مگر تمہیں کیا -----!
میں آڑھے ترچھے خیال سوچوں
کہ بے ارادہ ...........کتاب لکھوں
کوئی......... شناسا غزل تراشوں
... کہ اجنبی انتساب .............لکھوں
گنوا دوں اک عمر کے زمانے ...!
کہ ایک........ پل کا حساب لکھوں
میری طبیعت پہ منحصر...... ہے
... میں جس طرح کا ...نصاب لکھوں
یہ میرے اپنے مزاج....... پر ہے
عذاب سوچوں .....ثواب .....لکھوں
طویل تر ہے ........سفر تمہیں کیا ؟
میں جی رہا ہوں ...مگر تمہیں کیا ؟
مگر تمہیں کیا .....کہ تم تو کب سے
میرے........... ارادے گنوا چکے ہو
جلا کے سارے حروف ..........اپنے
میری ..........دعائیں بجھا چکے ہو
میں رات اوڑھوں ....کہ صبح پہنوں
تم اپنی رسمیں اٹھا ........چکے ہو
سنا ہے.....سب کچھہ بھلا چکے ہو
تو اب میرے دل پہ ...... جبر کیسا ؟
یہ دل...... تو حد سے گزر چکا ہے
گزر چکا ہے ..........مگر تمہیں کیا ؟
خزاں کا..........موسم گزر چکا ہے
ٹھہر ........... چکا ہے مگر تمہیں کیا ؟
مگر تمہیں کیا .........کہ اس خزاں میں
میں جس طرح کے ..بھی خواب لکھوں ·
موسم سرما کا الوادائی وقت آن پہنچا تھا۔دن لمبے اور گرم ہونے لگے تھے۔احمد ہاوس میں اس وقت جشن کا سماں تھا ہر طرف چہل پہل اور رونق تھی کہیں لڑکیاں بیٹھی دھولک بجا رہی تھیں تو کہیں اپنا ہی ہلہ گلہ مچا تھا۔
وہاج بیٹا نیچے آو۔۔۔
سلویٰ اس وقت بری طرح ہانپ رہی تھی۔وہاج نے جب سے چلنا شروع کیا تھا سلویٰ کا اس کے پیچھے بھاگ بھاگ کر یہی حال ہوتا پر وہ تھا ہی حد درجہ کا شریر جسے ماں کو ستانے میں مزا آتا تھا۔
ما۔ما۔۔۔
اپنی توتلی زبان میں اسے پکارتا اور پھر کہیں چھپ جاتا۔
وہاج پھپھو کی شادی پر تیار نہیں ہوگا کیا؟
چندہ کی آواز پر وہ فورا نیچے اترا۔
آرام سے گر جاو گے۔
اتنے کام ہیں کرنے والے پر یہ لڑکا مجھے کچھ نہیں کر دیتا۔
سلویٰ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
بھابھی آپ اسکی فکر چھوڑیں اسے میں سمنبھال لوں گی۔
نہیں تم کچھ نہیں کرو گی اب اپنی ہی شادی پر کاموں میں لگو گی گیا۔
اوہو بھابھی وہاج میرے لئے کام تھوڑی ہے۔
سلویٰ مسکرا کر جانے لگی جب چندہ نے اسے روکا۔
بھابھی بھائی نہیں آئیں گے کیا؟
چندہ دھیمے لہجے میں بولی۔
پتا نہیں چندہ خالہ نے انھیں فون کر کے بتا دیا تھا کہ تمہاری شادی ہم اپنے گھر کریں گے پتا نہیں اب۔
میرا تو پانچ ماہ سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
سلویٰ شکستہ سی بولی۔
اچھا آپ پریشان نہ ہوں آجائیں گے۔
سلویٰ نے کچن میں آکر ایک بار پھر راحب کا نمبر ملایا مگر ہر بار کی طرح بند ہی تھا۔ناجانے کیا ہو گیا ہے کہاں ہیں راحب سلویٰ ایک دم سے چکرائی۔۔
سلویٰ کیا ہو گیا بیٹا۔
نگہت جہاں نے اسے تھاما۔
پتا نہیں خالہ چکر آگئے تھے۔
کتنے دن سے کہہ رہی ہوں آو ڈاکٹر کے لے چلوں تم مانتی نہیں ہو۔
نگہت جہاں اسے ڈانٹنے لگیں۔
مجھے ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے خالہ۔۔وہ تھکے ہاروں کی طرح پاس اسٹول پر بیٹھ گئی۔
نگہت جہاں بھی چلتے ہوئے اسکے پاس آئیں اور وہیں بیٹھ گئیں۔
۔مجھے پتا ہے بیٹا تمہیں کس کی ضرورت ہے پر یقین کرو راحب یقینا کسی بڑے کام میں پھنس گیا ہوگا ورنہ وہ ضرور ہم سے دوبارہ رابطہ کرتا۔
خالہ مجھے انکی خیریت کی فکر ہے۔
دعا کیا کرو بیٹا اسے ہماری فکر سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے ۔دیکھنا وہ صحیح سلامت ہمارے ساتھ شادی میں شامل ہوگا۔
انشااللہ۔۔
تم جاو تھوڑی دیر آرام کر لو شام کو رسمیں ہونگی تو اور طبیعت خراب ہوگی۔
سلویٰ وہیں سر جھکا کر بیٹھ گئی۔
اب وہ انہیں کیا بتاتی اس کمرے میں اب اسکا دل ہی نہیں لگتا تھا۔
کیا کروں راحب میں پانچ مہینے سے انتظار کی سولی پر لٹکی ہوں اور آپ نے مڑکر بھی نہیں دیکھا۔
کہاں ہیں راحب پلیزز جلدی واپس آئیں۔۔اب میرا دل بہت گھبراتا ہے اس سے پہلے ک میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے پلیز واپس آجائیں۔
ایک آنسو ٹوٹ کر سلویٰ کے گال پر گرا۔
پانچ ماہ ڈینی پانچ ماہ ہوگئے ہماری شادی کو مجھے یقین نہیں آرہا۔
وہ لال ساڑھی میں ملبوس نک سک سے تیار ہوئی اسکے سینے سے آلگی۔جو متحیر سا کھڑا کمرے کی سجاوٹ دیکھ رہا تھا۔
یہ سب کیا ہے ثمرین۔؟
وہ اس سے دو قدم پیچھے ہٹا۔
بس بہت ہوا آج مجھے اپنے بیچ کے تمام فاصلے ختم کرنے ہیں۔تمہیں جتنا وقت چاہئے تھا میں نے دے دیا پر اب اس زیادہ میں تم سے دور نہیں رہ سکتی۔
ثمرین نے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تو راحب نے جھٹکے سے چھروا لیا۔
کیا مسئلہ ہے مجھ میں کہ تم میری طرف دیکھتے بھی نہیں۔پانچ مہینے ہوگئے ہماری شادی کو تم نے مجھ پر دوسری نظر نہیں ڈالی کبھی۔اپنا سارا کام تمہارے حوالے کر کے صرف تمہارے لئے چھوڑ کر بیٹھی ہوں تم ابھی بھی مجھ سے نالاں ہو۔
راحب نے جب سے اسکے ڈرگز بدلے تھے وہ بات بات پر یونہی ہائیپر ہو جاتی تھی۔
پچھلے پانچ مہینے سے راحب نے دن رات ایک کر کے اسکے ہر حساب کتاب پر نظر رکھی باہر غیر ملکیوں کے غداروں سے مل کر اس نے کافی گند پھیلا رکھا تھا جو سمیٹنے کیلئے پانچ ماہ تو کافی کم تھے مگر راحب نے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا تھا۔سلیمانی صاحب کے بعد ثمرین نے سب اسکے حوالے کر دیا تھا جسکا اس نے خوب فائدہ اٹھایا تھا۔اور اگواہ ہوئے اپنے آفسررز کو بھی ڈھوںنڈ نکالا تھا۔
ثمرین کے خلاف وہ جتنے ثبوت اکھٹے کر چکا تھا وہ باآسانی جیل جاسکتی تھی۔پر اسکی دماغی حالت اور جنون دن بدن بگڑتا ہی جارہا تھا۔
اسکی ماضی میں ہوئی زیادتیاں اور تلخیاں جہاں اس پر غیر ملکیوں کے ہاتھوں ہوئے ظلم میں راحب کا لمس اسے محفوظ پناہگاہ محسوس ہوتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ اسے خود سے دور نہیں کرنا چاہتی تھی۔جب سے اس نے شادی کی تھی زرا برابر بھی ہمت نہ تھی کہ وہ سلویٰ سے بات کر پاتا۔پر ثمرین کا اعتبار اور ثبوت حاصل کرنے کیلئے یہ ضروری تھا۔
مگر اب ثمرین سکندر شاہ اسکیلئے بہت مشکل ثابت ہونے لگی تھی۔
بولتے کیوں نہیں ہو تم۔۔
ثمرین نے اسے جھنجھوڑا۔
میری بات سنو مجھے آج کہیں جانا ہے ۔
راحب نے آرام سے اسے کندھوں سے پکڑ کر سمجھایا۔
نہیں تم آج کہیں جا سکتے آج تم صرف میرے ہو۔
وہ پھر اسکے گلے لگ گئی۔
ثمرین بات سمجھنے کی کوشش کرو اگر آج میں نہیں گیا تو بہت مشکل ہو جائے گی۔
میں واپس آوں گا پکا۔
نہیں۔وہ اسی طرح بضد تھی۔
ورنہ تمہیں ہولیس لے جائے گی مجھ سے دور کچھ لوگ تمہارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اگر میں نہ گیا تو سب غلط ہو جائے گا۔
ثمرین ایک دم ہیچھے ہوئی۔
تم گیا گیم کرنے کی کوشش کر رہے ہو میرے ساتھ؟
نہیں کچھ بھی نہیں۔یقین کرو میرا میں واپس آکر تمہیں سب بتاوں گا۔
راحب اس سے دور ہو کر جانے لگا۔
ایک بات یاد رکھنا اگر میرے ساتھ دھوکہ ہوا نا تو سب تباہ و برباد مر دونگی میں۔
راحب اسکا جنون بخوبی جان چکا تھا مگر اس وقت اسے جانا تھا وہ چاہ کر مزید دیر نہیں کر سکتا تھا۔
پھپو کی مہندی پر سب سے پیارا وہاج لگے گا۔سلویٰ اسے تیار کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ تھا کہ سارے کمرے کو پلے گراونڈ کو بنا کر بھاگتا پھر رہا تھا۔
وہاج مجھے تنگ کرنا بند کرو ورنہ اب مار پڑے گی۔
سلویٰ غصے سے رخ موڑ کر بیٹھ گئی۔
با۔۔با۔۔
وہاج اکثر راحب کی تصویر دیکھ کر ایسے ہی اچھلتا تھا۔
ہاں چلے جاو بابا کے پاس ہی تم بھی مجھے بخشو تنگ کر کے رکھا ہے دونوں نے۔
سلویٰ غصے سے بھری بولی۔
سوچ لو ہم چلے بھی جائیں گے۔
ایک مانوس سی آواز سلویٰ کی سماعت سے ٹکڑائی تو اسکی دھڑکنوں میں انتشار ہوا۔سلویٰ ایک دم لٹی تو راحب وہاج سے لپٹا اسے پیار کر رہا تھا۔
راحب۔۔۔۔
سلویٰ دھیمی آواز ے بولی اور ساتھ ہی رونے لگی۔
راحب گہرا سانس لیتا آگے بڑھا اور اسے اپنے حصار میں لے لیا۔
ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کیا سلویٰ کہ میں آوں اور تم خوشی خوشی مجھے ویلکم کرو۔
ہو سکتا ہے ہے اگر آپ روز آئیں۔سلویٰ اسکے سینے میں دبکی بولی۔
بس اس بار جانے کے بعد اگلی بار روز آوں گا۔
راحب اسکا سر سہلاتا بولا۔
نہیں اس بار آپ جائیں گے ہی نہیں۔
ما۔ما۔با۔با
وہاج نے پیچھے اپنا شور مچا رکھا تھا۔
راحب جھکا اور اسے بھی اٹھا۔
کتنا بڑا ہو گیا ہے یہ ماءشاللہ۔
اور شرارتی بھی اتنا تنگ کرتا ہے توبہ۔سلویٰ نے اسکی شکایت کی۔
اچھا اب فکر نہیں کرو ہم مل کر تنگ کریں گے۔راحب نے قہقہ لگایا۔
سلویٰ منھ بسورنے لگی۔
آپ دونوں مہربانی کر کے تیار ہو جائیں مہندی شروع ہونے والی ہے ۔اور آپ یہ مت سمجھئے گا میں سب بھول گئی پانچ مہینے کے ایک ایک منٹ کا حساب لونگی۔سلویٰ اسے انگلی دکھاتی چلی گئی جبکہ راحب کی مسکراہٹ اس بات پر مدہم ہوئی تھی۔
اسے ہر حال میں سلویٰ کو سب بتانا تھا مگر کیسے کیا سلویٰ مجھے سمجھ جائے گی۔
ہاں مجھے پتا ہے سلویٰ نے ہر قدم میرا ساتھ دیا مجھے یقین ہےوہ سمجھے گی۔
پر اسے کون بتاتا عورت نے شراکت سے زیادہ موت قبول کرنا مناسب سمجھا ہے۔
ثمرین کا سر خطرناک حد تک دکھ رہا تھا۔اسے پھر سے اپنے ڈرگز کی طلب ہوئی۔
وہ جتنی سنبھلی ہوئی رہتی تھی شادی کے بعد اتنی راحب پر ڈیپنڈ کرنے لگی تھی۔
کام گھر دوائیاں سب چھوڑ کر وہ بس اسی کے عشق میں اندھی ہو چکی تھی۔مگر آج اسکی طبیعت بگڑنے لگی ۔ثمرین یہ بات خود بھی سمجھ نہیں پائی یہ ذہنی بیماریاں تو ہمیشہ سے اسکے ساتھ رہی تھیں پھر وہ اب اتنی کمزور کیوں ہو گئی ہے۔
ثمرین نے اپنا میڈیسن باکس کھولا اوردوائیاں نکالنے لگی۔
یہ وہ دوائیاں تو نہیں ہے جو میں لیتی تھی۔
اس نے غصے سے ساری دوائیاں نیچے زمین پر پٹخ دیں۔
اور اپنے آفس فون ملا کر ساری معلومات لی جہاں سر تا پیر سب تبدیل اور آرمی کے انڈر تھا۔
نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے مجھے پھر دھوکا دیا۔۔۔۔۔میں نے کہا تھا تم سے اس بار میں تہس نہس سب برباد کر دونگی۔۔۔۔۔۔۔میری محبت کی ہر بار مجھے ہی سزا کیوں ملتی ہے۔
تو تم آرمی والے ہو۔۔۔۔۔۔۔تمہارے حصے میں ثمرین سکندر شاہ کی محبت آئی ہے صرف مگر اب تم اسکے غضب کا شکار ہوگے۔۔۔۔۔۔۔میں چاہے کتنی بری صحیح مگر محبت پوری عقیدت سے کی تھی میں نے۔۔۔۔کہا تھا کہ میرا تھام کر مجھے اندھیرے سے نکال لو پر تم نے مجھے مزیدتاریکی میں دھکیل دیا۔۔۔۔۔
اسکی آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا تھا اور جنون اتنا کہ گویا سامنے والے کا ہی خون پی لے۔
زمانے بھر کو اداس کر کے
خوشی کا ستیا ناس کر کے
میرے رقیبوں کو خاص کر کے
بہت ہی دوری سے پاس کر کے
تمہیں یہ لگتا تھا
جانے دیں گے ؟
سبھی کو جا کے ہماری باتیں
بتاؤ گے اور
بتانے دیں گے ؟
تم ہم سے ہٹ کر وصالِ ہجراں
مناؤ گے اور
منانے دیں گے ؟
میری نظم کو نیلام کر کے
کماؤ گے اور
کمانے دیں گے ؟
تو جاناں سن لو
اذیتوں کا ترانہ سن لو
کہ اب کوئی سا بھی حال دو تم
بھلے ہی دل سے نکال دو تم
کمال دو یا زوال دو تم
یا میری گندی مثال دو تم
میں پھر بھی جاناں ۔۔۔۔۔۔۔!
میں پھر بھی جاناں ۔۔۔
پڑی ہوئی ہوں ، پڑی رہوں گی
گڑی ہوئی ہوں ، گڑی رہوں گی
اب ہاتھ کاٹو یا پاؤں کاٹو
میں پھر بھی جاناں کھڑی رہوں گی
بتاؤں تم کو ؟
میں کیا کروں گی ؟
میں اب زخم کو زبان دوں گی
میں اب اذیت کو شان دوں گی
میں اب سنبھالوں گی ہجر والے
میں اب سبھی کو مکان دوں گی
میں اب بلاؤں گی سارے قاصد
میں اب جلاؤں گی سارے حاسد
میں اب تفرقے کو چیر کر پھر
میں اب مٹاؤں گی سارے فاسد
میں اب نکالوں گی سارا غصہ
میں اب اجاڑوں گی تیرا حصہ
میں اب اٹھاؤں گی سارے پردے
میں اب بتاؤں گی تیرا قصہ
مزید سُن لو۔۔۔
او نفرتوں کے یزید سن لو
میں اب نظم کا سہارا لوں گی
میں ہر ظلم کا کفارہ لوں گی
اگر تو جلتا ہے شاعری سے
تو یہ مزہ میں دوبارہ لوں گی
میں اتنی سختی سے کھو گئی ہوں
کہ اب سبھی کی میں ہو گئی ہوں
کوئی بھی مجھ سی نہی ملی جب
خود اپنے قدموں میں سو گئی ہوں
میں اب اذیت کی پیر ہوں جی
میں عاشقوں کی فقیر ہوں جی
کبھی میں لیلی کبھی ھیر ہوں
جو بھی ہوں اب اخیر ہوں جی...!
مہندی کی رسم بخیر و عافیت سے ہو گئی ۔سلویٰ سب کاموں میں اتنی مصروف رہی کہ دوبارہ راحب کے روبرو بھی نہ ہو سکی۔اور راحب ہزار کوششوں کے بعد بھی اسے کچھ نہ بتا سکا۔
آج بارات پر وہ اس سے بھی زیادہ الجھی ہوئی تھی۔وہاج نے تو راحب کا پیچھا نہ چھوڑا اور راحب بھی اس سے بہت اٹیچ ہو چکا تھا۔
وہ دونوں باپ بیٹا کھڑے سب کو ویلکم کر رہے تھے جبھی زایان اپنی بیوی کے ساتھ آیا۔
اسکی بیوی تو رسمی دعا سلام کے بعد اندر چلی گئی جبکہ زایان اسکے ساتھ وہیں کھڑا ہو گیا۔
ویلڈن جوان تم نے اتنے کم عرصے میں بہت کچھ کر دکھایا۔زایان نے اسکی کمر تھپکی۔
اور اسکے بدلے جو آفت گلے پڑی ہے اسکا کیا؟
راحب منھ بگاڑتا بولا۔
تم نے کونسا شادی شوق سے کی تھی اور ویسے بھی اب تو کافی کام ہو گیا اب یہ معاملہ ختم کرو راحب۔
ہاں میں نے بھی سوچ لیا بس اب کھل کے جنگ ہوگی ثمرین شاہ سے پر میں سوچ رہا تھا کہ سلویٰ کو بتا دوں اب شادی کوئی چھوٹی بات تو ہے نہیں۔
راحب پر سوچ انداز میں بولا۔
یہ شادی نہیں تمہارا کام تھا راحب جو اب ویسے بھی ختم ہوجائے گا پھر آرام سے بتاتے رہنا بھابھی کو۔
یہ بھی ٹھیک ہے۔
پر زایان اسکی محبت میں کوئی کھوٹ ملاوٹ نہیں ہے گناہگاروں کے شر سے زیادہ محبت والوں کی آہ گہری ہوتی ہے۔
میں چاہ کر بھی اس سے محبت نہیں کر پایا۔میں اسکا ہاتھ نہیں تھام سکا ۔
راحب کا لہجہ پشیمان تھا۔
مکافات تو پھر اٹل ہے ہےنا راحب احمد دوسروں کے پیارے چھیننے والوں کو خود کا پیار کہاں نصیب ہوتا ہے۔ایک مثال تو تمہارے پاس بھی ہے۔
اسنے راحب کے ساتھ کھڑے وہاج کی طرف اشارہ کیا۔
راحب نے فورا اسے گلے لگایا۔
تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے سلویٰ بھابھی تمہارا ایمان ہے اور ثمرین سکندر کام۔کام چلا جائے تو دوسرا مل جاتا ہے مگر ایمان چلا جائے تو کچھ بھی ملتا۔
راحب نے اسکی بات پر سر ہلایا۔اور دور مہمانوں کی بیچ کھڑی سلویٰ کو دیکھا ۔وہ جو کل تک اسے چھوٹی سی لاوبالی لڑکی لگتی تھی پر آج شائد اس سے پرفیکٹ کوئی ہوتا راحب احمد کیلئے۔
کیا بات ہے آج تو کوئی بہت لگ رہا تھا۔رخصتی کے بعد راحب کمرے میں آیا تو سلویٰ وہاج کو سلا رہی تھی۔
کوئی ہے ہی بہت ہیارا بس اسکے شوہر نے کبھی غور سے دیکھا ہی نہیں۔
سلویٰ نے منھ بنایا۔
راحب اسکے پاس آیا اور اسی کی گود میں سر رکھ دیا۔
ایک طرف وہاج تھا اور دوسری طرف راحب سلویٰ نے اب دونوں کو دیکھا تو جیسے زندگی مکمل محسوس ہوئی۔چلو پھر آج غور سے دیکھتے ہیں اپنی بیوی کو۔
راحب نے اسکا مہندی والا ہاتھ اپنے لبوں پر رکھا۔
پر آج میرا موڈ نہیں ہے۔سلویٰ ہنوز روٹھی تھی۔
سلویٰ؟؟؟
راحب پرسوچ انداز میں بولا۔
جی۔۔۔
مجھے تمہیں بہت کچھ بتانا ہے اتنی دل کی باتیں کہنی ہیں بہت کچھ سمجھانا ہے اور بہت کچھ سمجھنا ہے پر شروع کہاں کروں پتا نہیں چل رہا۔
میں جانتا ہوں تم میری ہر بات سمجھتی ہو پر۔
پر یہی کہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے۔سلویٰ نے اسکی بات مکمل کی۔تو راحب نے ماتھے پر شکنیں لئے اسے گھورا اور سر نیچے کی طرف کیا۔
ان دونوں کے چہرے اب آپس میں بہت قریب تھے۔
سلویٰ کو محسوس ہوا شائد اسنے غلط وقت پر غلط بات کہہ دی۔
کیا محبت کیلئے لفظی اظہار ضروری ہے سلویٰ راحب احمد کیا نبھانے سے نہیں پتا چلتا کہ محبت ہے؟
وہ مممیں نہیں وہ۔۔۔
سلویٰ کی زبان جیسے تالو سے چپک گئی۔
تمہارے نام کے ساتھ میرا نام ہونا کیا تمہیں محبت نہیں لگتا۔
میرے لبوں پر صرف تمہارا نام ہونا کیا تمہیں محبت نہیں لگتا۔؟
میرے کوسوں دور ہونے پر بھی صرف تمہارا خیال میرے ذہن میں ہونا کیا تمہیں محبت نہیں لگتا۔؟
اس وقت تمہارا یوں مکمل میرے حصار میں ہونا تمہیں محبت نہیں لگتا۔؟
آخری بات پر راحب مسکرایا تو سلوٰی کو احساس ہوا وہ راحب کے بہت قریب آ چکی ہے۔
وہ دور ہٹنے کی کوشش کرنے لگی مگر راحب نے اسکے تمام ارادے خاک میں ملا دئے۔
تمہاری راہ فرار مکمل بند ہے سلویٰ راحب احمد ۔۔۔
اور راحب نے محبت کی قید چاہتوں کے دریچے کھول دئے۔
سلویٰ کی آنکھ فجر کے وقت کھلی تو وہ اب بھی راحب اور وہاج کے درمیان تھی۔وہ دونوں کے ماتھوں پر بوسہ دیتی اٹھی اور وہاج کو راحب کے قریب کر کے اٹھ گئی۔
وہ نماز پڑھ کر یونہی جائے نماز پر بیٹھی رہی۔زندگی مکمل ہو گئی ہے تمہاری سلویٰ تمہیں تمہارے صبر کا دیکھو کتنا پیارا صلہ ملا ہے۔
وہ خود کو نعمتوں کی یاد دلاتی اٹھی اور باہر آکر ٹہلنے لگی۔صبح کی روشنی پھیلنے لگی تھی۔
اور تھوڑی دیر بعد نگہت جہاں بھی جاگ جاتی۔کل انھوں نے سلویٰ کے کہنے پر راحب کی خوب کلاس لگائی تھی۔
سلویٰ ْآہستہ سے مسکرائی۔
یہ وقت چندہ کے آنے کا ہوتا تھا پر اب تو وہ بھی اپنے گھر کی ہوگئی تھی ۔اسکے بغیر یقینا یہ گھر خالی خالی تھا۔
اوہ چندہ۔۔۔سلویٰ نے گہری آہ بھری۔
اور عفت جہاں تو بارات کے بعد ہی واپس روانہ ہو گئیں تھیں انھیں ہر کسی سے زیادہ اپنے مویشی پیارے تھے۔
سلویٰ خود سے جڑے ہر رشتے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔خونی رشتے بہت پیارے ہوتے ہیں اگر وہ تھوڑے فرائض اور زمہ داریاں مانگتے ہیں تو انھیں نبھا کر بچا لینا سودا برا نہیں ہے۔
وہ اپنی سوچوں میں گم لاشعوری طور پر کب سے دروازہ بجنے کی آواز سن رہی تھی مگر اسے ہوش اب آیا تھا۔
اب تو چندہ بھی نہیں ہے یہ صبح صبح کون آگیا؟
سورج آسمان پر سج چکا تھا اور اب تو گرمیاں بھی اپنی شوروعات کرنے لگیں تھیں۔وہ سورج سے بچتے بچاتے دروازے کی طرف گئی اور اسے کھول دیا۔
جی آپ کون؟
سعدیہ راحب احمد۔۔۔
سلویٰ نے آنکھیں چھوٹی کر کے سر تا پیر اسے دیکھا ہمیشہ کی طرح سرخ لباس میں میکپ کئے وہ کل سے اچھی خاصی معلوم ہو رہی تھی۔
وہ عورت واقعی خوبصورت تھی۔سلویٰ نے دل میں اعتراف کیا۔
او بی بی کون ہو تم اور کیوں میرا دماغ خراب کر رہی ہو؟
مگر وہ ڈھٹائی کی ساری حدیں پار کرتی اندر آگئی۔
کیا بدتمیزی ہے کدھر گھستی آرہی ہو؟
ثمرین اس چھوٹے سے گھر کو پر طائرانہ نظر ڈالتے بولی۔
میں بتا چکی اب تمہاری باری کون ہو تم؟
میں سلویٰ راحب احمد۔سلویٰ اس سے بھی زیادہ اعتماد سے اونچا بولی۔
چچ چچ بہت افسوس ہے مجھے لڑکی پر اللہ کی مرضی تھی یہ شائد۔ثمرین ہلکی سی مسکراہٹ سے گویا ہوئی۔
نکلو میرے گھر سے اور جا کر اپنا علاج کرواو تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانے کی۔
سلویٰ غصے سے چلائی۔
یہ ہمت نام رشتہ تمہارے شوہر سوری میرے شوہر کا دیا ہوا ہے بلاو اسے اور پوچھ لو۔
ثمرین کا انداز ویسا ہی متحمل تھا۔
میں تمہارا منھ نوچ لونگی۔
ان دونوں کی لڑائی کی آواز سن کر نگہت جہاں فورا باہر آئیں۔
سلویٰ کیا ہوا کون ہے یہ؟
پتا نہیں خالہ کوئی پاگل عورت ہے۔
آپ راحب کو بلائیں۔
ثمرین سینے پر ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔
آپ لوگ اپنا تماشہ بند کر لیں پلیز میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے۔
نگہت جہاں فورا راحب کے کمرے میں گئیں اور اسے جگایا۔
راحب اٹھو ۔
راحب اٹھو باہر کوئی پاگل عورت آئی ہے اور اسنے تماشہ لگا رکھاہے۔
امی اب عورتوں کے مسائل بھی میں حل کروں خود پوری ڈالیں اس سے۔
وہ کروٹ بدلتا وہاج سے چپک کر پھ سونے لگا۔
راحب وہ تمہیں بلا رہی ہے بہت ہی کوئی مغرور اور بدتمیز عورت ہے۔
نگہت جہاں منھ کے زاوئے بگاڑتی بولیں۔
راحب منھ بگاڑتا بولا اب ایسی بھی کون آگئی۔
اسکے ذہن میں دور دور تک ثمرین کا خیال نہیں تھا۔
وہ اٹھ کر باہر آیا تو اسکے قدم ثمرین کو دیکھ کر وہیں زنجیر ہو گئے۔
ثمرین چلتی ہوئی اسکے پاس آئی اور اسکے گلے لگ گئی۔
جبکہ سلویٰ اور نگہت جہاں کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔
دور ہٹو ۔راحب نے اسے پیچھے کیا۔
تمہیں کیا لگا تھا شیرنی سورہی ہے تو کبھی جاگے گی نہیں اور تم یہاں اپنی فیملی کے ساتھ ہیپی فیملی ایلبم بناتے رہو گے۔
راحب یہ کون ہے اور کیا بکواس کر رہی ہے۔سلویٰ راحب کے پاس آئی۔
ہے یو لٹل گرل میں کب سے تمہیں سن رہی ہوں ناو یو جسٹ شٹ اپ۔۔
اور میں اسکی بیوی ہوں جو اسنے تم سب سے چھپا کر مجھ سے شادی کی۔پانچ مہینے کہاں تھا تمہارا شوہر پوچھا نہیں اپنی دوسری بیوی کے پاس تھا۔یقینا اسنے نہیں بتایا ہوگا اسلئے میں آگئی تمہیں آگاہ کرنے۔ناو یو شڈ تھینک فل ٹو می۔
سلوٰی حیرت کا پلندہ بنے راحب کو دیکھے گئی۔
راحب یہ کیا ہے۔سلویٰ کی رندھی ہوئی آواز نکلی ۔
سلویٰ میری بات سنو یہ عورت سائیکو ہے کچھ بھی بولتی ہے۔
نہیں یقین تو کچھ کلپس ہیں میرے پاس ہاں تھوڑا بہت حلیہ بدلا ہوا مگر آئی ہوپ تم پہچان لو گی جیسے میں نے پہچان لیا۔
راحب کی چہرے کی اڑی رنگت اور سلب گویائی سلویٰ کو اسکی باتوں کا یقین دلا گئی۔
سلویٰ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔
اس نے کرب سے راحب کو دیکھا۔
محبت مر چکی مجھ میں۔۔
جنازہ بھی پڑھا میں نے۔۔
شامل تھے سبھی اس میں۔۔
تیرے وعدے۔۔
تیری قسمیں ۔۔
وہ اظہار کی باتیں۔۔
تیرے اقرار کی باتیں۔۔
بہت تڑپا بہت رویا۔۔
تسلی بھی ملی ان سے۔۔
کہا مت رو اے پاگل۔۔
یہاں سب دل لگی کرتے۔۔!!!
محبت کون کرتا ہے؟؟
جنازہ پڑھ چکے تھے سب پھر وقت جدائی تھا۔۔
بے وفائی سے رہائی تھا۔۔
دفنایا گیا محبت کو۔۔
مقام بھی میرا دل تھا۔۔
اب کبھی جو آتی ہے یاد محبت
وہ گزری یادیں۔۔
تیرے وعدے تیرے قصے۔۔
میں خود کے گلے سے لگ کے روتا ہوں۔۔
اور کہتا ہوں خاموش ہونا اے دلبر۔۔
یہاں سب دل لگی کرتے۔۔
محبت کون کرتا ہے
تم نکلو یہاں سے راحب نے ثمرین کا بازو پکڑا اور دروازے تک اسے گھسیٹتا لایا۔
نکلو یہاں سے ۔
اور اسے باہر دھکا دیا۔
نہیں جاوں گی میں قبر تک تمہارا پیچھا نہیں چھوڑوں گی میجر راحب احمد۔بچا سکتے ہو خود کو تو بچا لو۔
راحببببب!!!!۔
نگہت جہاں کی دلخراش چیخ نے راحب کے قدم پیچھے موڑے جہاں سلویٰ زمین پر بیہوش پڑی تھی اور اسکے منھ سے خون کا فوارہ چھوٹا ۔راحب کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی جیسے سب ختم ہو گیا۔
سوچ کیا رہے ہو اسے ہسپتال لیکر جاو۔
راحب اگر سلویٰ کو کچھ ہوا نا تو میں تمہیں نہیں چھوڑوںگی نگہت جہاں کا لہجہ بھی شکستہ تھا جسے راحب نے اور توڑ دیا۔
وی آر سوری"
ڈاکٹر سلویٰ کو چیک کر کے باہر نکلی تو راحب کے جیسے سانس رک گئے۔
کیا کہہ رہے ہیں آپ کوئی بیہوشی سے مر کیسے سکتا ہے دماغ ٹھیک ہے آپکا ڈاکٹر؟
راحب کو جیسے کسی چیز کاہوش نہیں تھا پھر وہاں کیا تمیز کیا سلیقہ۔؟
راحب سمنبھالو خود کو۔
نگہت جہاں نے اسے پکڑا۔
ارے آپ میری بات سنیں میں نے سوری اسلئے کہا کیونکہ ہم آپکے بچے کو نہیں بچا سکے۔
راحب نے حیرت انگیزی سے سر اٹھایا۔
بچہ؟؟
جی آپکی وائف ون منتھ پریگننٹ تھیں۔
اور آپکی وائف بس بیہوش ہیں انھیں تھوڑی دیر تک ہوش آجائے گا فیزیکلی ویک ہونے کی کیوجہ سے شی نیڈ پراپر کئیر کائنڈلی ٹیک ہیئر آف ہر۔
امی آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔راحب ایک دم چیخا۔
مجھے خود نہیں پتا اسکی طبیعت تو خراب تھی پر ڈاکٹر کے پاس جانے کیلئے وہ مانی ہی نہیں۔
راحب سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا۔چند لمحے پہلے ساری دنیا اس کے ہاتھ میں تھی اور اب اسکا سب لٹ گیا تھا۔
ایک طوفان نے سب اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا ۔
ثمرین نامی طوفان نے۔
راحب مجھے سچ سچ سب بتاو اب؟
نگہت جہاں کے استفسار پر راحب نے سب انھیں بتا دیا۔
راحب تمہیں سلویٰ سے چھپانا نہیں چاہئے تھا بیٹا۔
امی میں اس وقت حالات کی کشمشکش میں جھکڑا تھا میرے پاس سوچنے سمجھنے کا وقت ہی نہیں رہا مجھے کچھ کرنا تھا۔
کتنے لوگوں کے پیارے ان سے دور تھے انہیں صحیح سلامت واپس لانا تھا۔
راحب کی اذیت کی انتہا پر تھا۔
تم فکر مت کرو راحب جس روح نے بچنا تھا وہ ہزاروں تکلیفوں کے بعد بھی بچ گیا انھوں نے وہاج کی طرف اشارہ کیا جو ڈرا سہما ایک کونے میں بیٹھا اپنی ماں کے انتظار میں تھا اور جس نے دنیا نہیں آنا تھا وہ تکلیف کی نظر ہو گیا یہ سب اللہ کے فیصلے ہیں اور انکی مصلحت وہی بہتر جانتا ہے۔
راحب نے وہاج کو اپنی گود میں بٹھایا۔
با۔با۔۔۔ما۔۔ما۔۔۔وہ بس اتنا ہی تو بول سکتا تھا ابھی ۔۔
آجائیں گی ماما ٹھیک ہو کر ہمارا بچہ ہے نا ہمارے پاس بابا سب ٹھیک کر دیں گے۔
امی مجھے جانا ہے۔وہ وہاج کو بٹھاتا ایک دم کھڑا ہوا۔
سلویٰ کو اس حالت میں چھوڑ کر تم کہاں جا رہے ہو۔
جو اس حالت کی زمہ دار ہے اسکے پاس اب فیصلے کی گھڑی ہے امی۔اب پتا چلے گا یہ جنگ کس کو مرگ بخشتی ہے اور کس کو بقا۔
ایسی باتیں نہ کرو راحب میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔
امی میری سلویٰ کا دھیان رکھئے گا۔میں واپس آیا تو صرف آپ لوگوں کیلئے آوں گا اور نہ آیا تو ۔۔۔۔
راحب نہ کرو ایسی باتیں ۔۔۔نگہت جہاں کا دل جیسے پھٹنے لگا تھا۔
امی میں ہر بار سلویٰ ک سپرد کر کے جاتا تھا سب اس بار آپ کے حوالے۔آپ میری بہادر امی ہیں نا۔پلیززز۔۔۔
راحب ان سے ملتا سلویٰ کے روم میں آیا۔جہاں وہ ہوش سے بیگانہ پڑی تھی۔
راحب نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا۔
سلویٰ مجھے معاف کر دینا اور میری بقا کی دعا کرنا۔۔۔
اور ناچاہتے ہوئے بھی وہ وہاں سے چلا گیا۔دل میں زور سے کچھ ٹوٹا تھا جیسے سب گم ہونے لگا ہو کہیں۔
اندھیرے کمرے میں فاتح مسکراہٹ کے ساتھ وہ اپنی راکنگ چئیر پر جھول رہی تھی جب اسے کسی قدموں کی چاپ سنائی دی۔
تم آگئے نا۔۔۔آخر کو تمہیں آنا ہی تھا راحب تمہاری منزلں جہاں سے بھی شروع ہوں ختم مجھ پر ہی ہوتی ہیں۔
غلط فہمی ہے تمہاری ثمرین سکندر شاہ
میری منزلیں نہ تم سے شروع ہوتی ہیں اور نا تم پر ختم بلکہ تم تو راستے کا وہ کنکر ہو جسے ٹھوکر مار کر پرے کر دیا جاتا ہے۔
ثمرین ایک دم غصے سے اٹھی اور اسکا گریبان پکڑ لیا۔
کیوں دیا تم نے مجھے دھوکا۔۔۔بتاو؟؟؟
جو لڑکی اپنے سگے باپ کو دھوکہ دے کر مروا سکتی ہے وہ مجھ سے یہ سوال کر رہی ہے ۔۔
باہر سے پولیس موبائیلز اور آرمی کا شور ہنوز بلند تھا۔
تمہاری قید کا وقت آگیا ہے ثمرین سکندر شاہ ۔۔
ثمرین نے قہقہ لگایا۔
تم ان سب کو میری قید کہتے ہو۔یہ سب تو میں ایک عمر سے جھیلتی آرہی ہوں۔
تمہیں میری بیوی کو بیچ میں نہیں لانا چاہئے تھا تم نے میرا بچہ مار دیا میرا ہونہہ تم نے تو جانے کتنے مظلوموں کی جان لی ہے۔
وہ تمہاری بیوی ہے تو میں کون ہوں۔ثمرین ایک دم چیخی۔
تم شطرنج کا وہ پیادہ ہو جسے صرف ضرورت کی حد تک استعمال کیا جاتا ہے اسکے بعد آوٹ۔۔۔
بکواس بند کرو اپنی میرا تم سے نکاح ہوا ہے میں تمہاری بیوی ہوں۔سنا تم نے ۔۔۔
ہاں ٹھیک کہا تم نے میرا نکاح ہوا ہے۔
ایک اس لڑکی سے جو اپنے غرض کیلئے کسی کی جاں لے لیتی ہے۔
ایک اس لڑکی سے جو بلاغرض کسی کی خاطر اپنی جان قربان کرسکتی ہے۔
ایک تم ہو ثمرین سکندر شاہ جو کسی بھی بچے کو یتیم کر دیتی ہو۔
ایک وہ ہے سلویٰ راحب احمد جو کسی بھی یتیم کی ماں بن جاتی ہے۔
میری بیوی صرف سلویٰ راحب احمد ہے وہ میری محبت میرا مان میرا فخر ہے۔
بسسسسسسس۔۔۔میں تمہاری بیوی ہوں میں نے تم سے عشق کیا ہےتم صرف میرے ہو سنا تم نے ان جیل کی ستر ہزار دیواریں بھی میرے جنون کی کم نہیں کر سکتی۔
یہ کیا بیوی بیوی لگا رکھا ہے تم نے میرا تم سے نکاح جائز ہی نہیں تھا۔
ثمرین نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔
نہ تمہارا نام اصل تھا نہ میرا ولدیت بھی غلط تو یہ کونسا نکاح تھا جس میں کوئی سر پیر ہی نہیں۔
یہ نہیں ہو ہوسکتا میں نے تمہیں دل سے اپنا شوہر مانا ہے میں نے یہ نکاح دل سے قبول کیا ہے۔راحب میں سب چھوڑ دونگی مجھے خود سے دور نہ کرو۔راحب میں نے دل سے تم سے محبت کی ہے میں اپنے گناہوں کی سزا بھی بھگت لونگی پلیز راحب۔
یہ ممکن تھا اگرتم میری سلویٰ کو بیچ میں نہ لاتی۔تمہارے گناہ اب ناسور بن گئے ہیں جنکو ختم کرنا ضروری ہے۔تم اس نکاح کو مانتی ہو نا تو ثمرین سکندر شاہ
میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔
راحب خدا کیلئے نہیں میں تمہاری بیوی سے بھی معافی مانگ لونگی۔
طلاق دیتا ہوں۔
راحب نہیںننننن۔۔
طلاق دیتا ہوں۔
جاو نہیں رہا میں تمہارا۔
تم میرے نہیں تو کسی کے نہیں۔۔
ثمرین نے ہاتھ میں پکڑا چاقولیا اور راحب کے بازو پر اپنا بازو رکھ کے زور سے وار کیا۔۔
دلخراش چیخوں کے ساتھ اس تاریکی میں سنگل لہو بکھر گیا۔
راحب۔۔۔۔!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہسپتال کے کمرے میں سلویٰ کی چیخ گونجی
اس کی دھڑکن اور سانسیں رکنے لگیں تھیں۔
اب یہ تو خدا ہی جانتا تھا کہ ثمرین کا جنون کسے نگلنے والا ہے۔
ایک ہفتے بعد۔۔۔۔
سلویٰ اٹھو بیٹا دوائی لو شاباش ۔ہسپتال سے گھر آئے دو دن ہو گئے تم نے دوائی نہیں لی چلو۔
عفت جہاں اور نگہت جہاں دونوں نے اسے دوائی دی۔
راحب۔۔۔۔
اسکے منھ پر بس ایک ہی نام تھا۔
بیٹا راحب بلکل ٹھیک ہے اور وہ چاہتا ہے جب وہ واپس آئے تم بھی ٹھیک ہو۔
آپ سچ کہہ رہی ہیں امی۔
ہاں ہاں اٹھو۔
انھوں نے سلویٰ کو دوائی دی کھانا کھلایا۔
تو اسے تھوڑا ہوش آیا ۔
وہاج کہاں ہے۔
وہاج چندہ کے پاس ہے تمہاری طبیعت کا سن کر آئی تھی تو اسے وہی سمنبھال رہی ہے۔
میں دیکھتی ہوں اپنے بچے کو۔
سلویٰ اٹھنے لگی۔
سلویٰ تم ٹھیک نہیں ہو بیٹا آرام کرو۔
خالہ اتنی کمزور نہیں ہوں میں۔اگر راحب ٹھیک ہیں تو میں بھی ٹھیک ہوں۔
وہ اٹھ کر وہاج کے پاس آئی تو وہ اس سے لپٹ گیا۔
ما۔ماہ
ماما کی جان سوری ماما بھول گئی تھیں انکے پاس وہاج ہے ابھی انکی ہمت۔۔۔
کتنے ہی دن گزر گئے سلویٰ کو راحب کی خبر نہ آئی مگر اب اسے عادت ہو گئی تھی انتظار کی۔اسکی طبیعت اب پہلے سے بہتر تھی
وہ وہاج کے ساتھ کمرے میں کھیل رہی تھی جب اسے نیچے شور کی آواز آئی۔
اسکا دل زور سے دھڑکا۔
وہاج بابا آگئے۔
تبھی چندہ آئی۔
ِبھابھی وہ ۔۔۔
مجھے پتا چل گیا راحب آگئے۔ سلویٰ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی نیچے کو بھاگی۔
وہ نیچے آئی تو وہاں جنرل مرزا زایان اور بہت سے آفیسر تھے ۔نگہت جہاں اور عفت جہاں خاموش نظریں جھکائے بیٹھی تھیں۔
کیا ہوا راحب کہاں ہیں۔
بھابھی ۔۔
زایان اٹھا اور آگے آیا۔
اسکے ہاتھ میں راحب کا یونیفارم تھا۔
ہمیں معاف کر دیں بھابھی۔۔
یہ کیا ہے میں ہوچھ رہی وں راحب کہاں ہے اور آپ یہ یونیفارم اٹھا کر لے آئے ہیں۔
سلویٰ زور سے چیخی۔
جنرل مرزا اٹھے اور اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔
مبارک ہو بیٹا آپکے شوہر نے شہادت پائی ہے اور آپ ایک شہید کی بیوی ہیں۔
اور شہیدوں کی مائیں بیویاں روتی نہیں سر فخر سے بلند کرتی اچھی لگتی ہیں۔
شہادت کے نام پر سلویٰ کے سارا جنون ہوا ہو گیا۔
وہ چپ چاپ زمین پر ڈھیر ہو گئی آنسو سوکھ گئے پر آنکھیں خالی ہو گئیں۔دل موجود تھا پر ڈھڑکن رک گئی۔
انتظار کی آس ختم ہوئی۔
آخری ملن ممکن نہ ہو سکا
وہ چھوڑے چلے ہیں ہمیں لاوارث کر کے۔
زایان اسے ساری حقیقت بتاتا قبرستان لے آیا تھا جہاں راحب کی میت جھنڈے میں لپٹی تھی۔
سلویٰ نے نظر بھر کر اسے دیکھا۔پر دل نہیں بھرا کتنا نور تھا اسکے چہرے پر۔
بس اتنا ہی ساتھ تھا ہمارا؟سلویٰ آہستہ سے بولی۔
نگہت جہاں اس کے پاس آئیں۔
خالہ ابھی تو ہم نے سفر شروع کیا تھا۔یہ ایسے کیسے تھک گئے۔
کاش میں راحب کی بات سن لیتی تو آخری ملاقات کی حقدار ٹھہرتی۔
بس بیٹا بس مزید ایک لفظ نہیں۔ورنہ اسکی شہادت رائیگاں ہو جائے گی۔مسکرا کر وداع کرو اسے۔جنرل مرزا نےاسے سمجھایا۔
سلویٰ اسکے پاس آئی اور چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
جائیں۔میجر راحب احمد اللہ کی امان روز محشر میرا انتظار کیجئے گا وہاں ملاقات ہوگی اب۔
سلویٰ کی یہ حالت دیکھ کر وہاں ہر کسی کا دل پھٹنے کے در پر تھا۔
میرے چارہ گر کو نوید ہو صنف دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا۔
پاگل خانے میں موجود وہ شکستہ حال عورت ہاتھ میں پلاسٹک کا چاقو لئے اپنی کلائی پر ضرب لگا رہی تھی۔
وہ چلا گیا میں کیوں بچ گئی۔
مجھے اسکےپاس جانا ہے ۔۔اے سنو تم مجھے مار دو۔وہ اپنے ساتھ والی پاگل کو چاقو تھماتے بولی۔
میں اسکے بغیر نہیں رہ سکتی کوئی مجھے مار دو اسکے پاس چھوڑ آو وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی قسمت کی ستم ظریفی
یہ تھی اسکے حصے میں راحب تو دور صبر بھی نہ آیا۔
وہیں دوسری طرف اندھیر کمرے میں راحب کا خط لئے بیٹھی تھی جو آخری لمحات میں راحب نے اس کیلئے لکھا تھا زایان تھوڑی دیر پہلے دیکر گیا تھا۔
گھپ اندھیرے میں کپکپاتے ہاتھوں میں پکڑا وہ خط اسے بخوبی نظر آرہا تھا۔آنسووں سے تر چہرا الفاظ مٹانے کی کوشش کرتا جو جو اندھا دھند خط پر گر رہے تھے۔مگر وہ الفاظ نہیں جزبات تھے جو انمٹ تھے۔اس کا پور پور خط میں لکھے الفاظ میں محو تھا۔
"یہ جزبات اس لڑکی کے نام جس کے حصے میں کبھی جزبات نہیں آئے۔یہ الفاظ اس لڑکی کے نام جسے ذمہ داریوں کی زنجیروں سے باندھ کر بے الفاظ کر کردیا گیا۔یہ اظہار اس لڑکی کے نام جس سے محبت تو کی گئی مگر اظہار نہ کیا گیا۔یہ دینار اس لڑکی کے نام جس نے اپنی خواہشات کی بہت بڑی قیمت چکائی۔
یہ اعداد اس لڑکی کے نام جس نے شوق کی عمر میں صبرسیکھ لیا۔یہ موتی اس لڑکی کے نام جس کے آنسووں کو اسکی ذات کی طرح بے مول کیا گیا۔یہ معافی اس لڑکی کے نام جسے ہزار زیادتیوں کے کےبعد بھی معافی نصیب نہ ہوئی۔
یہ قبولیت اس لڑکی کے نام جسے کہا گیا "#کہو_قبول_ہے۔
تو اسنے کہا ہاں قبول ہے!۔
راحب ایک ہلکی مگر اذیت ناک سسکی اسکے منھ سے نکلی اور وہ جی بھر کے روئی اور دل کا سارا غبار نکالا۔
ننھا وہاج اسکے پیروں سے لپٹ گیا۔
میں سمجھ گئی بیٹا تمہارا میری زندگی میں آنے کا مقصد ۔
میں کمزور نہیں ہوں میں سلویٰ راحب احمد ہوں آپکی قربانی ضائع نہیں کرونگی راحب۔
"بیس سال بعد"
فوجی پریڈ میں اس وقت تمام فوجی پاکستانی پرچم کو سلامی دے رہے تھے۔
اسٹیج پر کھڑے آفیسر نے تقریب کا آغاز کیا۔
آج کی یہ تقریب ہمارے ملک کے جانباز سپاہی کے نام جس نے بیس سال پہلے اپنے ملک کو ایک خطرناک کھیل سے نکال کر سارے حساب چکا دئے تھے۔یہ تقریب اس سپاہی کے جانباز بیٹے کے نام جس نے اپنے باپ کے نقشے قدم پر چلتے ملک و قوم کو اپنا گہوارا بنا لیا۔
میں بات کر کررہا ہوں اس ملک کے نئے جیالے میجر وہاج راحب احمد کی۔
تالیوں کی گونج میں سب سے اوپر ہاتھ اس چالیس سالہ خاتون کے تھے۔جس کے چہرے پر جھریوں کے ساتھ ساتھ تنہا مسافت کے کئی آثار تھے مگر وہاں اطمینان اور فخر تھا کیونکہ وہ سلویٰ راحب احمد تھی۔
اسلام و علیکم ۔ایک خوششکل نوجوان سب سے مخاطب ہوا۔
میں وہاج راحب احمد ۔
میں اس باپ کا بیٹا ہوں جو موت سے بھی نہیں ڈرا اور میں اس ماں کا بیٹا ہوں جو تنہا جینے سے نہیں ڈری۔
وہاج نے سلویٰ کی طرف دیکھا تو اسکے آنسو ٹوٹے۔
میں بہت چھوٹا تھا اسلئے باپ کے ساتھ وقت نہیں گزار سکا۔ہاں مگر انکے لمس انکی بہادری شجاعت ہمیشہ میرے اردگرد رہی ہے جس نے مجھے کمزور نہیں ہونے دیا۔
اور آج یہاں پہنچانے میں سب سے بڑا ہاتھ میری ماں کا ہے سلویٰ راحب احمد ۔جس نے زمانے بھر کے طوفانوں سے تنہا لڑ کر مجھے پالا ہے اور آج مجھے میرے باپ کی جگہ پڑ کھڑا۔
امی یہ شان انعام آپکے نام۔لو یو موم۔
سلویٰ نم آنکھوں سے مسکراتی اسے دیکھنے گی۔
وقت کے اجالوں میں دور کہیں کھڑے اسے راحب کا عکس نظر آیا۔
کون کہتا ہے آپ چلے گئے آپ تو میرے ساتھ تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔
ہم ۔۔۔ یعنی دیوانے!
کیا ہم مر کر بچهڑ جائیں گے۔۔۔؟
ہم ۔۔۔ یعنی دو عمر رسیدہ پیڑ ۔۔۔
جن کی جڑیں زمین کی تہہ میں۔۔۔ ایک دوسرے سے اُلجھ چکی ہیں!
تم ۔۔۔ یعنی "میں" ۔۔۔
میں۔۔۔ یعنی "تم" ۔۔۔
ہم ۔۔۔ یعنی "دیوانے" ۔۔۔ ہمیں اِس بات سے کیا مطلب ۔۔۔؟
کہ ہمارے وجود کو کہاں گهسیٹا جا رہا ہے۔۔۔؟
ہم پاکیزہ تهے۔۔۔ ہم پاکیزہ ہیں۔۔۔ ہم پاکیزہ رہیں گے!
ہم ۔۔۔ یعنی دیوانے۔۔۔ ہم دیوانوں کو رواجوں سے کیا مطلب ۔۔۔؟
ہماری ارواح ۔۔۔ نکاحِ عشق کر چکی!
ہم ۔۔۔ یعنی "رُوح"
ہمارا بدن سے کیا تعلق۔۔۔؟
کیا موت ہمیں جدا کر دے گی۔۔۔؟
بهلا کیسے ۔۔۔؟ موت کیا ہے ۔۔۔؟
ایک موت ہے۔۔۔ وجود کا فنا ہونا ،
ایک موت ہے۔۔۔ خواہشات کا فنا ہونا ۔۔۔
ہم ۔۔۔ یعنی دیوانے!
ہم نے۔۔۔ اپنی خواہشات کی تدفین کر ڈالی ۔۔۔
ہم پر قیامت گزر گئی!
ہم نے موت چکھ لی۔۔۔ تو کیا ہم بچهڑ گئے۔۔۔؟
نہیں۔۔۔ تُم میں "میں" ،
مجھ میں "تُم" ۔۔۔ ہمیشہ زندہ ہو ۔۔۔!
ہم کبهی نہیں بِچهڑیں گے۔۔۔ ہم کبهی نہیں مریں گے۔۔۔
تُم یعنی "میں" ۔۔۔
میں یعنی "تُم" ۔۔۔
ہم ۔۔۔ یعنی "محبت " ہم "جاوداں" ہیں۔۔۔!
ہم محبت ہیں!
ہم جاوداں ہیں۔۔۔
ختم شد۔۔۔