ہماری جیپ ٹیڑھے میڑھے راستوں پر اچھلتی کودتی چلی جا رہی تھی۔ جیپ میں ہم کل چار دوست تھے۔ آج اتوار کا دن تھا۔ یہ گرمیوں کی آمد کے دن تھے، اگرچہ موسم کافی گرم ہو چکا تھا لیکن آج کا موسم گھنے سیاہ بادلوں اور ٹھنڈی ٹھار ہواؤں کی وجہ سے دل فریب اور سہانا لگ رہا تھا۔ اسی موسم کو دیکھ کر ہی ہم نے رال ٹپکا کر پکنک پہ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ہم نے آج کا دن خالص دیہی علاقے میں بتانے کا فیصلہ کیا تھا، تاکہ دیہات کے زرنگار ماحول کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ اس وقت ہم دیہی علاقے میں تھے اور ہماری جیپ نہر کے کنارے چل رہی تھی۔ نہر کے دونوں اطراف کیکر کے درخت تھے۔ ہوا کے جھونکے درختوں سے اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔ تھوڑی دور جا کر ہم نے جیپ روک لی۔ اس جگہ چونکہ کافی سبزہ تھا اس لیے دوستوں نے یہاں وقت گزاری کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ہم سب نیچے اترے اور گرد و پیش کا جائزہ لینے لگے۔ یہاں چاروں طرف سرسبز کھیت اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ کھیتوں کی پگڈنڈیاں نیلے پیلے اور سرخ رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھولوں سے بھری ہوئی تھیں۔ یہ پھول اگرچہ خوشبو سے خالی تھے لیکن ان کی وجہ سے یہاں کی خوب صورتی کو چار چاند لگے ہوئے تھے۔
ہم نے دستر خوان بچھایا اور ساتھ لائی ہوئی اشیاء سے انصاف کرنے لگے۔ ساتھ ساتھ خوش گپیوں کا دور بھی شروع ہو گیا۔ اسی اثناء میں، میں نے ایک ادھیڑ عمر آدمی کو اس طرف آتے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ ہماری طرف آ رہا ہے لیکن میرا خیال غلط ثابت ہوا، وہ تو ایک قریبی نل کی طرف پانی پینے جا رہا تھا۔ مجھے اس طرف دیکھتے دیکھ کر دوست بھی اسے دیکھنے لگے۔ وہ نل ایک درخت کے نیچے نصب تھا۔ اس دیہاتی آدمی نے پانی پیا اور پھر برے برے منہ بنانے لگا۔
’’یوں لگ رہا ہے جیسے اس نے کوئی کڑوی دوا پی لی ہو۔‘‘
میں نے تبصرہ کیا۔
’’ہاں بالکل‘‘
اسنان نے میری تائید کی۔ ادھر وہ ادھیڑ عمر آدمی ہماری طرف بڑھا، جلد ہی وہ ہم تک پہنچ گیا:
’’السلام علیکم!!‘‘
اس نے آتے ہی خالص دیہی انداز میں سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام‘‘
ہم سب نے بھی سلام کا جواب دیا۔ اس نے ہمارا جائزہ لیا اور مسکرانے لگا، ہم سبھی حیران تھے، اسی وقت اس کے لب ہلے:
’’صاحب!! میں ادھر گاؤں میں رہتا ہوں۔ اس گاؤں کا پانی بہت بہت کڑوا ہے۔ پہلے بھی ادھر ایک لمبی کار والا صاحب آیا تھا۔ اس کے پاس بہت سا میٹھا پانی تھا۔ اس نے وہ پانی ہمیں بھی دیا تھا، اگر آپ کے پاس بھی میٹھا پانی ہے تو اسے گرا کر ضائع نہ کریں بلکہ ہمیں دے کر نیکی کمائیں، چلیں ہم بھی میٹھا پانی چکھ لیں گے۔‘‘
اس نے صاحب صاحب کی گردان شروع کر دی تھی اور ہم سب اس کی بات سن کر حیران و پریشان تھے۔
’’کیا یہاں کا پانی کھاری ہے، مطلب معمولی سا نمکین ہے یا مکمل کڑوا؟‘‘
میں نے پوچھا۔
’’صاحب، آپ خود چکھ لیں‘‘
ادھیڑ عمر مسکرایا۔
’’ہاں دیکھنا چاہیے، ویسے آپ یہ بچا ہوا پانی لے جا سکتے ہیں۔‘‘
میں نے بچی ہوئی بوتلوں کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے وہ پانی کی بوتلیں فوری طور پر اٹھا لیں اور انھیں اپنی چادر میں باندھنے لگا اور ہمیں دعاؤں سے نوازنے لگا۔ ہم سب نے اسے حیرت سے دیکھا اور پھر اس نل کی طرف بڑھ گئے۔
’’کیا خیال ہے کون چکھنا چاہے گا۔‘‘
میں ہنسا۔
’’میرا خیال ہے کہ یہ پانی تھوڑا بہت نمکین ہو گا اور بس!!‘‘
یاسر نے منہ بنایا۔
’’بھئی چکھ لو، ابھی پتہ چل جاتا ہے۔‘‘
علی نے یاسر کو دعوت دی۔ اب یاسر نے قدم بڑھائے اور نل کو چلا کر پانی پینے کے لیے نیچے جھکا۔ دوسرے ہی لمحے اس نے زور سے ’’آخ تھو‘‘ کر کے پانی دور تھوک دیا۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل چکا تھا۔ آنکھیں باہر کو ابل آئی تھیں۔
’’اف!! اتنا کڑوا، یوں لگ رہا تھا جیسے نیم اور کریلے کا پانی پی لیا ہو۔۔ ۔ افف!!!‘‘
اس کے منہ سے نکلا۔
اس کے بعد تو سبھی دوستوں نے چیک کیا اور پانی کو بے تحاشا کڑوا پایا۔ میرے منہ سے بے ساختہ یہ آیت تلاوت ہوئی:
’’فبای آلاء ربکما تکذبٰن‘‘
ترجمہ: ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
’’یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے، ہمیں آپ کی دی ہوئی نعمتوں کا احساس تک نہیں ہے۔‘‘
یاسر نے کہا۔
’’بے شک ایسے ہی ہے۔‘‘
ہم نے تائید کی۔
’’ہاں بھئی لکھاری میاں، اب ’’پوائنٹ ٹو بی نوٹڈ‘‘ کیا ہے اس واقعے میں؟‘‘
علی نے مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے میرا تکیہ کلام دہرایا۔ میں کسی گہری سوچ میں گم تھا، یہ سن کر چونک گیا اور بولا:
’’پوائنٹ تو ہم سب سمجھ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس کرنا چاہیے۔ یہی پانی ہم کس بے دردی سے ضائع کر دیتے ہیں۔ جب کہ یہاں اس پانی کی قدر دیکھو، اسی طرح بہت سے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں یہ کڑوا پانی بھی نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے بارے میں سوچ کر ان کا بار بار شکر ادا کرنا چاہیے، کیونکہ شکر ادا کرنا بہت بڑا عمل ہے اسی لیے تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وقلیل من عبادی الشکور۔‘‘
ترجمہ: ’’اور میرے بندوں میں سے شکر ادا کرنے والے لوگ بہت ہی کم ہیں۔‘‘
میں کہتا جا رہا تھا اور سبھی سر ہلاتے جا رہے تھے۔ اب ہم سب کے دل بھی زبان کے ساتھ شکریہ کلمات ادا کر رہے تھے۔
٭٭٭