، اب تو آنکھیں بھی آنسوئوں سے خشک ہوگئی تھیں اگر میرے دل کا طبّی تجزیہ کیا جاتا تو شاید وہ دُنیا کا طاقتور ترین دل نکلتا کیونکہ اتنا کچھ برداشت کر لینے کی اہلیت تھی اس میں ان تمام مصیبتوں کے باوجود اس کی دھڑکنیں قائم تھیں مگر کچھ سکون بھی ہوا تھا۔ پتہ چل گیا تھا کہ یہ سب کیا ہے بھوریا چرن انتقام کی آگ میں جل رہا تھا اس نے مجھ پر سخت محنت کی تھی اپنے کالے جاو کی ساری قوتیں صرف کر دی تھیں۔ وہ بالکل سچ کہہ رہا تھا کہ اگر وہ اپنے دھرم کے کسی شخص کیلئے یہ سب کچھ کر دیتا اور اسے سات پورنیوں اور ایک سو اکہتّر ناپاک غلاموں کی قوت مل جاتی تو وہ نہ جانے کیا کر ڈالتا مگر مجھ پر یہ سب کچھ حرام تھا، میرے لیے یہ بیکار تھا بلکہ ناقابل برداشت تھا۔ میں تو اسے سزا سمجھتا تھا اب تو اس سزا پر دل دُکھنے لگا تھا، مظلومیت کا احساس ہوتا تھا کیا میں اس کائنات کا سب سے بڑا گناہگار ہوں، دُوسرے لوگ بھی تو گناہ کرتے ہیں، میں نے تو اس کے بعد سے صرف کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیشہ پچھتاتا رہا ہوں لیکن انسان ہوں کہاں تک برداشت کروں، بھوریا چرن نے یہ سب کچھ اس لیے کیا ہے کہ میں بے سکون ہو جائوں اندر کی کیفیت مجھے ان قوتوں سے فائدہ اُٹھانے سے باز رکھے اور بیرونی طور پر سب کچھ میرے قبضے میں ہو آہ… نہ جانے مستقبل میں اس ایمان کو قائم رکھ سکوں گا یا نہیں۔ بھاڑ میں جائیں پنڈت کاشی رام میں تو خود ایک مجبور انسان ہوں کیا کر سکتا ہوں میں نے نفرت بھری نظروں سے اس درخت کو دیکھا اور دفعتاً میرے دل میں ایک خیال آیا میں نے گردن ہلائی اور آواز دی۔
’’میرے بیرو کہاں ہو تم…؟‘‘
’’یہیں ہیں مہاراج ہم کہاں جائیں گے۔‘‘ سارا مجمع پھر نمودار ہوگیا اب انہیں دیکھ کر میرے دل میں خوف نہیں اُبھرا تھا۔
’’اس درخت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔‘‘ میں نے درخت کی طرف اشارہ کیا اور وہ سب بھرا مار کر درخت کی سمت لپکے سب نے مل کر درخت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا پھر اس کی شاخیں توڑنے لگے ایک ایک پتہ کچل ڈالا انہوں نے تنا اُدھیڑ پھینکا وہ کیڑوں کی طرح اس سے لپٹ گئے تھے، پھر وہ اسی وقت سیدھے ہوئے جب درخت ننھی ننھی لکڑیوں میں تبدیل ہو چکا تھا، اس درخت میں مجھے بھوریا چرن نظر آیا تھا مگر میں خود بھی جانتا تھا کہ اس طرح بھوریا چرن ہلاک نہیں ہو جائے گا وہ شنکھا ہے، ہزاروں رُوپ دھار سکتا ہے، بس ایک نفرت تھی اس کے خلاف جو دل میں اُبھری تھی اور یہ اندازہ بھی ہوگیا تھا کہ یہ بیر سچ مچ میرے اشارے پر سب کچھ کر سکتے ہیں۔ وہ سب اپنے کام سے فارغ ہو کر دوبارہ میرے گرد جمع ہوگئے، میں نے اس بیر کو دیکھا جو سب سے پیش پیش رہتا تھا۔
’’آگے آ…‘‘ میں نے کہا اور وہ آگے بڑھ آیا۔ ’’کیا نام ہے تیرا۔‘‘ ’’کھتوری مہاراج۔‘‘
’’میں کون ہوں؟‘‘
’’ہمارے مالک۔‘‘
’’کیا نام ہے میرا؟‘‘
’’پورن بھگت۔‘‘
’’غلط، میرا یہ نام نہیں ہے۔‘‘
’’ہمیں نام سے کیا لینا مہاراج… ہمیں تو کام بتائو۔‘‘
’’بھوریا چرن کہاں ہے۔‘‘ میں نے پوچھا اور بیر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ پھر بولا۔
’’چلے گئے یہاں سے۔‘‘
’’کیا تو بھوریا چرن کو مار سکتا ہے۔‘‘
’’وہ شنکھا ہے سوامی، شنکھا شریر کہاں ہوتا ہے وہ تو ہوا ہوتی ہے اور ہوائوں پر ہمارا بس نہیں ہے۔‘‘
’’اگر بھوریا چرن میرے سامنے ہو تو تم لوگ اس کی مانو گے یا میری۔‘‘
’’تمہاری مہاراج… ہم تمہارے داس ہیں۔‘‘
’’رتھ لائو میرے لیے۔‘‘ میں نے کہا اور کھتوری نے گردن ہلا دی ذرا سی دیر میں رتھ میرے سامنے آ گیا، میں رتھ میں جا بیٹھا اور کھتوری نے رتھ سنبھال لیا۔ ’’چلو۔‘‘ میں نے کہا اور اس نے بیل ہانکنے شروع کر دیئے، پیچھے وہ سب ٹیڑھے میڑھے چل رہے تھے، دل میں ایک لمحے کیلئے خیال آیا کہ اس طاقت سے تہلکہ مچا سکتا ہوں سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے مجھے جو چاہوں سامنے لا سکتا ہوں، بہت بڑی طاقت حاصل ہوگئی ہے مجھے مگر نہ جانے کیوں آنکھوں میں نمی آ گئی۔ بے اختیار آنسو نکل پڑے، آنکھوں نے دل کو احساس دلایا تھا کہ یہ سب کیا ہے کالا جادو ہے یہ جسے کرنے والے کافر ہوتے ہیں ان کی بخشش کبھی نہیں ہوسکتی۔ یہ سب کچھ کھونے کے مترادف ہے اور جو کھو گیا اسے دوبارہ نہیں حاصل کیا جا سکتا دل میں گرم گرم لہریں دوڑنے لگیں اعضا میں تنائو پیدا ہوگیا اور میں نے رتھ سے باہر چھلانگ لگا دی لیکن میرے بیروں نے مجھے زمین پر نہیں گرنے دیا تھا وہ زمین پر لیٹ گئے تھے اور میں ان کے اُوپر گرا تھا لیکن میں پھرتی سے اُٹھ کھڑا ہوا، میں نے دیوانوں کی طرح ان پر لاتیں برسانی شروع کر دیں اور وہ اِدھر سے اُدھر لڑھکنے لگے، رونے اور چیخنے لگے مگر کسی نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ میں نے کھتوری کے ہاتھ سے سانٹا لیا اور بیلوں پر پل پڑا، بیل ڈکرا کر بھاگے اور کھتوری اُچھل کر سر کے بل نیچے گرا پھر اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’بھاگ جائو تم سب بھاگ جائو یہاں سے ورنہ۔‘‘ میں سانٹا لے کر ان پر پل پڑا اور وہ سب بھاگنے لگے کچھ دیر میں وہ بہت دُور نکل گئے اور میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
’’بھوریا چرن … بھوریا چرن کتّے تو نے میرے خون میں گندگی گھول دی ہے مجھ سے میرا دین چھین لیا ہے مگر میرا دین میرے دل میں ہے کبھی نہیں چھوڑوں گا اسے۔ کر لے جو تجھ سے کیا جا سکے، میں مسلمان پیدا ہوا ہوں مسلمان مروں گا بھوریا چرن… کتّے۔‘‘ میری آواز ویرانوں میں گونجتی رہی، حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا آواز پھٹ رہی تھی گلا دُکھ رہا تھا چیختا رہا پھر تھک کر خاموش ہوگیا وہاں سے چل پڑا اب میرے گرد سرسراہٹیں نہیں تھیں میرے بیر بھاگ گئے تھے میں نے جو ان سے کہا تھا۔
چلتا رہا، چلتا رہا پھر ایک بستی آئی لوگ نظر آئے مگر میں نہ رُکا اور چلتا رہا، گھاس، پھونس، پتّے جو ملتا کھا لیتا پھر کچھ کھنڈرات نظر آئے ایک ویرانہ تھا اور یہاں کالی کیچڑ اور جوہڑ بھی تھا کچھ جانی پہچانی جگہ محسوس ہوئی پھر یاد آیا یہ تو نیاز اللہ کی بستی تھی عزیزہ رہتی تھی یہاں اور یہ جگہ کیا نام تھا اس کا ہاں شاید رامانندی یہی نام تھا اس کا بھوریا چرن نے اسے ہلاک کر دیا تھا۔ وہ بے چارہ رامانندی اچھا انسان تھا۔
چاروں طرف بھیانک سناٹا چھایا ہوا تھا کھنڈرات پر خوفناک خاموشی طاری تھی، سناٹا چیختا محسوس ہو رہا تھا اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا، میری نظریں جوہڑ کی طرف اُٹھ گئیں، کیچڑ جگہ جگہ سوکھ گئی تھی اور اس پر حشرات الارض رینگ رہے تھے میرے منہ سے آواز نکلی۔
’’کھتوری…؟‘‘
’’بھگت پورن۔‘‘ کھتوری میرے نزدیک ظاہر ہوا۔
’’دُوسرے کہاں ہیں؟‘‘
’’تم سے دُور نہیں مہاراج۔‘‘
’’بلائو سب کو۔‘‘
’’ہم تو یہیں ہیں بھگت۔‘‘ ان کا پورا ریوڑ نمودار ہوگیا۔
’’اس جوہڑ میں ایک شیشے کی بوتل ہے جس میں رامانندی کی لاش ہے اسے تلاش کر کے لائو۔‘‘ میں نے کہا اور وہ سب جوہڑ کی طرف دوڑ پڑے پورے جوہڑ میں بھونچال آ گیا مکھیوں اور مچھروں کے غول کالے بادلوں کی طرح اُٹھے اور چاروں طرف پھیل گئے سخت تعفن پیدا ہوگیا تھا کچھ دیر جوہڑ میں ہلچل رہی پھر ایک بیر وہ بوتل نکال لایا۔
’’یہ رہی بھگت۔‘‘
’’کھول اسے۔‘‘ میں نے بوتل کو ہاتھ لگائے بغیر کہا اور اس نے بوتل کھول دی، بوتل سے دُھواں نکلنے لگا پھر یہ دُھواں زمین پر جم گیا اور کچھ دیر کے بعد وہ رامانندی کی شکل اختیار کرگیا۔ رامانندی کھڑے کھڑے جھول رہا تھا اس کی آنکھیں بند تھیں پھر وہ گرتے گرتے سنبھلا اور آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
’’چلا گیا۔‘‘ اس نے سرگوشی کے عالم میں پوچھا۔
’’کون؟‘‘
’’نظر نہیں آ رہا۔‘‘
’’کسے کہہ رہے ہو۔‘‘
’’شنکھا… شنکھا… وہی بھوریا چرن۔‘‘
’’تم ٹھیک ہو رامانندی۔‘‘ میں نے پوچھا مگر رامانندی نے اب ان بیروں کو دیکھا جو آہستہ آہستہ جوہڑ سے نکل کر جمع ہو رہے تھے۔
’’یہ کون ہیں…؟ تم کون ہو؟‘‘ پہلے اس نے مجھ سے اور پھر ان سے پوچھا۔
’’سیوک ہیں پورن بھگت کے۔‘‘ کھتوری بولا۔
’’پورن بھگت… ایں… ارے… اوں… اوہ… جے بھگوتی جے پورن مہاراج۔‘‘ رامانندی نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے مگر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں اس نے آنکھیں مسل مسل کر کئی بار مجھے دیکھا پھر حیران لہجے میں بولا۔
’’تم… مہا بھگت، تم وہی ہو نا… مسعود احمد… وہ نیازاللہ… معاف کرنا مجھے نہ جانے کیوں میری بات کا برا مت ماننا وہ دراصل تمہاری صورت کا…‘‘ وہ بار بار ہاتھ جوڑ کر مجھ سے معافی مانگنے لگا۔
’’راما نندی میں مسعود ہی ہوں آئو اندر چلو آئو پریشان نہ ہو۔‘‘ میں نے اس کا بازو پکڑ کر کھنڈرات کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
’’ارے وہ مگر تم… پورن بھگت… یہ…۔‘‘ اس نے بیروں کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ سارے کے سارے پھر میرے پیچھے لگ گئے تھے۔
’’تم کہاں آ رہے ہو چلو بھاگ جائو اور جب تک میں نہ بلائوں میرے قریب مت آنا جائو۔‘‘ میں گرجا اور وہ خوف زدہ ہوکر ایک دُوسرے کو دھکیلتے ہوئے بھاگنے لگے۔ راما نندی سخت پریشان تھا میں اسے لیے ہوئے کھنڈرات میں آگیا رامانندی سخت اُلجھا ہوا نظر آ رہا تھا کھنڈرات میں جہاں وہ رہتا تھا وہاں کی حالت دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔
’’یہ سب تمہارا کالاجادو ہے، رامانندی… تم شاید صورت حال کو سمجھ نہیں پائے تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تم کئی ماہ سے اس شیشی میں بند جوہڑ میں پڑے ہوئے تھے طویل عرصے کے بعد تم اس سے نکلے ہو۔‘‘
’’کئی ماہ سے۔‘‘ رامانندی گھٹے گھٹے لہجے میں بولا۔
’’ہاں کئی ماہ سے بیٹھ جائو میں تمہیں پوری تفصیل بتاتا ہوں، بیٹھ جائو پریشان مت ہو۔‘‘ وہ بیٹھ گیا تب میں نے اسے شروع سے اب تک کی ساری کہانی سنائی اور وہ میرا منہ دیکھتا رہ گیا۔ آخر تک کی کہانی سننے کے بعد بھی وہ دیر تک کچھ نہیں بولا تھا۔
’’اس کے بعد رامانندی تم مجھے بتائو گے کہ اب میں کیا کروں…؟‘‘ میں نے پوچھا لیکن وہ اس کے بعد بھی دیر تک کچھ نہ بولا اور سوچتا رہا پھرکئی گہری گہری سانسیں لے کر اس نے خود کو سنبھالا اور بولا۔
’’کالے جادو کے سولہ درجے ہیں ابتداء نرٹھ سے ہوتی ہے نرٹھ پہلا جاپ ہے اس میں گندی اور غلیظ چیزوں سے شریر کو بھنگ کیا جاتا ہے اور اس طرح کالا علم سیکھنے والا خود کو کالی قوتوں کے حوالے کر دیتا ہے، دُوسرا درجہ سگنت کہلاتا ہے اس میں کمال حاصل کرنے کے بعد کیڑے مکوڑوں کا کاٹا اُتارا جاتا ہے اسی طرح جاپ ہوتے رہتے ہی۔ آٹھویں گنتھ میں لونا چماری اور نویں میں کالی دیوی سے واسطہ پڑتا ہے پورنیاں گیارہویں درجے میں آتی ہیں اور جسے پورنیوں کا اختیار حاصل ہو جائے وہ کالے جادو کا گیارہواں ماہر ہوتا ہے۔ سات پورنیوں کے ایک سو اکہتّر بیر ہوتے ہیں جو پورن بھگت کے غلام ہوتے ہیں بارہواں درجہ بھیروں ستوترن ہوتا ہے وہاں سے شنکھا کا سفر شروع ہوتا ہے اور پھر شنکھا یاٹ ہوتے ہیں ایک شنکھا ہی پورن جاپ کر کے اپنا جاپ کسی اور کو دے سکتا ہے کوئی دُوسرا ایسا نہیں کر سکتا مگر تمہیں جو قوت حاصل ہوگئی ہے وہ بہت بڑی ہے تم اس سے نچلے درجے کے سارے دیر داسیوں کو نیچا دکھا سکتے ہو مگر تمہارا معاملہ دُوسرا ہے۔‘‘
’’اس نے دھوکے سے میرے ساتھ یہ کیا۔‘‘
’’ہاں مگر بہت بڑا کام کیا ہے اسے سترہ انسانوں کی بلی دینا پڑی ہوگی۔‘‘
’’تم اب ٹھیک ہو رامانندی۔‘‘
’’ہاں میں ٹھیک ہوں مگر اب میں یہاں نہیں رہوں گا۔‘‘
’’وہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔‘‘ رامانندی نے کہا اور میں سوچ میں ڈُوب گیا۔ پھر میں نے کہا۔
’’ایک بات بتائو رامانندی کیا ان بیروں سے میں اپنے ماں باپ اور بہن کا سراغ لگا سکتا ہوں، کیا یہ مجھے بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔‘‘
’’بھول کر بھی ایسا مت کرنا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ان سے تم کالے کام لے سکتے ہو صرف کالے کام۔ اگر کوئی ایسا کام لیا ان سے جو کسی طور کالے علم سے تعلق نہ رکھتا ہو تو یوں سمجھ لو وہ شے باقی نہیں رہے گی۔ تمہارے ماتا پتا کا پتہ لگا کر یہ تمہیں خبر دیں گے مگر بعد میں انہیں مار دیں گے۔ ریت ہے کالے جادو کی یہ برائی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے کسی نیک اور ضرورت کے کام کیلئے نہیں۔ مثال کے طور پر تم ان سے اپنے کسی دُشمن کو مروا تو سکتے ہو کسی بیمار دوست کیلئے دوا نہیں منگوا سکتے ہو۔‘‘
’’لعنت ہے اس علم پر… اپنے لیے میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘
’’راجہ بن جائو، محل بنوا لو، دولت کے ڈھیر لگا لو، سندر ناریاں اُٹھوا لو یہ سب خوشی سے سارے کام کریں گے۔‘‘
’’ایک بار پھر لعنت ہے اب بتائو میں اس مصیبت سے چھٹکارا کیسے حاصل کروں؟‘‘ میں نے کہا اور رامانندی سوچ میں ڈُوب گیا پھر بولا۔
’’بہت مشکل ہے ایک طرح ناممکن ہے۔‘‘
’’رامانندی دل چاہتا ہے رامانندی یہ سب قبول کر لوں دل چاہتا ہے وہی بن جائوں جو بنا دیا گیا ہوں۔‘‘ میں نے دانت پیستے ہوئے کہا اور رامانندی چونک کر مجھے دیکھنے لگا پھر وہ آہستہ سے بولا۔
’’مسعود جی من کیا چاہتا ہے۔‘‘
’’کیا بتائوں میں کیا بتائوں۔‘‘
’’میں ایک مشورہ دوں۔‘‘
’’بولو۔‘‘
’’بڑے کشٹ اُٹھائے ہیں تم نے اپنا دھرم بنائے رکھنے کیلئے اب اسے کھونا اچھا نہیں ہوگا مگر تمہاری اس بات کو میں مانتا ہوں وہی بن جائو جو بنا دیئے گئے ہو۔‘‘ میں اُلجھی ہوئی نظروں سے رامانندی کو دیکھنے لگا۔
’’نہ جانے کیا کہہ رہے ہو۔‘‘
’’بڑے کانٹے کی بات کہہ رہا ہوں بھوریا چرن نے تمہیں اتنا بڑا جاپ دے کر تم سے من کی شانتی چھینی ہے نا۔‘‘
’’ہاں یہی اس کتّے کا مقصد ہے۔‘‘ میں نے نفرت سے کہا۔
’’اور تمہارے من کی شانتی چھن گئی ہے اگر تم اپنا من شانت کر لو تو پھر اس کے من کی شانتی چھن جائے گی وہ سوچے گا کہ یہ تو بات اُلٹی ہوگئی اور پھر وہی کچھ اپائے کرے گا۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے کہ…‘‘
’’سنسار چرنوں میں جھکا لو، ہنسو، بولو، خوش رہو تمہاری خوشی اسے بھسم کر دے گی وہ تمہیں خوش ہی تو نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘
’’مگر کالے جادو سے کام لے کر میں اپنے لیے جو کچھ کروں گا رامانندی وہ مجھے میرے دین سے دُور سے دُور تر کر دے گا۔‘‘
’’اپنے لیے کچھ نہ کرنا یہ تو اسے جلانے کیلئے ہوگا۔ کسی کنواری کو پریشان نہ کرنا، کسی کو نقصان نہ پہنچانا بس ایسے کام کر لینا جس سے اسے پتہ چلے کہ تم خوش ہو من کے بھید تو کوئی اور ہی جانتا ہے باقی سب عمل کے بھید ہوتے ہیں اور تمہارے عمل کے بھید ہی سامنے آئیں گے۔‘‘ میں رامانندی کی بات پر غور کرنے لگا کچھ سمجھ میں آ رہی تھی کچھ نہیں آ رہی تھی وہ بے چارہ میرے دین کی نزاکتوں کو کیا جانے بس ایک معمولی سی لغزش اور… کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے میرے پاس آخر کروں بھی تو کیا کس سے رہنمائی حاصل کروں اور بھوریا چرن وہ تو میرے سلسلے میں ہمیشہ ہی کامیاب رہا تھا، بڑا عجیب سا دل ہو رہا تھا۔ میں نے رامانندی سے کہا۔
’’تمہارا کیا ارادہ ہے رامانندی۔‘‘
’’مجھے کہیں منہ چھپانا ہے مسعود جی ہاں اگر تم اپنے ساتھ رکھنا چاہو تو مگر میں مجبور نہیں کروں گا۔‘‘
’’میرے ساتھ مگر بھوریا چرن تمہیں دیکھ لے گا۔‘‘
’’کچھ بگاڑ نہ پائے گا تمہارے ساتھ میرا جیون محفوظ رہے گا ورنہ مجھے خطرہ ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے رامانندی مگر تمہیں میرے ساتھ تکلیفیں رہیں گی۔‘‘
’’اُٹھالوں گا جیون تو بچا رہے گا۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر گردن ہلا دی تھی رامانندی نے کہا۔ ’’اب یہاں سے نکل چلو مہاراج مجھے اندیشہ ہے کہ وہ یہاں نہ آ جائے۔‘‘
’’چلو۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لی اور ہم دونوں کھنڈرات سے باہر نکل آئے جوہڑ کے پاس سے گزر کر ہم دُور نکل آئے میں نے رامانندی سے نیازاللہ صاحب کے بارے میں کہا۔
’’چلو گے ان کے پاس۔‘‘
’’دل تو چاہتا ہے مگر…؟‘‘
’’میرا بھی یہی خیال ہے بھوریا چرن کو ان کی طرف متوجہ مت کرو کہیں نقصان نہ اُٹھا جائیں ویسے اگر تم چاہو تو خاموشی سے انہیں کچھ بتائے بغیر ان سے ملے بغیر ان کی کچھ مدد کر دو۔‘‘
’’اوہ… نہیں رامانندی نیازاللہ صاحب ایسے لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے فقر و فاقے کی زندگی گزار کر اپنا ایمان قائم رکھا ہے۔ یہ غلط دولت ان پر مسلط کر کے میں ان کی ایماندارانہ زندگی کو داغدار نہیں کروں گا۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو یہ بات مجھ سے بہتر کون جانتا ہے پھر یوں کرتے ہیں کہ بستی کا رُخ ہی نہیں کرتے کوئی دُوسری سمت اختیار کرتے ہیں، آئو اس طرف چلیں۔‘‘ راستے میں میں نے رامانندی سے کہا۔
’’ہمیں اب کرنا کیا چاہئے رامانندی۔‘‘
’’وقت اور حالات کے ساتھ دیکھنا ہوگا شنکھا تمہیں افسردہ، ملول اور پریشان دیکھنا چاہتا ہوگا تمہیں اس کے برعکس کرنا ہے تا کہ اسے احساس ہو کہ اس نے جو محنت کی وہ بیکار گئی اور پھر کیا سمجھے۔‘‘
’’ہاں سمجھ رہا ہوں۔‘‘
’’بیروں کو بلائو سواری کیلئے کچھ منگوا لو دُور جانا ہوگا ہمیں۔‘‘ رامانندی نے کہا اور مجھے ہنسی آ گئی۔
’’واہ رامانندی دو قدم چل کر ہی بھول گئے میرے ساتھ رہ کر تمہیں کافی پریشانی اُٹھانی پڑے گی میں اس علم کی قوت سے اپنے لیے کوئی آسائش کبھی حاصل نہیں کروں گا سوچ لو۔‘‘
’’اوہ ہاں سچ مچ بھول گیا تھا کوئی بات نہیں چلو رامانندی تم سے پیچھے نہیں ہے۔‘‘ رامانندی نے کہا اور ہم چل پڑے کوئی منزل ذہن میں نہیں تھی بس قدم اُٹھ رہے تھے نہ جانے کس طرف…!
رامانندی کا ساتھ بڑا سکون بخش تھا تنہائی سے نجات مل گئی تھی اس سے باتیں کرکے دل کی بھڑاس نکال سکتا تھا۔ کسی بھی قدم کے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکتا تھا۔ ہم نے آبادی کا رخ نہیںکیا تھا۔ جان بوجھ کر ویرانوں کی سمت چل پڑے تھے۔ رامانندی نے کہا۔
’’بھوریاچرن سے کہیں بھی ملاقات ہوسکتی ہے اس کے بیروں نے اسے میرے بارے میں بتا تو دیا ہوگا۔‘‘
’’کیا یہ ممکن ہے؟‘‘
’’ہاں بالکل بیراسے سب کچھ بتاتے رہتے ہیں ان کی حیثیت رپورٹروں جیسی ہوتی ہے پھر وہ تو شتکھا ہے۔‘‘
’’تمہارے خیال میں وہ زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتا ہے۔؟‘‘ میں نے پوچھا اور رامانندی سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر اس نے کہا۔
’’تمہارا تو وہ کچھ نہیں بگاڑے گا ویسے یقین کرو مسعود جی تم تقدیر کے دھنی ہو تمہارے بارے میں کچھ باتیں میری سمجھ میں آج تک نہیں آئیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’پوری کہانی مجھے معلوم ہے تم عام جوانوں کی طرح زندگی کی آسائشیں چاہتے تھے اور اس کے لیے تم نے دین دھرم کے سارے رشتے توڑ کر ہر ناجائز طریقے سے طاقت حاصل کرنا چاہی۔ بھوریا کو ایک کچے دماغ والے مسلمان لڑکے کی ضرورت تھی جو ایک مقدس مزار کو ناپاک کرکے اس کے غلیظ وجود کو پاک قدموں میں پہنچادے۔ تم نے ایسا نہ کیا اور کھنڈولا بننے سے رہ گیا۔ چلو اس سمے اس نے سوچا تھا کہ تمہیں خوب پریشان کرکے اپنے کام کے لیے مجبور کرلے گا مگر تم اس کے جال میں نہیں آئے۔ بجائے اس کے کہ وہ تمہیں ختم کردیتا اس نے دوسرے کام شروع کردیئے اس نے تمہیں پورنا بنادیا۔ آدھا جیون لگ جاتا ہے کسی کو پورنا بھگتی کرتے ہوئے۔ تب پورنیوں کا حصول ہوتا ہے مگر اس نے تمہیں کالی شکتی دیدی۔‘‘
’’اس طرح وہ میرے دل کا سکون چھیننا چاہتا تھا۔‘‘
’’نہیں مہاراج ایسا کرنے کے لیے وہ تمہیں بلی کتے کا روپ بھی دے سکتا تھا۔ اس نے یہ کیوں نہ کیا؟‘‘
’’تمہارا کیا خیال ہے رامانندی؟‘‘
’’میرا جیون بھر کا تجربہ کہتا ہے مسعود جی پورے جیون کا تجربہ
کہتا ہے کہ کوئی مہمان شکتی تمہارے پیچھے ہے۔ کوئی ایسی قوت جو اس کا دماغ پلٹے ہوئے ہے۔ وہ تمہارے لیے برے کام کررہا ہے مگر الٹے … سیدھے کام وہ نہیں سوچ پارہا۔‘‘
’’ایسی کوئی قوت ہوسکتی ہے۔ میں نے ایک مقدس مزار کی بے حرمتی کرنے سے گریز کیا تھا کیا مجھے وہاں سے فیض مل رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ بزرگ مجھے اس گندی گرفت سے کیوں نہیں بچاتے۔‘‘
’’میرا کچھ اور خیال ہے مسعود میاں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’ماں ہے نا تمہاری…؟‘‘ رامانندی نے سوال کیا اور میرے قدم رک گئے اعصاب پر جیسے بجلی سی گر پڑی میں نے رامانندی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں…!‘‘ میرے حلق سے گھٹی گھٹی آواز بھری۔
’’تو پھر عیش کرو، تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔‘‘ بات سمجھ میں آگئی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ ’’اتنے عرصہ سے اس سے دور ہو اس کے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ کبھی خالی نہیں رہ سکتے۔ وہ کچھ نہیں جانتی ہوگی تمہارے بارے میں مگر کہتی ہوگی کہ بھگوان تمہیں زندہ سلامت رکھے۔ اور بھگوان تمہیں زندہ سلامت رکھے گا۔ تمہارے دشمن کے دماغ الٹے کرتا رہے گا۔‘‘
دل ڈوب گیا۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی دھاریں بہنے لگیں حسرت ویاس کلیجہ کاٹنے لگی۔ بالکل سچ تھا ایک لفظ جھوٹ نہیں تھا ماں کی دعائیں آفات سے بچائے ہوئے تھیں باقی جو کچھ تھا وہ کیے کی سزا تھی مگر زندگی ماں کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کی مرہون منت تھی۔
’’ارے ارے۔ مسعود جی سنبھالو خود کو ارے نہیں بھائی روتے نہیں ہیں ملیں گے۔ سب ملیں گے تمہیں بھگوان کے ہاں اندھیر نہیں ہے اور پھر تم تو… تم تو اپنی معصومیت کے شکار ہورہے ہو۔ تم اتنے شکتی مان ہونے کے باوجود اس شکتی کو کالی شکتی سمجھ کر قبول نہیں کررہے۔ کچھ ہوگا ضرور کچھ ہوگا تمہارے لیے… مگر ارے… ارے… ارے…‘‘ دفعتاً راما نندی کا حلق بند ہوگیا۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ چہرہ سرخ ہوگیا رگیں ابھر آئیں۔ وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گیا میں پریشان ہوگیا۔ اپنی کیفیت بھول کر حیرانی سے اسے دیکھنے لگا نہ جانے اسے کیا ہوگیا تھا میں اس کے قریب بیٹھ گیا پھر میں نے اسے آواز دی۔
’’رامانندی، رامانندی کیا بات ہے بتائو تو سہی کیا بات ہے کیا ہو گیا رامانندی…؟‘‘
رامانندی نے آنکھیں بھینچ کر گہری گہری سانسیں لیں اور بولا۔ ’’کچھ نہیں مسعود جی کچھ نہیں، یار عجیب سی بات ہوگئی ہے پتہ نہیں پتہ نہیں میرا کیا بننے والا ہے، پتہ نہیں، بیٹھو یار تم بھی جذباتی ہوگئے اور میں بھی نہ بچ سکا، کچھ ایسی بات ہوگئی، جو بڑی عجیب ہوسکتی ہے۔‘‘
’’آخر کیا۔‘‘ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا، بھوریا چرن کا خوف بہر طور دل پرسوار تھا اس کم بخت کے تصور سے کب جان چھوٹ سکتی تھی اور کچھ نہیں تو رامانندی کی زندگی ہی اس کے لیے تکلیف دہ ہوسکتی تھی رامانندی اس کا اظہار بھی کرچکا تھا کہ بھوریا چرن اسے نہیں چھوڑے گا لیکن اطراف پُرسکون نظر آرہے تھے اور بظاہر بھوریا چرن کہیں قرب و جوار میں محسوس نہیں ہوتا تھا۔ رامانندی نے آنکھیں بند کرکے گردن جھٹکی اور کہنے لگا۔
’’کالا جادو سیکھنے کے لیے سب سے پہلا کام دھرم کو کھونا ہوتا ہے۔ دھرم کو ناس کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے گندے گندے کام شروع کئے جاتے ہیں اور دھرم دیوتا کا نام کبھی زبان پر آنے نہیںدیا جاتا یہاں تک کہ عادت پڑجاتی ہے کالا جادو بھگوان کے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف ہی تو ایک گندی کوشش ہے جو طاقت شیطان کو مل گئی ہے اسی طاقت کا ساتھی تو بننا ہوتا ہے اور جب انسان شیطان کا ساتھی بن جائے تو پھر اللہ کا نام یا بھگوان کا نام اس کی زبان پر کبھی نہیں آتا یہاں تک کہ اس کا دل پتھر کی مانند سخت ہوجاتا ہے بھگوان اسے یاد ہی نہیں رہتا میں نے بھی تو یہی سب کچھ کیا تھا، بھگوان کے نام سے اپنا من ہٹالیا تھا اور نجانے کتنا عرصہ ہوگیا کہ میں نے بھگوان کا نام نہیں لیا ہمارے کالے جادو کے دھرم میں اگر اس کا کوئی پاپی دھرم ہے تو بھگوان کا نام لینا سخت منع ہے بلکہ کالے جادو کا تھوڑا بہت علم اس وقت آتا ہے جب بھگوان کے نام سے دوری اختیار کرلی جائے۔ آج تمہاری ماں کاذکر کرتے ہوئے میرے منہ سے بار بار بھگوان کا نام نکل گیا۔ یقین کرو یہ نام میں نے نجانے کتنے عرصے سے نہیں لیا۔ یہ تو مجھ ایسے بھول گیا تھا جیسے… جیسے بس کیا بتائو تمہیں… لیکن تذکرہ ایک ماں کا تھا اور بھگوان کی سوگند ماں بھگوان ہی کا دوسرا روپ ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ بھگوان پھر سے میرے من میں آگیا۔ بار بار میرے منہ سے اس کا نام نکل رہا ہے۔ آہ اس طرح تو میں بھی تمہارا ساتھی ہی بن گیا۔ مسعود بھیا میں بھی تمہارا ساتھی ہی بن گیا کالے جادو کا گیان تو اب ٹوٹ ہی جائے میرا میں خود بھی اس پر لعنت بھیجتا ہوں۔ کیا پاپا میں نے اس سے۔ ابھی تو مکمل بھی نہیں ہوا تھا چھوٹے موٹے کام کرلیتا تھا اور اس کے بعد جوہڑ میں جاپڑا۔ نجانے کب تک پڑا رہتا۔ اگر تمہارے ہاتھوں نہ نکلتا، کیا ملا مجھے اس کالے جادو سے۔ آج بھگوان میرے من میں پھر سے زندہ ہوا ہے تو اب میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ مسعود میں کبھی بھگوان کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ میں بھی اپنے گناہوں سے توبہ کروں گا میں بھی اپنے پاپوں کا پرائشچت کروں گا۔ لو بھیا ایک نہیں دو کھیل شروع ہوگئے، اور یہ کھیل خود بخود نہیں شروع ہوا۔ ماں بیچ میں آگئی ہے، میری ماں نہیں ہے مگر میں تمہیں بھیا کہتا ہوں۔ ماں اپنے اس دوسرے بیٹے کو بھی اپنی دعائوں میں شامل کرلے، ماں صرف مسعود تیرا بیٹا نہیں ہے ایک بیٹا رامانندی بھی ہے اس کے لیے بھی ہاتھ اٹھالے ماں، اس کے لیے بھی ہاتھ اٹھالے۔‘‘ رامانندی ایسا بلک بلک کے رویا کہ میرا دل پانی پانی ہوگیا، میں خود بھی ماں کو یاد کرکے رونے لگا تھا لیکن رامانندی نے کچھ ایسی آہ و زاری کی کہ اپنا سارا دکھ بھول گیا اور اسے دلاسے دیتا رہا۔ ہم دونوں بہت دیر تک روتے رہے تھے۔ رامانندی نے گلوگیر آواز میں کہا۔
’’میری ماں اس سنسار میں نہیں ہے میں نے تیری ماں کا سہارا طلب کرلیا ہے مسعود بھیا… بھیا ہے تو میرا جیون واردوں گا تجھ پر بس اور کیا کہوں، میں ہوں ہی کس قابل۔‘‘ بہت دیر تک ہم جذبات میں ڈوبے رہے رامانندی نے کہا۔
’’چلو چلیں آگے بڑھیں بھوک لگ رہی ہوگی تمہیں بھی میں بھی بھوکا ہوں۔ بھگوان کا دیا کھائیں گے۔ لعنت ہے اس کالی شکتی پر جس کے ذریعے ہمیں سب کچھ مل سکتا ہے مگر ایسا نہیں کریں گے ہم۔ چلو چلتے رہو، چلتے رہو۔‘‘ اور ہم وہاں سے چل پڑے۔ دن گزر گیا شام ہوگئی۔ کچھ فاصلے پر ایک بستی کے آثار نظر آئے تھے اور شام کے جھٹپٹے کے بعد جب سورج ڈوبا تو بستی کے کسی گوشے سے آواز بھری۔ ’’اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر۔‘‘ مغرب کا وقت ہوگیا تھا۔ اذان ہورہی تھی۔ قدم رک گئے رامانندی بھی اس آواز کو سننے لگا، میرے دل میں بھی عجیب سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ میں پھر آگے بڑھنے لگا، دور سے مسجد کے مینار نظر آرہے تھے۔ اس پر لائوڈ اسپیکر لگا ہوا تھا اور غالباً روشنی بھی کردی گئی تھی مگر صرف مینار پر باقی مسجد بھی قدرتی روشنی میں نہائی ہوئی تھی۔ بے خودی طاری ہوگئی قدم تیزی سے اٹھنے لگے۔ مسجد کے قریب پہنچا تو رامانندی نے شانے پر ہاتھ رکھ کر روک دیا۔
’’اندر مت جا مسعود… تو گندا ہے۔‘‘
’’ایں…‘‘ میں چونک پڑا۔ رامانندی کو دیکھا اور پھر ٹھنڈی سانس لے کر رک گیا۔ گردن ہلائی اور کچھ فاصلے پر ایک درخت کے نیچے پہنچ گیا پھر حسد بھری نظروں سے نمازیوں کو دیکھنے لگا۔ چند ہی لوگ آئے تھے ممکن ہے اس بستی میں مسلمانوں کی آبادی کم ہو۔ اندر نماز شروع ہوئی تو بے اختیار کھڑا ہوگیا۔ نیت بندھی تو میں نے بھی نیت باندھ لی ایک بار پھر ذہن پر زور ڈالا اندر قرأت ہورہی تھی مگر میرا منہ بند تھا۔ ذہن بند تھا پاک کلام گندے ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ ہر کوشش ناکام ہورہی تھی۔ سجدے میں پڑگیا بس اسی میں سکون مل رہا تھا۔ نماز ختم ہوگئی نمازی شاید باہر نکل گئے تھے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ سجدے سے سر ابھارا تو دو تین افراد کو قریب کھڑے دیکھا۔ ان میں سے ایک نے سلام کیا تو اسے جواب دیا۔
’’مسجد میں تو بہت جگہ ہے آپ لوگ باہر نمازکیوں پڑھ رہے تھے۔‘‘ اس شخص نے سوال کیا۔