دعا۔ گوہر نے دعا کو آواز دی مگر اس کا جواب نہ پا کر اس کی طرف گھوما وہ بڑے انہماک سے کینڈی کرش کھیلنے میں مصروف تھی
گوہر نے ہاتھ بڑھا کر اس کی کھنی سے ٹکڑایا وہ چونکی اورفون کے ہاتھ فون گود میں جا گرا۔
اف کیا ہے آپ کو۔ ۔ ۔ تسلسل ٹوٹنے پر وہ کلس کر بولی۔
ایک بات بتاؤ؟ اس کا دھیان بھٹکا کر فوراً پوچھا
ہممم ۔ وہ پھر سے مصروف ہوئی
تم اس دن میرے بابا سے کیا بات کررہی تھی۔ وہ میرے پر زور دے کر بولا
چغلیاں؟ خود ہی بول کر ہنس دی
کیا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سے یہی امیدتھی۔ ۔ ۔ منہ بسور کر بولا
جیلس آدمی۔ ۔ ۔ چیڑانے کو بول کر ہنستی چلی گئی
میں جل نہیں رہا بس ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔ صفائی دینے کے انداز میں بولا
میں بتا دیتی مگر آپ سن نہیں سکیں گے۔ سنجیدگی سے کہا
نہیں تم بتا دو۔ ماتھے پر بل ڈالے
ہم عیشل ماں کے بارے میں باتیں کررہے تھے۔ موبائل سے نظریں ہٹا کرگوہر کو دیکھتے کہا۔
گوہر نے پہلے آنکھیں بند کیں لمبا سانس لے کر دعا کو دیکھا
کاش ماما آ جاتیں یہ ڈسکشن کرتے ہوئےدیکھتیں نا تو بابا کو ان کے عتاب سے کوئی بچا بھی نہیں سکتا تھا۔ پھر انہیں بھی پتہ لگتا پہلی بیوی ڈسکس کرنا کیا ہوتا ہے۔ سنجیدگی سے سامنے دیکھتا بولا۔
ہیں آپ نے بچانا نہیں تھا۔ وہ موبائل سائڈرکھ کے حیرانگی سےدیکھنے لگی۔
بالکل نہیں۔ ۔ ۔ غلطی کریں گے تو سزا بھی بھگتےگے۔ آبرو اٹھا کر دیکھا
توبہ تخریب کار دماغ ہے آپ کا۔ وہ غصے سے دیکھتے بولی
میرا نہیں تمہارا ہے ۔ جواب بھی کھٹاک سے آیا
دروازے کی دستک پر دونوں نے چونک کر دیکھا۔
دعا بیٹا آپ کو شمائلہ بیگم بلا رہی ہیں خانم پیغام دے کر واپس پلٹ گئیں۔
جی اچھا کہتی وہ پیچھے چل دی۔
دل میں تھوڑا خوف لیے ان کے کمرے کے باہر دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوئی
اسلام علیکم۔
شمائلہ بیگم نے سر کے خم سے جواب دے کر اسے بیٹھنے کو کہا۔
ایک گاؤں کی شادی میں جانا ہے آپ کو گوہر کئ ساتھ۔ شادی ویک اینڈ میں ہے تو دونوں کے آفسسز کا بھی ایشو نہیں ہوگا۔ کارڈ دعا کی طرف بڑھایا
جی۔ دعا نے کارڈ پکڑتے انہیں دیکھا۔
یہ شاپنگ کر لیجیے گا آپ اپنی اور گوہر کی۔ کچھ پیسے دعا کی طرف بڑھائے
میرے پاس آلریڈی ہیں کپڑے ۔ ۔ دعا کی زبان پھسلی
دعا آپ کس گھر کی بہو ہیں شائد ابھی تک اندازہ نہیں ہوا۔ اس گھر کی بہو کی حیثیت سے جا رہی ہیں تو امیدہے اسے برقرار رکھیں گی۔ تھوڑا سخت لہجے سے کہتیں دعا کی طرف پیسے دبارہ بڑھایا جیسے خاموشی سے پکڑ لیا گیا تھا۔
دعا ؟ وہ اٹھ کر پلٹی جب انہوں پھر آواز دی
جی؟
میرا ہر فیصلہ آخری رہا ہے اس گھر میں پہلی بار اسے بدلہ ہے میں نے صرف گوہر کے کہنے پر دوبارہ اسے میرے اور میرے فیصلوں کے درمیان آنے مت دینا سمجھ گئی آپ؟ تیکھی نظرں دیکھ رہی تھیں
وہ ۔ ۔ میں ۔ ۔ دعا نے کچھ کہنا چاہا
آپ جا سکتی ہیں۔ دروازے کی طرف اشارہ کیا
خا نم ۔ ۔ ۔ دعا کدھر ہے۔ سیڑھیاں اترتا خانم کو دیکھتے پوچھنے لگا۔
کچن میں کچھ بنانے میں مصروف ہیں۔ وہ سرسری سہ بولیں۔
اچھا اسے بتا دیجیے گا جب فارغ ہو جائے تو میری بات سن لے۔ وہ کہہ کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
ٹھیک ہے۔خانم سر ہلاتی کچن میں گئیں اور دوروازے پر ہی دعا کو آواز دی
دعا ۔ ۔ ۔
اوں ہوں خانم ڈسٹریک نہ کریں بڑا ضروری کام ہے باقی سب بعد میں۔ چوکوچپ کرش کرتی مصروف سی بولی۔
اچھا فارغ ہو کر گوہرکی بات یاد سے سن لینا بیٹا۔ چلتے ہوئے آگے آ کر دعا کی مصروفیت دیکھنے لگیں
کیا مجھے بلایا ہے؟ ان کی طرف گھوم کر پوچھا
ہاں۔
ہائے ۔ ۔ اچھا آپ اس ڈش میں یہ کرشڈ بسکٹ کی ایک لیئر بنا کر اس میں کریم ڈلیے گا اس کے بعد ایک لیر کیلےاور سٹابری اور پھر سے کریم ڈال کے فریج میں ایک گھنٹے رکھ دیں میں بات سن کے آئی۔ وہ پرجوش سی کچن سے نکلنے لگی۔
ابھی تو مصروف تھی۔ ۔ آنکھیں سکیڑ کے دیکھا
اب فری ہو نا۔ وہ چٹکی بجا کر بولی۔ تیز تیز چلتی کمرے میں پہنچی گو ہر کو موبائل میں مگن دیکھ کر پوچھا
آپ نے بلایا تھا ؟
ہاں ۔ ۔ لیکن تم مصروف تھی اتنی جلدی آگئی۔ موبائل سائڈ میز پررکھا۔
جی کوئک سروس ۔ وہ مسکراتے اندر کی طرف بڑھی۔
اچھا بیٹھو بات کرنی ہے ۔۔ ۔ وہ سیدھا ہوا
جی کہتی آگے بڑھی۔
شہریار کی شادی کا کیا سوچا ہے انکل نے۔؟ وہ کچھ سوچ کردھیمی آواز میں بولا۔
ہیں۔ انکل تو چاہتے ہیں جتنی جلدی ہو اچھا ہے۔لڑکی ڈھونڈنے کو کہا تھا ۔ اسے کے پوچھنے پر وہ حیران ہوئی تھی۔
تو ملی؟ دعا کہ طرف دیکھا
نہیں ابی تو نہیں۔ ۔ سرسری جواب دیا
زی کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔
جی۔ ۔ ۔زی۔ ۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ ہڑبڑائی
کیوں کوئی پرابلم ہے زی میں؟
نہیں ایسا۔ ۔ ۔ دعا نے کچھ کہنا چاہا
تو پھر بات کرو انکل سے ۔
زی ابھی چھوٹی ہے ۔ وہ جزبز سی بولی
اگے کچھ منتھ میں گریجوئیٹ ہو جائے گی اور کتنا بڑی ہو۔
نہیں میرا مطلب وہ نہیں تھا؟ شرمندہ ہوئی
ٹھیک ہے انکل سے کہو وہ رشتہ لے کر آئیں۔
گوہے وہ دونوں امیچور ہیں۔ وہ بے بسی سے بولی
امیچور ہیں تبھی رشتے کو سیریئسلی نبھائیں گے۔
ہمم لیکن ۔ ۔ ۔ دعا نے بولنا چاہا
امید ہے تم جلد بات کرو گی۔ وہ دیکھ کر رہ گئی۔
وہ تو کروٹ بدل کر سو گیا مگر وہ کتنی ہی دیر یونہی سوچتی رہی۔ کیا کرے بات کرے یا نہ کرے۔ اگر نہ کی تب بھی کبھی نہ کبھی تو شیری کو شادی کے لیے راضی کرنا ہی ہے تب جو لڑکی ہو پتہ نہیں کیسی ہوگی۔ بات کرنا ہی ٹھیک ہے۔ خود کو سمجھاتے وہ کل کے لیے الفاظ کا چناؤ کرنے لگی۔
اگلے دن آفس کی آف ٹائمنگ پر دعا نے شیری کے روم کی طرف جانے کا سوچا۔
شیری مجھے ایک بات پوچھنی ہے۔ شیری کو سامان سمیٹتے دیکھ پکارا۔
ہاں بولو؟ مصروف سے اندازمیں بولا۔
وہ ۔ ۔ ۔ تمہیں زی کیسے لگتی ہے؟ وہ الجھن میں دھیرے سے بولی
لڑکیوں جیسی؟ آرام سے بولتا دعا کے سامنے کھڑا ہوا
نہیں میرا مطلب شادی کے ۔ ۔ ۔ وہ نیچھے دیکھنے لگی
دعا مجھے شادی نہیں کرنی کتنی بار بتاؤ۔ بابا اور تم کیوں پیچھے پڑ گئے ہو۔ وہ ایک دم اسے دیکھنے لگا پھر جھنجھلا کر بولا
ایک نہ ایک دن تو کرنی ہے نا۔ تو اب کیوں نہیں۔ اسے سمجھانے لگی۔
دعا مجھے کبھی بھی نہیں کرنی بس۔ ۔ ۔ وہ درشتگی سے بولا
شیری پلیز کیا پرابلم ہے زی میں وہ بہت اچھی ہے۔ دعا چیئر سے اٹھ کھڑی ہوئی
اس میں نہیں مجھ میں برابلم ہے وہ اچھی ہے لیکن میں برا ہوں۔ اسے غصہ آنے لگا تھا
ایسے تو مت کہو۔ ۔ بے بسی سے دیکھا
تو کس زبان میں سمجھاؤں یہ بتا دو تم مجھے۔ میز پر مکہ مار کے کرسی پر بیٹھ گیا
گوہر چاہتے ہیں کہ تم اور زی۔ ۔ ۔
گوہر چاہتا ہے میں نہیں۔ کہہ دو اس کو میں انٹرسٹیڈ نہیں۔ اپنی سیٹ سے اٹھا
میں نہیں کہہ سکتی خود کہو۔ ۔ ۔ دعا نے ہتھیار ڈالے
ٹھیک ہے کہہ دوں گا۔ اس کے اسطرح کہنے سے دعا بھی خوف زدہ ہوئی
مگر ایک بات زہن میں رکھنا جس لڑکی کے لیے انکار کر رہے ہو اسی کے بھائی کے گھر ہوں میں۔ اپنی بات ختم کرتے تیزی سے نکلی گھر کے لیے۔
وقت اور حالات انسان کو کتنا مجبور کر دیتے ہیں۔ انسان اس موڑ پر کھڑا ہو جاتا ہے جہاں اسے کسی ایک رشتے کا مان رکھتے ہوئے کسی دوسرے رشتے کو نظر اندازکرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں لوگ بہت آسانی سے خود غرض گردان دیتے ہیں مگر اس بات کو تعین نہیں کر پاتے کہ اگر وہ اس مقام پر ہوتے اسی فیصلے پر خود کو برا بھلا کہتے دیکھتے۔
وہ کتنی دیر یونہی سڑک پر گاڑی چلاتی رہی۔میں اتنی خود غرض نہیں ہو سکتی ۔ خود سے سوچتے گھر کی طرف بڑھی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے سوچا اگر زی ہی منع کر دے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اسی سوچ کے ساتھ وہ زری کے کمرے کی طرف بڑھی۔
اسلام علیکم زی کیسی ہو ؟
گڈ۔ بیڈ پر آڑی ترچھی لیٹی سیدھی ہوئی۔
وہ شہریار اور تمہارے رشتے کا سوچ رہے ہیں ۔ ۔ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں۔ دعا چلتے ہوئے اندر آئی اور ٹھہر ٹھہر کر کہنے لگی۔
میرا مطلب کوئی اعتراض ہے تو کوئی پرابلم نہیں میں منع کر سکتی ہوں۔
بھابی آئی لائک ہم ۔ ۔وہ سر جھکا کر بولی
زی کے اقرار پر وہ خالی خولی نظروں سے دیکھنےلگی
ہم دوست ہیں نا آپ غلط نہیں سمجھیں۔ وہ معصومیت سے کہنے لگی
نہیں۔ ۔ ۔ ۔ دعا نے اس کا ہاتھ تھپکا اور واپس کمرے کی طرف چلی آئی۔
دعا دیر کر دی آنے میں۔ اسے آتا دیکھ رک کر پوچھنے لگا
گوہر۔ اس کی بات کو نظر انداز کیا
ہممم۔
دونوں ہی امیچور ہیں رشتے کو سمجھنے کے لیے۔
تو تمہیں لگتا ہے میچور یہ رشتہ سمجھتے ہیں۔تمہیں کوئی اعتراض ہے تو صاف کہو۔
گوہر اعتراض نہیں ہے میں بس ان کہ بچکانہ طبیعت کی وجہ اے کہہ رہی تھی۔
مجھے لگتا ہے وہ سمجھ لیں گے۔
زی میرے لیے چھوٹی بہنوں جیسی ہے میں اس کے لیے برا نہیں سوچوں گی
میں جانتا ہوں۔
میں بہت پہلے سے جانتا ہوں اسے اس میں ایسی کوئی خامی نہیں جو اس رشتے کے آڑے آئے۔ گوہر نے ساری بات ہی ختم کر دی۔
ہممم وہ آرام سے موبائل فون پر رکھتی الماری کی طرف بڑھی۔
دعا تمہارافون۔ ۔ ۔ اس کا فون بجتا دیکھ گوہر نے پکارا
چونک کر مڑی اور فون اٹھایا
شیری کے فون کے بعد اب میج آیا تھا
I wanna talk to zee before marriage.
دعا جانتی تھی اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے اس وقت وہ خود کو دنیا کا سب سے خود غرض انسان سمجھ رہی تھی۔
دعا کا اس وقت شدت سے رونے کو دل چاہا۔
Sherry i am SORRY!! That was a selfish Decision. Don't need to accept.
دعا نے کانپتے ہاتھوں سے ریپلائے کیا۔
No Dua i just wanted to tell her everything and after that she will decide. If she say yes i will accept.
جواب بھی فوراً آیا تھا۔
You was right. Baba alwas want me to marry and i think its right time.
اگلا میسج اس کے جواب سے پہلے آیا
Sherry!
دعا اس لفظ کے علاوہ اسے کچھ نہیں کہہ سکی۔
It's time to move on and i wanted to.
وہ اس سے اگلا کوئی جواب نہیں سوچ سکی اور فون رکھ دیا۔
جب وہ لوگ مطلوبہ گاؤں پہنچے مہندی کی رسم تقریباً ختم ہوچکی تھی سو گوہر نے معزرت کی جسے انہوں نے بڑی خوش دلی سے قبول کیا تھا۔
آفندی صاحب کے بہت پرانے دوست تھے جن کے بیٹے کی شادی تھی۔ حویلی خوبصورت تھی مہمانوں سے بھری ہوئی۔ مگر خواتین اور مرد حضرات کےلیے علیحدہ انتظام تھے۔ دعا کو خواتین کے ساتھ جانے کا بتایا تو وہ چلی گئی اور گوہر مردوں کے ایریا کی طرف چل دیا۔ ہر طرف سر پر دوبٹہ لیے خواتین نظر آئیں۔
اگلا دن کافی شوروغل سے بھر پور ہونا تھا۔
صبح سے وہ نظر نہیں آئی تھی۔ ہر روز اسے دیکھنے کی عودت میں ایک خلل آیا تھا۔
بھائی جان ۔ ۔ ۔ کسی نے پکارا
جی؟ گوہر الجھا ہوا تھا
فکر نا کریں آپ کی بیگم خواتین کے ساتھ پہنچ جائیں گی ہال میں آپ چلیں ہمارے ساتھ۔ ۔ ۔
یہ کچھ دینا تھا میں نے؟ ہاتھ میں باکس پکڑے بولا
اچھا میں سفینہ آپا کو کہتا ہوں وہ لے آتی ہیں۔ سر کھجائے وہ گیا۔ کوئی پندرہ منٹ بعد وہ دوبٹہ سر پر لیے تیزی سے آئی۔ اسے لگا تھا آج ہجاب نہیں کرنا ہوگا۔
آپ نے بلایا تھا؟ دوبٹے کا ایک کونہ تھامے ناک پر لگائے وہ الجھن بھرے انداز میں بولی۔
وہ مسکرایا اور جلتا ہوا پاس آیا
یہاں کوئی نہیں ہے۔ ہاتھ بڑھا کر اس کے ناک سے دوبٹہ پیچھے کیا۔
اچھی لگ رہی ہو۔
شکریہ کیوں بلایا تھا؟ وہ جلدی میں تھی
ایک باکس اس کی طرف بڑھایا
یہ کیا ہے ؟ باکس کودیکھا پھر اسے
چوڑیاں ۔کندھے اچکا کر بولا
مجھے نہیں پہننی۔ وہ نروٹھے انداز میں بولی۔
اب تک خفا ہو؟ میں نے ہمیشہ کےلیے اتارنے کو نہیں کہا تھا۔ اس دن ۔ ۔ ۔ بس ایسے ہی۔ باکس سے کچھ چوڑیاں نکال کر دعا کے ہاتھ میں پہنائی۔ دعا نے آنکھیں سکیڑ کر دیکھا جیسے دماغی حالت پر شبہ ہوا ہو۔
باقی خود پہن لینا۔ آرام سے کہتا کمرے سے نکل گیا۔
اس کے دماغ میں کوئی کیڑا ہے۔ چوڑیوں کا باکس اٹھائے سوچتی واپس چل دی
ہال میں پہنچ کر سوچا فون کرے پھر رک گیا وہ بھی تو کر سکتی ہے ۔ ۔سر جھٹک کر فون واپس رکھا۔ بیٹھے بیٹھے بور ہوا تو اٹھ کر باہر کی جانب مڑا
بہت سی خواتین وہاں سے گزر کر ساتھ سیڑھیوں سے اوپر جا رہی تھیں جہاں خواتین کا انتظام تھا۔ وہ حیران ہوا تھا کل تک جوسر پردوبٹہ لیے گھوم رہی تھی اب گلے میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ وہیں رک کر نظر جھکا گیا۔
تھوڑی دیر یونہی زمین کو گھورتا رہا پھر جو نظر اٹھائی تو جھکنا بھول گئی۔ وہ دعا تھی ہجاب کے ایک کونے کو تھامے ناک پرر کھے نقاب بنائے آہستہ آہستہ سیڑھیوں کی طرف چل دی۔ وہ کتنی دیر یونہی خالی دیکھتا رہا۔
گوہر کو ایک با حیا بیوی ہونے پر فخر سا ہوا تھا اور جو اس نے شیری کو زی کے لیے منانے کی ہامی بھری تھی وہ خوش اس کے لیے۔
وہ وہیں سب سے آخری ٹیبل پر بیٹا شائد وہ نیچے آئے مگر وہ دوبارہ اسے دیکھ نہیں سکا۔
دولہے کو خواتین کی سائڈ میں ہی دلہن کے ساتھ بیٹھا کر نکاح کیا گیا اور کھانے کے بعد واپسی ہوئی۔ واپسی کے بعد وہی کمرہ اور وہی مہمان۔ تھوڑی دیر وہ یونہی لیٹا رہا پھر اٹھا اور صحن میں جا کھڑا ہوا۔ فون کو پکڑے سوچا پھر نا جانے دل میں کیا آیا کہ دعا کو ٹیکسٹ کیا۔
دعا نے بیپ پر فون کو سرسری سا دیکھا مگر گوہر کا نام دیکھا کر ٹھٹکی۔
اب اس کو کیا ہوا۔ فون اٹھایا
Wanna talk. Waiting out side.
ہیں؟ اب کیا ہے پھر سے مجھے ٹارچر کرنے کا دورا پڑا ہے اسے؟ سوچتے ہی جوابی میسج سینڈ کیا۔
Not coming!
ساتھ ہی اگلا میسج آیا۔
Okay then i am coming inside.
اف ۔ ۔
Wait i am coming.
گوہر نے مسکرا کہ فون پاکٹ میں رکھا۔ اس لڑکی کو سیدھی بات سمجھ نہیں آتی۔ اب ایک قہقہہ لگایا تھا۔
کونسا طوفان آیا ہے؟منہ بنا کر کھڑی
ایک دوست کی طرف جانا ہے۔ چلو۔ ۔ ۔ فون واپس نکالتے اسے دیکھے بغیر بولا۔
اس وقت؟ وہ حیران ہوئی تھی
اس وقت میں کیا پرابلم ہے؟ اس سوال پر چڑا تھا
جلدی چلو۔ ۔
نقاب لے کر آتی ہوں۔ وہ واپس مڑی
تمہارا ایک سٹالر گاڑی میں رکھا ہے اس سے کر لینا۔ اسے جاتا دیکھ اسے روکنے کو بولا
لیکن ؟ وہ جزبز سی رکی
تم ٹائم بہت ویسٹ کرتی ہو۔ جان بوجھ کر طنز کیا جو ٹھیک نشانے پر لگا۔
اچھا چلیں۔ کندھے اچکائے ساتھ چل دی
گاڑی میں بیٹھتے ہی دعا نے گوہر کو پکارا
سٹالر ؟
وہ ڈگی میں ہے ۔ ۔ وہ گاڑی سٹارٹ کرتے بولا
مجھے نقاب کرنا تھا۔ اسے یاد دلایا
نکلنے سے پہلے کر لینا ویسے بھی اندھیرا ہے کوئی نہیں دیکھ رہا
ہممم۔
لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے یہاں وہاں موڑتا گیا پھر ایک جگہ گاڑی رکی
گاڑی کیوں روکی۔ گاڑی رکنے پر اس نے مڑکردیکھا سنسان سی سڑک یا یوں کہنا چاہیے خوفناک سڑک
بند ہو گئی ہے۔ میں دیکھتا ہوں۔ گاڑی سا باہر نکلا
پتا نہیں چل نہیں رہی۔ گاڑی کا جائزہ لیتے بولا
اب؟ وہ پریشان سی پوچھنے لگی
لاک کر کے واک کریں گے۔ دعا کی سائڈ کادروازہ کھولا۔
اف ۔ ۔ وہ غصے سے باہر نکلی
یہ لو سٹالر ۔ ۔ ڈگی سے سٹالر نکال کا اس کی طرف بڑھایا
دعا نے نقاب کیا۔یہاں وہاں دیکھا۔یہاں دونوں سائڈ اتنے بڑے بڑے درخت کیوں ہیں؟
تم نے کبھی لاہور سے باہر سفر نہیں کیا ؟ اس کے ساتھ چلتے اس کے سوال پر مسکرایہ
نہیں۔ ۔ کیوں؟
کیا ہوتا تو پتا ہوتا نا کہ دونوں سائڈ پر جنگل ہے
جنگل۔ واؤ۔وہ پرجوش سی ہوئی۔
جنگلی جانور دیکھنے کا بہت شوق ہے ۔ ۔ ۔
ک۔ ۔ ۔ کیا مطلب ؟دعا نے کے چہرے پر خوف کے سائے لہرائے
جنگل ہے تو جانور بھی ہوں گے نا کامن سینس۔ ۔ ۔ کیاہوا تم ڈر گئیں؟
ن۔ ۔نہ مم ۔۔میں کیوں ڈرو گی۔ ڈر پر کابو پا کر بولی۔
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی آگے بڑھی۔ ڈر کی شدت میں اضافہ ہوا تو ساتھ دائیں جانب گوہر کو دیکھا چاہا۔ مگروہ نہیں تھا دوسرہ سائڈ پہ دیکھا مگر وہ وہاں بھی نہیں تھا۔ قدم روکے۔
اتنی تیز چلو گی تو میں پیچھے رہ جاؤں گا۔۔ وہ چل کے پاس آیا۔
تم بہت بہادر ہو مگر مجھے تو اس وقت تھوڑا ڈر لگ رہا ہے۔ گوہر نے اگے ہو کر دعا کا خوفزدہ چہرا دیکھ کر محظوظ ہوا۔
ہممم۔وہ یہ نہیں جتانا چاہتی تھی کہ وہ ڈر گئی ہے۔
اس چلتے چلتے ہاتھ پکڑا۔ مگر اس کا پورا دھیان درختوں پر تھا جیسے کوئی خوفناک مخلوق وہاں سے ٹپک پڑے گی۔ تھوڑی دیر چلتے گئے۔
گوہر ۔ ۔ ۔ دعاچلتےچلتے رکی
ہممم۔ ۔ وہ ٹرانس سے باہر آیا۔
آپ کے دوست کا گھر کتنی دور ہے ؟
وہ ۔ ۔ ۔ اوہ میں تو ایڈریس ہی بھول گیا۔وہ گڑبڑیا اسے سمجھ نہیں آیا کیا کرے۔
گوہر ؟بھول گئے کیا مطلب ہے۔ ۔ وہ تقریباً چیخی تھی۔دعا نے ہاتھ کھینچا
ایک کام کرتے ہیں واپس چلتے۔ سنبھل کر بولا
گاڑی بند ہے ۔ دعا نے یاددلایا
ٹرائے کرنے میں کیا جاتا ہے میں پھر سے کوشش کرتا ہوں۔ شائد چل جائے۔ یو نو وہ بھی ڈرگئی ہوگی۔
گوہر۔ ۔ وہ شیری ۔ ۔ ۔ زی سے پہلے مل کر بات کرنا چاہتا ہےکچھ۔ دعا الجھی ہوئی تھی مگر پھر خود کو کمپوز کرتی گوہر کو پکارا
ہیں؟ ۔ ۔ فوراً سنبھل کر بولا ۔ ۔ ۔ ہا ں مل لے ۔ ۔وہ رکا مگر اسی گھر میں۔
ٹھیک ہے میں بتا دوں گی۔ وہ حیران ہوئی تھی۔
اسے کہو آج مل لے ۔ ۔ کچھ سوچ کر وہ سیدھا ہوا
آج؟ حیرانگی سے گوہر کی طرف مڑی
ہاں۔ ۔ ۔ زی کو کہہ دو وہ آج کالج نہ جائے۔
اچھا۔ وہ ابھی الجھی ہوئی تھی۔
تمہیں آفس چھوڑ آؤں؟ اٹھ کر دعا کے پیچھے کھڑا ہوا
نہیں میں چلی جاؤں گی۔۔ وہ ٹھٹھکی تھی
مجھے آج دیر سے جاناتھا اس لیے پوچھا۔ جلدی سے بات کی وضاحت کرنے لگا۔
نہیں شکریہ۔ میں زی کو بتا دیتی ہو ۔ ۔ وہ کھسک گئی۔
اوکے۔ وہ بالوں میں ہاتھ پھیراتا آگے کا سوچنے لگا
کیسی ہو؟ ماہی نے زی کے کمرے میں جھانکا۔
بالکل ٹھیک۔ وہ جو لائنر لگا رہی تھی رک کر مڑے بغیر بولی۔
تم آج گھر پر؟ کمرے داخل ہوتے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
وہ شہریار نے آنا تھا ملنے اس لیے۔ زبان پھسلی
کیوں؟ وہ آنکھیں سکیڑ کے بولی۔
وہ۔ ۔ ۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا
بتاؤ۔ وہ اس کے کندھے پرہاتھ رکھے دیکھنے لگی
شادی سے پہلے ملنا تھا اس کو مجھ سے ۔ ۔ وہ جھجھکی مگر پھر آئستہ سی آواز میں بتانے لگی۔
کیا؟ ماہی ایک دم اس کے سامنے کھڑی ہوائی۔
ہممم۔ ۔ وہ نیچے دیکھنے لگی۔
گاڑی کی آواز پردونوں چونکی
لگتا ہے وہ آگیا۔ زی ایک دم گھبرائی۔
اچھا میں چلتی ہوں آنٹی کو بتا دوں ممی نےگوہر کو دعوت پر بلایا ہے۔ وہ پاپا آ گئے ہیں نا۔ وہ کمرے سے نکلی مگر شہر یار کو زی کے کمرے کی طرف آتا دیکھ پلر کے پیچھے ہو گئی۔
شیری نے زی کے کمرے پر دستک دی
آجائیں۔ وہ آہستگی سے بولی۔
نہیں باہر بات کرتے ہیں لان میں۔ اسے باہر آنے کا اشارہ کر کے وہ لان کی طرف بڑھا۔
اوکے کرتی اس کے پیچھے چل دی۔ لان میں پہنچ کر شیری نے مڑ کر دیکھا۔
بیٹھ جاؤ۔ اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
اس کے بیٹھنے کا انتظار کیا اس کے بیٹھتے ہی خود اسے کے سامنے والی چیئر کھینچ کر بیٹھ گیا۔
شیری نے نظریں جھکائے بولنا شروع کیا۔
زری میں کسی بھی رشتے کے لیے جھوٹ نہیں بول سکتا اس لیے میں چاہتا ہوں میری زندگی کے مطلق تمہیں پتہ ہو اس کے بعد تمہارا فیصلہ ہوگا تم ہاں کرو یا نہ
کیا کہنا چاہتے تھے۔ آخری جملے پر حیران ہوئی تھی
دراصل میں کسی میں انٹرسٹڈ تھا۔ وہ اب بھی اپنے جوتوں پر نظریں گاڑھے بولا۔
یہ جملہ زری کے دل کو لگا تھا وہ کچھ دیر بے یقینی سے نظریں اٹھائے اسے دیکھتی رہی دونوں ایک درمیان ایک لمحے کو مکمل خاموشی چھا گئی۔
تو اس سے شادی کر لیں۔ زی کی آواز نے خاموشی کو توڑا۔
اس کی شادی ہو گئی ہے۔ شیری نے نظریں اٹھائیں۔
زری میں کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا اس لیے بتایا ہے اب یہ تم پر منحصر ہے تم انکار کرو یا اقرار۔ میں اگے بڑھنا چاہتا ہوں اگر تم ہاں کرتی ہو تو اس بات کو میں یقینی بناؤں گا کہ تمہیں مجھ سے شکائیت کم سے کم ہو۔
زی نے نظریں جھکا لیں۔ اسے خاموش دیکھ کر وہ پھر سے بولا۔
کوئی زبردستی نہیں ہے اگر انکار کرنا چاہو اور نہ کر سکو تو بس مجھے کہہ دینا باقی یہ میرا مسئلہ ہو گا کہ میں کسیسے منع کرو۔وہ کھڑا ہوا اس کے جواب کا انتظار کیا مگر وہ خاموش تھی
چلتا ہوں۔ پھر اسے خاموش دیکھ کر واپس چل دیا۔
شہریار کے جاتے ہی ماہی لان میں زی کی طرف آئی۔
کیا ہوا تم رو رہی ہو۔اسے سر جھکائے بیٹھ دیکھ اس کے ہاتھ پر پڑے آنسوؤں پر آبرو اٹھا کر دیکھا۔
کیا ہوا۔ وہ اس کے ساتھ چیئر پر بیٹھ گئی۔
کچھ نہیں۔ آنسو صاف کرتے بولی۔
مجھے معلوم ہے اس نے کیا بولا ہوگا۔ زی نے بھیگی پلکیں اٹھا کر دیکھا
یہی نا کہ وہ جس سے شادی کرنا چاہتا تھا اس کی شادی تمہارے بھائی سے ہو گئی۔ وہ غصے سے بولی
کیا مطلب وہ اب بھی حیران تھی۔
دعا ہے نا وہ لڑکی۔ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
نہیں اس نے یہ نہیں کہا۔ بات کی تردید کی۔
تو اور کونسی ہے جس کی شادی ہو گئی۔ یونیورسٹی میں میرا شیری دعا گوہر اور رضوان کا ہی گروپ تھا باقی سب جتنی دو تین لڑکیاں تھی وہ تو میرڈ تھیں یا ایگیجڈ۔۔
تو ۔ ۔ بھابی نے بھائی سے شادی۔ کیوں کی؟ وہ حیرانگی سے دیکھنے لگی
تمہارے بھائی کے پاس پیسہ زیادہ ہے سمپل۔ کندھے اچکا کر کہا۔
میں منع کر دوں گی شادی سے ۔ مایوسی سے سر جھٹکا۔
پاگل ہو کیا اپنے بھائی کا سوچو اس کا گھر خراب ہو جائے گا۔ شہریار سے شادی کر لو وہ دعا کو بھول جائے گا کم سے کم اپنے بھائی کے لیے اتنا تو کر ہی سکتی ہو۔ اس کا کندھا تھپتھپا کر وہ چلی گئی مگر زی بہت دیر وہیں بیٹھی اپنی قسمت کی ناانصافی پر روتی رہی پھر اٹھی اور تھکے تھکے قدموں سے اپنے کمرے میں چل دی۔
دعا نے آتے ہی پہلے زی کے کمرے کا رخ کیا۔ وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی
زی تمہاری ۔ ۔ شہریار سے بات ہوئی؟ دعا اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھی۔
ہو گئی۔ اس نے مختصر جواب دیا۔
زی۔ ۔ ۔ کوئی اعتراض۔ ۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولی
مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ۔ اب کی بار سر اٹھایا
زی جب ہم زندگی میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ماضی کہیں بہت پہچھے رہ جاتا ہے اور اگر عورت بہت کیرنگ ہے تو انسان ماضی کی کسی یاد کو پھر سے زہن میں نہیں دہراتا۔ امی کہتی ہیں گھر عورت بناتی ہے مرد کا کام اس گھر کی حفاظت ہے مگر بنیاد اور تکمیل عورت بناتی ہے۔ کبھی کوئی پرابلم ہے تم مجھ سے کہہ سکتی ہو۔
اس کے گال پر تھپتھپا کر واپس کمرے میں آئی۔
فون نکال کرگوہر کو میسج کیا
Zee said she don't have any objection and sherry also gives me a positive response.
جواب کھٹاک سے آیا تھا۔
Great!! Will talk to mama and baba today.
اگلا جواب بھی ساتھ ہی آیا۔
Thank you so much for honouring my words.
بیٹا آج ماہی آئی تھی ۔ شمائلہ بیگم نے گوہر کے بیٹھتے ہی صلہ کا پیغام دیا۔
کیوں ماما؟ وہ حیران ہوا۔ دعا اور اس کی شادی کے بعد سے اس کا آنا تقریباً ختم ہو گیا تھا۔
آپ کو اور دعا کو صلہ کی طرف جانا ہے دعوت پر۔ اسے دیکھتے بولیں۔
اب کیوں؟ وہ چڑا رھا۔
بیٹا وہ زیاء کی وجہ سے رکی ہوئی تھی اب وہ آ گئے ہیں تو اس لیے اب کر رہی ہے چلو جانا ورنہ برا لگے گا اسے۔ آفندی صاحب کو بولنا پڑا
جی اچھا بابا؟ وہ سر جھکا گیا۔
آپ لوگ بیٹھیں میں زرا نماز پڑھ لوں۔شمائلہ بیگم اٹھ کر چلی گئیں۔
دعا سی کی آواز پر دونوں چونک کر کچن کے طرف دیکھنے لگے۔
میں دیکھتا ہوں گوہر اٹھ کر کچن کے طرف گیا وہ سلب کے پاس دوسری طرف منہ کیے کھڑی تھی
دعا کیا ہو؟گوہر کی آوازپر چونک کر موڑی
کچھ نہیں۔سرخ ہوئے چہرے کچھ اور ہی بتا رہا تھا۔ پیچھے چھپائے ہاتھ سے خون کی بوندیں زمیں پر گری جس پرگوہر کی نظر رک گئی۔
چوٹ لگی ہے۔ دعا نے نفی میں سر ہلایا
ہاتھ دیکھاؤ۔ وہ چلتا ہوا اندر آیا۔
نہیں کچھ نہیں ہوا ۔ ۔ زمیں میں نظریں کھاڑے بولی۔
وہ قدم قدم چلتا پاس آیا
بس تھوڑی سی لگی ہے۔ اس کو اپنی طرف آتے دیکھ کر گڑبڑائی۔
دعا۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ دکھاؤ اپنا مجھے۔ اب کی بار سختی سے کہا تو دعا نے ہاتھ دوبٹے سے باہر نکالا۔
اف اتنی لگا لی ہے تمہیں کس نے بولا تھا اس وقت یہ کرنے کو ۔ ۔ وہ دیکھ کر پریشان ہوا شہادت اور اس کے ساتھ انگلی سے خون بہہ رہا تھا
اف تمہیں تو بخار بھی لگ رہا ہے۔ وہ پریشان ہوا تھا۔
میں ٹھیک ہوں۔ آپ جائیں مجھے اپنا کام کرنیں دیں۔ خود کو کمپوز کرتی بولی۔
کیا ہوا بیٹا۔آفندی نے دروازے سے کھڑے کھڑے پوچھا
کچھ نہیں۔ دعا نے فوراً کہا
بابا چوٹ لگی ہے اسے اور بخار بھی ہے شائد ۔ گوہر نے ساتھ ہی بھانڈا پھوڑا۔
خواتین اپنے بارے میں لا پرواہ کیوں ہوتی ہیں کیاکر رہی تھیں۔ آفندی نے اندر آتے پوچھا۔
سبز مرچ کاٹتے ہوئے لگ گئی بس ۔ ۔ وہ جھجک کر بولی
انفکشن ہو جائے گا باہر آئیں۔ گوہر بیڈیج باکس لے کر آئیں۔ گوہر کو ہدائیت دیتے دعا کی نبض چیک کی اور اسے باہر آنے کا اشارہ کیا
ڈیٹول سے صاف کر کے یہ ٹیوب لگا دیں تاکہ مرچ کااثر جائے میں زرا ٹیبلٹ دیکھ لوں کوئی۔ گوہر کو سمجھاتے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھے۔
میں خود کر لوں گی ۔ گوہر کو باکس سے چیزیں نکالتا دیکھ فوراً بولی
بابا کو آواز دوں ۔ سامنے بیٹھتا دھمکی دینے کے انداز میں بولا۔
جیسے ہی گوہر نے اسے فرسٹ ایڈ دی تو دعا اٹھ کر کھڑی ہوئی۔
کمرے میں جاؤ خانم خود ہی صبح کر لیں گیں۔
گوہر گرم دودھ سے یہ ٹیبلیٹ دے دو درد کم ہوگا ٹھنڈ اور مرچ زخم کو سوکھنے نہیں دے گی ورنہ ۔ ۔ دعا کے جاتے ہی تھوڑی دیر بعد آفندی گوہر کے پاس آکر بولے۔
وہ جی کہتا میڈیسن لیے کچن میں آیا دودھ گرم کیا اوراوپر کمرے میں آیا دعا ہاتھ پر پھونک مارنے میں اور رونے میں بزی تھی۔
یہ لو میڈیسن کھا لو ۔ ۔ ٹرے اس کی طرف بڑھایا۔
مجھے نہیں چاہیے ۔ اسے تپے ہوئے انداز میں دیکھا نظر انداز کر کے بولی۔ اسے ابھی تک اس بات پرغصے میں تھی اتنی سردی میں سڑک پر چلایا حاصل کچھ بھی نہیں کیونکہ جناب دوست کا گھر بھی بھول گئے۔ اسے اب کون بتاتا دوست ہوتا تو ایڈریس ہوتا نا۔
تم ہمیشہ سے ضدی ہو یا میرے ساتھ ضد لگانے کا کوئی عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا سوچا ہوا ہے۔ اس کی بے جا ضد پر چڑ کر بولا
دعا نے مذید تپے ہوئے انداز سے دیکھنے لگی
کیا ۔ ۔ ۔ اب بھوکی شیرنیوں کی طرح تو مت دیکھو ۔ ۔
آپ کی بات مانوں یہ ضروری نہیں ہے ۔ وہ سر جھٹک کر بولی۔
ہاں ضروری تو نہیں ہے مگر بابا کی مان سکتی ہوں ۔ ۔ ۔ خیر نہیں ماننی مت مانوں مجھے کیا۔ ۔ میں بابا کو کہہ دیتا ہوں آپ فرمابردار بہو نہیں کھا رہی دیتی رہنا جواب ان کو۔ بات مکمل کر کے دروازے کی طرف بڑھا
ایک منٹ ۔ ۔ وہ اٹھ کر پیچھے آئی۔
کھا لوں گی میں ۔ ۔ اس کے ہاتھ سے ٹرے تقریباً کھینچا
دیکھ رہا ہوں میں کھاؤ ۔ ۔ آبرو اٹھائے بولا
اب کھاؤ بھی مجھے ریپورٹ دینی ہے نیچے جا کر۔ ۔ اسے یونہی کھڑا دیکھ کر پھر بولا۔
زیادہ شکائتی ایجنٹ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ گولی نکال کر بولی
اچھا ؟۔ ۔ وہ ہنسا تھا
میں شیری کی طرف سے فنگشنز اٹینڈ کروں گی۔ ۔ دوا کھا کر ٹرے اس کی طرف بڑھا۔
اوکے اور کچھ۔ ٹرے پکڑ کر وہ مودبانہ انداز میں بولا۔
نہیں۔۔ ۔ اس کو دوسری بات نہ ماننے کا اشارہ دے کر اپنی انا کی تسکین کی تھی۔
آج دعوت تھی صلہ کی طرف دعا اور گوہرکی وہ ہمیشہ ان کو کہتی تھیں میں بولاؤں گی بس زیاء یعنی ماہی کے والد آجائیں۔ اب چونکہ وہ آ گئے تھے تو صلہ نے یہ دعوت دی تھی۔
دعا بیٹا یہ میری طرف سے آپدونوں کے لیےایک تحفہ۔زیاء صاحب نے ایک بیگ دعا کی طرف بڑھایا تو وہ پریشانی سے گوہر کو دیکھنے لگی۔ گوہر نے لینے کا اشارہ کیا تو دعا نے شکریہ کے ساتھ پکڑا۔
معذرت کے ساتھ میں آپ لوگوں کی شادی ایٹنڈ نہیں کر سکا۔ گوہر کو دیکھتے بولے
کوئی بات نہیں زیاء انکل۔ وہ مسکرایہ۔
کھانا لگ گیا آجائیں۔صلہ کی آوازپر سب چونکے۔ سب اٹھ کر ڈینگ ٹیبل کی طرف بڑھے۔
صلہ ارے بھائی ہماری بیٹی کہاں ہے؟ ماہی کو ٹیبل پر نہ پا کر انہوں نے پوچھا۔
جی اس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ وہ ایل دم سنبھل کر بولی
کیا مطلب کیا ہوا اسے۔انہیں ایک دم پریشانی لاحق ہوئی
وہ بس سر درد ہے۔ صلہ نے مسکرانے کی کوشش کی
اچھا اسے کہیں مہمان آئیں ہیں آپ بلائے سب کے ساتھ کھانا کھائے۔ بیٹا آپ لوگ شروعکریں۔
ماہی کو مجبوراً انا پڑا۔
کھا نے کے بعد ماہی سر درد کا کہہ کر کمرے میں چلی گئی دعا انہیں اکیلے برتن اٹھاتے دیکھ ان کے ساتھ برتن اٹھانے لگی۔
گوہر پلیز زرا ماہی کو بلا لانا دعا میرے ساتھ ہلپ کررہی ہے برتن اٹھانے میں۔ اچانک کچھ یاد آنے پر صلہ نے گوہر سے کہا وہ جی کہتا اٹھ بیٹھا۔
ماہی کے کمرے پر ناک کیا اور دروازہ کھلتے ہی بولا۔
پھوپو بلا رہی ہیں۔
ماہی نے ہاتھ پکڑ کے کھینچا وہ جو بے دہانی میں کھڑا تھا ماہی کے ہاتھ کھینچنے سے توازن برقرار نہ رکھ سکا اور اگے کو کھیچتا زمین پر گرنے سے بچنے کے لیے دروازے کو پکڑا موبائل ہاتھ سے گرا اور کمرے میں کھینچا چلا گیا۔
کیا بدتمیزی ہے یہ ۔ سنبھل کے غصے سے ماہی کو دیکھا
مجھے بس ایک سوال کا جواب دو۔ تم نے دعا کو مجھ پر فوقیت کیوں دی کیا ہے اس میں ایسا۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوچھ رہی تھی۔
میرے پاس تمہاری فضول بکواس کا کوئی جواب نہیں۔ نیچے جھک کر موبائل اٹھایا
گوہر پلیز مجھ پررحم کرو۔ ماہی آگے بڑھ کے بازو پکڑے۔
تم اس پر رحم کرو جیسے دوست کہتی ہو تم وہ تمہارے گھر میں ہی موجود ہے اس بات کا ہی لحاظ کر لو۔ اس کی اچانک اس حرکت پر وہ سیخ پا ہو کربولا
لحاظ ؟ کونسا اس نے میرے حق پرڈاکہ ڈالا ہے ۔ وہ ہارنے والی کب تھی۔
دعا صلہ کے کہنے پر ان دونوں کو بلانے آئی مگر گوہر کے بازوں پر ماہی کی گرفت دیکھا کر وہ وہیں رک گئی۔
میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتاماہی ۔ تمہیں اندازہ بھی ہے کہ دعا کو پتا چلا تو کیا ہوگا۔اس کے بازوں اپنے سے دور کیے مگر تب تک دیر ہو گئی۔ کونکہ دعا دیکھ کر واپس مڑ چکی تھی۔
دعا کو گوہر کی بات کانوں میں سیسہ پڑنے کے مترادف لگی تھی۔وہ آدھی ادھوری بات سنتی تیزی سے واپس مڑی۔
آنٹی واش روم کہاں ہے۔ باہر آتے ہی خود پر قابو پاتے صلہ سے بولی۔
میرے روم میں چلی جاؤ۔ صلہ نے پلٹ کر دیکھا۔مگر سمجھ نہیں سکیں۔ رک کر اسے جاتا دیکھا۔ہیں یہ تو کچھ بھی نہیں بولی۔ دیکھا بھی ہے اس نے کچھ کہ۔ وہ سوچنے لگیں۔ شائد گھر جا کر بولے گی۔
روم۔میں آ کردروازہ بند کیا اوردروازے کے ساتھ ہی ٹیک لگا کے کھڑی ہوئی۔ تیز بہت تیز آنسو بہنے لگے۔ گوہر میں تو ایمانداری سے آپ کے ساتھ نباہ رہی تھی آپ۔ ۔ آپ وہ سب ۔ ۔کیا تھا میرا خیال کرنا میری پرواہ کرنا ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ وہ سب جھوٹ تھا۔ میری نظر کا دھوکہ تھا۔ شیری غلط تھا۔ گوہر آپ ۔ ۔ ۔نے ایسا کیوں کیا؟۔ ۔ ۔ وہ روتے روتے خود سے مفروضے قائم کرنے لگی۔ منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکیوں کو روکا۔ اور نیچے بیٹھتی گئی۔میں جو گوہر کے ہر کام کرنے پر اس کی خاموشی کوراضع مندی سمجھ رہی تھی وہ دراصل اس کی خاموشی تھی طوفان سے پہلے والی۔ وہ شائد کچھ اور پلین کر رہے تھے ۔ یہ سوچ کر وہ مزید پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سچ کیوں نہیں کہہ دیتے۔
میں انتظار کروں گی جب آپ یہ سچ میرے منہ پر آ کر کہو گے۔
جب خود کو رو رو کر پر سکون کیا تو آنکھیں مسلتی اٹھی واش روم جا کر منہ دھویا۔ جب باہر آئی تو گوہر نے فوراً بولا
جلدی چلو دیر ہو رہی ہے۔ وہ بغیر کچھ بولے ساتھ چل دی۔گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ ایک دم رکا۔
ایک مینٹ شائد میں فون اند ہی بھول آیا ۔ ۔ آتا ہوں۔ گاڑی سے نکلا اور اندر کی جانب بڑھا۔زیاء صاحب شائد اندر اپنے کمرے میں چلے گئے مگر ماہی اور صلہ وہیں ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھیں تھیں۔
ماما میں نے گوہر کا کیریئر بھی دائوپر لگایا مگر وہ پھر بھی میرا نہیں ہوسکتا وہ اس بہن جی ۔ ۔ ۔ وہ رو رہی تھی۔
میں نے گوہر کو یہی کہا تھا کہ اسائنمنٹ دعا نے پھاڑی تھی۔ ۔ ۔لیکن اس نے پھر بھی دعا سے شادی کی۔ آج بھی اس نے ہمیشہ کی طرح انکار ہی کہا مجھے۔
گوہر غصے میں پلٹ گیا۔ پورے راستے کوئی بات نہیں کی۔ وہ اس وقت شدید شرمندگی اٹھا رہا تھا۔
جیسے ہی گاڑی کھر کے گیٹ کے پاس رکی دعا فوراً باہر نکل آئی۔
دعا تم اندر جاؤ میں بعد میں آتا ہوں۔ دعا کچھ نہیں بولی اور گھر کے اندر داخل ہوئی مگر گوہر گاڑی واپس موڑ گیا۔
وہ دونوں ہی اس وقت ایک دوسرے کو دیکھنا نہیں چاہتے تھے گوہر شرمندگی سے اور دعا نفرت سے۔