’’دوستو!! تو پھر کیا فائنل ہوا؟ میرا مشورہ تو یہی ہے کہ سفید لباس ہو اور اس پہ سیاہ رنگ کا کوٹ ہونا چاہیے۔۔ سب پہ خوب جچے گا۔‘‘
ارسلان نے جوش بھرے انداز میں کہا۔
’’اور جوتا کیسا ہو؟‘‘ نعیم نے سوال اٹھایا۔
’’شاہی کھسے کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ سعید نے مسکراتے ہوئے آئیڈیا پیش کیا۔
’’واہ بھئی واہ!!! میں بھی یہی کہنے والا تھا۔‘‘ اعظم نے فوراً تائید کی۔
’’ٹھیک ہے۔ بس پھر طے ہو گیا۔ باقی کلاس فیلوز کیا کہتے ہیں۔ ساتھ دیں گے نا وہ سب؟‘‘
ارسلان نے پوچھا۔
’’ہاں بھئی۔ پوچھ لیا ہے۔ سبھی نے کہا ہے کہ ’’الوداعی پارٹی‘‘ روز روز تھوڑی ہونی ہے۔ سبھی ہمارا ساتھ دیں گے مگر۔۔ ۔۔‘‘
سعید کہتے کہتے رک گیا۔
’’مگر کیا؟؟؟‘‘ ارسلان نے اسے گھورا۔
’’خورشید ہمارا ساتھ نہیں دے گا۔‘‘ سعید نے منہ بنایا۔
’’اف!! توبہ ہے، یہ غریب کا بچہ تو ہمارے گلے پڑ گیا ہے۔‘‘
ارسلان نے نفرت بھرے انداز میں کہا۔
’’چلو اس سے بات کرتے ہیں۔‘‘ نعیم بولا۔ اور وہ سب کلاس روم کی طرف بڑھنے لگے کیوں کہ انہیں پتہ تھا کہ بریک ٹائم میں بھی خورشید کتاب سے چمٹا بیٹھا ہو گا۔ جلد ہی وہ خورشید کے سامنے تھے۔ اعظم نے بات شروع کی:
’’خورشید! بات یہ ہے کہ ہم اپنی الوداعی پارٹی کو یادگار بنانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے اس خاص موقع پر ایک جیسا لباس بنوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ باقی پوری کلاس ہمارے ساتھ ہے۔ تم بھی ہمارا ساتھ دو تو بہت مزہ آئے گا۔‘‘
خورشید چند لمحے خاموش رہا۔ اس کے چہرے پر بے بسی نمایاں تھی۔ پھر اس کے لب ہلے:
’’دوستو!! آپ کو میرے گھریلو حالات کا علم تو ہے۔ میں شدید خواہش کے باوجود بھی آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ ایک کلاس فیلو کے شامل نہ ہونے سے فرق نہیں پڑے گا۔ آپ اپنی خواہش پوری کریں مگر میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں ایسا کروں گا کہ سب سے ہٹ کر الگ تھلگ بیٹھوں گا۔ تاکہ آپ کی ترتیب میں خلل نہ آئے۔‘‘
’’افف، دوستو!! کتنا درد ہے اس کی باتوں میں۔ سچ کہوں تو رونا آ رہا ہے مجھے۔‘‘
ارسلان نے طنزیہ انداز میں کہا۔
’’ہاہاہا!!‘‘
باقی سب نے قہقہہ لگایا۔
ادھر ارسلان کہہ رہا تھا۔
’’تمھیں ہمارے جیسا لباس ہی بنوانا ہو گا۔ ورنہ تم اس پارٹی میں نہیں آؤ گے۔ سنا تم نے۔؟‘‘
وہ خورشید کو گھور رہا تھا۔
’’ٹھیک ہے نہیں آؤں گا۔‘‘ خورشید نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’لیکن ارسلان، یہ تو نہم میں پورے اسکول میں ٹاپ پوزیشن پر تھا، اس پارٹی میں تو اسے انعامات سے بھی نوازا جائے گا، تو یہ غیر حاضر کیسے رہ سکتا ہے؟‘‘
سعید نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’ہاں یہ تو نا ممکن لگتا ہے۔‘‘
نعیم نے بھی اس کی تائید کی۔
’’کچھ نا ممکن نہیں۔ میں نے جو کہا، وہی ہو گا۔ اگر یہ سوٹ نہیں بنوا سکتا تو اسے پارٹی میں آنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ اپنا انعام بعد میں وصول کر لے گا۔‘‘
ارسلان اپنی ڈھٹائی پہ قائم تھا۔
’’بات تو ارسلان کی ٹھیک ہے دوستو۔ ورنہ یہ بھی ممکن ہے کہ پرنسپل صاحب ہمیں مخصوص لباس پہننے سے ہی روک دیں۔ یاد ہے پچھلی بار ہمارا ٹرپ بھی اسی کی وجہ سے کینسل ہوا تھا۔‘‘
اعظم نے گویا انہیں یاد دلایا۔
’’ہاں یاد آیا، یہ اور احسن اگر پیسے دے دیتے تو ہم بھی مری کی سیر کر آتے۔ مگر ان کی نحوست کی وجہ سے ہمارا پروگرام بھی کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔‘‘
ارسلان نفرت زدہ انداز میں بولا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے۔ یہ ہماری پارٹی میں نہیں آئے گا۔ بلکہ اس دن گھر میں بیٹھ کر چھٹی کے مزے اڑائے گا۔‘‘
سعید نے فیصلہ سنایا اور وہ سب قہقہے لگاتے ہوئے باہر کو چل دئیے۔
٭…٭…٭
یہ شہر کا سب سے بڑا ہائی اسکول تھا۔ خورشید اس اسکول کا سب سے غریب طالب علم تھا۔ وہ ہمیشہ خستہ حال نظر آتا تھا۔ اس کے والد مزدور تھے اور وہ جیسے تیسے گھر کے اخراجات پورے کر رہے تھے۔ اسی لیے خورشید کی ظاہری وضع قطع ہمیشہ مخدوش ہی نظر آتی۔ خورشید بہت محنتی، لائق اور مؤدب بچہ تھا۔ وہ پہلی جماعت سے ہی نمایاں پوزیشن حاصل کر رہا تھا۔ اساتذہ اس سے کافی امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے اور پھر نہم جماعت کا رزلٹ آ گیا۔ اس نے اساتذہ کی لاج رکھ لی تھی۔ نہم جماعت میں اس نے علاقہ بھر کے تمام اسکولوں پہ سبقت حاصل کی تھی اور ٹاپ کیا تھا۔ یوں خورشید سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا تھا۔ ارسلان کا شمار بھی کلاس کے نمایاں طالب علموں میں کیا جاتا تھا مگر باوجود کوشش کے وہ خورشید سے سبقت نہ لے سکا۔ یوں اسے خورشید سے حسد لاحق ہو گیا اور اب وہ اس سے لڑنے کے بہانے ڈھونڈتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ الوداعی پارٹی کے موقع پر بھی وہ خورشید کو نیچا دکھانے کی کوشش میں پیش پیش تھا۔
٭…٭…٭
خورشید اس وقت پرنسپل صاحب کے آفس کے سامنے کھڑا تھا۔
’’سر میں آ جاؤں؟‘‘
’’یس..!!‘‘
انہوں نے فائل پڑھتے ہوئے جواب دیا
’’السلام علیکم سر‘‘
’’وعلیکم السلام‘‘
پرنسپل صاحب نے جواب دیا۔ وہ ابھی تک فائل پہ ہی جھکے ہوئے تھے۔ پھر انہوں نے سر اوپر اٹھایا، خورشید کو دیکھتے ہی وہ مسکرا دیئے، اور بولے:
’’آؤ خورشید میاں آؤ، خیر تو ہے؟ ٹیسٹ سیریز میں کوئی مسئلہ ہو تو بتاؤ، دیکھو بیٹا اب کی بار تم نے بورڈ میں پوزیشن لینی ہے۔‘‘
پرنسپل صاحب فوراً ہی تعلیمی امور کے بارے میں باتیں کرنے لگے تھے۔
’’ان شاء اللہ سر!!!‘‘
خورشید صرف اتنا کہہ سکا۔ اسے محسوس ہوا کہ آنسوؤں کا ذخیرہ اس کے حلق میں آ کر پھنس گیا ہے۔
’’کیا ہوا خورشید؟ ادھر آؤ‘‘
پرنسپل صاحب نے اسے قریب بلایا۔
’’کسی نے مارا ہے؟ یا طبیعت ناساز ہے تمھاری؟‘‘
’’نہیں سر، سر بات یہ ہے کہ میں الوداعی پارٹی والے دن کی چھٹی چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیا..؟؟ کیوں؟؟‘‘
’’تمھیں پتہ ہے یہ تقریب خصوصاً تمھاری حوصلہ افزائی کے لیے منعقد کی جا رہی ہے اور تم اس دن آنا ہی نہیں چاہتے۔‘‘
پرنسپل صاحب نے قدرے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔
’’سر! ایسا میں نہیں چاہتا بلکہ میرے کلاس فیلوز چاہتے ہیں کہ میں شرکت نہ کروں، کیوں کہ میں غریب ہوں اور میرے پاس ان جیسا قیمتی لباس بھی نہیں ہے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے سر جھکا دیا۔
’’غریب...!! کیا مطلب ہے ان کا؟ خورشید مجھے تفصیل بتاؤ۔‘‘
پرنسپل صاحب نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ تب خورشید نے ساری بات تفصیل سے گوش گزار کر دی۔ پرنسپل صاحب ایک منٹ سوچتے رہے پھر وہ بولے:
’’بیٹا، اس مسئلے کے تو کئی حل موجود ہیں، مگر میں اس مسئلے کا مکمل خاتمہ کرنا چاہتا ہوں لہٰذا تم ایسا کرو کہ کسی کی بات دل پہ نہ لو اور پارٹی والے دن بھی دس بجے آ جانا اور آرام سے ایک طرف بیٹھ جانا، باقی میں خود دیکھ لوں گا۔ سمجھ گئے؟‘‘
’’جی سر، مگر...!!‘‘
خورشید گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھا۔
’’بیٹا تم فکر نہ کرو، جو میں نے کہا ہے وہی کرو، اور پارٹی میں لازمی آنا، کیوں کہ ایک تو تم نے انعام وصول کرنا ہے اور دوسری بات تمھیں وہیں آ کر معلوم ہو گی۔ اب تم جاؤ۔‘‘
’’اوکے سر!‘‘
یہ کہہ کر خورشید سلام کر کے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
پارٹی والے دن اسکول میں رونقیں لگی ہوئی تھیں۔ اسٹیج کو بڑی محنت سے سجایا گیا تھا۔ مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی تھی۔ نہم کلاس میزبان تھی جبکہ دہم کلاس بطور مہمان شرکت کر رہی تھی۔ دہم کلاس کے طلباء ایک ہی طرح کے لباس میں ملبوس تھے اور یہ نظارہ عجیب سماں پیش کر رہا تھا۔ پروگرام شروع ہوا، حسب دستور تلاوت قرآن پاک سے آغاز کیا گیا اور اس کے بعد حمد و نعت پیش کی گئی، نہم کلاس نے اپنے ہم مکتب ساتھیوں کے اعزاز میں تقاریر کیں، جواباً دہم کلاس نے بھی اپنی الوداعی تقریر پیش کی اور دوستوں سے ’’کہا سنا‘‘ بخشوایا، اپنے اساتذہ اور ادارے کا شکریہ ادا کیا۔ الغرض پروگرام آگے بڑھتا رہا۔ مہمانان گرامی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آخر میں پرنسپل صاحب کو دعوت دی گئی، تاکہ وہ رخصت ہونے والے طلباء کو نصیحت کریں اور مستحق طلباء میں انعامات تقسیم کریں۔ پرنسپل صاحب تالیوں کی گونج میں ڈائس تک پہنچے اور مائیک سنبھال کر گویا ہوئے:
’’تمام معزز مہمانان گرامی اور میرے پیارے بچو!!! السلام علیکم، وقت بے حد قیمتی متاع ہے لہٰذا میں زیادہ وقت نہیں لوں گا، میں آج آپ کو ایک بچے کی کہانی سنانا چاہتا ہوں، اور میری خواہش ہے کہ آپ سب توجہ سے یہ کہانی سنیں اور اس سے نصیحت حاصل کریں۔ بچو!! ایک بے حد غریب بچہ تھا، اس کے والد سبزی کی ریڑھی لگایا کرتے تھے، بچے کے گھر میں سوائے غربت کے کچھ نہیں تھا، اس بچے کی ظاہری وضع قطع قابلِ رحم تھی، اس کے والدین سمجھ دار تھے، انہوں نے بچے کی تربیت پہ توجہ دی، انہوں نے اس غریب بچے کو اچھے اخلاق، ادب اور محنت کی دولت سے مالا مال کر دیا، اب بظاہر تو وہ غریب بچہ تھا جس کے پاس پیسے نہیں تھے، اچھا لباس نہیں تھا مگر حقیقت میں وہ امیر ہوتا چلا جا رہا تھا کیونکہ اس کے پاس ادب، اخلاق اور محنت کی دولت تھی اور دن بہ دن اس دولت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا، دن گزرتے گئے، بچے نے میٹرک لیول پر ٹاپ کیا، کالج میں داخلہ لیا اور وہاں بھی کامیابیاں حاصل کیں اور پھر ایک دن وہ ایک بڑے ادارے کا سربراہ بن گیا۔ جانتے ہو وہ بچہ کون تھا؟؟
تمام سامعین انگشت بدنداں تھے، بچوں کا تو مارے حیرت کے برا حال تھا۔
پرنسپل صاحب نے ایک نظر مجمع پہ ڈالی، پھر وہ بولے:
’’وہ بچہ میں تھا۔‘‘
پرنسپل صاحب کی بات سن کر بچے یوں اچھلے جیسے بم پھٹ پڑا ہو۔
’’کیا.!!!!‘‘
بچوں کی ملی جلی آوازیں ابھری تھیں۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔ اچانک ایک طرف سے تالیوں کی آوازیں سنائی دی۔ سب نے دیکھا، خورشید آخری رو میں اپنی نشست سے اٹھ کر تالیاں بجا رہا تھا۔ اسے تالیاں بجاتا دیکھ کر گویا سب کو ہوش آ گیا اور پھر سبھی پرنسپل صاحب کی تائید میں تالیاں بجانے لگے۔ خورشید کی نگاہوں میں پرنسپل صاحب کے لیے ستائش کے جذبات نمایاں تھے۔ اسے پرنسپل صاحب کے روپ میں اپنا آپ نظر آ رہا تھا۔ ادھر پرنسپل صاحب کہہ رہے تھے:
’’عزیز طلباء!! اگر آپ اخلاق، ادب اور محنت کے جواہر سے خالی ہاتھ ہیں تو آپ کا روپیہ، پیسہ اور لباس آپ کو امیر ثابت نہیں کر سکتا، آپ غریب ہی رہیں گے۔ اور اگر آپ کے پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں ہے اور آپ اخلاق، ادب اور محنت کی دولت سے مالا مال ہیں تو آپ دنیا کے سب سے بڑے امیر آدمی ہیں۔ کیونکہ یہی سچی دولت ہے۔ یہی ابدی سرمایہ ہے اور یہی حقیقی معنوں میں قابل فخر سرمایہ ہے۔ امید کرتا ہوں کہ آپ اس نصیحت کو پلے باندھ کر رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو دنیا و عقبی کی اعلیٰ کامیابیوں سے نوازے آمین ثم آمین۔‘‘
پرنسپل صاحب کی تقریر کے بعد خورشید کو اپنے کلاس فیلوز کی نگاہیں بدلی بدلی لگ رہی تھیں۔ وہ اجنبیت کی جگہ اپنائیت محسوس کر رہا تھا اور نفرت کی جگہ محبت کو جلوہ افروز ہوتا دیکھ رہا تھا۔ خورشید کے لیے ایک نیا خورشید طلوع ہو چکا تھا جس کی کرنیں جگمگا رہی تھیں۔
٭٭٭