آندھی زوروں پر تھی۔ آسمان پر گہرے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہر طرف گھٹا ٹوپ تاریکی اور اعصاب شکن ویرانی تھی۔ تمام لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ گاؤں میں کوئی آدمی بھی باہر نظر نہیں آ رہا تھا۔ مگر ایک ٹوٹے پھوٹے چھپر تلے استاد رحمت بخش تمام رکاوٹوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، گرد و پیش کے ہولناک شور سے بے گانہ موم بتی کی ہلکی ہلکی روشنی میں طلبہ کو درس دینے میں مصروف تھے۔ طلبہ بھی ہمہ تن گوش سبق سن رہے تھے۔ انھیں دنیا و ما فیھا کی کوئی خبر تک نہ تھی۔
استاد رحمت بخش اس گاؤں کے واحد فرد تھے جو ’’دورۂ حدیث‘‘ اور ’’افتاء‘‘ کے کورس کے فاضل تھے اور انھوں نے ایک مشہور ادارے سے سند فراغت حاصل کر رکھی تھی۔ وہ ٹانگوں سے معذور تھے مگر علم کی شمع روشن کرنے کا شوق اس قدر زیادہ تھا کہ وہ روزانہ کئی کئی میل کا سفر ’’وہیل چیئر‘‘ پر بیٹھ کر طے کرتے اور طلبہ کو درس حدیث دیتے۔ اس وقت بھی وہ سبق پڑھانے میں مصروف تھے۔
اب آندھی تھم چکی تھی لیکن بادل آسمان پہ قابض تھے۔ پھر اچانک بادل گرجنے لگے، بجلی چمکنے لگی، دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ طلبہ موم بتی کی ملگجی روشنی میں آنکھیں پھاڑے کتاب کے الفاظ کو دیکھ رہے تھے۔ چھپر کافی شکستہ تھا اور بارش کا پانی کئی جگہوں سے نیچے ٹپک کر گر رہا تھا۔ اچانک خوفناک کڑاکا ہوا، پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ چھپر کی چھت گرنے لگی۔ طلبہ تیزی سے باہر نکلنے لگے۔ ان میں سے ایک طالب علم کا نام آصف تھا۔ وہ بھی باہر نکلا لیکن اچانک اسے استاد محترم کا خیال آیا۔ وہ برق رفتاری سے واپس دوڑا۔ چھت کی اینٹیں تیزی سے گر رہی تھیں اور چھت بھی کسی بھی لمحے نیچے گرنے والی تھی۔ آصف نے دیکھا کہ استاد محترم بے بسی سے دور رکھی اپنی وہیل چیئر کو دیکھ رہے ہیں۔ اس نے آگے بڑھ کر استاد محترم کو بازوؤں پہ اٹھا لیا۔ یہ کافی مشکل کام تھا مگر اس وقت اسے یہ کرنا ہی تھا۔ اب وہ واپس پلٹا اور باہر کی طرف بڑھا۔ اسی وقت چھت کا شہتیر ایک کڑاکے سے ٹوٹا اور تیزی سے نیچے کی طرف گرنے لگا۔ آصف گھبرا گیا اور باہر کو لپکا، لیکن اسے دیر ہو چکی تھی۔ ابھی وہ مکمل باہر نہیں آیا تھا کہ وہ شہتیر دھڑام کی آواز سے آصف پہ آ گرا۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ شہتیر تلے آ چکا تھا۔ اسے آنکھوں کے سامنے سیاہ چادر سی تنتی محسوس ہوئی اور پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔
اسے ہوش آیا تو اپنے گرد بہت سے لوگوں کو جمع پایا۔ اس نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر اس کے ذہن میں پچھلے واقعات چلنے لگے۔ اس نے اپنے جسم کو ہلایا جلایا تو اسے کافی درد محسوس ہوا۔ خاص طور پر جسم کا نچلا حصہ تو شدید درد کر رہا تھا۔ اچانک اسے استاد رحمت بخش صاحب کا خیال آیا۔
’’وہ استاد محترم تو ٹھیک ہیں نہ؟‘‘
آصف نے کم زور آواز میں پوچھا۔
’’ہاں بیٹے!! تمھارے استاد تمھارے نیچے آنے کی وجہ سے دب گئے تھے مگر انھیں کوئی چوٹ نہیں آئی۔ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔۔ ۔ مگر۔۔ ۔۔‘‘
اسے ایک اجنبی فرد نے بتایا
’’مگر کیا؟‘‘
آصف نے بتانے والے سے پوچھا لیکن وہ چپ رہا۔ اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلا اور استاد صاحب وہیل چیئر پہ بیٹھے کمرے میں داخل ہوئے۔
’’آصف بیٹے!! نئی زندگی مبارک ہو، اللہ نے فضل کیا ہے، مجھے افسوس ہے کہ تم نے میری وجہ سے تکلیف اٹھائی ہے۔‘‘
استاد صاحب کی کمزور آواز سنائی دی۔
’’اللہ کرے ٹانگوں میں فریکچر نہ ہو!!‘‘
ڈاکٹر کے منہ سے نکلا۔ اسی وقت ایکس رے کی رپورٹ لیے ایک ڈاکٹر اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پہ غم کے بادل نظر آ رہے تھے۔
’’مجھے افسوس ہے کہ دونوں ٹانگوں میں فریکچر ہے، ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، ہمیں آپریشن کرنا ہو گا۔‘‘
’’اوہ انا للہ۔۔ ۔۔ ۔‘‘ استاد رحمت بخش کے منہ سے نکلا۔ ان کے چہرے پہ افسردگی چھا چکی تھی۔ آصف کے چہرے پر بھی ایک لمحے کے لیے ایک رنگ سا آ کر گزر گیا۔ لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور بولا:
’’شکر ہے استاد صاحب کی جان بچ گئی۔ میری یہ تکلیف بھی جلد دور ہو جائے گی۔ استاد محترم کی خاطر ایسی کئی تکالیف گوارا ہیں۔ استاد تو روحانی باپ ہوتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں استاد محترم کے کام آیا۔‘‘
سب اس ایثار کو دیکھ کر آب دیدہ ہو گئے۔ ان کے لبوں پہ آصف کے لیے دعائیں جاری ہو گئیں۔
٭٭٭