جنگل کے کنارے نصب ایک چھوٹے سے خیمے میں ایک خاتون اپنی دو نو عمر بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ بہت عرصہ پہلے اس خاتون کا شوہر ایک ہنگامے میں مارا جا چکا تھا۔ اس حادثے کے بعد اب وہ تینوں سب سے الگ تھلگ اس ویرانے میں آباد تھیں۔ اس کی دونوں بیٹیاں بہت عقل مند اور ہوشیار تھیں۔ ان میں سے ایک کا نام رانیہ اور دوسری کا نام ہانیہ تھا۔ دونوں نے جنگل میں ہی پرورش پائی تھی اس لیے وہ یہاں کے ماحول اور رہن سہن سے بخوبی واقف تھیں۔ جنگل سے پھل توڑ کر لانا، درختوں سے شہد اتارنا، لکڑیاں کاٹنا، شکار کرنا اور ندی سے پانی بھر کر لانا ان کے روز مرہ کے معمولات تھے۔ وہ اپنی امی کی بہت خدمت کرتی تھیں اور ان کا بے حد خیال رکھتی تھیں۔ وہ اکثر امی سے اپنے ابو کی وفات کے بارے میں دریافت کرتی رہتی تھیں لیکن ان کی امی ہر بار بات گول مول کر جاتی تھیں اور انہیں کچھ بھی نہ بتاتی تھیں۔
ایک روز وہ دونوں جنگل سے شکار کر کے واپس آ رہی تھیں۔ جیسے ہی وہ اپنے خیمے کے سامنے پہنچیں تو انہیں ایک سیاہ پوش آدمی نظر آیا۔ وہ ان کے خیمے سے چند میٹر دور کھڑا خیمے کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ وہ تیز تیز چلنے لگیں تاکہ اسے دیکھ سکیں۔ ادھر قدموں کی آہٹ سن کر وہ شخص چونک اٹھا اور آناً فاناً جنگل میں گم ہو گیا۔ دونوں بہنیں پریشان ہو گئیں۔ وہ برق رفتاری سے ادھر ادھر بھاگیں اور اسے ڈھونڈنے لگیں۔ مگر وہ پراسرار شخص بھاگ چکا تھا۔ لہذا وہ دونوں واپس خیمے میں آ گئیں اور اپنی امی کو ساری بات بتائی۔ ان کی امی بھی یہ سن کر پریشان ہو گئیں۔ انہوں نے کہا:
’’میری بیٹیو!! ہمیں اب ہوشیاری سے رہنا ہو گا اور تم لوگوں نے اپنے ہتھیار بھی اپنے ساتھ رکھنے ہیں، مجھے خدشہ ہے کہ کہیں وہ پراسرار شخص تمہارے ابو کے دشمنوں میں سے نہ ہو۔‘‘
’’اوہ!! ابو کے دشمن، کیا مطلب؟؟۔‘‘ دونوں چونک پڑیں۔
پھر رانیہ بولی: ’’امی، ابو کے دشمن کون تھے؟ آج تو آپ ہمیں ابو کے بارے میں بتا ہی دیں۔‘‘
رانیہ کی بات سن کر امی نے آہ بھری اور کہا: ’’بیٹیو!! تم سن کر کیا کرو گی بھلا؟۔‘‘
’’امی!! شاید ان کے بارے میں جاننا ہمارے لیے مفید ثابت ہو، کیوں کہ آپ نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کہیں وہ پراسرار شخص ابو کا دشمن نہ ہو۔‘‘ ہانیہ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی پھر امی بولیں:
’’اچھا تو سنو، یہ چند سال پہلے کی بات ہے۔ میں اور تمہارے ابو اپنے آبائی قبیلے میں خوشی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے۔ پورا قبیلہ خوش حال تھا کہ اچانک ہمارے قبیلے پر ایک ان دیکھی آفت ٹوٹ پڑی۔ کوئی غیر مرئی مخلوق بچوں اور جانوروں کو غائب کیے جا رہی تھی۔ لوگوں میں سراسیمگی پھیل چکی تھی۔ پھر قبیلے کے لوگوں نے خیر کی طاقتوں سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنے علم کی روشنی میں بتایا کہ یہ حرکت ایک شریر جادوگر کاراکا کی ہے جس کے جادو کی وجہ سے ایک اڑنے والا دیو قبیلے کے جانوروں اور بچوں پر حاوی ہو گیا ہے اور یہ دیو باری باری سب کو کھا جائے گا۔ چونکہ تمہارے ابو بھی خیر کے نمائندے تھے اور وہ بہت سارے پراسرار علوم بھی جانتے تھے، اس لیے انہوں نے اس آفت کا توڑ تلاش کرنا شروع کر دیا اور آخر کار انہوں نے اس مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا۔ انہوں نے ایک مشکل مہم سر کرنے کے بعد اس جادوگر کی تمام طاقتوں کو اپنے سنہری لاکٹ میں قید کر لیا۔‘‘
’’اوہ!! سنہری لاکٹ!! وہی سنہری لاکٹ جو ہمارے پاس لکڑی کے صندوقچے میں ہے؟۔‘‘
رانیہ نے پوچھا۔
’’ہاں بیٹی، وہی لاکٹ، یہ لاکٹ کرشماتی لاکٹ ہے۔ یہ لاکٹ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کو بطور تحفہ ملتا ہے جو مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے ہیں اور دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ اس لاکٹ کا کرشمہ یہ ہے کہ اس کی بدولت شریر جنوں، بھوتوں اور جادوگروں کا صفایا ہو جاتا ہے۔ تمہارے ابو عمر بھر اس لاکٹ سے لوگوں کی مدد کرتے رہے لیکن۔۔ ۔‘‘
امی نے کہتے کہتے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’لیکن کیا امی؟؟۔‘‘ ہانیہ نے بے تابی سے پوچھا۔
’’لیکن جب تمہارے ابو نے اس لاکٹ میں کاراکا جادوگر کی قوتیں قید کر لیں تو کوہ طاغوت کے تمام جادوگر ان کے خلاف ہو گئے۔ وہ ان پہ سخت ترین حملے کرنے لگے۔ اب تمہارے ابو ان سب بکھیڑوں سے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے کیونکہ وہ بوڑھے ہو چکے تھے لیکن اس بکھیڑے سے الگ ہونے کی ایک شرط تھی کہ اس لاکٹ کو دریا میں ڈال دیا جائے تاکہ لاکٹ کو نیا وارث مل سکے اور وہ لاکٹ کی مدد سے خیر کے کاموں کو جاری و ساری رکھ سکے۔‘‘ امی نے تفصیل بتائی۔
’’اچھا تو پھر ابو وہ لاکٹ دریا میں کیوں نہیں ڈال سکے تھے؟۔‘‘ رانیہ نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔ شاید اسے ابو کی یاد آ رہی تھی۔ اس کی امی نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولیں:
’’لاکٹ کو دریا کے سپرد کرنے کے لیے ہم قبیلے سے نکلے ہی تھے کہ راستے میں ہم پر حملہ ہو گیا۔ تمہارے ابو نے مجھے حکم دیا کہ میں واپس جاؤں اور لاکٹ کے ساتھ ساتھ تم دونوں کی بھی حفاظت کروں، وہ خود جادوگروں سے لڑنے لگے اور پھر۔۔ ۔‘‘ امی کی آواز جذبات کے بوجھ تلے دب گئی تھی۔ ہانیہ اور رانیہ بھی رونے لگی تھیں۔ کچھ دیر یہی جذباتی کیفیت رہی پھر امی نے کہا:
’’بچیو!! اب ہمیں تمہارے ابو کی ادھوری مہم کو ضرور پورا کرنا ہو گا، تمہارے ابو نے بھی یہی کہا تھا، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یہ جادوگر ہمیں مار ڈالیں گے۔‘‘
’’مگر ہم یہ کام کیسے کریں گے؟۔‘‘ رانیہ پریشانی سے بولی۔
’’فکر نہ کرو، آج رات ہم یہ کام کر لیں گے، اب میری باتیں غور سے سنو۔‘‘ امی نے انہیں تسلی دی اور پھر وہ اپنا منصوبہ بنانے لگیں۔
٭…٭…٭
رات کے اندھیرے میں تین نفوس گھنے جنگل کے بیچوں بیچ چلے جا رہے تھے۔ یہ رانیہ، ہانیہ اور ان کی امی تھیں۔ وہ کرشماتی لاکٹ دریا کے سپرد کرنے جا رہی تھیں۔ یہ ایک خطرناک مہم تھی اس لیے ان تینوں کے سانس تیزی سے چل رہے تھے۔ خوف اور دہشت سے ان کا برا حال تھا۔ ان کا سفر کئی گھنٹوں تک جاری رہا یہاں تک کہ وہ ایک پہاڑی چٹان تک پہنچ گئیں۔ چٹان سے کچھ دور آگے دریا پورے زور و شور سے بہتا ہوا نظر آ رہا تھا۔
’’شکر ہے ہم پہنچ گئے۔‘‘ امی نے چٹان پر پہنچ کر دم لیا اور بولیں۔
’’اور میں بھی پہنچ ہی گیا۔‘‘ ایک سرد آواز ان کے عقب سے آئی اور وہ تینوں خوف کے مارے اچھل پڑیں۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا تو ایک سیاہ پوش آدمی سامنے تنا کھڑا تھا۔ ان تینوں کے چہرے دھواں دھواں ہو گئے تھے۔ ادھر وہ کڑک دار آواز میں بولا: ’’لاکٹ میرے حوالے کر دو بڑھیا۔‘‘
’’اف!! تو تم پہنچ گئے، تم آخر کیا چاہتے ہو ہم سے؟۔‘‘ ہانیہ کی امی نے ناگواری سے کہا۔
’’بتایا تو ہے لاکٹ مجھے دے دو ورنہ۔۔‘‘ سیاہ پوش غرایا۔
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، یہ لو۔‘‘ یہ کہہ کر ہانیہ کی امی آگے بڑھیں اور وہ صندوقچہ اس کے پاس رکھ دیا۔
’’ہاہاہاہاہا ہاہاہا ہاہاہا۔‘‘ اس کا طویل قہقہہ گونجا اور پھر وہ اکڑوں بیٹھ کر صندوقچہ کھولنے لگا۔ ادھر ہانیہ، رانیہ اور ان کی امی نے اپنے منصوبے کے تحت پیش بندی کی ہوئی تھی اور اس وقت لاکٹ ہانیہ کے تیر کی نوک کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ اس نے برق رفتاری سے تیر کمان پہ چڑھایا اور تیر کا رخ دریا کی طرف کرتے ہوئے پوری قوت سے چلہ کھینچ کر تیر چھوڑ دیا۔ تیر فضا میں اڑتا ہوا لاکٹ سمیت بہت دور دریا میں جا گرا۔ تیر کے گرتے ہی ہانیہ، رانیہ نے خوشی سے نعرہ لگایا: ’’ہم نے مہم جیت لی۔‘‘
’’کیا!!‘‘ سیاہ پوش جادوگر چلایا اور دریا کی طرف دیکھا۔ ہانیہ کے ہاتھ میں تیر کمان دیکھ کر وہ ساری بات سمجھ گیا۔ اب تو اس کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔
’’نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ وہ ہذیانی انداز میں چیخا۔ پھر اس نے اپنی تلوار نکال لی اور چلاتا ہوا ان پہ حملہ آور ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ ان کے قریب آتا، امی نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تیزاب کی بوتل اس پہ اچھال دی۔ بوتل کا تیزاب سیدھا اس کی آنکھوں میں جا گھسا۔ جادوگر کے منہ سے دلدوز چیخ نکلی اور وہ تلوار پھینک کر اپنی آنکھیں ملتا ہوا نظر آیا۔ رانیہ نے دیر مناسب نہ سمجھی اور اپنی کمان سے پے درپے کئی تیر چلا کر اس کا کام تمام کر دیا۔ عین اسی وقت عجیب بات رونما ہوئی۔ دریا میں جس جگہ کرشماتی لاکٹ گرا تھا۔ اس جگہ سے کڑک دار آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ بجلیاں چمکنے لگیں اور دریا میں طغیانی کے آثار نظر آنے لگے اور پانی کی لہریں جوش مارنے لگیں۔ پھر انہیں روشنی کا بہت بڑا دائرہ سا نظر آیا جس میں بہت سارے جھوٹے، شریر، لالچی، بد نیت، بد فطرت، اور چور دیو بھوت جل کر فنا ہو رہے تھے اور زور زور سے چیخیں مار رہے تھے۔ اس کے بعد دریا سے ایک اور تیز سبز رنگ کی روشنی نکلی اور آسمان میں گم ہو گئی۔ یہ منظر دیکھ کر رانیہ کی امی بولیں: ’’اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے یہ مشکل مہم مکمل کر لی، اب لاکٹ کی سبز روشنی کسی اور لائق فرد کو تلاش کرے گی۔‘‘
’’امی، وہ لائق فرد ہم میں سے بھی کوئی ہو سکتا ہے؟؟۔‘‘ ہانیہ نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں، جس میں بھی ہمدردی، نیکی، خلوص، سچائی اور اعلیٰ اخلاقی خوبیاں ہوں گی، وہ فرد اس کرشماتی لاکٹ کا نیا وارث ہو گا یوں وہ شخص تمہارے ابو کی طرح مخلوق خدا کی مدد کا فریضہ سر انجام دیتا رہے گا۔‘‘
امی کا لہجہ پر امید تھا۔ رانیہ اور ہانیہ نے امی کی تائید میں سر ہلا دیا۔ پھر وہ تینوں چٹان سے اتریں اور اپنے خیمے کی طرف روانہ ہو گئیں۔
٭٭٭