بہترین اور خوبصورت بنگلا جسے دیکھ کر ہر لڑکی کا دل چاہے کہ کاش یہ گھر اس کا ہو یا اس جیسا گھر اسے مل جائے۔گھر کے اندر آو تو اس کھر کی ایک ایک چمکتی خوبصورت چیز اس کے قیمتی ہونے کا پتا دیتی تھی۔
بلیک تھری پیس پہنے وہ نوجوان بہت ہی شاندار اور باروب لگتا اندر آیا اپنے تمام ملازمین کو چھٹی دے کر کمرے سے جانے کا کہا اور اپنے گھر کے کپڑے اٹھاتے واش روم میں گھس گیا۔
چند ساعتوں کے گزرنے کے بعد وہ شخص واپس فریش ہو کر آئینے کے سامنے کھڑا ہوا۔
یہ بے حد گمبھیر مسکراہٹ چہرے پر مزید گہری ہوئی ۔
بالوں میں برش کر کے وہ اپنی الماری کھولنے لگا الماری سے کچھ پیپرز نکال کر کمرے سے باہر نکلااور سیڑھیوں کے زریعےایک اندھیری جگہ پر نکلا
شائد کوئی گھر کا تہ خانہ معلوم ہوتا تھا۔
آتے ہی ایک بلب روشن کیا
تو سامنے زمیں پر کوئی لاغر سی لڑکی پڑی تھی جس نے بلب کے جلتے ہی آنکھوں پرزرو سے میچ کر آنکھوں پر انگلیا رکھیں جیسے کافی عرصہ اے اس اندیرے میں پڑی ہو اورروشنی ہوتے ہی اس کی آنکھیں چندھیاں گئی ہوں
لڑکا اگے بڑھا اور اسے بالو ں سے پکڑ کے بولا
تو جانے من دماغ درست ہوا ؟ چلوایک بار پھر پوچھتا ہوں ان پیپرز پر سائن کرواور اپنی جان بچا لو۔
گھٹیا انسان میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی اتنا گرے ہوئے ہومیں ان پیپرز پر سائین نہیں کروں گی۔ کمزور لاغر سی لڑکی کے منہ سے اتنا نکلا۔
تم تو کیا تمہارا باپ بھی کرےگا
دیا بیٹا دروازہ کھولوں ۔ دروازے کی بیل ہونے پر زرینہ بیگم نے آواز لگائی
دیا فون چھوڑ کے اٹھی اور دروازے پر پوچھا کون ؟
میرا نام شہریار ہے میں دعا کا کلاس فیلوہوں ؟ شہری نے اپنا تعارف کروایا۔
دیا نے راستہ دیا تو دونوں باپ بیٹا اندر آئے دیا نے انہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھایا اوردعا کو بلانے کا کہہ کر اندر آ گئی۔
دعا دیکھو جا کرتمہارے مہمان ہیں۔
دعا جو کمرے میں لیپ ٹاپ پر بیٹھی کام میں مصروف تھی جلدی سے اٹھ کر ڈرائنگ روم میں آئی۔
اسلام و علیکم ۔ ۔ ۔ دعا نے ڈرائنگ روم میں آتےہی سلام کیااور دنگ رہ گئی اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ اس طرح گھر پہنچ جائے گا۔
واعلیکم اسلام یہ میرے فادر ہیں ۔ شہری نے کھڑے ہو کر جواب دیا۔
اسلام علیکم کیسے ہیں آپ؟ دعا نے ان کی طرف مڑ کر جواب دیا۔
اللہ کا شکر ہے بیٹا شہری نے بتایا آپ کی مدر کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔
جی لیکن الحمدللہ اب ٹھیک ہیں ۔ آپ لوگ بیٹھیں میں ابھی آتی ہوں۔ دعا نے کہا اور مڑی
میں بھی آتا ہوں۔ شہری بھی اس کے ساتھ چل دیا باہر اتے ہی دعا شہری کی طرف مڑی۔
آنے سے پہلے بتا تودیتے۔ ۔
رمضان نا ہوتا تو ضرور بتاتا اور بریانی کی فرمائش بھی کر دیتا۔
اسلام و علیکم آنٹی۔ زرینہ بیگم کو آتے دیکھ کر اس نے جلدی سے سلام چھاڑا۔
وہ جو پریشان کھڑی تھی
اممی یہ شہریار بتایا تھا نا کلاس میں پڑھتے ہیں میری۔ دعا نے انہیں خاموش دیکھ کر کہا۔
واعلیکم سلام جیتے رہوبیٹا ۔ زرینہ بیگم نےپاس آکر اس کے کندھے پر پیار دیا۔
آئیے اپنے بابا سے ملواتا ہوں آپ کو۔ ۔ ارے دعا تم کیوں اسے کھڑی ہوآ جاؤاسے پنا ہی گھر سمجھو۔ شہری نے شرارت بھرے انداز میں کہا۔
زرہنہ بیگم کو ڈرائنگ روم کی طرف جاتے دیکھ
وہ مڑا ویسے تم نکاب کے بغیر ماشاللہ بڑی کیوٹ ہو ۔ اسے خاموش دیکھ کر پھر بولا غصہ ہو؟
نہیں۔ یک لفظی جواب آیا۔
ہاہاہا ۔اگر میں بتا دیتا تو تم کیا کہتی ؟
منا کرتی آنے سے ۔ اس نے منہ بھلا کر کہا
یار بڑی بدیدہو ۔ میں تو بابا کویہ کہہ کر لایاہوں کہ تم نے افتاری پر بلایا ہے ۔ شہری نے دعا کے سر پر ایک اور بم پھوڑتے ہوئے کہا۔
کیا ؟اف شہری حد ہی کر دی ہے آپ نےتو۔ ۔ ۔
اچھا بعد میں کوس لینا یہ نا ہو کہ آنٹی کہہ دیں کہ کوئی دعوت نہیں دی تو بابا گھر جا کے میری جوتوں سے خاطر کر دیں۔ شہری نے مسکین سا منہ بنا کر کہا۔
ہو تو اسی قابل ۔
ہی ہی ہی چلو نا۔
ڈرائنگ روم میں آتے ہی دعا نے دیکھا حمدانی اور زرینہ بیگم اپنی باتو ں مصروف نظر آئے۔
دعا تمہارے گھر میں کوئی گیم ویم کھیلنے کا سامان نہیں ہے کیا؟ افتاری میں تو دو گھنٹے باقی ہیں ۔ ۔ ۔
میں دانی ہوں میرے پاس کیرم بورڈ ہے لاوں ؟ دانی نے جلدی سے کہا۔
چلوشاباش دعا افتاری بناو مجھے کھیلنے کے لیے پارٹنر مل گیا۔
دعا سر ہلاتی کچن میں آئی اوردیا کوآواز لگائی مل کے افتاری میں کچھ اور بھی ایڈ کر لیتے ہیں۔
افتاری کے بعد حمدانی صاحب نے دیا کوکچھ اس کے بزنس کے لیے ٹیپس دیں اور ساتھ ہی کہا اوس کو بھی سمجھاو کچھ کر لے
جی حمدانی انکل مجھے اس میں ایک ٹیم چاہے تو میں شہریار سے پوچھنا تھا کہ وہ میرے ساتھ پارٹنر شپ کرے گے۔ دعا نے شیری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ جو بریانی کھانے میں مصروف تھا ایک دم گڑبڑا کے بولا۔
میں آ ضضرور کیوں نہیں ۔
اللہ تم دونوں کے کام میں برکت ڈالے ۔زرینہ بیگم نے اسے دعا دی۔
اوئے بات سنو ۔ شہری نے دعا کو آہتی۔سے آواز لگائی دعا نے اس کی۔طرف دیکھا۔
میں ایک شرط پے جوئن کروں گا۔
کیا
تم اس بدتمیز دیو کوایڈ نہیں کرو گی
نہیں کرتی ۔ اب خوش ۔ ۔ ۔ دعا کا کوئی ارادہ بھی نہ تھا اسےاپنے آس پاس دیکھنے کا بھی
انہوں نے نام تو سہی دیا ہے ہی دیو ۔دل میں سوچتےوہ مسکائی۔
دعا سب تیاری مکمل ہے نا ؟ رضوان نے کلاس روم میں آتے ہی پوچھا
پرینٹ تو گوہر نے کروانا تھا لیکن ابھی تک وہ آئے ہیں۔ دعا نے پریشانی سے سر پر ہاتھ رکھا۔
بدتمیز دیو کو میں نے پارکنگ میں دیکھا ہے آرہا ہوگا۔ شہری نے آتے ہی بتایا۔
او کے آئی ہوپ کہ سب ٹھیک رہے۔ دعا نے کہا جس کےساتھ ہی دروازے کی طرف دیکھا جہاں دیو حسب عادت بلیک جینز میں سر پر بلیک کیپ پہنے داخل ہوا
اسلام و علیکم ۔ ۔ ۔ یہ جلدی سے چپکا لیں میں آتا ہوں ۔ وہ جلدی سے پوسٹر پکڑا کر نکل گیا۔
وڈا آیا حکم چلا کے یہ جا وہ جا۔ شہری نے منہ چڑایا۔
رضوان اور شہری نے مل کے پوسٹردیوار پر چسپہ کیا۔
تو امید کرتا ہیں رات میں نے آپ سب کو ایک میل کی تھی وہ پڑھ لی ہوگی پریزیٹیشن میں دوں گا لیکن جو بھی سوال کیا جائے گا وہ جسے بھی آتا ہو وہ بتا دے خاموش رہنے یا سوچنے سے ہمارا ایمپریشن خراب پڑے گا۔ گوہر نے سب کو حدائیت دی۔
سب اپنا اپنا پورشن ریڈ کرنے لگے جب شہری نے تنگ آکر کہایار اب سر آ کیوں نہیں رہے۔ میں دیکھ کر آتا ہوں
کوئہ دس منٹ کے انتظار کے بعد شہری اندر داخل ہوا ماتھے پرہاتھ راکھ کے بولا
سر خود باہر کھڑے ہیں اور پی یو اور یو ایم ٹی کےسر ایویلوئیشن لے رہے ہیں۔
اور ساتھ والوں کی توآخیر ہوگئی ہے بے عزتی ایک سر نے تو پرنٹنگ مٹیریل پر ٹکا کے کی کے ان کی انسلٹ۔ اب نیکسٹ ہماری ہے۔چلو مل کے اناللہ پڑھ لو ۔
فضول میں بکواس نا کرو۔ رضوان نے اس کے کندھے پر ایک تھپکی دی۔
دو روبدار حضرات کمرے میں داخل ہوئے گوہر نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور سب کا تعارف کرواکر اپنے پوسٹر کی طرف اشارہ کیا
یہ ہمارا ٹاپک ہے۔ مختلف ٹاپک کو مکس کر کے بنایا گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ گوہر نے کوئی پندرہ منٹ اپنے پوسٹر کو سمجھایا وہ ابھی اور بولنے کا ارادہ رکھتا تھا کہ ایک صاحب نے اسے روکا اہاتھ اٹھا کر
نوجوان بولتے تو اچھا ہو تماری سب باتیں ایک طرف مجھے بس اتنا بتا دو یہ چوز ہی کیوں کیا پہلے ہی اس پر کام ہو رہا ہے ۔
کام تو ہر جگہ ہر ٹاپک پر ہورہا ہے لوگوں نے اس پر کام کیا لیکن کسی نے یہ خیال نہیں کیا کی اس کام کو مزید بہتر بنا کر اسے شارٹ کیسے کیا جائے ہمارا فوکس اس کی بہتری اسے مزید کم پرائز ما بنانا ہے۔ دعا نے آگے بڑھ کر جواب دیا
ہمم سر نے مہزوز ہوتے ہوئے کہا۔
آپ کا بہتر بنانے سے کیا مراد ہے۔
پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے بہت سے لوگ دیلھ نہیں سکتے گاڑی نہیں خرید سکتے جو بلائنڈ لوگوں کو لیے بنی ہے اس آپریٹنگ سسٹم کو ہم اگر ایک گلاسس میں کچھ ایسے ڈیزان کریں کہ گلاسس انسان جو بھی دیکھنا چاہےاسے سکین کر کے پڑھے اور بلینڈ پرسن کو روبوٹک وائس میں سمجھا دے تو اس طرح لائنڈ پرسن بہتآرام سے بغیر کسی سہارے کے کہیں بھی آجاسکتا ہے اور نیوز پیپر تک پڑھ سکتا ہے۔۔ گوہر نےدعا کی بات کو کمپلیٹ کیا۔
ہے تو بد تمیز دیو لیکن ماننا پڑے گا بولتا اچھا ہے۔ ۔ ۔ شہری نے رضوان کے کان میں سرگوشی کی۔ ۔ ۔
شکریہ کہتےدونوں ایگزیمینر باہر چلے گئے تو سر عمیرآگئے۔
As expected you all perform very well i am proud of you .
تھینک یو سر۔ شہری نے کہا۔
سر عمیر مسکرا کر چلے گئے۔
پارٹی بنتی ہے اتنی محنت کے بعد۔ شہری نے سر کے نکلتے ہی کہا۔
ہاں ون ڈش پارٹی یا افتاری کہیں جا کر ۔ رضوان نے اپنا مشورہ دیا۔
نہیں میں نہیں آسکوں گی اب کل آخری کلاس ہے اس کے بعد پھر آنا مشکل ہوگا۔ دعا نے مجبوراً کہا۔
عید کے بعد کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ رضوان نے ایک اور مشورہ دیا۔
گوہر ۔ ۔ ۔ مہ جبیں اندر داخل ہوئی
گوہر نے مڑکر دیکھا
ممی پاپا آج گھر نہیں ہیں تو مجھے اکیلے ڈر لگے گا مجھے ساتھ لے جانا آنٹی کہہ رہی تھی ادھر ہی آجاو۔ ۔ ۔ مہ جبیں نے کہا
اوکے چلو ۔ ۔ ۔
واپس سب کی طرف مڑا
It was a great experience to work with a of you ßye.
مسکرا کر واپس مہ جبیں کے پیچھے چل پڑا
یہ پٹاخہ چپکلی اسی کی کچھ لگ سکتی تھی۔
رضوان نے دعا اور شہری کو لوبی میں دیکھا تو وہیں چلا آیا
بچوں ایک گڈ نیوز ہے۔
کیا ہمارے مارکس سب سے زیادہ ہیں ؟شہری نے سوچنے کے سے انداز میں کہا۔
نہیں میں جلد شادی کرنے والا ہوں ۔ ۔ ۔ رضوان نے خوش ہو کر بتایا۔
مبارک ہو آپ کو ۔ ۔ ۔ دعا نے پہل کی
پارٹی ۔ ۔ ۔ شہری نے جلدی حکم صاردر کیا۔
اوئے بدید پہلے رشتہ تو ہونے دو ۔ ۔ ۔
کلاس نے ریسٹ واچ دیکھتے کہا
کلاس میں آتے ہی شہری نے کہا بھابی کی پکچر؟
مجھے تو مل جا پہلے پھر دیکھاوں گا نا
آج سر نے پوسٹر سیشن کے مارکس بتانے تھے۔ اور سر دس منٹ لیٹ ہو گئے ہیں ۔ دعا نے ٹائم دیکھتے کہا۔
اسلام علیکم ۔ ۔ ۔ سر عمیر نے اندرداخل ہوتے ہی کہا۔
جی تو کیسا لگا پوسٹر سیشن ؟
سرتب بھی جان سولی پر اٹکی تھی اور اب بھی مارسک بتا دیں نا سر ۔ ۔ ۔ کلاس میں سے کسی نے کہا
آپ پہلے تو اپنے لیے کلیپنگ کریں سب نے بہت اچھا کام کیا آپ کی بہت تعاریف کی گئی ہے اوٹ سائڈ پروفیسرز کی جانب سے سب کے ہی مارکس اچھے ہیں مگر سب سے نائن پوائنٹ فائو ہائیسٹ مارکس ہیں جو کہ دعا۔گوہر۔رضوان اور شہریار کے ہیں مبارک ہو آپ چاروں کو مجھے آپ لوگوں سے یہی امید تھی۔
میں امید کرتا ہوں کی آگے آپ سب مزید محنت کریں گے اور فائنلز میں اچھا سکور کریں گے ۔
اتنے میں کوئی سر عمر سےایجازت لے کر اندر داخل ہوا۔
اسلام وعلیکم سٹوڈنٹس آپ سب کے لیے ایک آناونسمنٹ ہے نیکسٹ ویک آپ کی لیے ویلکم پارٹی ارینج کی گئی ہےجس کا تھیم ریڈکارپیٹ ہے۔ اور باقی ٹیمنگ اور ڈیٹیلنگ آپ کو پورٹل پر مل جائے گی۔
اس کے ساتھ ہی سب اپنی اپنی نشستوں سے اٹھنے لگے اور باہر کو لپکے
آپ زرا گھر چلیں ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ایک روبدار آواز پر زرینہ بہگم جو سبزی خرید رہی تھی مڑی تو ان کیسانس اوپر کی اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
جی؟ آپ ۔ ۔ ۔
چلیں بی بی گھر جا کر بات کرتے ہیں۔ پولیس کی بھیس میں ادھیڑعمر پولیس والے نے کہا۔
گھر کے اندر آتے ہی انہوں نے زرینہ بیگم کو مخاطب کیا
میرا نام قاسم ہے میں تھانہ گلبرگ کا ایس ایچ او ہوں آپ کی بیٹی دیا عرف ماہی کہاں ہے؟
جی وہ تواپنے کالج گئی ہوئی ہے۔ زرینہ بیگم نے پریشانی سے کہا آپ بتائیں ہوا کیا ہے ؟ زرینہ بیگم کے جملے کے ساتھ ہی وہ فون لے کر جانے والی خواتین بھی آگئی۔
یہ تو آپ کی بیٹی آپ کو بتائے گی ہوا کیا ہے۔ ایس ایچ او نے کہا۔
دیکھیں ان خواتین نے آپ کی بیٹی کے خلاف ایک پرچہ کٹوایا ہے اور الزام ہے اپ کی بیٹی پر اس نے ان کو بیٹی کواغواہ کیا ہے۔
دیکھیں وہ تو معصوم سی بچی ہے اس نہیں کچھ نہیں کیا۔ زرینہ بیگم نے اپنی پریشانی بلند آوازمیں کہا۔
او بی بی اپنی آواز نیچے رکھو اور یہ ہمارا کام ہے ہم خوددیکھ لیں گے اس نے لچھ کہا ہےکہ نہیں ۔ ۔ ۔ اپنے بیٹی کو لے کےآؤ بیان لینا ہے ۔
م۔ ۔مم ۔ ۔ میں لے کے آتی ہوں ۔ زرینہ بیگم نے خوف سے کہا۔
اممی یہ کون ہیں ؟ دانی نےڈرائنگ روم میں آتے ہی کہا۔
یہ کون ہے ؟ ایس ایچ او نے دانی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
ج۔جی یہ میرا بیٹا ہے ۔
اسے لے کے جا رہے ہیں اپنی بیٹی لے آو اور اسے لے جاو۔ ایس ایچ او نے آگے بڑھ کر دانی کو پکڑا
دیکھیں اسے چھوڑ دیں میں آپ کےساتھ چلتی ہوں ۔ ۔ ۔ زرینہ بیگم نے دانی کی خوف سے پھٹی آنکھیں دیکھ کر کہا۔
بی بی جو کہا ہے وہ کروہمیں ہمارا کام نہ سمجھاو ۔دیکھو اگر تمہاری بچی نے کچھ نہیں کیا تو اسے کچھ بھی نہیں ہوگا۔
اور بےفکر رہوں تمہارا بیٹا سہی سلامت جائے گا اور سہی سلامت واپس آئے گا
اسلام علیکم امی ۔ دعا نے اندر آتے ہی ماں کودیکھا جو پریشان حال کمرے میں بیٹی رو رہی تھیں۔
امی کیا ہوا آپ روکیوں رہی ہیں ۔ ۔ انہیں مزید انسو بہاتے دیکھ کر دعا کا دل پھٹنے لگا
امی پلیز بتائیں کیا ہواہے ۔دعا نےآوازلگائی دانی امی کے لیےپانی لاو۔
وہ نہیں آئےگا۔ دعا کا دانی کوآواز لگانا ان سے برداشت نہ ہوا وہ مزید پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
امی خدا کے لیے مجھے بتائیں کیا ہوا ہے کیوں نہیں آئے گادانی۔ دعا ماں کو روتےدیکھ کر خود بھی رونے لگی۔
وہ ایک پولیس والا آیا تھا کہتا ہے دیا نے اغواہ کیا ہے ایک لڑکی کو اور اس کے گھر والوں نہیں ایف آئی آر کٹوائی دیا کے خلاف دیا گھر نہیں تھی تو وہ دانی کو لے گئے۔ زرینہ بیگم نے دعا کو روتے ہوئے بتایا۔
دعا کو کچھ سمجھ نا آیا وہ یوں خاموش ہوئی جیسے کوئی صدمہ میں گم سم ہوجائے تو سب سوچنے سمجھنے کی طاقت کھو بیٹھتا ہے۔
چندساعتیں یونہی گزر گئی وہ جو شاک کے عالم میں بیٹھی تھی ماں کے رونے کی سسکی سے وہ تھوڑا ہوش میں آ ئی
خود کو کمپوز کرتے ہوئے بولی
امی اپ نے لے جانے کیوں دیا مجھے کال کرتیں نا۔ ۔ ۔
کیسے کرتی انہوں نے کچھ آنے جانے ہی نہیں دیا۔اتنے میں ڈور بیل بجی۔
دیا۔ ہوگی میں دیکھتی ہوں دعا نے دروازہ کھولااور اسے ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کا کہہ کر اس کے لیے پانی لائی
پانی۔ تھوڑی دیر اسے پانی پیتے دیکھتی رہی جو فون کو بار بار گھور رہی تھی شائد کوئی کال تھی جیسے وہ بار بار اگنور کر رہی تھی ۔ پانی پی کر واپس رکھتے وہ اٹھ بیٹھی شائد اپنے کمرے میں جانے کے موڈ میں تھی۔اسے اٹھتے دیکھ کر دعابولی
بیٹھو مجھے بات کرنی ہے۔
دیا نے شائد اس کی بات نہیں سنی وہ فون پر آنے۔والی کالز کو مسلسل اگنور کر رہی تھی
کون ہے؟دعا نے بلا آخر پوچھنا ہی سہی سمجھا۔
کوئی نہیں ۔ ۔ وہ کہہ کر کھڑی ہوئی
یہ کیوں بتائے گی اس نے توسارے جہاں میں ہمیں زلیل کر کے دم لینا ہے ۔ مت پوچھو اس سے کچھ اسے حوالے کرو اس ایس ایچ او کے اور دانی کو لے آو ۔ کہیں کا نہیں چھوڑا ہمیں اس لڑکی نے۔ زرینہ بیگم ڈرائنگ روم میں آتے ہی بولی اور پھر سے رونے لگیں۔
امی پلیز آپ ارام سے بیٹھیں اللہ سب ٹھیک کرے گا میں جانتی ہوں میری بہن ہے وہ کچھ غلط نہیں کیا اس نے۔ دیا کا رویہ جیسا بھی تھا آخر وہ دعا کی بہن تھی چھوٹی اسے ہی ظرف دیکھانا تھا وہ بڑی تھی اسکےاندر ماں اور بہن دونوں کا دل تھا
دیا کو وہ ہاتھ پکڑے اپنے کمرے میں لے آئی
اسے کمرے میں بیٹھا کر خود کھڑے کھڑے اسے آج ہونے والا۔واقعہ بتایا۔
میں نے کچھ نہیں کیا ۔ وہ رندھائی ہوئی آواز میں بولی
میں جانتی ہوں ۔ دیا مجھے نہیں معلوم تم میرے بارے میں کیا سوچتی ہوں پھر تم میری بہن ہو میں کبھی بھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی ۔ ۔ ۔ جیسے میں یہ جانتی ہوں کہ تم نے کچھ غلط نہیں کر سکتی۔
اب بتاو کیا ہے یہ سب؟ آہستہ چلتی اس کے پقس آ کر بیٹھ گئی۔اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کراسے حوصلہ دیا۔
وہ لڑکی کو میں نہیں جانتی ۔ دیا نے پھر سے کہا۔
Please Dia try to Understand i am your sister. Please tell about that girls if you know anything about her۔
دعا اب کی بار رونے کے انداز میں بولی وہ کب سے خود کو کمپوز کر رہی تھی۔
فون ایس ایچ او کا ہے وہ کہتا ہے میں نے اپنی دوست ادیبہ کو اغواہ کیا ہے ۔دو دن سے وہ بار بار یہی کہہ رہے پیں۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ اب کی بار اس کی انکھ سے ایک انسو گر کر اس کے گال پر سے بہنے لگا۔
دو دن سے کالز جو آرہی تھی تم نے امی یا مجھے تو بتانا تھا نا بیٹا ہم۔تمہارے دشمن تو نہیں ہیں نا ۔دعا نے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔
وہ میں۔ ۔ ۔ دیا ہاتھ کو انگلیاں دبانے لگی۔
اچھا اب یہ سب چھوڑو اور یہ بتاو اس کے گھر والے تم پر کیوں الزام لگا رہے ہیں؟ دعا نے پھر سے سوال کیا وہ اب خود کو کمپوز کر چکی تھی۔
بڑی بہنیں ماں جیسی ہوتی ہیں
وہ لڑتی ہیں وہ جھگڑتی ہیں
مگر وہ ماں جیسی ہوتی ہیں
وہ تو چھوٹےہوتے ہیں
جو دل میں دشتے توڑ کر نفرت کو جگہ بنا دیتے ہیں
وہ بڑی بہنیں ہوتی ہیں جو چاہ کر بھی دل میں نفرت کو جگہ نہیں دے پاتیں۔
کیوںکہ وہ ماں جیسی ہوتی ہیں۔
تم جو کچھ خریدو تو وہ تمہارا ہے
بڑی بہن جو لے تو وہ ہمارا
وہ خندا پیشانی سے تم پر ہر چیز قرنان کر جاتی ہے
کبھی لڑ بھی لے تو کچھ دن میں بھول جاتی ہے
کیونکہ بڑی بہنیں ماں جیسی ہوتی ہیں۔
اسے ہی بڑے ہونے کا ثبوت دینا تھا۔
میرا اس سےرمضان کے شروع میں بات ہوئی تھی مگر میں نے اس سے بات نہیں کی ٹھیک سے کیوںکہ جب میں اس کے گھر گئی تھی امی کے ساتھ تو اس نے ٹھیک سے بات بھی نہیں کی تھی۔ دیا نے اسے ہاتھ پکڑ کے بتایا۔
تو اس کے گھر اور کون کون گیا تھا؟ دعا نے سوچتے ہوئے کہا۔
وہ اس کا نکاح تھا ۔ ۔ ۔ دیا نے سر جھکا کر بتایا۔
وہی پوچھ رہی ہوں اس کے نکاح پر کون کون گیا تھا؟
وہ میں اس کے نکاح پر نہیں گئی تھی تو وہ ناراض ہو گئی اس لیے امی کے ساتھ بعد میں گئی تھی۔
اچھا تو کوئی تو اور دوست ہوگی نا جو اس دن گئی تھی اس کا نام بتاو
مجھے کسی اور دوست کا نہیں پتا۔ ۔ ۔
دیا چلو میرے ساتھ۔ زرینہ بیگم کمرے میں آکر دیا کو ساتھ لے جانے کو ہاتھ پکڑا ۔
امی کیا ہو گیا ہے آپ کو وہ دیا کو رکھ لیں گے ۔ ہمیں کچھ سوچنا پڑے گا۔
میرے بیٹا وہاں بھوکا ہوگا روزہ افطار ہونے والا ہوگا میرے بچے کا پہلا روزہ تھا اور وہ بے چارہ ۔ ۔ ۔ وہ مزید رونے لگیں۔
میں انہیں فون کر کے کہتی ہوں کہ ہم دیا کا بیان کل دلوا دیں گے اور کل تک میں کوئی وکیل ڈھونڈتی ہوں وہ سب ٹھیک کر دے گا ۔ دعا نے سوچ کرکہا ۔
لیکن دانی بھوکا ہے وہاں دعا۔
تم مجھے اس کے لیے افطاری بنا دو میں اسے دے آتی ہوں۔ زرینہ بیگم کا کلیجہ بیٹھے کی بھوک کا سوچ سوچ کے دہل رہا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے امی۔ دعا نے فوراً ماں کی بات پر عمل کیا۔اور ساتھ ہی تاکید بھی کی ۔
موبائل ساتھ رکھ لیجیے گا اور یہ کچھ پیسے بھی۔
ہیلو گوہر کیسے ہو بیٹا؟ صلہ نے آتے ہی گوہر کے کمرے کا رخ کیا۔
ارے صلہ آنٹی میں اچھا ہوں کیسی ہیں آپ؟
گوہر لیپ ٹاپ چھوڑ کر کھڑا ہوا۔
میں بھی ٹھیک ہوں آجکل تھوڑی پریشانی ہے۔ وہ ماتھے ہر ہاتھ رکھ کر بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
کیا مطلب کیسی پریشانی؟گوہر چلتا ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
مہ جبیں کی شادی ۔ ۔ ۔ وہ بات ادھوری چھوڑ کر گوہر کو دیکھنے لگیں ۔
اف مجھے لگا پتا نہیں کیا بات ہے آپ فکر مت کریں ہو جائے گی۔اس کی شادی جب اللہ کو منظور ہوگا۔ گوہر نے بےپرواہی سے کہا
صلہ گوہر کو گہری نظروں سے دیکھتی پھر بولیں۔
ہمارے پڑوس میں کل ہی شادی ہوئی ہے لڑکی مڈل کلاس تھی توبہ لڑکے کو تو پہلے ہی اس نے اپنے قابو میں کر رکھاتھا حق مہر میں ساری جائداد اپنے نام لکھوا کر صبح ماں باپ سمیت لڑکے کو بھی گھر سے نکال دیا۔ یہ مڈل کلاس لوگ صرف پیسے کے بھوکے ہوتے ہیں۔
گوہر نے اپنی پھوپو کے بات کے اثرکو زائل کرنے کے لیے کہا۔
وقت بدل رہاہے ہر کوئی اپنی محنت کا خانہ چاہتا ہے ۔ وہ پہلے کی باتیں تھیں جب لڑکیاں پڑھی لکھی نہیں ہوتیں تھی ۔اور ویسے بھی سب لوگ ایک۔جیسے نہیں ہوتے
آنٹی ضروری نہیں سب ایسے ہوں
ارے سب مڈل کلاس لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں ان کا خواب ہی امیر لڑکوں سے شادی ہوتا ہے اور پھر ان کو برباد کر کے یہ جا وہ جا۔ تمہیں روبیکہ یاد نہیں کیسے اس نے ہمارا گھر برباد کر دیا آج بھی یاد کرتی ہوں تو دل پھٹتا ہے میرا۔تمہاری زندگی۔ ۔ ۔ صلہ ابھی مزید کافی کچھ کہنے کا ارادہ رکھتی تھی مگر گوہر نے انہیں روک دیا۔
آنٹی پلیز میں وہ سب یاد نہیں کرنا چاہتا ۔ ۔ ۔
میں جانتی ہو ں چلودفع کرو ہم کیوں بے ہودہ انسان کو یاد کریں۔ وہ کہہ کر اٹھ گئیں مگر جانے انجانے میں گوہر کے زخم پھر سے اپنی باتوں سے ہرے کرگئیں تھیں
دعا نے سلام پھیرا اور دعا کے لیے ہاتھ۔اٹھائے
اللہ جی تو سب جہانوں کا مالک بیشک تجھ سے کچھ بھی بعید نہیں نہ اس دنیا میں نہ ان تمام دنیاوں میں جن سے ہم واقف بھی نہیں۔ اس پاک مہینے میں تیرے سامنے ہاتھ پھیلائے رحم کی پھیک ماگتی ہوں مجھ پر میرے اہل و عیال پر اور ہر اس شخص پر جس سے میں کبھی تکلیف سے گزری۔ میرے مالک میں بہت ہی گناہگار انسان ہوں مجھے یہ حق بھی نہیں کہ میں تجھ سے رحم کی طلبگار رہوں پر تیری رحمت دیکھ کر اس کےدریا دیکھ کر ہاتھ اٹھا کر اپنی بہن کے لیے رحم کی خواستگار ہوں۔ اللہ اسے اس مصیبت سے بچا۔ اللہ جی مجھ سے اور میرے ہر رشتے سے تو خوش رہ ۔ آمین
امی کا کوئی فون آیا دیا؟ دعا ابھی ابھی عصر پڑھ کے ہٹی۔
نہیں ابھی نہیں آیا۔ دیا نے کہا اور تھوڑی دیر خاموشی کے بعد کہنے لگی ۔
دعا میرا اس سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
میں جانتی ہوں تم جھوٹ نہیں بولو گی۔دعا فون ہاتھ میں پکڑے اس امید سے بیٹھی تھی کہ کہیں امی فون ہی کر دیں ۔
اچھا ایک بات بتاو دیکھو اگر تم اس سے رابطہ میں نہیں ہو تو کوئی اور تو ہوگا نا اس کی کوئی فرنڈ وغیرہ اس کا نام بتاو تاکہ ہم کل انہیں یہ تو کہہ سکیں نا کہ صرف تمہارا نام کیوں لیا اس کے باقی دوست بھی تو ہیں نا۔ پڑھائی میں کیسی ہے وہ؟۔ دعا اسے سمجھانے کے انداز میں بولی۔
اس کے دوستوں کو میں نہیں جانتی ۔ ۔ ۔ دیا نے واپس وہی نہیں جانتی کا پہاڑا پڑھنا شروع کر دیا۔
تو اپنی کسی دوست سے پوچھو نا ہو سکتا ہے وہ۔اسے جانتی ہو۔دعا نے پھر سے سوالات کر کے اس سے معملہ جاننے کی کوشش کی۔
ایک ہی کومن فرنڈ تھی اس کا آئی ڈی بھی بند ہو گیا ہے۔
کیا مطلب ہے آئی ڈی بند ہے؟ دعا نا سمجھی کے انداز میں پوچھا
فیس بک کا۔
سکول فرنڈ ہے یا کالج فرنڈ؟
فیس بک فرنڈ ہے۔
کیا؟ دعا کو جھٹکا لگا وہ سر پکڑ کے کھڑی ہوئی ۔
دیا لوگ اپنوں پر یقین نہیں کرتے اور تم نے فیس بک فرنڈ سے گھر کا اڈریس شیئر کر دیا۔ دعا کو لگا اس کا سر پھٹ جائے گا۔
مس ربیکہ آپ کب آئیں؟
جب آپ کی خوبصورت تلاوت شروع ہوئی۔ ربیکہ نے مسکرا کر جواب دیا اور اپنے سنہری بال پر چھوٹا سا رکھا رومال ہٹایا۔
یعنی کہ آپ ہم پر چھپکے چھپکے نظر رکھتی ہیں ۔ وہ مسکرا کر اس سنہری بالوں والی لڑکی کومصنوئی ناراضگی سے کہہ کر کھڑا ہوا۔
نہیں میں تو بس آپ کی تلاوت سننے رکی تھی آپ کو برا لگا تو سوری۔ وہ معزرت خواہ انداز میں بولی۔
معافی ایسے نہیں ملے گی۔ وہ آگے بڑھنے لگا۔
تو؟ ربیکہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے گی۔
آپ مجھے کوفی پلا دیں آج کافی ٹھنڈ ہے۔ وہ دونوں ملا کر رگھڑتے بولا۔
پھر معافی مل جائے گی؟ وہ مسکرا کر گویا ہوئی۔
بالکل معافی بھی ملے گی اور ہر روز میری تلاوت سننے کا موقع بھی ۔
سچ میں ؟ وہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔
جی جی مگر کافی مسٹ ہے ۔ ۔ ۔
دونوں مسکراتے کیفے کی طرف بڑھ گئے۔
دیا امی ابھی تک نہیں آئیں مجھے ٹینشن ہو رہی ہے۔ رات کے بارہ بجنے والے ہیں وہ کسی میسج کا بھی جواب نہیں دے رہیں۔دعا پریشانی سے یہاں وہاں چکر لگاتے بولی۔
تو فون کرو نا۔ دیا نے مشورہ دیا۔
ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔ دعا نے فون ملا یا۔
اسلام و علیکم امی آپ ابھی تہ نہیں آئیں؟
جی اچھا۔ دعا فون بند کر کے سر پکڑ کے بیٹھ گئی موٹے موٹے انسو چہرے پر قطاروں میں گرنے لگے۔
دعا کیا ہوا؟
انہوں نے امی کو بھی روک لہا ہے۔
اب کیا ہوگا دعا؟ خوفزدہ دیا نے پوچھا۔
مجھئ نہیں پتا دیا اب کیا ہوگا۔ کچھ سمج نہیں آرہا مجھے تو۔ دعا بالکل بلینک بیٹھی تھی۔
دیا تم اس شہریار سے بات کرو وہ ہلپ کرے گا ۔ ۔ ۔
دعا نے ایک غصے بھری نگاہ سے دیکھا
پروبلم ہمارے ہے اسے ہم خود حل کریں گے انشاللہ ۔
لیکن دعا۔ دیا کو دعا کی بات پسند نہیں آئی۔
میں نے کہا نا نہیں۔
لوگوں کا ظرف اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی خامی کو اپنے اندر چھپا سکے ۔ ہم دنیا کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جہاں لوگو ں کی ہمارے تکلیف سے بس اتنی سی دیر تک کی وابستگی ہوتی ہے جب تک انہیں وقت گزاری کا دوسرا کوئی ساماں نہیں ملتا۔
اور آخر میں ہم ہوتے ہیں ہماری تکلیف اور اللہ ۔