رات اس نے پوچھا تھا
تم کو کیسی لگتی ہے
چاندنی دسمبر کی !
میں نے کہنا چاہا تھا
سال و ماہ کے بارے میں
گفتگو کے کیا معنی ؟
چاہے کوئی منظر ہو
دشت ہو ، سمندر ہو
جون ہو ، دسمبر ہو
دھڑکنوں کا ہر نغمہ
مزاروں پے بھاری ہے
ساتھ جب تمہارا ہو
دل کو ایک سہارا ہو
ایسا لگتا ہے جیسے
ایک نشہ سا طاری ہے
لیکن اس کی قربت میں
کچھ نہیں کہا میں نے
تکتی رہ گئی مجھ کو
چاندنی دسمبر کی.....
ماہ دسمبر کا وسط چل رہا تھا اسلئے سردیاں بھی اپنے جوبن پر تھیں۔رات کے پہلے پہر سلویٰ اور راحب چھت پر بٹھے چاند تارے دیکھ رہے تھے۔یہ عجیب و غریب شوق صرف سلویٰ ابراہیم کے تھے راحب تو محض اسکی وجہ سے بیٹھا تھا۔
سلویٰ ہم اتنی ٹھنڈ میں یہاں چاند تارے دیکھ رہے ہیں ہاو اسٹوپڈ؟
راحب نے سردی سے ہاتھ ملتے کہا۔
ایک فوجی ہو کر اتنی سی ٹھنڈ برداشت نہیں ہوتی آپ سے؟
سلویٰ نے نگاہیں ترچھی کر کے اسے گھورا۔
میں خواہمخواہ خود پر آزمائشیں نہیں ڈالتا۔
آپکو پتا ہے راحب؟
سلویٰ نے بولتے بولتے اپنی شال خود پر لپیٹی اور راحب کے کندھے پر سر رکھ دیا۔
ہمم کیا؟
میں جب گآوں میں تھی نا تو روز چاند تارے دیکھ کر سوتی تھی مگر یہاں بند کمرے میں کچھ نظر نہہیں آتا۔
تو تم مجھے بھی دیکھ سکتی ہو میں کسی چاند تارے سے کم ہوں؟
راحب کی عادت تھی وہ چاہے جتنی بھی شرارتی یا مزاق والی بات کہے اسکا مزاج ہمیشہ سنجیدہ رہتا تھا۔
کیسی کیسی خوشہمیاں ہیں آپکو؟
سلویٰ نے منھ بنایا۔
سوچ لو بیگم کل کلا کو کوئی لڑکی میرے حسن پر مر مٹی میں تو اس سے شادی کر لونگا تم بیٹھی رہنا۔راحب نے ٹھنڈی آہ بھری۔
ایک شادی تو ڈھنگ سے کی نہیں دوسری کہاں سے ہوگی۔اور مجھے پتا ہے آپ میرے ساتھ ایسا کر ہی نہیں سکتے۔
راحب نے سر جھکا دیا۔
سلویٰ؟؟
جی۔۔۔
میں تم سے محبت نہیں کرتا۔۔
جانتی یوں۔
مگر میں یہ بھی جانتی ہوں ہر رشتہ صرف محبت کا نہیں ہوتا۔جیسے شوہر اور بیوی کے رشتے میں بھلے ہی محبت نہ ہو مگر عزت برابری رحم ہو تو وہ رشتہ کامیاب ہے۔
اور اگر یہ سب نہ ہو تو چاہے پھر کیسی شدید محبت ہو رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔
تو میں تمہیں اسی طرح قبول ہوں۔؟
نہ قبول ہوتے تو میں یہاں نہ ہوتی۔
آپکو پتا پے جب آپ نہیں ہوتے مجھے یہاں کچھ اچھا نہیں لگتا ۔
جبکہ ہماری شادی کو صرف ایک مہینہ ہوا ہے اور یہ ہماری تیسری ملاقات ہے۔
آپ میرے شوہر ہیں راحب آپ نے میرا ایمان مکمل کیا ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے کتنا وقت ہجر میں گزرا کتنا وصل میں۔
سلویٰ کی باتوں میں راحب کو ایک مان محسوس ہوا جو وہ بہت کم عرصے میں اس پر کرنے لگی ہے۔
بےفکر رہو میں تمہیں ادھورا نہیں ہونے دونگا۔
اچھا سلویٰ اٹھو اب ورنہ میں تمہیں اٹھا کر لے جاونگا۔
راحب اب کھڑا ہو گیا تھا۔
میں کوئی چڑیا ہوں میں نہیں جاوں گی۔سلویٰ بازو پیچھے کر کے آرام سے بیٹھ گئی۔
اب ایسی کوئی فولادی طاقت بھی نہیں ہو۔راحب جھکا اور سلویٰ کو اٹھا لیا۔
تم واقعی ایک لٹل گرل ہو۔راحب مسکراتا ہوا نیچے جانے لگا۔سلویٰ نے ہنوز منھ بنا رکھا تھا۔
راحب اتاریں مجھے میں چل لوں گی۔
اور تب تک اگلی رات آجائے گی پر مجھے آج سونا بھی ہے۔
وہ سیڑھیاں اترتا اسے بتا رہا تھا۔
نگہت جہاں نے کچن سے نکلتے دور سے انھیں دیکھا تو نم آنکھوں سے مسکرا دیں۔انکی ایک فکر کم ہو گئی تھی وہ لوگ بھلے سمجھوتے میں سہی مگر خوب نبھا رہے تھے۔
جب میں
پہلی دفعہ۔۔!!
تمہارے پہلو میں... '
تمہارے سنگ چل رہی تھی
تو مجھے ہر اس تیسرے شخص کی ۔۔۔،
آنکھوں پہ رشک آیا۔۔۔!!!
جو ہمیں ایک ساتھ دیکھ سکتیں تھیں۔۔!!
ہاں جب ۔۔۔!!
محبت ،محبت کہ پہلو میں سمٹی تھی..!!
تو اس منظر کو دیکھنے والا بھی...!!
خوش قسمت کہلاۓ گا۔۔۔!!!!
تو تمہاری سنگت میں،
میری خوشی کس قدر ہوگی ۔۔
وہ تصویر ہاتھ میں لئے کافی دیر سے راکنگ چئر پر جھول رہی تھی۔
تصویر میں موجود انسان خوبصورتی کی ایک الگ داستان پیش کر رہا تھا۔نیلی آنکھیں بروان شیو براون بال سفید دودھیا رنگت۔وہ کوئی برٹش معلوم ہوتا تھا۔آنکھیں تو وہی تھیں جو اس روز کالج میں نظر آئیں تھی۔
اسکی یاداشت کچھ ایکسٹرا آڑڈینری تھی ایک دفعہ جو چیز نظروں سے گزر جائے بھولتی ہی نہیں تھی۔
تھوڑی دیر بعد اس اندھیر کمرے میں ایک آدمی دستک دیتا داخل ہوا۔
جی میڈم ۔
سلیمانی صاحب کیا معلومات ہے اس لڑکے کی۔
راکنگ چئیر ہنوز حرکت میں تھی۔
مگر دھیان تصوریر پر ناجانے کیا دلچسپی تھی اس میں۔
میڈم اسکا نام۔
ڈینی ہے۔انٹرنیشنل بلوگر ہے۔ہمارے بزنس کی بلوگنگ کیلئے ہمیں دو تین دفعہ اپروچ کر چکا ہے۔
سلیمانی صاحب ایک ہی رو میں بھول گئے۔
تو کیا جواب دیا آپ نے؟
اسکی کرسی تھمی ۔
فلحال کوئی جواب نہیں دیا پینڈنگ پر ہے میڈم ہمارے پاس اس سے زیادہ اعلی درجے کے بلوگر ہیں اسکا ہم کیا کریں گے اسکا اسٹیٹس بھی فریش ہے اور یہ پاکستانی بھی نہیں ہے۔
اسے ہائیر کریں سلیمانی صاحب۔۔انکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بول پڑی۔
پر میڈم اسکی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔وہ ہچکچاتے بولے۔
کب تک ہم ضرورتوں کے محتاج رہے گیں؟
وہ دھیمے مگر سخت لہجے میں جسکا اشارہ سلیمانی صاحب سمجھ چکے تھے۔
جی بہتر۔۔۔۔
وہ جانے لگے تو واپس مڑے۔
میڈم وہ گائناکولوجی ہسپتال کے باے میں آپ سنجیدہ ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچے زندگی کا پہلا اور آخری سانس ایک ساتھ لیں گے۔
وہ ایک دم کرسی سے اٹھی اور کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔
سلیمانی صاحب آپ جانتے ہیں نہ یہ میرا معاملہ نہیں ہے اور میں صرف اپنے کام اپنے سانس اور اپنی ضرورتوں سے جڑی رہتی ہوں۔
جیسا آپکو حکم آیا ویسا کر کردیں۔اور سنیں ۔۔
جی۔۔۔
میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی نا؟
نننہیں میڈم۔۔۔
وہ سر جھکاتا چل دیا جبکہ وہ ایک بار پھر تصویر کا معائنہ کرنے لگی۔
وہ سب ناشتہ کئے باہر لون میں ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
راحب اور کتنے دن یہاں ہو بیٹا؟
نگہت جہاں نے چائے کی چسکی لیتے پوچھا۔
آپ مجھے یہاں بھگانا چاہتی ہیں۔؟راحب ویسا ہی سنجیدہ تھا۔
تم سے کچھ پوچھنا ہی فضول ہے۔نگہت جہاں سخت بد مزہ ہوئیں۔
سلویٰ تم آج راحب کے ساتھ جا کر کالج میں فارم جمع کروا آنا۔
جی خالہ۔
نہیں امی سلویٰ اس کالج میں جائے گی۔راحب ایک دم گویا ہوا۔
کیوں؟
اب بھلا جہاں ثمرین سکندر کا تعلق ہو وہاں سلویٰ راحب احمد نہیں جا سکتی۔یہ بات اس نے صرف دل میں کہی تھی۔
وہ معیاری کالج نہیں ہے میں نے ایک اور کالج دیکھا ہے سلویٰ وہاں وہاں جائے گی۔
اور سلویٰ تو اسی میں خوش تھی کہ راحب اسکے معاملات میں دلچسپی لے رہا ہے۔
جاو سلویٰ تیار ہو جاو۔
نگہت جہاں نے سلویٰ کو بولا تو راحب نے چہرے کے زاوئے بگاڑے۔
ولیمہ تھوڑی ہے ہمارا۔
تم نے موقع ہی کب دیا ولیمے کا بیٹا۔جاو سلویٰ۔
سلویٰ تیار ہونے گئی تو نگہت جہاں نے راحب کی کلاس لی۔
ہر وقت کڑوا بولنا ضروری نہیں ہے بیٹا۔
اچھا نہ امی۔۔۔
نگہت جہاں نفی میں سر ہلا کر کررہ گئیں۔اچھا سنو اب آئے ہو تو سلویٰ کو گاوں بھی لے جانا۔
ہمم لے جاونگا۔
امی آپ ابھی بھی گاوں جانے سے کتراتی ہیں۔
راحب نے اپنی ماں کو دیکھا۔
بیٹا جہاں غلطیوں کے قصیدے لکھے ہوں ان سروں سے انسان گھبراتا ہی ہے۔
امی بھول جائیں اب۔
کوشش کرتی ہوں مگر پھر ناکام ہو جاتی ہوں۔
سلویٰ چادر لئے نیچے آچکی تھی۔
خیر سے جاو بیٹا۔
نگہت جہاں انھیں جاتا دیکھ کر انکے دائمی ساتھ کی دعا گو تھیں۔وہ ہرگز نہیں چاہتی تھیں سلویٰ ان جیسی زندگی بسر کرے۔
راحب ہیڈکوارٹرز میں تو عموما جیپ استعمال کرتا تھا مگر جب واپس آتا تو توگاڑی رینٹ پر لے آتا۔
سب سے پہلے وہ نادرہ آفس گئے جہاں سلویٰ کا آئی ڈی کارڈ بننا تھا۔
راحب ایک دوسرے کالج کا پراسپیکٹس اور ایڈمشن فارم فل کر کے دے آیا۔
سلویٰ گاڑی سے صرف نادرہ جانے کیلئے نکلی البتہ باقی سارا وقت گاڑی میں ہی بیٹھی رہی۔
گاوں جاو گی؟
راحب نے اچانک پوچھا تو سلویٰ سوچ میں پڑ گئی۔
کیا بہت مشکل سوال تھا؟
راحب نے واپس ہوچھا
ابھی مگر۔۔
اگر مگر نہیں جانا ہے تو بتاو؟
ہاں سلویٰ ایک دم خوشی سے بولی۔
سلویٰ نے بھی ہاں میں عافیت جانی پھر ناجانے کب راحب آتا اور عفت جہاں نے بھی اسے اکیلے آنے سے منع کر رکھا تھا۔
اگلے دو گھنٹے بعد وہ گاوں میں تھے ۔
آپ مجھے یہیں اتار دیں۔سلویٰ گاوں کی کچی سڑک پر اتر گئی۔
جبکہ راحب اپنی گاڑی کی ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔
وہ پورے ایک مہینے بعد واپس آئی تھی سب کچھ ویسا تھا مگر اسے نیا لگ رہا تھا۔وہ ب گاوں والوں سے خوشی سے جھوم جھوم کر مل رہی تھی۔سلویٰ کو یاد نہیں آیا اتنی آزادی کھی شہر میں ہو۔وہاں تو بس شور دھواں اور نفسا نفسی تھی۔
وہ اپنے گھر کے دروازے تک آئی۔اور دروازہ زور سے بجایا۔
اور شرارت سے بجاتی چلی گئی۔
ارے ارے کونسی قیامت آگئی ہے۔کون بےصبرا ہے۔عفت جہاں نے دروازہ کھولا تو دیکھتی رہ گئیں۔
سلویٰ؟؟؟؟؟
اماں سلویٰ فورا انکے گلے لگ گئی۔
اکیلی آئی ہے تو ساس شوہر کہاں ہے تیرا؟
اماں اماں وہ پیچھے ہیں گاڑی کھڑی کر کے آرہے ہیں۔
راحب کے ساتھ آئی ہے تو سچ کہہ رہی ہے سلویٰ؟؟
عفت جہاں اسے اندر لے آئیں۔اور حیرت سے ہوچھے گئیں۔
جی اماں تم نے ہی کہا تھا ان کے بغیر نہ آنا۔سلویٰ نے بھی شکوہ کیا۔
لوگوں کا بھی تو منھ بند کرنا ہوتا ہے نا بیٹا اب دیکھ لیں گے نا راحب کو تو میری جان کو بھی سکون ہوگا۔
اسلام و علیکم خالہ!۔
تبھی راحب دروازے پر دستک دیتا اندر آیا۔
عفت جہاں سے مل کر وہ وہیں بیٹھ گئے۔
رسمی دعا سلام کے بعد عفت جہاں کھانے میں لگ گئیں۔
راحب نے بے ساختہ ان سیڑھیوں کو دیکھا جہاں اسنے پہلی دفعہ سلویٰ کو دیکھا تھا اور زرا سا مسکرایا۔
پھر انھوں نے کھانا کھایا کچھ دیر بیٹھے باتیں کیں۔تو راحب جانے کیلئے کھڑا ہوا۔
میں یہیں رہ جاوں؟؟
سلویٰ نے ہلکی سی سرگوشی راحب کے کان میں کی۔
مگر اسکی ایک ہی گھوری پر منھ بسورتی چل دی۔
سلویٰ تیرا جب دل چاہے آجایا کر بیٹا چاہے اکیلی ہی۔
عفت جہاں نے اسے پیار سے گلے لگایا۔اور اطینان سے اسے رخصت کیا۔
اور وہ واپسی پر نکل آئے۔
سلویٰ نے ابھی تک منھ بنا رکھا تھا۔
یہ رہنے والا کیا ڈرامہ تھا؟
میں اتنے دنوں بعد آیا ہوں اور تمہیں یہاں چھوڑ جاتا کیا فائدہ۔سلویٰ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
اس سے پہلے وہ کچھ بولتی راحب کا فون بجا۔
ہیلو۔۔۔
واٹ؟؟؟؟
بلاسٹ؟
کہاں؟؟؟؟؟
گائناکولجیسٹ کے ہسپتال میں؟؟؟
میں بس ابھی آتا وں سر۔۔۔۔
سلویٰ تم یہاں سے کیب میں چلی جاو مجھے کہیں جانا ہے۔
راحب کیا ہوا؟؟
سلویٰ تم جاو میرے پاس وقت نہیں ہے۔
نہیں میں اکیلی نہیں جاوں گی مجھے ڈر لگتا ہے۔
سلویٰ یہ ضد کا وقت نہیں ہے۔
جب سلویٰ کچھ نہ بولی تو راحب نے غصے سے گاڑی گھمائی اور اسے بھی ساتھ لے جانے لگا۔
گھومتے ہوئے سلویٰ نے غور سے راحب کا چہرہ دیکھا۔
یہ شخص ابھی مجھے گاوں نہیں چھوڑ کے آرہا تھا اور اب مجھے اکیلے سڑک پر اترنے کا کہہ رہا ہے۔
اسکی آنکھوں سے نمی چھلکی جو ساتھ والے نے محسوس نہ کی۔
محبت کے تعا قب میں
بالا ۓ طاق رکھ دی تھی !!
انا اپنی ...! خود داری اپنی
مجھے یہ خوش گمانی تھی ...!
کہ تم میری صداؤں پر ......!!
کبھی تو پلٹوگے .....
کسی پل مڑ کے دیکھوگے
بالاآخر .....لوٹ آؤگے
مگر کچھ اس طرح سےتم نے ہنر سیکھا
نظر انداز کرنے کا ....
مجھے مایوس کرنے کا ...
میری تحقیر کرنے کا ...
مجھے تذلیل کرنے کا۔۔۔
مگر چھوڑو بھی جانے دو۔۔۔
یہ تمہارے طرز کی محبت تھی۔۔
فقط اتنا بس بتلا دو۔۔
محبت ھم نے کی تھی نا ؟؟