سبحان اکرم کا بھیجا ہوا غنڈہ مسلسل سیٹھ شہاب الدین کے گھر پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔اک لڑکی صبح کے 8 بجے گھر سے باہر نکلی پر اس نے سفید یونیفارم کی جگہ سفید ٹی شرٹ اور جینز پہنی تھی اور پیدل چلتے ہوئے جا رہی تھی اس کے ساتھ کوئی نہ تھا اور اس غنڈے کو وہی موقع صحیح لگا اور اس نے رومال پر بے ہوشی کی دوا لگا کر اسکے پیچھے جا کر اس کے ناک پر رکھ کر زور سے دبایا اور جیسے ہی وہ لڑکی بے ہوش ہوئی اسے جلدی سے اپنی گاڑی میں ڈال کر اپنے اڈے پر لے گیا ۔اڈے پر پہنچ کر اس نے اس لڑکی کو رسیوں سے باندھ کر اک کھنڈر نما کمرے میں قید کر دیا اور منہ پر ٹیپ لگا دی ۔کمرے کو باہر سے تالا لگا کر وہ اغواء کار سبحان اکرم کو کال ملانے لگا ۔پہلی ہی بیل پر کال پک لر لی گئی چھوٹتے ہی سبحان اکرم نے پوچھا ہاں بولو کام ہو گیا ؟؟؟
جی صاحب ہو گیا آپکا کام اب ہمارا انعام تیار رکھیں اس غنڈے نے اپنی مونچھ کو تاؤ دے کر کہا ۔
ہاں ہاں مل جائے گاا انعام بھی صبر کرو بس اس لڑکی کا دھیان رکھنا بھاگنے نا پائے سبحان اکرم نے کہا۔
ارے صاحب بے فکر رہیے چڑیا بری طرح جال میں پھنس گئی ہے اب تو وہ پنجرے میں جائے گا بھاگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس غنڈے نے خبیس ہنسی ہنس کر کہا ۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے زیادہ باتیں نا بناؤ اور اس پر نظر رکھو کہہ کر سبحان اکرم نے کال کاٹ کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیبی کو گئے ہوئے 2 ماہ ہوگئے تھے اس دوران سیٹھ محی الدین سے اکثر فون پر بات ہوتی رہتی تھی وہ ہفتے میں ایک دو بار لازمی اپنے بابا کو کال کر کے انکا حال احوال پوچھتا رہتا تھا پر کبھی اس کی باتوں میں ملیحہ کا ذکر نا ہوتا سیٹھ صاحب خود ہی باتوں باتوں میں ملیحہ کا ذکر چھیڑتے تو وہ بات ہی بدل دیتا "" پچھلے کچھ دنوں سے ملیحہ کی طبیعت بھاری بھاری رہنے لگی تھی وہ بنا کوئی کام کئے بھی تھکنے لگی تھی سیٹھ صاحب نے اسے سست سست دیکھا تو فوری ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لئے لے آئے" ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر جو انکو خبر ملی اس نے تو انہیں دوبارہ زندگی کی رونقیں لوٹا دیں اسی دن جب شام کو شیبی کی کال آئی تو انہوں نے سب سے پہلے شیبی کو بتایا کے وہ باپ اور سیٹھ صاحب دادا بننے والے ہیں
سیٹھ صاحب تو خوشی میں جانے کیا کیا بول رہے تھے پر دوسری جانب سے کال کاٹ دی گئی ۔پہلے تو سیٹھ صاحب کال کٹنے پر حیران ہوئے بعد میں انہیں یہ سوچ کر اطمنان ہو گیا کہ شاید لائن کٹ گئی ہو گی پر انہیں یہ نہیں پتہ تھا لائن کٹی نہیں بلکہ کاٹی گئی تھی ۔
اس دن کے بعد سیٹھ صاحب اکثر بیٹے کی کال کا انتظار کرتے رہتے تو کبھی خود کال ملاتے پر کوئی جواب نہیں ملتا
اب انکی بوڑھی آنکھیں بیٹے کے انتظار میں تھکنے لگی تھیں اور کان اسکی آواز کو ترس گئے تھے پر شیبی نا خود آیا نا اسکی کال آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی صبح ہی صبح میرو ناشتہ لے کر آگیا تھا اور ناشتے کے ساتھ ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کر کے اسکا دل بہلانے کی ناکام کوشش کرتا رہا اور جاتے ہوئے شام کو پھر آنے کا بول کر چلا گیا ۔
بے شک علایا کسی کی قید میں تھی پر میرو جیسا انسان اسکی زندگی میں پہلی بار آیا تھا جو نا صرف اس سے اچھے سے بات کرتا تھا بلکہ اسے عزت بھی دیتا تھا
اسکی آنکھوں کی چمک بتاتی تھی کہ وہ کتنا خوش اخلاق انسان ہے اور آنکھوں کی ہلکی نمی اسکے ہمدرد ہونے کا پتہ دیتی تھی
چال ڈھال سے وہ اک با رعب انسان تھا اور لہجے سے بہت ہی نرم
اب تو یہ روز کا معمول بن گیا تھا میرو صبح بھی آتا تو ڈھیر ساری باتیں کرتا اور شام میں جب کھانا لے کر آتا تو علایا کو خوب ہنساتا ۔
علایا کو میرو کی دوستانہ اور عورت کی عزت کرنے والی عادت نے بہت متاثر کیا تھا اس نے اس سے پہلے کبھی اتنا اچھا انسان نہیں دیکھا تھا آہستہ آہستہ دونوں میں اچھی دوستی ہو گئی تھی
شام میں جب میرو آیا تو اس نے باتوں باتوں میں پوچھ لیا کہ میں صبح شام آپکے اتنے کان کھاتا ہوں آپ تنگ تو نہیں آجاتی ؟؟؟
ارے نہیں نہیں ایسی بات نہیں الٹا آپ کے ساتھ میرا وقت اچھا گزر جاتا ہے ویسے بھی مجھے یاد نہیں پڑتا کے میں زندگی میں کبھی اتنا ہنسی ہوں جتنا اب آپکی باتوں پر ہنستی ہوں علایا نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
اچھا مطلب ہم اچھے دوست بن گئے ہیں ؟؟؟ میرو نے بھنویں اچکائیں ۔
ہہہہممممم کہہ سکتے ہیں علایا نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
ارے واہ یہ تو بہت اچھی بات ہے اسکا مطلب میں دوست ہونے کی حیثیت سے آپ سے کوئی بات کرنا چاہوں تو کر سکتا ہوں نا؟؟؟
آپ میری بات کا برا تو نہیں مانیں گی ؟؟؟ میرو نے پوچھا
آپ نے آج تک جتنی بھی باتیں کیں ان میں کوئی برائی نہیں تھی تو ضرور وہ بات بھی اچھی ہی ہو گی علایا نے معصومیت سے کہا
ہہہمممم مجھ نا چیز کو اتنی عزت دینے کا شکریہ تو سنیں ویسے تو انسان کو سارے فیصلے دماغ سے کرنے چاہئیں پر کچھ فیصلے ایسے ہوتے جن میں دماغ فیل ہو جاتا ہے اور دل ہی کا فیصلہ درست ہوتا ہے ان حالات میں
گو کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے پر ہوتا ضرور ہے زندگی میں میرو نے سنجیدگی سے کہا ۔
آپ مجھے پہیلیاں کیوں بھجوا رہے ہیں پلیز جو کہنا ہے سیدھا سیدھا کہیں علایا جھنجلا سی گئی ۔
اوکے بتاتا ہوں پر پہلے آپکو وعدہ کرنا ہوگا کہ آپ میری بات کو مثبت لیں گی اور اسکے بارے میں ٹھنڈے دماغ سے سوچیں گی ابھی وہ دونوں بات کر ہی رہے تھے کہ میرو کے فون کی بیل بجی اور کال اٹینڈ کرتے ہی اسکے چہرے پر پریشانی کے آثار نمودار ہو گئے
کال کاٹ اس نے علایا کو کھانا کھانے کی تاکید کی اور تیزی سے بنا کچھ بتائے کمرے سے باہر نکل گیا ۔
اور علایا اسکے یوں اچانک چلے جانے سے حیران سی اس دروازے کو دیکھ رہی تھی جس سے ابھی ابھی میرو باہر نکلا تھا
اوئے شانی سبحان اکرم کو کال ملا اور پوچھ اس سے کہ اس لڑکی کا کیا کرنا ہے کل سے بے ہوش پڑی ہے کھانا وانا دینا ہے کے نہیں ؟؟؟
اور ہاں یہ بھی پوچھ کے تاوان کا مطالبہ کب کرنا ہے اسکے باپ سے ؟؟؟
ٹھیک ہے استاد اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو تاؤ دے کر شانی نے کہا ۔
سبحان اکرم آفس کی میٹنگ میں بیٹھا تھا کہ اچانک اس کے موبائل پر کال آئی جس کو اس نے ایک دو بار کاٹ بھی دیا پھر بھی کوئی دوسری جانب شاید یس کے بٹن پر انگلی رکھے بیٹھا تھا ۔
تنگ آکر سبحان اکرم سب سے معذرت کرتا میٹنگ روم سے آگیا جسے خاص طور پر میٹنگ روم میں موجود اک انسان نے نوٹ کیا تھا ۔
جونہی سبحان اکرم باہر آیا تو غصے میں کال پک کر کے کال کرنے والے کو سنانے لگا ۔۔۔۔
کیا مسئلہ ہے صبر نہیں تم لوگوں میں جب میں کال کاٹ رہا ہوں تو مطلب بزی ہوں پر تم لوگوں کا تو دماغ گھاس چرنے گیا ہوا ہوتا ہے بے وقوف لوگ بولو اب کس تکلیف سے بار بار کال ملا رہے تھے
ارے صاحب غصہ کیوں ہو رہے ہو ہم نے تو بس یہ ہی پوچھنا تھا کہ اس لڑکی کا کیا کریں جو کل سے بے ہوش پڑی ہے کہیں مر ور نا جائے شانی غنڈہ منمنایا ۔
ہاں تو اسکو کھانا دو مر گئی تو ہمارے لئے بہت مسئلہ ہو جائے گا اور ہاں خاص نظر رکھنا اس پر اور اب مجھے بلا وجہ تنگ مت کرنا سمجھے ۔
ارے صاحب رکو رکو اتنا تو بتاتے جاؤ کے تاوان کا مطالبہ کب کرنا ہے سیٹھ سے ؟؟؟
وہ ابھی نہیں کرنا پہلے پورا اک ماہ تڑپنے دو اسے سبحان اکرم کے چہرے پر بات کرتے شیطانی مسکراہٹ پھیلی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملیحہ امید سے تھی اور ایسے وقت میں اسے اپنے شوہر کی بہت ضرورت تھی پر وہ تھا کے اسے بھول ہی گیا تھا یا ایسا کہنا زیادہ بہتر ہوگا کے اس کی زندگی میں ملیحہ کی کبھی کوئی اہمیت ہی نا تھی اور ویسے بھی اسے ملیحہ نا کمی محسوس ہوتی تھی نا ضرورت
ملیحہ دن رات شیبی کو یاد کرتی اور اس کے واپس آنے کی امید لئے دروازے کو تکتی رہتی اس کے ہر وقت ٹینشن میں رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسکا بی پی بہت ہائی رہنے لگا ۔
سیٹھ محی الدین اسکا بہت خیال رکھنے کی کوشش کرتے تھے پر وہ بوڑھے ہو گئے تھے اکیلے کیا کیا کرتے ۔
اک تو اکلوتے بیٹے کی جدائی اور دوسرا بہو کی حالت دیکھ کر انہیں اپنا آپ مجرم سا لگنے لگا تھا۔
رات کو اکیلے بیٹھ کر اکثر وہ سوچتے کہ کاش وہ ملیحہ کی شادی شیبی سے نا کرتے تو آج نا تو انکا بیٹا ان سے دور ہوتا اور نہ اس معصوم بچی کی زندگی خراب ہوتی ۔
وقت کا کام ہوتا ہے گزرنا اور وہ ہر طرح کے حالات میں جیسے تیسے گزر ہی جاتا ہے
ملیحہ کی پریگنینسی کا وقت بھی جیسے تیسے گزر ہی گیا اور صبح ہی سے اس کی طبیعت خراب تھی ۔سیٹھ محی الدین نے ملیحہ کی حالت کو دیکھا تو اسے لے کر فورا ہسپتال آگئے ۔
ملیحہ چیک اپ کے لئے ڈاکٹر کے کمرے میں چلی گئی اور سیٹھ صاحب باہر کھڑے خیریت کی دعاء مانگ رہے تھے کہ اچانک انہیں پیچھے سے شیبی کی آواز آئی ۔خوشی اور حیرانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ سیٹھ صاحب نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو حیران رہ گئے کیونکہ انکے پیچھے صرف شیبی نہیں کھڑا تھا بلکہ اس کے ساتھ اک ماڈرن سی لڑکی سلیو لیس وائٹ شرٹ اور براؤن ٹائٹس پہنے کھڑی تھی۔۔۔۔
بابا اس سے ملیں یہہے ثانیہ میری وائف ۔
شیبی نے بنا کوئی تمہید باندھے سیدھاسیدھا بول دیا ۔سیٹھ محی الدین جن کو بیٹے سے اتنا گرنے کی امید کبھی نا تھی وہیں دل پکڑ کر بیٹھتے چلے گئے اور شیبی جو بڑا حوصلہ کر کے ثانیہ کے بار بار کہنے پر اپنے بابا کو یہ بات سیدھا سیدھا بولنے آیا تھا کہ وہ ثانیہ سے محبت کرتا ہے اور ملیحہ سے شادی اس نے صرف مان رکھنے کے لئے کی تھی اسے لگا کہ اس نے اپنے جان سے پیارے بابا کو کھو دیا ہے پر اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ اس نے نہ صرف اپنے بابا کو کھویا بلکہ اک اور ہستی جو اس سے بے لوث محبت کرتی تھی اسے بھی کھو دیا ۔
ملیحہ جس کا بی پی بہت ہائی تھا اور آپریشن سے پہلے نارمل ہونا بہت ضروری تھا ڈاکٹر کے کمرے سے میڈیسن لے کر باہر آرہی تھی تا کہ میڈیسن کھائے اور بی پی نارمل ہونے پر آپریشن شروع کیا جا سکے دروازے کے پاس آتے ہوئے اس نے شیبی کی ساری بات سن لی اور اسکا وہیں بی پی شوٹ کر گیا اور وہیں بے ہوش ہو گئی ۔اور ڈاکٹرز کو اسی حالت میں اسکا آپریشنہ رنا پڑا کیونکہ اب اس کے ساتھ ساتھ اس کے بچے کی جان کو بھی خطرہ تھا ۔
اس دن شیبی نے ہسپتال میں کھڑے کھڑے اپنی من مانی کی وجہ سے کھو دیا اک تو اسکے جان سے پیارے بابا اور دوسری وہ بیچاری لڑکی جس کو شروع دن سے اس نے کبھی اہمیت نہیں دی تھی اور جاتے جاتے وہ اک پیاری سی گڑیا کو جنم دے گئی تھی جسے اب باپ اور سوتیلی ماں کی بے رخی سہنی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔