ﺗﯿﺮﮮ ﮨﺠﺮ ﮐﯽ ﻧﻮﺣﮧ ﮔﺮﯼ،
ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ !!___
ﺍﮎ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺗﯿﺮﮮ ﮨﺠﺮ ﻣﯿﮟ ____
ﻧﻤﺪﯾﺪﮦ ﻟﮑﮭﺘﮯ
ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﺮﻣﺮﺍﮨﭧ ﭘﺮ
ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ _ ﻓﺎﻧﯽ ﮐﺎ
ﺑﮩﺖ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ __ ﺑﮩﺖ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺳﺎ،
ﻗﺼﯿﺪﮦ ﻟﮑﮭﺘﮯ
ﮔﺮ ﻟﮑﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﮬﻢ ﺗﻮ !!
ﺷﻮﺧﺊ _ ﺩﻭ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﻮ ___
ﺳﻨﺠﯿﺪﮦ ﻟﮑﮭﺘﮯ
ﺳﺎﺭﮮ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﻮ
ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ
ﭘﮭﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ____
ﺭﻧﺠیدﮦ ﻟﮑﮭﺘﮯ
ﮬﻢ ﺍﮔﺮ ﻟﮑﮭﺘﮯ !!___
ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻟﮑﮭﺘﮯ
ﺍﺳﮑﮯ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺷﻮﺭﯾﺪﮦ ﮐﮩﺘﮯ
ﺍﻧﮑﯽ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﮭﯿﻠﯿﮟ !!__
ﺍﺳﮑﮯ ﺳﺎﺣﻠﻮﮞ ﮐﻮ ___
ﺁﺑﺪﯾﺪﮦ ﻟﮑﮭﺘﮯ
ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﻓﻘﻂ ﺍﺗﻨﯽ ﮬﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ !!_____
ﺗﯿﺮﮮ ﮨﺠﺮ ﮐﯽ ﻧﻮﺣﮧ ﮔﺮﯼ ____
ﮨﻮﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻢ ﺳﮯ
سلویٰ اس حادثے کے بعد بہت ڈری اور چپ چاپ تھی۔چندہ اور نگہت جہاں نے اسے بہت پوچھا مگر وہ ٹال گئی۔وہ گھر واپس آتے ہی کمرے میں چلی گئی اور بیڈ سے ٹیک لگا کر رونے لگی۔پھر سے اتنے دن ہو گئے تھے اس پر وہی پرانی وحشت طاری ہونے لگی تھی۔وہ زور زور سے رونے لگی ۔اسے ناجانے کیوں راحب یاد آرہا تھا۔
وہ روتے کبھی اماں کا نام لیتی تو کبھی راحب کا۔
راحب پلیز واپس آجائیں۔۔۔۔۔
مجھے اماں کے پاس جانا ہے۔۔۔
مجھے نہیں رہنا یہاں اماں ٹھیک کہتی تھیں شہر کے لوگ بہت سفاک ہوتے ہیں انکے خون سفید ہوتے ہیں۔
مجھے واپس میرے گاوں جانا ہے۔۔۔۔۔
راحب۔۔۔۔۔۔۔
میں کیا کروں کیسی عجیب زندگی ہے میری بھلا کون رہتا ہے اپنے شوہر کے بغیر سسرال میں۔۔۔۔
دن بدن لگتا ہے کہ کوئی بوجھ مجھ پر بڑھ رہا ہے مجھے نہیں رہنا یہاں۔۔۔۔
وہ خود کلامی کرتی پھر سے رونے لگی۔
اسکا دل شدت سے چاہا تھا کہ کہیں سے کوئی معجزہ ہو اور راحب اسکے سامنے آجائے۔اور وہ سارے دکھ اسے سنا دے
وہ اتنے دنوں سے نگہت جہاں اور چندہ سے بے تکلف نہیں ہوئی تھی جتنا راحب کو اپنے قریب محسوس کرنے لگی تھی۔
کیا زرا خیال نہیں آتا انھیں میرا اتنے کونسے کام کرتے ہیں وہ۔۔۔
رو رو کر جب وہ تھک گئی تو وہیں بیڈ کے کنارے بیٹھ کرکب اسکی آنکھ لگی اسے معلوم نہ ہوا۔
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہورِ ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
راحب سلویٰ کی حالت دیکھ کر کافی ڈسٹرب ہو چکا تھا۔
جاتے ہوئےاسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔
مجھے بتا دینا چاہئے تھا کہ میں ہوں۔۔۔۔پر اتنی بھی کیا اجنبیت وہ مجھے پہچان نہ پائے۔
وہ ایک عام سیٹیزن ہے عقابی نظر اور گہری پرکھ والا میجر راحب تھوڑی ہے۔۔
راحب ناجانے کب اتنا اونچا بڑبڑاگیا کہ ائیر پیس میں کنکٹ زایان نے بخوبی اسکی بات سن کر جواب دیا۔
تم میری باتیں سن رہے ہو۔۔۔راحب غصے سے بولا۔
شکر کرو بس سن رہا ہوں ریکاڑڈ نہیں کر رہا۔
زایان نے بھی ایفیشنسی دکھائی۔
اوہ آفیسر زایان حاکم میں آپکا یہ احسان کیسے اتاروں گا۔
راحب نے طنز کیا۔
چلو ڈنر کروا دینا کے ایف سی سے۔
بات سنو میں کوئی ملین ائیر نہیں ہوں چند ہزار تنخواہ لینے والا ایک ایماندار فوجی ہوں۔کسی ڈھابےسے دال روٹی کھلا سکتا ہوں۔
راحب نے بھی احسان برابر کیا
جاو یار ندیدے ۔۔۔۔ویسے بھابھی کے خیالوں میں کھوئے تھے نا۔
زایان نے نے اسے چھیڑا۔مگر راحب خاموش رہا۔
اچھا کہاں ہو تم؟
وہیں کالج کے باہر کھڑا ہوں ۔وہ ثمرین سکندر اندر ہے۔۔
راحب تم کیا اسکے گاڑڈ لگے ہو اندر جاو نا۔زایان نے گویا اسے یاد کروایا۔
زایان حاکم میں یہاں ایک عام انسان بن کے آیا ہوں اور مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
ایک لڑکی کے خیالوں میں دوسری لڑکی کے انتظار میں کھڑے ہو کیا زندگی ہو گئی ہے راحب تمہاری۔
زایان نے ایک فلق شگاف قہقہ لگایا۔
بہت عمدہ مجھے بہت لطف آیا آپکی یہ مضحکہ خیز بات سن کر ۔۔راحب نے دانت پیسے۔
یار ایسے نہ کہا کرو ورنہ میرے احسانوں تلے دب جاو گے۔
جاو کام کرو مجھے بھی کرنے دو۔۔۔۔
اچھا راحب ایک بات کہوں؟؟
ہزار باتیں بغیر اجازت ہی کر چکے ہو تم۔۔
تم کچھ دن کیلئے گھر چلے جاو اب ایسی بھی کوئی قیامت نہیں ٹوٹی پڑی یہاں ہم سب کام جاری رکھیں گے۔
تم انسان ہو مشین نہیں اور ویسے ہی انسان میں جزبات ختم ہونا ایک انہونی سی بات ہے اسلئے انہیں کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ختم کرنے کی نہیں۔
پر۔۔۔۔
پر کیا کچھ دن کیلئے چلے جاو تمہاری ماں بیوی کا بھی حق ہےتم پر۔
ہمم ۔۔۔راحب بس اتنا ہی کہ پایا۔
میں جنرل مرزا سے اجازت لے لونگا تم وہیں سے گھر چلے جاو ۔
یہاں سے ایسے کیسے؟راحب کا دل یہاں سے جانے کا بلکل نہیں تھا۔
اگر تم وہیں سے ہیڈکوارٹر آئے اور کسی کی نظر میں آجاو گے۔
زایان کی بات پر راحب کا سر گھومنے لگا۔
ویسے زایان یہ ایک انتہائی بے تکا لاجک تھا اینیویز میں گھر چلا جاوں گا۔
ہاں اور کام کی ٹینشن نہ لینا میں سمبھال لونگا۔
راحب جانے کیلئے پلٹا۔
تب ہی ثمرین سکندر کی نفری واپس آتی دکھائی دی۔
وہ مسکراتے ہوئے کسی سے بات کر رہی تھی جب اسکی نظریں دور کھڑے راحب سے ملیں۔پل بھر کیلئے مغرور گولڈن آنکھوں نے راحب کی سیاہ نڈر آنکھوں میں دیکھا اور پھر وہ سر جھٹکتی فون سننے لگی۔
اگر وہ اتنی دور کھڑے راحب کی نظریں خود پر محسوس کر سکتی ہے تو اس سے زیادہ شاطر اور چوکنا کون ہو سکتا ہے۔یہ راحب احمد کی ذاتی رائے تھی۔
وہ وہیں سے گھر کو نکلا۔
اور تھوڑی دیر بعد احمد ہاوس کے سامنے تھا۔
وہ اندر داخل ہوا تو وہ خاموشی کہیں نہیں تھی جو ازل سے گھر میں رہی تھی۔اسے آج اپنا گھر کچھ نیا نیا محسوس ہوا۔لانج میں نگہت بیگم اونچی اونچی آواز سے سلویٰ پکار رہی تھیں۔مگر وہ ناجانے کہاں تھی۔
مجھے بھی بلا لیا کریں کبھی"
راحب کی آواز پر نگہت جہاں پلٹیں اور خوشی سے دھری ہو گئیں۔
راحب میرا بچہ!۔
وہ اس سے مل ر رونے لگیں۔
خالہ اب رو کیوں رہی ہیں دیکھیں شادی کیا ہوئی راحب بھائی مہینے میں ہی آگئے۔
ہاں بہت زبان چلتی ہے تمہاری پڑھائی بھی کرتی ہو یا نہیں۔
پڑھتی ہوں بھائی۔
وہ لوگ صوفے پر بیٹھ گئے۔کوئی نہیں پڑھتی یہ بس ہر وقت سلویٰ کا دماغ کھاتی رہتی ہے۔نگہت جہاں نے بھی اسے گھورا۔
بھائی میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔
چندہ چائے بنانے کیلئے گئی۔
شکر ہے بیٹا تم آگئے ورنہ میں تو پریشان ہو گئی تھی۔
کیوں امی کیا ہوا۔
کے بعد تم آئے نہیں مجھے لگا اب اببی بھی چھ سات ماہ بعد آو گے۔
اب آئے ہو تو رک کے جانا۔
راحب چپ چاپ انکی باتیں سن رہا تھا۔تب تک چندہ چائے بھی لے آئی۔مگر وہ اسے کہیں دکھائی نہیں دی۔
جاو بیٹا تم فریش ہو جاو میں کھانا بناتی ہوں۔
شکر ہے بھائی کو بھی آزادی کا ہروانہ ملا۔
راحب کی ایک گھوری پر ہی چندہ کچن میں بھاگ گئی۔
وہ کمرے میں آیا تو پہلے اسے یوں لگا کہیں اور آگیا مگر یہ اسی کا کمرہ تھا۔
وہ سفید کمرہ اب رنگوں میں ڈوبا تھا۔
ریڈ کارپٹ کے ساتھ ملحقہ سکن پردے اور سکن شیٹ
کتابوں کی شیلف ایک ہی قطار میں کھڑی تھیں۔
سارے کمرے پر نظر ڈالنے کے بعد اسکی نگاہ بیڈ کے کونے سے ٹکی سلویٰ پر پڑی۔
یہ زمین پر کیوں سو رہی ہے۔سلویٰ کی دن والی چادر زمین پر پڑی تھی ۔
راحب آگے آیا تو اسکی حالت دیکھے گیا۔
بکھرے بال آنسووں سے تر چہرہ لئے وہ گھٹنوں کے بل بیٹھی سو رہی تھی۔
اسکی حالت کسی سیل میں بند مجرم جیسی تھی۔
راحب پیروں کے بل اسکے پاس بیٹھا۔اور اسکا گال تھپتھپایا۔
سلویٰ؟؟
سلوی؟؟
مگر سلویٰ نہ اٹھی راحب نے زور سے کندھے جھنجھوڑے تو وہ تھوڑا ہوش میں آئی۔
وہ زرا زرا ہوش میں آئی تو اسکے سامنے راحب کا چہرہ لہرایا۔
ررراحب۔۔۔۔
اسنے اپنا ہاتھ بڑھا کر راحب کر چہرے پر رکھا گویا ہ سچ ہے یا خواب ۔
راحب نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تو اسے یقین آیا کہ وہ سچ ہے وہ راحب کے سینے سے لگ گر زار و قطار رونے لگی۔
راحب کسی خوابی کیفیت میں تھا۔
مرے یاقوت اور مرجان مرشد
تمہارے نام پر قربان مرشد
کسی لمحے بھی رد ہوتا نہیں ہے
تمہارے وصل کا امکان مرشد
اچانک آئیے اور آئیے یوں
مجھے کر دیجئے حیران مرشد
مسلسل سر اٹھانے لگ گئے ہیں
مرے اندر کے یہ طوفان مرشد
ہے میری شاعری اس کے سوا کیا
مرے ہر شعر کا عنوان مرشد
سلویٰ کیا ہوا؟
راحب اسکا سر سہلاتا پوچھ رہا تھا۔
مگر سلویٰ کی ہچکیاں نہیں رک رہی تھیں اور نا وہ راحب کو چھوڑ رہی تھی۔
اچھا مجھے چھوڑو تو سہی۔
نہیں آپ پھر چلے جائیں گے۔سلویٰ ضدی بچے کی طرح بولی۔
ابھی تو آیا ہوں کہیں نہیں جاوں گا۔
آپ اس دن بھی چلے گئے تھے آپ آج بھی چلے جائیں گے۔
سلویٰ مسلئہ کیا ہے یہ بتاو۔راحب نے اسے پیچھے کرنا چاہا مگر سلویٰ نے گرفت مضبوط کر دی۔
مجھے یہاں نہیں رہنا آپ مجھے اماں کے پاس چھوڑ آئیں۔۔۔
کیوں یہاں کیا ہے؟
راحب بھی اب اسی کی طرح نیچے بیٹھ گیا کیونکہ اسے چھوڑ نہیں رہی تھی۔
یہاں کے لوگ بلکل اچھے نہیں ہیں۔
راحب کو اپنے سینے سے اسکے منمنانے کی آواز آئی۔
کیا کر دیا یہاں کے لوگوں نے۔؟
یہاں کے لوگ بھرے بازار کبھی بھی کسی کا بھی ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔
سلویٰ نے اپنی آنکھیں ڑگڑیں راحب نے مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کیں۔
اوہو کس نے پکڑ لیا میری بیوی کا ہاتھ ؟راحب نے خود کو سنجیدہ ظاہر کیا۔
تھا ایک بدتمیز جاہل انسان آپکو ملا نہ تو اسکو پکڑ کے مارنا۔
ہاں بلکل اسکی شکل بگاڑ دونگا۔آفٹر آل میں تو اس شہر کا جانا غنڈا ہوں۔
ہیں سچ میں؟
سلویٰ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
تمہیں میرے ساتھ جانا چاہئے تھا کیوں گئ اکیلی اچھا ہوا۔
راحب نے اسے گھورا۔
بس پھر مجھے واپس بھیج دیں۔
سلویٰ نروٹھے انداز میں بولی۔
ہاں تو جاو بھئی ایسی بےمروت بیوی کا میں کیا کرونگا جو آتے ہی زمین پر بٹھا دے ۔جب بھی آو روتی رہتی ہے ۔
سلویٰ نے شرمندگی سے سر جھکا لیا جبکہ اسنے ابھی بھی راحب کو مضبوطی سے پکڑا تھا گویا وہ کہیں چلا نہ جائے۔
۔امی سےکہتا ہوں اپنی ایلفی بہو کو سمبھالیں خود ہی۔
راحب اٹھنے لگا تو سلویٰ نے اسے پھر بھی نہیں چھوڑا۔
ایلفی کسے کہا آپ نے؟
تمہیں جب دیکھو چپکتی چلی جاتی ہو نہ موقع دیکھتی ہو نہ وقت۔
جی نہیں میں نے وہ والا نہیں پکڑا۔سلویٰ اردگرد دیکھنے لگی۔
تو پھر ؟
وہ آپ چلے جاتے ہیں ہمیشہ اسلئے۔
اچھا تو ہم ساری زندگی یوں ہی بیٹھے رہتے ہیں سارے کام کاج چھوڑ کے۔
راحب کے ماتھے پرشکنیں در آئیں۔تو سلویٰ نے اسے چھوڑ دیا۔
نہیں جائیں آپ کریں کام۔سلویٰ اٹھنے لگی۔
جب راحب نے اسے واپس کھینچ کر بٹھا دیا۔
آہہہ میرا بازو توڑ دیا آپ نے۔سلویٰ بازو مسلنے لگی۔
مجھے کہہ کے خود کیوں اٹھ رہی ہو۔؟؟
اچھا تو ہم ساری زندگی یوں ہی بیٹھے رہتے ہیں سارے کام کاج چھوڑ کے۔سلویٰ نے اسکا جملہ اسی کی نقل اتارتے بولا۔
راحب نے ایک قہقہ لگایا۔اور سلویٰ بھی ہنسنے لگی۔
اچھا اب بتاو مجھے اصل مسلئہ کیا ہے؟
سلویٰ بال کان کے پیچھے اڑیستے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
ہہہے لٹل گرل کیا تم مجھے مس کر رہی تھی؟
راحب سلویٰ کے قریب ہوتے ہوئے بولا۔
یہ سب اسی کا غبار تھا؟
نننہیں تو۔سلویٰ بات ٹال گئی۔ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں۔
راحب اٹھنے لگا سلویٰ نے اسکا بازو پکڑ لیا اور پھر رونے والا منھ بنانے لگی۔
راحب پلیزززز۔
وہ بیٹھا تو سلویٰ پھر اس کے گلے لگ گئی۔
ہونہہ ایلفی سی۔راحب نے منھ بنایا اور اسکے سر پر پیار دے کر گرفت مضبوط کر دی