بس ہچکولے کھانے لگی تھی جیسے اس میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہو۔ اس صورت حال میں سبھی مسافر ڈرائیور اور کنڈیکٹر کا منھ تکنے لگے جب کہ وہ دونوں ایک دوسرے کا منھ تک رہے تھے۔ اسی لمحے بس نے ایک زور دار جھٹکا کھایا اور رک گئی۔ ڈرائیور نے ایک سرد آہ بھری اور نیچے جھک کر کچھ تاریں چیک کرنے لگا۔
’’استاد؟؟ کیا لگتا ہے؟‘‘
کنڈیکٹر نے اس کے قریب پہنچ کر دبی آواز میں پوچھا۔
’’دیکھ تو رہا ہوں، صبر اور دعا!!!‘‘
ڈرائیور نے مختصر جواب دیا۔ اس کے بعد وہ نیچے اترنے کے لیے سائیڈ والا دروازہ کھولنے لگا۔ اسے اترتا دیکھ کر کنڈیکٹر بھی نیچے اتر گیا۔ اب انھوں نے انجن کا معائنہ شروع کر دیا تھا۔ تمام مسافر بے زاری سے بیٹھے تھے۔ ان میں سے کچھ تو خاموش بیٹھے تھے جب کہ کچھ زیرِلب بڑبڑا رہے تھے۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر نیچے اتر کر بس کے نیچے گھسے مغزماری کر رہے تھے۔ اب کچھ مسافر بھی نیچے اتر کر حالات کا جائزہ لے رہے تھے اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، ڈرائیور نے کنڈیکٹر کو کچھ کہا جس سے کنڈیکٹر کے چہرے پہ بارہ بجتے دکھائی دئیے۔ پھر کنڈیکٹر نے یہ روح فرسا خبر سنائی:
’’بھائیو!! معذرت بس ٹھیک نہیں ہو رہی لہذا ہم رات اس سامنے والی سرائے میں گزاریں گے۔‘‘
اس نے سڑک کے پار ایک کچے سے خستہ حال ہوٹل کی طرف اشارہ کیا۔
’’برا حال کر دیا آپ نے تو ہمارا۔‘‘
’’توبہ توبہ کیسی کھٹارہ بس پال رکھی ہے‘‘
’’ہمیں رات گزارنے کا خرچہ بھی دو نہ اب۔‘‘
چاروں طرف سے طرح طرح کی آوازیں آ رہی تھیں اور کنڈیکٹر بے چارہ منھ چھپائے کھڑا تھا اور پھر اس نے اپنی شکل گم کرنا ہی مناسب سمجھا۔ سبھی مسافر اسے صلواتیں سناتے نیچے اتر آئے تھے۔
اس دور میں ٹرانسپورٹ کی اتنی کثرت نہ تھی جتنی اب ہے۔ صرف چند گنی چنی لوکل بسیں چلتی تھیں اور وہ بھی مخصوص اوقات میں، اس کے علاوہ بعض علاقے تو ایسے بھی تھے جن کی طرف پورے چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک بس جاتی تھی لہٰذا کسی نے بھی شارع عام پہ ٹھہر کر بس کے انتظار میں رکنے کی کوشش نہ کی اور سرائے کا رخ کیا۔
سرائے کا مالک اس نعمت غیر مترقبہ پہ خوشی سے بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔ اس کی جیب اور سرائے دونوں بھرتے جا رہے تھے۔ سبھی مسافر اپنے لیے چارپائی بک کرا رہے تھے تاکہ رات گزار سکیں۔ ان مسافروں میں ایک نوعمر لڑکا بھی تھا جو اپنے ابو کے ساتھ سمٹا ہوا کھڑا تھا، انھیں بھی چارپائی کا انتظار تھا۔ آخر کار کافی تگ ودو کے بعد اس باپ بیٹے کو صرف ایک چارپائی ملی۔ وہ چارپائی سائز میں بھی کافی چھوٹی تھی۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ اس لیے اس بس میں سونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا جس کی کھڑکیاں تک سلامت نہ تھیں۔
اب باپ بیٹا چارپائی پہ بیٹھے تھے۔ سرائے کے مالک نے انھیں ایک میلی کچیلی رضائی بھی دے دی تھی۔ لڑکے کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ باپ بولا:
’’بیٹا!! آپ سو جاؤ‘‘
’’جی ابو، آپ بھی آ جائیں‘‘
لڑکے نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے بھئی میں بھی آ جاتا ہوں، پہلے تم تو سو جاؤ۔‘‘
باپ مسکرایا۔ لڑکا رضائی میں گھس گیا۔ اس کی آنکھیں نیند کے مارے بند ہوتی جا رہی تھیں اور پھر وہ جلد ہی سو گیا۔ باپ نے اپنے لخت جگر کو سوتے دیکھا تو خوش ہو گیا۔ اس نے چارپائی کا جائزہ لیا اور اس کی تنگ دامنی دیکھ کر لیٹنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اب وہ ایک طرف سمٹا بیٹھا تھا۔
یہ ایک لمبی رات تھی۔ باپ ساری رات سمٹ کر بیٹھا رہا۔ سردی سے اس کا جسم سن ہو رہا تھا لیکن اسے صرف اپنے بیٹے کی نیند اور آرام سے غرض تھی اور بس۔ پھر صبح کی اذانیں سنائی دیں، لڑکا آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔ پہلے پہل تو اسے خیال ہی نہ آیا کہ وہ کہاں ہے؟ وہ ارد گرد ایسے دیکھ رہا تھا جیسے رات تو وہ گھر میں سویا ہو اور اب خود کو اس سرائے میں دیکھ کر حیران ہو رہا ہو۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا شعور بیدار ہوا اور جیسے ہی اس کی نیند ٹوٹی، اسے سب یاد آ گیا کہ کیسے ان کی بس خراب ہو گئی تھی اور وہ رات سرائے میں سوئے تھے۔
’’ابو آپ سوئے نہیں تھے کیا؟‘‘
اس نے نیند میں ڈوبی آواز میں پوچھا۔
’’نہیں نہیں، میں سویا تھا۔‘‘
باپ نے سرخ آنکھوں کو ملتے ہوئے کہا۔ پھر وہ اٹھتے ہوئے بولا:
’’چلو جلدی سے نماز ادا کر لیں، ابھی ایک بس یہاں سے گزرے گی، ہم نے اسی پہ سوار ہونا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ابو‘‘ لڑکے نے کہا اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں نماز ادا کر رہے تھے۔ لڑکا سمجھ دار تھا۔ اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ ابو ساری رات نہیں سوئے۔ اس کے دل میں باپ کا مقام پہلے سے بہت بلند ہو چکا تھا۔ اس کے ذہن میں ماضی کے کئی مناظر گھومنے لگے جن میں اس کے ابو نے اس کے لیے اور اپنی دیگر اولاد کے لیے قربانیاں دی تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ باپ کتنی عظیم ہستی ہے جس کی زندگی میں اولاد کی خوشی ہی سب کچھ ہے۔ اب وہ اپنے ’’رب‘‘ سے اپنے ’’اب‘‘ کی سلامتی کے لیے دل سے دعائیں کر رہا تھا۔ اس کے رخساروں پہ بہتے آنسو زبان حال سے یہ پکار رہے تھے: ۔
’’آمین!!! آمین!!! آمین!!!!!‘‘
٭٭٭