چھٹی کے انتظار میں وہ گراؤنڈ میں بیٹھی سوچ میں غرق تھی۔ایک وقت تھا جب وہ اپنے کام میں ماہر ہونے کی وجہ سے ہر کلاس کی لڑکی کی فیورٹ تھی ہر کوئی اس سے بات کرتا تھا ایک حادثے نے اسے بدل دیا اب وہ دوست بنانے سے ڈرتی تھی۔ کسی سے بات نہیں کرتی تھی اب شیری اور زی ہی اس کے دوست تھے وہی کافی تھے اب کسی اور سے وہ دوستی کرنے سے ڈرتی تھی۔
لوگ آپ کی زندگی میں سبق سیکھانے آتے ہیں ہم انہیں دھوکے باز سمجھ کر ان کے لہے بدعا کر دیتے لیکن یہ ظرف ہر کسی میں نہیں ہوتا کہ وہ یہ سوچے وہ تو زندگی کا سبق سیکھنے آئے ہیں ہمیں تو شکر گزار ہونا چاہیے ایسے لوگوں کا کہ ہم کچھ سیکھ سکے ان کی بدولت۔
فون کی بجتی گھنٹی نے اسے سوچوں سے باہر نکالا تو فون دیکھے بنا ہی اٹھا کر کان سے لگایا۔
اسلام علیکم جی کون؟
حمزہ ۔ ۔ دوسری طرف سے جواب آیا۔
حمزہ۔ وہ جو بنچ پر ٹیک لگائے سکون سے بیٹھی تھی اس نام پر چونک کر سیدھی ہوئی
ڈونٹ ٹیل میں منگنی کے بعد بھی نام نہیں پتا۔ کچھ دیر کی خوموشی پر دوسری طرف سے دبی دبی ہنسی سے پوچھا گیا
پتا ہے۔ وہ گڑبڑا کے بولی۔
اوکے گڈ۔میں نے بہت مشکل سے نمبر کلیکٹ کیا۔ سنجیدگی سے بتایا گیا۔
کیوں؟۔ ماضی کے جھروکوں میں ڈوبی خالی خولی دماغ سے بیٹھی تھی
مبارکباد دینی تھی۔ حیرانگی سے بولا
کس بات کی؟ ۔ ۔ وہ اب بھی نہیں سمجھی۔
ہماری منگنی کی۔ ۔ ۔ کچھ دیر وہ یونہی اس کی ماصومیت یا شائد غائب دماغی پر ہنسا پھر خود کو روک کر پوچھا ۔ ۔ ۔ میرے بارے میں کیا جانتی ہیں؟
آپ کا نام حمزہ ہے۔ اب سوال پر وہ چونک کر حال میں واپس آئی
اچھا اس کے علاوہ۔ ۔ وہ ہنستے ہنستے بولا۔
وہ ۔ ۔ میں کالج میں تھی گھر جانا ورنہ بس نہیں ملے گی۔ کچھ جانتی ہوتی تو بتاتی۔
ہممم اچھا چلو پھر بات ہوگی۔ اپنا خیال رکھنا۔ وہ جھٹ سے مان گیا۔
دیا نے فون بند کر دیا۔
اکیسوی صدی کے اس زمانے میں بھی ہمارے ہاں ابھی بھی بعض جگہوں پر ایسے رواج ہیں کہ لڑکی کی مرضی پوچنا بھی گوارا نہیں کی جاتی اور جہاں مرضی پوچھ لی جائے وہاں اسے لڑکے کے مطلق بتانے کی رسم نہیں ہوتی۔ اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی ایسا کرتے ہیں یہاں پڑھائی کا تعلق نہیں ہمیں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے کہ جسے پوری زندگی گزارنی ہی اسے کم سے کم اس شخص کے بارے میں جاننے کا حق تو ہونا چاہیے تاکہ وہ فیصلہ کر سکے۔ مگر افسوس ہم فیصلہ کرنے کا حق تو دیتے ہیں مگر انتخاب میں اسے نہ کا اختیار نہیں دیتے۔
میٹنگ ختم کر کے اٹھی تھی کہ کسی نے اطلاع دی کوئی ملنے آیا ہے بھیجنے کا اشارہ کر کے وہ وہیں بیٹھ کے فون کھولنے لگی۔
اسلام وعلیکم۔وہ ینگ سا لڑکا نظریں جھکائے بولا۔ ۔
سوری میں نے پہچانا نہیں۔ دعا نے نظر اٹھا کردیکھا
میں انابیہ کا بھائی ہوں ارتضٰی۔ وہ اب بھی نظریں جھائے کھڑا تھا۔
اوہ اچھا ۔ ۔ بیٹھیں۔ ۔ خیریت؟ اسے بیٹھنے کا شارہ کیا۔
وہ رضوان بھائی کا فون نہیں لگ رہا کل سے تو انابیہ باجی پریشان تھی۔ وہ آرام سے چلتا سامنے بیٹھ گیا۔
کل دوپہر میں کال آئی تھی کہہ رہے تھے کال کروں گا پھر میرے خیال سے کر نہیں سکے ہوں گی دراصل پولیٹیکل ایشوز کی وجہ سے سگنل جیم ہو گئے ہیں وہ ڈونٹ وری وہ کل انشاللہ آجائیں گے۔ فون پر نظریں جمائے بولی
ہممم میں بھی باجی کو یہی کہہ رہا تھا میں۔چلتا ہوں۔ وہ اٹھتے بولا
ارے بیٹھیں میں کچھ منگواتی۔ اسے اٹھتے دیکھ مہمان نوازی انداز میں کہا۔
نہیں جانا ہے ۔ ۔ وہ دروازے کی طرف مڑا
اچھا انابیہ بھابی کو سلام کہیے گا۔ اسے جاتے دیکھ بولی۔
جی ضرور ۔ آ۔ ۔ کس طرف سے جاؤ ۔ وہ شائد ڈائریکشن بھولا تھا کھڑا ہوا تو دو سائڈ کے دروازے دیکھ کر پزل ہوا۔
اس طرف سے کام ہو رہے ہے آپ وہ رائٹ سائڈ پر میراآفس ہے اس سے ہو کر جائیں تو آپ باہر لوبی میں نکلیں گے ۔ وہ وہیں سے بیٹھے بیٹھے بولی۔
اوکے شکریہ۔ دعا کے آفس میں جاتا ڈور کی طرف مڑا۔
میٹنگ ہال سے دعا کے آفس کے ملحقہ ڈور کو کھول کر وہ دعا کے آفس میں پہنچا آفس سے باہر نکلنے کے لیے جونہی دروازے پر ہاتھ رکھا وہ ایک دم کھلا اور سیدھا ناک کو لگتا کھلتا چلا گیا وہ فوراً سی کرتا پیچھے ہوا۔ ۔
اوہ سو۔ ۔ ۔اس سے پہلے وہ کچھ کہتی سامنے والے کا چہرہ دیکھ کر رکی۔
آپ کو مجھے سے کوئی دشمنی ہے؟ وہ ناک کو سہلانے لگا
میں نے جان کے نہیں کیا غلطی سے۔ ۔ وہ شرمندگی یا شائد ڈر کے بولی
غلطی کے لیے سوری بولتے ہیں۔ ناک سے ہاتھ ہٹا کر بولا جو کافی سرخ ہو گئی تھی۔
کس لیے ؟۔ وہ ایک دم حیرانگی سے بولی
میری ناک توڑنے کے لیے۔ وہ چڑ کے بولا۔
آپ کو دیکھ کر دروازہ کھولنا چاہیے تھا۔ اپنی غلطی کو پسِ پشت ڈال کے الزام اس پر دے ڈالا
سوری محترمہ میری آنکھیں باہر نہیں لگی ہوئیں۔ وہ الزام سن کر جتانے والے انداز میں بولا۔
اوہ سوری محترم میری بھی میرے منہ پر ہی لگی ہیں۔ ناؤ سائڈ پلیز۔دیا بھی اسی کے انداز میں مزے سے کہتے سائڈ سے نکلی ارتضٰی نے مڑ کر مغرور سی لڑکی کو دیکھا اور سر جھٹک کر لوبی سے باہر نکل گیا۔
دیا آفس میں ہی بیٹھ کر دعا کو میسج کیا۔تھوڑی ہی دیر میں دعا آئی۔
ارے دیا ۔ دعا دیکھ کر خوش ہوئی
کیا ہوا۔ اس کا اترا چہرا دیکھ ٹھٹکی۔
وہ حمزہ کو میرا نمبر تم نے۔دیا نے جھجک کر پوچھا۔
نہیں میں کیوں دوں گی۔ وہ آنکھیں سکیڑ کے بولی۔
اچھا۔ ہلکہ سا بولی
کیا ہوا ؟ دعا کو پریشانی نے گھیر لیا۔
کچھ نہیں کال آئی تھی۔ وہ منہ بسور کے بولی
تم کو؟ دعا نے آنکھیں پوری کھولیں۔
ہاں۔ وہ نظریں جھکا کے بولی۔
لیکن کیوں؟۔ وہ ایک دم غصے سے بولی
وہ بس منگنی کی مبارکباد دے رہے تھے۔ دعا کو لگا اس نے غلطی کر دی بتا کے ۔
پوچھے بغیر کیسے کال کی اس نے؟۔ ۔ سر کو پکڑے خود سے مخاطب ہوئی۔
بچہ ہے غلطی ہو گئی اب اسے کیا پتا تھا کہ پہلے بڑی آپی کو ایک درخواست دینی تھی کہ بڑی آپی مودبانہ گزارش ہے کہ بندہ اپنی منگیتر سے فون پر شائستی گفتوشنید کرنے کی بہت بڑی گستاخی کرنا چاہتا ہے۔ برائے مہربانی مجھے دو منٹ بات کرنے کی ایجازت دیں۔ شیری بول کے خود ہی ہنسنے لگا تو دیا جو ہنسی دبائے بیٹھی تھی اس کے ہنسنے پر وہ بھی ہنسی۔
اس میں اتنا ہنسنے والی کیا بات ہے۔ دونوں کے قہقے پر وہ سٹپٹا کر بولی
یار انہیں بات تو کرنے دو انڈرسٹینڈنگ ہونے دو میری طرح مت کرو اسے وقت دو۔ اس نے مزاق میں کہی تھی بات مگر دیا کو وہ کوڑے سے کم نہیں لگی تھی۔
دل کا موسم اچھا ہو تو کسی کا طنز بھی مزاق لگتا ہے مگر جب دل کسی بات سے پہلے سے دکھا ہو تو کسی کا زرا سا مزاق بھی خنجر سے لگنے والی چوٹ سے بھی زیادہ تکلیف دیتا ہے
یہ کیسی بیوی ہے ٹھیک ہے ناراضگی اپنی جگہ ایک فون تک نہیں کیا اور میں پاگل ہو تین دن سے ایک لمحے کے لیے بھی فون نہ خود سےدور کیا نہ سائلنٹ پر کیا۔ اس دن تو بہت بول رہی تھی کوئک سروس۔ ڈرائیونگ کرتا خود سے مخاطب تھا۔
اتنا ناراض ہو گئی ہے۔ ۔ ۔ سامنے فلار شاپ دیکھ کر گاڑی روکی۔ سائڈ پر پارک کر کے فلاور شاپ پر پہنچا اور ریڈ فلارز سے ایک کلی نکال کر سونگنے لگا۔
جی سر؟ شاپ پر موجود لڑکے نے فوراً پوچھا۔
ایک بکے بنانا ہے فلارز۔ کلی ہٹاتا مسکرا کر بولا۔
جی ریڈ روزیز۔ ریڈ فلارز کے سیکشن پر جھک کر پوچھنے لگا۔
ریڈ روز کوپھر سونگھ کر مسکرایا
نہیں ابھی اس کے لیے وقت ہے بس وائٹ فلارز ۔ ۔ آپ بناؤ میں ابھی آیا۔ اسے بنانے کا کہہ کر خود ساتھ ہی سٹیشنری شاپکی طرف مڑا۔
اچھا سنو ایک ریڈ بھی ڈال دینا۔ شاپ میں جانے سے پہلے مڑ کر بولا۔
مجھے ایک گفٹ کارڈ چاہئے۔ شاپ کیپر کو اشارے سے بتایا۔
کونسا سر ؟ وہ جو کونے میں کھڑا تھا چلتا ہوا کاونٹر پر آیا۔
سوری کا۔
سوری سر وہ تو نہیں ہے ۔ وہ معزرت خاہ ہوا۔
اچھا بیسٹ وشز کا دے دیں۔۔
ایک پن ملے گا ؟ کارڈ پکڑ کے کھول کے کاونٹر پر رلھا۔
یہ لیں سر۔ شاپ کیپر نے کان میں دبایہ پین نکالا۔
شکریہ۔
کیا لکھوں۔ ۔ وہ بھی کچھ نہیں لکھتی سوری ہی کافی ہے۔ کارڈ پر جھک کر سوچا۔
یہ جائداد میری بیٹی کے نام ہے سو اس کی پاور آف آٹرنی بھی نمرہ کے نام ہی رکھی ہے۔ مگر کیونکہ وہ جاب نہیں کرنا چاہتی تو اس کی ایم ڈی کی سیٹ پر خرم تم بیٹھو گے۔ عرفان صاحب نے خرم کو بتایا۔
جی؟۔ وہ ڈائینگ ٹیبل سے ہجکچا کر کھڑا ہوا۔
بیٹا آپ داماد ہو میرے اس کرسی کے حقدار نمرہ کے بعد تم ہی ہو۔ ۔ وہ مان سے بولے۔
شکریہ۔ وہ چھنپ کر بیٹھا۔
کل ایک گرینڈ پارٹی ہے آفس میں تا کہ میں سب کو تمہاری حیثیت بتا سکوں میرا داماد وہاں کا ایم ڈی ہوگا۔ وہ خوش ہو کر پرجوش اندازمیں بولے۔
جی۔وہ سر جھکا کر بولا۔
بیٹا نمرہ سے بہت پیار کرتا ہوں میں بس اسی لیے میں نے تمہیں آزمایا۔ وہ یاد کر کے شرمندہ ہوئے
جی میں سمجھ رہا ہوں۔ وہ مسکرا کے بولا۔
سی یو ان آفس۔ کھانا ختم کر کے وہ اٹھ بیٹھے
اوکے سر۔ کھانا چوڑ کے انہیں دیکھتے بولا
سر نہیں اب سے پاپا کہہ سکتے ہو۔ اسے کندھے پر تھپک کر بولے
جی پاپا۔ وہ خوش ہو کر بولا۔
گوہر فریش ہو کر باہر نکلا تو دعا کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔وہم پھر سے ۔ ۔ دعا اور اسلامہ آباد۔ ۔ ۔
ہولی ہولی عشق خمار ہوئی جاندا اے
ہولی ہولی مینو پیار ہوئی جاندا اے
ہولی ہولی دل وسو باہر ہوئی جاندا اے
وہم سمجھ کر سر جھٹا اور بال خشک کرنے لگا۔
دعا نے اسے دیکھتے آواز دی۔ گوہر۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دعا۔ سر خشک کرتا ہاتھ وہی رکا۔
آپ نے فون نہیں کیا ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ میں پریشان تھی۔ وہ تقریباً رونے کو تھی۔
اف یہ ایلوژن نہیں۔۔ ۔ ۔خود سے کہتا ٹاول دروازے پر لٹکایا۔
تو ۔ ۔ ۔ تم کر لیتی۔ وہ تیزی چلتا ہوا پاس آیا اور تھوڑی دیر اس کی موجودگی کو محسوس کیا۔
وہ سر جھکائے کھڑی رہی
فکر کر رہی تھیں میری۔ وہ محظوظ ہو کر بولا۔
ن ۔ ۔ نہیں۔ وہ جھٹ سے بولی
تو پھر اسلامہ آباد گھومنے آئی ہو۔ اسے خاموش دیکھ کر ہاتھ پکڑنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا
گوہر بیٹا ۔ زرینہ بیگم کی آواز پر ہاتھ رکا
زرینہ آنٹی آپ۔ وہ ان کی طرف بڑھا۔
کیسے ہو بیٹا۔ دعا کو فکر ہو رہی تھی آپ کی ۔ سر پر پیرا کرتہ وہ اندر آئیں۔
ریئلی۔ دعا کو دیکھتا آبرا اٹھا کر بولا۔
اچانک منہ چھپائےتین ہٹے کٹے مرد اندر داخل ہوئے
ایک نے گوہر کے سر پر بندوق تانی دوسری نے دروازہ بند کر کے اس کے سامنے کھڑا ہوا تیسرا دعا کے سامنے
جو جو ہے سب نکالو بغیر چوں چڑاں کیے ورنہ ایک ایک کی آواز ہمیشہ کے لیے بند کر دوں گے۔ بندوق دعا کے سر پر ٹکائے گوہر کی طرف نظریں کیے بولا۔
جو بھی ہے اس الماری میں ہے لے لو پلیز کسی کو کچھ مت کرنا۔ گوہر نے پھٹ سے الماری کی طرف دیکھا۔
دروازے کے پاس کھڑے بندے نے الماری میں سے کچھ نقدی نکالی اور ایک بیگ میں ڈالی۔
دعا نے دکھ سے منہ پر ہاتھ رکھا۔
او بی بی یہ انگوٹھی بھی اتارو۔ دعا کے ہاتھ میں چمکتی انگوٹھی دیکھ کر بولا
نہیں یہ آنٹی نے دی تھی میں نہیں اتارو گی۔ ہاتھ پیچھے لیجا کے بولی۔
دعا چپ کر کے اور اتار دو۔ گوہر نے سخت لہجے میں کہا
دعا گوہر کی بات سن لو۔زرینہ نے بھی گوہر کی تائید کی
نہیں۔ دعا ایک قدم پیچھے ہٹی
دعا یہ ضد کا وقت نہیں ہے میں تمہیں اور لے دوں گا۔ اب وہ پیار سے بولا۔
پہلے کیا لے کر دیا ہے جو اب لے کر دیں گے۔ وہ رندھائی انداز میں بولی
دعا؟بے بسی سے بولا
میں نہیں اتاروں گی بس۔ ۔ دوسرے ہاتھ سے انگوٹھی کوچھپایا۔
تیری تو۔ ۔ ۔ ایک آدمی آگے بڑھا اور بندوق دعا کے سر پر رکھی۔
اتارتی ہو انکھوٹھی یا چلاؤ تیرے بھیجے میں۔ وہ جارہانہ انداز میں بولا۔
چلا کر دیکھاؤ۔ ۔ ۔
ڈرامے کرتی ہے۔ بندے نے غصے میں ٹریگر پر دباؤ بڑھا بندوق سے نکلی گولی دعا کے دماغ کو چیرتی ہوئی دوسر جانب سے نکل کے دیوار میں جا لگی مگر سنسر کی بدولت گولی چلنے کی آواز کمرے سے باہر نہ جا سکی ایک چیخ کے ساتھ دعا کا قصہ تمام ہوا۔
دعا کی چیخ کے ساتھ ہی گوہر کی جھٹکے سے آنکھ کھلی۔ اٹھ کر بیٹھا سانس پھول رہی تھیں سینے پر ہارھ رکھے انہیں بہال کرنے لگا۔
اف خوب تھا یہ۔ ۔ سانسیں اب بھی تیز تھیں مگر قدرِ بہتر۔ موبائل پر ڈیجیٹل گھڑی رات کے چار بجا رہی تھی۔
گوہر نے فون ملایا۔ مگر اٹھایا نہیں گیا۔ ایک بار نہیں بار بار ملایا۔ اب پریشانی مزید بڑھی۔
یااللہ سب ٹھیک ہو۔ اٹھ کر پریشانی سے کمرے میں دائیں بائیں چلتا بار بار فون ملا رہا تھا۔
ہیلو۔ ۔ دعا کی نیند سے بوجھل آواز آئی۔
دعا کہاں ہو تم ؟ آواز سنتے ہی پریشانی سے بولا
پاگل خانے ۔ ۔ ۔ تڑاخ سے جواب آیا
دعا اس وقت فضول بات کر کے دماغ مت خراب کرو۔ ۔ بتاؤ کہاں ہو تم۔ اس وقت دعا کا جواب جی بھر کے غصہ دلاگیا۔
اب اتنی رات بندہ گھر ہی ہوگا نہ۔ ۔ رات کی اس پہر دعا کو گوہر کی دماغی حالت پر شک ہوا۔
اچھا گھر میں سب ٹھیک ہیں۔ ۔ ۔ سوال پہ سوال
ہاں ٹھیک ہیں سب ۔ ۔ ۔ کان سے فون ہٹا کر دیکھا اب پھر اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔
اور آنٹی، دانی، دیا ۔ ۔ وہ ۔ ۔ وہ لوگ ٹھیک ہیں۔؟۔
ہاں ۔ ۔ ٹھیک ہیں کیوں کچھ ہو جانا چاہیے؟ ۔ اب سوال پر جی بھر کے غصہ آیا تھا
اللہ نا کرے۔ اوکے ٹیک کئیر ۔ بات ختم کر کے ساتھ ہی فون بند ۔ ۔
افف نیند خراب کرنی تھی ۔ حد ہے ویسے۔ کیا بیر ہے اس انسان کو میرے سکون سے۔ پتہ نہیں کونسی انا کی تسکین ہوتی ہے مجھے پریشان کر کے۔۔ وہ کھنجلا کر پھر کمبل لے کے سونے کی کوشش کرنے لگی۔
گوہر نے اگلا فون گھر کے کئیر ٹیکر کو ملایا
خان صاحب ۔ ۔ فون ملتے ہی بولا۔
جی سر اس وقت ؟ وہ فون کی گھنٹی پر ہڑبڑا کر جاگا۔
گھر کا اچھے سے خیال رکھیے گا اور الرٹ رہیے گا صبح ڈرائیور سے کہے گا کہ دعا کو چھوڑ کر آئے اکیلے جانے نہ دیں۔ گوہر نے ایک ساتھ ڈھیرو تاکید کر ڈالی۔
مگر دعا باجی تو خود جاتی ہیں۔ وہ آہستگی سے بولا۔
لیکن ابھی میں آرڈر کر رہاں ہوں اسے ڈرائیور کے ساتھ ہی جانا ہے اور اگر وہ اکیلی گئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ ۔ ۔بات ختم۔ ۔ ۔ بات مکمل کر کے کھٹاک سے فون بند کیا
ارے خرم ڈور کیوں لاک کر رہے ہو۔ خرم کے ان کے کیبن کا ڈور اندر سے لاک کر رہا تھا
پاپا بات کرنی ہے۔ ڈور لاک کر کے مڑا۔
ہاں ہاں کہو۔ وہ کرسی پر ٹک گئے۔
پاپا۔ اچھا یہ بتائیں آپ کا ان ہیلر کہاں ہے؟۔ وہ چلتا ٹیبل کے پاس آیا۔
ایک یہ پاکٹ میں ہے اور یہ ایک ٹیبل پر ہے۔ ٹیبل پر پڑے ان ہیلر کی کانب اشارہ کیا۔
لائیں دیں میں چیک کرلوں فل ہے یا ختم تو نہیں ہو گیا۔ ٹیبل پرپڑے ان ہیلر کو چیک کرتا ان کی پاکٹ کی جانب بھی اشارہ کیا۔
بیٹا اتنی فکر نہ کیا کرو۔ لو دیکھ لوفل ہے۔ پاکٹ والا ان ہیلر بھی نکا کر تھمایا۔
اچھا نہیں کیا آپ نے۔ ان ہیلر اپنی جیب میں ڈالا لیے۔
کیا مطلب؟ وہ حیران ہوئے آج تو سب کے سامنے باعزت اسے داماد کی حیثیت اور اسے ایم ڈی کی چیئر دی گئی تھی۔
اتنی محنت کی میں نے اور سب کچھ اپنی بیٹی کو دے دیا۔ چچ چچ چچ۔ ۔ ۔ اچھا نہیں لگا مجھے۔ اب کی بار سر اٹھا کر بولا۔
کیا بول رہے ہو سمجھا نہیں میں۔ اس کے عجیب انداز سے پریشان ہوئے۔
پاپا آپ کی بیٹی کو پٹایا میں نے آپ کی گالیاں سنیں بدلے میں کیا کتا بنا دیا پاور آف اٹرنی بیٹی کو بنایا۔ چہرے پر سختی جمائے وہ باہر دیکھنے لگا۔
کیا بکواس کر رہے ہو۔ وہ اپنی سیٹ سے اٹھے اور ٹیبل کے پیچھے سے سامنے آئے
آواز نیچے ۔ ۔ کوٹ سے چاکو نکال کر تیزی سے عرفان صاحب کی طرف تیزی سے بڑھا اور چہرے کے بالکل پاس آ کر رکا۔ عرفان صاحب کی ڈر کے مارے سانس اکھڑنے لگی۔
س س۔۔ ۔ س۔ عرفان صاحب نے کچھ بولنا چاہا۔
نہ نہ ابھی نہیں دونوں ان ہیلر میرے پاس ہیں۔ اب آپ بس اللہ کے پاس جانے کی تیاری کریں۔ آج کوئی سوچ بھی نہیں سکے گا کہ اس خوشی کے موقع پر آپ۔۔۔ ۔ وہ زور زور سے ہنسا
اچھا ایک کہانی سناتا ہوں ایک مسٹر بزنس مین سانس کی تکلیف کے اٹیک سے ان ہیلر موجود نہ ہونے کے باعث مر گیا اس کے بعد پوری کمپنی اس کے بے چارے داماد پر آگئی پھر۔ ۔ ۔ پھر ایک دن ۔ ۔ اف ۔ ۔ اس کی بیٹی کی بھی میں موت ۔ ۔ ۔ وہ محظوظ ہوتے عرفان صاحب کی
حالت کو دیکھتے مسکرایا۔
اچھا مجھے لگتا ہے میری طبیعت خراب ہے میں چلتا ہوں گھر۔ اور پریشان نہیں ہوں میں ڈو ناٹ ڈسٹرب کا بورڈ لگا جاؤں گا کوئی نہیں آئے گا۔
واہ سب کچھ ٹھیک رات کے پلان کے مطابق ہوا۔ وہ خوشی سےدروازے کہ طرف پلٹا۔
ٹ۔ ۔ ۔ٹ۔ ۔ ٹرسٹ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ جائے گا ۔ ۔ سب ۔ ۔ ن۔ ۔ ۔ ن۔ ۔ نمرہ کو ہوا کچھ ۔ ۔ ۔ سینے پر ہاتھ رکھے مشکل سے بولے۔
اسلام و علیکم باجی۔ گھر کی کار کا ڈرائیور یاسر گاڑی کے پاس نظریں جھکائے کھڑا تھا۔
واعلیکم اسلام ارے یاسر آپ ؟ بیگ سے گاڑی کی چابی ھونڈتے بولی۔
باجی وہ آج میں آپ کی گاڑی ڈرائیو کروں؟ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولا۔
نہیں شکریہ میں چلی جاؤں گی۔ آپ خان بابا کے ساتھ گھر کا خیال رکھیے گا اور گھر کی گاڑی کو سروس کروا لیجیے گا یاد سے۔ چابی نکال کر وہ دروازے کی طرف بڑھی۔
لیکن باجی گوہر صاحب نے آڈر دیا تھا۔ وہ منہ بنا کر بولا۔
خیر ہے کچھ نہیں ہوتا۔ ڈور کو اوپن کر کےمڑ کر بولی
باجی وہ نوکری سے نکال دیں گے مجھے۔ منت بھرے انداز میں بولا۔
اچھا ٹھیک ہو۔ دعا کچھ دیر چپ رہی پھر مان گئی
دعا باجی معاف کر دیجیے گا وہ صاحب بہت غصے والےہیں ۔گاڑی ڈرائیو کرتے وہ معزرت سے بولا۔
نہیں کوئی بات نہیں۔ آرام سے تو کہہ دیا مگر دماغ اس وقت کھول گیا تھا جھٹ سے موبائل اٹھا گوہر کا نمبر نکالا پھر سوچا کیوں کرے اس سے پہلے بیک کرتی گاڑی بریک لگنے سے جھٹکا کھا گئی دعا کا انگوٹھا گوہر کے نمبر پر ٹیپ ہوا اور فون گوہر کو جا ملا لیکن دعا کا دھیان سامنےتھا۔
اف کیا ہوا؟ وہ ایک دم بریک لگنے پر جھنجلائی
باجی میری غلطی نہیں ہے وہ ۔ ۔ ۔بچہ دیکھیں بوتل سے کھیلتا ہوا سامنے آ گیا۔
چوٹ تو نہیں لگی اسے؟ وہ باہر جھانکنے لگی۔
نہیں باجی میں نے پہلے ہی روک لی تھی۔
اچھا دھیان سے چلائیں۔ فون پر ہیلوکی آواز پر چونک کر دیکھا
جی؟ اب بھی رات والی بات پر غصہ تھی سو بغیرسلام دعا بولی
کیسی ہو؟ دوسری طرف کوئی خوش ہوا تھا
میں ڈرائیو کر سکتی ہوں۔ جتایا تھا کہ اس کی بات بری لگی ہے۔
ہاں معلوم ہے مجھے کیسی کرتی ہو۔ جہاں بریک لگانی ہو ایکسیلریٹر پر دباؤ ڈالتی ہو۔ ہنسا تھا
آپ مجھے انڈر اریسٹیمیٹ کر رہے ہیں۔ وہ سنجیدگی سے بولی
نہیں ایسا نہیں کر رہا۔ اب سے تم خود ڈرائیو نہیں کرنا اور ۔ ۔ ۔ گوہر بھی سنجیدگی سے سمجھانے لگا ابھی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ دعا ایک دم بولی۔
ٹھیک ہے سمجھ گئی اللہ حافظ۔ کھٹاک سے فون بند کیا
ارے ماہ جبیں تم ۔ ۔ دعا سے ملنے آئی ہو؟ رضوان نے پوچھا
جی۔ وہ ہڑبڑا کے مڑی
وہ رہا دعا کا کیبن۔ دعا کے کیبن کی طرف اشارہ کرتا وہ واپس مڑ گیا۔
وہ چلتی کمرے میں آئی مگر دعا آفس میں موجود نہیں تھی سو کمرے کا جائیزہ لینے لگی اسے آئے ابھی دو منٹ ہی ہوئے تھے کہ پیون نے اندر آنے کا پوچھا۔
آؤ۔ ماہ جبیں مڑی۔
یہ میم کے لیے آئے ہیں۔ ہاتھ میں وائٹ فلارز کا بکے پکڑے بولا۔
اچھا۔ رکھ دو۔ ٹیبل کی طرف اشارہ کیا۔ وہ رکھ کر چلا گیا۔
وہ آنکھیں سکیڑے دیکھنے لگی۔
اس بہن جی کو پھول کس نے بھیجے۔ ۔ ۔ خود سے بولتی پھولوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ایک کارڈ نظر آیا جلدی سے کارڈ نکال کر دیکھا۔
SORRY
رائٹنگ دیکھ کر سمجھ گئی یہ گوہر نے بھیجے ہیں اس نے جلدی سے پین پکڑا اس پر کچھ لکھ کر واپس رکھا۔ وہ رکھ کے بیٹھی ہی تھی کہ دعا واش روم سے نکلی۔
ہائے دعا کیسی ہو؟ وہ دعا کو دیکھ کر جھٹ سے بولی
ٹھیک ہوں۔ کیسے آنا ہوا؟ وہ بغیر لگی لپٹی بولی۔
گوہر۔ ۔ ما ہ جبیں نے کچھ کہنا چاہا۔
گوہر کا آفس یہ نہیں ہے۔ لیپ ٹاپ آن کرنے لگی۔
ہاں پتا ہے روز کال کر کے بتاتا ہے مجھے آفس جا رہا ہوں، آفس سے واپس آگیا مطلب ایک ایک ریپورٹ دینی ہوتی ہے اس نے کبھی کبھی تو تنگ آجاتی ہوں میں۔ تم نہیں آتی؟
دعا بس دیکھ کر رہ گئی۔
دعا آنٹی کو معلوم نہیں تھا کہ گوہر اور میں ۔ ۔ بٹ ڈونٹ وری میں گوہر کو سمجھا دوں گی وہ تم سے تعلق ختم نہیں کرے گا۔ تم میری دوست ہو وہ الگ بات ہے کہ تم نے میرے حق پر ڈاکہ ڈالا۔
ماہ جبیں۔ مجھے کوئی شوق نہیں تمہارے گوہر کے ساتھ رہنے کا۔ اسے کہو میرے سامنے یہ سچ کہے پھر یہ میرا مسئلہ ہوگا میں کیسے اس رشتے کو ختم کرتی ہوں ۔ اپنے حصے کی لڑائی خود لڑیں اور سب کو بتانے کی ہمت بھی رکھو۔
دعا تم۔ ۔ ۔ ماہی نے کچھ کہنا چاہا
یہ میرا آفس ہے گھر نہیں ہے پلیز مجھے کام کرنے دو۔
ویسے گوہر نے کہہ دیا جو کہنا تھا یہ پھول دیکھو میں یہی بتانے آئی تھی۔ چلتی ہوں
دعا نے جلدی سے کارڈ نکلا
SORRY I want to marry with Mahi.
دعا کو مان تھا کہ شائد وہ یہ کبھی نہیں کہے گا اور وقت اس سچ کو بدل دے گا مگر اس وقت اس کا مان منوں مٹی تلے دبتا محسوس ہوا۔
میں نے اس رشتے کے لیے وہ کیا جو میری ذات کا حصہ نہیں تھا میں خود غرض بن کر شیری کو اپنے فیصلے پر منایا کس کے لیے اس شخص کے لیے جس نے ایک سیکنڈ نہیں لگایا مجھے بے مول کرنے میں۔۔ کرسی سے ٹیک لگائے ہزارو آنسو گرے تھے۔
پہرو بیٹھ کے سوچتی ہوں
کہاں گئی وہ ذات میری۔
میری چاہتوں کا اب تک نہ اثر ہوا کسی پر
انہیں کچھ خبر نہیں ہے
یہاں زندگی مٹا دی۔
کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی سجا دی
یہاں قسمتوں کا لکھا ہمیں یوں پڑا نبھانا
مجھے مسکروہٹوں میں
غمِ دل پڑا چھپانا
خرم اتنی جلدی آ گئے آج تو تمہارے لیے تھی پارٹی۔ نمرہ نے اسے بے وقت گھر دیکھ کر حیرانگی سے پوچھا۔
طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ وہ ماتھا سہلاتا وہیں لاؤنج میں ڈھیر ہوا۔
پاپا پریشان ہوں گے۔ وہ اس کے سامنے آئی۔
نہیں انہیں میں نے ٹکسٹ کردیا تھا۔ صوفے پر ٹیک لگائی
طبیعت کو کیا ہو گیا؟ وہ پریشان ہوئی
یار سر پھٹ رہا ہے۔ کنپٹیوں کو دونوں ہاتھوں کی دو انگلیوں سے مسلا۔
اچھا میں پین کلر منگواتی ہوں تم لیٹ جاؤ روم میں جا کر۔ اسے کہہ کر وہ لاؤنج سے نکلی۔ تو وہ بھی اٹھ کر کمرے میں چل دیا۔ اب جو جھوٹ بولا تھا اسے سچ بنانے کو یہ تو کرنا ہی تھا۔
کچھ دیر بعد وہ پہن کلر اور کچھ کھانے کو لے کر کمرے میں آئی۔
کھا کر آرام کرو۔ پین کلر اسے پکڑاتی آرام سے بولی
بے بی پتا نہیں کیوں مجھے پاپا کا فیصلہ ٹھیک نہیں لگا۔ ایکٹنگ سٹارٹ کی کہ اس کے دل میں کوئی شک نہ جائے
کیا مطلب ؟ وہ پاس ہی بیٹھ گئی۔
اس طرح سے مجھے ایم ڈی بنانا مطلب وہ مجھے میری قابلیت کی وجہ سے نہیں داماد ہونے کی وجہ سے دے رہے ہیں۔ چہرے پر بلا کا تاسف تھا۔
ایک تو تم اور تمہاری ایمانداری ۔ ۔ تم قابل ہو اس لیے ہی تو بنایا ہے۔ وہ اسے سمجھا رہی تھی یہ جانے بنا کہ وہ کیا کر چکا ہے۔
نہیں تمہیں سنبھالنا چاہیے یہ سب ۔ ۔ کن آنکھوں سے اس کے تاثرات دیکھنے چاہیے۔
میں سنبھالوں یا تم بات تو ایک ہی ہے نا۔ وہ مان سے بولی
لیکن؟۔ ۔
کیا تم مجھے خود سے الگ سمجھتے ہو۔
نہیں ہر گز نہیں
تو بس آرام کرو ۔ ۔ ۔ میں دیکھو کھانے میں کیا بن رہا ہے۔
شیری۔ ۔ ۔ وہ واش روم سے نکلا تھا
کیا؟
مجھ کچھ شاپنگ کرنی ہے گھر کے لیے چلو۔ ۔ ڈریس ٹھیک کرتی اس کے سامنے آکھڑی ہوئی
یار ابھی تو آفس سے آیا ہوں میں نہیں جا رہا۔ بال ٹھیک کرتا بیڈ پر گرنے کے اندازمیں بیٹھا۔
میں اکیلی چلی جاتی ہوں۔ وہ منہ بنا کر بولی
چلی جاؤ۔ شیری بھی بنا اثر لیے بولا۔
وہ چند لمحے اسے دیکھتے رہی اور پھر لچن میں چل دی۔
کچن میں کھڑی ہوئی کام تو کوئی بھی نہ تھا اس وقت رونے کو اور کوئی جگہ سمجھ نہیں آئی۔
باجی جانا نہیں۔ خاور نے کچن کے دروزے سے کچھ دیر بعد آواز لگائی۔
نہیں۔ دوسری طرف منہ لیے آنسو صاف کرتے بولی۔
لیکن شیری بھائی تو گاڑی میں انتظار کر رہےہیں۔کہہ رہے ہیں جلدی آئیں۔ وہ کہہ کر چلا گیا۔
وہ حیران ہوئی۔ ہر کام میں ڈرامہ ضروری ہے اس کا۔ ۔ وہ سر جھٹک کر آئی
گاڑی وہ گھر کے باہر نکال چکا تھا زی کے بیٹھتے ہی گاڑی سٹارٹ کی۔
یہ عورتوں کو ٹرینگ کون دیتا ہے ہم ماصوم لوگوں کو تنگ کرنے کی۔ سامنے دیکھتے مصنوعی خفگی سے بولا
کون عورت؟ وہ آنکھیں دکھا کر بولی
تم۔ ۔ بڑے آرام سے یاد دلایا
میں لڑکی ہوں۔ لڑکی پرزوردے کر کہا۔
ایچ۔ کے۔بی پر گاڑی روکی۔
اچھا چھا لو آگیا اب رات مت لگا دینا جلدی کرنا میں پارک کر کے آتا ہوں۔
زی گاڑی سے اتری اور سیدھا بیمنٹ میں پہنچی۔
ارے زری بیٹا کیسی ہو؟ وہ چونک کر مڑی
میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں ۔ زرینہ بیگم کو دیکھ کر چہرے پر مسکراہٹ لائی۔
اللہ کا شکر ہے۔ زرینہ بیگم نے آگے بڑھ کر سر پرہاتھ پھیرا۔
زرینہ آنٹی کیسی ہیں؟ شیری نے انہیں گلے لگایا۔
بالکل ٹھیک جیتے رہو ۔ تم دونوں سناؤ۔
کیا سناؤں آنٹی یہ کیا لڑکی کے ساتھ پھنسا دیا ہے سارا وقت مجھ ماصوم کو تنگ کرتی رہتی ہے زرا اسے ٹپس دیں میں اپنے لیے کچھ خرید لوں۔ شکائتی نظروں سے زی کو دیکھتا وہ اوپرفلور کہ کانب بڑھا۔
وہ ہنسنے لگیں۔ بیٹا برا مت منانا یہ لڑکا ایسا ہی ہے۔
وہ مجھے پسند نہیں کرتے کتنا تنگ ہے مجھ سے۔ مطلوبہ چیزیں ٹوکری میں رکھتی وہ مدہم آوازمیں بولی۔
ارے نہیں بیٹا یہ پاکستانی مرد ایسے ہی ہوتے ہیں دوقسم کے ہوتے ہیں ایک ایسے ہوتے ہیں سب کچھ کہہ دینے والے محبت جتانے والے مگر جو روائتی قسم کے مرد ہوتے ہیں وہ اپنی محبت نہیں جتاتے وہ جس سے محبت کرتے ہیں نا اسے تنگ کرتے ہیں یہ ان کی محبت کے اظہار کا ایک طریقہ ہوتا ہے وہ صرف بیٹی سے محبت جتاتے ہیں باقی بہن اور بیوی کو تنگ کر تے ہیں۔ یہ ان کی محبت ہے بیٹا۔ وہ اسے پیار سے سمجھانے لگیں۔
ہممم اچھا میں چلتی ہوں بل بنوا لوں۔ اللہ حافظ کہتے کوؤنٹر کہ طرف بڑھی۔
چیزیں کاؤنٹر پر رکھتی وہ پاس رینکس کو دیکھنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس مڑی تو سیلز مین کو اس کے شاپنگ بیگ میں بریسلٹ رکھتے دیکھ فوراً آگے بڑھی۔
یہ بریسلیٹ تو میں نے نہیں لیا۔ اس کے شاپنگ بیگ میں بریسلیٹ رکھتے دیکھ وہ جھٹ سے بولی
میڈم آپ کے ساتھ جو مسٹر تھے انہوں نے رکھا تھا۔ اس کے پیچھے انگلی کے اشارے سے بتایا
زی نے مڑ کر دیکھا شیری زرینہ بیگم سے ہنستے ہوئے بات کر رہا تھا۔اس کو مڑتے دیکھ اس کی طرف آیا۔
ہاں ہو گیا۔پیمنٹ کر کے وہ چیزیں پکڑے باہر آیا۔
یہ دیکھاؤ ۔ ۔ زی نے جان بوجھ کر بریسلٹ ولا شاپنگ بیگ کھولا۔
کیا ہوا؟
یہ بریسلٹ تو میرا نہیں ہے۔ شاپنگ بیگ سے بریسلٹ نکال کر بولی
یہ میں نے لیا تھا۔ ۔ وہ جھٹ سے بولا
اپنے لیے ؟ وہ مسکراہٹ دبائے دیکھتے بولی
ہاں۔ وہ سمجھے بنا بولا
لڑکیوں والا
اوہ یہ لڑکیوں والا ہے اچھا مجھے پتا نہیں لگا۔ وہ ایسے بولا جیسے اسے پتا ہی نا ہو
میں واپس کروا دیتی ہوں ۔ وہ واپس مڑی
ارے پاگل رہنے دو اب اچھا نہیں لگتا تم رکھ لو۔ گاڑی میں بیگ پچھلی سیٹ پررکھتے وہ سرسری بولا۔
وہ چلتے گاڑی میں بیٹھ گئی۔
آنٹی ٹھیک ہی کہہ رہی تھیں۔ آنکھیں موند کر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائی۔