وہ سست قدموں اور افسردہ چہرے کے ساتھ گھر میں داخل ہوا، بے دلی سے اسکول بیگ پھینکا اور چارپائی پر ڈھیر ہو گیا۔
’’رام چند!!‘‘
ماں نے پکارا۔ مگر رام چند کی طرف سے جواب ندارد۔۔ ۔
’’کیا ہوا چند؟ خیر تو ہے؟‘‘
ماں اس کے قریب آ کر پوچھ رہی تھی۔ اس نے چہرہ بازوؤں کی اوٹ میں چھپا لیا تھا اور آہستہ آواز میں رونا شروع کر دیا۔
’’کیا ہوا میرے لعل؟ تو رو کیوں رہا ہے؟؟‘‘
ماں اس کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گئی۔
’’استاذ نے مارا ہے؟؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ روتے ہوئے بولا۔
’’کسی لڑکے سے لڑائی ہوئی؟‘‘ ماں نے پھر استفسار کیا۔
’’نہیں۔‘‘ جواب حسب سابق نفی میں تھا۔
’’تو پھر کیا مسئلہ ہے؟ راستے میں گرا ہے؟؟‘‘
ممتا کے ذہن میں نئے نئے سوالات اور نت نئے خدشات جنم لے رہے تھے۔
’’نہیں۔‘‘ اب کی بار اس کی آواز میں تیزی تھی، جیسے وہ برہم ہو گیا ہو کہ ماں اس کی پریشانی کیوں نہیں جان سکی۔
’’اف!! ایک تو یہ لڑکا بھی میری جان کھائے گا۔ بتا کیوں نہیں دیتا؟‘‘
ماں ناراض لہجے میں بولی۔
’’اماں!! ہم غیر مسلم ہیں؟‘‘
اس نے عجیب لہجے میں سوال کیا۔
’’ہاں، ہیں، تو پھر؟؟‘‘
ماں نے بدستور برہم لہجے میں کہا۔
’’اماں!! اسکول میں سبھی میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ ماسٹر صاحب سمیت سب مجھے دھتکارتے ہیں۔ کیا میں برا ہوں؟؟‘‘ اس کے لہجے میں شکایت تھی۔ ماں مہر بہ لب گم صم تھی۔
’’اماں!! جب اسلامیات کا لیکچر ہوتا ہے تو ماسٹر صاحب مجھے ’’اخلاقیات‘‘ کی کتاب اٹھا کر باہر جانے کو کہتے ہیں، لیکن ان کا انداز۔۔!
رام چند کہتے کہتے رکا، تکلیف کی ایک لہر اس کے دل سے اٹھی تھی جس کے اثرات اس کے چہرے پہ عیاں ہو چکے تھے، ماں اسے بغور دیکھے جا رہی تھی۔ وہ پھر بولنے لگا:
’’وہ مجھے حقارت سے کہتے ہیں، چل او کافر باہر نکل، اماں!! مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے، کیا ہندو ہونا یا غیر مسلم ہونا جرم ہے؟؟ اماں میں اخلاقیات کی کتاب کے مطابق سب کو سلامتی کی دعا دیتا ہوں، مسکرا کر بولتا ہوں، گالی نہیں بکتا، جھوٹ نہیں بولتا، چوری نہیں کرتا، ساری باتوں پہ عمل کرتا ہوں مگر۔۔ ۔‘‘
رام چند لمحہ بھر کے لیے رکا۔
’’مگر پھر بھی مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا، جبکہ میرے مسلم کلاس فیلوز میں سے اکثر گالیاں بھی دیتے ہیں، لڑتے جھگڑتے بھی ہیں، ان میں سے کچھ نے اپنے کلاس فیلوز کی چوری بھی کی تھی مگر اس کے باوجود بھی سب ان سے مسکرا کر بات کرتے ہیں، کھیلتے ہیں، مگر میرے ساتھ نہیں، آخر کیوں؟؟‘‘
اس کی داستانِ غم کا ایک ایک حرف ماں کے دل پہ چھریاں چلا رہا تھا۔
رام چند کا تعلق ایک غریب ہندو گھرانے سے تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے قصبہ میں رہائش پذیر تھے۔ یہاں پہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر تھا۔ وہاں اقلیتی آبادی کے لیے الگ سے تعلیمی ادارہ تو نہ تھا، اس لیے رام چند اور دیگر ہندو بچے مسلمان بچوں کے ساتھ ایک ہی تعلیمی ادارے میں پڑھ رہے تھے۔ بد قسمتی سے مسلمان طلبہ ان غیر مسلم طلبہ کو دل کھول کر تنگ کر رہے تھے، جس کی وجہ سے آئے روز کوئی نہ کوئی ہندو بچہ اسکول چھوڑ کر جا رہا تھا۔ رام چند کو پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ اس لیے وہ ان سب ناہموار رویوں کو برداشت کیے ہوئے تھا مگر اب رفتہ رفتہ اس کا ضبط بھی جواب دیتا جا رہا تھا۔ چنانچہ آج اس نے کھل کر ساری بات اماں کو بتا دی تھی۔ اب وہ ماں کے جواب کا منتظر تھا۔ اس کی ماں نے اسے چمکارا اور نرم لہجے میں بولی:
’’بیٹا!! مسلمان بھی اچھے انسان ہوتے ہیں اور ہندو بھی، ہمیں مذہب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم سب انسان ہیں، دیکھو ہمارے اندر کتنی چیزیں مشترک ہیں، پیاس پہ ہم سب پانی پیتے ہیں، بھوک پہ کھانا کھاتے ہیں، چوٹ لگے تو سبھی کو تکلیف ہوتی ہے، خوشی کے موقع پر سبھی ہنستے ہیں، ایسے ہی ہے نا؟؟‘‘
ماں نے سوال کیا۔
’’جی بالکل‘‘ رام چند حیرانی سے سن رہا تھا۔
’’اس کا مطلب ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ سکتے ہیں۔ اب رہی دوسری بات کہ تمہیں تمہارے کلاس فیلوز تنگ کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے وہ برا کر رہے ہیں، تم تو برا نہیں کر رہے ناں؟؟
تم اس کی امید رکھو کہ وہ اچھے ہو جائیں گے، تمہارے اطمینان کے لیے یہی کافی ہے کہ تم برے نہیں ہو،
ٹھیک۔۔؟‘‘
’’جی امی جان‘‘ پہلی بار اس کے چہرے پر بشاشت نظر آئی تھی۔
’’اب چلو ہاتھ منہ دھو لو اور کھانا کھا لو۔‘‘
ماں کی بات سن کر وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
٭…٭…٭
اسکول میں آج اسمبلی کے وقت کافی گہماگہمی نظر آ رہی تھی، اسٹیج پر ہیڈ ماسٹر صاحب اور دیگر تمام اساتذہ موجود تھے۔ معمول سے ہٹ کر یہ بات تھی کہ پھولوں کے دو تین ہار میز پر سجے دکھائی دے رہے تھے۔ ان پھولوں کا عقدہ اس وقت کھلا، جب اسٹیج سے ایک نئے ٹیچر صاحب کی آمد کا اعلان کیا گیا۔ طلبہ نے دیکھا، ایک خوب صورت شکل و صورت کے مالک ایک صاحب اسٹیج پر آ پہنچے، بچوں نے تالیاں بجا کر استقبال کیا، اور انہوں نے ہاتھ ہلا کر بچوں کی تالیوں کا جواب دیا، سینئر اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر صاحب نے ان کو پھولوں کے ہار پہنائے، اس کے بعد وہ بچوں سے مخاطب ہوئے:
’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، میرا نام محمد مستقیم ہے اور میں نے ایم ایس سی کیمسٹری کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ آج سے ان شاء اللہ میں آپ کو کیمسٹری پڑھایا کروں گا، باقی باتیں کلاس میں ہوتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے آمین۔‘‘
’’مختصر سا تعارف اور وہ بھی بچوں کی توقعات کے بر عکس، سر پہ سفید براق ٹوپی، چہرے پر خوب صورت داڑھی، بچے اپنے معاشرے کے طرز حیات کے پیش نظر یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ یہ اسلامیات کے ٹیچر ہوں گے مگر ان سب کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔
٭…٭…٭
’’یہ نشست خالی پڑی ہے، کیا یہ طالب علم غیر حاضر ہے؟‘‘
نئے استاد محترم مستقیم صاحب نے کلاس سے سوال کیا۔ ان کا اشارہ رام چند کی خالی نشست کی طرف تھا۔
’’نہیں جناب، پچھلا لیکچر اسلامیات کا تھا۔۔ تو۔۔ ۔‘‘
بچہ بتاتے ہوئے رکا۔
’’تو پھر؟؟‘‘ استاد صاحب نے استفسار کیا۔
’’سر وہ کافر ہے نا، اس لیے اسلامیات نہیں پڑھتا۔‘‘
ایک اور بچے نے جلدی سے جواب دیا۔
’’کیا!! کیا مطلب۔۔؟؟ کافر!!!!، اگر وہ اقلیت سے ہے تو کیا وہ اسلامیات کا لیکچر بھی نہیں سن سکتا..؟؟ اگر وہ اسلامی تعلیمات نہیں سن پائے گا تو اسے اسلام کے بارے میں کیسے پتہ چلے گا..؟ عجیب بات ہے، بلاؤ اسے۔‘‘
مستقیم صاحب قدرے پریشان لگ رہے تھے۔ ان کی پیشانی پر تفکرات کے سائے پھیل گئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد رام چند ایک اور طالب علم کے ساتھ اندر داخل ہو۔ مستقیم صاحب نے کچھ دیر سوچا اور اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے لیکچر شروع کر دیا۔ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک فیصلہ کر چکے تھے۔
٭…٭…٭
’’سر!! میں تمام اساتذہ کرام کے اعزاز میں چائے پارٹی دینا چاہتا ہوں۔‘‘
مستقیم صاحب ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے کھڑے تھے۔
’’بیٹھیے سر، آپ کھڑے کیوں ہیں؟‘‘
’’شکریہ‘‘ وہ بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’اور ویلکم پارٹی تو ہم دیں گے آپ کو، آپ کیسا تکلف برت رہے ہیں؟؟‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب مسکرائے۔
’’نہیں سر، تکلف کیسا؟ اگر آپ اجازت دے دیں تو مجھے خوشی ہو گی، اور رہی ویلکم پارٹی تو وہ بھی قبول ہے، میرے لیے باعث فخر ہو گا۔‘‘
مستقیم صاحب بولے۔
’’اچھا، ٹھیک ہے، پھر چائے پارٹی بریک میں ہی کر لیتے ہیں آج۔ آپ انتظامی امور کے لیے ارسلان صاحب سے بات کیجیے، وہ سب کچھ سنبھال لیں گے۔‘‘
’’بہتر جناب۔۔ بہت شکریہ‘‘
مستقیم صاحب مسکرائے۔
٭…٭…٭
’’معزز اساتذہ کرام، میں آپ سب کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری دعوت قبول کی۔‘‘
مستقیم صاحب میٹنگ روم میں تمام اساتذہ سے مخاطب تھے۔ میز پر چائے کے ساتھ دیگر لوازمات بھی سجے ہوئے تھے۔
’’سر! ہمیں خوشی ہوئی، میں تمام اساتذہ کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب نے سب کی ترجمانی کی اور پھر ہر طرف سے تھینک یو کی آوازیں آنے لگیں۔
’’خوش آمدید احباب!‘‘
مستقیم صاحب نے سینے پہ ہاتھ رکھ کر مرحبا کا اظہار کیا، پھر وہ گویا ہوئے:
’’سر اجازت ہو تو میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔‘‘
’’ضرور سر، بولیے!‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب نے بے تابی سے کہا۔
’’سر یہ ہے تو سورج کو چراغ دکھانے والی بات، مگر آپ نے اجازت دی ہے تو میں اقلیتی طلبہ کا ایک مسئلہ پیش کرنا چاہتا ہوں، سر بات یہ ہے کہ اقلیتی طلبہ اگرچہ غیر مسلم ہیں، مگر یہ لوگ ہماری آبادیوں کے ساتھ رہتے ہیں، ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ جب تک وہ ریاست کے قوانین کی حدود میں رہتے ہیں، اخلاقی اور مذہبی حدود کو پامال نہیں کرتے، ہمیں ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے، ہمیں ان کے ساتھ وہ رویہ اختیار کرنا چاہیے جو مذہب اسلام کی دل موہ لینے والی تعلیمات ہیں، اگر ہم ان کے ساتھ سخت یا تضحیک آمیز رویہ اختیار کریں گے تو وہ اسلام سے متنفر ہو سکتے ہیں، حالانکہ ہم نے انہیں اسلام کے قریب لانا ہے، ہمارے اسکول میں اقلیتی بچوں کو کافر کہہ کر ذہنی تکلیف کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں اسلامیات کے لیکچر میں نہیں بیٹھنے دیا جاتا، اس کے علاوہ ہر موقع پر انہیں ملامت کی جاتی ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق یہ درست نہیں ہے، اس طرح تو ہم خود انہیں اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور کر رہے ہیں۔‘‘
مستقیم صاحب یہاں تک کہہ کر رک گئے۔ میٹنگ روم میں کچھ دیر تک گہری خاموشی چھائی رہی۔
’’سر!! مجھے اس پہ کچھ کہنا ہے۔‘‘
ایک ٹیچر بولے۔
’’جی ضرور، ہم سب سن رہے ہیں۔‘‘
’’سر!! ہم یہاں اقلیتی طلبہ سے سخت اور نفرت آمیز سلوک اس لیے رکھتے ہیں تاکہ مسلمان بچے بھی کافروں سے نفرت رکھیں کیونکہ اسلام بھی تو ہمیں کافروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے منع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہی غیر مسلم ہی تو ہیں جو کشمیر، فلسطین اور دیگر مقامات پر ہمارے مسلمانوں پہ ظلم ڈھا رہے ہیں۔ اب وہ تو مظالم ڈھاتے رہیں اور ہم یہاں ان کے مذہبی عقائد کے حامل لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟؟‘‘
سب ٹیچرز کے چہرے سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے مگر مستقیم صاحب برابر مسکراتے جا رہے تھے پھر ان کی آواز سنائی دی:
’’آپ سبھی جانتے ہیں کہ جو ظالم، کافر ہمارے مسلمان بھائیوں پہ ظلم ڈھاتے ہیں، ہم ان کے خلاف ہیں اور صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر ان کو روکنا فرض سمجھتے ہیں، مگر ان ظالموں کے گناہوں کی سزا یہاں کے بے گناہوں کو دینا کہاں کا انصاف ہے؟؟ دوسری بات یہ کہ اسلام کافروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور قلبی محبت کی ممانعت کرتا ہے، ان سے اخلاقیات سے پیش آنے سے منع نہیں کرتا، اور ہمیں بھی اپنے بچوں کو یہی درس دینا چاہیے، اس کے علاوہ ہمیں تو کفر سے نفرت ہے نہ کہ کافر فرد سے۔ کیوں کہ نفرت جرم سے ہونی چاہئے نہ کہ مجرم سے، ہمیں ان افراد سے کوئی خار نہیں، کوئی عداوت نہیں، بلکہ ان کے کفریہ طرز عمل سے ہے، ہو سکتا ہے کہ کل کو یہ افراد مسلمان ہو جائیں۔ اور ایسا تبھی ممکن ہے جب ہمارے رویے درست ہوں گے۔ معزز اساتذہ کرام!! ہم مسلمان ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ہمارے بچوں کے مزاج اور رویے بھی مسلمانوں والے ہوں تاکہ اسلام کا پیغام محبت عام ہو سکے۔‘‘
مستقیم صاحب کی بات نے سب کو قائل کر لیا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے تمام ٹیچرز سے آراء لیں اور ان کی روشنی میں دستور العمل طے پا گیا۔
٭…٭…٭
بیل بجتے ہی رام چند اخلاقیات کی کتاب بغل میں دابے باہر جانے لگا۔ یہ اسلامیات کا لیکچر تھا اور اسے پتہ تھا کہ اگر وہ خود نہ گیا تو اسے بے عزتی کے ساتھ نکال دیا جائے گا۔ وہ کلاس روم کے دروازے پر تھا کہ استاد صاحب پہنچ گئے۔
’’ہٹ جا او کافر، سر کو آنے دے۔‘‘
ایک لڑکے نے آواز کسی۔ وہ پہلے ہی ایک طرف ہو گیا تھا، استاد صاحب اندر آئے اور بولے:
’’رام چند!! بیٹا اپنی نشست پر بیٹھ جاؤ۔‘‘
سر کا لہجہ بدلا ہوا تھا۔
’’جج۔۔ جج۔۔ جی۔۔!!‘‘
وہ ہکلایا۔ پوری کلاس ششدر تھی، انہیں اپنے کانوں پہ یقین ہی نہیں آ رہا تھا، اس سے پہلے تو سر نے کبھی رام چند کے ساتھ نرم لہجے میں بات تک نہیں کی تھی، ادھر سر کہہ رہے تھے:
’’عزیز طلبہ!! اسلامی معاشرے میں مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں سے نیکی، انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (سورہ ممتحنہ) اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فرمان سے ہوتا ہے:
’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس پرا س کی استطاعت سے زیادہ بوجھ ڈالا یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو روزِ قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الخراج) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکی زندگی میں غیر مسلموں کے ساتھ وہ اخلاقی رویے اپنائے تھے کہ سبھی آپ کو صادق اور امین کے القابات سے پکارا کرتے تھے، اس کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بھی کسی غیر مسلم سے ہم کلام ہوتے تو اچھا اسلوب اختیار فرماتے، نرم لہجے میں بات چیت فرماتے، لہٰذا ہمیں بھی اپنے سابقہ طرز عمل پہ بہت ندامت ہے اور آئندہ سے ہم رام چند یا دیگر اقلیتی طلبہ سے غیر مہذبانہ رویہ نہیں اپنائیں گے۔‘‘
سر تھوڑی دیر کے لیے رکے۔ کچھ طلبہ سرگوشیاں کرنے لگے تھے، سر نے انھیں روکا۔ پھر وہ کہنے لگے:
’’عزیز طلبہ!! ایک بار جنگل میں شکار کے دوران ایک غیر مسلم تاتاری شہزادے نے ایک مسلمان بزرگ شیخ جمال الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کو پکڑ لیا اور اسے اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا، جب وہ بزرگ آئے تو شہزادے نے پوچھا، تم بہتر ہو یا میرا یہ شکاری کتا؟۔ یہ سن کر وہ بزرگ بولے، اگر میرا خاتمہ ایمان پہ نہ ہو سکا تو یہ کتا مجھ سے بہتر ہے اور اگر میں حالت ایمان پر فوت ہوا تو میں اس کتے سے بہتر ہوں۔ یہ بات سن کر شہزادہ بہت حیران ہوا اور اس کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ میں بھی ایمان کے متعلق جانوں کہ یہ کیا ہوتا ہے، کیوں کہ اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ ایمان بہت قیمتی چیز ہے، اس کے بعد وہ ایمان کے بارے میں پڑھنے لگا اور بعد میں وہ مسلمان ہو گیا۔ اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایمان بہت اہم چیز ہے۔ اخلاقیات تو ایمان کا حسن ہیں، اور ہم اپنے اخلاق کی پروا ہی نہیں کرتے، ہم رام چند کا اور دیگر افراد کا مذاق اڑاتے ہیں، اس سے ہمارا اپنا نقصان ہو رہا ہے، اس سے ہمارے ایمان کی چمک ماند پڑتی جا رہی ہے، دوسرا پہلو یہ بھی کہ ہم رام چند کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن کل کا کیا پتہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایمان کی دولت عطا فرما دے اور یہ مسلمان ہو جائے اور ہمیں کیا معلوم کہ ہماری قسمت میں کیا لکھا ہے؟؟ لہذا ہمیں کسی کو تضحیک کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے، آج سے رام چند بھی ہمارے ساتھ اسلامیات کے لیکچر میں بیٹھے گا اور آئندہ کوئی بھی اسے کافر کہہ کر نہیں بلائے گا، اور نہ ہی اس پر آوازیں کسے گا۔ کل یہی دستور العمل پورے اسکول کو بتا دیا جائے گا۔ سمجھ گئے؟‘‘
’’یس سر!!‘‘ سب یک زبان ہو کر بولے۔ اس وقت رام چند کو پوری دنیا بہاروں سے گھری محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اپنے کلاس فیلوز کی بدلی ہوئی نگاہوں سے محظوظ ہو رہا تھا۔ آج اسے اپنے کلاس فیلوز سے انس، ہمدردی اور الفت کی خوشبو آ رہی تھی۔ آج پہلی بار اسے لفظ اسلام پہ بھی پیار آ رہا تھا۔ سبھی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے، یوں لگ رہا تھا جیسے صبح کے وقت باغیچہ پھولوں سے بھرا ہوا ہو۔۔ سچ تو یہ ہے کہ پورا کلاس روم محبت کی خوشبو سے مہک گیا تھا۔
٭٭٭