علایہ کو ہوش آیا تو وہ اینٹوں سے بنے کمرے میں اوندھے منہ پڑی تھی اس نے کوشش کی پر اٹھ نہ پائی اور وہیں چٹائی پر لیٹے لیٹے وہ اس بڑے سے اینٹوں سے بنے کمرے کا جائزہ لینے لگی۔ کمرے کی دائیں جانب ایک لوہے کی الماری تھی بائیں جانب موڑے پڑے تھے باقی سارا کمرا خالی تھا۔ زمین پر چٹائ بچھی تھی دائیں طرف دیوار پر پرانے زمانے کی انگھیٹی بنی تھی تھی جس پر اسٹیل کے برتن سجے تھے۔ اس کمرے کو دیکھ کر اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ دو صدیاں پیچھے آ گئی ہے۔ وہ تو محل نما گھر میں رہنے کی عادی تھی اس نے کہاں دیکھا تھا کبھی ایسا اینٹوں سے بنا ٹوٹا پھوٹا سادہ سا گھر۔۔۔۔۔
----------------------------------
سیٹھ شہاب ادین شہر کے مشہور بزنس مین تھے۔ انہیں دنیا ہر آسائش مہیا تھی بس نہیں تھا تو اک سکون میسر نہ تھا۔ سارے دن کے تھکے ہارے جب آفس سے گھر آتے تو محبت سے ویلکم کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔ ان کے بچوں کو اپنے باپ کا کھلا پیسہ اڑانے سے فرصت نہ تھی اور بیگم صاحبہ کی پارٹیز ختم نہیں ہوتی تھی۔ جب کبھی شوہر کے پاس بیٹھنے کا وقت مل جاتا، یا تو فرمائشیں ختم نہ ہوتی یا پھر ان کو گلے شکوے یاد آجاتے۔ آج بھی سیٹھ صاحب جب گھر آئے تو بیگم صاحبہ کسی پارٹی میں جانے کیلیئے نک سک سے تیار کھڑی تھی۔ جیسے ہی سیٹھ صاحب اپنے روم میں داخل ہوئے تو ثانیہ بیگم کی آواز آئی
"ڈارلنگ میں جا رہی ہوں پارٹی پر آپ میشا کو کھانا کھلا دینا پلیز مجھ سے تو وہ ناراض ہے کیونکہ میں نے اسے اسکی فرینڈز کے ساتھ کینیڈا جانے کی اجازت نہیں دی نہ اسلیئے کیا کروں میرا میری پری کے بغیر دل ہی نہیں لگتا۔ اور ہاں یاد آیا ہادی بھی کافی دن سے کہہ رہا ہے اسپورٹس کار چاہیئے ڈیڈ سے بولیں کہ لے کر دیں۔ پر ایک آپ ہیں جن کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا اپنے بچوں کیلیئے۔ آفس کی میٹنگز اور اتنا سارا کام آپ نے تو اپنی زندگی کو وہیں تک محدود کر لیا ہے۔ اچھا میں چلتی ہوں میری فرینڈز میرا ویٹ کرتی ہوں گئ۔" کہہ کر ثانیہ بیگم چلتی بنی۔
سیٹھ صاحب بس یہ سوچ کر رہ گیۓ کہ "ماں چاہے سوتیلی ہو پر سوتیلی کے آگے بھی آخر لفظ ماں ہی لگتا ہے پر اس ماں کو صرف اپنی سگی اولاد کی فکر رہتی ہے۔ انکی فرمائشیں پوری کرنے کی فکر اور انکے لاڈ اٹھانے کی طرف دھیان تو رہتا ہے پر مجال ہے انکے دل میں کبھی اس بن ماں کی بچی کا خیال آیا ہو کہ اس نے کھانا کھایا بھی ہے کہ یا بھوکی سو گئ؟۔۔۔ کیا اسے محبت کی ضرورت نہیں؟۔۔۔ کیا اسکی کوئی خواہش نہیں؟۔۔۔۔ کیا اس کو اپنے باپ کے پیار اور ماں کی ممتا کی ضرورت نہیں؟۔۔۔۔" اپنا کوٹ اتارتے ہوئے سیٹھ صاحب آئینے کے سامنے آ کر کھڑےہوگیۓ" آئینے میں انہیں اپنا عکس دکھائ دیا جو ان سے باتیں کرنے لگا۔۔۔
ارے سیٹھ صاحب کیا ہوا اداس کیوں ہو؟ سارا الزام ثانیہ بیگم پر ڈال کر خود کو بڑی آسانی سے بچا رہے ہو۔ اپنے گناہوں کا سارا الزام اپنی بیوی پر مت ڈالو، اصل گناہگار تم ہو۔ تم جو اپنی بیوی کو ظالم سوتیلی ماں بول کر اپنا پلا جھاڑ رہے ہو۔۔ تو سن لو تم ہو اُس معصوم بن ماں کی بچی کی محرومیوں کے ذمے دار۔۔ اے پتھر دل انسان ہادی اور رمشا کے بچپن سے لے کر اب تک لاڈ اٹھا رہے ہو کیا کبھی تمہارے دل میں آیا کہ اس معصوم بچی کو بھی دو پل دے دوں جیسے اپنے باپ کی شفقت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ہادی اور رمشا کے پاس تو ماں کا پیار بھی ہے پر اس معصوم کی تو تم نے ماں بھی چھین لی اور باپ کا پیار بھی نہیں دے پائے اسے کبھی۔ جانتے ہو کتنی ہی راتیں اس نے ڈر ڈر کے گزاریں؟ اس کے پاس نہ تو ماں تھی جو اُسے سینے سے لگا کر اس کے سارے خوف ختم کرتی اور نہ باپ جو اُسے پیار سے لوری سنا کر سلاتا۔ تم نے اسکا بچپن محرومیوں سے بھر دیا اور اب اسکی جوانی بھی تمہاری وجہ سے خراب ہورہی ہے۔ وہ بنا بات کے ڈرنے لگی ہے۔ کسی کے سامنے نہیں آتی ضدی ہوگئ ہے۔ احساس کمتری نے اسے ضدی اور ڈرپوک بنا دیا ہے۔ اسے پتہ ہی نہیں ماں کی محبت اور باپ کی شفقت کا مطلب اور اسکی اس حالت کے ذمے دار صرف تم ہو صرف تم۔۔۔۔۔ کہتے ہی ان کا عکس آئینے سے غائب ہوگیا۔۔۔۔
"نہیں میں اپنی بیٹی کو مزید احساسِ محرومی نہیں دوں گا۔ میں نے اس معصوم کو کبھی پیار اور خوشی نہیں دی پر اب میں اسے ساری دنیا کی خوشیاں دوں گا۔ میں چاہتا تو اپنی بیٹی کو وقت اور محبت دے سکتا تھا مجھے ثانیہ بیگم بھی نہیں روک سکتی تھی پر میں نے خود ہی اپنی بیٹی کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی۔۔۔ میں ہی برا باپ ہوں سارا قصور میرا ہے۔ میں اب اپنی بچی کی زندگی کو پھولوں کی مانند کردوں گا۔۔۔۔ میں اسکی زندگی خوشیوں سے بھر دوں گا۔۔۔ ہاں ۔۔ ہاں خوشیوں سے بھر دوں گا۔" کہتے ہوئے سیٹھ شہاب الدین گھٹنوں کے بل بیٹھتےچلےگیے انکے آنسو تواتر سے بہہ رہے تھے۔ آج انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایک اچھا فیصلہ کیا تھا اور وہ تھا انکی بیٹی کی خوشیوں اور اسکے حق کا فیصلہ۔۔۔۔
******♡♡♡♡♡♡♡♡******
شیبی سیٹھ محی الدین کی اکلوتی اولاد تھا اور یہی وجہ تھی کہ انکی شیبی میں جان بستی تھی۔ شیبی کا بچپن گزرا اور وہ جوان ہوگیا پر سیٹھ محی الدین کیلیئے وہ ابھی بھی ایک چھوٹا سا بچہ ہی تھا اور وہ اسکے ایسے ہی لاڈ اٹھاتے تھے جیسے وہ کوئ چھوٹا بچہ ہو یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی ہر جائز و ناجائز بات منوا لیتا تھا۔ شیبی کی والدہ نسیم بیگم شیبی کی پیدائش کے وقت جہاںِ فانی سے کوچ کر گئ تھیں ایک یہ وجہ بھی تھی کہ سیٹھ صاحب بیٹے کو ایکسٹرا محبت دیتے تھے تا کہ اسے کبھی ماں کی کمی محسوس نہ ہو۔ پر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ انکا لاڈ پیار ہی ایک دن انکے بیٹے کو انکے سامنے لا کر کھڑا کردیگا۔۔۔۔
علایہ مسلسل اس اینٹوں سے بنے بڑے سے کمرے کو خالی خالی نظروں سے دیکھے جارہی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں ارہی تھی کہ وہ کہاں ہے اسکا سر بہت بھاری ہو رہا تھا اور جسم سردی میں ٹھنڈی زمین پر پڑے رہنے کی وجہ سے ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ اس نے دماغ پر زور دیا تو اسے یاد آیا کہ وہ آج سر میں درد کی وجہ سے کالج نہیں جا پائ تھی اور گھر میں کوئ ایسا انسان تھا بھی نہیں جو اس سے پوچھتا کی کیوں وہ آج کالج نہیں گئ۔ شام میں جب وہ سو کر اٹھی تو طعبیت پہلے سے زیادہ خراب تھی پر اب اسکے لیئے یوں بیڈ پر لیٹے رہنا بھی محال تھا۔ وہ ہمت کر کے اٹھی اور بنا کسی کو بتائے قریبی پارک چلی آئ ویسے بھی اس گھر میں اسکی پرواہ ہی کہاں تھی جو وہ کسی کو بتا کر آتی۔ بچپن سے لے کر اب تک جب جب اسے تنہائ نے اُداس کیا تھا تب تب پھوٹ پھوٹ کر اپنی ماں کو یاد کر کے روئ تھی یا اٹھ کر قریبی پارک میں چلی جاتی وہاں بچوں کو کھیلتا دیکھ یوں ہی مسکراتی رہتی۔ بس اللہ کے سہارے کے بعد یہ معصوم بچے ہی تھے جن کو دیکھ کر وہ مسکرایا کرتی تھی ورنہ اسکی زندگی تو ایک خالی کتاب تھی جس پر کوی تحریر کوئ رنگ نہ تھا۔ آج جب وہ پارک میں آئ تو جھولوں پر اکا دکا بچے جھولا جھول رہے تھے کچھ بچے فٹبال کھیل رہے تھے وہ ان کو کافی دیر دیکھ کر مسکراتی رہی۔ اسے یاد نہیں تھا کہ وہ بچپن میں کبھی کھیلی ہو۔ اسکا بچپن تو راتوں کو بن ماں کے روتے اور ڈرتے ہوئے گزرا تھا جب کبھی رات کو تیز ہوا کے ساتھ بارش ہوتی تو وہ اکیلی بن ماں کی چھوٹی سی بچی ڈر کے ماں کو پکارتی پر تب اس گھر میں ایسا کوئ نہ تھا جو اسے آ کر سینے سے لگاتا چپ کرواتا۔۔۔۔ کون ہوں میں۔۔۔؟ حیثییت کیا ہے میری اس گھر میں۔۔۔؟ ایسا کوئ فرد نہیں جیسے کبھی میری فکر ہوئ ہو۔ آخر کس کیلیئے جی رہی ہوں میں اس خالی زندگی کو۔۔ یوں ہی سوچوں میں گم کب بچوں کے پاس سے اٹھ کر پارک کی دوسری جانب چلی آئ جو بلکل سنسان تھی اسے اس چیز کا احساس تب ہوا جب اچانک کسی نے پیچھے سے اسکے منہ پر رومال رکھ کر دبایا اور وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئ۔ اور جب اسے ہوش آیا تو اس نے خود کو اس ٹوٹے پھوٹے کمرے میں قید پایا۔
******♡♡♡♡♡******
سبحان اکرم سیٹھ شہاب ادین کی بیوی ثانیہ بیگم کا چھوٹا بھائ تھا۔ ثانیہ بیگم کے کہنے پر سیٹھ صاحب نے اسے اپنے آفس میں ہی رکھ لیا تھا۔ سبحان احمد اوپر سے دکھنے میں جتنا معصوم اور شریف لگتا تھا اندر سے اُتنا ہی بُرا اور لالچی انسان تھا۔ اسکی نظر ہمیشہ سیٹھ شہاب ادین کے پیسے پر رہی تھی اور وہ ہمیشہ ہی بہت چالاکی سے آفس سے پیسے نکالنے میں کامیاب ہوتا رہا تھا پر آج کل سبحان اکرم کے بُرے دن آئے ہوئے تھے۔ وہ چاہ کر بھی کوئ گپلا کر کے پیسے نہیں نکال پا رہا تھا۔ اسکی سب تدبیریں الٹی اسکے ہی گلے پڑ رہی تھی اسی وجہ سے آج کل وہ غصے سے پاگل ہوا جا رہا تھا اور جلد از جلد وہ اس کو پکڑنا چاہتا تھا جو اس کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ بہت سوچ بیچار کے بعد اس نے ایک شیطانی پلین بنایا جس سے وہ سیٹھ سے ایک بہت بڑی رقم نکلوا سکتا تھا۔
******♡♡♡♡♡******
آج جب شیبی کالج سے واپس آیا تو شیخ محی ادین نے اسے آواز دے کر اپنے پاس بلا لیا۔
"ارے بررخوردار بات سنو۔"
"جی بابا جانی بولیں۔" شیبی نے محبت سے کہا۔
"بیٹا مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے اور مجھے امید ہے کہ تم میری بات کا مان رکھو گے۔"
"جی جی میرے پیارے بابا جانی۔ آج تک آپکی کوئ بات ٹالی ہے جو اب منع کروں گا، بولیں کیا بات ہے۔"
"ہممم۔۔۔ تو بیٹا بات یہ ہے کہ آج سے کافی سال پہلے میرے بچپن کے دوست مالک ابراہیم اوراسکی بیوی کا ایک کار ایکسیڈینٹ میں موت ہوگئ تھی۔ ان دونوں نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کی تھی اور اسی وجہ سے انکا کوئ رشتے دار ان سے ملتا نہیں تھا۔ انکی ایک بیٹی بھی تھی جس کا نام ملیحہ تھا وہ اس وقت صرف دو سال کی تھی ۔ میں آج تک یہی سمجھتا رہا کہ جب انکا ایکسیڈینٹ ہوا تو ملیحہ بھی ان کے ساتھ تھی پر آج مجھے بہت سال بعد انکا پرانا باورچی مجھ سے ملنے آیا تھا اس نے بتایا کہ جب انکا ایکسیڈینٹ ہوا تھا ملیحہ گھر پر ہی تھی اور بعد میں وہ ملیحہ کو اپنے ساتھ اپنے گاؤں لے گیا تھا کیونکہ یہاں اسکا کوئی رشتے دار اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھا اس نے بتایا کہ اس نے اور اسکی بیوی نے ملیحہ کو اپنی اولاد کی طرح پالا اسکی ایک وجہ انکا بے اولاد ہونا بھی تھا پر اب کچھ عرصہ پہلے اسکی بیوی کا انتقال ہوگیا اور اب وہ خود بھی بوڑھا ہوگیا ہے اور بیمار بھی رہنے لگا ہے اسلیئے وہ مزید ملیحہ کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا اسلیئے آج صبح وہ ملیحہ کو میرے پاس چھوڑ گیا۔ اگر میں ایسے ہی گھر پر جوان بچی کو رکھوں گا تو لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے۔ اور میں اپنے سب سے پیارے دوست کی بیٹی کو اکیلا دربدر کی ٹھوکریں کھانے کیلیئے بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ اسلیئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آج ہی شام کو تمہارا اور ملیحہ کا نکاح کردوں گا تا کہ وہ پورے حق سے اس گھر میں رہ سکے۔" شیخ محی ادین کی بات سن کر شیبی کو ایک دھچکا لگا تھا پر اس نے یہ سب اپنے باپ کو ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکی کسی بھی بات سے اسکے باپ کو دکھ پہنچے۔ وہ چاہے جتنا بھی بگڑا ہوا اور لاپرواہ لڑکا تھا پر وہ اپنے باپ سے بہت پیار کرتا تھا جس نے اسے ماں اور باپ دونوں کا پیار دے کر پالا تھا۔ اسلیئے اس نے بنا بحث کیئے ہاں کردی اور اسی شام ان دونوں کا سادگی سے نکاح ہوگیا۔