مغرب کا وقت تھا اور اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔ انہیں جنگل میں شکار کھیلتے ہوئے کم و بیش سات گھنٹے گزر چکے تھے۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ کبھی بجلی چمکتی تو ارد گرد کے درخت بھیانک سے نظر آتے اور چمک کے بعد آنے والی گرج دلوں کو دہلا کر رکھ دیتی تھی۔ رئیس خان اور ان کے دوست ہر سال اس جنگل میں شکار کھیلنے آتے تھے۔ وہ کئی کئی روز جنگلات میں خیمہ زن رہتے اور خوب لطف اندوز ہوتے۔ آج ایک ہرن کے تعاقب میں وہ بہت دور نکل آئے تھے، ان کے دوست بار بار واپس جانے کے لیے کہہ چکے تھے مگر ان پہ ایک ہی دھن سوار تھی کہ ہرن کا شکار کر کے ہی لوٹیں گے۔ لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔ کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد بھی انہیں ہرن نہ مل سکا اور بادل نخواستہ انہیں ناکام لوٹنا پڑا۔ وہ لوگ جنگل کے جس کنارے پر خیمہ زن تھے، وہاں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی تاہم ارد گرد چند لکڑی کے گھر اور پتھروں سے بنے گھروندے ضرور تھے، جن میں سے کچھ ویران پڑے تھے اور کچھ میں مقامی جنگلی لوگ رہائش پذیر تھے۔ وہ سب اپنے خیموں کے قریب ہی تھے کہ اچانک ایک طرف سے آگ کے شعلے بلند ہوتے نظر آئے۔ ’’یہ کیا ہے رئیس خان۔؟‘‘ اس کے دوست شیراز حسن نے پوچھا تھا۔
’’پتہ نہیں دوست، دیکھنا پڑے گا۔‘‘ رئیس خان کے لہجے میں تشویش تھی۔
’’اوہ، مجھے تو اس طرف سے چیخیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔‘‘
رئیس خان کے ایک اور دوست نے کہا، یہ قاصد خان تھا۔
’’ہممم، مجھے بھی ایسا محسوس ہو رہا ہے، چلو دیکھتے ہیں۔‘‘ رئیس خان نے اپنی جیپ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ وہ سب جیپ میں لد گئے اور جیپ اچھلتی کودتی روانہ ہو گئی۔ وہ جگہ وہاں سے ایک کلومیٹر دور ہو گی اس لیے وہ جلد ہی وہاں پہنچ چکے تھے، اب ان کے سامنے ایک کرب ناک نظارہ تھا، ایک گھر آگ کے شعلوں سے گھرا ہوا تھا۔ یہ گھر لکڑی سے بنا ہوا تھا اس لیے آگ اسے پوری طرح سے لپیٹ میں لے چکی تھی۔ گھر کی دہلیز پر ایک انسانی لاش آگ میں جل رہی تھی۔ آگ کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ پندرہ میٹر کی دوری پر بھی رکنا محال ہو رہا تھا اور آگ جھلسائے دے رہی تھی۔ رئیس خان اور اس کے دوست کف افسوس ملتے رہ گئے۔
’’کسی نے دشمنی کی ہے۔‘‘ قاصد خان نے خیال ظاہر کیا۔
’’یہً دشمن کی کار روائی ہے کیونکہ میں نے تیل کا خالی گیلن دیکھ لیا ہے، وہ رہا۔‘‘
رئیس خان نے ایک طرف اشارہ کیا۔
’’اوہ‘‘ وہ چونکے۔ چونکہ اس جنگلی علاقے میں بہت کم آبادی رہائش پذیر تھی، اس لیے خاطرخواہ مدد کا ملنا ممکن نہ تھا۔ رئیس خان اور اس کے دوست واپس جانے کے لیے مڑے ہی تھے کہ اچانک انہیں سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ وہ چونک پڑے اور ارد گرد دیکھنے لگے۔ کچھ دیر بعد ہی انہیں ایک طرف جھاڑیوں میں چھپا ایک لڑکا مل گیا، اس کی عمر نو دس برس ہو گی اور وہ زخمی بھی تھا۔ رئیس خان کے ساتھیوں نے اسے صاف جگہ پر لٹا کر مرہم پٹی کی اور پانی پلایا۔
’’لڑکے! یہ گھر آپ کا ہے۔؟‘‘ قاصد خان نے پوچھا۔
’’اس نے ہاں میں سر ہلایا، ساتھ ہی اس کی آنکھیں برسنے لگی تھیں۔‘‘
’’بچے صبر کرو، اب صبر کرنا ہو گا۔‘‘ رئیس خان نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔
’’یہاں کیا ہوا بیٹی؟۔‘‘
شیراز حسن نے پوچھا۔
’’وہ بابا کے دشمن تھے انہوں نے پہلے ہمیں تلواریں ماریں پھر گھر کو جلا دیا، میں کھڑکی سے باہر کود گیا اور بچ گیا۔‘‘ لڑکے نے بتایا۔
’’اوہ‘‘
وہ سن کر لرز گئے۔
’’یہاں تمہارے اور رشتہ دار ہیں۔‘‘
رئیس نے پوچھا۔
’’نہیں، ہم دوسرے علاقے سے یہاں آئے تھے، ایسا بابا بتاتے تھے مگر مجھے پتہ نہیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں۔‘‘ لڑکے نے کہا تو وہ سر ہلانے لگے۔ اب ایک مشکل مرحلہ آن پڑا تھا کہ وہ لڑکے کو بے یار و مددگار چھوڑ جائیں یا ساتھ لے جائیں، رئیس کے دوستوں کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ اسے ساتھ لے جانے کے حق میں نہیں ہیں مگر رئیس خان ایک اٹل فیصلہ کر چکا تھا۔
’’یہ بچے میرے ساتھ جائے گا۔‘‘ اس نے گویا اعلان کیا اور باقی دوست منہ دیکھتے رہ گئے۔
٭…٭…٭
رئیس خان کو شکار سے لوٹے کئی ماہ گزر گئے تھے۔ اس دوران وہ لڑکا مکمل صحت یاب ہو گیا تھا۔ پہلے پہل اسے یہاں کی مقامی بولی سے شناسائی نہ تھی لیکن اب وہ رفتہ رفتہ سیکھ رہا تھا۔ رئیس خان نے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام ضامر بتایا تھا، اب سب گھر والے اسے ضامر ہی بلاتے تھے، ضامر رئیس خان کے بچوں میں گھل مل گیا تھا۔ وہ گھر کے کام کاج بھی کرتا تھا، بچوں کے ساتھ کھیلتا کودتا بھی تھا مگر رئیس خان کی بیوی کو اس کا وجود اچھا نہ لگتا تھا، وہ موقع بہ موقع ضامر کو احساس کمتری میں مبتلا کرتی رہتی تھیں۔
ایک دن ضامر رئیس خان کے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ ایک کھلونا غلطی سے نیچے گر کر ٹوٹ گیا، ان کی بیوی نے اس پر وہ طوفان اٹھایا کہ توبہ توبہ۔ اس کے طعنے ضامر کے دل پر لگے جب اس نے یہاں تک بھی کہہ دیا: ’’پتہ نہیں، کہاں سے جنگل کی بلا اٹھا کر لے آئے اور ہمارے گلے میں ڈال دی، اس سے تو بہتر تھا کہ جنگلی بھیڑیا ہی اٹھا لاتے، وہ کم از کم اس سے تو زیادہ مہذب ہوتا۔‘‘ ضامر بہت دکھی ہوا۔ اب اس کو بھی اس چیز کا ادراک ہو گیا تھا کہ رئیس خان کے علاوہ انہیں کوئی نہیں چاہتا مگر وہ کیا کر سکتا تھا، اس کی زندگی کے دن گزرتے جا رہے تھے۔
ایک بار گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو رئیس خان نے بچوں کے ہمراہ پکنک کا پروگرام بنا لیا، وہ سب اپنی لمبی گاڑی میں سوار ہو کر روانہ ہو گئے۔ رئیس خان نے اپنے ذوق کے مطابق جنگلی علاقے کا انتخاب کیا تھا۔ سر شام ہی وہ مقر رہ جگہ پر پہنچ گئے اور خیمے لگا دئیے گئے۔ بیگم رئیس خان اور ان کے ایک ذاتی ملازم نے کچن والا خیمہ سنبھال لیا اور کھانا پکانے میں مصروف ہو گئے۔
رئیس خان اپنے بچوں کو لیے جنگل کی سیر کو نکل گئے، ضامر اور رئیس خان نے بندوقیں سنبھال رکھی تھیں، یہ علاقہ زیادہ خطرناک تو نہیں تھا مگر وہ بچوں کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی محتاط تھے۔ انہوں نے تین چار کلومیٹر کا سفر طے کر لیا تھا، بچے بہت پر جوش تھے کیونکہ وہ جنگلی مناظر کو کھلی آنکھوں سے جو دیکھ رہے تھے۔ وہ کافی دیر گھومتے رہے۔ چونکہ شام ہو چکی تھی اس لیے رئیس خان نے واپسی کا اعلان کیا اور وہ سب واپس چل پڑے۔ ابھی وہ اپنے خیموں سے کافی دور تھے کہ اچانک انہیں چیخیں سنائی دیں، ساتھ ہی ایک خیمے سے پہلے دھواں اٹھتا دکھائی دیا اور دوسرے ہی لمحے انہوں نے آگ کے شعلے اٹھتے دیکھے۔ یہ دیکھ کر تو ان کے ہوش اڑ گئے، وہ سب بھاگے، ضامر سب سے آگے تھا اور بہت تیز رفتاری سے بھاگ رہا تھا۔ وہ آنا فانا خیمے کے نزدیک پہنچ گیا۔ آگ کچن والے خیمے میں لگی ہوئی تھی اور ابھی اس کی شدت کافی کم تھی، خیمے کے باہر ملازم ٹھہرا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
’’کیا ہوا؟؟‘‘
ضامر نے چیخ کر پوچھا ْ۔
’’دو بھیڑئیے گھس آئے تھے ادھر اور انہوں نے ہم پر حملہ کیا، ہم نے انہیں تو مار بھگایا لیکن اس افراتفری میں چولہے الٹ گئے اور خیمے میں آگ لگ گئی۔ بیگم صاحبہ اندر پھنسی ہیں۔‘‘ ملازم نے جلدی سے بتایا۔
’’اوہ‘‘ ضامر کے منہ سے نکلا۔ اس لمحے اسے اپنا جلتا ہوا گھر یاد آ گیا تھا۔ پھر ضامر نے بنا سوچے سمجھے اندر چھلانگ لگا دی، اندر بیگم رئیس خان ایک کونے میں گری ہوئی تھیں۔ ضامر کو سامنے پانی کی ایک بوتل نظر آئی، اس نے وہ بوتل اٹھائی اور زور سے چیخا: ’’بیگم جی، یہ پانی ہے، دوپٹہ گیلا کر لیں، جلدی۔‘‘
اس کے چیخنے پہ وہ حرکت میں آئیں اور جلدی سے وہ پانی اپنے اوپر بہا دیا۔ ضامر نے انہیں سہارا دیا اور باہر لے جانے لگا۔ اس دوران آگ اس کے کپڑوں کو بھی جلا رہی تھی۔ مگر وہ دونوں اس جلتے تندور سے باہر نکل ہی آئے۔ باہر رئیس خان اور ان کے بچے جمع تھے۔ سب ضامر کو ستائشی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے بیگم ضامر کو پانی پلایا، انہیں پر سکون ہونے میں کچھ وقت لگ گیا، تب انہوں نے دیکھا، ان کی نگاہوں میں ضامر کے لیے تشکر کے جذبات موجزن تھے، وہ کمزور آواز میں بولنے لگیں:
’’آج ضامر نہ ہوتا تو میں جل چکی ہوتی، بھیڑئیے کو دیکھ کر مجھے خوف محسوس ہوا اور میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونے لگے، شاید بلڈ پریشر لو ہو گیا تھا اور مجھ میں ہلنے کی بھی سکت نہیں تھی، پھر اسی دوران آگ لگ گئی۔ ضامر تمہارا شکریہ، حالانکہ میں نے تمہیں کبھی اچھا نہیں کہا، نہ کبھی تمہارے ساتھ اچھا برتاؤ کیا، لیکن آج تمہارے نیک جذبات میرا دل جیت گئے، آج انسان دوستی اور ہمدردی جیت گئی اور نفرت ہار گئی، آج سے تم میرے بیٹے ہو اور میں تمہاری ماں۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ ضامر کی طرف بڑھایا - ضامر کی آنکھوں میں نمی آ گئی - اس نے ان کا ہاتھ تھام لیا اور درد بھری آواز میں کہہ اٹھا:
’’امی!!!!‘‘
اس کی آواز اور لہجے میں پچھلے کئی مہینوں کی پیاس تھی، کئی مہینوں سے اس نے یہ لفظ نہیں بولا تھا۔ اب وہ بار بار کہے جا رہا تھا: ’’امی، امی، امی!!!!‘‘ اور بیگم رئیس خان بار بار جواب دے رہی تھیں:
’’بیٹا، بیٹا!!!‘‘ یہ آواز اور الفاظ ضامر کی پیاسی روح کو سیراب کر رہے تھے۔
٭…٭…٭