اف شیری فون اٹھاو پلیز۔ ۔ ۔ وہ بار بار فون ملاتی کمرے میں ٹہل رہی تھی ۔ کالے رنگ کا دوبٹہ مکمل تور پر اوڑھے نماز پڑھنے کی تیاری تھی ۔
آخر کار کوئی پانچویں گھنٹی کے بعد فون اٹھایا گیا۔
اسلام علیکم شیری فون کیوں نے اٹھا رہے تھے ۔ دعا فون رسیو ہوتے ہی فوراً بولی۔
یار وہ انہوں نے فون رکھ لیا تھا۔ شکرہے اب دے دیا۔ وہ شکر کرنے لگا۔
اب سب ٹھیک ہے نا کب آو گے؟ وہ اب بھی پریشان تھی۔
وہ ایس ایچ او ابھی افطاری کرنے گئے ہیں آکر بتائیں گے تم پریشان مت ہو اوکے اللہ حافظ۔ وہ بات ختم کرتے ہی فون بند کر گیا۔
وہ جو خود کو کب سے مضبوط کرتی دلاسے دے رہی تھی سب ٹھیک ہوجائے گا فون بند ہونے کے۔ساتھ ہی اسےاپنا دل بھی بند ہوتا نظر آیا فون ایک دم ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پرگرا اور ٹوٹ گیا دعا فوراً اپنے کمرے میں بھاگی جہاں وہ جائے نماز ڈال کر گئی تھی فوراً کھڑی ہوئی اور نماز کی نیت کی ۔
ہاتھ باندھےتعوز اور تسمیہ کے بعد آگے کا عمل زہن میں دہرایا
مگر یوں لگا جیسے وہ سب بھول گئی ہے کچھ بھی یاد نہیں
کہ نیت کے بعد اب آگے کیا آئے گا۔وہ بار بار سوچنے لگی یاد کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ ضبط سے دعا نے آنکھیں میچ لیں اور خود کو بے بسی کی حد سے بھی آگے سمجھے وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی اللہ کیا میں نماز کو توڑ دوں اللہ جی کیا آپ مجھ سے اتنا ناراض ہو گئے ہیں کہ مجھ سے آپ نے اپنے سامنے سجدے کا حق بھی لے لیا۔
کیوںکہ وہ جانتی تھی اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو وہ انسان سے روٹی نہیں چھینتا وہ رشتے بھی نہیں چھینتا وہ سکون قلب لے لیتا ہے وہ سکون جوصرف سجدہ کر کے ملتا ہے وہ انسان کوسب دے دیتا ہے مگر اس سے سجدہ کرنے کا حق چھین لیتا ہے۔
دعا کے گال پر گرم آنسو چہرے سے ہوتا ہوا اس کے دوبٹے میں جزب ہوتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کتنے ہی آنسو بہتے گئے۔
مجھ سے سب لے لے یہ دنیا میری سانسیں مگر سجدے کا حق مت چھین مجھ سے میں یہ نماز نہیں توڑوں گی ساری عمر جب تک کھڑے ہو سکتی ہوں میں یونہی تیری بارگاہ میں کھڑی روہوں گی مگر نماز نہیں توڑوں گی۔
زبان پر خودبخود ایک کلام رقص کرنے لگا۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ
أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ
وَلَا الضَّالِّينَ
وہ جھکی شدتِ ضبط سے اس کی آواز گونجی
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمُ
نماز کے ہر لفظ کے ساتھ کمرے میں سکیاں بھی گونجنے لگی۔
اس نے سلام پھیرا وہ کتنے پی لمحے اللہ کی مہربانی پر خود کو قابل نا سمجھتے ہوئے بیٹھی رہی ۔ ہم انسان بھی عجیب مخلوق ہیں اللہ سے معافی اس قدر آسان ہے اسے صرف صدق دل سے پکارنا ہے ۔ صرف ایک انسواسے پگلا دیتااور ہم قیامت تک کا انتظار کرتے ہیں وہ ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے ۔ بس ایک بار اس کی بارگاہ میں کھڑے ہونا ہی تو ہے
دعا نے ہاتھ اٹھائے وہ رو رہی تھی کھبی اپنے گناہ سوچ کر تو کبھی اس ربالعزت کی عطا دیکھ کر
اللہ میں اس قابل نہیں تھی مگر تو ۔ ۔ ۔ تو نےاپنی رحمت سے مجھے نوازا اپنا سجدہ کرنے کا حق دیا میں تیری شکر گزار ہوں پوری زندگی اس کا حق ادا نہیں کرسکوں گی ۔ اے اللہ میں نے تجھ سے مدد مانگی تو نے اک شخص کو میرا رہبر بنایا اللہ اسے اس مصیبت میں نا آنے دینا می کبھی اس شخص کے بوڑھے باپ سے سر اٹھا کر بات نہیں کر سکوں گی تو میرا مولا ہے تو ہر چیز پر قادر ہے تیری مدد کے بغیر میں ایک قدم نہیں چل سکتی تو چاہے تو میں اس سے نکل سکتی ہوں میرے مالک مجھے اس مصیبت سے نکال دے میرے وہ گناہ نظر انداز کر جس نے ہمیں اس مصیبت میں ڈالا ہے ۔ اے اللہ وہ گھر جو اس وقت ایک بیٹی کے نہ ہونے پر کس قدر تکلیف میں ہے میں اس تکلیف کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتی میرے اللہ ان کے مدد فرما۔ ان پر رحم کر ۔ ان کی بیٹی کے لیے غیب سے مدد فرما۔
جو نہ مانگا جو نہ مانگ سکے بن مانگے عطا فرما جب دمے واپسی ہواے اللہ سامنے ہو روزہ رسول اللہ نگاہوں میں ہو جلوہِ مصطفیٰ اور لب پہ ہو
’’لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
گوہربیٹا بزی ہو ؟ آفندی صاحب بیٹے کے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑے کھڑے پکارا
نہیں بابا؟ اندر آئیں آپ
۔ ۔ ۔ وہ جو کرسی پر بیٹا نا جانے کن سوچوں میں مگن تھا یک دم چونکا۔
میں آج ایک درخواست کرنے آیا ہوں ۔ وہ جانتے تھے کہ جو بات وہ گوہر سے کہنے آئیں ہیں وہ اس کے مطلق بات سننا تو درکنار اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا۔ مگر وہ بھی مجبور شائد دل کے ہاتھوں یا شائد وقت کے ہاتھوں۔
بابا آپ حکم کریں درخواست نہیں۔ اسے باپ کا منت بھرے لہجے میں کہنا برا لگا۔
اپنے باپ کے لیے بس ایک بار عیشل سے مل لو۔ اسے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع تو دو۔وہ جانتے تھے وہ اپنے بیٹے سے وہ مانگ رہے ہیں جو اسے تکلیف دیتا ہے۔
وہ خاموش رہا ۔ ۔ ۔
بیٹا وہ بس ملنا ہی تو چاہتی ہے ۔ ۔گوہر کو خاموش پا کر وہ مزید سمجھانے کے اندازمیں بولے
لیکن ۔ ۔ ۔ گوہر ہمیشہ کی طرح انکار کرنا چاہتا تھا۔
میرے لیے ۔ ۔اس بار بار میں نے کہا تھا اسے کے تم ملو گے ۔ میری بات کا مان رکھ لو اس کے سامنے ۔ زندگی کب مجھ سے روٹھ جائے۔ ۔ ۔
بابا ۔ ۔پلیز ایسی بات تو نہ کریں ۔ ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بول پڑا
ٹھیک ہے مل لوں گا میں مگر آپ دوبارہ مجھے ملنے کو نہیں کہیں گے۔ ۔ ۔
محبت بھی عجب شے ہے کبھی کبھی انسان کواس قدر مجبور کر دیتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو کھائی میں گرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ مگر انسان ہی کو تو رشتوں کا مان رکھنا پڑتا ہے اسے اتنا بھرم تو رکھنا پڑتا ہے کہ وقت کے تقاضوں کی زد میں اسے کسی موڑ پر اپنے رشتوں کے سامنےنظریں چرانی نہ پڑیں۔
ہاں جی ہو گئی افطاری ۔ ۔ ۔ قاسم صاحب نے آتے ہی روبدار آواز میں کہا
جی ہو گئی ۔ ۔ ۔ شیری نے جواب دیا اور دروازے سے آتے انسپکٹر پر نظر ڈالی جوایک موٹا سا لفافہ اٹھائے آ رہا تھا۔
سر جی یہ اکرام صاحب نے آپ کے لیے نظرانہ دیا ہے ۔ ۔ ۔ انسپکٹر نے پرجوش ہو کر لفافہ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
قاسم صاحب نے لفافہ اٹھایا اور اس میں سے چند نوٹ نکال کر انسپکٹر کو پکڑائے۔
لو یہ رکھو ۔ ۔ ۔ اور جاو۔ ۔
دیا کے علاوہ سب یہاں سے باہر چلیں جائیں تفتیش میں کوئی خلل نہیں آنا چاہیے۔
زرینہ بیگم دانی اور شیری کے ہمراہ نہ چاہتے ہوئے بھی آٹھ کر باہر آئیں۔
دروازہ بند کر کے آو۔ قاسم صاحب نے دیا سے کہا وہ ڈرتے ہوئے اٹھی اور دروازہ بند کیا اور واپس ایس ایچ او کی کرسی کے مدمقابل کر سی پر براجمان ہوئی۔
میں ایک سوال ایک ہی بار پوچھوں گا مجھے اس کا جواب صرف اور صرف سچ سننا ہے اگر جھوٹ بولا تو پتا ہے ہم کیسے سچ نکلواتے ہیں،؟۔ دیا کو اس قدر وہشت ناک انکھیں دکھائی وہ اندر سے جو بہادری کا مجسمہ لے کر آئی تھی وہ سمنات کے مندر کی طرح ڈھے گیا۔
ج ۔ ۔ جی ۔ ۔ میں سچ بولوں گی۔ وہ دوبٹہ انگلیوں پر گماتے بولی۔
تمہارے پاس ادیبہ کی تصویر ہے؟ قاسم اپنی قرسی پرسے آگے ہوئے۔
جی ہے۔ دیا فون کی سمت دیکھنے لگی۔
کہا ہے فون میں ہے؟ قاسم صاحب مکمل طور پر دیا کی ہر حرکات سکنات کو نوٹ کر رہے تھے۔ اس کا ڈرنا ۔ چہرے کے اکسپریشنز اور اس کے مومنٹس۔
جی دیکھاو ؟ سوالیہ نظروں سے دیکھا
ہممم۔ قاسم نے زبان نہیں ہلائی۔
اس کے پاس تمہاری تصویر ہے ؟ انہوں نے ادیبہ کی تصویر کو دیکھتے ہوئے اگلا سوال دہرایا۔
جی۔ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی
اب یہ بتاو کہا ہے ادیبہ؟ وہ دھاڑنے کے انداز میں بولے اور ہاتھ میز پر مکہ بنا کر مارا اتنی دہشت سے کہ دیا کے ہاتھ میں پکڑا فون زمیں بوس ہوگیا۔
مم ۔ ۔ مجھے نہیں۔ ۔ ۔ پتا۔ دیا سہم کر بولی
جھوٹ بولتی ہو ؟ ابھی بلاتا خواتین سٹاف کو الٹا لٹکا دیں گے تمہیں۔ ۔ ۔ وہ ںکھوں کو مزید وہشتناک کر کے بولے
کب بات ہوئی اس سے۔
میرا اس سے رمضان کے فرسٹ ویک میں بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد نہیں ہوئی۔ وہ سر چھکا کے کانپتی آواز میں بولی
تم جھوٹ بولتی ہو وہ تمہاری دوست تھی تم نے اسے بھگایا ہے اور تم نے ہی اسے کہیں چھپایا ہے ۔ وہ مزید برہم ہو کر بولے۔
نہیں ۔ ۔ ۔ اس کے آنسو بہنے لگے
میں نے تمام کنورسیشن نکلوالیے ہیں تمنے اسے مشورہ دیا ہے۔ قاسم صاحب تیز لہجے میں بولے
لیکن اس نے کبھی مجھ سے اس بارے میں بات نہیں وہ کنورسیشن میری نہیں ہوگی ۔ دیا کی آواز اب کی بار رندھائی ہوئی تھی۔
وہ تمہاری تھی میں نے دیکھا ہے۔ وہ ایہ دم کھڑے ہوئے جیسے تھپڑ مارنے لگے ہوں۔
نہیں ۔ ۔ ۔ اس کے آنسو میں فراوانی آئی
اپنے اکاونٹ کھولو اس لیپ ٹاپ پر۔قاسم صاحب نے اپنے الماری سے ایک لیپ ٹاپ نکال کر دیا کے سامنے رکھتے ہوئے حکمیہ انداز میں کہا۔
دیا نے اپنا اکاونٹ کھول کر دیا
قاسم صاحب نے پروفائل دیکھی ۔ پھر کنورسیشن دیکھی وہ کتنی ہی دیر دیا کے اکاونٹ کی چھان بین کرتے رہے ۔ ۔ کوئی بیس منٹ کے بعد انہوں نے لیپ ٹاپ دیا کی طرف گھمایا۔
یہ میرا اکانٹ ہے میرا پیج بھی ہے لڑکیاں مرتی ہیں مجھ پر اس عمر میں بھی ۔کونسی کلاس میں پڑھتی ہو؟
اپنے لہجے کو ندل کر برے پیار سے کہا۔شائد تفتیش کا طریقہ بدل رہے تھے۔
سیکنڈ ائیر میں ہوں ۔ اس نے تھوڑا حیران ہو کر دیکھا
ادیبہ کے بارے میں اور کیا پتا ہے؟۔ اب وہ دوستانہ انداز میں بولے
وہ میری فیس بک کی دوست تھی ۔ کچھ پچلے دو سال سے ۔ دیا نے سیدھا جواب دیا۔
اگر یہ الزام ثابت ہوا تو پوری زندگی جیل میں گزارنی پڑے گی۔ وہ بہت غور سے دیکھتے بولے۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
چلو ایک کام کرتے ہیں دوستی کر لیتے ہیں ہاتھ ملاو
چہرے پر بے حد نرمی لاتے ہوئے دیا کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
لو اب ہو گئی پکی دوستی ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے
اب مجھے سب بتا و اگر کوئی غلطی کی بھی ہے تو وہ بھی میں کسی کو نہیں بتاو گا اور تمہیں کچھ بھی ہونے نہیں دونگا آخر ہم دوست ہو گئے ہیں۔ وہ دوستانہ لہجے میں بولتے واپس اپنی سیٹ پر باجمان ہوئے
ادیبہ کا ایک دوست ہے وہ اس کے محلے کا بھی ہے فیس بک پر دوستی ہوئی تھی وہ بس اس کی باتیں کرتی تھی۔ کہتی تھی ہم شادی کر لیں گے جلد ہی۔ دیا نے اب کی بار راز داری سے کہا۔
ہممم اچھا ۔ ۔ لیکن اس کا تو نکاح ہو گیاتھا ؟قاسم سوچنے لگے۔
ہاں لیکن اس نے بولا تھا مجھے کہ وہ اس سے نکاح نہیں کرنا چاہتی گھر والوں نے ضبر دستی کروایا۔۔ دیا کا ڈر جانے لگا۔
ہم لڑکیاں بھی عجیب ہوتی ہیں اپنے آپ کو ہمیشہ سر نا کی جانے والی پہاڑی سمجھتے ہیں مگر کسی کے ایک تعریفی جملے کے پیچھے پوری زندگی کا ملال کما کر بیٹھ جاتی ہیں۔
کیا اس نے بولا تھا کہ وہ اس لڑکے ساتھ کہیں بھاگ جائےگی؟ وہ آہستہ آہستہ واپس اپنے مدعے پر آنے لگے۔
نکا ح کے بعد وہ مجھ سے ناراض ہو گئی کہ میں نہیں آئی اس کے نکاح پر میں امی کے ساتھ منانے بھی گئی تھی امی نے اسے نکاح کی وجہ سے پیسے بھی دیے تھے اس نے ٹھیک سے بات تک نہیں کی تو پھر میں بھی اس سے نہیں بولی۔ دیا اب کی بار معصومیت سے منہ بنا کر بولی
آخری بار کب رابطہ کیاتھا اس سے ؟
رمضان کے شروع میں دوسرے تیسرے روزے۔ مگر وہ بد تمیزی کر رہی تھی تو میں نے اس جواب نہیں دیا اور فیس بک سے بھی ان فرنڈ کر دیا۔اب کی بار بات میں غصے کی جھلک تھی
وہ لڑکا پتا ہے فیس بک سے کس نام سے ہے؟ قاسم صاحب کو لگا کہ کیس کی کڑیاں جڑنے لگی ہیں مگر وہ غلط تھے۔
پرنس چارمنگ کے نام سے تھا اس کے بارے میں اس کے گھر والے بھی جانتے ہیں۔ دیا نے صاف بات کی۔
خود ہی تو بولا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کے بارے میں نہیں جانتی پھر کیسے پتا وہ جانتے ہیں؟ اب کی بار قاسم کو معاملہ مزید الجھا ہوا محسوس ہوا۔
وہ دو تین دن سے مجھے ایک کال آ رہی تھی شائد وہ ادیبہ کی بھابی تھی ۔ کہہ رہی تھی کہ ادیبہ کہا ہے؟ جب میں نے ان کو بولا میرا رابطہ نہیں ہے ۔ پھر میں نے پوچھا کوئی پرابلم ہے تو فعن بند کر دیا۔ پھر دوبارہ کال آئی تو انہوں نے کہا کہ پرنس چارمنگ کو جانتی ہو وہ کہا رہتا ہے ۔ جب میں نے ان کو کہا کہ میں نہیں جانتی تو انہوں نے مجھے ۔ ۔ ۔ وہ خاموش ہوئی۔
تمہیں کیا ؟ وہ بھی رازدانہ انداز میں گویا ہوئے۔
وہ ۔ ۔ ۔ کہنے لگی کہ میں تمہیں اٹھوا لوں گی ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ دیا کے چہرے پر اب کی بار شرمندگی جیسے آثار تھے جسے وہ سمجھ کر بولے۔
اچھا بے فکر رہو اور جاو اور وہ جو لڑکا آیا تھا تمہارے ساتھ اسے بھیجو۔
دیااٹھ کر باہر چلی گئی
باہر آتے ہی شیری کو دیکھا اس کے قریب آئی تو شیری فوراً کھڑا ہوگیا
وہ آپ کو بلا رہے ہیں۔ شیری سے نظریں ملائے بغیر وہ کہہ گئی
شیری اسے اوکے کہتا ایس ایچ او کے کمرے کی طرف بڑھا تو انسپکٹر نے اسے درمیان میں ہی جا لیا۔
اوئے یار بات سن جا کر بس عیدی کی بات کر لے عیدی دے دلا کر جان چھڑا لڑکی ہم ڈھونڈ ہی لیں گے۔ ۔ انسپکٹر کان میں سرگوشی کرنے کے انداز میں شیری کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
شیری کو خاموش دیکھ کر وہ پھر بولا ابےیار پچاس ساٹھ ہزار کے پیچے کیوں اپنی ماں بہن کو یہاں خوار کروانا ہے۔ شیری نے دیکھا اور اچھا کہتا آگے بڑھ گیا۔
تقریباً دومنٹ کے بعد شیری سر میں انگلیوں سے ہل چلاتا کمرے میں داخل ہوا۔
قاسم صاحب نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
کیا لگتی ہو دیا حمید کے؟ ایس ایچ او قاسم اپنے ٹیبل کی دراز کو کھنگال رہے تھے۔
کزن ۔ ۔ ۔ بھائی بھی کہہ سکتے ہیں آپ ۔ ۔ شیری نے بغیر سوچے کہا۔
ہممم یہ دیکھو ۔ ۔ ۔ ایس ایچ او نے ایک کاغز شیری کے سامنے رکھا۔
شیری نے اس کی طرف دیکھتے والیہ نظروں سے قاسم کو دیکھا۔
انہوں نے ایف آئی آر کٹوانے کا کہا تھا میں نے نہیں کاٹی ۔ ۔ ۔ ابھی ان کی درخواست رکھی ہے ۔ میری اپنی بھی بیٹاں ہیں مجھے عورتوں کا اس طرح ہولیس سٹیشن کے محلہ وقوع میں ہونا قطن درست نہیں لگتا مگر بیان لینا میری جاب کا حصہ ہے ۔ میں کبھی کسی بے گناہ کو نہیں بھساتا مگر گناہگار کو چھوڑتق بھی نہیں۔ اس درخواست کی بنیاد پر مجھے اس طرح کاروائی کرنی ہی تھی۔ قاسم صاحب نے درخواست اٹھا کر شیری کی طرف بڑھائی۔
شیری نے پڑھنا شروع کیا۔
میرا نام عجاز احمد ہے میری بیٹی ایک قرآن حافظہ ہے اس کی جلد ہی شادی ہونے والی تھی مگر کسی نے اسے اغواہ کروالیا ۔ وہ پرسو ں شام چھ بجے گوشت لانے کی غرض سے بازار گئی تھی مگر تاحال واپس نہیں آئی ہم نے اپنے طور پر محلے میں بھی چھان بین کی مگر اسے دریافت نہیں کر سکے۔ اس کا اغواہ فحش کاموں کی غرض سے کیا گیا ہے اور ہمارا شک اس کی سماجی رابطہ کی ویب سائیٹ کی دوست ماہی ڈول عرف دیا پر ہے وہ اکثر ہی ہماری بیٹی سے رابطے میں رہتی تھی اسی نے ہماری بیٹی کو بہلایا پھسلایا ہے آپ سے اپیل ہے کہ میری بیٹی بازیاب کروائی جائے۔
شیری نے پڑھتے ہی نظر اٹھا کر ایس ایچ او کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی جسے بغیر کسی تاخیر کے ایس ایچ او نے اٹھایا۔
بات ختم کر کے قاسم نے شہری کی طرف دیکھا ۔
میں آپ سب کی عید خراب نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے ایک ریڈ ڈالنی ہے اور پھر میں نماز اور تراویح کے بعد آوں گا آپ لوگ اطمنان سے رہیں جب میں آوں گا تو پھر آپ لوگ جا سکتے ہیں ۔ قاسم صاحب سر پر کیپ پہنے باہر آئے اور جیپ نکالے کا کہہ کر باہر چل دیے۔
ایس ایچ او کے نکلتے ہی سب سے پہلے شیری نے درخواست کی تصویر لی اور جلدی سے دعا کو فون ملا کر صورتحال سے اگاہ کیا اور دلاسہ دیا کہ ہم تھوڑی دیر تک آرہے ہیں۔
دعا ہر آدھے گھنٹے بعد فون کر رہی تھی اب وہ دیا سے مسلسل میسچ کے زریعے رابطے میں تھی اسے ہر بار ہم آ رہے ہیں کا دلاسہ ہی مل رہا تھا۔
کبھی وہ اللہ کو مختلف ناموں پکار کر رحمت مانگتی تو کبھی مختلف آیات کا ورد کرتی کہ یہ مصیبت ٹل جائے۔
کبھی نفل پڑھتی تو کبھی انسو سے لبریز دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی۔یوں لگتا تھا جیسے وہ خود سے ہی باتوں میں مشگول بس رو رہی ہے۔ کوئی اسے دیکھ لیتا تو اسے یقیناً دعا کے پاگل ہو جانے کا گمان ہوتا ۔
انسان کو اکثر رشتوں کا اپنے ارد گرد رہنا کسی چنگل سے کم نہیں لگتا۔اپنے پر مسلط کبھی کبھی یہ رشتے ایک مصیبت لگتے ہیں ہر وقت پہرا لگائے جاسوس سے محسوس ہوتے مگر اس جاسوسی کے پیچھے ہم ان کی پناہ کونوں میں چھپی محبت نہیں پہچان پاتے۔ انسان کسی رشتے سے انسیت تب تک محسوس نہیں کرتا جب تک اس سے جدا نہیں ہو جاتا۔
رات کے تین بجنے کو تھے دعا مرے ہوئے قدموں سے چلتے ہوئے واش روم میں گئی وضوع کیا اور واپس جائے نماز پر کھڑی ہوئی۔ تہجد کی نیت سے چھ نوافل ادا کر کے اسے نے ہاتھ اٹھائے۔
اے میرے اللہ ستوں آسمانوں کے مالک اور جو ان میں سایہ فگن ہے اس کے پر وردگارمیری نماز میں کوئی غلطی اور کوتاہی ہوئی ہو تو مجھے بخش دے بے شک تو بخشنے والا مہربان ۔ وہ لڑکی جس کسی مصیبت میں ہے اس کے تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں کو معاف فرما کر اس کی مصیبت کا حل فرما۔ اے اللہ وہ عمر جس میں میری ماں کا خدمت کا کرانے کا حق تھا اللہ ہماری وجہ سے اس تکلیف سے گزر رہی ہے وہ انسان جس کا س معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ اس مصیبت میں پس رہا ہے اللہ اس سے میرے رشتے کو عمر بھر کے لیے تعلق نما اذیت مت بنا میں نے اگر کوئی ایک بھی نیکی کی ہے تو میں اس نیکی کا تجھ سے سودہ کرتی ہوں مجھ سے وہ نیکی لے لے اور اس مصیبت کو ٹال دے تو تو بہترین سودہ دینے والا ہے بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ۔
دروازے کی گھنٹی بجی تو دعا کو لگا جیسے وہ ایک پل جس میں ہر دعا قبول ہو جاتی ہے اس کی زندگی کا وہ پل یہی تھا۔ وہ فوراً منہ پر ہاتھ پھیرتی اٹھ کر دروازے کی طرف دوڑی۔
کُن فیکون" ♡
جب قبولیت کا وقت آتا ہے اور خدا کی مرضی تمہارے حق میں ہوتی ہے،
یا پھر جب نصیب میں لکھا تمھیں ملنا ہوتا ہے تو خدا فرماتا ہے
"کُن فیکون"
"ہوجا' اور پھر ہوجاتا ہے"
"Be And it is!"
Surah Baqrah [٢:١١٧]
ہر انسان کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جب اس کی کہی ہوئی بات اسی وقت بغیر کسی تاخیر کے قبولیت کی منزل تک پہنچ جاتی ہےاور اس لمحے میں آسمان اور اس میں بسنے والی ہر شے ظاہر اور پوشیدہ الی ہر شے،
،ے ہزاروستار
تنہاچاند، سورج اپنی تمام ابو تاب سمیت ،
وقت کا ہر گزرتہ لمحہ قسمت کا ہر پناہ مل کر انسان کو اس کی منزل تک کھنچ لاتے ہیں خدا کی مرضی کو پورا کرنے کے لئے...اور وہ ہوکر رہتا ہے جو منظورے خدا ہوتا ہے
رات کے دو بجے ایس ایچ او صاحب واپس آئے اور ساتھ کچھ لڑکے اور لڑکیاں تھیں اپنے آفس کے کمرے میں آتے ہی ٹوپی اتار کر ٹیبل پر پھینکنے کے انداز میں رکھی ان کے پیچھے لڑکے لڑکوں کا گروپ حولدارو انہیں دھکے دینے کے انداز میں آگے کو کئےآ رہا تھا۔
تم لوگوں کو کچھ شرم حیا آتی بھی ہے کہ وہ سب بیچ کھائی ہے ۔ اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
مردوں میں سے ایک جواچھی خاصی عمر کا لگتا تھا آگے بولا سر یہ پہلی دفعہ ۔ ۔ ۔
ایس ایچ او نے اٹھ کر ایک تمانچہ اس کے منہ پر جڑا جس سے وہ اپنی جگہ سے کوئی قدم پیچھے کھسک گیا۔
پہلی دفعہ ۔ ۔ ۔ سالوں تم لوگوں کو زرا شرم نہیں آتی عورتوں کو اس طرح نوکری کی لالچ دے کر بلاتے ہوئے اپنی بہنوں کا خیال نہیں آتا ان سے پیسے اینٹھتے ہوئے زرا خوفِ خدا دل میں نہیں آتا۔ بند کرو ان کو ۔
واپس اپنی سیٹ پر آتے لڑکیوں کو بیٹھنے کا کہا جو بتوں کا مجسمہ بنی کھڑی تھی۔
آپ لوگ مجبوری میں نوکری کرنے کی غرض سے ہی نکلتیں ہیں ہم سمجھتے ہیں مگر آپ لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ انٹرویو کا بہانہ بنا کر بلا کس جگہ رہے ہیں وہ کوئی آفس ہے بھی یا نہیں تھوڑی سی محنت کرنی ہوتی ہے بس۔ اب کی بار انسپکٹر کواشارہ کیا کے ان خواتین کو باہر لے جاو۔
مجھے آنے میں دیر ہو گئی خیر دیر آید درست آئد
اتنا عرصہ گزارا ہے لوگوں میں اب تو شکل دیکھ کہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون سچ کہہ رہا ہے اور کون جھوٹ ۔ اب آپ لوگ مجھے ایک درخواست لیکھ کر دیں کہ آپ کی لڑکی کا اس سے رابطہ نہیں تھا اوراس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ ۔ انہوں نے شیری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
Sir if you don't mind can i request ?
ہاں کہو۔ پانی کا گلاس پیتے ہوئے بولے۔
درخواست لیکھ دوں گا میں کیا یہ لوگ گاڑی میں تب تک بیٹھ سکتے ہیں؟ اسے دیا اور دانی کابغیر وجہ یہاں رکنا برا لگ رہا تھا۔
انسپکٹر ارشد انہیں دونوں بچو کو گاڑی تک چھوڑ کر آو۔ باہر انسپکٹر کو آواز لگائی۔
شیری درخواست لکھنے لگا۔
انسپکٹر دیا اور دانی کو لے گیا باہر۔
دیکھیں محتر مہ آج کل بھروسے کا زمانہ نہیں بچے دوسروں کی تعریفوں میں اپنی زندگی برباد کر لیتے ہیں ان سے سخت ہونے کی بجائے نرمی اختیار کریں ۔ شیری درخواست لکھ چکا تھا
اور ٹیبل پر رکھ کر قاسم کی بات مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ جب وہ چپ ہوئے تو وہ مسکرا کر بولا
سر اب ہم جا سکتے ہیں ۔ ۔ ۔
آپ کو بھیجنا ابھی ممکن نہیں تھا مگر میں اپنے اون پر آپ کو جانے دے رہا ہوں اس شرط پر کہ کل بارہ بجے آکر آپ ان کے سامنے مجھے یہ درخواست دیں گے دیا کا آنا ضروری ہے ۔ وہ درخواست پکڑتے ہوئے بولے
جی سر آپ کو ہماری طرف سے کوئی شکائت نہیں ملے گی انشاللہ ہم وقت پر آ جائیں گے شیری نے ان سے ہاتھ ملایا اور ان کے ہاتھ پر ایک لفافہ رکھ دیا۔
قاسم صاحب نے لفافہ کھول کر انسپکٹر ارشد کو آواز دی۔
بیٹا۔ ۔ زرینہ بیگم نے شیری کو دیکھتے ہوئے سر گوشی کی جسے شیری نے ان کا ہاتھ دبا کر خاموش رہنے کا اندیہ دیا۔
انسپکٹر کو پانچ سو کا نوٹ نکال کر پکڑایا اور اسے جانے کا حکم دیا ۔
شیری کی طرف مڑے مسکرا کر دیکھا
میں بے گناہوں کے بے گناہی کا ثبوت ان پیسوں سے نہئں دیکھتا بیٹا ۔ ۔ باقی پیسے شیری کو پکڑا دیا اوردروازے کی طرف دیکھا۔
شیری زرینہ بیگم کے ساتھ باہر کو چل دیا۔
آنٹی دیا کو ڈانٹیئے گا مت وہ بچی ہے اس نے غلطی تو کی ہے کسی انجان پر اندھا یقین کر کے اپنی سپرائیویٹ انفارمیشن شیئر کر دی مگر اس کی یہ غلطی اتنی بڑی نہیں کہ اسے سزا دی جائے۔۔ شیری نے انہیں آرام سے دیکھتے ہوئے کہا۔
اس نے جو ہماری عزتوں پر پولیس سٹیشن آنے کا داغ لگایا ہے اس کو نصیحت ۔ ۔ ۔ زرینہ بیگم بے حد غصے میں بولے گئی۔
آنٹی پلیز آپ کوئی بات مت کیجیے گا میں سمجھا لوں گا ۔ ۔ وہ گاڑی کی اگلی سیٹ کا دروازہ زرینہ بیگم کے لیے کھول کر بیٹھایا۔
بچے درخت کی نازک شاخ کی ماند ہوتے ہیں اگر انہیں زبردستی کھینچو گے تو وہ ٹوٹ کر زمیں بوس ہو جاتے ہیں
اولاد کو سمجھانا ان کے بند زہنوں پر نصیحت کی دستک دینے کے مترادف ہے اس دستک کا مقصد دروازہ کھولنا ہونا چاہیے نہ کہ دروازہ توڑنا۔
شہری تیز دوڑتی گاڑی دعا کے گھر جا روکی۔
اچھا آنٹی اب میں چلتا ہوں ۔ ۔ ۔ شیری نے زرینہ بیگم کو مخاطب کیا۔
بیٹا میرے پاس کوئی لفظ نہیں تمہارا شکریہ ادا کرنے کے لیے۔ وہ شیری کے ہندھے پر پیار دیتے ہوئے بولیں
آنٹی بیٹا بھی کہتی ہیں اور احسان کہہ رہی ہیں جسے میں نے فرض سمجھ کر کیا۔ ۔
کل میں ٹائم سے او گا اورآپ نہ دعا کوئی بھی جانے کا پراگرام نہ بنائے میں اور دیا جائیں گے بس۔ ۔ ۔
شیری دروازہ کھلنے سے پہلے اللہ حافظ
گوہر ٹاول سے بال خشک کرتا واش روم سے باہر نکلا ہی رھا کہ سامنے زی بیڈ پر بیٹھی نظر آئی۔
زری جسے وہ پیار سے زی کہتا تھا یہ وہ واحد انسان تھی جسے گوہر کے غصے کا بھی ڈر نہ تھا یا یوں کہنا چاہیے کہ کبھی گوہر کو اس پر غصہ اْتا ہی نہیں تھی ۔ گھر کا ہر شخص اس کا باپ ماں چھوٹا بھائی زوہیب کوئی بھی بغیر ایجازت اس کے کمرے میں قدم نہیں رکھتے تھے مگر زی نے کبھی اس کے کمرے میں آنے کی ایجازت مانگنے کی رسم ہی نہیں کی جب دل کرے دندناتے آتی جو چاہے استعمال کرتی۔
زی جب پیدا ہوئی تو شمائلہ کافی بیمار تھی آفندی صاحب ڈیوٹی کے بعد صرف شمائلہ کو ہی ٹائم دے پاتے زوہیب بھی چھوٹا تھا تواس وقت گوہر نے ہی دیکھ بھال کی شائد ماں باپ دونوں کی ہی کیفیت تھی زی کے لیے دل میں تو کبھی غصہ نہیں کیا اس پر۔
گوہر چلتا ہوا بیڈ کے سامنے کھڑکی کے پاس پڑے۔صوفہ پر بیٹھ گیا۔
لگتا ہے آج کہیں توڑ پھوڑ کے ارادے سے کوئی بیٹھا ہے۔ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتا وہ مسکرا کر بولا۔
وہ جو موبائل پر کینڈی کرش کھیلنے میں مصروف تھی فون بند کر کے سائڈ ٹیبل پر رکھا اور اپنے آپ کو مخاطب کرنے کے انداز میں بولی۔
میں آج کسی سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں
کیوں ؟ ہمیشہ کی طرح وہ حیران ہوئے بغیر اسے دیکھتے مسکریہ۔
کوئی مجھے پیار نہیں کرتا ۔ ۔ ۔ وہ منہ بنا کر بولی
ہاں ایک بلی جس سے ہر وقت کاٹے جونے کاڈر ہو اس سے کوئی پیار تھوڑی کرے گا۔ ۔ ۔ گوہر نے اپنا موبائل دیکھتے ہوئے کہا۔
کیا کہا آپ نے بلی ہوں میں ؟وہ ایک دم سے بیڈ سے اٹھ کر گوہر کی طرف بڑھی
گوہر اپنی جگہ سےاٹھ کر اپنی روم کے ساتھ ملحقہ لائیبریری کے دروازے پاس کھڑا ہوا دونو ہاتھ اٹھا کر بولا
اچھا اچھا سوری ۔ ۔ ۔ زی تو دنیا کی سب سے اچھی اور پیاری لڑکی ہے۔ ۔
ویسے اس میں تو کوئی شک نہیں ۔ ۔ ۔ ایک تو میری دوست کی سالگرہ ہے اور میرے پاس کچھ بھی اچھا نہیں پہننے کو ۔ ۔ ۔ ہمیشہ جلدبازی میں رہنے والی وہ پہلے کی بات فوراً بھول کر بولی۔
بس اتنی سی بات یہ مسئلہ تو ابھی حل ہو جائے گا۔ وہ اپنے والٹ سے کارڈ نکالنے لگا۔
اور میں گفٹ بھی لوں گی اپنی دوست کے ساتھ جاو گی ابھی بتاتی ہوں اسے بھی۔ ۔ ۔ کارڈ پکرتے بولیاور کمرے سے باہر چل دی۔
ارے پگلی رکو زرا۔ ۔ ۔ اسے یوں بھاگتا دیکھ گوہر نے پھر سے آواز لگائی۔
افو کیا ہے دیر ہو جائے گی مجھے ۔ ۔ ۔ وہ مڑ کے بولی۔
شوز کے لیسز تو باندھ لو گر جاو گی۔ ۔ ۔ گوہر بیٹھ کرہمیشہ کی طرح زی کے شو لیسز باندھتے ہوئے بولا۔ ۔
اب سیکھ لو ہر بار میں تو نہیں آوں گا نہ باندھنے ۔ ۔ ۔
ہممم جی نہیں آپ ہی باندھیں گے ہمیشہ کی طرح۔۔ ۔ ۔ وہ بال پیچھے کرتی بولی۔
پاگل لڑکی تمہاری شادی کر کے تمہیں تو گھر سے نکالنے کے چکر میں ہیں ماما اور تم مجھ سے شوز لیسز بندھواو گی کیسے پھر ۔ ۔ ۔
کوئی بات نہیں آپ اس کو ہی سیکھا دینا تو وہ باندھ دے گا۔ وہ لیسز بندھے کی باہر باگ گئی اور گوہر اسے جاتا دیکھتا رہ گیا
خاور یار جلدی آو۔ ۔ ۔ شرٹ کے بٹن بند کرتا وہ بار بار خاور کو آواز لگا رہا تھا مگر خاورکے کان میں جوں تک نہ رینگی۔
میراالارم کس نے بند کیا لیٹ ہوں اسی وجہ سے۔ ۔
خاور جو چلتا ہوا برے آرام سے کمرے میں داخل ہوا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔
آپ کے الارم سے پورا محلہ جاگ گیا سوائے آپ کے ۔ آپ تو پتا نہیں کونسا جنگل بیچ کے ۔ ۔ ۔
اچھا بس بس یہ بتا و بابا چلے گئے۔ ۔ ۔ وہ شوز پہنتے ہوئے بالا۔
ہاں گئے۔ ۔ ۔ آپ تھے کہا رات بھر ۔ ۔ تفتیشی انداز میں سوچتے خاور نے پوچھا۔
او ئے تو کیوں میڑیاں جڑاں وچ بیٹھا اے۔ ۔ ۔ اب کی بار شیری پنجابی میں بولا۔
اب جب تک آپ کی رکھوالی کرنے بھابی نہیں آتیں تب تک میں تو پانچھوں گا نا۔
اچھا اللہ خافظ ۔ ۔ ۔ شیری گاڑی کی جابی پکڑتا نکل گیا۔
گاڑی میں بیٹھ کر ٹائم دیکھا
اف دس بجنے والے ہیں تیز چلانی پڑے گی۔ ۔ ۔ بڑبڑاتے شیری نے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی اچانک یاد آیا دعا کو تو بتا دوں کے میں آ رہا ہو روزہ بھی چھوٹ گیا میرا تو کچھ بنا دے۔ ۔ ۔ جلدی۔سے سوچتا اپنے موبائل کوپکڑا جیسے ہی نظر واپس سامنے کی تو کوئی دوڑتا اس کے گاڑی کے آگے آیا جسے شیری نے دیکھ کر بریک پر پائوں رکھ کر گاڑی روکی ۔ گاڑی کیونکہ سپیڈ میں تھی تو مدمقابل سے زرا سے ٹکرائی اور وہ شائد زمیں بوس ہوا۔ شیری غصے میں گاڑی سے اترا
دیکھائی نہیں دیتا کیا۔ ۔ ۔
کوئی لڑکی تھی زمین سے اٹھی اپنی گری ہوئی کیپ آٹھائی اور ہائی ٹیل کیے بالوں والے سر پر رکھی
مجھے تو دیکھتا ہے لیکن لگتا ہے آپ اندھوں کے سر دارہیں ماصوم بچہ نظر نہیں آتا۔ ۔ وہ ایک قدم شیری کی طرف بڑھا کر اس کے سامنےآ کر بولی۔
کہاں ہے بچہ ۔ ۔ شیری نے حیرانی سے یہاں وہاں دیکھا۔
لڑکی جھکی گاڑی کے دائیں ٹائر کے پاس سے کتے کا بچہ اٹھا کر بولی
یہ ہے۔ ۔
اوہ سوری ۔ ۔ ۔ میں جلدی میں تھا دیکھ نہیں سکا۔وہ شرمندی ہوا۔
اور جو مجھے گرایہ اس کا سوری کون بولے گا۔ وہ اپنی لائنر۔زدہ آنکھیں کھول کر بولی ۔ ۔
امم اس کے لیے بھی سوری ۔ ۔ ۔ شیری کو لگا اس سے مزید بہث میں کیوں ٹائم کا ضیاع کیا جائے۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب معاف کیا اگلی بار ایسا کیا نا تو بس۔وہ انگلی اٹھو کر دھمکی کے انداز میں بولی۔
شیری واپس گاڑی میں بیٹھا اور زن سے آگے بڑھاتا دعا کے گھر کے باہر رکا۔ ۔ ڈور بیل دی تودانی نے دروازہ کھولا۔
ہائے دانی کیسے ہو؟ دانی کے گال کھینچتے بولا۔
بس میں ٹھیک ہوں۔ وہ شیری کی طرف مڑکے بولا۔
کیوں کیا ہوا؟ شیری نے ہوچھا۔
کوئیبات ہی نہیں کر راہا۔ دونوں چلتے ڈائینگ روم میں بیٹھ گئے
ہائے ناشتہ لاو؟ دیا نے آتے ہی پوچھا۔
ہاں بڑی بھوک لگی ہے ۔ ۔ ۔ اور دعا سے کل بات نہیں ہوئی اس سے کہنا مجھے کچھ بات کہنی ہے۔ ۔
اوکے ۔وہ کہتی دعو کے کمرے کی طرف گئی وہاں دعا کو نا پا کر وہ اوہر چھت پر گئی جہاں دعا سپارہ ہاتھ میں لیے پڑھ رہی تھی۔
دعا وہ شیری نے بولا ہے اسے بات کرنی ہے تم سے ۔ دیا نے انتظار کیے بغیر کہا۔
امی سے کہہ دو مل لیں میں تھوڑی دیر میں جاتی ہوں ۔۔ وہ تھوڑی دیر سپارے کی آئت ختم کر کےبولی۔
کبھی کبھی انسان کے حالات اسے اس موڑ پر کھڑا کر دیتے ہیں کہ وہ نہ خود کو الزام دے سکتا ہےنہ دوسروں کو۔
زرینہ بیگم سے مل کراس نے دلاسہ دیا کی سب ٹھیک ہو جائے گا۔
میں دعا سے مل سکتا ہوں؟بلآخر دعا کو کافی۔دیر نہ پا کر اس نے پوچھ لیا
وہ اوپر ہےہاں مل لو۔ ۔ ۔زرینہ بیگم نے کہا۔
شکریہ وہ سیڑیوں کی طرف آیا ۔ جلدی جلدی ایک وقت میں دو تین سیڑھیاں چڑھتا اوپر پہنچا۔ یہاں وہاں نظر دوڑائی۔
تھوڑا آگے بڑھا جہاں دعا ہاتھ میں سپارہ لیے پتا نہیں کن سوچوں کے پہاڑ کو سر کرنے میں مصروف تھی۔
دعا۔ ۔ ۔شیری نے آواز دی تو وہ ایک دم چونک کر۔سر اٹھا کر دیکھنے لگی
آنسو سے بھری سوجی ہوئی آنکھیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ وہ نا توسوئی نہ چپ ہوئی۔
دعا یہ کیا ہے۔۔ ۔میں بول کر گیا تھا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا پھر بھی۔ ۔ شیری کو اسے اس طرح دیکھ کر دکھ ہوا تھا۔
میں شرمندہ ہوں شیری ۔ دعا نے پھر سر چھکا لیا
تمہیں کس نے کہا شرمندہ ہونے کو۔ شیری ایک قدم آگے بڑھا کر بولا۔
تم شرمندگی اپنے پاس رکھو سمجھی اب ٹنشن کوبولو بائے اور ایک بہت عمدہ بات ہے۔ ۔ ۔ ایک دم کچھ یاد آنے ہر بولا
کیا؟ دعا نے سر سری سا پوچھا۔
پہلے آنسو صاف کرو پھر بتاو گا؟ وہ ایک دم دانی کے انداز میں بولا۔ تو دعا نے منہ صاف کیا اپنے دوبٹے سے۔
رضوان کی شادی ہے عید کے تیسرے دن تمہیں بھی بلایا ہے ود فیملی اور یہ رہا کارڈ۔ دعا کا کارڈ دعا کی طرف بڑھا کر بولا
میرے لیے جانا مشکل ہوگا آپ میری طرف سے مبارک دے دینا۔ ۔ ۔ تھوڑا سوچ کر بولی۔
ابھی بتاتا ہوں آنٹی کو ایسے ٹریٹ کیا جا رہا ہے ہمیں ۔ ۔ ۔ آنکھیں نکال کر بولا اور واپس سیڑیوں کی طرف بڑھ گیا۔
شیری پلیز ۔ ۔ ۔ وہ اسے روکنے پیچھے چل دی جانتی تھی اس کا کوئی بھروسہ نہیں کچھ بھی کر دے
*** *** *** *** ***
اسلام و علیکم سر سوری راستے میں ٹریفک تھا۔ شیری اندر داخل ہوا ۔
فون پر بات کرتے ہوئے قاسم صاحب نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
کافی دیر بات کرنے کے بعد جب وہ فارغ ہوئے تو مخاطب ہوئے۔
لڑکی کا موبائل اب بھی اس کے پاس ہو سکتا ہے اگر وہ زرا بھی دیا سے۔رابطہ کرنے کی کوشش کرے یا کوئی بھی میسج کرے تو بلا تاخیر آپ یہ بات مجھے پرسنلی کال کر کے بتائیں گے۔ قاسم صاحب نے اپنا وزٹنگ کارڈ شیری کو تھماتے ہوئے کہا۔
جی زرور۔ ۔ ۔ شیری نے کارڈ پکڑ کر دیکھا۔
آپ لوگ بس دعا کیجیے کے بچی مل جائے کیونکہ اگر وہ کسی بھی بری حالت میں ملی یا اس کی ڈیتھ ہوئی تو اس صورت میں وہ لوگ یقینً وہ دیا کو ہی ملزم سمجھیں گے۔اور ہمیں بھی کاروائی کرنی ہو گی ۔
دیا نے گھبرا کر شیری کی طرف دیکھا۔
آپ کو بتاتا چلو ںدیا ایجازت کے بغیر شہر سے باہر نہیں جا سکتی ۔ اپنی بات ختم کر کے انہوں نے رجسٹر کھولا اور ادیبہ کے گھر والوں کے سامنے دیا کی طرف سے دی گئی۔درخواست کو رکھا دونوں پارٹیز کے سائن اور بیانات رکارڈ کیے اور ہدائت کی کہ کوئی بھی ادیبہ کا بارے میں ملنے والی معلومات پہلے ایس ایچ او تک پہنچے گی۔
*** *** *** *** ***
اب کیا ہوگا ؟ اگر کسی نے ہمیں یہاں دیکھ لیا تو۔ ادیبہ نے ڈر سے کہا۔
پریشان کیوں ہوتی ہو میں ہوں آپ کے ساتھ۔اور ہم اس شہرسے اس قدردور ہیں کہ کوئی ہمیں ڈھونڈ نہیں سکتا سمجھی۔ اپنی داڑھی کے بالوں کوساتے ہوئے بولی
اف میرا جی بہت گھبرا رہا ہے۔ادیبہ اب بھی پریشان تھی۔
حبیب اللہ نے ہاتھ پکڑ کر کہا۔ اب۔ہیں کوئی الگ نہیں کر۔سکتا ۔
پتا نہیں امی لوگ کیسے ہوں گے؟ اس اپنے میکے والے یاد آئے۔
کونسے لوگ وہ۔لوگ جو آپ کو پوری زندگی زلیل کرتے آئے محبت کبھی نہیںکی ۔ محبت کی بھی تو صرف پیسوں سے۔ وہ زرا سخت لہجے میں بولے۔
آپ سہی کہتے ہیں مگر؟ وہ مزید کچھ کہنا چاہتی تھی۔
اگر مگر کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ اب بس میں اور آپ ۔ ۔ ہماری باتیں ہوں گی ۔ ۔ محبت بھری آنکھوں سے دیکھتے بولے
*** *** *** *** ***
اسلام و علیکم شہریار کیسے ہو آپ ؟ فون کان سے لگائے وہ کمرے میں ٹہل رہی تھی۔
وا علیکم اسلام ۔ آج تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟فون اٹھاتے ہی چوٹ کی۔ شیری کے چہرے پر تنزیہ مسکراہٹ تھی
میں الحمدللہ ٹھیک ہوں۔ ۔ آپ کیسے ہو؟ وہ بات کا اصل مطلب سمجھے بغیر بولی۔
شیری کا دل تو چاہا کہہ دے مجھے تو مل بھی نہیں رہی تھی اس دن آج کیسے فون کیا۔
میں ٹھیک بلکہ بہت حسین ۔ ۔ ۔ وہ دعا کی معصومیت سوچ کر ہی ہنس دیا۔
وہ میں نے ایک بزنس پلان کا کہا تھا نا۔وہ ہمارا آیڈیا پلین نائن نے سیلکٹ کر لیا ہے سکس منتھ کے لیے پورا فرنش آفس دیں گے بزنس اگر ورک کیا اور ہم نے زیادہ پرافٹ کمایا تو ہم اپنی جگہ بھی خرید سکتے ہیں۔ ۔ ۔
مبارک ہو دعا۔ ۔ ۔ وہ دل۔سے خوش ہوا تھا۔
آپ کو بھی۔ ۔
اچھا زرا مجھے پوری۔ڈیٹیل دے دو گی؟
ہممم او کے ۔ ۔ ۔ ہم سٹارٹ میں ایک انٹر میڈیٹ کا رول پلے کریں گے۔
وہ تمام بچے جو کمپوٹر کے آخری سال میں ہوتے
ہیں وہ بہت زبردست پراجیکٹ کرتے ہیں جو اکثر ہمارے ملک کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں مگر انہیں ایک پراپر راستہ نہیں ملتا کہ وہ کس پلیٹ فارم پر جا کر اپنا پراجیکٹ سیل کریں توان کا پرا جیکٹ ضائع ہو جاتا ہے۔ ہم ایسے لوگوں سے ملیں گے اور ان میں سے اچھے پراجیکٹ چوز کریں گے اور۔سافٹ وئر ہاوسز تک پہنچائیں گے اگر۔سافٹ وئر۔ہاوسز انہیں خریدے گا یا ان پراجیکٹ پر کام کرے گا تو ہم بچے کو کم اور۔سافٹ وئر ہاوسز دونوں کو چارج کریں گے ۔ ۔ ۔ بچوں کو کم فیس میں اچھا پلیٹ فارم ملے گا اور سافٹ۔وئر والوں کا تقریباً فری کا پراجکٹ۔ ۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنی کمپنی کو آن لائن اسوسیئٹ کر پراجکٹ بنائیں گے تا کہ نقصان نہ ہو۔اس سے جو ہم کماہیں گے اس سے ہم خود بھی بچوں کا کوئی بہترین پراجیکٹ خرید کر مارکیٹ میں ڈال۔دیں گے تا کہ ہمارا بھی کمپنی کا نام سافٹ وئر لسٹ میں آئے۔
اچھا میرے پاس کچھ سیونگز ہیں ان کے پیمپفلٹس بنوانیں گے تا کی کالجزاور یونیورسٹیز میں سٹوڈنٹس کو بھی پتا لگے کمپنی کا۔وہ جوش میں۔بتانے لگی
بہت عرصے کے بعد اس کی وہی مسکرتی معصوم سی آواز آئی۔
اچھا دعا تو پھر رضوان نے بھی کہا تھا کہ اگر کوئی ہلپ چاہیے تو بتا دینا۔ شیری یاد آنے پر جلدی سے بولا۔
ویسے بھی ایک دو اور لوگ تو ہائر کرنے ہی ہوں گے تو آپ پوچھ لینا اگر وہ کام کرنا چاہیں ہمارے ساتھ۔ وہ وال کلاک پر ٹائم دیکھتے بولی ۔ ۔ ۔ عصر کا وقت ہو نے والا تھا
*** *** *** *** ***
گوہر بھائی ۔ ۔ ۔ زی بھاگتی ہوئی گو ہر کے کمرے میں آئی۔
مگر گوہر کمرے میں نظر نہیں آیا۔
گوہر۔ ۔ ۔ ۔ بھا ۔۔۔ ۔ ئ۔ ۔ گوہر لائیبریری اور اپنے کمرے کے ملحقہ دروازے سے ایک کتاب آٹھائے اندرآیا۔
اف بھائی ایک تو آپ کو ٹھوڈنا بھی نا ایک محاز سر کرنے کے برابر ہے ۔پتا نہیں ان کا کیا ہوگا ۔ ۔ ۔ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
ان کا کن کا؟ ایک تو تم ادھوری باتیں کرتی ہوں ۔ کتاب اپنے سٹڈی ٹیبل پر رکھ کر زی کی طرف مڑا۔
وہی جو بچاری جس سے آپ کی شادی کرے گی ۔ ۔ گھر کے کام توکر نہیں سکے گی کیوںکہ وہ اپنی انرجی آپ کو ڈھونڈنے میں ہی لگا دے گی۔ وہ اپنی ہی بات پر خود ہی ہنس دی۔
اچھا اچھا میرے نام کا اعلان کیوں کر رہی تھی؟ بات کو بدلنانے میں ماہر تو گوہر ہمیشہ سے ہی تھا۔
وہ آپ کاکارڈ ۔ ۔ ۔ بہت مزا آیا برتھ ڈے پارٹی میں۔ ۔ ۔ وہ کارڈ پکڑا کر مزے سے بولی۔
ہممم ۔ ۔ ۔ گوہر نے کارڈ پکڑ کر والٹ میں ڈالا۔
آپ کو پتا ہے آج ایک پاگل ایک پپی کو گاڑی کے نیچے دینے لگا تھا۔ لیکن میں بچا لیا ۔ ۔ اور اسے خوب چھاڑا بھی۔ ۔ ۔ بیڈ پر بیٹھ کر دونوں پاؤں ہلانے لگی۔
پاؤں نہیں ہلاتے غیر اخلاقی حرکت کے زمرے میں آتا ہے یہ ۔ ۔ گوہر اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔
اوکے۔ وہ مزے سے بولی
تو اس نے کچھ نے کہا تمہیں ؟ وہ حیران ہوا
نہیں اس کی غلطی تھی۔ایک تو مجھے بھی گاڑی سے ہٹ کر دیا پپی بچانے گئی ۔ ۔ ۔ وہ یاد کر کے منہ بنانے لگی۔
اور اگر وہ گاڑی تم پر چڑھا دیتا تو۔ ۔ ۔ گوہر نے ممکنات دہرائیں۔
نہیں نہیں سوری بولا اس نے ۔ ۔ ۔
اور اگر تمہارے کچھ کہنے پر تمہیں تھپر لگا دیتا پھر؟
بھائی؟وہ گال پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
کچھ باتیں کہنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور وقت بھی۔ دنیا میں کون کیسا ہے آپ کیسے اس کا پتا لگا سکتے ہیں؟ وہ سمبھانے والے انداز میں بولا
کیا مطلب؟۔۔ ۔وہ سمجھی نہیں تھی ۔ ۔
کچھ گھر کے چھوٹے ۔ چھوٹے ہی رہتے ہیں انہیں بڑے ہونے میں وقت کے ساتھ تجربہ لگتا ہے۔
زی پتا نہیں کون کس موڈ میں گھر سے نکلا ہو۔ ۔ آپ کا غصہ کرنا اس وقت آپ کو مصیبت میں بھی ڈال سکتا ہے۔ ۔ وہ قتل کرنے کے موڈمیں ہو ۔ ۔ آپ کے غصہ کرنے پر آپ کو قتل کردے پھر؟
وہ چہرے پر پریشانی لا کر بعلا۔
کوئی ایسا کیوں کرے گا؟ وہ اپنے دماغ میںآنے ولے ڈر کو رفع دفع کر کے بولی
کسی کا کیا بھروسہ۔
ہممم لیکن اگر کوئی آپ پر کمنٹ پاس کرے تب توبولنا چاہیے نا؟
Hmmm in the middle of Street if someone say something that you don't like just ignore. If you reply he will consider "The message has been received" now my turn.
وہ سہی بات کی طرف لے آیا۔
کچھ باتیں ڈھکے چھپے الفاظ میں کی جائیں تو ہی ٹھیک رہتیں ہیں۔ ورنہ رشتوں کا پرداہ نہیں رہتا
Yeah right . . .
یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ۔ سر پر انگلی رکھے سوچنے لگی۔
فیملی میں کوئی کچھ کہے جو برا لگےوہ اسی وقت بولو مگر سڑک پر نہیں ۔ اسے لگا کہ وہ جو سمجھانا چاہ رہا تھا وہ سمجھ گئی۔
*** *** *** *** ***
عید کب گزری پتا ہی نہیں چلا نہ کسی نے تیاری کی نا کہیں آئے گئے۔ مگر آج رضوان کی شادی کے لیے شیری کے بہت منانے پر زرینہ بیگم نے ہامی بھر لی
دیا اتنی تیاری ؟ ہم آپی کے دوست کی۔شادی میں جا رہے ہیں آپ کی نہیں۔ ۔ دانی نے بلانے کی غرض سے دیا کے کمرے کا رخ کیا۔
کیا زیادہ لگ گیا میک اپ؟ وہ خود کو آئینے میں دیکھتے بولی۔
ہاں نا بالکل باندری والی گال نکال لیے ہیں ۔ ۔ دانی کہتے ہی ہنستا ہواکمرے سے بھاگا۔
وہ بھی دانی کو پکڑنے اس کے پیچھے بھاگی مگر دعا سے ٹکرائی۔
دیا بچے دیہان سے کیوں نہیں چلتی ؟ آہستہ سے کہتی وہ آگے چل دی ۔ ۔ ۔
پہلی بار دیا کو لگا اس نے کیا کر دیا۔ ۔ ۔ وہ بہن جو اس کی ہمیشہ سے ہر ضد پودری کرنے میں اہم کردار ادا کرتی آئی۔ وہ جس نے اس گھر کا خرچ چلانے کے لیے کبھی گھر میں ٹیوشنز دیں تو کبھی ہینڈ میڈ کارڈز بنائے اب بھی وہ کبھی جاب کرتی ہے تو کبھی ساری ساری رات جاگ کر آن لائن پراجکٹ بنا تی ہے۔ مگر کبھی زمانے کی تھکن اس کے چہرے پر عیاں نہیں ہوئی تھی یا شائد اس نے کبھی اپنے بہن کو دیھان سے دیکھا ہی نہیں تھا۔ اسے لگا جیسے اس نے ایک شخص کو دیکھا جو ابھی ابھی کسی تکلیف سے گزر رہا ہوں ۔ آج پہلی بار اسے اپنی بہن پر فخر اور اس کی سوجی ہوئی آنکھوں والا چہرہ دیکھ کر تکلیف ہوئی تھی۔
وہ واپس دعا کی طرف آئی اور پکارا
دعا؟
ہاں۔ ۔ اس نے مڑے بغیر کہا
وہ ۔ ۔ ۔ تم ٹھیک ہوں ۔ ۔ ۔ دیا کو۔سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔
دعا نے مڑ کر دیکھا چلتے ہوئے دیا کے پاس آئی۔ ۔ ۔ کیا ہوا کچھ چاہیے کیا؟
دیا کو حیرت ہوئی پھر اپنے گزرے ہوئے ماہ و سال کو زہن میں دھرایا وہ واقعی ہی کبھی اس کے پاس بغیر وجہ کے نہیں ۔ ۔ صرف اپنی ہی ضرورتوں کے مالا لے کر آتی تھی۔
نہیں وہ تم تیار نہیں ہوئی نا اس لیے پوچھا۔؟
رشتوں میں محبت اس قدر ہوتی ہے کی بن کہے تکلیف سمجھ لیتے ہیں مگر آنا بھی اتنی ہی ہوتی ہے منہ سے محبت کا اقرار جرم لگتا ہے۔
نہیں میں تیار ہوں ہال میں ہےفنگشن تو میں نکاب ہی رکھوں گی ۔ وہ واپس اپناسٹالر پکڑے نکاب میں مصروف ہو گئی۔
*** *** *** *** ***
آپ کیوں ملنا چا ہتیں تھیں مجھ سے؟ گوہر نے عیشل کوبغیر کوئی سلام دعا سیدھا ہی سوال کیا۔
وہ جو اپنے دھیان لان کے پھول دیکھ رہی تھی چونک کر پلٹی۔
تصویروں میں مختلف جگہوں پر مسکراتے چہرے پر اب تلخی کی جھلک تھی۔ عیشل چلتی ہوئی اس کے پاس آئی ۔ ہاتھ آگے بڑھایا مگر وہ ایک ودم پیچھے ہٹ گیا۔
کیا کہنا چاہتی تھیں آپ مجھ سے؟ اب کی بار تنزیہ لہجے سے بولا۔
بیٹا ۔ ۔ ۔ میرے پاس۔ ۔ ۔ کہنے کو تو ۔ ۔ کچھ بھی نہیں نہ اپنی صفائی میں اور نہ اس رشتے کے لیے۔ میں تو بس اپنے بیٹے کو ملنا چاہتی ہوں بس اسی سے ملنے آتی ہوں۔ عیشل بے تاثر چہرہ لیے اس کے سامنے کھڑی ہوئی۔
اتنی محبت تھی تو چھوڑا کیوں مجھے اور بابا کو؟ گوہر نے اپنے بن دیکھے آنسو چھپانے کے لیے چہرے کا رخ موڑا۔
بیٹا کچھ سوالوں کے جوابات پوشیدہ رہیں تو ہی بہتر ہے ۔ اگر یہ کھل جائیں تو کوئی رشتہ ایک دوسرے کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ماضی زہن میں گھومنے لگا۔
کبھی کبھی انسان وہ حقیقت خو دبھی جان لیتا ہے تب رشتے اپنا مان بھی کھو دیتے ہیں۔وہ مڑے بغیر بولا۔
تم سچ نہیں جانتے۔ وی جانتی تھی غلط فہمی کہا سے آئی تھی مگر وہ بھی مجبور تھیں۔
میں جاننا بھی نہیں چاہتا ۔ درشتگی سے کہتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا تیزی سے نکل گیا۔
عیشل جانتی تھی وہ اب اس کے پیچھے گئی توشائد وہ کبھی بھی اس سے نہیں ملے گا نہ بات کرے گا۔
اولاد سب سے بڑے آزمائش ہے اور یہ آزمائش اس کی قسمت میں لکھ دی گئی تھی۔