اوئے تم یہاں کیا کر رہی ہو۔ زی کو بس سٹاپ پر دیکھ کر گاڑی ریورس کی اور مرر نیچے کر کے پوچھا۔
تمہیں کیا۔ زی نے منہ بنا کر کہا۔
مجھے تو کچھ نہیں ہے ۔ آؤ تمہیں گھر چھوڑدوں۔ شیری نے بڑے سکون سے کہا
بس میں چلی جاؤ گی۔ وہ ترچھی کھڑی ہوئی
پہلے کبھی گئی ہو؟ طنزیہ مسکراہٹ سے پوچھا
نہیں لیکن اب چلی جاؤں گی۔ وہ اسےگھور کے بولی
کہہ رہا ہو نا بیٹھو۔ ۔ اب کی بار سختی سے بولا۔
نہیں بیٹھنا۔وہ بھی ضد سے بولی
تمہاری ایسی کہ تیسی۔ ۔ ۔ اٹھ کر گاڑی سے باہر نکلا زی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
بیٹھتی ہو یا گاڑی تمہارے اوپرچڑھاؤں۔ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔
وہ اپنے موبائل کے ساتھ ہوا شیری کا سلوک دیکھ چکی تھی سو فوراً بیٹھ گئی۔
اس وقت یہاں کیوں ہو؟ گاڑی چلاتے ہی اس نے وجہ پوچھی
کلاس نہیں ہوئی مجھے پتا نہیں تھا تو گھر جانے کا سوچا۔ باہر دیکھتے بولی
تو بھائی کو نہیں بلا سکتی تھی۔ تنقیدی نظر سے دیکھا
فون تو تم میرا توڑ چکے ہو تو تمہارے سر سے کرتی۔ وہ منہ بسور کے بولی
ہاہاہا۔اوہ میں تو بھول ہی گیا۔ ۔ ۔ ویسے تم نے ہی فورس کیا تھا ورنہ مجھ سہ معصوم اور ہینڈسم ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ ہنسا تھا
اب کی بار وہ کچھ نہیں بولی۔
اگر کوئی تمہیں اٹھا کر لے جاتا اور تمہارے پاس کچھ نہ ہونے پر تمہیں قتل کر دیتا پھر۔ ۔ ۔ زی نے ڈر کے دیکھا
یا پھر تمہیں کیڈنیپ کر کے تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کے تمہیں مانگنے پر لگا دیتا پھر۔ کچھ گنے چنے حقائق سے روشناس کروایا
تم ایسا کیوں بول رہے ہو۔ وہ سہم کر اسے براہ راست دیکھنے لگی۔
بھائی میں تو سچا انسان ہوں سچ بولتا ہوں۔ کندھے اچکا کے بولا۔
اب وہ رونے کو تھی۔
کسی کا نمبر یاد کر لو۔ ۔ ۔ دیکھو وقت اور حالات کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ سمجھانے والے انداز میں بولا۔ گاڑی گھر کے باہر روک کر اسے خاموشی سے بیٹھا دیکھ کر بولا۔
او بی بی یہاں گھر بسانا ہے اب چلو اترو گھر آ گیا تمہارا۔
ہاں؟ وہ چونک کر باہر جھانکنے لگی اور پھر اتری
سنو۔ اسے جاتا دیکھ کر اسے آواز لگائی۔
جی۔ زی نے مڑ کر دیکھا
Sorry for your phone.
Hmmm it's Okay
اسلام وعلیکم سر جی ۔ ۔ شیری نے ایک دم گارڈ پر سلام چھاڑا۔
واعلیکم۔اسلام سر دعا میڈم نے آپ کو اندر بلایا ہے۔ آنکھیں مندے بیٹھا وہ ایک دم گڑبڑا کے اٹھا۔
ہیں آ گئی وہ۔ شیری نے سر کھجایا
جی سر تین بار پوچھ چکی ہیں آپ کا۔
آج تے فر ہو گئی بزتی۔ شیری تیزی سے دعا کے کمرے کی طرف بڑھا۔ناک کر کے اندر داخل ہوا
ارے تم۔ ۔ ۔ آ بھی گئی واہ بڑی کوئیک سروس ہے۔ اسے چھیڑنا ضروری سمجھا۔
ہممم ۔ ۔ اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
اور ٹائم کیا ہوا ہے؟ اس کے بیٹھتے ہی پوچھا
گیارہ بجے ہیں۔ وہ دھیمے لہجے میں بولا۔
تمہارا آفس اس وقت کھلا ہے۔ لیپ ٹاپ چھوڑ کے گھور کر دیکھا۔
وہ تمہاری نند مصیبت میں تھی اسے گھر ڈراپ کر کے آیا ہوں۔ اس لیے۔
کیا مطلب؟دعا نے پریشانی سے پوچھا
بس سٹاپ پر تھی کہہ رہی تھی کہ کلاس نہیں ہونی تھی تو گھر جانے کا سوچا تو میں نے لفٹ دے دی باحفاظت گھر چھوڑ کے آیا ہوں۔ اسے خاموش دیکھ کر پوچھا
اچھا کیوں بلایا تھا مجھے؟
شیری مجھے گاڑی لینی ہے؟ کچھ سوچ کر بولی
جب میں نے بولا تب کہا تھا نہیں اب کیوں؟
اب ضرورت ہے۔ واپس کام کرنے لے لیے لیپ ٹاپ کی طرف رخ کیا۔
پاگل اب تو تمہارے شوہر کے گھر تین تین گاڑیاں ہیں۔ یاد کروایا۔
ہاں تو اب چار ہو جائیں گی نا۔ مسکراتے بولی
دعا۔ شیری نے غور سے دیکھا
ہممم۔ ۔ مصروف سی بولی۔
سب ٹھیک ہے نا؟
نہیں۔ دعا نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹائیں
کیا ہوا ؟۔ ۔ ۔ کچھ ہوا ہے۔ پریشانی سے دیکھا۔
دعا خاموش رہی
دعا بتاؤ مجھے ۔ ۔ ۔ ۔
وہ انکل نے تمہارے لیے لڑکی ڈھونڈنے کا آڈر دیا ہے اب گوہر کے گھر کی گاڑی یہ کہہ کر استعمال کرو گی تو کیسا لگے گا ۔اس کے ساتھ ہی دعا کی ہنسی بے قابو ہوئی۔
دفع ہی ہو جاؤ تم ۔ ۔ ۔ اس کا بلا کا اطمنان دیکھ کر اسے غصہ آیا۔
کیا ہوا؟ وہ ہنسی روکتے بولی
میں پتا نہیں کیا سوچے بیٹھا تھا۔ اٹھ کر کھڑا ہوا۔
اچھا بتاؤ کیسی لڑکی چاہیے۔ اب کی بار سیریس ہوئی۔
کیوں تم میرج بیورو کھول رہی ہوں۔ منہ بسورا
یہی سمجھ لو۔ کندھے اچکائے
فضول باتیں مت کرو۔
فضول؟ بھنویں اچکائیں۔
جی یہ وفضول ہی ہیں ایسی باتوں سے اپنے میاں کا دماغ خراب کرو میرا نہیں ۔ وہ منہ بنا کر آفس سے نکل گی
گہری سانسو ں کی آواز سے آنکھ کھلنے پر دیکھا دعا بیٹھی لمبی لمبی سانسی لے رہی تھی۔ اسے رات کے اس وقت یوں بیٹھے دیکھ کر گھبرایا۔۔
دعا کیا ہوا؟ دعا کو خوموش پا کر اٹھا اور بیڈ سے اتر کر دعا کے سامنے آیا۔
کیا ہوا تمہیں ؟ س۔ ۔ ۔ سب ٹھیک تو ہو ؟ دعا کو اس طرح دیکھ اس کی سٹی پٹی ہی گم ہو گئی۔
س۔ ۔ س۔ ۔ سانس۔ سینے پر ہاتھ رکھے وہ بس اتنا بول سکی۔
اٹھو ۔ ۔ اسے اٹھا کر بالکنی میں کھڑا کیا ۔ ۔میں پانی لے کر تا ہوں۔
تازہ ہوا کو لمبی سانس لے کر اندر کیا تو کچھ بہتر محسوس کر نے کے بعد اس نے ریلنگ پر پکڑ کمزورکی
پانی پیو۔ ۔ ۔ پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھا۔
دعا نے ایک ہی سانس میں گلاس ختم کیا۔
ڈاکٹڑ پر جانا ہے؟۔ آگے ہو کر اسے غور سے دیکھتے پوچھا۔
نہیں ۔ ۔ میں ۔ ۔ اب ٹھیک ہوں۔ سامنے غیر مرئی نقطے کو دیکھتے بولی
سٹول پر بیٹھ جاؤ۔ پاس پڑے سٹول کی طرف اشارہ کیا۔
دعا خاموشی سے بیٹھ گئی۔
کیا ہوا تھا؟ گوہر نے فکر مندی سے دعا کودیکھا۔
برا خواب دیکھا تھا ۔ ۔ پھر جب آنکھ کھلی تو ۔ ۔ ۔ ایسا لگا سانس بند ہو جائے گی۔
خواب ضروری نہیں سچ ہوں ۔ ۔ سب ٹھیک ہے اب۔ گوہر نے آگے بڑھ کر دعا کے ہاتھ کی طرف ہاتھ بڑھا
وہ نیچے دیکھ رہی تھی۔ پھر جانے کیا سوچ کر ہاتھ واپس کھینچا
اٹھو ۔ ۔ ۔ سو جاؤ۔
دعا پیچے چلتی آئی۔ اور لیٹ گئی گہرا سنس لے کر آنکھیں بند کیں اور کروٹ بدلی۔
گوہر نے دعا کہ طرف کروٹ لی۔ دعا کی پشت کو دکھ سے دیکھا۔
تم نے بہت غلط کیا میرے ساتھ ۔ لیکن میں اب بھی تم سے نفرت نہیں کر پا رہا۔ کاش تم یہ سب نہیں کرتیں تو آج حالات کچھ اور ہوتے۔ بس ایک بار کہہ دو تم سے غلطی ہو گئی تم شرمندہ ہو جو تم نے کیا میں سب بھول جاؤں گا۔ دعا کی پشت کو دیکھتے سوچا
مگر میں جانتا ہوں تم نہیں کروگی یہ سب۔ تم مجھے جھکانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گی۔ واپس کروٹ بدل کر سو گیا۔ صبح جب آنکھ کھلی تو دعا اب بھی سو رہی تھی۔
ہیں اس نے آفس نے جانا۔ سر جھٹک کر اسے نہ اٹھانے کا سوچ کر واش روم گیا تیار ہو کر اسے دیکھا مگر وہ اب بھی سو رہی تھی۔ سو نیچے گیا۔
اسلام علیکم ۔ سلام کرتا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
واعلیکم اسلام دعا کہاں ہے ؟ آفندی نے خلاف معمول دعا کو نہ پا کر پوچھا۔
وہ اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے اس لیے سو رہی ہے۔ ناشتے کرنے لگا
با با میرے پیٹ مہں بہت درد ہے؟ زی بھی فوراً بے چارگی سے بولی
کیوں ؟۔ گوہر نے گردن موڑ کردیکھا
بتا کر نہیں ہوا۔ وہ منہ بسور کے بولی۔
چلیں آج آپ چھٹی کر لیں لیکن کل آپ کو اپنے درد کوسمجھا پڑے گا۔ شمائلہ بیگم نے حکم صادر کیا۔
جی بابا ۔ میں آرام کر لیتی ہوں۔ وہ ہاتھ چھاڑتی اٹھ بیٹھی۔
اوکے میں چلتا ہوں۔ گوہر نے ناشتہ ختم کیا
دعا سے پوچھ لینا کہ ڈاکٹر پہ تو نہیں جانا۔ شمائلہ بیگم نے گوہر کو اٹھتے دیکھ کر کہا
جی۔ وہ جی کرتا کمرے کی طرف چل دیا۔
دعا آئینے کے سامنے بال ٹھیک کررہی تھی۔
آفس نہیں جانا؟ کمرے میں داخل ہوتے ہی بولا۔
نہیں دل نہیں چاہ رہا۔ وہ مڑے بغیر بولی
ہمممم۔ ۔ ۔ آئندہ چھٹی مت کرنا۔ سخت لہجے میں کہا
دعا نے نے آئینے سے نظر اٹھا کر دیکھا۔ میں کوئی سکول کی بچی ہوں جو ایسے کہ رہے ہیں۔ دعا نے سوچا مگر کہا نہیں۔
نظروں کی تپش محسوس کر کے مڑا۔ تمہاری وجہ سے زی نے بھی چھٹی کر لی پیٹ درد کا بہانہ کر کے آئندہ ایسا نا ہو۔ اپنی بات ختم کر کے وہ نکل گیا۔
کوئی کہہ سکتا ہے یہ انسان رات میرے لیے پریشان ہوا ہے۔ اف گورکھ دھندا ہے اسے سمجھنا ناممکن ہے۔ وہ سوچ کر رہ گئی۔
مرد کا دل کہکشاں میں موجود زمین کے سیارے جیسا ہے جہاں کائینات کا ہر رنگ ہرروپ موجود ہے اتناسرسبز شاداب وقت آنے پراپنے ہر رشتے کو محبت اور اہمیت دینے والا کبھی اتنا سخت مزاج گرم لاوے جیسا کہ بغیر تحقیق کسی بھی وقت برسنے والا اور کچھ رشتوں کے لیے اس قدر ٹھنڈا اور پرسکون کہ اس کی کوئی بات اسے بری نہیں لگتی محبت یکساں رہتی ہے اس کے لیے۔
بھابی کیا ہوا آپ کو؟ زی نے کمرے میں انٹری ماری
کچھ بھی نہیں تھوڑا عجیب فیل ہوا تھا بس۔ بیڈ پر کھٹنے پرٹھوڑی ٹکائے بیٹھی تھی
ہممم۔ ۔ طبیعت کو سمجھائیں۔ اور جلدی سے کہیں جانے کا پلین بنائیں۔ وہ دعا کے سامنے آ کر بیٹھی
تمہارے تو پیٹ میں دردتھا۔ دعا نے آنکھیں بڑی کیں
میں سونے لگی ہو اس کے بعد ٹھیک ہو جائے گا نا۔اوکے بائے ۔ ۔ لیکن پلین ۔ ۔ وہ ہنستے ہوئے چلی گئی۔
دعا بیٹا کیا کھائیں گی؟ خانم نے دعا کے سر پر ہاتھ رکھا
کچھ نہیں خانم دل نہیں چاہ رہا ابھی۔ وہ مسکرا کر دیکھنے لگی۔
لیکن گوہر بیٹا کہہ کر گیے ہیں آپ۔ ۔ ۔ انہیں بولنے کا موقع دیے بغیر دعا نے بات کاٹی
میں کھا لوں گی فکر نہیں کریں۔ وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر مسکرائی۔
وہ تھڑی دیر یونہی بے وجہ لیٹی رہی مگر پھر اٹھ شیری کو نہ آنے کا میسج کیا اور باہر لان میں چلی آئی۔
آدھے گھنٹے کے بعد عیشل کو آتے دیکھ کر حیران ہوئی
اسلام علیکم ۔ گوہر تو گھر پر نہیں ہیں۔ اپنی جگہ سے گھڑی ہوئی۔
ہاں مجھے معلوم ہے میں تم سے ملنے آئی تھی۔ وہ مسکراتیں اس کے سامنے چیئر پر بیٹھیں۔
مجھ سے؟ اپنی طرف اشارہ کر کے الجھن سے دیکھا۔
ہممم۔ ۔ کیا نام ہے؟وہ اب بھی اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
دعا۔ وہ یک ٹک انہیں دیکھنے لگی
بہت پیارا نام ہے۔ وہ مسکرائیں
شکریہ۔ دعا چھینپ گئی۔
مجھے جانتی ہو؟ انہوں نے سوالیہ نظروں سےدیکھا
جی۔ ۔ ۔
کیا؟ آنکھیں سکیڑ کر پوچھا
آپ ۔ ۔ ۔ گوہر کی ۔ ۔ ۔ مدر ہیں۔ ۔ ۔ اسے ومجھ نہیں آیا وہ کیا کہے
بس اتنا جانتی ہو؟ وہ حیرانگی سے بولیں۔
ماں بغیر وجہ کے اپنے بچے کو تو چھوڑ کے نہیں جاتی۔ اور وجہ کوئی چھوٹی نہیں ہوگی۔ دعا کو لگا وہ کچھ اورپوچھنا چاہتی ہیں۔
میں پچھلے تین سال سے اپنے بیٹے سے ملنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر یہ کوشش تمہاری وجہ کامیاب ہوئی شکریہ۔ عیشل نے مشکور نظروں سےدیکھا۔
میں نے کچھ بھی نہیں کیا وہ اپنی مرضی سے ملے تھے۔ دعا نے انہیں دیکھا
اچھا۔ انہوں نے اچھا کو کھینچ کر کہا
یہ تمہارے لیے۔ ایک باکس اس کی طرف بڑھایا
یہ کس لیے؟ وہ حیران ہوئی
بہو کے لیے ہے میری۔ لو گی تو اچھا لگے گا مجھے۔ اس سے پہلے وہ منع کرتی انہوں وہ اس کی گودمیں رلھا
شکریہ۔ دعا نے پکڑ لیا
کیا دیکھ رہی ہو۔ اسے اتنے غور سے دیکھتے ہوئےنوٹ کیا تو پوچھا۔
ہمممم۔ ۔ ۔ آپ بہت پیاری ہیں ۔ ۔
کیا؟ ہنسی تھیں
ابھی بھی ۔ ۔ ۔ دعا نے معصومیت سے کہا تو وہ ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئیں۔
کچھ دیر دونوں باتیں کرتی رہی اور پھر وہ معزرت کر کے چلی گئیں۔
دعا اوپر آئی زی کو تیار ہونے کا کہا اور خود شمائلہ بیگم کے کمرے میں آئی جہاں وہ کوئی ڈرامہ دیکھنے میں مصروف تھیں۔ ان سے باہر جانے کی پرمیشن لے کر وہ تیار ہوئی دونوں نکلنے ہی لگی تھی کہ زوہیب نے آگے سے جا لیا۔
آں جی کہاں جا رہی ہیں تمام خواتین۔ ؟ دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے بولا۔
ہم تو جا رہے ہیں آؤٹنگ پر اینی پرابلم؟۔ زی نے سن گلاسس سے چھانک کر کہا۔
چلو جی ایماندار فوجی آپ کی پروٹیکشن کے لیے تیار ہے ۔ ۔ ۔ چلو چلو جلدی دیر ہو جائے گی۔ ۔ واپس مڑا
خاں صاحب آرام کریں میں ان کو لے جاؤں گا۔ ۔ ۔ جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔
ہیلو یہ فی میل کی آؤٹنگ ہے ۔ شیشے سے اندر جھانک کر بولی
واہ اور بھی مزا آئے گا۔ وہ محظوظ ہو کے بولا۔
زی چلو دیا انتظار کر رہی ہو گی۔ دعا نے فوراً کہا۔
دیا کو پک کیا اور شاپنگ مال چلے گئے گھومیں انجوائے کیا۔ دعا نے زی کو موبائل لینے کی آفر کی۔
بھابی بھائی سے کریڈٹ کارڈ منگوا لیتے ہیں۔ زی نے آفر کے بعد دعا کو دیکھا۔
ان کے اور یہ پیسے کوئی الگ الگ تھوڑی ہیں۔ دعا اس کے گال کھینچ کر بولی۔
اوکے۔ زی نے اطمنان سے کہا
کافی سرچ کے بعد ایک موبائل خریدا اور واپسی کی راہ لی۔
شام کے چھ بجنے کو تھے جب وہ دیا کو ڈراپ کرکے گھر پہنچے۔
سب لوگ اتنے خوش مزاج ہیں گوہر سب سے مختلف کیوں ہیں ۔ ۔ ۔ میرا مطلب بچپن سے ہی ایسے ہیں۔ دعا نے سر سری اندر آتے دونوں سے پوچھا
بھائی سے پوچھ لیں آپ۔ ۔ ۔ زی نے فوراً مشورہ دیا۔
وہ کچھ بولیں تو پوچھوں نہ۔ کافی کم بولتے ہیں۔ فوراً سنبھل کر بولی۔
ہیں؟ آپ سے بھی۔ ۔ کچھ کرنا پڑےگا۔۔ سر پر انگلی رکھے وہ سوچنے کہ انداز میں بولا۔
تینوں باتیں کرتے لاؤنج میں پپنچے جہاں گوہر ٹی وی لگائے بیٹھا تھا۔
بھائی ۔ ۔ بھابی نے آپ سے کچھ پوچنا ہے ؟ زوہیب کے کہنے پردعا نے چونک کردیکھا۔
کیا؟ ٹی وی سے نظریں ہٹائے بغیر بولا۔
ک۔ ۔ دعا نے کچھ کہنے کے لیے لب کھالے
میں بتاتا ہوں ان کو آپ سے پوچھنا ہے کہ آپ کم کیوں بولتے ہیں۔ مطلب ان سے باتیں نہیں کرتے۔ زوہیب نے شرارت سے دعا کو دیکھا۔
گوہر نے مڑ کر تینوں کو باری باری دیکھا
اچھا مجھے تو کھا کھا کر نیند آگئی میں چلا سونے۔ آنکھیں مسلتا یہ جا وہ جا۔
میں بھی چلتی ہو۔ زوہیب کو جاتا دیکھ زی نے بھی کھسکنے میں عافیت جانی۔
کیا باتیں کرنی ہیں تمہیں مجھ سے ۔ گوہر براہ راست دیکھنے لگا۔
وہ میں۔ ۔ ۔ وہ الجھن سے انگلیاں مڑوڑنے لگی۔
میری بات کان کھول کر سنو کمرے کی کوئی بات باہر نکلی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ کیپ ان یور مائنڈ۔ اس کے عین سامنے آ کر سرد مہری سے بولا اور نکل گیا
بھابی ۔ ۔ دعا کو کچن میں چائے بناتے دیکھ پکارا
ہاں۔ چائے کو دم دیتی بولی
بھائی نے کچھ کہا آپ کو؟۔ ۔ تھوڑا ہچکچا کر بولا۔
نہیں تو۔ ۔ دعا صاف مکر گئی۔
قسم سے آپ اس وقت مشرقی بیوی لگی ہیں۔ جو اپنے ظالم شوہر کے ڈر سے سب کچھ چپا رہی ہیں۔ ہنستا سلب پر چڑھ کر بیٹھا
شرم نہیں آتی اپنے بھائی کے بارے میں ایسے کہتے ہوئے۔ کچھ نہیں کہا انہوں نے۔ دعا نے بازو باندھتے کہا
ہیلو آپ کے ان نا۔ ۔ ۔ میرے بھائی ہوتے ہیں۔ اچھی طرح سے واقف ہوں آپ کے ان کی نیچر سے ۔ کچھ کہے بغیر ان کو بھی سکون نہیں آیا ہونا۔ آبرو اٹھا کر کہا۔
تفتیش ہو گئی ہو فوجی صاحب تو مجھے چائے سے لطف اندوز ہونے دیں گے ۔ ایک کپ اس کی طرف بڑھا کر مسکرائی
جی بالکل ۔ ۔ ۔ ویسے علاقہ دشمناں کا موڈ کیسا ہے ؟ اشارے سے اوپر کی طرف انگلی کی۔
جا کے پوچھ لو۔ ۔ ۔ بہت زیادہ پیار سے بتائیں گے۔ کپ کا سپ لیتے بولی
کیوں میری جوتوں سے خاطر کروانی ہے۔ بہتر ہے میں علاقہ دشمناں کی چوکی سے بھی دوررہوں اور چائے جا کر کمرے میں پیو۔ ۔ ۔ وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا باہر بھاگا۔
چائے پی کر وہ کمرے میں سوچا گوہر سے ایکس کیوز کر لے۔ شائد زی کے لیے گوہر کچھ زیادہ ہی پوزیسیو ہیں۔
ہیں کہاں چلے گئے؟ کمرے میں نہ پا کر وہ لائبریری کی طرف بڑھی مگر وہاں بھی اندھیروں کا راج دیکھ کر واپس مڑی
چلتے ہوئے واش روم کے دروازے پر ہاتھ رکھا۔
آپ اندر ہیں؟
یہاں ہوں میں۔ وارڈ روب کے دروازے کے پاس کھڑاتنقیدی نظرو سے دیکھا کر آگے بڑھا
مجھے بات کرنی ہے آپ سے۔ دعا عین سامنے آ کر کھڑی ہوئی
مجھے نہیں سننی۔ راستہ چھوڑو۔ غصہ اب بھی ناک پر بیٹھا تھا
بس پانچ منٹ پلیز۔
بولو۔ ۔
وہ ۔ ۔ ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ زی چھٹی کر لے گئی۔ ۔ ۔ میری وجہ سے پھر سے ایسا نہیں ہو گا انشاللہ۔
سر کو خم دیتا وہ بیڈ کی طرف بڑھا۔
And thank you for what you done for me last night.
You don't need to say thank you!
دعا مسکرائی۔
اب اگر تمہارا گھورنا ختم ہو گیا ہو تو سو جاؤ۔ اسے خود پر نظر ڈالے دیکھ چڑ کر بولا۔
آپ کچھ لیں گے ۔ ۔ میرا مطلب کچھ کھائیں گے۔ دعا گڑبڑائی
دعا یہ سونے کا وقت ہے سو جاؤ۔ وہ کروٹ کے بل لیٹ گیا۔
ہ۔ ۔ ہاں اوکےگڈ نائیٹ۔ ۔ اپنی کھپت چھپانے کو فوراً لیٹ گئی
دعا کو اپنی گھاڑی کا فرنٹ ڈور کھولے دیکھ کر حیران ہوا عین سر پر آ کر بولا۔
تم میری گاڑی میں کیا کررہی ہوں۔ ۔ ۔
ک ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں ۔ وہ ایک دم سیدھی ہوئی۔
تو دروازہ کیوں کھولا؟ سختی سے بولا۔
میں بتاتا ہوں۔ زوہیب اپنا بیگ اٹھائے ان دونوں کی طرف آیا۔
بھابی نہ ۔ ۔ ۔ آپ کی گاڑی میں بم فٹ کر رہی تھیں۔ ۔ ۔ اپنی ہی بات پر زور سے قہقہ لگایا۔
اس کے اس طرح کہنے پر دعا کی بھی ہنسی کنٹرول نہ ہوئی۔
بھابی بم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کوئی میزائل وغیرہ چاہیے ہو تو میری کھلی آفر ہے آپ کے لیے۔ ۔ ہنسی کو روکتا وہ پھر دعا سے مخاطب ہوا۔
پہلے بتاتے میں نے خامخاہ ہی اس بم پر پیسے خرچ کر دیے۔ گوہر کو دیکھتے مزید چڑانے والے اندازمیں بولی اور اندر کی طرف بڑھ گئی
ڈیش بورڈ پر کارڈدیکھ کر وہ مزید زوہیب کو بلنے کا موقع دے بغیر وہ گاڑی میں آ گئی
خان بابا یہ گاڑی کس کی ہے۔ پورچ میں ایک نیو گاڑی دیکھا تو رک کر جائزہ لیتے پوچھا
وہ دعا باجی کی ہے۔ سن کے حیران ہوا۔ تھوڑی دیر بے مقصد گھورا پھر واپس اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔
اسلام علیکم آپ نے گاڑی دیکھی؟ وہ ایک دم پرجوش انداز سے بولی
واعلیکم اسلام۔ ۔دھیمے لہجے میں کہتا آگے بڑھا۔
کیسی ہے؟ اس کے ہاتھ سے لیپ ٹاپ پکڑتے پوچھا۔
ٹھیک۔ بیٹھ کر شو اتارتے سرسری بولا۔
کوئی پرابلم ہےگاڑی میں؟ بے گانگی سے بتانے پر وہ حیران ہوئی
نہیں ۔ یک لفظی جواب تھا۔
تو پھر آپ نے کونگریجولیشنز نہیں کہا۔ لیپ ٹاپ سنبھالتے بولی
کونگریجولیشنز۔ اٹھ کر وارڈ روب کی طرف بڑھا۔
آپ کو برا لگا ہے؟ لیپ ٹاپ الماری میں رکھتے پوچھا
دعا جب پہلے سے ہی گاڑی تھی تو لینے کی کونسی مجبوری تھی؟ رک کر مڑے بغیر کہا
مجبوری یا ضرورت نہیں تھی بس خوائش تھی۔ وہ مسکرائی
تو مجھے کہہ دیتیں۔ کپڑے نکال کر باہر آیا۔
اب تو لے لی نا۔ بچو کی معصومیت سے بولی
جب لےچکی ہو تو کیا کہوں میں۔ گوہر نے سنجیدگی سے دیکھا۔
آپ کہہ سکتے ہیں۔لیکن آپ تو لیپ ٹاپ لے کردیں گے نا۔ دعا نےحق سے کہا تھا
اوہ سوری میں بھول گیا۔ یہ بھی لے کر دے سکتا تھا۔ وہ تو بھول ہی گیا تھا
مگر یہ میں امی کے لیے لی تھی ۔ ان کی ہلپ کے لیے۔ دعا ایک قدم آگے بڑھی۔
ہممم کونسا چاہیے لیپ ٹاپ ؟
جوآپ لےدو۔ آپ مجھے گاڑی چلانا سیکھا دیں گے؟
میڈم اس کے لیے انسٹیٹیوٹ ہوتے ہیں۔ ماحول ایک دم ہلکہ پھلکہ ہو گیا۔
ہاں مگر وہ میرے محرم تو نہیں ہوں گے نا۔
اوکے روز رات کھانے کے بعد ۔ میں انتظار کرنا بالکل پسند نہیں کرتا۔ اسے آبرو اٹھا کر دیکھا۔
اوکے تھنک یو سر ۔ ۔ وہ سلوٹ مار کے بولی۔
گوہراس کے انداز پہ بے ساختہ مسکرایا تھا۔ فریش ہونے واش روم میں گھسا جب نکلا تو دعا کمرے میں نہیں تھی۔
ڈریسنگ کے سامنے بال برش کرتا اپنے نام پر چونک کر رکا۔ اور غور سے سننے لگا کجا کہ اس کی عادت نہیں تھی۔
دیکھو گوہر کیا کریں گے بھلا یہ تو ینگز کی گیٹ ٹو گیدر ہے نا۔ وہ فون پر بالکنی میں کھڑی بات کررہی تھی
میں بوڑھا ہوں کیا؟ آئینے میں کھڑا جائیزہ لینے لگا۔
تمہارے کہنے پر پوچھ لیتی ہوں مگر مجھے سو فیصد یقین ہے وہ نہیں چلیں گے ہمارے ساتھ۔ اوے اللہ حافظ۔ دعا نے جان بوجھ کر آواز اتنی رکھی تھی کہ وہ سن لیا اور وہ سن چکا تھا۔
دعا کمرے میں آئی تو وہ مکمل لا تعلقی کا اظہار کرتے ٹی۔وی میں مصروف نظر آیا۔
اچھا سنیں وہ کل مال جانا ہے ایک بجے کے بعد تو سب ینگسٹرزجا رہے ہیں آپ ۔ ۔ ۔ وہ رک رک کے بول رہی تھی۔
وینیو میسج کر دینا آ جاؤں گا۔ وہ ٹی۔وی پر نظریں جمائے بولا۔
دعا نے مسکرا کے سر ہلایا موبائل پر زی کے نمبر پر میسج ٹائپ کیا
Congrats! Your brother is ready to go
جواب کھٹاک سے آیا تھا۔
Impossible? How you persuade him?
دعا ہنسی تھی۔
It's magic!!! .
بھائی ہم پیکجز مال میں ہیں آپ نے بھی وہیں آنا ہے اور بھابی کو پک کر لیجیے گا آفس سے۔ وہ کام سمیٹ کر آف لیو لینے کی تیاری میں تھا جب زی نے کال کی۔
وہ اپنی گاڑی میں آجائے گی۔ وہ درشتگی سے بولا۔
ان کی گاڑی تو ہم لے آئے تھے ۔ دوسری طرف سے جواب آیا۔
اچھا کر لوں گا پک سی یو۔ فون بند کر کے دعا کو میسج کیا
I will be at your office in 10 Minutes. I will not wait for a single second.
اسے ٹیکسٹ کر کے وہ لیو اپرو کروا کر نیچے بیسمنٹ میں آیا گاڑی میں بیٹھتے ہی دعا کے آفس کی راہ لی۔
وہ پہلے سے ہی باہر کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ مسکرایا تھا۔
اسلام وعلیکم۔ دعا نے جھک کر سلام کیا
فرنٹ ڈور کھول کے سر کے خم سے جواب دیا۔دعا کے بیٹھتے ہی پیکجز مال کہ راہ لی۔
گاڑی روکیں۔ دعا نے جھٹکے سے روکا۔
اب کیا ہے؟ گاڑی کی سپیڈ کم کی۔
جلدی ۔ ۔ ۔ جلدی۔ گوہر نے سائڈ پر گاڑی روکی۔
یہاں ٹرن بہت دور ہے دس منٹ لگ جائیں گے ٹریفک کی وجہ سے تو سڑک کراس کر کے چلے جاتے ہیں۔ دعا نے گاڑی روکنے کی وجہ بتائی
ہمم کہتا گاڑی سے باہر نکلا اور لاک کی۔
پیکجز مال کے عین سامنے فٹ پاتھ پر کھڑا ہوا۔ دعا نے آگے ہو کر دیکھا۔
اف لگتا ہے کبھی سڑک کراس نہیں کی ۔دل میں سوچ کر ہنسی تھی۔
چلیں؟۔ ۔ ۔ اسے انتظار کرتا دیکھ دعا کو بولنا پڑا
سلو ہونے دو ٹریفک پہلے۔ آتی جاتی ٹریفک پر نظر جمائے بولا۔
دعانے آؤ دیکھا نا تاؤ ہاتھ پکڑا اور تیزی سے سڑک کراس کی۔ یہ اتنا جلدی ہوا کے وہ سجھ ہی نہیں سکا۔
پاگل ہو کیا؟ مرنا تھا یا مارنا تھا۔ کچھ عقل ہے تمہیں۔ دوسری جانب پہنچتے ہی سنبھل کر غصے سے آواز دبا کر بولا۔
دعا کی خوموشی نے مزید تپایا تو اور برہم ہو کر بولا۔
کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے میں۔
بولنے دیں گے تو بولوں گی نا۔ وہ اسی انداز میں بولی
بولوں۔ ہاتھ سینے پر باند ھ کر کہا
یہاں کوئی زیبرا کراسنگ نہیں ہے رکنی نہیں ٹریفک ایسے ہی کراس کرتے ہیں۔ کہہ کر وہ گیٹ کی طرف بڑھی۔
اندر پہچتے ہی شیری دیا اور زی تینوں ایک ساتھ ان کے طرف بڑھے۔
کب سے ویٹ کر رہےتھے ہم۔ ۔ ۔ دیا نے دونوں کودیکھ کر متوجہ کیا۔
اچھا اچھا ۔ ۔ ۔ انجوائے کا ٹائم ہے بعد میں تانے دے لینا۔ دعا نے فوراً ٹوکا
اب یہ ہے کہ جس کو جہاں اپنے انٹریسٹ کی چیز نظر آئے وہ دیکھ سکتے ہے ایک دوسرے کی وجہ سے اپنے انٹرسٹ کو اگنور نہ کریں مگر ٹھیک چار بجے سب سیکنڈ فلورپر ملیں گے پلیٹر جنگشن کے سامنے۔ تو نیچے زیادہ ڈیکور ہے فرسٹ فلور پر گرلز ینڈ بوائز شاپنگ برینڈز ہیں میں تو اوپر جا رہی ہوں۔ سی یو لیٹر۔ ۔ ۔ سب کو ہدائت دیتی وہ چلی گئی۔
بڑی ہی بدید ہے تمہاری بہن۔ شیری فوراً تبصرا کیا۔
ہی ہی ہی لیکن دوست تو آپ کی ہے نا۔ ۔ ۔ دیا نے بھی فوراً جواب دیا۔
اچھا چلو تم دونوں کو میں گھماتا ہوں گوہر تم ہمیں جوائن کرو گے؟۔ ۔ شیری نے گوہر کودیکھا۔
نہیں میں نے کچھ شاپنگ کرنی ہے اوپرہی ملیں گے پھر۔ وہ بھی کہہ کر یہ جا وہ جا۔
یہ بھی دعا کے ساتھ رہ کر اس کے جیسا ہو گیا ہے خیر لڑکیو چلو اب جو بھی ہوں میں ہی ہوں۔شیری نےفون نکالا۔
یہ دیکھو کیسا ہے؟۔چلتے چلتے اپنا فون دیا کے سامنے کیا۔
یہ کون ہے؟ دیا نے تصویر دیکھ کر پوچھا۔
اف غلط جواب زی تم دیکھ کر بتاؤ۔ دیا کے ہاتھ سےفون پکڑ کر زی کو دیا۔
گڈ لوگنگ ہے۔ زی نے غور سےدیکھا۔
دیا لے لو پکچر بعد میں نہ کہنا بتایا نہیں۔ تمہاری صدیوں پرانے خیالات کی بہن نے کوئی نہیں دینی۔ ۔ اسے ہنسے ہوئے مشورہ دیا۔
کیا مطلب ہے؟ وہ آنکھیں سکیڑ کے بولی۔
ان جناب کا رشتہ آیا ہے مجھے کہا گیا تھا زرا چان بین کر دو۔ کر تو لی ہے سوچا تمہیں بھی درشن کروا دو۔ دیا کے سر دھماکہ کیا
اف مجھے نہیں کرنی ابھی۔ ۔ ۔ وہ حیران ہوئی
اپنی بہن کو بولو جا کے جو میرج بیورو کھولے سب کی زندگیاں تباہ کرنے کا موڈ بنائے بیٹھی ہے۔ وہ منہ بنا کر بولا
شادی سے زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ زی نے فوراًپوچھا
پتا نہیں ۔ ویسے میں مزاق کر رہا تھا۔ تینوں ایک ساتھ ہنسے تھے۔
آپ یہ سب گوہر سے کیوں نہیں کہتی۔ دعا نے مشورہ دیا تھا
پتا نہیں ۔ ۔ ۔ وہ دھیمے سے بولیں
لیکن؟ دعا نے کچھ کہنا چاہا
وعدہ کرو گوہر سے کچھ نہیں کہو گی۔۔ دعا کے ہاتھ کو تھام کر اس سےتصدیق چاہتی تھیں۔
دعا خاموش تھی اسے سمجھ نہیں آیا وہ کیا کہے۔
پلیز ۔ ۔ ۔ عیشل نے دعا کے ہاتھ کو جنبش دی
اوکے وعدہ۔ دعا کو مجبوراً کہنا پڑا۔
میں بس اتنا چاہتی ہوں کہ مرنے سے پہلے میرا بیٹا مجھے ایک بار ماں کہہ کر پکارے۔ ۔ ۔ آنکھوں میں نمی آئی۔
اللہ آپ کو لمبی عمر دے۔ دعا کوان کی ماصوم سی خوائش پرپیار آیا۔
اگر اللہ نے آپ کےدل میں بیٹے سے ملنے کا خیال ڈالا ہے تو راستہ بھی وہی دیکھائے گا انشاللہ۔ ۔ وہ دلاسہ دینے کو بولی
اچھا میں چلتی ہوں۔ مجھے ایک کام ہے پھر ملو گی؟۔ وہ ٹائم دیکھتے کچھ یاد آنے پر بولیں۔
جی ضرور فی ایمان اللہ۔ ان کے اٹھتے ہی وہ ہاتھ ہلا نے لگی۔ وہ کچھ دیر بغیر مقصد یہاں وہاں دیکھنے لگی۔
پچلی پانچ منٹ سے ڈھونڈ رہے ہیں تم کو۔۔۔ ۔ ۔ شیری نے آتے ہی دوھائی دی
مل گئی نا اور گوہر کہاں ہیں؟ گوہر کو ان میں موجود نہ پا کر پوچھا
آپ کو تین لوگ نظر نہیں آ رہے بلکہ بھائی کی فکر ہے۔ زی نے فوراً جواب دیا
اچھا چھا جلدی بتاؤ کیا کھانا ہے۔ بسٹرو کا لاوا کیک اینڈ میں مسٹ کھائیں گے۔ دعا پلین کرتے بولی
گوہر بھی دس منٹ تک آیا مینوڈیسائڈ کر کے ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگے اور کھانا سرو ہونے پر سب نے کھانے میں باتوں کا بھی مزہ لیا۔
میں دیا کو گھر ڈراپ کر دوں گا آپ لوگ اپنا اپنا دیکھ لو۔ اب گاڑی تو میری آفس میں ہی ہے تودعا تمہاری ہی لے جاؤ۔دیا کو اٹھنے کا اشارہ کرتے چل پڑا۔
اوکے لے جاؤ۔ دعا نے کھلے دل سے کہا
میں بھی چلو گی ساتھ وہ دیا سے ایک کام ہے۔ بھائی آج میں ان کے طرف رک جاؤں۔ گوہر کی طرف ایجازت طلب نظر سے دیکھا
زی۔ ۔ وہ حیران ہوا
پلیز بہت ضروری کام ہے۔ وہ زور دیتے بولی
اچھا ٹھیک ہم بھابی کی گاڑی لے جاتے ہیں آپ بھائی کے ساتھ ہی آئیں۔ وہ بھی ان کے ساتھ چل دی۔
چلو۔ دعا کو پیچھے آنے کا شارہ کرتے وہ ایگزیٹ کی طرف بڑھا
دعا کا دماغ پوری طرف عیشل کی باتوں میں لگا تھا وہ بے دھیانی سڑک پر چلنے لگی۔ سڑک کراس کرتےوہ ایک دم بغیر سوچے سمجھےدرمیان میں رکی اس کے رکتے ساتھ ہی ایک تیز رفتار کار کے ٹائیروں کی چڑچڑاہٹ سے دعا جیسے ہوش میں آئی۔ گاڑی عین پاس آ کر رکی۔ گوہر نے دعا کا ہاتھ پکڑا دوسر جانب پہنچا۔ جیسے ہی دونوں گاڑی میں بیٹھے گوہر نے دعا کو دیکھا۔
آج کے بعد کبھی کسی کو سڑک کراس مت کروانہ۔ اسے کہہ کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا
مگر وہ خاموش رہی نہ کوئی طنز نگاہ نا کوئی جملہ وہ حیران ہوا تھا۔
گھر پہنچتے ہی گوہر رکے بغیر کمرے میں گیا مگر دعا وہیں سے لان میں آفندی کو بیٹھا دیکھ ان کے طرف بڑھی۔
اسلام علیکم انکل
نو بابا۔ ۔ ۔ چونکے مگر پھر پیار سے بولے
اوہ بابا۔ ۔ وہ ہجکچائی
بیٹھیں۔ دعا کو سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا
انٹی کہاں ہیں؟ شمائلہ بیگم کو نہ دیکھ کر اس نے پوچھا
وہ کسی پارٹی میں گئی ہیں کوئی کام تھا؟ فون ٹیبل پر رکھتے بولے
نہیں۔ ۔ آپ سے بات کر سکتی ہوں؟۔ وہ کچھ الجھن بھرے انداز میں بولی
ہاں۔ ۔
آپ ۔ ۔ ۔ ریکوئسٹ ہے بس ۔ ۔ کبھی کبھی عیشل ماں سے مل لیا کریں ۔ انہوں نے دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔
سوری ۔ ۔ ۔ مجھے شائد کہنا نہیں چاہیے وہ ان کے خوموشی سے دیکھنے پر گھبرائی
تو؟ دونوں آبرو اٹھائیں
آج پکجز میں ملی تھیں۔ مجھے وہ بہت تنہا لگیں کوئی رشتہ نہیں ان کے پاس بیٹا بھی نہیں ہے نا۔ وہ انگلیوں کو مڑوڑتے ٹھہر ٹھہر کر بتا رہی تھی۔
مگر ایک بیٹی ملی ہے؟ مدہم سی مسکراہٹ سے کہا۔
مگر انہوں نے مجھے تو نہیں بتایا؟ سر اٹھا کر ایک دم حیران ہوئی
ان کی بیٹی میرے سامنے ان کی سائڈ لے رہی ہے۔ وہ ہنسے
مگر بیٹا تو نہیں ہے نا؟ وہ اسی معصومیت سے بولی
وہ بھی مل جائے گا وہ بھی آپ ملائیں گی۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے
بابا؟
مجھے پوری امید ہے۔
بابا مجھ سے امید مت لگائیں پلیز ۔ ۔ ۔ اس امید کے ٹوٹنے پر مجھے تکلیف ہو گی۔ سر جھک گیا۔
گوہر کو دیکھ کر جلن ہوئی تھی۔ بابا اس کے تھے مگر وہ اس وقت دعا کے لگ رہے تھے۔
کوئی چیز جب تک دسترس میں ہو چاہے وہ بےجان چیز ہو یا کوئی جاندار رشتہ اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا اندازہ تب ہوتا ہے جب یا وہ دور ۔۔ ۔ ۔بہت دورچلا جائےیا کسی اور کی دسترس میں جاتا نظر آئے۔
بھابی پتا نہیں یہ بات کہنی چاہیے کہ نہیں پر ۔ ۔ ۔ صلہ کچھ جزبز نظر آئی۔
صلہ آپ کہیں کیا بات ہے۔ وہ ان کی الجھن دیکھ کر بولیں۔
بات دراصل تھوڑی عجیب ہے۔ پتا نہیں دعانے آپ کو بتایا ہے بھی کہ نہیں۔ وہ اٹھ کر ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھی۔
کیا نہیں بتایا اس نے؟ وہ حیران سی ہوئیں۔
زیاء کے دوست قاسم کا تو پتا ہی ہے آپ کو ۔ وہ یاد دہانی کروانے لگیں۔
ہاں وہ جو آجکل لاہور کے کسی علاقے میں ایس۔ ایچ۔او ہیں۔ انہیں یاد تھا۔
جی وہی پرسو وہ زیاء نے کچھ سامان بھیجا تھا وہ دینے آئے تھے تو میں نے گوہر کی شادی کا بتایا ان کےکہنے پر میں نے شادی کی چند تصاویر دیکھائیں تو دیا کو دیکھ کر انہوں نے ایسی بات بتائی میں تو حیران رہ گئی۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولیں۔
صلہ پلیز پوری بات بتائیں میرا دل گھبرا رہا ہے۔
وہ بتا رہے تھے دیا پر ایف۔آئی۔آر تھی جیل میں بھی رہی ۔ دھیمے لہجے میں راز کے انداز میں کہا
اس نے ایسا کیا کیا ہے وہ تو بڑی پیاری بچی ہے۔ ۔ وہ اپنی رو میں بولیں
ایک لڑکی کو بھگایا تھا۔ ۔
کیا؟
ہیں ۔ ۔ ۔ پھر معاملہ لے دے کر ختم کروایا آپ زرا زی کے لیے محتاط رہیے گا زی کو نہ بگاڑ دے۔ جھوٹ کی امیزش سے بات کو مکمل بدل کر بتایا
اچھا میں چلتی ہوں کھانا بنانا تھا آپ احتیاط کریے گا۔
شدید غصے سے وہ دعا کے آنے کا انتظار کرنے لگی جیسے ہی وہ آئی اسے کمرے میں جا لیا۔
دعا۔ خلافِ توقع سخت لہجے میں مخاطب کیا۔
اوہ اسلام علیکم میں بس آ ہی رہی تھی نیچے۔ وہ پزل سی ہوئی
آپ اتنی بڑی بات چھپائیں گی میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ اس کے مدِ مقابل ہو کر کھڑی ہوئیں۔
سوری میں سمجھی نہیں۔ وہ حیرانگی سے دیکھنے لگی
دعا جرم کبھی نہیں چھپتا آپ نے دیا کے بارے میں اتنی بڑی بات سے بے خبر رکھا مجھے ۔
وہ ۔ ۔ ۔ میں۔ آنٹی اس کی ۔ ۔ ۔ دعا نے کچھ کہنا چاہا
بس۔ ۔ ۔ ۔ میری بات کان کھول کر سنیں۔ اگر آپ اس گھر میں رہنا چاہتی ہیں تو دوبارہ وہاں جانے کا سوچیےگا بھی مت۔ اس گھر کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتی میں۔
آنٹی میری بات سنیں۔ ۔
سوچ لیں آپ اگر ان سے تعلق رکھنا ہے تو میرے گھر کے دروازے آپ کے لیے بند ہیں میں اس گھر کی عزت کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ اپنی بات کہہ کر وہ کمرے سے نکل گییں۔
دعا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ سب کیسے پہنچا ان تک اس نے یہ بات دھوکہ دینے کی غرض سے نہیں چھپائی تھی دیا کے مکلمل طور پر الزام سے بری ہونے پر اسے لگا یہ سب ٹھیک ہو گیا اب کسی سے کہہ کر کرنا بھی کیا ہے مگر یہ بات اس طرح سامنے آئے گی اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اس وقت اس کا دل چاہا زمیں پھٹ جائے اور وہ اس میں سماں جائے
وہ بھول گئی تھی ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں عورت پر لگنے والے الزام کو گناہ سے تشبیح دی جاتی ہے اور اس کا تعلق اس بات سے نہیں ہوتا الزام سچا تھا یا چھوٹا۔اس گناہ کی سزا مختلف پہلو بدل بدل کر زندگی بھر وقفے وقفے سے اس کی زندگی میں تباہیوں کی آندھی کی طرح چلتی رہتی ہے۔ زندگی کے کسی موڑ پر بھی نہ یہ گناہ ختم ہوتا ہے نہ اس کی پاداش میں ملنے والی سزا۔
آنسو سیلاب کی طرح اس کے چہرے سے بہہ رہے تھے وہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہی تھی بوجھل سر کو اب گھٹنوں میں سر دہے رونے پر گوہر کی آواز سے سر اٹھایا
دعا تم رو رہی ہو کیا ہوا ہے۔ وہ اس کی سامنے گھٹنوں کے بل بیٹا پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتا بولا۔
زبان کو تالے لگ گئے وہ کچھ نہیں کہہ سکی کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
دعا کیا پوچھ رہا ہوں میں۔ خاموشی اور بہتے آنسوؤں سے وہ مزید الجھ گیا
یار پریشان کر رہی ہوں تم مجھے ۔ ۔ ۔ دعا ماما نے کچھ کہا ہے۔ وہ اس کے گھٹنے پر رکھ ہاتھ کو پکڑ کے بولا
دیا نے کچھ نہیں کیا گوہر ۔ ۔ وہ ہجکیوں کے ساتھ بولی۔
کیا بول رہی ہے ؟
اس کی غلطی ۔ ۔ ۔ اتنی بڑی نہیں تھی
ایک منٹ۔ ۔ اٹھو اوپر بیٹھو۔ ۔ ۔ اسے ہاتھ سےپکڑ کر اٹھا
بیٹھو ۔ بیڈ کی طرف اشارہ کیا اس کے بیٹھتے ہی پانی ڈال کر اس کہ طرف بڑھایا
اسے پیو اور آرام سے پوری بات بتاؤ مجھے۔ وہ اس کے ساتھ بیٹھا کر اسے غور سے دیکھنے لگا
گلاس منہ سے ہٹا کر دیا کا پورا واقع گوہر کو بتانے لگی۔۔
دعا تو بات تو ختم ہو گئی ہے پھر اب کیوں رو رہی ہو پاگل۔
گوہر آپ مجھ سے کوئی بھی قسم اٹھوا سکتے ہیں میں نے کسی غرض سے یہ نہیں چھپایا
تو اب کیوں بتا رہی ہو؟
وہ ۔ ۔ آنٹی چاہتی ہیں میں دیا سے تعلق رکھو گی تو اس گھر سے تعلق۔ ۔ ۔ وہ پھر سے رونے لگی۔
ماما نے ایسا بولا ہے؟
ہاں میں سر ہلایا۔
اتنی دیر سے جو رورو کے منہ کا جغرافیہ بگاڑا ہوا ہے فون نہیں کر سکتی تھی مجھے ۔ ۔اٹھ کر ٹشو باکس سے کچھ ٹشو نکالے
تم روتی ہو تو اچھا نہیں لگتا مجھے۔ آنسو پونچو اپنے۔ دعا کی طرف ٹشو بڑھایا
آپ بات کریں نا پلیز دیا بری نہیں ہے اس کی غلطی اتنی بڑی نہیں ہے ۔دعا نے ٹشو پکڑتے گوہر کو پرامید نظروں سے دیکھا
پہلے آنسو صاف کرو پھر بات کرو ں گا۔ دعا کے آنسو صاف کرتے ہی وہ آتا ہوں کہہ کر نکل گیا۔
کوئی آدھے گھنٹے بعد جب وہ اندر آیا وہ اٹھ کر اسی کی طرف لپکی۔
گوہر کیا کہا انہوں نے؟ بے چینی سے دیکھا
پہلے یہ بتاؤ تم یہ آنسوؤں کے لیے پانی کا کنکشن کہاں سے لیتی ہو۔ وہ مسکراہٹ دبائے سیدھا پنی بیڈ سائڈ کی طرف بڑھا
اس کا دماغ گوہر کے طنز کو سمجھا نہیں تھا
وہ مان گئیں ہیں ۔ ۔ ۔
کیسے منایا؟ وہ ایک دم خوشی سے بولی۔
اب اتنا فری مت ہو جا کر کچھ بناؤ بھوک لگی ہے۔
کتنے واسطے دے کر منایا تھا اس نے یہ وہی جانتا تھا اسے سمجھ نہیں آیا کہ اب وہ دعا کو کیسے بتائے گا کہ دیا کے یہاں نہ آنے پر وہ مانی ہیں۔