مس دعا۔ دعا آپا کی آواز پر رجسٹر رکھتے چونکی
جی؟
آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔ آیا چلتی اس کے پاس آئیں
مجھ سے؟ دعا نی اپنی طرف اشارہ کیا۔
بیس منٹ پہلے آئےتھے میں نے بتایا آپ لیکچر لے رہی ہیں تو وہ حال میں ویٹ کر رہے ہیں۔ وہ کہہ کر چل دی
وہ شش وپنج میں حال کی طرف بڑھی
اف کہیں شیری تو نہیں آیا۔ ۔ ۔ وہ سوچ کرہی الجھی اب یہ پھر سے آفس نہ آنے پر سوال و جواب کرے گا۔
حال کے دروازے کے پاس پہنچتے ہی بے ٹھٹھک کر رکی۔
گوہر۔ ۔ ۔ گوہر کے پر فیوم کی خوشبو نے اس کے قدم روک دیے ۔ ۔ گہرا سانس لے کر ڈور کھول کر اندر بڑھی
اسلام علیکم ۔ ۔ وہ مدہم سی آواز میں بولی
واعلیکم اسلام ۔ ۔ تروتازہ آواز میں بول کر پشت پھیر ی
بات کرنی تھی تم سے ایک ۔ گوہر کرسی سے اٹھ گیا۔
کہیں۔ ۔ دعا نے بے اختیار نقاب کو ہٹا دیا۔ ۔
کافی دیر اسے خاموش تکتے دیکھ الجھی تھی
کیا ۔ ۔ بات کرنی تھی؟
وہ ۔ ۔ ۔ گوہر نے سر کھجایا
وہ تو تمہیں دیکھتے ہی بھول گیا۔ ۔ گوہر نے مسکراہٹ دبائے کہا
وہ نروس ہوئی گوہر نے اس کے کانپتے ہاتھ دیکھے
تمہیں دیکھ کر ایک اور بات یاد آئی ہے وہ کہہ دوں؟ وہ اس کی الجھن دور کرنے کو بولا
جج۔ ۔ جی۔
ارتضٰی اچھا لڑکا ہے میں نے ساری انفارمیشن پتا کر لی ہے سب ٹھیک ہے۔ مجھے معلوم ہے تم بزی ہوں گی اس لیے کہہ نہیں سکی سو میں نے خود ہی پتا کر لی۔
دعا بے حد شرمندہ ہوئی تھی نظریں نہیں اٹھا سکی۔
دعا یہ رسپونسیبلیٹی تھی میری۔ صبح آفس جلدی جانا تھا تو آ نہیں سکااس لیے لنچ ٹائم فری تھا تو آ گیا۔
دعا نے سر نہیں اٹھا گوہر سمجھ گیا کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔
اچھا مجھے ایک کام ہے چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا۔ اس پر گہری نظر ڈالتا وہ حال سے نکل گیا
وقت تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ دعا اتنی شرمندہ تھی وہ۔گوہر سے بات نہیں کر سکی۔ دیا سے بات کرنا تھی سو اس کے کمرے کی طرف بڑھی
دیا ۔ ۔ وہ کسی ناول میں سر دیے بیٹھی تھی
جی۔
وہ میں نے آج ارتضٰی کو بلایا ہے۔ دعا نے بغیر کسی لگی لپٹی کے بات کا آغاز کیا۔
وہ کون ہے۔ دیا نے ناول سے نظریں نہیں ہٹائیں۔
رضوان بھائی کا سالا۔ ۔ دعا نے اس کے ہاتھ سے ناول پکڑا۔
اچھا کیوں۔ منہ بسوڑ کر دعا کودیکھا
بھابی نے تمہارا ہاتھ مانگا ہے۔ گوہرنے چھان بین کی ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ بھابی بتا رہی تھیں کہ باہر گاڑیوں کا شوروم ہےاس کا۔ میں چاہتی ہوں پہلے تم مل لو اس سے۔ ۔ دعا نے اس کا ہاتھ تھاما
دعا ابھی نہیں ۔ ۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد بولی
دیا وقت نہیں رکتا نا زندگی۔ پلیز میری پوزیشن کو سمجھو۔ ۔ دعا بے بسی سے اسے تکنے لگی
اچھا مگر وہ مسئلہ بتا دیا نا۔ ۔ دیا نے یاد دلایا
ہاں اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں نے اور امی نے پہلے بہت غلط کیا تمہارے ساتھ مگر اب وہ غلطی نہیں دہراؤں گی۔ ۔ دعا شر مندہ تھی
دعا میں نے کوئی شکائیت نہیں کی۔ دیا نے آگے بڑھ اسے گلے لگایا
مگر میں شرمندہ ہوں ۔ ۔ دعا نے آنکھوں میں آئی نمی پونچھی
ایسی بات مت کرو ۔ دیا نے نظریں چرائیں
آخری فیصلہ تمہارا ہوگا جو بھی تم کہو۔ دعا اس کا کندھا تھپک کر کھڑی ہوئی
تم کیا چاہتی ہو؟ دیا نے اس کا ہتھ پکڑ کے روکا
مجھے وہ اچھا لگا تمہارے حوالے سے۔
اسلام علیکم ۔ ۔ آہستہ آہستہ قدم رکھتے وہ دیا کے سامنے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوا
دیا نے جواب کی بجائے چونک کر سر اٹھایا
آ۔ ۔ ۔ آپ ۔ ۔ دیا ایک دم کھڑی ہوئی وہ تو بھول ہی گئی تھی کہ ارتضٰی یہ ہے۔
جی میں۔ ۔ وہ مسکرایہ
آپ مجھے سے شادی کیسے کر سکتے ہیں۔ وہ جھٹ پٹ بول پڑی
ویسے ہی جیسے سب کرتے ہیں۔ وہ ایک قدم آگے بڑھا
مم۔ ۔ ۔ میرامطلب ۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا
لیکن آپ نے ابھی تک سوری نہیں کہا۔ وہ آرام سے سامنے صوفہ پر بیٹھ گیا۔
آپ کی ناک کے لیے میں سوری بول چکی ہوں جب کہ غلطی آپ کی تھی۔دیا نے اسے یاد دلایا جو وہ سوری بول کر اس پر احسان کرچکی تھی
لیکن میں تو شادی میں ۔ ۔ ۔ میری انسلٹ کرنے کی بات کا کہہ رہا ہوں۔ وہ پر سکون سا بولا
میں وہ۔ ۔ دیا کو سمجھ نہیں آیا اب کیا بولے
کوئی نہیں ابھی پریکٹس کر لیں شادی کے بعد بولی دیجیے گا۔مجھ سے کوئی شکائیت ہو تو کہہ سکتی ہیں۔
دیا کچھ بول نہیں سکی نفی میں سر ہلایا۔
مجھے آپ کے پاسٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ پاسٹ تھا گزر گیا۔ وہ ایک برا خواب سمجھ کر بھول جائیں۔ نہ آج نہ کل نہ کبھی اسے یاد کریں۔ مجھے نہیں معلوم لیکن میں آپ سے شادی کر کے خوش رہوں گا مجھے ایسا لگتا ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ آپ کو مجھ سی شکائیت کبھی نہیں ہوگی میں انسان ہوں غلطیاں ہوں گی مگر وعدہ کرتا ہوں معافی میں پہل ہمیشہ میری طرف سے ہوگی۔ باقی فیصلہ آپ کا ہوگا۔ وہ اس کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھا بول رہا تھا
دیا مسلسل اپنے دبٹے کے کونے کو انگلی پر لپیٹ رہی تھی۔ ارتضٰی سمجھ گیا وہ نروس ہو رہی ہے۔
وہ مسکرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
آپ جب چاہیں گی میں آپ کو ملانے لے آؤں گا۔ پرا مس ۔ ۔
یہاں نہیں دعا کے گھر۔ دیا نے اس کی توصیح کی۔
اوکے۔ وہ کھل کر ہنسا۔
یہ دل بھی کتنا پاگل ہے
یہ پیار تو تم سے کرتا ہے
پرسامنے جب تم آتے ہو
کچھ بھی کہنے سے ڈرتا ہے
تم نے اچھا نہیں کیا اس پر سے ڈی موڈی فائی کروا کر۔ ۔
دعا کوئی احسان نہیں کیا تھا تم پر میں نے۔ جیسے ہی تمہاری آواز آئی میں پہچان گیا تھا یہ تم ہو۔ میں بس تمہاری مدد نہیں کر رہا تھا بہت حق سے وہ پیسے تم تک پہنچائے تھے کیونکہ میں جانتا تھا ایک دن تمہیں میرا ہونا ہے۔ وہ لوکٹ سے ایسے باتیں کر رہا تھا جیسے وہ لوکٹ نہیں دعا ہو۔
سر ۔ ۔ ۔ کوئی اندر آکر گوہر ہاتھ میں کچھ پکڑے دیکھ کر پکارتا سامنے کھڑا ہوا
جی ؟ گوہر نے بغیر دیکھے لاکٹ دراز میں رکھا
سر کو ئی محترمہ آئی ہیں آپ سے ملنا ہے انہیں دعا نام بتا رہی ہیں۔
گوہر جھٹکے سے کھڑا ہوا ۔ ارے انہیں اندر لے کر آؤبھابی ہیں وہ آپ کی۔ گوہرکے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ دوڑی
اوہ سوری سر مجھے پتانہیں تھا۔ کہتا وہ باہر نکل گیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ اندر آئی۔
بیٹھو۔ کرسی کی طرف اشارہ کرتا مسکرایہ۔ وہ اب تک کھڑا تھا
آپ سے بات کرنی ہے مجھے آپ فری ہیں؟۔ ۔ اس نے کھڑے کھڑے کہا۔
نا بھی ہوا تو بھی آپ کے لہے سپیشل آفر ہے۔
چلو باہر جا کر بات کرتے ہیں یہاں نہیں۔ وہ گاڑی کی جابیاں اٹھاتا بولا
باہر نہیں ۔ ۔ ہاتھ مروڑتے بولی
تو پھر گھر چلتے ہیں آخر تمہیں وہیں آنا ہے۔ وہ جتا کر بولا۔
نہیں میرے گھر ۔ ۔ وہ الجھ سی گئی
وہ اوکے کہتا اس کے پیچھے چل دیا۔ راستے میں دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی گوہر جانتا تھا وہ شرمندہ ہے سو اس نے اسے مخاطب بھی نہی کیا۔
دروازہ دانی نے کھولا۔
گوہر بھائی آپ چلو کیرم کھیلیں گے اب ۔ ۔ ۔ دانی نے دیکھتے ہی پوجوش سے ناداز میں اس گلے لگایا۔
چلوپھر لے کر آؤ۔ وہ کہتا دعا کے کمرے کی طرف چل دیا۔
دانی آپ اپنا ہوم ورک کرو جا کر ۔ دعا نے اسے روکنا چاہا۔
ہوم ورک میں کروادوں گا ابھی کیرم ٹائم ہے دعا چائے بناو جا کر ۔ وہ حکم صادر کرتا کمرے میں آگیا۔
دعا کچن میں آئی چائے کا پانی چڑھایا اور سوچنے لگی اس نے غلطی کردی گوہر کو یہاں لاکر ۔ ۔ ۔ لیکن جو بھی ہو میں آج بات کر کے یہ سب ختتم کر کے رہوں گی
گوہر چائے۔ چائے سائڈ ٹیبل پر رکھی
گوہر نے دانی کو مخاطب کیا
جاؤبیگ لے کر آو ہوم ورک کرواتا ہوں۔ گوہر نے بہت سہولت سے دانی اور دیا کو اپنی عادت ڈالی تھی۔
دانی اوکے کہتا کمرے سے نکل گیا۔
وہ بیڈ سے اٹھ کے دعا کے سامنے آیا
شوہر کا نام لیتی ہو شرم نہیں آتی ۔ ۔ دعا کو گھورتے ہوئے مسکراہٹ دبا کر بولا۔
وہ کچھ بول نہ سکی مگر اس کے آگ بگولہ ہوتا چہرہ بتا رہا تھا اسے غصہ آرہا ہے۔
یار تمہیں تو غصہ جتانا بھی نہیں آتا۔ ۔ ۔ وہ کی بار وہ لھل کر ہنسا
مجھے بات کرنی ہے آپ سے ۔ ۔ وہ سب لحاظ رفع دفع کیے بولج
ارے تم تو بہت ہی بیویوں جیسی باتوں کے موڈ میں ہو لیکن میں ابھی سننےکے موڈ میں نہیں ہوں بھوک لگی ہے۔ کچھ کھلا دو پلیز۔ ۔ ۔
کیا کھائیں گے۔ دعا کو احساس ہوا تھا
بریانی۔ ۔ پہلی بریانی یاد کر کے وہ محظوظ ہو کر بولا
وہ سر ہلاتی کمرے سے نکل گئی۔
تیری آنکھوں نے لوٹا ہے مجھ کو ؎
جیت کے میں تو گیا ہار
دانی کو کام کرواتا اس کا زہن بار بار دعا کی طرف بھٹک رہا تھا وہ اس کے رویے سے نادازہ لگا سکتا تھا وہ کچھ غلط ہی کہنے والے ہے۔ دانی کو کچھ سوالوں میں الجھا کر وہ اٹھ کر کچن کی طرف آیا۔
میں ممّی سے ملتا ہوں اب ۔ وہ کچھ سوچ کر بولا
اچھی بات ہے۔ مختصر جواب دیا
وہ تمہارا پوچھتی ہیں ۔ وہ بات کو تویل کرنا چاہتا تھا۔
دوسری بار ملیں گی تو نہیں پوچھیں گی۔
ہم تین دفعہ ملے اور وہ ہر بار پوچھتی ہیں اب کیا کہوں کہ ان کی بہو ناراض ہے مجھ سے ؟
گوہر میں ناراض تو نہیں ہوں۔ کام کرتے ہاتھ رکے
سیریئسلی۔ گوہر نے بالوں میں انگلیاں پھیریں ۔ ۔ اب اور کیا بات کرے۔ ۔ ۔ وہ الب سے ٹیک لگائے سوچنے لگا
سوری معافی جیسے لفظ بہت جھوٹے لگنے لگے ہیں آج۔ وہ گوہر کی طرف مڑی
دعا تمہارے ان الفاظ کی چاہ نہیں ہے مجھے۔ ۔مجھے بس تمہاری ضرورت ہے۔ گوہر کو اسے ندامت بھرے انداز مکں دیکھنا اچھا نہیں لگا
گوہر میں دیااور دانی کو نہیں چھوڑ سکتی۔ وہ مجبور لہجے سے بولج
تو کس نے بولا چھوڑنے کو۔
گوہر کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن کا ساتھ آپ چاہ کر بھی نہیں نبھا سکتے۔ دعا نے ایک لمحے کو بھی سر نہیں اٹھایا تھا
آپ کو اس سے دور نہیں ہونا چاہیے جو آپ سے محبت کرتا ہو۔ بہ واسطہ اظہار کیا تھا۔
مگر آپ ایسا کر رہے ہیں۔ دعا نے سر اٹھا یا
میں پہلے کر رہا تھا اب تو نہیں۔وہ مسکرایا
ماہ جبیں آپ سے محبت کرتی ہے۔ دعا کی بات پر گوہر کے چہرے کی مسکراہٹ یک دم غائب ہوئی تھی۔
وہ میری زندگی میں کوئی معنی نہں رکھتی اگر ایک پرسنٹ بھی رکھتی تو وہ میری زندگی کا حصہ ہوتی جبکہ اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا سب سے آسان تھا۔ وہ اسے دیکھتے سنجیدگی سے بولا
گوہر کی بات اسے لاجواب کر گئی تھی اس کے سارے الفاظ ختم ہو گئے تھے وہ کچھ بول نہیں سکی۔
گو ہر کا فون چیخنے لگا۔
ہیلو بابا ۔ فون کان سے لگائے بولا
کیا۔ ۔ ۔ گوہر کا موبائل اس کے ہاتھ سےجھوٹ گیا۔
کیا ہو گوہر۔ ۔ دعا فوراً اٹھی۔
دعا عیشل ماں۔ ۔ وہ کہتےہی باہر بھاگا
تین دن گزر گئے وہ اب بھی بچوں کی طرح بیٹھا ریا تھا زندگی کبھی کبھی انسان کو بے بس کر دیتی ہے وہ اس وقت مردوعورت بچپن وجوانی جیسی کوئی بات اس کی بے بسی میں حائل نہیں ہو سکتی۔
زی نے آکر سے کھانے کے لیے بلایا مگر وہ برہمی سے بولا
پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دو ۔ ۔ کمرے سے دھاڑنے کی آوازآئی۔
دعا بیٹا میں بہت خوش ہوں تمہیں واپس دیکھ کر۔ اب اورکوئی مسئلہ نہیں چاہتی میں تم اندر مت جاؤ دیکھا اس نے زی کے ساتھ بھی کتنی بدتمیزی کی ہے۔ شمائلہ بیگم شرمندگی سے بولی
آنٹی وہ زی ہے میں دعا ہوں۔ دعااٹھ کھڑی ہوئی۔
زی کو دیکھتے بولی کھانا لے کر آؤ۔ ۔
وہ جی کرتی آگے بڑھی
دعا نے دروازہ کھولا تو اس کے قدموں کی چاپ سے گوہر مڑا۔ دعا کو دیکھتے منہ پھیر لیا۔دعا چلتے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
اب تو تمہارے دکھ کو سمجھ سکتا ہوں نا۔
ایم سوری اس دن میں نے بدتمیزی کی تھی۔
دعا جانتی ہو تم بہت لکی ہو تم نے اپنی جنت کی خدمت کی میں وہ بھی نہیں کر سکا میں بہت بد نصیب ہوں۔
ایسے مت کہیں گوہر میں اپنی ماں کو آخری وقت دیکھ بھی نہیں سکی۔ عیشل ماں آپ سے بہت خوش تھیں وہ کہتی تھیں کہ وہ بس آپ کے منہ سے ماں سننا چاہتی تھیں۔
وہ ایسے کیسے چلی گئی مجھے چھوڑ کر
انسان کو دکھ تکلیف نہیں مارتے اپنوں کی جدائی مار دیتی ہے۔ وہ بہت پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا تھیں انہیں تین سال پہلے پتا چلا تو وہ اسی وجہ سے آپ سے ملنا چاہتی تھیں۔
تو چھوڑنے کا فیصلہ بھی انہوں نے کیا تھا مجھےتنہا کر کے
تنہا آپ نہیں وہ تھیں۔ مگر پتا ہے وہ آپ سے بہت محبت کرتی تھیں
تم نے سب کی محبتیں بتانے کا ٹھیکہ لیا ہے۔ جو کہنا چاہیے وہ تو کہتی نہیں۔
وہ دعا کہ باتوں میں الجھا پڑا تھا دعا نے اسے بہ واسطہ نہیں کہا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ ان سب باتوں کا مطلب کہا تھا۔ گھٹنوں پر دونوں کہنیاں ٹکائے دائیں ہاتھ کی پشت پر منہ رکھے گہری سوچوں میں گم۔
وہ دعا کہ باتوں میں الجھا پڑا تھا دعا نے اسے بہ واسطہ نہیں کہا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ ان سب باتوں کا مطلب کہا تھا۔ گھٹنوں پر دونوں کہنیاں ٹکائے دائیں ہاتھ کی پشت پر منہ رکھے گہری سوچوں میں بیٹھا تھا۔
گوہر بھائی۔ زی نے دروزے پر ناک کر کے کھولا
ارے تم اس وقت یہاں۔ وہ حیران ہوا
بھابی کو لینے نہیں گئے آپ۔ جواب جانتی تھی مگر پھر بھی سوال کر لیا
ابھی نہیں آئے گی وہ۔ ۔ دیا اور دانی کو ضرورت ہے اس کی۔ ۔ ماما کو بھی بتا چکا ہوں ۔ ۔ گوہر نے پر سکون سا جواب دیا
وہ نہیں آئیں گیں۔ زی گوہر کے عین سامنے کھڑی ہوئی
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ گوہر نے نرمی۔سے ہاتھ پکڑ کے بیٹھایا
وہ میری وجہ سے ایسا کر رہی ہیں۔ وہ سر جھکائے بولج
زی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ گوہر پورا اس کی طرف گھوم گیا۔
بھائی مجھے سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ شیری سے بھابی سے معافی مانگنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ وہ چہرا منہ میں چھپائے رونے لگی
بیٹا کیا ہوا ہے؟ رو کیوں رہی ہو؟۔ ۔ گوہر مزید الجھ گیا۔ دعا نے الگ ٹینشن دے رکھی تھی اور اب یہ بھی۔
بھائی مجھے غلط فہمی ہوئی تھی شیری اور بھابی ۔ ۔ ۔ زی نے بولنا شروع کیا
کیا ۔ ۔ ۔ دعا اور شیری کیا۔ ۔ وہ سختی سے بات کو دہراتا دیکھنے لگا۔
مجھے لگا۔ ۔ ۔ وہ دونوں۔ ۔ وہ آنکھیں مسلتی بولی
زی تمہاری سوچ اس قدر گری ہوئی کیسے ہو سکتی ہے۔ گوہر کو دکھ ہوا تھا
میں غلط تھی میں بھابی کو بہت کچھ سنا دیا۔ ۔
زی کچھ بھی غلط فہمی تھی تمہیں مجھ سے یا شیری سے پوچھنا چاہیے تھا۔ گوہر کا لہجا نہ چاہتے ہوئے بھی سخت ہو گیا۔
ماہی نےجیسے کہا اس کے بعد کچھ کلئیر کرنے کو تھا ہی نہیں۔ وہ شرمندہ سی بولی
کیا؟۔ زی تم اتنی پاگل کیسے ہو سکتی ہو۔ تم نے اس یہ ڈسکس کیا۔ گوہر کو اب غصہ آنے لگا
میں نے نہیں کیا۔ وہ خودآئی تھی کہنے۔ گوہر کے سخت لہجے پر وہ بچوں کی طرح بولی
کب کی بات ہے یہ۔ ۔ اس نے خود کو نارمل کرتے پوچھا۔
جب شیری مجھ سے گھر ملنے آیا تھا۔۔ ۔
تب سے اس نے تمہارے دماغ میں یہ ڈالا۔ گوہر کا بس نہیں۔چل رہا تھا وہ ماہی کو کچھ کر دے۔ دیا کہ بات کرنے بھی جب وہ گیا تھا تو وہ گھر نہیں تھی۔ گوہر کو لگا شائد اللہ اسے بچانا چاہتا ہے۔
اچھا یہ سب شیری سے مت کہنا ۔ ۔ گوہر نے خود کو سنبھالا اور اسے کے آنسو صاف کیے۔
بھائی میں نے غلط کیا میں سکون سے نہیں رہ پا رہی۔
دعا کو دکھ ہوا ہوگا مگر وہ تم سے ناراض نہیں ہوگی میں جانتا ہوں اسے مگر شہریار ہوگا اسے ہرٹ ہوگا کیا تم چاہتی ہو وہ دکھی ہو۔ زی کے بالوں کو بچوں کی طرح کانوں کے پیچھے کوتے اسے گلے لگایا۔ اسے روتا دیکھنا اس کے لیے محال تھا۔
نہیں۔
پھر مت کہو۔ بس ایک کام کرو تم شہریار سے جا کر صرف وہ کہو جو میں بتاؤں گا
اس سے کیا ہوگا۔آنکھیں مسلتی وہ پیچھے ہوئی۔
اس سے تمہاری ازلی ضدی بھابی یہاں ہوگی۔ گوہر کچھ سوچ کر مسکرایہ
ہولی ہولی عشق خمار ہوئی جاندا اے ؎
ہولی ہولی مینو پیار ہوئی جاندا اے
ہولی ہولی دل وسو باہر ہوئی جاندا ا
گوہر غصے سے سیدھا ماہی کے کمرے میں گھسا۔ ماہی کٹےفروٹ کھاتی آڑھی ترچھی لیٹی تھی۔آہٹ پر ہڑبڑا کر اٹھی سامنے گوہر کودکھتےمسکرائی مگر اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کھڑی ہوئی۔
لڑنے آئے ہو۔ ۔
میں تم سے لڑنے نہیں آیا۔ ماہی کی بات اسےسلگا گئی
دعا نے بھڑکایا ہے نا تمہیں۔ ہاتھ میں پکڑی سیب کی کاش زمین پر پٹخی
کاش وہ کرتی تو پتا ہے اگلےلمحے تمہاری یہ شکل بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتا میں۔ گوہر انگلی اٹھاکر کہا
گوہر ۔ ۔ ۔ ماہی نے کچھ کہنا چاہا
چپ۔ ۔ وہ دھاڑا۔
مجھے لگا جو تم نے دیا کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد تم شر مندہ ہوں گی مگر نہیں تم اس پر بھی نادم نہیں ہو۔ گوہر کا غصہ اس کا اطمنان دیکھ بڑھنے لگا۔
وہ میں نے نہیں کیا دعا جھوٹ۔ ۔ ۔ ماہی نے جھوٹ کا سہارالیا
اس کے بارے میں ایک لفظ بھی مت کہنا ورنہ تمہیں یہیں دفن کر دوں گا۔ گوہر اتنی زور سے بولا کہ ماہی کا رنگ فق ہوا۔ گوہر نے ہمیشہ سمجھایا تھا اسے پیار سے غصے سے مگر اونچی آوازمیں کبھی مخاطب بھی نہیں کیا۔
دیا غیر تھی مگر زی وہ تو اپنی تھی تم نے اس کا گھر بھی برباد کرنے کی کوشش کی ۔ ۔ ۔ ایک بات کان کھول کر سنو میری۔ گوہر نے انگلی اس کے سر پر ناک کے اندازمیں لگائی
میں دعا سے محبت کرتا ہوں۔ وہ میرے ساتھ رہے یا نہ رہے تم میری زندگی میں کوئی جگہ نہیں رکھتی پتا ہے کیوں
You are nothing for me. You have zero value in my life.
مجھے تو نفرت بھی نہیں ہو رہی تم سے کیونکہ اس کے لیے بھی کسی قابل ہونا ضروری ہے اور بات کرتی ہو تم۔دعا اور تم میں فرق کی۔ تیز تیز بولنے سانس بھولنے لگی تھی
محبت کہنے سے نہیں ہوتی وہ کرتی ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنے رشتوں کے لیے اپنا آپ گنوا رہی ہے۔ اسے محبت کہتے ہیں۔ تم خود کو اس کے برابر کھڑا کرتی ہو۔ تم اس کے جیسی ہزار سال میں بھی نہیں بن سکتی۔ وہ یہاں رہتی ہے ۔ ۔ گوہر نے اپنے دل پر انگلی رکھی۔
اسے یہاں سے تم تو کیا وہ خود بھی نہیں نکال سکتی
وہ چھوڑ دے گی تمہیں۔ ماہی نے ہمت جٹائی
میں آفندی نہیں ہوں جو محبت چھوڑ دے۔ میں گوہر آفندی ہوں پوری دنیا سے لڑ سکتا ہو اس کے لیے۔ تو تم کیا چیز ہو۔ ۔ ۔ اسے ایسا کچھ کرنے نہیں دوں گا وہ کوئی بھی راستہ چنے وہ گھوم کر اسے مجھ تک لے آئے گا۔
میں مر جاؤں گی گوہر ۔ ۔ماہی اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔
مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج کے بعد مجھ سے میرے گھر کے کسی فرد سے کوئی تعلق نہیں تمہارا۔ آج کے بعد اپنی یہ شکل بھولے سے بھی مت دکھانا اور اگر تم نے پھر سے کوئی چیپ گیم کی میں تمہیں وہیں زندہ گاڑدوں گا۔ گوہر ایک نگاہ ڈال کر چلا گیا۔
نہیں۔ ۔ ۔ ماہی اس کے پہچھے ہوئی مگر وہ کمرے کا دروازہ زور سے بند کرتا نکل گیا۔ ماہی کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں۔
انسان محبت جیسے جزبے کو سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہا ہے۔ محبت میں اپنی ذات کی نفی کبھی قبول نہیں کرتا۔ وہ اس سچ سے واقف ہونے کے باوجود اسے تسلیم نہیں کرتا۔ مگر وہ خود کو جھوٹے دلاسے دیتا رہتا ہے مگر جب سچائی کسی ایسے شخص کے منہ سے سننے کو ملے تو انسان اپنی تزلیل برداشت نہیں کر سکتا
ایسا کیسے بول دیا اس نے۔ ۔ غصے میں بپھری وہ یہاں وہ دیکھنے لگی۔ پلیٹ میں پڑا چاقو اٹھایا اور کلائی پر چلا دیا خون کی ایک دھار کلائی کے دونوں سائڈوں سے ہوتی ہوئی زمین پر بہنے لگی۔
اللہ کچھ لوگوں کو ان کے کیے کی سزا زمین پر ہی بے آواز لاٹھی لیے تجویز کردیتا ہے حرام موت سے بڑی سزا کسی زی روح کے لیے نہیں ہو سکتی۔
آج صبح سے ہر کوئی ایک ہی بات لیے اس کے ارد گرد منڈلا رہا رھا دیا سے لے کر رضوان تک سب اسے یہی بات دھرا رہے تھے کہ وہ غلط فیصلہ نا کرے اپنا گھر یوں کسی کی وجہ سے خراب نہ کرے اب اسے سخت غصہ آنے لگا تھا دیا کی طرف سے شیری کے آنے کی اطلاع پر۔ وہ تیوڑی چڑھائے جیسے ہی اندر آئی حمدانی صاحب کو دیکھ کر وہ رکی۔
اسلام علیکم ۔ ۔ دعا سامنے آئی حمدانی صاحب کے عین پیچھے زی صوفے پر ہاتھ ٹکائے کھڑی تھی۔
واعلیکم اسلام ۔ ۔ کیسی ہو بیٹا۔ حمدانی نے مسکرا کر دعا کو دیکھا۔
اللہ کا شکر ہے انکل۔ ۔ دعا نے نظریں اٹھائیں زی دونوں کان پکڑے کھڑی تھی۔ دعا پزل سی ہوئی نظریں جھکا گئی
دیا میری بیٹی ہے بالکل ویسے ہی جیسے آپ ہو دعا۔
جج ۔ ۔ جی انکل۔ ۔ انکار تو نہیں کر سکتی تھی۔
تو بس یہ فیصلہ ہوا کہ دیا کی رخصتی اسی گھر سے ہوگی۔ وہ ایک دم فیصلہ سنا کر کھڑے ہوئے زی نے جھٹ سے کان سے ہاتھ ہٹائے
لیکن انکل ۔ ۔ دعا حیرانگی سے کھڑی ہوئی
یہ مناسب رہے گا دعا۔ شیری نے مداخلت کی
آپ ان کی وجہ سے اپنے گھر کو اگنور کر رہی ہیں بیٹیاں اپنے گھر ہی اچھی لگتی ہیں ۔ انہوں نے دعا کے سر پر ہاتھ رکھا۔
چلودیا اور دانی چلیں بابا بلا رہےہیں۔ زی نے جھٹ سے دونوں کو آواز دی وہ دونوں منٹ سے پہلے جی کرتے زی کے ساتھ چل دیے۔
بابا آپ چلیں میں آتا ہوں۔ ۔ حمدانی صاحب کو بھیج کر وہ دعا کے سامنے کھڑا ہوا۔
سب کی طرح تم بھی سمجھانے آئے ہو؟۔ دعا نے تلخی سے جتایا
نہیں۔ ۔ میں بس یہ کہنے آیا تھا کہ تم جو مرضی فیصلہ کرو گوہر کے ساتھ رہنے کا یا اس سے الگ رہنے کا میں دونوں صورتوں میں۔ ۔ ۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔
دعا کے شدتِ جزبات سے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے یہ آنسو دکھ کے نہیں تھے نہ کسی شرمندگی کہ یہ آنسو اس بےنام جزبے کی تحت تھے جس میں انسان اپنی مصیبت میں گھرے اپنے مسیحہ کو دیکھ کر تے جو اسے دنیا کی سب مصیبتوں کے بیچ اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
مگر تم اس کے بغیر رہ نہیں سکتی مان لو تم ۔ ۔ ۔ جا رہا ہوں۔ موبائل نکالے باہر نکلا گوہر کا نمبر کھول کر میسج ٹائپ کیا۔
Done!! Body she is alone at home.
دعا نے فون سے گوہر کا نمبر نکالا مگر اگلے ہی پل فون رکھ دیا۔ وہ مجھے ڈیزرو نہیں کرتے۔ کبھی عزت نہیں۔دے سکیں گے میری اس حرکت پر۔ ۔ ۔ میں کیا کرو۔ ۔ موبائل گھود میں رکھے وہ بس گھور رہی تھی۔
کوئی بہانہ نہیں بچا اب۔اسے گود میں موبائل رکھ کر گھورتے دیکھ بولا
آپ ۔ ۔ ۔ اندر کیسے آئے؟ وہ ششدر سی دیکھنے کھڑی ہوئی۔
بس اس جادو سے۔ ۔ گوہر نے گیٹ کی کیز لہرائیں۔
گوہر ۔ ۔ ۔ دعا واپس بیٹھ گئی
اب اور کچھ مت کہنا بس سنو ۔ وہ جو میں کبھی نہیں کہہ سکا۔ گوہر کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
تمہیں یاد ہے پہلی بار کب ملے تھے ہم؟
کلاس میں اور آپ نے ڈانٹا تھا۔ دعا کو یاد آیا جب لیپ ٹاپ مانگنے پر وہ گرج کر بولا تھا۔
نہیں اس سے پہلے۔ گوہر نے نفی میں سر ہلایا۔
اس سے پہلے تو نہیں ملے کبھی۔ دعا نے یاد کرنے کی۔کوشش کی۔
تمہیں یاد بھی نہیں۔ فارم سبمیشن کا لاسٹ ڈے تھا میں ونڈو بند ہونے کی ٹینشن سے بھاگتا ہوا آیا تھا فارم سبمٹ کروایا شدید گرمی سے برا حال تھا میرا جیسے ہی میں ٹک شاپ پر پہنچا ایک لڑکی فل ابایہ نقاب میں مجھے سخت قوفت ہوئی تھی دیکھ کر میں نے نظر انداز کر کے پانی آڈر کیا ٹک شاپ والے نے بولا ایک ہی بوٹل ہے جو وہ تمہارے آگے رکھ چکا تھا۔ تم نے مڑ کر مجھے دیکھا پانی کاؤنٹر سے میری طرف بڑھایا اور پیمنٹ کر کے چلی گئی۔
اب یاد آیا۔ گوہرپورا واقعہ دہرایا
ہاں ۔ ۔ ۔ دعا کو یاد آیا۔
وہ صبر تمہارا مجھے تمہارے بارے میں سوچنے پر مجبور کر گیا۔ ۔ ۔ تم چلی گئیں مگر مجھے ہمیشہ کے لیے ایک تجسس میں چھوڑ گئیں۔ اتنا صبر کیسے ہو سکتا ہے کسی میں۔ ۔ تمہیں پوری رات سوچنے کے بعد مجھے لگا ہر انسان جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے تم عیشل ماں کے بعد وہ پہلی لڑکی تھیں جسے میں نقاب کے حوالے سے جاناتھا۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا جو بہت زیادہ اسلامی دکھتے ہیں وہ عملی نہیں ہوتے دھوکے باز ہوتے ہیں اس لیے کلاس میں روڈ تھا میں تم سے۔ ٹرسٹ می دعا تمہیں ہرٹ کر کے میں سو نہیں سکا۔ تمہاری ذات کو جھٹلانا میرے لیے ہمیشہ مشکل رہا ہے۔
آپ ۔ ۔ ۔دعا نے کچھ بولنا چاہا مگر شی کرتے چپ ہونے کو کہا۔
پہلی نظر کی محبت ہو تم دعا جیسے میں نے ہمیشہ جھٹلایا۔ ہاں جانتا ہوں شادی کے بعد بہت برا کیا میں نے۔ میں نے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رکا نظریں دعا کے جھکے چہرے سے ہٹا لیں۔
میں نے اللہ سے کہا تھا اس نے مجھے تمہارا ساتھ کیوں دیا میں ایسی لڑکی ڈیزرو نہیں کرتا تھا جیسی تم ہو۔ ادھورے ایمان والی دھوکے باز۔ ۔ ۔ وقت نے ثابت کیا میں غلط تھا دعا میں بہت غلط تھا ۔ کبھی کبھار ہم صرف وہ دیکھتےہیں جو نظروں کے سامنے نہیں ہوتا مگر ہمارا ظرف دیکھتا ہے ۔ میں نے تمھیں سمجھنے میں غلطی کی ۔
Sorry...مجھے معاف کردو please۔
معاف کیا۔جھکی نظریں اوپر اٹھی کچھ تھاان میں۔
دعا میں تمہارے لیے چاند تارے توڑ کر نہیں لا سکتا مگر تم پر آنے والی ہر مصیبت کوپہلے مجھ پر سے گزرنا ہوگا۔ میں کوئی زبردستی کا قائل نہیں ہوں مگر میں تم سے جڑے اس رشتے سے دستبردار نہیں ہوں گا یہ دماغ میں بیٹھا لو۔ ۔ اسے اپنے فیصلے کو بھی جتا دیا۔
آپ دھمکی دے رہے ہیں۔ دعا کو یک دم اس پر پیار آیا تھا مگر چہرے کو سخت بنائے بولی
یہی سمجھ لو۔ ۔ ۔ دعا میں تمہارا ساتھ اس وقت کے لیے نہیں مانگ رہا نا ہی اپنی موت تک مجھے تمہارا ساتھ قیامت کے بعد جنت میں بھی چاہیے۔
جب میں اپنی گناہوں کی سزا بھگت کر جنت میں آؤں گا پھر میں اللہ سے تمہیں مانگوں گا۔
مجھے تمہارا ساتھ جنت میں میری حوروں کے سردار ہونے تک چاہیے۔
آپ نے بہت تنگ کیا ہے مجھے ۔ ۔ وہ جان کر شکائیت کررہی تھی
اب تم کر لینا۔
کب سے نتظار کر رہا تھا۔ کمرے میں چکر کاٹتا اسے دیکھ کر جھٹ بولا
کیوں؟۔ ۔ وہ رسان سے چلتی آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی
تمہیں آفس نہیں جانا کل؟ گوہر نے یاد دلایا
آفس نہیں کالج۔ دعا نے توصیح کرتے ہجاب اتانے لگی
تم اب تک خفا ہو زی اور مجھ سے ۔ ۔ وہ اٹھ کر آئینے سے ٹیک لگائے دیکھنے لگا
نہیں گوہر ایسی بات نہیں ہے۔ دعا کے ہاتھ رکے
تو پھر واپس آفس جوائن کرو۔ ۔
نہیں۔ میں اب یہی جاب کروں گی۔ سٹالر کو فولڈ کر الماری کے ہینڈل پر ہینگ کیا
دعا۔ ۔
گوہر میں پھر سے کسی کو کوئی موقع نہیں دوں گی کہ وہ مجھ پرپھر کوئی الزام عائد کرے۔ وہ بیڈ پر آ بیٹھی
انسان کاظرف اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اپنے پہ ہوئے ہر ظلم پر معاف کر دیتا ہے مگر اپنی توہین پر معاف کرنے کے باوجود اسے بھول نہیں پاتا۔
میرے ساتھ سافٹ وئیر ہاؤس میں پارٹنر شپ کرو گی۔ گوہر اپنی سائڈ پر بیٹھا کراسے دیکھا
آپ کا کونسا؟ وہ حیرانگی سے دیکھنے لگی
جو ہم مل کر بنائیں گے۔ ہم دونوں اپنا سکینڈل بھی آفورڈ کر سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ہیں نا۔ ۔ گوہر نے ماحول کی تلخی کم کی۔ دعا ہنسنے لگی
کیا ہنسنے والی کیا بات ہے؟۔ ۔ اسے یوں ہنستے دیکھ بولا۔
سوچوں گی۔ گڈ نائیٹ۔ وہ لائیٹ آف کر کے لیٹ گئی۔
تم سو گئی؟ دومنٹ کے وقفے سے پکارا
نہیں۔ کوشش کر رہی ہوں۔ دعا کو بولنا پڑا وہ جانتی تھی بات کئے بنا جان نہیں چھوڑے گا۔
مجھے نیند نہیں آرہی؟ آہستگی سے بولا
کوئی کتاب پڑھ لیں آجائے گی۔ دعا نےجھٹ سے حل بتا یا
میں کوئی سٹوڈنٹ ہوں؟ وہ منہ بسوڑ کر بولا
تو۔ ۔ دعا نے گہرا سانس لیا۔
تو کوئی اور آئڈیا دو۔ ۔ ۔ وہ تنگ کر رہا تھا
تو لوری سناوں ؟ دعا کو پانی ہی بات پر ہنسی آئی۔
میں کوئی بچہ ہوں؟ وہ بےزاری سے بولا
تو ؟ دعا نے الجھن سے پوچھا
باتیں کرو مجھ سے ـ ـ ـ گوہر نے دعا کی طرف کروٹ بدلج
اس وقت باتیں ؟ وہ حیران ہوئی
کیوں اس وقت میں کیا خرابی ہے؟
نہیں میرا مطلب ۔ ۔ ۔ باتیں کیا کریں اس وقت۔ ۔ بے تکی سی فرمائش۔ ۔
تم بہت ہی ٹیوب لائٹ ہو۔ ۔ ۔دیکھو بات کرنا ضروری ہے ۔۔۔ کیا بات کرنی ہے یہ ضروری نہیں۔ فوراً جواب آیو۔
اچھا ایک بات بتائیں۔ ۔ دعا کی نیند بھاگ گئی تھی
یہ ہوئی نا بات۔ پوچھو۔ ۔ وہ جوش میں بولا
آپ اسلامہ آباد جانے سے پہلے کیا کہنا چاہتے تھے۔ ۔ دماغ پر زور دیتے بولا
کہہ تو دیا تھا جس کے بعد تم نے فون تو دور کی بات فلاورز کے لیے بھی میسج نہیں کیا۔ گوہر مصنوعی ناراضگی سے بولا
آپ نے جو فلاورز بھیجے تھے۔ اس میں کارڈ بھی تھا۔
ہاں۔ ۔وہ جھٹ سے بولا
اسے آپ نے لکھا تھا؟
Yes! And i really mean it dua.
دعا نے لفظ دہرایا اور لائٹ اٹھ کر جلائیMean it.
ارے واہ لائٹ جلا کر دیکھو گی مجھے۔ ۔ ۔
اٹھیں آپ ۔ ۔ وہ بیڈ کے پاس کھڑی ہوئی
کیا ہوا۔ ایسے بھی دیکھ سکتی ہو۔ ۔ وہ ہڑبڑا کر دیکھنے لگا
اٹھیں۔ ۔ دعا نے کھڑے ہونے کا اشارہ کیا
وہ ایک دم اٹھ کر کھڑا ہوا۔
یار کیا ہوا تمہارے چہرے کا جغرافیہ کچھ خطرناک ایکسپریشنز دے رہا ہے۔ وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا پیچھے ہوتا ہوا کمرے کے دروازے میں رکا
ایک منٹ۔ وہ واپس مڑی دراز سے کچھ نکالا۔ ڈور کھول کر اسے باہر کیا۔ ہاتھ پکڑ کے اس کی ہتھیلی میں کارڈ پٹخا
How dare you mean it!
اور ہاں صبح جواب چاہیے مجھے۔ دعا نے دھک سے دروازہ بند کیا۔
یار دروازہ کھولو۔ ۔ ۔ کوئی دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔ وہ دھیرے دھیرے دروازہ بجانے لگا
کارڈ کو کھول کر دیکھنے پر وہ چند لمحے ساکت ہو گیا۔
یار اللہ کی قسم میں نے صرف سوری لکھا تھا۔ وہ پھر سے دروازہ بجانے لگا۔ بیٹھ کر کی ہول سے دیکھا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ یعنی تنگ کرنے کے موڈ میں ہے۔ ۔
یار پلیز ۔ ۔ جب دس منٹ تک دروازہ پیٹنے پر بھی نہیں کھلا تو وہ تڑخ کر بولا
ٹھیک ہے مت کھولو پھر صبح خود ہی سب کو جواب دیتی رہنا۔ جا رہا ہوں نیچے۔ وہ پیر پٹختا نیچے آیا۔
ارے بابا آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ نیچے آفندی صاحب صوفے پر براجمان تھے
کچھ بھی نہیں ٹی۔وی دیکھ رہا تھا۔ وہ مسکرائے
بند ٹی۔وی۔ ۔ ۔ گوہر نے بند ٹی۔وی۔ دیکھ کر آبرو اچکائی۔
ڈونٹ ٹیل می ماما نے آپ کو پھر سے کمرے سے باہر نکالا ہے۔ وہ ہنستا ہوا ساتھ بیٹھ گیا۔
آفندی نے معنی خیز نظروں سے دیکھا۔
کیا؟ ۔ ۔ میں پانی پینے آیا تھا۔ وہ گڑبڑا کر بولا۔
بیٹھ جاؤ مل کر دیکھتے ہیں۔ سنا میں نے سب۔ ۔ ۔
تمہارے ماما نے اچھی طرح سمجھایا ہے دعا کو تمہارے ساتھ بھی اب وہی ہوگا جو میرے ساتھ ہوتا ہے۔
وہ سر کھجاتا ہنسنے لگا
اختتام(ان کی لڑائی کبھی ختم نہیں ہونا۔ ۔ )
*** *** * * *** ***