گوہر نے سر عمیر کے کیبن پر دستک دی اور ایجازت پا کر اندر داخل ہوتے ہی سلام کیا۔
واعلیکم اسلام۔ مصروف نظر آتے سر نے اپنا چشمہ اتار کررکھا اور ٹیبل پر جھکے۔
اور پوچھنا تھا کچھ؟ ۔ سر نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
جی سر ۔ وہ بیٹھ گیا۔
ہم ٹاپک تو آپ کے گروپ کا بہت اچھا ہے مجھے لگا نہیں تھا کوئی وہ ٹاپک چوز کرے گا لیکن میں بہت خوش ہوں کہ آپ لوگوں نے اس ٹاپک کو چوز کیا۔
Thank you sir!
وہ جو گروپ چینچ کرنے کا کہنے آیا تھااسے سمجھ نہیں آٓیاکہ وہ کہے یا نا کہے۔
سر وہ میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ کیا ٹاپک مکس کیا جا سکتے ہیں ؟
بالکل سٹوڈنٹس کے نئے آئیڈیاز کوویلکم کیا جائے گااوریہی تو ہم دیکھنا چاہتے ہیں آٓپلوگ اپنی ابیلٹی کیسے ہم تک پہنچاتے ہیں
اوکے تھینک یوسر ۔
جیسے ہی وہ باہر آیا تو اسے کہیں دعانظر نہیں آٓئی۔
اف اب یہ پگلی کہاں چلی گئی۔ ماتھے پر ہاتھ رکھتا تیز تیز قدموں سے چلتا یہاں وہاں اسے ڈھونڈنے لگا ۔ تھوڑی دور جا کر اسی دعا بیسمنٹ کی طرف جاتی نظر آئی تووہ اسکے عین سامنے آرکا۔
تمہیں یہاں آنے کو کس نے بولا ۔ یک دم اس کی آٓواز نے دعا کو چونکا دیا۔
جی وہ ۔
میں نے تمہیں رکنے کا اشارہ کیا تھا نا۔اس کی نقاب میں جھانکتی آٓنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
نماز پڑھنی تھی۔ ۔ ۔ جاؤں۔ آٓپ پانچ منٹ رک جائیں گے پلیز ۔ اسے اس جملے کہ توقع نہیں تھی اس کے جملے میں کچھ تھا اسے خود سمجھ نہیں آیا ۔
اوکے کہتا اس کی پیچے چل دیا۔
دعا فیمیل مسجد میں چلی گئی تووہ باہر ہی کھڑا ہو گیا۔
پتہ نہیں کیا ہے یہ ؟ ہوسکتا ہے کہ یہ ویسی نہ ہو جیسی میں سمجھتاہوں
جو میرےساتھ ہوا اس میں اس کا کیا قصور وہ اپنی ہی سوچوں میں مگن دعا کی واپسی کا انتظار کرنے لگا
انسان ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم سمجھتے ہیں انسان کے خمیر میں ایک نہیں کئی روپ ہوتے ہیں سیاہ کی ملاوٹ کے بھی اور پورے سیاہ بھی اور روشن کی ملاوٹ کے بھی اور پورے روشن بھی مگر یہ ہنر ہر کسی میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنے سیاہ کو چھپا کر صرف روشن کردار دیکھا کر لوگوں کو اپنی ذات سے محبت کرنے پر مجبور کر سکے۔
کچھ لوگوں کے چہرے روشن ہونے کے باوجولوگ انہیں نہیں پہچان پاتے کونکہاللہ ان کے دل پر مہر لگا دیتا ہے وہ سیاہ اور روشن میں فرق نہیں کر پایا
دعا جیسے ہی مسجد سے باہر آئی گو ہر اس کی طرف بڑھا۔ تم کیا کہہ رہی تھی وہ مکس والی بات؟
دعا لوبی کی طرف چل دی تو دونوں چلتے ہوئے لوبی میں آگئے
اگر ہم دونوں ٹاپک ملا دیں تو
Operating System for Sensor Devices
بنے گا۔ بلائنڈز کے لیے جو کار بنی ہے اور ارتھ کوئک ڈیوائسزکے لیے جوآپریٹنگ سسٹم ہوتا ہے ہم اس پرکام کرسکتے ہیں
ان کی ایفی شنسی بڑھانے کے لیے ۔ پاک ارمی ۔ ۔ ۔
ٹھیک ہے سمجھ گیا میں ابھی جانا ہے مجھے ویسے بھی تم میرا کافی ٹائم برباد کیا ہے ۔ وہ گوگل آنکھو ں پر چڑھاتا پارک کی طرف مڑا۔
کیا یہ ٹاپک ٹھیک ہے اب؟ وہ تصدیق کرنے کو پوچھ بیٹھی۔
وہ مڑا اور اسے گھورتے ہوئے بولا۔
اب کیا اشٹام پیپر پر لکھ کر دوں تمہیں؟
گوہر کے جاتے ہی دعا نے سر اٹھایا۔
اللہ جی کیوں بار بار اس شخص کے ہاتھ مجھے اتنا ذلیل ہونا پڑتا ہےمیں جانتی ہوں عزت اور زلت صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہےتو جیسے چاہے دنیا جہاں کی عزت دے اور جسے چاہے دنیا کی آزمائش عطا کر کے اسے اپنے عزیز تر رکھ لے۔ اے میرے پروردگار ساتوں آسمانوں کے مالک اور جو ان میں سایہ فگن ہےاس کے پروردگار میری قسمت میں زلت نہ لکھ کجا کہ میں یہ کہنے کے بھی قابل نہیں میرے گناہ بےشک سمندر کے پانی جتنے ہوں پر تیری رحمت ان سب پر حاوی ہے تجھے اس رحمت کا واسطہ میرے اللہ جی تو مجھے کبھی ذلت کا عزاب نہ آزمائش دینا۔
اس شخص کے ہوتھوں مجھے اتنا زلیل نہ ہونے دینا کہ میں اپنے آپ کو بھی منہ دیکھانے کے قابل نہ رہوں۔
ذلت انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی اگریہی ذلت تاحیات اس کی ذات کے نصیب میں لکھ دی جائے تو مرنا آسان اور جینا مشکل ہو جاتا ہے
شہری یار ہم نےخاخواہ اس بیچاری کو اس دیو کے پاس بھیج دیا۔ رضوان نےپریشانی سےکہا
دیو؟ شہری نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا
ہاں جیسی اس کےتیور ہیں دیو ہی لگتا ہے مجھے۔ رضوان نے گوہر کے متعلق خیالات کا اظہار کرتے کہا۔
ہاں اتنی دیرہو گئی ہے اب تو مجھے ٹینشن ہو رہی ہے۔ گوہر کو اگر ہمارے ساتھ کام نہیں کرنا تو نا کرے ہم تینوں ہی کافی ہیں۔میں فون کرتا ہوں دعا کو ۔ شہری فون ملانے ہی لگا تھا کہ سامنے سے دعا آتی دکھائی دی۔
شکر ہے تم آ گئی ورنہ ہم تو پولیس سٹیشن جانے لگے تھے تمہارے گمشدگی کی کمپلین کروانے۔ شہری نے شرارتی لہجے میں کہا۔
کیا کہا اس دیو نے؟رضوان نے پریشانی سے پوچھا۔
دیو؟ وہ حیران ہوئی تھی
ہاں دیو ہی ہے وہ ہمارے لیے بتاو کیا کہا اس نے؟۔ اب کی بار شہری نے کہا۔
وہ کہہ رہے ہیں وہ کل ملیں گے ٹاپک ڈکس کرنے کے لیے آج ان کو کام ہے ؟
کیا مطلب ۔ ۔ ۔ کیا وہ مان گیا ہے ؟شہری نے حیرانگی سے پوچھا۔
جی۔ دعا نے بیگ زمیں پر رکھااور خودبھی وہیں بیٹھ گئی۔
اس دیو کو منا کیسے لیا تم نے؟ رضوان کو ابھی تک یقین نہیں آیا۔
میں نے ان کے اور ہمارےٹاپک کو ملا کے نیوٹاپک بنایا تھااور وہ مان گئے۔ آپ کو کوئی ایشو تو نہیں نا؟دعا نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
نہیں دعا ہمیں کیوں ہوگا ایشو اس دیو کو ہی مسئلہ تھا اب حل ہوگیا ہے مسئلہ تو پھر چلو کل ملتے ہیں ۔ رضوان اللہ حافظ کہتا چل دیا۔
رضوان بھائی آپ ان کو دیوکیوں کہہ رہے ہیں میری امّی ہوتی نا یہاں تو ایک لمبی چوڑی تقریر ہو جانی تھی۔
رضوان دروازے سے مڑا ۔ ویسے میری آلریڈی ایک بہن ہے وہ بھی شادی شدہ تم نے اتنے مان سے کہا ہے توکیا یاد کرو گی کہہ لو۔
شکریہ مجھے لگا آٓپ کو برا لگا۔
نہیں اور رہی بات اس دیو کی میں تو اب یہی کہو گا اس کی حرکتیں ہی ایسی ہیں ۔ مسکراتاوہ دروازے سا باہر نکل گیا۔
چلو شہری آپ کو نہیں جانا ؟
شہری کو یوں چپ چاپ بیٹھے دیکھ کر دعا نے پکارا۔
نہیں ۔ مختصر جواب دیتے وہ زمین کو گھورنے لگا۔
کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا۔؟
مجھے بھوک لگی ہے؟ ناخن رگڑتے شہری نے مدہم آواز میں کہا۔
لو میرالنچ کر لو۔ دعا نےاپنے بیگ سے لنچ نکالتے آفر کی۔
تو تم کیا کھاؤ گی؟ لنچ پکڑتے ہوئے کہا۔
امّی دو لنچ بنا کر دیتی ہیں صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا۔لنچ لیکن آج آفس میں کافی کام تھا تو میں نے دیر سے ناشتہ کیا اس لیے لنچ بچ گیا۔
یہ تو بہت اچھا ہے۔ لنچ کرتے ہوئے شہری نے تعریف کی
کل بھی کچھ لے آٓو گی؟ شہری کی کھانے پر نیت خراب ہو رہی تھی۔
چلو کل بریانی بنا کر لے آوں گی سب کے لیے کل میری آٓفس سے چھٹی بھی ہے۔
چلو ڈن ہو گیا ۔ میں کچھ بیکری آئٹم لے آوں گا۔
چلو میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں ۔ شہری نے اسے گھر تک کی لفٹ کی آفر دی۔
نہیں میں چلی۔جاؤگی ویسے بھی مجھے ابھی ایک کام ہے مارکیٹ جانا ہے پھر جاوں گی گھر ۔
وہ اوکے کہتا پارکنگ کی طرف مڑ گیا۔
دعا اور شہری مقررہ چگہ پر بیٹھے رضوان اور گوہر کا انتظار کر رہے تھے
اب تورمضان شروع ہو نےوالا ہے تو کیا یونیورسٹی کی ٹائمنگ چینج نہیں ہوں گی رمضان سے پہلے ہو جاتی توبہتر تھا۔ دعا نے تشویش کا اظہار کیا۔
نہیں سب چھ بجے کی کلاسس چار بجے پر میپ ہو جاتی ہیں ۔ ڈونٹ وری پورٹل پر اپ ڈیٹ ہو جائیں گی ٹائمنگز۔ شہری نے اپنا بیچولرز کا ٹائم بتایا۔
اچھا کھا لو ۔ بریانی کا ڈبہ اور پلیٹس اس کی طرف بڑھتے بولی۔
اوئے تم تو پلیٹس بھی لائی ہو وہ ۔ شہری پلیٹس میں ڈال کر تیزی سے کھنے لگا
میں آتیں ہوں کہہ کر وہ چلی گئی کیفے سے پانی خرید کراس کے سامنے رکھا
شہری نے اشارےسے شکریہ کہاتو وہ آرام سے بیٹھ کراسے دیکھنے لگی
جب وہ کھانے سے فارغ ہواتو ڈبہ بند کرتے ہوئے بولی۔
میرے ابا کی ڈیتھ ہوئےتقریباً دس سال ہوگئے ہیں وہ دن میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ اور کبھی نا بھولنےوالا دن تھا۔ پتا ہے وہ کبھی بھی ہمارے لیے وہ شفیق باپ نہیں تھے جتنے وہ شفیق بھائی اور ماموں تھےمجھے شائد وہ محبت کبھی نہیں ملی جس کی مجھے چاہ تھی پھر بھی ان کی موت اتنی تکلیف دہ ہوگی مجھے اس کا اندازہ تب ہوا چب روز میں سکول سے گھر جاتی تو روز آنے والی وہ آواز کہ دعا پانی لاؤ دیا ادھر آؤ یہ جوتے رکھو نہیں سنائی دیتی تھی
جب وہ تھے تو مجھے اس آواز پر کبھی کبھی غصہ آتا کہ ہمیں ہوم ورک کرتے اٹھا کر کام کہہ دیتے ہیں اور کام کرنے کا انعام صرف ایک مچلز ٹافی دے دیتے تھے جو ایک روپے کی دو آتی تھیں ان کے جانے کے بعد احساس ہوا انہیں اس پانی کی چاہ نہیں ہوتی تھی کیونکہ وہ لفظوں میں اپنی محبت کا اظہار نہیں کرتےتھے انہیں تو صرف اپنے بچوں کا چہرہ دیکھنے کی چاہ ہوتی تھی اب میں دعا کرتی ہوں کاش وہ کہیں سے ایک دن کے لیےآ جائیں تو میں ان کے وہ تمام کام کر سکو بغیر ٹافی کے لالچ کے صرف ان کا چہرہ دیکھنے کے لیے۔
ہم بچے اپنے ماں باپ کی خاموش محبت سے واقف ہوتے ہیں مگر اس کا احساس نہیں ہوتا جب احساس ہوتا ہے تب ماں باپ نہیں رہتے۔
دعا کی بھرائی ہوئی آواز خاموش ہوئی تو وہ آنسوصاف کرنے لگی۔
کل بابا سے لڑائی ہو گئی میری بس غصے میں تھا میں کھانا نہیں کھایا۔ شہری سر جھکائے بولا
آپ کولگتا ہے کہ آپ کے بابا نے کھایا ہوگا؟ آنکھیں اس کے چہرے پر جمائےوہ کہہ رہی تھی۔
انہیں مجھ سے نہ میری ماں سے محبت تھی انہیں پیسے سے محبت ہے ۔ دل کے پنہاہ کونے میں چھپے درد کو کہہ بیٹھا جواسے ہمیشہ تکلیف دیتا تھا۔
اچھا ۔ ۔ ۔ وہی پیسہ جس کی وجہ سے آپ پاکستان کی اس لیڈنگ یونیورسٹی میں بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔ایک بار خود کوآئینے میں دیکھو کیاآپ میں آپ کاکچھ ہے؟
ہم میں ہمارا کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ کچھ اللہ کا ہے کچھ ماں کا اور کچھ باپ کا باقی تو کچھ بچا ہی نہیں ۔ لیکن ہم خود میں خود کے علاوہ کچھ دیکھنا ہی نہیں چاہتے ۔
رشتے تو اللہ کی آزمائش ہیں ان رشتوں میں اتنابھرم رہ جانا چاہیے جب ان کےسامنے جائیں تو کبھی شرمندگی سے نظریں جھکانی نہ پڑیں ۔
وہ بس چاہتے ہیں ہر بات ان کی ٹھیک ہے باقی سب غلط ۔
تو جب تک بتائیں گے نہیں انہیں الہام تو ہونے سے رہا
دعا ؟شہری نے پکارا
ہممم۔
تھینک یو ۔ ۔ ۔ شائد میں کبھی اس بات کو سمجھ نہیں پاتا
ویسے تمہیں کیسے پتا لگا میں پرہشان ہوں۔ شہری نے حیرانگی سے پوچھا
یہ راز ہے۔ اچھا میرے دوسرے سبجکٹ کی ایک۔آسائینمنٹ ہے سر توقیر آگئے ہوں گے میں دے کر آتی ہوں۔
دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے پہلے اپنے زخم دیکھانے پڑتے ہیں اور یہ ہنر وہ لڑکی باخوبی جانتی تھی۔
دعا کے جانے کے کچھ لمحے بعد گوہر آگیا اور آتے ہی شہری سے مصافہ کر کے باقی سب کا پوچھا۔
دعا ایک کام سے گئی ہے اور وہ رضوان بھی آگیا۔ سامنے رضوان کو آتا دیکھ کر بولا۔
رضوان آتے ہو ملا اور بولا
چلو بھائی بریانی کے درشن کرواؤ کہا ں ہے؟
میں تو کھا چکا اب آپ دونوں کھائیں۔ شہری نے ڈبہ رضوان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
پہلہ چمچ لیتے ہی رضوان بولا۔
وہ آج کل شان فوڈز کی کمرشل ہے نا
کون مرید نہیں اس دا
اس دا ہی ہنر کھیچ دا
سہی گانا بنایا ہے بریانی ہو اور دل نہ کھیچے یہ ہو نہیں سکتا۔
واقع ہی بہت اچھی ہے تھینکس شہریار ۔گوہر بھی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا ۔
دعا تقریباً بھاگتے ہوئے آئی ۔ اپنا بیگ اٹھایا
دعا کو یوں دیکھ کر شہری نے پوچھا کیا ہوا دعا سب ٹھیک تو ہے نا؟
ہاں ٹھیک ہے۔ وہ گڑبڑا کے بولی مگر اس کی پریشانی دیکھائی دیتی تھی۔
میری براؤزنگ اچھی ہے تو میں کونٹنٹ سر کروں گا۔ رضوان نے اپنے کام بتایا
میں کونٹنٹ کو سمرائز کر لوں گا۔ شہری نے کہا
اب تم دونوں دیکھ لو پوسٹر کون بنائے گا اور پریزنٹ کون کرے گا ؟ رضوان نے دونوں کو خاموش دیکھ کر وضاحت کی۔
مجھے جو بھی دیا جائے گا میں کر لوں گی ۔ آپ لوگ پلیز ڈسکس کر کے مجھے بتا دیجیے گا۔ مجھے جا نا ہے آئی ایم سوری ۔
کوئی بات نہیں دعا کوئی پرابلم تو نہیں ہے نا سب ٹھیک ہے نا؟ رضوان نے فکر مندی سے پوچھا۔
ج جی ۔ ۔ ۔
تمہارا ڈبہ ؟ شہری نے یاد کروایا۔
نہیں آپ گھر لے جانا میں چلتی ہوں فی ایمان اللہ۔ وہ اپنی بات مکمل کرتی تیزی سے نکل گئی۔
دعا کے نکلتے ہی گوہر کی آنکھوں نے دور تک پیچھا کیا اور جب وہ آنکھ سے اوجھل ہوئی تو وہ پلیٹ رکھتا اٹھ گیا۔
گوہر تم بتا دو گے اسے ؟ رضوان نے گوہر کو دروازے کی طرف بڑھتے دیکھ کر کہا۔
ہاں ۔ کہتا وہ نکل گیا
یہ بھلا پوچھنے کی بات تھی ؟شہری کو رضوان کا پوچھنا نہیں بھایا۔
ارے اس دیو کا کیا پتا کل اس بات پہ پھڈا ڈال کے بیٹھ جائے۔
دعا پریشان لگ رہی تھی پتا نہیں کیا بات تھی۔ شہری نے پریشانی سے کہا۔
مجھے بھی لگا مگر شائد وہ بتانا نہیں چاہتی تھی۔ رضوان نے اپنے دماغی گھوڑے دوڑاتے ہوئے کہا۔
آئی ہوپ سب ٹھیک ہے
ساری خواتیں دندناتے ڈرائنگ روم میں اْتے ہی ان میں سے ایک چلائی کہاں ہے ماہی۔۔ ۔ ۔ ۔
زرینہ بیگم آواز سن کر کچن سے نکل کر ڈائنگ روم میں آئیں۔
جی آپ کون؟
آپ ہی ہمارے گھر آئیں تھی نا نکالواپنی بیٹی کو باہر ۔ خاتون نے گرجدارآواز میں کہا
دعابھی اندر آگئی۔
امّی میں ان کو بتا چکی ہوں یہ ماہی کا گھر نہیں ہے پھر بھی۔ ۔ ۔
تم چپ کرو ۔ خاتون نے دھمکی آمیز لحجے میں دعا سے کہا۔
دیکھیں آپ ہیں کون ؟ اور ہوا کیا ہے؟کچھ بتائیں تو سہی زرینہ بیگم نے تشویش سے پوچھا۔
اچھا تو اب آپ ہمیں نہیں جانتیں ۔۔ ہاں ابھی بتاتی ہوں میں ۔ ۔ ۔ خاتون واپس گیٹ کی طرف گئی اور کچھ ہی دیر میں اپنے ساتھ ایک بزرگ خاتون کو اپنے ساتھ لے آئی۔ بزرگ خاتون نے آتے ہی کہا ۔
ایسے کیسے نہیں جانتی اپنی بیٹی کے ساتھ ہمارے گھر آٓئی تھی تم۔
اچھا آپ ۔ زرینہ بیگم نے انہیں پہچانتے ہوئے کہا۔
بتائیں آئی تھی نا۔ بزرگ خاتون نے کہا۔
جی میں آئی تھی لیکن ہوا کیا ہے؟کچھ پتا تو چلے
پہلے تو مان بھی نہیں رہی تھی یہ اب کیا ہوا
پہلے والی خاتون نے جتایا۔
میں تو بیٹا آپ سے ملی بھی نہیں آپا سے ملی تھی توان کی شکل مجھےیاد ہے۔ زرینہ بیگم نے کہا۔
تو یہ کیوں کہا کہ یہ ماہی کا گھر نہیں ہے۔ چلاک دکھنے والی نے پوچھا۔
جب یہ ماہی کا گھر نہیں ہے تو یہی کہیں گے نا۔ اب کی بار دعا نے جواب دیا۔
دیکھیں میری بیٹی کا نام دیا ہے اس لیے ایک دم پریشان ہوں گئے ۔ ہوا کیا ہے ؟
زرینہ بیگم نے وضاحت دی۔
ہے کہاں آپ کی بیٹی ؟ پہلے والی خاتون نے پھر پوچھا۔
وہ تواپنی کالج گئی ہوئی ہے کچھ کام تھا۔
اس کا نمبر دے دیں ۔ بزرگ خاتون نے کہا۔
دعا نمبر دو۔ زرینہ بیگم کہتی واپس مڑی
آٓپ اس طرح آئیں سب خیریت تو ہے ؟
دعا نے بے چارگی سے ماں کو دیکھا۔
امّی لیکن ان کے پاس ہونا چاہیے اگر یہ دیا کو جانتی ہیں تو۔ دعا ان کے اس طرح اندر آنے سے کافی پریشان تھی۔
ہاں ہاں تھا عدیبہ کے پاس تھا لیکن فون گم گیا اس کا اب اس نے تنگ کیا ہوا ہے کہ نمبر چاہیے شادی ہو جانی ہے اس کی پھر کہا دوستوں سے مل سکے گی۔ بزرگ خاتون نےجواب دیا۔
زرینہ بیگم نے پھر نمبر دینے کا کہا تو دعا کو چارو ناچار دینا پڑا۔
زرا پانی تو پلا دیں ۔ ان میں سے ایک خاتون نے کہا
معاف کیجیے گا ایک دم سے زہن میں نہیں آیا دعا بچے سب کے لیے کچھ لے آو۔
نہیں سب کاروزہ ہے بس میرے اور آپا کے لیے لے آئیں ۔ خاتون اپنے اور بزرگ خاتون کی طرف اشارہ کرتے بولیں۔
دعا شربت بنا کر لے آئی جسے وہ پینے کے بعد چلی گئی۔
دعا نے ششوپنج میں گیٹ لاک کیا اورآتے ہی ماں سے پوچھا کون تھی یہ؟
دیاکی دوست کے گھر والےتھے اس۔ زرینہ بیگم۔نے جواب دیااور کچن میں چل دیں
دیا بھی ان کےپیچے پیچےکچن میں ہی آگئی۔
وہ توٹھیک ہے لیکن آپ کو نہیں لگتا نمبر لینے اس کی دوست کو آنا چاہیے تھا نا کہ اس کا پورا خاندان اٹھ کے آجاتا۔
بیٹا اس کا تو ابھی ابھی نکاح ہوا ہے اب اس طرح وہ لڑکی گھر سے باہر تو نہیں نکالیں گی نا ۔ کہتے ہی اپنے کام میں مصروف ہوگئیں۔
پتا نہیں کیوں مجھے یہ سب عجیب لگا۔ ایسی بھی کیا دوستی کہ پوراخاندان نمبر لینے آپہنچے۔ دعا کو ابھی بھی تصلی نہیں ہوئی۔
اسلام و علیکم خاور کیسے ہوں ؟ شہری نے آتے ہی اپنے ہم عمر ملازم سے دوستانہ لیجے میں پوچھا۔
واعلیکم اسلام صاحب میں بہت ہی اچھا ہوں آپ تو جانتے ہی ہیں ؟ ہمیشہ کی طرح وہ شرارتی سا لڑکا اپنی ہی دھن میں مگن کہہ رہا تھا۔
اچھا بابا نے کھانا کھایا؟ شہری اپنے مدے پر آیا ۔
ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتی ان کی لڑتے آپ ان سے ہیں اور کھانا وہ بھی نہیں کھاتے اور آپ بھی۔ خاور نے آفسردگی سے کہا۔
اچھا یہ بریانی لو اور گرم کر کے انہیں نیچے لے آؤ ۔ شہری حکم صادر کرتا اپنے کمرے کی جانب مڑگیا۔
وہ نہیں ائیں گے بی پی لوکر کے اوپر بیٹھے ہیں منہ بنا کے۔ خاور نے وہیں کھڑے کھڑے آواز لگائی۔
اچھا گرم کر کے انہیں ان کے کمرے میں ہی دے آؤ۔ شہری نے بغیر مڑے کہا۔
میں نہیں جا رہا صبح سے دو دفعہ اسی بات پے اپنی عزت افزائی کروائی ہے۔ڈانٹ پلا دیتے ہیں جب بھی کھانے کا کہتا ہوں میری تو کوئی عزت ہی نہیں ہے ۔ خاور نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
یا پلیز لے آؤ نا میں بھی آتا ہوں وہیں ۔ شہری منت پر اتر آیا
اچھا اچھا پھر ٹھیک ہے عزت افزائی بٹ جائے گی۔ شہری ہنستا ہوا کمرے میں آگیا۔ الماری سے کپڑے نکال کر فریش ہو کر کمرے میں آیا آئینے میں جس کے ایک کونے میں اس کی ما ں مہتاب کی تصویر تھی تودوسری طرف مائکل جیکسن کی کے سامنےبرش کرنے لگا
برش کر کےوہ باہر آیا باپ کے کمرے کے باہر کھڑا خود کی ہمت بندھا رہا تھا کہ اندر سے خاور کی مدہم آواز آئی۔ تو شہری نے جھٹ سے دوازہ ناک کر کے ناب گھماکے کولا اور ایجازت طلب لہجے میں پوچھا میں اندرآجاوں۔
وہ جو چہرے پر غصہ جمائے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے نظر آرہے تھے دروازے کی طرف نظر اٹھاتے ہی چہرے کے تنے ہوئے تاسرات بدل کے نرم پڑے جس کے ساتھ ہی حمدانی صاحب نے سے کے اشارے سے اندر آنے کا کہا۔
شہری آہستہ آہستہ چلتا ہوا بیڈ کے پاس آیا ۔
خاور پلیز دین با با سے کہہ کر کچھ میٹھا بنوا دو۔ خاور سر ہلاتا کمرے سے نکل گیا۔
وہ۔ ۔آ۔ ۔ میں نے خاور سے کہا تھا یہ لانے کو۔
شہری نے اپنے آپ کو مرکب کرتے کہا۔
ان کی آنکھوں میں آئی نمی بتا رہی تھی کہ وہ اس پر دل سے کتنے نثار ہوئے تھے۔
آ ۔ ۔ آپ کھائیں نا۔ ۔ چمچ میں چاعل ڈال کے نظر اٹھا کے دیکھا
بیٹا نہیں کھائے گا تو باپ کے حلق سے ہانی بھی نہیں اترے گا۔
اسے تکلیف ہوئی وہ جو دونوں دن بیٹ بھر کے آیا تھااس کا باپ دو دن سے یہ سوچ کے حلق سے پانی بھی نہیں اتار سکا کہ اس کا بیٹا بھوکا تھا۔
کبھی کبھی انسان اتنا خود غرض ہو جاتاہے کہ سوری جیسے معمولی لفظ کو کہنے میں انا کا مسلہ بنا دیتا ہے اور ساری زندگی اپنے لیے تنہائی منتخب کر لیتا ہے لیکن معافی مانگنا اسے گوارا نہیں ہوتا۔
شہری سوچ کر ایک انسو حلق سے اتا کر خوش گوار خود کو بناتا گویا ہوا
بابا مل کے کھاتے ہیں۔
بریانی کا آخری چمچ لیتے حمدانی صاحب بولے۔
یہ لائے کہا ں سے ہو بہت اچھی ہے۔
وہ یہ میری ایک دوست لائی تھی یونیورسٹی میں ۔ شہری نے دعا کا نام لیے بنا بتایا۔
اچھا چلو پھر اسے گھر انوائیٹ کرو اسے تھینک یو بنتا ہے۔
با ۔ ۔ با وہ ۔ ۔ ۔ وہ نہیں آئے گی ۔ شہری ہچکچاتے ہوئے کہا۔
کیوں ؟ وہ حیران ہوئے
آ وہ بابا وہ تھوڑی الگ ہے۔ شہری کو سمج نہیں آیا کہ کیاکہے دعا کو ڈسکرائب کرنے کے لیے۔
چلو میں نے کل تمہاری یونیورسٹی میں آنا ہے بزنس کے سٹوڈنٹس کو لیکچر دینے کے لیے ڈین نے انوائٹ کیا ہے ملوا دیانا ۔
جی اچھا۔
گوہرکو اتے دیکھ کر رضوان نے کہا
آپ نے دعا کو کام بتا دیا تھا ؟
بھول گیا؟
’’میں کیوں کال کرتا خود بھی وہ پوچھ سکتی تھی‘‘
زہن میں سوچتا مختصر جواب دیتا وہ بیٹھ گیا ۔
رضوان اور شہری نے سوالی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کیا عجیب شے پلے پڑ گئی ہے۔
ہم دونوں نے اپنا کام کر لیا ہے دعا کو اور تم کو میل کر دیے ہیں اب ہم نہیں ائیں گے جس دن پوسٹر سیشن ہےاسی دن ائیںگےاب ۔ شہری نے اپنا مدعہ بتا یا۔
وہ کب آئے گی؟ موبائل پر کچھ ٹائپ کرتا بظاہر لاپروائی سے پوچھ رہا تھا۔
کل سے اس کا کوئی رپلائے نہیں آیا ۔رضوان نے کہا
لا پرواہی کہ بھی حد ہوتی ہے۔ سخت لہجے میں کہتا لیپ ٹاپ کھول رہاتھا۔
وہ لا پرواہ نہیں ہے اپنا کام جانتی ہے آپ اپنا کام کر لووہ اپنا کر لے گی ۔ تلخ لہجے میں کہتا اپنا بیگ اٹھاکر رضوان کی طرف متوجہ ہوا
مجھے ایک کام ہے بعد میں ملتے ہیں ۔ ۔ ۔
رکو میں بھی آتا ہوں
ساتھ چل دونو ں فوڈ سٹریٹ کی طرف بڑھے یار میں اب کبھی کوئی پراجیکٹ اس بد تمیز دیو کے ساتھ نہیں کرو گا کوئی لیحاظ ہی نہیں اس کو کہ کسی لڑکی سے کیسے بات کر نی ہے ۔ شہری کو بے حد غصے میں بولا۔
جانے دو۔ رضوان بات کو چھوڑنا چاہتا تھا
ہائے گوہر۔ مہ جبیں نے گوہر کو دور سے پکارا
ہائے ماہی۔ ہاتھ ہلاتا وہ مسکرایہ
کیسے ہو اج کل نظر ہی نہیں آتے اس بہن جی نے تمہیں بہت ہی بزی کر دیا ہے۔ حقارت سے کہتی اس کے ساتھ بیٹھ گئی
دعا نام ہے اس کا۔ آرام سے کہتا وہ لیپ ٹاپ سے متوجہ ہوا
اچھاوہ ماما کہ رہی تھی کل کی گیٹ ٹو گیدر کے لیے زرا ٹائمنگ کا خیال رکھا جائے سپیشلی تم ۔
ماہی میں تو نہیں اْسکوں گا ۔ گوہر نے انکاری زبان میں کہا
او ہیلو میرا کزن میری برتھ ڈے میں نا آیا نا تو بس میں کوئی سیلی بریشن نہیں کروں گی بس ۔ وہ مان سے کہتی اسے دیکھ رہی تھی
اچھا ٹھیک ہے ۔ وہ فوراً ماننے والے انداز میں بولا
اوکے میری کلاس ہے جاتے ہوئے مجھے پک کر لینا آج گاڑی نہیں لائی۔ بیگ سمبھالتی وہ اٹھ گئی۔
Assalam o Alikum!
I hope this email finds you in good health and prosperity. As per instructions i have done my work some content was reguired but i have found it by myself. I am attaching poster if any one want to change anything thing have any suggestion regarding this do let me know.
PFA,
Kind regards,
Dua Hameed
دعا کی ای میل پڑھتے ہی اسے حیرت کا جھٹکا لگا
کیا چیز ہے یہ اتنی جلدی اس نے یہ کام کر بھی لی۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ شہری کی آواز آئی۔
دعا نے کام کر لیا ہے جیسا میں نے کہا تھا well check your email
دیکھ لوں گا ۔ مختصر جواب دیتا وہ چل دیا۔
آرام سے برخوردار کہا بھا رہے ہواتنی جلدی ۔ گوہر ابھی بینچ سے اٹھ کر دو قدم ہی چلا تھا کے کسی بزرگ سے ٹکرایا ۔
میں بے دھیانی میں چل رہا تھا۔ I am Extremely sorry sir
کوئی بات نہیں بابا یہ اکثر ہی بے دھانی میں ہی چلتے ہیں شہری کی پیچھے سے آواز آئی تو گوہر نے مڑ کر دیکھا۔
بابا یہ میرے گروپ فیلو ہیں گو ہر اور یہ رضوان ۔شہری نے دونوں کی طرف اشارا کر کے تعارف کروایا
پر جوش انداز میں ملتے ہوئے وہ مخاطب ہوئے اور بھائی وہ بریانی دوست کہا ہے میں تواس کاشکریہادا کرنے آیا تھا۔
وہ نہیں آئی آج انکل۔ اب کی بار رضوان نے جواب دیا۔
کیوں ؟ حمدانی صاحب نے چشمہ سیٹ کرتے ہوئے کہا۔
پتا نہیں کیوں نہیں آئی ۔ شہری نے ماتھے پر ائے بال انگلیوں کا ہل چلا کر پیچھے کرتے کہا۔
ارے یہ تو بہت غلط بات ہے آپ تینوں کو کو خبر ہونی چاہیے اپنے دوست کی ۔ ہمارے زمانےمیں توہمیں اپنے دوستوں کے اگلے بولنے والے جملوں کا بھی علم ہوا کرتا تھا
آپی؟ دانی سر خجاتا اندر داخل ہوا۔
جی بیٹا ؟ لیپ ٹاپ پر مصروف نظر آتی دعا نے بغیر دیکھے پیار سے جواب دیا ۔
امی اب ٹھیک ہیں نا؟ پریشانی کے انداز میں پوچھتا وہ بیڈ پر بیٹھ گیا۔
وہ بالکل ٹھیک ہیں ۔ بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ تھا۔ دعا نے اس کی پریشانی بھانپتے اس کو تسلی کے انداز میں کہا۔
پھر انہوں نے ہوچھا کیوں تھا کہ میں کون ہوں ؟ کیا وہ بھول گئی ہیں ؟ آنکھوں میں جھانکتے آنسو بتا رہے تھے کہ بچے کا ماسوم زہین اس بات سے دکھی ہوا تھا
نیم بے ہوشی میں انسان جلدی سے جوشارٹ میمری ہوتی ہے وہ ریکور نہیں ہوتی تواسے کبھی کبھی نام یاد نہیں آتے اب دیکھا وہ آپ کو آج پیارکر رہی تھی ۔ دعا نےاسے تکنیتی بات سمجھائی۔
اب ماما کب آئیں گی گھر ؟ ماں کو ملنے کی خوائش دل میں جاگی۔
بس کل آجائیں گی۔
اچھا دیکھ کرآو دودھ ابل گیا تو گیس بند کردینا میں یہ میل کر لوں پھر امی کے پاس جائیں گے۔
اوکے میں آپ کا فون بھی لے جاؤں گا گیم کھیلیں گی امی ـ وہ ما کی گزشتہ عادت کو یاد کر کے مسکرایا
اسلام و علیکم میں دانی آپ کون ؟
میں گوہر بات کر رہا ہوں۔دوسری طرف سے آواز آئی
اچھا تو میں کیا کروں ؟ گیم کھیلتے دانی کو یو ڈسٹرب ہونا جھنجلا گیا تھا
لگتا ہے سارا خاندان پاگل ہے۔ گوہر نے فون بند کرتے پہلا کام نمبر ڈلیٹ کیا اور فون زور سے بیڈ پر تقریباً پھینکنے کے سے انداز میں رکھا اور بیٹھ گیا۔
دروازے پر کسی کے دستک دہنے پر اس نے مڑ کر دیکھا اور اٹھ کر کھڑا ہوا
اسلام و علیکم بابا اندر آئیں ۔ گوہر نے اپنی تیوری ممکنات کی۔حد تک درست کرنے کی کوشش کی۔
وا علیکم اسلام میرا قابل بیٹا کافی دینوں سے اداس لگ رہا ہے۔ ڈاکٹر آفندی نے اندر آتے ہی اپنے سب سے بڑے بیٹے کرے کندھے کو تھپتپاتے ہوئے بیٹھنے کا اشارا کیا ۔
نہیں بابا ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ وہ بس ایک گروپ اسائنمنٹ پر کام ہےاسی لیے۔
خاموش رہنے والے بیٹےکے اتنی وضاحت دینے پر وہ سمجھ گئے کہ بات کچھ اور ہے۔
تو کوئی دوست بنایا؟ ڈاکٹر آفندی بات کو بدل گئے
بابا آپ جانتے ہیں مجھے دوست بنانا نہیں پسند ۔ ۔ ۔ سنجیدہ رہنے والے اپنے بیٹے کی تنہائی انہیں ہمیشہ کھلتی تھی ۔
اچھا چلو زرا مجھے آج ہسپتال تو چھوڑ آو۔ ڈاکٹرآفندی اس کے زہین کو تبدیل کرنے کی غرض سے کہہ کر اٹھ گئے۔
گوہر جی کہتا ان کے پیچھے لاونچ میں آگیا۔
سامنے صوفے پر پاؤں اوپر کے بیٹھی ناراض ناراض سی خود سے بولی آج میں کسی سے بات نہیں کروں گی کوئی مجھے نا بلائے بس۔
گوہر اپنی چھوٹی بہن نے مصنوئی ناراضگی پر مسکرا کر اس کے پاس بیٹھا
کیا ہوا زی؟
سوری آپ کون؟ ۔ سر پے انگلی رکھتے سعچنے کے سے انداز میں بولی
پیسے چاہیے؟ اس کی اونچی چوٹی کھینچتا پیار سے پوچھا۔
آپ کیا سمجھتے ہیں آپ میری ناراضگی پیسوں سے خرید سکتے ہیں ۔ فوراً صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی ۔حالانکہ میں بالکل نہیں بتاؤ گی کہ کل میری دوست کی برتھ ڈے ہے اور مجھے اسے گفٹ کرنے کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں ہے
اف اتنی بڑی ہو گئی ہے یہ لڑکی۔ شمائلہ آفندی نے بیٹی کو دیکھتے کہا ۔
جی نہیں میں تو ابھی بس انیس سال کی ہوں وہ بھی اگلے ماہ ۔ آنکھیں سکیڑے پھر سے بولی ۔ اللہ جی کسی کو یاد بھی نہیں ۔
کوئی بات نہیں ماما یہ لو میرا کارڈ جتنے مرضی کا گفٹ لے لو مگر ایک شرط ہے ۔ پرس سے کارڈ نکال کر پکڑاتا وہ مسکرایہ۔
کیا؟ ساری ناراضگی بھول کر کریڈٹ کارڈ پکڑتی بولی
میرے آنے تک تم یہاں گھر پر ہوں ۔ ۔ ۔ چیلنج کرتی نگاہوں سے دیکھتا بولا۔
اوکے کہتی وہ نکل گئی۔ اپنی گاڑی کی چابی اٹھاتی
چلیں بابا یہ اب چھ گھنٹے سے پہلے نہیں آنے والی ۔
یہ تو ہے آخر میں ماں پرگئی ہے۔ ۔ ۔
اب ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ شمائلہ بیگم کچھ کہتی گو ہر نے انہیں کندھوں سے پکڑ کے کہا
ماما جانے دیں آپ بابا بھی نا یہ آپ کا حق ہے
واپس باپ کی طرف مڑا اور بولا
چلیں اپنا کارڈ نکالیں ماما نے شوپنگ کرنی ہے۔
ارےمیں نے کیا بگاڑا ہے بھائی میرے پوس کوئی پیسہ نہیں ہے میں تو بڑا ہی مجبور اور مسکین انسان ہوں ۔ ڈاکٹر آفندی ڈرنے کی سی ایکٹنگ کرتے کارڈ نکال کے بولے ۔
گوہر نے کارڈ پکڑ کے ماں کو پکڑایا ۔
ان کی باتوں پر دیھان نا دیں اور میرے لیے بھی کچھ لے کر آئےگا۔ بابا اب دیر ہو جانی ہےآپ کو۔
دونوں چلتےگاڑی میں آ بیٹھے۔ گاڑی روڈ پر لاتے ہی وہ بالا
کیوں ماما کو تنگ کرتے ہیں آٓپ ؟
بیٹا یہ تو رشتوں کا پیار ہوتا ہے ۔ اچھا وہ ملنا چاہتی۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتے وہ آنکھوں میں آئے غصے کو اضبط کرتا بولا
پلیز بابا اس وقت میں اس ٹاپک پر بات نہیں کرنا چاہتا۔
چلو زرا ڈاکٹر سارہ کا لیپ ٹاپ کا مسلہ بھی حل کر دینا۔
اوکے کہتا وہ بھی ان کے پیچھے چل دیا۔
دونوں چلتے ریسٹ روم کے باہر آ کر ڈاکٹر آفندی نے ناک کر کے دروازہ کھولا اور سلام کر کے اندرداخل ہوئے
ڈاکٹر سارہ یہ میرا بیٹا ہے آپ کا لیپ ٹاپ کا کیا مسلہ تھا میں اسے لایا ہوں ہلپ کر دے گا ۔
گوہر نے دروازے کے پاس کھڑے ہی سلام کیا۔
ڈاکٹر سارہ اشارے سے جواب دیتی مسکرائیں
شکریہ آفندی صاحب لیکن دعا نے وہ ٹھیک کر دیا ہے۔
وہ جو دروازے کے پاس کھڑا فون کو ٹائیپنگ کی غرض سے فون کے میسجز انباکس کو کھول رہا تھا اس نام پر جھٹکے سے سر اٹھایا اور آگے آکر انکھیں سکیڑ کر ڈاکٹر سارہ کے سامنے بیٹھی اس نکاب والی لڑکی کو دیکھا جو لیپ ٹاپ ان کی طرف بڑھا رہی تھی غصے کی لہر اس کے اندر دوڑ گئی۔
جب ہی میں کہوں جب بھی دیکھو لڑکی کام میں مصروف نظر آرہی ہے یہ تو لیپ ٹاپ کی ڈاکٹر ہیں۔ آفندی صاحب نے مسکراتے دیکھا ۔
میں چلتی ہوں ۔ آہستہ سے کہتی وہ دروازے کی طرف مڑی تو سامنے کھڑی ہستی کو دیکھ کر قدم وہیں جم گئے دل میں ایک ڈر جو مدِمقابل کیآنکھوں کو دیکھ کے ہوا کہ کہیں دو دن کوئی کونٹیکٹ اور یونیورسٹی نا جانے کی وجی سے یہیں کوئی عزت افزائی نا کر دے۔
بیٹا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ کی مدر اب ٹھیک ہیں اور بس انہیں کسی بھی پریشانی سے دور رکھیں۔ ڈاکٹر سارہ کی بات پرشکریہ کہتی مکمل طور پر دروازے میں کھڑے شخص کو نظر انداز کرتی باہر چل دی۔
بابا مجھے کام ہے میں جاؤں ؟ دروازے کر طرف مڑتا وہ جلدی میں نظر آتا ہے۔
اچھا چلو ٹھیک ہے۔
اللہ حافظ کہتا وہ باہر نکل آیا۔
دور دور تک اسے کوئی نظر نا آیا۔
ایک تو یہ پگلی چلتیاتنا تیز ہے جیسے راولپنڈی ایکسپریس ہو۔
کوری ڈور سے ناہرآنے پر وہ سامنے ایک کمرے سے ایک خاتون کے ہمراہ نکلتی نظر آئی ۔
اسلام و علیکم ۔ اس کی طرف بڑھتے ہی اس نے سلام کیا۔
وواعلیکم۔ ۔ ۔ اسلام ۔ وہ گھبرائی
آپ کون ؟ کوئی ایک دم اس کے سامنے دس گیارہ سال کا لڑکا آکر اس کے اور دعا کے سامنے کھڑا ہوا۔
وہ یہ میری یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔ دعا نے جلدی سے بتایا۔
اور کلاس میں بھی۔ ۔ گوہر نے توسع کی۔
میں ہلپ کرتا ہوں آنٹی ۔ ۔ ۔ گوہر نے آگے بڑھ کر زرینہ بیگم کا ہاتھ پکڑا۔ ۔ ۔
شکریہ جیتے رہو بیٹا اللہ تمہیں خوش رکھے۔ زرینہ بیگم نے دل دے دعا دی۔
وہ چلتے ہوئے گیٹ تک آپہنچے۔
میں آپ کو گھر چور دوں ؟ گوہر نے گھر تک کی لفٹ کی آفر دی
نہیں میں نے اوبر بلائی ہے۔ اس سے پہلے زرینہ بیگم کچھ کہتی دعا نے جلدی سے بتایا۔
دعا میں نے آپ کو کال کی تھی۔
اور آپ نے بند بھی کر دیا ۔ دانی نے جلدی سے بتایا
وہ غلطی سے بند ہو گیا۔ گوہر نے گڑبڑا کر کہا۔
دیا اکیلی ہے چلو نا ۔ ۔ ۔ دانی نے تنگ آ کر کہا۔
کل ایک ضروری ڈسکشن ہے تو کل یونیورسٹی میں گروپ میٹنگ ہے۔ اس نے جلدی سے بتایا ۔
جی ۔ فی ایمان اللہ ۔ ۔ ۔ فوراً بات ختم کر کے وہ ٹیکسی کی طرف چل دیے۔
اسلام و علیکم ۔ کیسے ہیں آپ لوگ؟دعا نے آتے ہی رضوان اور شہری کو مخاطب کیا۔
ہم جیسے بھی ہیں تمھیں کیا۔ ۔ شہری نے منہ بنا کر کہا ۔
ایم سوری میں مصروف تھی آپ لوگوں کو جواب نہیں دے سکی۔اپنی غلطی محسوس کرتی فوراً بولی
مصروف ۔ ۔ ۔ مدر کی طبیعت خراب تھی اور تم۔نے بتانا ضروری نہیں سمجھا۔ رضوان فوراً بولا۔
میں پریشان نہیں کرنی چاہتی تھی۔ دعا نے بتایا
لیکن دیو کو تو بتا دیا ناہم تو دشمن ہیں نا ۔ اب کی بار شہری نے غصہ ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
میں نے تو نہیں بتا۔ ۔ ۔ ابھی اس کی بات منہ میں تھی کہ رضوان بولا
تو دیو کو الہام ہوا جواس نے کل ہمیں بتایا۔
اب بھائی بھی نا بولنا اس کو ۔ ۔ ۔ شہری نے درشتگی سے کہا۔
اب بولنے کے لیے تمہیں کوئی انویٹیشن دینا ہوگا کیا؟ شہری نے پھر سے مخاطب کیا۔
جب پہلے سے ہی مجھے غلط سمج لیا ہے تو کیا کہوں میں۔ اسے دکھ ہوا
سمجھا ہے تو غلط ثابت کرو ہمیں رضوان نے کہا۔
مجھے وضاحت کرنی نہیں آتی۔ ۔ ۔
سوری میں لیٹ ہو گیا اور آپ کی مدر کی طبیعت کیسی ہے دعا؟ گوہر نے اندرآتے ہی پوچھا
الحمداللہ وہ ٹھیک ہیں اب۔ ۔ ۔ مختصر جواب دیتی وہ بیگ زمین پر رکھ کر بیٹھ گئی۔
آپ کو اس دن بتانا چاہیے تھا ہم ہسپیتال میں نا ملتے تو آپ شائد بتاتی بھی نہیں۔ گوہر نے ہمدردانہ انداز میں کہا۔
کس لیے بلایا تھا؟ وہ مدعے پر آئی۔
سر نے بلایا تھا آج سب کو ان کی پوسٹر لگانے کی جگہ بتانے انہون نے یہ کچھ رومز بتائیں ہیں کہ ان میں اپناروم سلیکٹ کر کے ان کوبتائیں میں نے آپ لوگوں کو جلدی آنے کا اس لیے کہا کہ مرضی کا روم سلیکٹ کر لیں آپ لوگ ۔ ہاتھ میں پکڑی رومز کی لسٹ دعا کی طرف بڑھائی۔
آپ لو کر لیں سلیکٹ مجھے کوئی ایشو نہیں ایکس کیوز می۔ فون پر آئی کال پک کرتی وہ معزرت کرتی لوبی سے باہر چلی گئی۔
مجھے لگتا ہے گرانڈ فلور سہی رہے گا ججز جلدی آئیں گے اور ٹائم ویسٹ نہیں ہوگا۔گوہر نے دونوں کو مخاطب کیا۔
اوکے۔ شہری اوکے کہتا باہر دیکھ رہا تھا۔
میں جا کر سر کو بتا دیتا ہوں۔ لسٹ پکڑے وہ سٹاف بلڈنگ کی طرف بڑھ گیا۔
دعا کو بہت برالگا ہوگا؟ شہری کی آواز پررضوان نے سے ہلایا۔
دعا اندر ا کر اپنے بیگ کی طرف بڑھی
سوری ۔ دونوں نے بیک وقت کہا۔
دعا نے سر اٹھا کر دیکھا
تم ناراض ہو؟ شہری نے محسوس کر کے کہا
نہیں میں خوش ہوں۔
رضوان کواس کی دماغی حالت ہر شک ابھرا۔
وہ میں یک آڈیا دیا تھا وہ سیلکٹ ہو گیا ۔ plan9 میں نے
کیا مطلب ؟ شہری نے ناسمجھی سے کہا۔
میں نے اپنا بزنس آئیڈیا پلین نائن میں دیا وہ سلکٹ ہو گیا ہے اب وہ میرے آئیڈیا پرمجھے سپونسر کریں گے چھ ماہ اگر میراآئیڈیا ان کے پانچ بیسٹ آئیڈیا میں آئے گا تو۔ دعا نے پوری بات سمجھائی
مبارک ہو دعا۔ شہری نے اسے کہا
لیکن ایک مسلہ ہے؟
کیسا مسلہ وہ توابھی حل ہوجائے گا۔ رضوان نے کہا
اگلے ماہ کی پانچ کو پریزنٹیشن ہے کچھ معروف بزنس مینز کے سامنے لیکن مجھے بزنس کو بتانا نہیں آئے گا۔
وہ میرے بابا بتائیں گے وہ ویسے بھی بریانی کھا کر تم سے ملنا چاہتے ہیں۔
لیکن امی کی طبیعت کی وجہ سے میں ۔ ۔ ۔
کوئی بات نہیں وہ تمہارے گھر آ جائیں گے ۔