یہ کہانی ہے انصر، نعمان اور کاشف کی۔ وہ تینوں ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ گاؤں شہر سے کافی دور تھا۔ تینوں ایک مدرسے میں قرآن مجید کے طالب علم تھے۔ وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ اس سال رمضان المبارک گرمیوں میں آیا تھا۔ سخت گرمیاں پڑ رہی تھیں۔ روزے دار صبر کی تصویر بنے روزے رکھ رہے تھے اور خوب اجر کما رہے تھے۔ ان دنوں نعمان اور کاشف پہ ایک جنون سوار تھا کہ ان کے پاس ایک توتا ہونا چاہیے۔ ایک خوب صورت اور بولنے والا توتا۔ ان کے ہم مکتب دوست انصر نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ انہیں ایک توتا ضرور ڈھونڈ دے گا۔ انصر اس قسم کے کاموں میں بڑا ماہر تھا اور اسی نے کہا تھا کہ اسے توتوں کے ایک گھونسلے کا پتہ ہے اور وہ وہاں سے ایک توتا لا سکتا ہے۔
ایک روز کی بات ہے کہ دوپہر کا وقت تھا۔ سورج زمین پر اپنی انگارہ نما شعاعیں ڈال رہا تھا۔ یہ جون کے مہینے کی گرمی تھی۔ چہار سو آگ کی سی تپش پھیلی ہوئی تھی۔ مسجد سے چھٹی ہو چکی تھی۔ کچھ بچے تو وہیں مدرسہ کے برآمدے میں ہی سو گئے تھے جب کہ کچھ اپنے گھروں کی راہ لے رہے تھے۔ انہوں نے اپنے رو مال پانی میں بھگو کر سر پہ ڈال رکھے تھے تاکہ گرمی کی حدت سے بچ سکیں۔ انصر، نعمان اور کاشف بھی گھروں کو روانہ تھے۔ اس وقت ان کے درمیان اسی اہم ’’توتائی‘‘ معاملہ پہ گفتگو چل رہی تھی، گفتگو صرف چل نہیں رہی تھی بلکہ زور و شور سے بھاگ رہی تھی، مطلب وہ تینوں دنیا جہان سے بے خبر باتوں کے گھوڑے ہانکتے جا رہے تھے۔
’’میں نے کہا توہے کہ میں تمہیں توتا ضرور لا دوں گا۔‘‘ انصر نے کہا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن کیا وہ باتیں بھی کرے گا؟‘‘ کاشف نے پوچھا۔
’’یہ تو مجھے پتہ نہیں ہے، غالباً یہ تو سکھانے سے ہو سکے گا۔‘‘ انصر نے نفی میں سر ہلایا۔
’’چلو ٹھیک ہے، ہم تمہیں پچاس روپے دے دیں گے۔‘‘ نعمان نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، کیا تم دیکھنا پسند کرو گے؟ ویسے ابھی وہ توتا بالکل چھوٹا سا ہے‘‘ انصر نے انہیں دعوت دی۔
’’کیوں نہیں لیکن۔۔ ۔‘‘ کاشف نے رک کر اپنے کزن نعمان کو دیکھا۔
’’لیکن کیا؟‘‘ انصر نے حیرانی سے پوچھا۔
’’اس وقت وہاں جانا۔۔ ۔۔ مطلب میرا خیال ہے کہ ہمیں اس وقت وہاں نہیں جانا چاہیے۔ یہ دوپہر کا وقت ہے اور ہم جانا چاہ رہے ہیں قبرستان۔۔ نہ بابا نہ، میں تو نہیں جاؤں گا، مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘ کاشف نے کہا۔ انصر انہیں پہلے بتا چکا تھا کہ توتا قبرستان میں موجود ایک درخت کی کھوہ میں ہے۔ کاشف کے انکار کے بعد نعمان نے بھی اثبات میں سر ہلا کر اس کی تائید کی اور بولا:
’’بھائی! عصر کی چھٹی کے بعد چلیں گے۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ انصر نے کہا اور وہ تینوں خاموش ہو گئے۔
عصر کی نماز کے بعد وہ تینوں قبرستان جا پہنچے، جہاں ایک درخت کی کھوہ میں توتے کا گھونسلہ بنا ہوا تھا۔ گھونسلہ کچھ اونچائی پر تھا۔ انصر تھوڑی سی تگ ودو کے بعد گھونسلے تک پہنچ گیا، ساتھ ہی اس نے دانت نکال کر اپنی فتح کا اعلان کیا۔
’’یہ دیکھو توتے کا بچہ!! کتنا پیارا ہے!!‘‘ انصر نے گھونسلے میں ہاتھ ڈال کر ایک توتا اٹھا کر دکھایا تھا۔ ظاہری نظر میں یہ ایک گوشت کا لوتھڑا سا تھا۔ انہوں نے غور سے دیکھا تو پھر کہیں جا کر اس کے نقش واضح ہوئے۔ یہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ اس کے جسم پہ بال و پر نہیں تھے۔ اس ننھے پرندے نے اپنی آنکھیں بھی بند کی ہوئی تھیں۔ اور وہ بار بار اپنا منھ کھول رہا تھا۔ اس کے انداز سے بے چینی نمایاں تھی۔ شاید اسے بھوک لگی ہو گی لیکن اس وقت اس کے ماں باپ وہاں نہیں تھے۔
’’یہ توتا ہے کیا؟‘‘ نعمان نے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
’’ہاں ہاں، کچھ دنوں بعد اس کے پر نکل آئیں گے اور یہ سبز سبز نظر آنے لگے گا بالکل اصلی توتوں کی طرح۔‘‘ انصر نے پر زور لہجے میں کہا۔
’’اچھا!!‘‘ نعمان نے کہا۔ اس کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ اسے اب بھی یقین نہیں ہے۔
’’ہم کب تک اسے اٹھا سکتے ہیں؟‘‘ کاشف نے پوچھا۔
’’آج سے ایک ہفتے بعد۔‘‘ انصر نے فوراً جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے، یہ لو بیس روپے، باقی تیس روپے تب، جب ہم توتا اٹھائیں گے۔‘‘ نعمان نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، اور ہاں میرے بغیر اکیلے یہاں نہ آنا ورنہ تمہیں کالے جن نے چمٹ جانا ہے۔‘‘
انصر نے بیس روپے جیب میں ٹھونستے ہوئے انہیں ڈرایا اور وہ دونوں ہاں میں سر ہلانے لگے۔
٭…٭…٭
عید سر پر آ چکی تھی۔ بس چند روز ہی رہ گئے تھے۔ ایک روز نعمان نے کاشف سے کہا:
’’میں تو کل ابو کے ساتھ شہر جا رہا ہوں۔‘‘
’’ارے واہ!! کیا کرنے بھلا؟‘‘ کاشف نے پوچھا۔
’’عید کے لیے کپڑے اور جوتے لینے۔‘‘ نعمان نے چہک کر بتایا۔
‘‘ میں بھی جاؤں گا تمہارے ساتھ، میں آج ہی ابو سے بات کرتا ہوں۔‘‘ کاشف نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’کیوں نہیں، کر لو بات، ہم نے کل جانا ہے، یعنی پچیسویں روزے کو۔‘‘ نعمان نے کہا اور کاشف سر ہلانے لگا۔
٭…٭…٭
اگلے روز نعمان اور کاشف شہر جا پہنچے۔ بازار میں بڑا رش تھا۔ پاؤں رکھنے کی جگہ تک نہ تھی۔ نعمان اور کاشف ایک لمبا سفر کر کے یہاں پہنچے تھے۔ کاشف نے اپنے ابو سے کچھ پیسے لے لیے تھے تاکہ وہ بھی اپنے لیے نئے کپڑے اور جوتے خرید سکے۔ چونکہ وہ بازار پہلی بار آیا تھا اس لیے اس کے چہرے پہ حیرت ہی حیرت تھی۔ وہ اردگرد کی چیزوں کو دیکھتا تو دیکھتا ہی رہ جاتا۔ کئی بار تو وہ چلتے چلتے گر پڑتا تھا۔ نعمان کے ابو نے دو تین بار اسے کہا کہ ’’بیٹا رش بہت ہے، ہمارے ساتھ رہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ہم سے بچھڑ جاؤ۔‘‘ کاشف نے ’’جی چچا‘‘ تو کہہ دیا تھا مگر وہ بازار کے طلسمی ماحول کو دیکھ کر پھر اسی میں کھو جاتا تھا۔ اسی دوران ایک دکان پہ کاشف کو ایک شان دار جوتا نظر آیا، جوتے کو دیکھ کر وہ اس طرف متوجہ ہو گیا۔ یہ ایک ایسا جوتا تھا جس کے تلوے میں رنگا رنگ لائٹیں جل بجھ رہی تھیں۔ وہ اس طرف لپکا اور دکان دار سے جوتا دکھانے کا مطالبہ کرنے لگا۔ دکان دار نے اسے جوتا دکھا دیا۔ اس نے جوتا دیکھا اور اس کی قیمت بھی پوچھ لی۔ اسے وہ جوتا بے حد پسند آیا۔ وہ اسے ہر صورت میں خریدنا چاہتا تھا۔ اسی لمحے اچانک ہی اسے چچا جی کا خیال آیا، وہ بری طرح سے چونکا، یوں لگا جیسے اس کا خواب ٹوٹ گیا ہو۔ وہ تو وہاں اکیلا کھڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف اجنبی چہرے تھے۔ وہاں نہ تو نعمان تھا نہ ہی اس کے ابو۔ وہ تو بہت آگے نکل چکے تھے۔ اب تو وہ بہت پریشان ہو گیا۔ وہ حواس باختہ ہو کر ہجوم کے درمیان سے نکلتا ہوا آگے بڑھنے لگا، مگر وہاں تو بھول بھلیوں کی طرح کئی گلیاں تھیں جو دائیں بائیں نکل رہی تھیں۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ پھر وہ ایک جگہ رک کر زور زور سے رونے لگا۔ اس دوران اس کے ذہن میں طرح طرح کی باتیں گھومنے لگیں۔ اچانک اسے طوطے کا وہ ننھا منا سا بچہ یاد آ گیا۔ یہ سب یاد کرتے ہی اس کی آنکھوں سے گرم گرم آنسو بہے جو اس کے رخساروں پہ پھسلنے لگے۔ اسی وقت کسی نے اس کا بازو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ کاشف نے دیکھا وہ ایک اجنبی شخص تھا۔ کاشف کا دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔
٭…٭…٭
ادھر نعمان اور اس کے ابو اپنے خیالوں میں آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ انہیں کیا خبر کہ کاشف پیچھے رہ گیا ہے۔ تین چار منٹ بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کاشف غائب تھا۔ نعمان کاشف کو اپنے سگے بھائیوں جیسا سمجھتا تھا۔ وہ پہلے تو کاشف کو ڈھونڈتا رہا مگر جب وہ اسے نہ ملا تو وہ بری طرح سے رونے لگا۔ اس کے ابو نے اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی کہ وہ کاشف کو جلد ہی تلاش کر لیں گے، مگر نعمان کو صبر ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ رو رہا تھا کہ اس دوران اسے ایک خیال آیا۔ جی ہاں طوطے کا خیال، اس ننھے منے بچے کا خیال جسے وہ اس کی ماں سے جدا کرنے کا سودا کر چکے تھے۔ وہ دل ہی دل میں توبہ استغفار کرنے لگا اور اللہ تعالیٰ سے کاشف کے لیے دعائیں کرنے لگا۔
نعمان کے ابو نے فوراً ایک نزدیکی مسجد کاخ کیا۔ مسجد بازار کے درمیان ہی تھی۔ انہوں نے مسجد کے مؤذن کو کاشف کا حلیہ بتایا تاکہ وہ اس کی گم شدگی کا اعلان کرا سکیں۔ عین اسی لمحے ایک آدمی کاشف کا بازو سے پکڑے مسجد کے احاطے میں داخل ہوا۔ غالباً یہ ایک دکان دار تھا۔ اس نے جب کاشف کو روتے دیکھا تھا تو اسے پکڑ کر مسجد لے آیا تاکہ اعلان کرا کر اس کے سرپرستوں کو آگاہ کیا جا سکے مگر اعلان کی نوبت ہی نہ آئی اور اللہ تعالیٰ نے کاشف کو اس کے بھائی نعمان سے ملا دیا۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر دوبارہ سے خرید وفروخت کرنے لگے۔ جلد ہی وہ کپڑے جوتے لیے اپنے گاؤں کی طرف جا رہے تھے۔ اس گم شدگی سے دونوں نے ایک سبق سیکھا تھا جس کے اثرات جلد ظاہر ہونے والے تھے۔
٭…٭…٭
’’کل عید ہے بھائیو! کل صبح ہی میں توتا تمہارے حوالے کر دوں گا۔‘‘
انصر ان دونوں کے سر پہ کھڑا اعلان کر رہا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو معنیٰ خیز نگاہوں سے دیکھا اور مسکرا دئیے۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ نعمان نے کہا۔
’’پیسے تیار ہیں نہ؟‘‘ انصر نے اپنے مطلب کی بات پوچھی اور گویا تسلی چاہی۔
’’ہاں ہاں، بے فکر رہو۔‘‘ کاشف ہنسا۔
اگلے روز عید تھی۔ ایک خوش گوار صبح۔ آج موسم بھی ٹھنڈا ٹھنڈا تھا۔ بادلوں نے گرمی کی حدت چھپا دی تھی۔ ٹھنڈی ہوائیں یہ خبر دے رہی تھیں کہ قرب وجوار میں کہیں بارش برس رہی ہے۔ عید نماز کے بعد انصر ان دونوں کو لیے قبرستان جا پہنچا۔ جلد ہی وہ توتے کے گھونسلے کے سامنے کھڑے تھے۔ آج تو وہاں توتا اور توتی بھی موجود تھے۔ یہ دیکھ کر انصر نے ایک ڈنڈا اٹھا لیا تاکہ انہیں اڑا سکے۔ اس سے پہلے کہ وہ درخت پہ چڑھتا، نعمان نے کہا:
’’انصر دوست! میں نے تمہیں کاشف کے گم ہونے کا بتایا تھا نہ؟‘‘
’’ہاں ہاں، مگر۔۔ ۔۔‘‘ انصر نے اسے تحیر بھری نگاہوں سے دیکھا جیسے اسے اس بے محل بات کی سمجھ نہ آئی ہو۔
’’تو میں بتانا یہ چاہتا تھا کہ ہم دونوں نے توتا نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ نعمان نے کہا تو انصر اچھل پڑا۔
’’یہ کیا بات ہوئی، تم دونوں کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ انصر نے اکھڑتے ہوئے انداز میں کہا۔
’’ہاں انصر! ہم نے سوچا کہ اگر ہم ایک چھوٹے سے بچے کو اس کی ماں سے جدا کریں گے، یہ کتنی بری بات ہو گی، لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔‘‘ کاشف نے احساس ہمدردی سے لبریز لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے، مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے، نہ لو توتا، مگر یاد رہے، یہ پہاڑی توتا ہے‘‘ انصر نے برا سا منھ بنایا۔ ساتھ ہی اس نے ایک نیا لالچ بھی دے دیا کہ شاید ان دونوں کا ذہن بدل جائے۔
’’شکریہ، اب ہم چلیں؟؟۔‘‘ نعمان نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔
’’بھلے آدمی جب تم نے توتا لینا نہیں تھا تو مجھے یہاں تک لائے کیوں ہو؟‘‘ انصر نے ایک بار پھر اپنا غصہ نکالنے کی راہ تلاش کی۔
’’عید مبارک کہنے۔‘‘ کاشف ہنسا۔
’’کیا؟ کسے؟ کون سی عید‘‘ انصر نے غصے سے کہا۔
’’توتوں کو میرے پیارے توتے!‘‘ نعمان نے اس کے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا۔
’’ہاں انصر! ہم نے سوچا کہ ہمیں بولنے والے توتے کی کیا ضرورت؟ تم ہو نہ!‘‘ کاشف ہنس کر بولا۔ ان دونوں کا یہ انداز دیکھ کر انصر کا غصہ غائب ہو گیا۔ وہ بھی قہقہہ مار کر ہنس پڑا۔
’’چل میرے توتے! ان بیس روپوں کی چُوری کھلاتے ہیں تمہیں۔‘‘ کاشف نے انصر کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور وہ تینوں ہنستے ہوئے واپس چل دئیے۔ اسی لمحے نے بھی گھونسلے والے توتوں نے کچھ چہچہاہٹ کی۔ ان کی آواز سن کر وہ تینوں پیچھے مڑے، انہیں یوں لگا جیسے توتے کچھ کہہ رہے ہوں۔
’’یہ کیا کہہ رہے ہیں انصر؟‘‘ نعمان نے حیرت سے پوچھا۔
’’یہ کہہ رہے ہیں: ’’توتائی عید مبارک!!‘‘ انصر کے منہ سے فی البدیہہ نکلا اور اس کی یہ بات سن کر نعمان اور کاشف ہنس پڑے۔ آج بھی جب انہیں یہ واقعہ یاد آتا ہے تو وہ بے ساختہ ہنس پڑتے ہیں اور کافی دیر ہنستے چلے جاتے ہیں۔
٭٭٭