ہم ہمیشہ ہی سے ہنگامہ پسند طبیعت کے مالک تھے۔ سکون تو ہمیں راس ہی نہیں آتا تھا۔ نت نئے منصوبے بنانا، پرخطر مقامات کی سیر و سیاحت کرنا تو ہماری گھٹی میں شامل تھا۔ اس بار بھی ایم فل کے سمسٹر کے اختتام پر ہمارے تیز طرار دماغ نے ایک منصوبہ بنایا اور ہم نے اپنے رفقاء سفر کو تیار رہنے کے لیے پیغام دے دیا کہ خود کو ’’ذہنی‘‘ اور ’’مالی‘‘ طور پر تیار کر لیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ ملک کے کسی جنگل میں جا کر کیمپنگ کی جائے اور شکار کھیل کر لطف اندوز ہوا جائے۔ ہماری اس سر پھری ٹیم کے چھے ممبران تھے۔ ماسٹر مائنڈ میں تھا یعنی علی، جبکہ باقی شریفوں کے نام یہ ہیں۔ عاطف عرف ارسطو۔ عمران عرف ڈاکٹر۔ کامل عرف پیر صاحب، ناصر عرف دور اندیش اور قمر عرف شاعر بے مہار۔
ان عرفوں کو پڑھ کر گھبرانا نہیں ہے کیوں کہ یہ محض عرف ہیں ورنہ نہ تو عاطف ارسطو کی طرح فلسفی ہے اور نہ ہی عمران کوئی پیشہ ور ڈاکٹر ہے۔ یہ عرف ان کے وہ ادھورے خواب ہیں جنہیں وہ پورا نہ کر سکے اور نہ کر سکیں گے۔ اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔ فی الحال جنگل نامہ ملاحظہ فرمائیں۔ مقر رہ دن ہم چھے مایہ ناز شکاری کیل کانٹوں سے لیس ہو کر ایک جہازی سائز کی جیپ پر لدے پھندے جنگل کی جانب چل پڑے۔ راستہ بڑا ہی طویل اور دشوار گزار تھا۔ آخر ایک لمبا سفر طے کر کے ہم مطلوبہ جگہ پہنچے۔ جنگل کے کنارے ہی فارسٹ آفیسر کا ٹوٹا پھوٹا دفتر ہمیں خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ وہاں پہ بیٹھے آفیسر سے اس کی بے سری آواز میں غزلوں کو کانوں میں انڈیل کر ہم نے اپنے کوائف درج کرائے اور باضابطہ شکاری قرار دے دیئے گئے۔
اب ہم نے جنگل میں قدم رکھ کر افتتاحی مارچ شروع کر دیا۔ جنگل بہت گھنا اور الجھا ہوا تھا۔ اس کی بے ترتیب جھاڑیاں، گرے پڑے درخت اور لمبی لمبی گھاس دیکھ کر جی چاہتا تھا کہ کوئی ایسا حجام ملے جو اس کی کٹنگ کر کے اسے سنوار دے لیکن یہ خیال ایک مضحکہ خیز سوچ کے سوا کچھ نہ تھا۔ جنگل میں منگل منانے کی غرض سے ہم نے ایک مناسب جگہ دیکھ کر کیمپ لگا دیا۔ سامان وغیرہ کو ترتیب دے دی گئی۔ اب ہم اپنے اپنے ہتھیار سنبھالے آگے بڑھ گئے۔ سوچ یہ تھی کہ آج شام تک جنگل گردی کر کے خوب سیریں کی جائیں، اور تصاویر، فنی ویڈیوز، اداکاری کا شوق پورا کرنے کے لیے ڈائیلاگ بازی اور شوٹنگ جیسی تمام فضولیات سے دل بھر لیا جائے اور اس دوران پیٹ پوجا کے لیے کوئی ہلکا پھلکا شکار بھی کر لیا جائے تاکہ شام کا چولہا جل سکے۔ اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے ہم جنگل میں گھس گئے۔ ابھی ہمیں چلتے ہوئے بیس منٹ ہوئے تھے کہ عارف بولا:
’’ساتھ ساتھ رہنا، مجھے تو ابھی سے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘
عاطف عرف ارسطو کی ڈری ڈری آواز ہمارے کانوں میں پڑی اور اس کے لہجے میں وہ تاثیر تھی کہ کیا بتاؤں، اگلے ہی لمحے ہم سب بھی ڈر محسوس کرنے لگے تھے۔ کامل عرف پیر صاحب نے وصیت والے انداز میں کہا: ۔
’’اگر کوئی جنگلی جانور مجھے کھا جائے تو خبردار میری لاش کسی کو مت دیکھنے دینا۔‘‘
اس کی لرزہ خیز بات سن کر سبھی تھوک نگل کر رہ گئے۔ ہم نے ماحول کو خوش گوار بنانے کی کوشش کرتے ہوئے قمر عرف شاعر بے مہار کو پکارا: ۔
’’اے زندہ دل شاعر!! کوئی شعر تو سناؤ، جس سے ہمارے خوف اڑنچھو ہو جائیں اور ہم شیر کو سامنے دیکھ کر بھی مسکراتے رہیں۔
قمر بے چارہ پہلے ہی ڈرا ہوا تھا، کیوں کہ میں نوٹ کر رہا تھا کہ وہ آگے بڑھتے ہوئے چاروں طرف گھوم گھوم کر درختوں کو ایسے گھور رہا تھا جیسے ابھی کوئی درخت جھپٹ کر اسے دبوچ لے گا۔ میری اس فرمائش پہ وہ مشکل سے مسکرایا اور گلا صاف کرنے کے بعد بولا:
عرض کیا ہے: ۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
’’واہ واہ وا۔۔ ۔‘‘
داد کی کئی آوازیں ابھریں۔
قمر صاحب نے داد سن کر پہلا مصرعہ دوبارہ دہرایا:
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ہے ہے۔۔ ۔۔ ۔
قمر کا دوسرا مصرعہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ ہمیں عجیب و غریب چیخوں کی آوازیں سنائی دیں اور اگلے ہی لمحے بہادری کا شعر سنانے والے قمر صاحب ڈر کے مارے میرے گلے سے چمٹ چکے تھے۔ میں نے اسے حیرت سے دیکھا، ادھر چیخیں مارنے والے چندبندر تھے، جو اب ہمارے سامنے درخت پھلانگتے آگے نکل گئے، انہیں دیکھ کر سب نے سکھ کی سانس لی۔ قمر بھی مجھ سے الگ ہوا اور ہلکی سی آواز میں شعر پورا کیا:
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
’’کیا خیال ہے ڈاکٹر اور دور اندیش بھائی، یہاں کچھ تصاویر ہو جائیں، آخر دنیا کو تو پتہ چلے کہ ہم نے جنگل کا سفر کیا ہے؟‘‘
عاطف عرف ارسطو نے تجویز پیش کی۔
’’ضرور ضرور کیوں نہیں‘‘
ڈاکٹر صاحب فوراً یوں کھڑے ہو گئے جیسے ابھی ان کی تصویر بننے لگی ہو۔
’’اکٹھے گروپ میں ٹھہریں ڈاکٹر صاحب؟‘‘
میں نے انہیں ہلاتے ہوئے کہا
’’ضرور ضرور کیوں نہیں‘‘
ڈاکٹر صاحب نے پھر اسی لہجے میں کہا اور میں نے بے اختیار ماتھے پہ ہاتھ رکھ لیا۔ آخر ہم سب ایک جگہ جمع ہو گئے۔ پوز بن گئے۔ تصاویر لینے کے لیے مسکراہٹیں سج گئیں۔
’’ریڈی!!!‘‘
کیمرہ مین دور اندیش نے ہمیں خبردار کیا اور ہم مزید الرٹ ہو گئے۔
ون ٹو اور تھری۔۔ ۔ اس نے گنتی کی اور کلک کیا۔ جس وقت دور اندیش نے فوٹو کھینچنے کے لیے کلک کیا عین اسی وقت کہیں سے دو گلہریاں لڑتی جھگڑتی، بھاگتی دوڑتی قمر صاحب کی ٹانگوں سے ٹکرائیں اور قمر صاحب آنا فانا اپنے دائیں بائیں کھڑے ارسطو اور پیر صاحب کے کندھوں پر سوار ہو گئے، اس ناگہانی آفت پہ وہ دونوں بھی پوری عقیدت مندی سے چیخے تھے اور اسی وقت پہلی شاہکار تصویر بن گئی جو دیکھنے کے قابل نہیں تھی۔
’’اترو یہاں سے کم بخت‘‘
پیر صاحب نے قمر کی ٹانگوں کو دور ہٹایا۔
’’وہ وہ کک کیا تھا؟‘‘
قمر نے پھولی سانسوں کے ساتھ کہا۔
’’وہ صرف گلہریاں تھیں شاعر بہادر‘‘
میں نے جلے کٹے لہجے میں کہا۔
’’چلو بھئی آگے کسی جگہ بناتے ہیں تصاویر۔‘‘
دور اندیش نے کہا تو سبھی آگے چل دیئے۔ کچھ دور آگے ہمیں گھنی جھاڑیوں کے بیچ سرسبز گھاس کا ایک قطعہ نظر آیا۔
’’واہ کیا جگہ ہے، کوئی سین کرنا ہے یہاں ارطغرل والا؟‘‘
دور اندیش نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہونا تو چاہیے۔‘‘
میں نے بھی تائید کی۔
’’ٹھیک ہے، پھر میں ارطغرل ہوں۔‘‘
پیر صاحب نے گویا اعلان کیا۔
’’ٹھیک ہے لیکن سین کون سا کرنا ہے؟‘‘
میں نے پوچھا۔
’’نویان یا کوپیک والا، ویسے دور اندیش کی شکل کوپیک سے ملتی ہے۔‘‘
پیر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا اور دور اندیش کا منہ لٹک گیا۔
اس کے چہرے پہ غصے کے بادل چھاتے دیکھ کر میں نے مداخلت کی اور کہا:
’’نہیں نہیں، اپنا دور اندیش تو سلیمان شاہ کی طرح ہے۔‘‘
’’اچھا چھوڑو، کوئی ویڈیو تو بناؤ۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ عین اسی وقت جھاڑیوں کے اوپر سے ایک پہاڑی بکری چھلانگ لگاتی ہوئی آگے نکل گئی۔ اس کے پیچھے ایک اور بکری بھی بھاگ رہی تھی۔
’’شکار، شکار، گولی مار و ویڈیو کو، بھاگو شکار کرتے ہیں۔‘‘
میں نے چیخ کر کہا اور سبھی اسی سمت دوڑ پڑے۔ ہم کافی دیر بکریوں کی خاک پا چومتے رہے لیکن ہمیں ان کی قدم بوسی کا شرف نہ مل سکا۔ ہم بھاگ بھاگ کر بری طرح تھک چکے تھے۔ آخر ایک جگہ سستانے کی غرض سے بیٹھ گئے۔ اچانک مجھے درختوں کے بیچ کوئی جانور نظر آیا۔ میں نے باقی لوگوں کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور خود دبے پاؤں آگے بڑھ گیا۔ تقریباً پندرہ بیس گز دور ایک ہرن نظر آیا۔ میرا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا۔ میں نے مناسب جگہ پہ بیٹھ کر پوزیشن لی اور نشانہ سادھ کر فائر کر دیا۔ گولی ہرن کی گردن سے کچھ دور لگی۔ وہ زخمی ہو چکا تھا لیکن پھر بھی وہ لڑکھڑاتا ہوا ایک سمت میں چلا جا رہا تھا۔ ادھر فائر کی آواز سن کر میری ٹیم ادھر آ پہنچی، میں نے انہیں ماجرا بیان کیا اور ہم سب اس سمت میں بھاگے تاکہ زخمی ہرن کو پکڑ کر حلال کر سکیں۔ تقریباً بیس منٹ بعد ہمیں وہ ہرن ملا لیکن بقول شاعر:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
ہرن کی گردن ایک بھیانک ببر شیر کے منہ میں تھی۔ اس کے ساتھ ایک اور ببر شیر بھی موجود تھا۔ ہم ہونق بنے ان کی طرف دیکھ رہے تھے اور وہ شعلہ بار نگاہوں سے ہمیں گھور رہے تھے۔ درمیانی فاصلہ تیس پینتیس گز ہو گا۔
’’پپ پیچھے چلو، آہستہ آہستہ‘‘
قمر نے شاعرانہ انداز میں روتے ہوئے کہا۔
’’کلمہ پڑھ لو بھائیو۔‘‘
پیر صاحب نے مغموم آواز میں وصیت فرمائی۔
’’مجھے معاف کر دینا تم سب۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے بھی الوداعی پیغام نشر کیا۔
’’پاگلو، پہلے ایک ہوائی فائر کرو، یہ نہ بھاگے تو پھر ان کا نشانہ باندھ لینا۔‘‘
ارسطو نے ہدایات جاری کیں اور پھر اس نے اپنی گن سے ایک ہوائی فائر داغ دیا۔ شیر فائر سن کر چونکے، اور پھر ایک خوفناک دھاڑ جنگل میں گونجی۔ شیر کے دھاڑنے پہ ہم سب نے ’’نعرہ چیخ‘‘ بلند کیا اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ اب یہ بزرگوں کی دعائیں یا شیروں کی مہربانی کہ انہوں نے ہمارا پیچھا نہ کیا۔ شاید اس لیے بھی کہ انہوں نے شکار تو کیا ہوا تھا۔
ہماری بے ترتیب دوڑ کے باعث بہت سا ضروری سامان جنگل میں ہی گر گیا۔ اندھا دھند بھاگنے کی وجہ سے دوست کئی جگہوں پر گرے جن سے دوستوں کو کافی چوٹیں آئیں۔ قصہ مختصر ہم سب نے شکار کھیلنے سے با جماعت دستبرداری کا فیصلہ کیا اور کیمپ اکھاڑ کر ایک ہوٹل میں مزے دار کھانا کھایا اور واپس گھر کی طرف رواں دواں ہو گئے۔ اس سفر کے اہم اہم واقعات ایک دوست کی زبانی سماعت کر کے لکھ دئیے ہیں تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔ بقول اس دوست کے، یہ سفر ایک یادگار سفر تھا۔ آپ کیا کہتے ہیں۔؟؟؟
٭٭٭