مسئلہ یہ ہے کہ تم کو ابھی معلوم نہیں
ہجر کیا چیز ہے، آزارِ محبّت کیا ہے
ہجر جب روزنِ دیوار سے در آتا ہے
دل شبِ درد کی پہنائی سے ڈر جاتا ہے
دور تک جب کسی ہمدم کا نہ مل پائے سراغ
آدمی آنکھ کی تنہائی سے ڈر جاتا ہے
مسئلہ یہ ہے کہ تم پر کبھی اترا ہی نہیں
کوئی ویرانی کا موسم، کوئی وحشت کا عذاب
مسئلہ یہ ہے کہ تم نے کبھی جانا ہی نہیں
زہرِ تنہائی کا تریاق نہیں ہوتی کتاب
مسئلہ یہ ہے کہ تم نے کبھی چاہا ہی نہیں
اپنی دنیا سے نکل کر کبھی باہر جھانکو
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ خود کو بدلو
اور اس خانہء ویران کو آکر دیکھو
دور تک کوئی نہیں، کوئی نہیں، کوئی نہیں
کوچہء دل میں ہے ہر سمت خلاؤں کا ہجوم
کوئی خواہش ہے نہ احساس، نہ امّید نہ خواب
ٹوٹتے جاتے ہیں افلاکِ تمنا کے نجوم
مسئلہ یہ ہے کہ تم نے کبھی سمجھا ہی نہیں
کرب کیا چیز ہے اہمال کی عزلت کیا ہے
آئینہ خانے سے نکلو تو خبر ہو یہ تمہیں
ناپذیرائی کےاحساس کی کلفت کیا ہے
مسئلہ یہ ہے کہ تم کو ابھی معلوم نہیں
ہجر کیا چیز ہے، آزارِ محبّت کیا ہے
"THANK YOU"
وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے جاگی تو اسے سنگھار میز کے سامنے ایک خط موصول ہوا جس میں یہ ایک غزل اور تھینک یو لکھا تھا۔
سلویٰ پندرہ منٹ میں دس بار اس غزل کو پڑھ چکی تھی اسے خود سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا ڈھونڈھ رہی ہے۔
یہ تو طہ ہے کہ یہ راحب نے لکھا ہوگا مگر اسکا مقصد"؟؟
۔گیلے بال اسی طرح تولیے میں مقید تھے اور وہ خط کی پہیلی سلجھا رہی تھی۔
تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔
بھابھی؟؟
آجاو چندہ۔
سلویٰ خط چھپا کر فورا بال بنانے لگی۔
واہ بھابھی آج تو بڑی نکھری نکھری لگ رہی ہیں کہیں خواب میں راحب بھائی تو نہیں آئے؟
سلویٰ ایک ہفتے سے یہاں تھی مگر ابھی تک کسی کے ساتھ بےتکلف نہیں ہوئی تھی البتہ چندہ اس سے ہو گئی تھی۔
سلویٰ نے خود کو شیشے میں دیکھا تو واقعی آج وہ انجانہ سا سوگ نہیں تھا جو ہفتے سے منانے میں تھی۔
اوہو آپ پریشان نہ ہوں۔میری اماں کہتی ہیں جس سے نکاح ہو جائے سکون اطمینان محض اسی سے جڑ جاتا ہے پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے وہ پاس ہو یا دور۔۔چندہ نے اسکی مشکل سلجھائی۔
پر میں نے تو انکا کوئی انتظار نہیں کیا اور نہ ہی راحب کے دور رہنے سے مجھے فرق پڑتا ہے۔
سلویٰ خود کلامی کی صورت میں چندہ سے سوال کرنے لگی۔
فرق تو پڑتا ہے ہفتے تک تو آپ ایسی تھیں گویا کسی بڑے صدمے میں ہیں اور آج ایسی مطمئن جیسے رات کو راحب بھائی آ گئے ہوں۔چندہ بات کر کے خود ہی ہنسنے لگی۔
وہ آتے تو پتا چلتا نہ سبکو اور ویسے بھی چند روز پہلے تک میں انھیں جانتی بھی نہیں تھی اور تم کہہ رہی ہو انتظار۔ارے بھابھی کوئی فلم ڈرامہ تھوڑی ہے یا کانکٹریکٹ میرج جہاں پہلے نفرت ہوگی پھر لڑائی ہوگی پھر محبت آپکی شادی ہوئی ہے بھئی نارمل والی ۔
ہونہہ نارمل۔
سلویٰ نے نارمل پر منھ بسورا ۔
اوہ میں کہنے آئی بی بی جی سوری خالہ آپکو بلا رہی ہیں۔
آئیں ناشتہ کر لیں ۔
اچھا میں بس آئی۔
چندہ کے جانے کے بعد سلویٰ بھی نیچے چل دی۔
مدتوں بعد ملا نامۂ جاناں لیکن
نہ کوئی دل کی حکایت نہ کوئی پیار کی بات
نہ کسی حرف میں محرومئ جاں کا قصہ
نہ کسی لفظ میں بھولے ہوئے اقرار کی بات
نہ کہیں ذکر جدائی کا نہ دیدار کی بات
اتنی بے نام خموشی ہے کہ دیوانے بھی
کوئی سودا نہیں رکھتے ہیں سروں میں اپنے
ہفتہ پہلے)
اس نے آنکھیں کھولیں تو خود کو کسی ہسپتال میں پایا ۔اسکا پیر مکمل اکڑا تھا اور سر بھاری بھاری محسوس ہونے لگا۔
وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگا کہ فورا ہی ایک لڑکی آگئی۔
لیٹے رہئیے میجر راحب احمد۔
آپ کون اور یہ سب ؟
میں ڈاکٹر سویرا ہوں ۔
آپ کراچی آرمی ہیڈکوارٹرز میں موجود ہیں بے فکر رہئے۔
وہ لڑکی اپنے پروفیشنل لب و لہجے میں اسے سب سمجھانے لگی۔
اوکے۔پر آپ نے لوگوں نے مجھے ٹریس کیسے کیا میرے پاس تو ایسی کوئی ڈیوائس نہیں رہی تھی؟
اسلام آباد سے ٹریس کیا گیا پھر یہاں انفرمیشن بھجی ہے جنرل آصف مرزا نے۔
آپ کے پاوں میں زہر کافی پھیل چکا تھا میں نے اینٹی پوائزن انجیکٹ کر دیا ہے اب زہر پھیلے گا مگر اب یہ زہریلا بلڈ ایکسریٹ کرنا پڑے گا۔پر اسکے بعد چند گھنٹوں کا آرام ضروری ہے۔
کتنے وقت تک زہر نہیں پھیلے گا۔
چند دن تک انجیکشن کا اثر رہے گا تو آپ آپکے پاس ہیں کچھ دن ۔
اوکے راحب نے فورا سے اٹھ بیٹھا۔
مجھے آپکی ٹیم سے ملنا ہے۔
پر آپکو آرام۔۔۔۔ڈاکٹر سویرا کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ راحب بول پڑا۔
ڈاکٹر صاحبہ اتنے نازک مزاج ہوتے تو یہاں نہ ہوتے۔
راحب کہہ کر رکا نہیں تھا۔
ڈاکٹر سویرا گہری سانس لیکر رہہ گئیں۔ایسے باولے تو انھیں روز دیکھنے کو ملتے تھے۔
ویلکم میجر راحب احمد !۔
میجر ضیاء نے مسکرا کر خوشآمدید کہا۔
راحب سر کو خم کرتا انہیں میں بیٹھ گیا جہاں ایک ٹیم پہلے ہی کسی موضوع پر محو گفتگو تھی۔
بڑے افسوس کے ساتھ مگر آپکی ٹیم کے پانچ آفیسرز کا ابھی تک کچھ پتا نہیں چل پایا ہے۔
پانچ؟؟؟راحب نے پانچ پر زور دیا۔
جی ہاں پانچ باقیوں کو آپکی ہی طرح کہیں نہ کہیں کہیں ٹریس کر لیا گیا ہے۔
ان کے نام ؟؟
کیپٹن شاہ؟
میجر ضیاء نے اشارہ کیا تو کیپٹن شاہ نے ایک فائل اسکے سامنے کی۔
اور ساتھ ساتھ بتانے لگا۔
آفیسر علی،آفیسر آفیسر ہاشم،آفیسر خرم آفیسر نادر اور آفیسر عباد انکا ابھی تک کچھ پتا نہیں چلا اور قوی امکان یہ ہے کہ غیر ملکی ایجنٹس کے ہاتھ چڑھ گئے ہیں جو ان سے ملک کے راز اگلوائیں گے۔
کیپٹن شاہ خاموش ہوے راحب فائل کھولے مصروف تھا۔
سر ملکی راز تو پالیٹکس کے پاس ملتے ہیں پھر آرمی میں حملے کا مطلب؟ڈاکٹر سویرا جو دس منٹ پہلے ہی آئییں تھی
اس نقطے پر الجھ گئیں۔
غلط سیاست دانوں کے پاس یا تو ملک کا حساب ہوتا ہے یا نظام مگر ملک کی بہت سی پیچیدہ سرگرمیاں یا تو آرمی کے پاس ہوتی ہیں یا سائنسدانوں کے پاس اسلئے وہ ہمارے سائنسدانوں آرمی کو کسی بھی جرم میں ملوث کر کے اپنے ملک میں مقید کر لیتے ہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ تو آپکے سامنے ہے۔
جی میجر راحب ٹھیک کہا آپ نے اسی طرح وہ آرمی کے ذریعے ہمارے سرحدوں میں بھیس بدل کر شامل ہوتے ہیں۔اور ہماری معلومات دشمن ممالک کودیتے ہیں کیپٹن شاہ نے آگے کی بات مکمل کی۔
اسکے بعد وہ کچھ دن کراچی میں ہی معلومات اکٹھا کرتا رہا اور بلاخر ایک ہفتے بعد اسلام آباد آگیا ۔اب اسے کای بھی طرح ہیڈکواڑٹرز جانے سے پہلے اپنا پیر ٹھیک کرنا تھا اسیلئے اس نے گھر جانا مناسب سمجھا۔
سلویٰ کی موجودگی نے پہلے تو اسکا موڈ خراب کر دیا مگر جب وہ دل کی بھڑاس نکال کر رونے لگی تو راحب کو اس لٹل گرل پر کافی ترس آیا۔اوپر سے اسکے سوال راحب کو یوں محسوس ہوا جیسے تھکاوٹ کہیں اس لڑکی نے ضائل کردی وہ اسکلئے شاعری لکھتا جو اس بہت عرصے بعد لکھی تھی آگیا ابھی اسکے سر پر بہت زمہ داریاں تھیں۔
سلویٰ بیٹا تمہارا رزلٹ کب ہے؟
ناشتے سے فارغ ہوکر وہ یونہی ٹہل رہی تھی جب نگہت جہاں نے اس سے پوچھا۔
ابھی ٹائم ہے خالہ۔
تو بیٹا تم تب تک گاوں رہ آو پھر تمہاری پڑھائی شروع ہو گئی تو کہاں جا سکو گی۔
دل تو سلویٰ کا بھی بہت تھا مگر ماں کی بات اسے یاد تھی۔نہیں خالہ ابھی نہیں۔
جانتی ہوں بیٹا تمہارے ساتھ بہت ناانصافی ہوئی ہے پر یقین کرو راحب اپنے فرض کے آگے مجبور ہے۔
میں سمجھتی ہوں خالہ آپ خواہمخواہ پریشان نہ ہوں مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں۔
سلویٰ نے نگہت جہاں کی پریشانی کچھ حد تک کم کر دی تھی
مجھے اپنے فخر ہے اپنی پسند پر ایک دن راحب بھی ہوگا۔نگہت جہاں نے سلویٰ کو پیار دیا
۔اچھا خالہ وہ آپ سے اجازت لینی تھی؟
کیسی اجازت ؟
وہ میں اپنے کمرے کی سیٹنگ بدلنا چاہتی ہوں۔
ہاں ہاں کیوں نہیں جیسے تم چاو۔مجھ میں تو کبھی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ بوڑھی ہڈیوں کے ساتھ کچھ کر سکوں اور راحب کو کبھی فرصت نہیں ملی اب سب تم نے ہی تو ٹھیک کرنا ہے۔
سلویٰ ان سے اجازت لیتی کمرے میں آئی اور چندہ کے ساتھ مل کر سیٹنگ کرنے لگی۔
وہ چندہ کے ساتھ بھی تھوڑا گھل مل گئی تھی۔جو کہنے کو تو انکی ملازمہ کی بیٹی تھی مگر گھر کے فرد کا کردار ادا کرتی ۔
ان دونوں کا سارا دن ہی اسی سیٹنگ میں گزر گیا۔
ہائے اللہ بھابھی آپنے تو کمرے کا نقشہ ہی بدل دیا اب لگ رہا ہے نا نئے جوڑے کا کمرہ مجھے تو بس راحب بھائی کا انتظار ہے۔
مجھے بھی۔
چندہ کی بات پر سلویٰ کے منھ سے بے اختیار نکلا۔۔
اور چندہ نے فلق شگاف قہقہ لگایا۔
بس بس تم یہ پردہ یہاں لگاو میں ہم دونوں کیلئے چائے بنا کر لاتی ہوں بلکہ نیچے آجاو خالہ کے ساتھ ہی۔
سلویٰ چائے کے ساتھ پکوڑے بھی بنا لائی۔
مجھے خالی چائے اچھی نہیں لگتی۔
سلویٰ نے جیسے اپنی صفائی دی۔
جس ہر نگہت جہاں اور چندہ مسکرانے لگیں۔
کیا ہوا؟سلویٰ نے ناسمجھی سے انھیں دیکھا۔
راحب بھائی کو بھی خالی چائے اچھی نہیں لگتی چلو کوئی عادت تو سیم ہے۔سلویٰ نے چندہ کو گھورا۔
بیٹا یہ تمہارا گھر ہے تمہیں کچھ بھی کرنے کیلئے وجہ کی ضرورت نہیں ہے۔
سلویٰ نے جتاتی نظروں سے چندہ کو دیکھا جو ابھی تک اسے تنگ کر رہی تھی۔
دن بھر کی تھکی ہاری وہ کمرے میں سونے آئی تو بےاختیار باہر بالکونی میں کھڑی ہو گئی۔اور نیچے دیکھنے لگی گویا گویا لاشعوری طور پر کسی کا انتظار کرنے لگی ہو۔
جی انتظار کش ہے آنکھوں میں رہگذر پر
آجا نظر کہ کب تک میں تیری راہ دیکھوں
اور پھر خود ہی منھ بناتی کمرے کو چل دی۔
ابھی کیسے اسے صلہ مل جاتا ابھی کیسے اسکا انتظار ختم ہو جاتا ابھی تو اسے لاشعور سے شعور تک جانا تھا۔ابھی تو اسے ہجر کی تڑپ سہنی تھی ابھی تو پتھر ہونا تھا۔
یہ اچھی رہی میجر راحب احمد گئے تم چھٹی پر تھے آئے دولہا راجہ بن کے ہو!۔
آفیسر زایان اپنی لیو سے واپس آچکا تھا۔مگر وہاں تو پہلے ہی راحب کی شادی کے چرچے تھے۔
مجھے تو خود کچھ نہیں امی کا کیا دھرا ہے سب۔
رات کے اس پہر وہ دونوں باہر ٹہل رہے تھے۔
یار بندہ کم از کم شادی پر ہی بلا لیتا ہے۔
زایان نے نیا شکوہ کیا۔
میں خود نہیں گیا تو ۔۔
راحب نے منھ بسورا ۔
نہ کر تو اپنی شادی پر ہی نہیں گیا۔زایان نے فلق شگاف قہقہ لگایا۔
اچھا مزاق تھا ویسے راحب !۔
یہ سچ ہے راحب کے ماتھے پر بل پڑے۔
اچھا تو نہیں گیا تو بھابھی کیسے آگئی۔
چل کے۔
او اچھا بھابھی چلتی بھی ہیں خوشی ہوئی سن کے۔راحب نے زایان کی کمر پر دھموکا جڑا۔
کیوں میری بھابھی نہیں چلتی؟راحب نے اسے لتاڑا۔
وہ پیروں کے ساتھ زبان سے بھی بہت چلتی ہیں۔
سیم۔۔راحب نے ٹھنڈی آہہ بھری۔
پر اگر بیویاں بولے نہ تو انھیں بیویاں کون کہے۔
دل کےبہلانے کو غالب خیال اچھا ہے!۔
اب چھیڑنے کی باری راحب کی تھی۔
میجر راحب یہ فائل جنرل مرزا نے بھیجی ہے۔
پیچھے سے پیون اسے ایک فائل پکڑ گیا۔
جس پر بڑے خروف میں
S.S.S 3
لکھا تھا راحب نے زیر لب نام دہرایا۔
Samreen Sikandar Shah.
یہ ثمرین سکندر شاہ کون ہے اب؟
راحب نے ناسمجھی سے دیکھا۔
میری دوسری بھابھی۔زایان نے پھر چھت پھاڑنے والا قہقہ لگایا۔
بکواس ہو گئی ہو تو میرا خیال کام کر لیتے ہیں راحب اسے کھینچتا اپنے ساتھ لے گیا۔
مگر انھیں کون سمجھاتا کہ زبان سے نکلے لفظ کبھی کبھار بہت جلدی حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں ۔شائد ثمرین سکندر شاہ سلویٰ اور راحب کی زندگی میں ایک نیا پنا بن کر آنے والی تھی۔
زندگی۔۔
تجھےمٹھی میں لئیے بیٹھی تھی میں
موت کیسے دیکھ پائے گی ۔
لیکن یہ کیا۔۔۔۔؟؟؟
زندگی تو ریت بن گئی۔۔
چمکیلے زروں والی رہت۔۔۔باریک۔۔
مٹھی میں بھلا کیسے رک سکتی تھی۔
سو بس۔۔۔
لاکھ چاہا کہ نہ نکلے میری مٹھی سے پھر بھی
گرنے لگی ہے ہلکے ہلکے۔۔
میں مٹھی بھینچے ہوئے بیٹھی ہوں۔۔لیکن
زرے پھسل رہے ہیں ہولے ہولے۔۔
اور میں چپ چاپ ان کے گرنے کا تماشا دیکھ رہی ہوں۔
کیوں کہ۔۔۔
میں ایک بے بس وجود ہوں۔۔
جس کے اختیار میں صرف دیکھنا ہے
صرف دیکھنا۔۔۔۔
چلو دیکھتے۔۔۔
اور کتنا وقت ؟؟؟
اور کتنا انتظار؟؟؟؟
آخری زرہ گرنے میں اور کتنا سمے باقی۔۔
کہ زندگی تو ریت ہی ہے۔۔
کب ہاتھ سے نکل جائے۔۔۔
کون جانے۔۔۔؟؟؟