ایک اور بیزار اکتائی ہوئی صبح نے سلویٰ کا استقبال کیا۔اس نے اٹھ کر طائرانہ نگاہ کمرے پر ڈالی جسے وہ اتنے دنوں سے سجا سجا کر رکھ رہی تھی۔
آج اسے خود ہی اپنی محنت بیکار لگنے لگی ۔
"کیا فائدہ سلویٰ تو نے خود ہی تو دیکھنا ہوتا ہے اس کمرے کو جیسا بھی ہو چلے گا"۔بیڈ سے اٹھ کر اسنے اپنے بال جوڑے میں مقید کئے۔نیچے سے ایک شور سا اٹھ رہا تھا جیسے کوئی آیا ہو۔سلویٰ نے دیدے پھاڑے اور بنا کچھ سوچے سمجھے نیچے کو دوڑی۔لاونج میں کوئی نہیں تھا شائد سب باہر لون میں تھے۔وہ باہر آئی تو نگہت جہاں کسی لڑکی کے گلے مل رہیں تھیں۔
سلویٰ انھیں نظر انداز کرتی گیٹ کی طرف لپکی۔جہاں ایک آدمی بہت سا سامان ٹرک سے اتروا رہا تھا۔
"ارے سلویٰ وہاں کیا کر رہی ہو ادھر آو۔
سلویٰ کھوجتی نگاہوں سے واپس آئی ؟
خالہ کون آیا ہے؟وہ خوشی سے پوچھنے لگی۔
یہ لوگ۔نگہت جہاں نے اس لڑکی کی طرف اشارہ کیا تو سلویٰ کا منھ اتر گیا۔
"بس؟
اور بےاختیار اسکے منھ سے نکلا۔
اور کسی نے بھی آنا تھا کیا؟نگہت جہاں نے حیرت سے سلویٰ کو دیکھا۔
نہیں میں تو ویسے ہی۔پیچھے سے چندہ کا قہقہ بلند ہوا۔
چچچچ میری پیاری بھابھی۔
سلویٰ نے ماتھے پر بل ڈالے چندہ کو گھورا۔
اچھا سلویٰ یہ میری سہیلی کی بیٹی ہے یہ اپنے شوہر کے ساتھ پیچھے والی انیکسی میں پیئینگ گسٹ بن کے رہیں گے۔
اور نور یہ میری بہو سلویٰ راحب احمد۔
نگہت جہاں کے اسکا یوں مکمل نام لینے پر دل زور سے دھڑکا۔
سلویٰ اور نور نے سلام دعا کی تو سلویٰ منھ بسورتی اندر آگئی۔
جہاں چندہ نے نئی ہی محفل سجا رکھی تھی۔
دل کے ارمان آنسووں میں بہہ گئے
ہم انتظار کر کے بھی تنہا رہ گئے۔
چندہ تم مجھ سے مار کھا لو گی اب۔سلویٰ نے دانت پیسے۔
یہ رعب راحب بھائی پر رکھا ہوتا نا تو آج یہ مایوسی نہ ہوتی۔
فضول مشورے پاس رکھو مجھے ناشتہ بنانے دو۔
وہ تو ٹھیک ہے بھابھی پر ۔۔۔۔۔۔
پر کیا؟؟
پر یہ کہ آپ راحب بھائی کی آس میں بغیر منھ ہاتھ دھوئے نیچے آگئی ہیں۔
سلویٰ کھسیانی ہوتی اسے گھورتی کمرے کو جانے لگی۔پر چندہ کے قہقہے پر اسے کشن مارنا نہیں بھولی تھی۔
S.S.S3
پاکستان کی سب سے بڑی امپورٹ ایکسپوڑٹ کمپنی ہے جو اس وقت اربوں ڈالرز کما رہی ہے۔مگر امپوڑٹ ایکسپوڑٹ کے بزنس میں نہیں بلکہ اسکی آڑ میں ملکی راز بیچ کر۔
راحب چند دن میں فائیل اچھی طرح سٹڈی کر چکا تھا اور اب وہ کراچی سے جمع کی گئی انفارمیشن کا اس میں اضافہ کر کرنے لگا
ایس ایس ایس تھری مطلب؟
آفیسر زایان نے جواب طلب کیا۔
اسکا مطلب ثمرین سکندر شاہ۔اس کمپنی کی مالکہ اور ملکی غدار۔
راحب کے لہجے میں اسکے لئے عجیب سی نفرت تھی۔
کراچی کے انتہائی خستہ علاقے میں پیدا ہونے والی ثمرین ایک چور کی بیٹی تھی۔جس کا نام ریکاڑڈز میں شامل نہیں ہے مگر خیر جلد پتا چل جائے گا۔
اور میں اتنی انفارمیشن کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے خاص آفیسر بھی اسی کی قید میں ہیں۔
راحب نے وہ فائل دوبارہ جنرل مرزا کی طرف سرکائی۔
مگر سر میرا خیال ہے انھیں شک نہ ہو اسی لئے ہمیں مزید آفیسر اپنی ٹیم میں شامل نہیں کرنے چاہئے۔
مگر آفیسر زایان آپ دونوں بیک وقت اتنے کام کیسے کیں گے۔
جنرل مرزا مجھے لگتا ہے زایان ٹھیک کہہ رہا ہے ناجانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کوئی ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
پھر ٹھیک ہے ہم کچھ خفیہ بندے رکھ لیتے ہیں ہیڈکواڑٹر سے دور۔
جنرل مرزا کی اس بات پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔
ہمارے مشن کا سب سے اہم حصہ آپکو بھیس حلیہ نام پتا سب تبدیل کر کے ثمرین سکندر شاہ کو گمراہ کرنا ہے۔
آپ دونوں میں سے کون یہ فریضہ ادا کرے گا اٹس اپ ٹو یو۔
میں سر۔۔۔زایان کے بولنے سے پہلے ہی راحب بول پڑا۔
ڈن۔
تو مشن
S.S.S 3
سٹارٹ!۔
یس سر۔
یہ رہی آپکی فائل راِحب آپ اب ایک غیر ملکی بلوگر بن کر ثمرین سکندر کے پاس جائیں گے جسے اسکے بزنس میں بہت دلچسپی ہوگی۔
مگر آج اس پہلے آپ ثمرین سکندر کو دیکھ پرکھ لیں۔
وہ آج راولپنڈی وومن یونیورسٹی آئے گی وہاں وہ ہر سال ڈونیشن کرتی ہے۔
مگر یاد رہے آپکو حلیہ بدل کر جانا ہے۔
یس سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ سارا دن مشن کی تیاریاں کرنے میں لگے رہے۔راحب ابھی لیپ ٹاپ کے آگے بیٹھا تھا زایان نے اسے گھیر لیا۔
میرا خیال ہے تمہیں یہ اتنی بڑی زمہ داری ابھی نہیں لینی چاہئے۔
راحب نے نظریں اٹھا کر زایان کو دیکھا۔
کیوں ابھی کیا ہے؟
یار راحب تمہاری تمہاری ابھی شادی ہوئی ہے۔
تمہاری بھی تو ابھی ہی ہوئی ہے۔
میری بات الگ ہے میں چند ہفتے گزار کر آیا ہوں مگر تم نے تو اپنی بیوی کو محض شادی کی سوغات میں انتظار کی سولی ہر ٹانگ رکھا ہے۔
گیا تھا میں کچھ دیر کیلئے۔
تو چند گھنٹوں میں نبھا آئے تم سارے فرض اپنے اور اب تم جس کام میں پڑ گئے ہو شائد مہینوں نہ جا سکو۔
وہ میرا انتظار نہیں کر رہی ہوگی۔زایان۔
اور تم تمہیں بھی یاد نہیں آتی حیرت ہے ای شخص اپنی شادی تک میں نہیں گیا۔پھر بیوی کو چند گھنٹء شکل دکھا کر اس گمان میں ہے کہ اسکی بیوی اسکا انتظار نہیں کر رہی ہوگی۔
مشن سے پہلے راحب ایک دفعہ گھر ہو آو ناجانے بعد میں کن کن طوفانوں سے گزرنا پڑے۔
زایان تو اسے سمجھا کر چلا گیا مگر وہ ایک سوچ میں پڑ گیا۔
اسی لئے منع کیا تھا امی کو۔
اسنے چہرہ اٹھا کر آسمان کو دیکھا وہ تھا اپنے گھر سے محض دو گھنٹوں کی دوری پر مگر وہ دو گھنٹ صدیوں کی مسافت کا درجہ رکھتے تھے۔
کیا واقعی سلویٰ میرا انتظار کرتی ہوگی مجھے یاد کرتی ہوگی۔پر ایک ہی ملاقات کے بعد کیسے؟؟؟
وحشتِ شب کہ تھپیڑے میرے تنفس سے داخلیت میں ہیں !!
آج آسماں پہ چندا نہیں ہے !
بادلوں نے چھپا لیا ہے
کہ باہوں میں شاید سلا دیا ہے !!
چھت پہ بیٹھے تم سے میلوں دور
تمہاری آنکھوں کی چمک میں دیکھ سکتا ہوں
سگریٹ جو بے حد عزیز ہے مجھے
تمہاری اک صدا پر اب بھی پھینک سکتا ہوں !!
سوچتا ہوں کہ !! واں پر
گال کہ نیچے ہاتھ کو دابے
گہری نیند میں جا کر
تم کیسے سپنے دیکھتی ہوگی ؟
کیا مجھ کو اب بھی سوچتی ہوگی ؟
سلویٰ کا رزلٹ کسی بن بلائے مہمان کی طرح اگلے دن ہی دھمکا۔
وہ پاس ہوگئی تھی بہت اچھے نمبروں سے۔وہ خوشی سے اچھلتی پہلے نگہت جہاں کے گلے لگی پھر چندہ کے۔
مبارک ہو بیٹا اپنی اماں کو بتایا۔
جی خالہ میں نے بتایا وہ بھی آئیں گی کل۔
بھابھی اس بات پر یہ کھیر کھائیں ۔سب نے منھ میٹھا کیا۔
بھئی خالہ آج ہی بھابھی کو بازار لے جائیں۔
انکا ایڈمیشن بھی کروائیں اور شاپنگ بھی۔
ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو سلویٰ بھی کہہ رہی ہوگی جب سے شادی بعد آئی ہے کہیں گئی نہیں۔گھر ہے یا قید خانہ ۔
یہ سب کام تو راحب کے ہیں پر خیر۔
نگہت جہاں افسردہ سی مسکرائیں۔
سلویٰ کی خوشی بھی پل میں ہوا ہوئی۔
میں تیار ہو کر آتی ہوں خالہ۔
سلویٰ اٹھ کر چلی گئ۔
خالہ آپ بھی نہ راحب بھائی کا نام لیکر بھابھی کا موڈ آف کر کردیا۔
چندہ نگہت جہاں کی کلاس لینے لگی۔
سچ عادت ہو جائے نہ ایک دفعہ پھر وہ زیادہ کڑوا یا برا نہیں لگتا سلویٰ کو بھی اس سچ کی عادت ہونی چاہئے۔
وہ بھی اٹھ کر چلی گئی تو چندہ گہری سوچ میں پڑ گئی۔
سلویٰ اور نگہت جہاں کی کہانی ایک جیسی ہی تو تھی۔
دونوں کے شوہروں نے وطن کی خدمت میں وقف کر دیا۔
آخر ملتا ہے کیا ان فوجیوں کو اس سب کے بدلے چند ہزار کی تنخواہ۔
اپنی جوانی خاندان بچے شوق سب تیاگ کر وہ وطن کی حفاظت کرتے ہیں ۔اور پھر بھی لوگ کہتے ہیں اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے۔
کوئی ان جیالوں سے پوچھے کہ کس جزبے کے تحت وہ اتنے بہادر ہو گئے ہیں کہ جان ہتھیلی پر لئے گھومتے ہیں۔اور کیا یہ عشق جنون ہر کسی کے بس کی بات ہے۔کیا اس فوجی کی بیوی سے زیادہ کوئی صابرہ بیوی ہے شوہر کی دوری تو اچھی اچھی بیویوں کو نفسیاتی بنا دیتی ہے۔تو یہ اتنا صبر کہاں سے لاتی ہیں۔چندہ کی سوچیں کسی برے دن کی طرح بڑھتی جارہی تھیں وہ جان گئی تھی اس میں سلویٰ یا نگہت جہں جتنا حوصلہ نہیں ہے کیونکہ یہ ہر کسی کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔
دل کو جو تم نے دفنایا ہے،
اتنا صبر اتنا حوصلہ کیسے کمایا ہے ؟؟
تھوڑی دیر بعد سلویٰ آئی تو اسکا موڈ کچھ بہتر تھا آخر جس خواہش کیلئے اتنا صبر کیا تھا آج وہ پوری ہونے لگی تھی۔
نگہت جہاں چندہ اور سلویٰ گھر سے نکلے اور ٹیکسی لئے کالج کی طرف جانے لگے۔میرا خیال ہے پہلے شاپنگ کر لیتے ہیں کیا پتا وہاں کتنا وقت لگے۔
چندہ نے ٹیکسی بازار میں رکوائی تو وہ لوگ اتر آئے۔
بازار گچا گچ لوگوں سے بھرا تھا۔سلویٰ پہلی بار کسی اتنے بڑے بازار میں آئی تھی بلکہ وہ تو شہر ہی ب پہلی بار نکلی تھی۔
اسنے سختی سے چندہ کا ہاتھ پکڑ لیا کہیں کھو ہی نا جائے البتہ ٹیکسی میں بیٹھیں اسے اسلام آباد کی سڑکیں خوب بھائی تھی جسکی اسنے دل کھول کر تعریف کی تھی۔
میجر راحب آر یو دئیر؟؟
یس سر میں اسلام آباد کے اس کالج میں پہنچ آیا ہوں۔یونیورسٹی سے پہلے وہ یہاں آنے والی تھی اسلئے میں یہیں آگیا۔اسنے ائیر پیس درست کیا ۔
اوکے بی کئیر فل۔۔۔
راحب نے سر پر پی کیپ اور منھ ہر ماسک کے ساتھ سر کو ہوڈ سے چھپا رکھا تھا۔اب اسکے فرشتوں کے علاوہ شائد ہی کوئی پہچان سکتا۔
وہ آدھے گھنٹے سے یہاں کھڑا تھا۔تبھی کالج کے باہر کچھ شور رونما ہوا راحب چوکنا ہوا۔
بہت سی گاڑیاں قطار میں آکر کھڑی ہو گئیں ۔کم از کم درجن کے قریب تو تھیں۔
پہلی پانچ گاڑیوں میں سے کچھ سیکیورٹی گاڑڈ نکلے اور پچھلی چند میں سے کچھ خاص لوگ مرد خواتین شامل تھے۔
اتنا پروٹوکال تو شائد بیچارے ہمارے وزیراعظم کا بھی نہ ہوگا۔راحب تنفر سے گویا۔
اور پھر ایک درمیان والی گاڑی سے کوئی بلا براآمد ہوئی۔خوبصورت بلا۔
وہ گاڑی سے باہر نکلی توسب اسکے آگے پیچھے جمع ہوگئے۔راحب کی راہ میں حائل لوگ اسے زہر لگ رہے تھے۔وہ تھوڑا اور آگے کو ہوا۔اور پھر وہ اسے دکھ ہی گئی۔
مہرون کیپری ہر سفید قمیض اور ساتھ لمبا مہرون دوپٹہ جو ایک سائیڈ پر جھول رہا تھا۔
لمبے گولڈن بالوں میں گہری مانگ نکال کر انھیں ایک طرف سے آگے کر رکھا تھا۔سفید و چمکیلی رنگت پر سیاہ چشمے لگائے وہ بہت سنجیدہ اور صوبر دوشیزہ معلو ہوتی تھی۔
اسکی خوبصورت کے چرچے تو راحب نے سن سکے تھے مگر آج دیکھ بھی لئے۔
وہ ایک بلا کی خوبصورت ستائیس سالہ لڑکی تھی۔
پل بھر میں راحب کہیں کھو گیا تھا۔خوبصورتی واقعی ایک فتنہ ہے وہ ہلکا سا بڑبڑایا۔
ثمرین سکندر شاہ نے اپنا چشمہ اتار کر سر پر ٹکا دیا اور ہلکا ہلکا مسکراتی سب سے مل رہی تھی۔
وہ اسی کے ٹرانس میں تھا جب وہ چل کر اندر بڑھ گئی اور کہیں پیچھے سے اسکی حقیقت رونما ہوئی۔راحب نے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں مگر وہ واقعی حقیقت تھی اور سلویٰ ہی تھی۔لمبی سی چادر میں خود کو چھپائے اور چندہ کا ہاتھ سختی سے پکڑے وہ کوئی چھوٹی بچی معلوم ہوتی تھی جو کسی میلے میں کھو گئی ہو۔
راحب نے ایک نظر اندر جاتی ثمرین کو دیکھا کتنا اعتماد میچورٹی تھی اس میں اور پھر سلویٰ کو جہاں معصومیت اور ڈر خوف تھا۔
ثمرین سکندر شاہ کے پیچھے کافی رش لگ چکا تھا نگت جہاں کا فون بجا تو منظر سے ہٹتی فون سننے چلی گئی۔بھیر میں دھکے کھاتی سلویٰ کا ہاتھ چندہ کے ہاتھ سے چھوٹا تو ان سے دور ہوتی گئی۔
راحب دور کھڑا یہ سب مناظر دیکھ رہا تھا۔
اسے ثمرین کے پیچھے اندر جانا تھا۔پر سلویٰ ۔۔۔
اس نے سب پر مٹی ڈالتے ایک قدم اندر بڑھایا تو دو واپس لئے۔
اسے بھیڑ میں یوں حواس باساختہ ہوتا دیکھ رہا تھا۔ایک وہ تھی ثمرین جس کے پیچھے دنیا بھاگ رہی تھی ایک تھی سلویٰ جسے لوگ روندھتے ہوئے آگے بڑ ھ رہے تھے۔
راحب لمبے لمبے قدم لیتا سلویٰ تک پہنچا اور اسے بازو سے پکڑتا باہر کھینچ لایا۔بھیڑ ہر طرف بڑھ رہی تھی راحب نے سلویٰ کو اپنے ساتھ لگا لیا تاکہ پھر نہ ہاتھ چھوٹ جائے۔
سلویٰ اسکی گرفت مکمل چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔
چھوڑو مجھے کیا بدتمیزی ہے یہ۔سلویٰ نے اسے دھکا دینا چاہا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی۔
کون ہو تم اور یہ کیا بدتمیزی ہے؟
راحب نے حیرت سے سلویٰ کو دیکھا کیا وہ اسے پہچان نہیں پائی تھی۔
چھوڑو نہ۔۔۔۔
راحب بڑی فرصت سے اسے یوں مچلتا ہوا دیکھ رہا تھا۔
کیا انکا رشتہ اتنا کمزور تھا کہ سلویٰ اسکا لمس بھی نہیں پہچان سکی۔
دیکھو تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔
سلویٰ اب کی بار غصے سے بولی۔
راحب نےنظریں گھمائیں۔جیسے پوچھنا چاہ رہا ہو بتاو بھلا ؟
میں فوجی کی بیوی ہوں ڈرتی نہیں ہوں تم جیسے لوگوں سے۔
ہاں اور فوجی کی بیوی اسی کو پہچان نہیں پا رہی تھی سبحان اللہ
۔وہ بیچارا بس دل میں ہی بول پایا۔
ہاتھ چھوڑو ورنہ میں ایک تھپڑ لگاوں گی۔
راحب کو محظوظ ہوتا اسکا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ چکا تھا۔
کتنے بدتمیز انسان ہو ہوتم دوسروں کی بیٹی بیویوں کے ہاتھ پکڑ لیتے ہو۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی سلویٰ کو چندہ نظر آچکی تھی۔
وہ اسکے ہاتھ پر زور سے کاٹتی وہاں سے بھاگ نکلی۔
آہہہ۔۔
راحب پیچھے بس اپنے ہاتھ پر نشان دیکھتا رہ گیا بدتمیز انسان کی بدتمیز بیوی۔۔
۔اور پھر قدم بڑھاتا اندر چل دیا جہاں ثمرین سکندر جیسی بھلا اسکے انتظار میں تھی۔
محبت۔۔!
اک ساز، اک دُھن
کسی قدیم شاعری کی سُخن وری!
محبت!
شوق، انتظار ، کوٸی سحر انگیز سُر ،
کوئی دلچسپ پریمی کی داستان!
محبت!
اظہار، رنگ و روپ کا امتزاج
دل کی خوشی!
محبت!
کوٸی انوکھا سنگار،
اک جیت ،اک جنگ، اک ہار!