وہ کاغذ قلم تھامے، لبوں پر تبسم بکھیرے لکھتے چلے جا رہے تھے۔ یہ آج کے دن کی ان کی تیسری کہانی تھی۔ اس سے پہلے وہ دو کہانیاں تخلیق کر کے مختلف رسائل کو ای میل کر چکے تھے۔ وہ پچھلے پانچ سال سے ادبی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ادبی حلقوں میں ان کی کافی شہرت تھی۔ وہ سماجی مسائل پہ زیادہ لکھتے تھے اور یہی ان کی وجہ شہرت تھی۔ کہانی مکمل ہو چکی تھی۔ اب انہوں نے کی بورڈ سنبھال لیا اور اسے کمپوز کرنے لگے۔ آدھے گھنٹے بعد کہانی مکمل تیار تھی۔ انہوں نے ایک بار پھر سے کہانی پڑھی کیوں کہ ابھی اس کا عنوان تجویز کیا جانا باقی تھا۔ بالآخر کہانی پہ نظر ثانی کے بعد انہوں نے عنوان تجویز کر لیا۔ تھوڑی دیر بعد ’’کرو مہربانی تم اہل زمین پر‘‘ کے عنوان سے معنون یہ تحریر ای میل کی جا رہی تھی، اور پھر ان کی تیسری کہانی بھی تمام مراحل سے گزر کر مطلوبہ رسالہ کے مدیر صاحب تک پہنچ گئی۔ انہوں نے اپنا سامان بیگ میں رکھا اور اپنے کمرے سے باہر نکل آئے۔ باہر ان کی اہلیہ کام کاج میں مصروف تھی۔
’’آفس جا رہے ہیں سرتاج۔؟؟‘‘ ان کی بیوی اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی۔
’’کیوں؟؟ کوئی مسئلہ ہے؟؟‘‘ ادیب صاحب نے جلے کٹے انداز میں جواب دیا۔
’’کیسی بات کر رہے ہیں آپ۔؟ اچھا کوئی چیز ضرورت ہو تو میں لادوں۔۔؟‘‘
بیوی نے ان کی تلخی کو نظر انداز کرتے ہوئے نرم لہجے میں دریافت کیا۔
’’نہیں، تمہاری مہربانی، اپنا کام کرو۔‘‘ حسب سابق سخت ترین لہجے میں کہا گیا۔ بیوی بے چاری اپنا سا منھ لے کر رہ گئی۔ ادیب صاحب لمبے لمبے ڈگ بھرتے باہر کو چل دئیے، تھوڑی دیر بعد وہ اپنی گاڑی پہ سوار اپنے دفتر کی طرف اڑے جا رہے تھے۔ ان کے اندر کا ادیب عجیب صورت حال سے دوچار تھا۔ یہ ان کا ضمیر تھا جو انہیں سمجھانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ ضمیر کہہ رہا تھا:
’’جناب!! آپ تو ایک ادیب ہیں اور ادب تخلیق کرتے ہیں۔ ادب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔ جیسے آئینہ دیکھ کر ہر کوئی اپنے آپ کو سنوارتا ہے۔ ایسے ہی ادبی تحریروں کے آئینہ سے معاشرہ اپنے آپ کو سنوارتا ہے۔ آپ تو دوسروں کو اپنی تحریروں سے سنوارتے ہیں۔ آپ کو کون سنوارے گا؟؟؟‘‘
ضمیر کی آواز انہیں جھنجھوڑ رہی تھی مگر وہ ان باتوں کو ذہن سے نکالنے کی کوششوں میں مگن تھے۔ اچانک سڑک کنارے انہیں ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ تین چار لوگ ایک آدمی کو اٹھا رہے تھے۔ شاید کوئی حادثہ ہوا ہے؟، یا کوئی اور مسئلہ ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ گرا ہوا شخص بیمار ہو اور اچانک اس کی حالت بگڑ گئی ہو۔ انہوں نے منظر دیکھتے ہی یہ سب اندازے لگا لیے تھے۔ انھوں نے دیکھا، وہ لوگ انھیں روک رہے تھے۔ یقیناً انہیں ان کی مدد درکار ہو گی۔ انہوں نے سوچا کہ اگر رک جاؤں تو خواہ مخواہ وقت کا ضیاع ہو گا اور دفتر بھی لیٹ پہنچوں گا۔ ضمیر نے آواز دی کہ انسانیت کے کام آنا ہی انسانیت ہے۔ ادھر ہاتھ ہلاتے ہوئے افراد روڈ پر آ گئے تھے۔ ادھر ان کے ضمیر نے ایک بار پھر انھیں یاد دلایا کہ ’’کرو مہربانی تم اہل زمیں پر، خدا مہربان ہو گا عرش بریں پر‘‘ مگر وہ ضمیر کی آواز کو نظر انداز کرتے ہوئے رکے بغیر آگے بڑھ گئے۔ آفس پہنچ کر انہوں نے گھڑی پہ وقت دیکھا۔ وہ پورے وقت پر پہنچے تھے۔ بیگ کندھے پر لٹکا کر انھوں نے اپنے سراپے پر ایک تنقیدی نظر ڈالی اور آگے بڑھ گئے۔ آفس میں ضروری کام نمٹانے کے بعد انہوں نے ملک کے معروف میگزین کا نیٹ پر آن لائن مطالعہ شروع کر دیا۔ اپنی کہانی کو دیکھ کر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ کچھ آگے جا کر انہوں نے دیکھا کہ قارئین نے ان کی سابقہ کہانی کی بہت تعریف کی تھی۔ ایک قاری نے تو اتنا تک لکھ دیا تھا کہ: ’’جناب عرفان عالم صاحب کا دل سماج کی بھلائی کے لیے کڑھتا ہے اور یہی درد ہم ان کی تحریروں میں محسوس کرتے ہیں۔ وہ ایک فرشتہ صفت سوچ کے حامل ادیب ہیں۔‘‘ یہ تبصرہ پڑھ کر وہ بہت محظوظ ہوئے اور بار بار پڑھتے رہے۔ عین اسی وقت ان کے ضمیر نے ایک بار پھر انہیں ہلایا:
’’ادیب صاحب!! دیکھ لیں لوگ آپ کے بنائے ہوئے آئینے سے اپنا سراپا سنوار رہے ہیں مگر آپ کا اپنا چہرہ بے حسی اور بد اخلاقی کی گرد سے اٹا ہوا ہے۔ اپنے آپ کو ظاہر اور باطن کے تضاد سے بچائیے۔ کیا آپ نے نہیں پڑھا، قرآن پاک کی آیت کا مفہوم ہے:
’’تم لوگوں کو تو نیکی کی دعوت دیتے ہو اور خود عمل کرنا بھول جاتے ہو حالانکہ تم نے کتاب اللہ میں سب کچھ جان رکھا ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لو گے؟‘‘ ضمیر کی اس پر درد آواز نے ایک لمحہ کے لیے انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ ضمیر اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا:
’’جناب ادیب صاحب، اندر اور باہر کا تضاد منافقت کہلاتا ہے اور دو چہروں والا آدمی کبھی بھی کامیابی نہیں پا سکتا۔ لہٰذا آپ بھی اپنے آپ کو درست کر لیں۔‘‘
ان کے اندر کے رویے ندامت کے احساس سے جھکے جا رہے تھے۔ غلط اخلاق ہتھیار ڈالنے لگے تھے۔ ضمیر اپنی فتح کا جھنڈا لہرانے لگا، ظاہر اور باطن آپس میں ہم آہنگی کا معاہدہ کرنے لگے۔ اور پھر ان کے ضمیر نے انھیں کاغذ اور قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ کچھ دیر بعد وہ اپنی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسی راہ نما تحریر لکھ چکے تھے جو اس جیسے دیگر ادباء کے لیے آئینہ ثابت ہو۔ ایک ایسا آئینہ جو ادیب کو اس کا باطن دکھائے اور وہ اپنے باطن کو اپنے ظاہر کے موافق ڈھال سکے۔ کیونکہ جس ادیب کا باطن، اس کے ظاہر کے مطابق نہیں ہو گا اس کی تحریر میں خاطر خواہ اثر نہیں ہو گا اور وہ ادیب نہیں بلکہ ’’نیم ادیب‘‘ ہو گا، اور ’’نیم حکیم، خطرۂ جان، نیم ملا، خطرۂ ایمان‘‘ کے مصداق ’’نیم ادیب، خطرۂ ادب‘‘ قرار پاتا ہے۔ انہوں نے دن کی چوتھی کہانی مکمل کر لی تھی، مگر اس کہانی نے سب سے پہلے ان کی اپنی اصلاح اور تکمیل کی تھی۔ اس لیے اب ان کے اندر ادھورے پن کا احساس ختم ہو چکا تھا۔ کہانی بھی مکمل ہو چکی تھی اور وہ خود بھی مکمل ہو چکے تھے۔
٭٭٭