دعا۔ ۔ ۔دیا آتے ہی اس کے گلے لگی
یار پورے کمرے پہ راج کر کے اتنا مزا آیا کہ کیا بتاؤ۔ دیا گلے لگے اس کو چڑا رہی تھی۔
کیا ہوا تم روئی ہو؟ گلے مل کر ہٹی۔
ہاں تم لوگوں نے کل کم رولایا ہے۔ اس کا گال کھینچا۔
کیسی ہو دعا؟۔ شیری پیچھے آ کر کھڑا ہوا
ٹھیک ہوں۔ ۔ ۔ وہ دیکھ کر مسکرائی۔
اور دیو کدھر ہے؟سر گوشی کی
کیا کہا میرے بھائی کو تم نے ؟ زی نے پیچھے سے آواز لگائی۔
چپکلی کے کان بہت تیز ہیں۔ منہ بنا کر مڑا۔
اف کیا ہو گیا ہے شیری کیوں ایسی باتیں کر رہے ہو۔ ۔ ۔ دعا نے تنبیہ نظروں سے دیکھا۔
ہا ہاں بھابی کان کھینچی اس کے جو اتنے لمبے ہو رہے ہیں۔ شیری کو دیکھ کر منہ چڑایا۔
لمبے کان۔ کانوں کو ہاتھ لگامحسوس کرنے لگا۔۔
دانی کہا ہے؟ دانی کو یہاں وہاں نہ دیکھ کر ہوچھا۔
گاڑی میں بیٹا ہے ناراض ہے تم سے۔ ۔ ۔ شیری دعا کو دیکھا
اوہ اچھا میں دیکھ کر آتی ہوں۔ وہ چلتی ہوئی پورچ میں آئی گاڑی کا ڈور کھولا۔
مس کیا میں نے بہت۔ اسے پیار سے دیکھا
آپی ۔ ۔ ۔ وہ اب بھی رو رہا تھا
ارے باہر تو آؤ ۔ ۔ دعا نے ہاتھ پکڑ کر باہر نکالا۔
لیکن میں اندر نہیں جاؤں گا میں رویا تھا نا سب مزاق اڑائیں گے۔ معصومیت سے بولا
اچھا آؤ سیڑھیوں پر بیٹھتے ہیں۔ ۔ ۔ اسے ہاتھ پکڑ کے پورچ کی سیڑھیوں پر بیٹھایا۔
میرا بچہ پریشان ہے؟ اسے گلے لگا کر بال سہلانے لگی۔
آپی گوہر بھائی آپ کو مجھ سے دور کر دیں گے؟۔ ۔ ۔ وہ حصارسے نکل کر معصومیت سے دیکھنے لگا۔
وہ ایسے تو نہیں ہیں؟ وہ گال کھینچ کر بولی
سچ میں؟ وہ ایک دم خوش ہوا۔
ہاں نا ۔ ۔ ۔
اندر بلا رہے ہیں۔ ۔ گوہر نے پکارا
چلو ۔ ۔ ۔ دانی کا ہاتھ پکڑے اسے اندر لے آئی۔
گوہر آپ کو ایسا تصور نہیں کیا تھا میں نے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں آپ کے رویے سے کمزور ہو کر اس رشتے کو ختم کرو گی تو آپ غلط ہیں۔ میں اپنے حق سے یو ں دستبردار نہیں ہوں گی۔ آپ نے اگر کسی سے رشتہ رکھنا ہے تو اس کی لڑئی خود لڑیں۔ میرے کندھوں پر بندوک رکھ کر نہیں چلانے دوں گی۔ سامنے گوہر کو کسی سے بات کرتے دکھ سے دیکھا۔۔
ہیلو بھائی کو نظر لگائیں گی کیا۔ زی کی آواز پر نگاہوں کا زاویہ بدلا۔مگر بولی کچھ نہیں۔
مزاق کر رہی تھی۔ اسے خاموش پا کر وہ پھر بولی
گوہر واپس آ کر دعا کے دائیں جانب بیٹھا۔
کہاں چلے گئے تھے اٹھ کے؟ زی نے بیٹھتے ہی سوال کہا۔
کولیگز تھے کچھ ان سے بات کرنے گیا تھا۔ سامنے اشارہ کر کے بولا۔
ہیلو۔ ۔ ماہی نے سٹیج کے سامنے کھڑے ہاتھ لہرایا۔ پھر چلتی ہوئی گوہر کے ساتھ بیٹھی۔
دعاکے دل کو اسے دیکھ کر کچھ ہوا تھا۔ ۔ ۔
آج دعا کو ولیمے کی رسم کے بعد اپنے گھر جانا تھا۔ وہ سب کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتی تھی کہ کوئی پرابلم ہے سو ہر عورت کی طرح اسے بھی خاموش رہنا تھا اور سہنا تھا
دعا چلیں ؟ شیری نے پکارا۔
مجھے ان کمفرٹیبل فیل ہو رہا ہے میں میں چینج کر کے آتی ہوں اور کچھ چیزیں بھی لینی ہیں۔ وہ فراک سنبھالتی بولی۔
چلیں میں بھی آپ کی ہلپ کرتی ہوں۔ زی بھی اس کے ساتھ چل دی۔
اس کی الماری کی کیز تو میری کیز میں ہیں۔ گوہر کو خیال آتے ہی کمرے کی طرف بڑھا۔
بھابی آپ نے کسی کو بھی نہیں بتا یا مجھے تو بتا دیں۔زی کی آواز پہ وہ کمرے کے دروازے پر ہی رکا۔
کیا؟ سائڈ ٹیبل کو کھنگالنے لگی۔
گفٹ مجھے دیکھنا ہے بھائی نے کیا دیا۔ ۔ ۔ ڈونٹ ٹیل می کہ بکے دیا ہے جیسے ماما کو دیتے ہیں۔
نہیں۔ ۔ ۔ الماری میں رکھا ہے دکھاؤں گی لیکن کیز نہیں مل رہی واپس آ کر دیکھاؤں گی پکا۔ دعا کو اس کے جواب پر ہنسی آئی۔
بھابی۔۔۔ ۔ ۔۔۔ وہ منہ بنا کر دیکھنے لگی
زی ۔ ۔ ۔ وہ نیچے کوئی ڈھونڈ رہا ہے تمہیں۔ ۔ ۔ قدم آگے بڑھا کر وہ دروازے میں ہی بولا۔
وہ اوہ کرتی نکلی گوہر نے واپس مڑ کر اس کےچلے جانے کا اطمینان کیا۔ چلتا ہوا آگے آیا اور کیز دعا کے سامنے کیں۔ دعا نے تھنکس کہتے پکڑی اور الماری کھول کے بیگ نکالا۔
گوہر بیڈ پر بیٹھ کر اس کی حرکات اور سکنات کو دیکھنے لگا۔ جیسے ہی مڑی وہ جھک کر اپنے شو کے تسمے ٹھیک کرنے لگا۔
دعا ۔ ۔ ۔ وہ میرا سائڈ ٹیبل کی پہلی دراز کھولنا زرا۔ جھکے ہوئے بولا۔
دعا نے غور سے دیکھا اور دراز کی طرف جا کر اسے کھولا۔
اس میں ایک لاکٹ ہے۔ نکال لو۔ ۔ ۔ اب سیدھا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔
دعا نے جیسے ہی دراز کھول کر لاکٹ اٹھا کرہاتھ میں پکڑا اسے لگا وہ پتھر کا مجسمہ بن گئی ہے کبھی ہل نہیں سکے گی۔
گوہر نے غور سےدیکھا جیسے وہ ابھی رو دے گی۔ وہ اٹھا اور اس کے پیچھے کھڑا ہوا
اس میں ایموشنلی کچھ نہیں ہے نہ میں نے یہ تمہارے لیے خریدا ہے۔ گوہر خوموش ہوا۔
کسی کو ضرورت تھی پیسو کی بس میں شاپ پر تھا شاپ والے مطلوبہ رقم نہیں دے رہے تھے تو اس کی مدد کو لے لیا۔ میرے کسی کام کا نہیں تو رکھ لوتم ۔ ۔ کہہ کر وہ باہر چلا گیا۔
اسے ہاتھ میں لیے بیڈ پر بیٹھ گئی اسے لگا وہ کھڑی کھڑی گر جائے گی۔ آنسو چہرے سے رستے رستے گود میں گرنے لگے۔
میں یہ سب اپنی محنت کا ثمر سمجھ رہی تھی۔ ۔ ۔ مگر یہ کسی کی بھیک تھی۔ ۔ ۔ میری کامیابیوں کے مکان کی پہلی سیڑھی گوہر کی بھیک تھی میری محنت نہیں تھی۔ چہرے منہ میں چھپائے سسکی۔۔
آنٹی وہ گھر پر سب ویٹ کر رہے ہیں تو دعا ۔ ۔ ۔ پچھلی بیس منٹ سے وہ انتظار میں بیٹھا تھا۔
ہاں ہاں وہ آتی ہی ہو گی۔ تھوڑی دیر اور رک جاتے ۔ ۔ زرینہ بیگم اسے پیار سے دیکھتی بولیں۔
ضرور رکتے پر وہ کل کے لیے بھی تیاری کرنی تھی نا۔ پیار سے ٹال گیا۔
ہاں یہ بھی ہے۔ ۔ لو دعا بھی آ گئی۔دعا کو آتےدیلھ کر بولیں۔
دونوں الودع کہتے گاڑی میں بیٹھے۔ گوہر نے گاڑی سٹارٹ کیاود مڑ کردیکھا۔
یہ پہلی اورآ خری بار ہے کہ میں لینے آیا ہوں۔ مجھ سے یہ امید مت رکھنا کہ میں ہر بار بار لینے آؤں گا۔ اپنی بات مکمل کر کے وہ واپس گاڑی کی طرف متوجہ ہوا۔
دعا نے بے یقینی سے دیکھا۔ وہ کچھ بول نہیں سکی۔ وہ آنے سے پہلے خوش تھی سکون۔ مگر اس شخص نے اس کا سکون غارت کردیا تھا۔باقی تمام راستہ عہ باہر دیلھنے میں گزارگئی وہ اسے یہ نہیں جتانا نہیں چاہتی تھی کہ اسے تکلیف ہوئی ہے۔
گھر پہنچ کر گاڑی پارک کرتا وہ اپنی جانب کا دروازہ کھول کر سیدھا اندر چلا گیا۔ڈرائینگ روم میں سب ان دونوں کے انتظار میں بیٹھے تھے۔۔
اسلام وعلیکم ۔ ۔ ۔گوہر نے آگے بڑھ کے سلام کیا اور ماں کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔
آپ لوگ بیس منٹ لیٹ ہیں۔ شمائلہ نے دعا کودیکھتے ہی کہا۔
ٹریفک تھا ماما اس لیے۔ گوہر فوراً بولکر دعا کی مشکل آسان کی۔
آئندہ خیال رکھیے گا۔ وہ اب بھی دعا کو ہی دیکھ رہیں تھیں
جی ۔ ۔ وہ سامنے ایسے کھڑی تھی جیسے کوئی مجرم ہو۔
دعا کل آپ کو جلدی اٹھنا ہے ایک تو کچن کی پہلی رسم کرنی جو بھی آپ کو بنانا آتا ہے وہ خانم کو بتا دیجیے گا لا دیں گی وہ بنا لیں۔ وہ بات کہہ کر اٹھ کر چلی گئی۔
اٹھ کر کمرے میں آئی سوچا ابھی اپنا ڈریس اور جیولری سائڈ میں رکھ لے۔ ہاتھوں کی حرکت کے چوڑوں کی کھنک آ رہی تھی۔ اس چوڑیوں کی ارتعاش سے وہ خود بھی جھنجلا رہی تھی۔خاموش کمرے بس اس اس کی چوڑیوں کی کھنک پورے میں گونج رہی تھی۔ ۔
بیڈ پر بیٹھا گوہر ایک دم چڑ کر بولا
کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔
اس پر جیسے اثر ہی نا ہوا ہو۔ وہ اب بھی اپنے کام میں مصروف تھی
دیواروں سے بات نہیں کر رہا میں۔ اب اٹھ کر دعا کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔
میں نے کیا کر دیا۔ دعا نے مڑ کردیکھا
شور کر رہی ہوں تم۔ ۔ اس کی مصومیت پہ غصہ آیا۔
میں تو بولی بھی نہیں۔ دعا نے حیرات سے دیکھا
تمہاری کسر یہ چوڑیاں نکال رہی ہیں ۔ اس کے ہاتھ کی جانب اشارہ کیا۔
اتاروں ان کو۔ ۔ سخت لہجے میں بولا۔
مگر آنٹی نے منع کیا ہے اترنے سے ۔ ۔ کل اس کے خالی ہاتھ دیکھ کر شمائلہ بیگم نے اسے کہا تھا چوڑیاں پہنو دلہن کے خالی ہاتھ اچھے نہیں لگتے۔
ماما سے ایجازت لو اور اترو۔ ۔ ۔ اسے دیکھتے واپس بیڈ پر بیٹھا۔
آپ ایجازت لے لیں میں اتر دوں گی۔
کیا بکواس ہے یار ۔ ۔ ۔ انچی آواز میں آنکھیں بند کر کے بولا۔
دعا نے بے بسی سے دیکھا اور کمرے سے باہر آئی۔ بے مقصد کچن میں جانکا پھر سر جھٹک کر باہر لان میں کھڑی ہوئی۔ نظر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔
تو ۔ ۔ ۔ تواس کا مطلب ۔ ۔ ۔ میری دعا ۔ ۔ قبول نہیں ہوئی۔۔ ۔ ۔۔ اس وقت اس کا دل چاہا بے تہاشہ روئے خود پر اپنے حالات پر اور اپنی قسمت پر
دعا بیٹا آپ اس وقت یہاں۔ پیچھے سے آفندی کہ آووز آئی۔
دعا نے جلدی سے آنسو صاف کیے
کیا ہوا بیٹا۔ آپ رورہی ہیں؟ وہ چلتے ہوئےدعا کے پاس کھڑے ہوئے
وہ گھر والوں کی یاد آ رہی تھی۔ دعا نے جلدی سے بہانہ سوچا۔
انہیں ایک دم اس پر بہت پیار آیا۔
بیٹا شمائلہ دل کہ بری نہیں ہیں بس کچھ معاملوں میں زرا سٹرکٹ ہیں اور گوہر کے لیے وہ تھوڑی۔ ۔ ۔ وہ رکے اس کا چہرہ دیکھا ۔ ۔ جہاں ویرانی کا بسیرا نظر آیا۔
زرا زیادہ پوزیسیو ہیں۔
دعا اللہ بہت کم لوگوں کو یہ صلاحیت اور وقار دیتا ہے کہ وہ رشتوں کو جوڑ کر رکھیں۔ اللہ نے بیٹیوں کو رحمت بھی اسی لیے بنایا ہے کہ وہ رشتوں کو مضبوط کرتی ہوں۔ اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا۔
شکریہ۔ ۔ ۔ دعا دل سے مسکرائی۔
دعا خاموشی سے کمرے میں آئی جہاں گوہر موبائل میں مصروف تھا۔ وہ سیدھا بالکنی میں چلی گئی۔
گوہر نے اب کی بار نظر اٹھائی۔ دعا اس کے سامنے سے ہوتی نکل گئی۔
بے جان چوڑیوں کے لیے زندہ لوگ کو تکلیف پہنچانا کہاں کا انصاف ہے حد ہے لڑکیوں کی بھی۔ سر جھٹک کر واپس فون میں مصروف ہوا ۔ آدھے کھنٹے تک انظار کیا مگر وہ واپس نہیں۔ گوہر نے فون سائڈ پررکھا اور لائٹ آف کی
خود ہی آ جائے گی۔ خود کوتسلی دے کر چت لیٹ گیا۔
جب وہ مزید دس منٹ تک نہیں آئی تو گوہر اٹھا بالکنی کی طرف بڑھا۔ جہاں دعا لان کے اندھیرے میں ناجانے کیا تلاش کررہی تھی۔
دعا۔ اس پکارتا اس کے پہچھے آ کھڑا
دیکھو میں تمہیں ہمیشہ کے لیے چوڑیاں اتارنے کو نہیں کہہ رہا۔ بس اس کمرے میں مت پہنوں اس میں اریٹیٹ ہو رہاں تھا۔
دعا نے مڑ کر دیکھا۔
یہ میرا کمرہ ہے میں کمرومائز کر رہا ہوں تو ایٹلیسٹ تم اتنا سا کومپرومائز کر ہی سکتی ہو۔
بیڈ میرا ہے میں بھی آپ کو زیادہ شیئر دے کر کومپرومائز کررہی ہوں۔ دل جلانے کو کہہ کراس کے پاس سے گزر گئی۔
بدتمیز۔ جواب دینے میں تو پی۔ایچ۔ڈی کر رکھی ہے ۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی پراجیکٹ بغیر ایجازت اپرو کرنے کی۔ عرفان صاحب بے حد غصے میں خرم پر برسے
اس سے فائدہ ہو رہا تھا اور ڈیلیگیٹس فی الفور جواب چاہتے تھے آپ کا فون نہیں لگا تو میں نے۔ ۔ ۔ خرم سر جھکائے کھڑا تھا
میں نے تمہیں اس کے لیے نہیں ملازمت دی کے اپنی مرضی سے فیصلے کرو۔ وہ چلتے ہوئے اس کے سامنے کھڑے ہوئے
لیکن پاپا۔ اس نے سر اٹھایا
تمہاری حیثیت بس ایک ملازم کی ہے۔ اپنی بیٹی کی وجہ سے برداشت کر رہاہوں میں۔ اسے انگلی اٹھا کر بولے
جی بہتر۔ سر جھکائے کہا اور نکل گیا
ہائے تو آپ کھانے کی تیاری کرنے لگی ہیں۔ زی نے کچن میں جھانکا
ہاں۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہا کچھ۔ ۔ ۔ دعا نے کچھ پزل ہو کر کہا
پریشان نہ ہوں۔ باہر سے چپکے سے منگوالیتے ہیں کسی کو پتا بھی نہیں چلنا۔ زی نے آنکھ دبائی
نہیں میں بنا لوں گی ۔ وہ مسکرا کر مڑی
شیور؟ دعا کے کندھوں پر ہاتھ کا دباؤ بڑھا کر بولی
یس۔ بڑے اعتماد سے کہا۔
اوکے۔ آپ نا بریانی اور ساتھ شامی کباب بنا لیں سالن میں کوئی قورمہ وغیرہ اور سویٹ ڈش میں ۔ ۔ ۔ چلیں اپنی مرضی سے بنا لیں۔ مسکراہٹ دبائے دعا کو دیکھا
اوکے۔دعا نے بڑے آرام سے اوکے کہا
ہیں؟ آپ کو بنانا آتا ہے؟ وہ آنکھیں کھول کر بولی۔
مجھے کھانا بنانا اور کھانا پسند ہے ۔
اوکے میں بھی آج کچن میں رہوں گی۔شروع کریں آپ ۔ ۔ وہ مزے سے شیلف پر چڑھ کے بولی
دعا نے پہلے اپنے دوبٹے کا ہجاب کیا۔
ارے بھابی دوبٹہ اتارنا ہے ہجاب نہیں کرنا۔
ارے جناب کھانا بنانے کے اصول ہوتے ہیں سر ڈھاکہ ہو تو کھانے مہں بال وغیرہ نہیں جاتے ۔
اوہ اچھا۔ وہ زرا کھینچ کے بولی
جی اور اگر ہم کھانا بناتے وقت تین دفعہ درودشریف پڑھ لیں تو کھانے کا ذائقہ بہترین آتا ہے۔
واہ جی۔ وہ ایک دم خوش ہوئی
بیٹا مجھے بلالیا ہوتا۔ خانم اندر آئیں۔
ان سے ملیں بھابی یہ ہمارے اماں محترمہ کے جہیز میں آئیں تھی ہم سب ان کو خانم کہتے ہیں۔
کوئی بات نہیں۔ سر کے خم سے سلام کیا۔
وہ مجھے کٹنگ میں پرابلم ہوتی ہے بس آپ وہ کردیں باقی میں کر لوں گی۔
ٹھیک ہے بیٹا۔
بھائی کھانا لگ گیا ہے جلدی آئیں۔ زی نے باہر سے ہی آواز لگائی۔
آتا ہوں۔
جلدی بھابی نے پکایا ہے۔
اف اب اس کے ایکپیریمنٹ بھی کھانے پڑے گے۔ سر کھجاتا نیچے آیا سب موجود تھے ڈئینگ پر لیکن وہ پریشان سی کھڑی تھی۔
بیٹھیں گوہر پہلے آپ ٹیسٹ کریں۔ آفندی کی آواز پر وہ چوکنا ہوا۔
گوہر نے بریانی کا چمنچ لیا سب اسے دیکھنے لگے۔ وہ آہستہ آہستہ چبانے لگا۔
کیا ہوا۔ زی نے کوئی کمنٹ نہ پا کر پوچھا
کیسالگا ؟ آفندی نے بھی چمنچ لیا۔
ماشاللہ بیٹا آپ تو بہت اچھا کھانا بناتی ہیں۔ لقمہ ختم کر کے انہوں نے رائے دی۔
شکریہ۔۔ ۔ دعا نے جیسے سانس بحال کی۔
بیٹا کھانے کے بعد میرے لی اگر چائے بنا دیں تو مشکور ہوں گے ہم۔ ۔
جی ضرور۔
کھانا ختم کر کے وہ چائے بنانے کچن کی طرف بڑھی۔
چائے بنا کے ماسٹر بیڈ روم کی طرف بڑھی ناک کیا اور ایجازت پا کر اندر آئی۔
شکریہ بیٹا۔ چائے کا کپ پکڑتے مسکرائے۔
بیٹا یہ آپ کا انعام ۔ ایک لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔
جی۔ سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
ایسے ہی کبھی کبھی اچھے کھانے بنا دیا کریں اچھا لگے گا ۔ اسے جاتا دیکھ وہ مسکرائے
ضرور۔ دعا نے کہا اور باہر چل دی۔
تیز تیز قدموں سے اندر آئی
بیڈ پر بیٹھی اور گود میں رکھے لفافے کو دیکھا۔کھولا اس میں کچھ رقم تھی۔ یہ صرف رقم نہیں تھی وہ دعا تھی جو ایک باپ پہلی بار بیٹی کو کھانا بنانے پر دیتا ہے وہ پیار تھا جو ایک باپ اسے کے پہلی بار چہرے کو دیکھ کر بے اختیار دیتا ہے۔ اسے اس وقت شدت سے احساس ہوا تھا وہ یتیم تھی اس نے اپنے باپ سے یہ سب نہیں ملا تھا اب جو ملا تھا جہاں سے ملا تھا وہ اس کا باپ نہیں تھا مگر وہ پیار سے سر پر ہاتھ پھیرنا باپ کی شفقت سے بھی زیادہ لگا تھا مارے ضبط کے آنسو بہنے لگے اس نے روکنے کہ کوشش کی مگر وہ مزید بہے اور بہتے ہی چلے گئے۔
واش روم سے نکلتےگوہر نے بھی منظر دیکھا کر ٹھٹھکا۔ ۔ وہ اسے اس وقت ماصوم سی بچی لگی تھی۔وہ اسےدیکھتا ہی چلا گیا۔ جب وہ پانچ منٹ تک ایسی ہی بت بنی آنسو بہائے گئی تو وہ پاس آ کر کھنکارا۔
بیڈ گیلا ہو گیا تو میں اپنی سائڈ نہیں دوں گا۔ وہ اس کے رونے پر اسے چھیڑ رہا تھا۔
دعا نے جلدی سے آنکھیں مسلیں۔ وہ۔ ۔ ۔ میری آنکھ میں کچھ چلا گیا تھا۔
گوہر نے ہنسی روکی جسے دعا نے دیکھا اور وہ لفافہ اپنے دراز میں رکھ کر واش روم میں کھس گئی۔
سنیے ۔ کمرے میں آتے ہی دعا نے پکارہ
گوہر کو خاموش پا کر اس نے ایک قدم آگے بڑھایا اور پکارا
سس سنیے ۔
یہ سنیے سنیے کیا لگا رکھا ۔ نام نہیں پتا میرا۔ جھنجھلائی ہوئی آواز میں مڑ کر بولا۔
پتہ ہے گوہر ۔ ماصومانہ جواب تھا۔
تم۔ ۔لمبی سانس لے کر غصہ کو ضبط کیا۔
۔ آ۔۔۔ کیوں بلانے آئی تھی۔ غصے کو دباتا وہ بات کو بدل گی
آپ سے کوئی خاتون ملنے آئی ہیں ۔
گوہر جا نتا تھا وہ کون ہیں سو منع کیا۔
ان سے کہہ دو ملنا نہیں چاہتا میں؟
لیکن؟ وہ حیرانگی سے دیکھنے لگی
جا کر کہہ دو نہیں ملنا مجھے پلیز ۔ اب کی بار زرا سختی سے بولا۔
وہ آرام سے باہرآگئی۔
دعا ۔ ۔ شمائلہ نے آواز دی
جی۔ وہ سستی سے مڑی۔
کیا ہوا؟ انہوں نے اسے اداس دیکھ کر پوچھا۔
گوہر سے کوئی خاتون ملنے آیئیں ہیں مگر انہوں نے منع کر دیا۔ وہ اداسی سے بولی۔
دعا وہ گوہر کی مدر ہیں۔
دعا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
گوہر بہت چھوٹا تھا جب وہ چھوڑ کرچلیں گئیں۔ دو سال کا تھا جب میں آئی اس گھر میں۔ میں نے اسے اپنے بیٹے سے زیادہ سمجھا ہے۔ تین سال پہلے اچانک سے وہ اپنے بیٹے پر حق جمانے آ گئیں ہیں۔ ویل فیصلہ گوہر کا ہے وہ ملے یا نہیں۔ وہ کہہ کر چلی گئیں۔
دعا نے مزید کچھ نہیں پوچھا۔ واپس مڑی اور کمرے کی طرف آگئی جہاں گوہر بیڈ پر بیٹھا چینل سرفنگ کر رہا تھا۔
اندر آئی اور الماری میں بے مقصد کچھ ڈھونڈنے لگی۔
وہ مجھے کل امی کی طرف جانا تھا۔ وہ مڑے بغیر بولی۔
چلی جاؤ۔ ٹی۔وی پر نظریں جمائے بولا۔
تھینکس دراصل امی ناراض ہیں نا تو انہیں منانا تھا ماں ناراض ہو تو اللہ بھی ناراض ہو جاتا ہے۔ چلتے چلتے بیڈ پر بیٹھ کر اسے غور سے دیکھا۔
کبھی کبھی سوچتی جن کی ماں ایسے ہی ناراض دنیا سے چلی جاتی ہیں تو قیامت کے دن وہ ان بچوں کو اپنا ماننے سے انکار کریں تو ایسے بچے اللہ کے سامنے کیا منہ دیکھائیں گے۔ ریموٹ پر گوہر کی پکڑ ڈھیلی پڑی۔
میں کچن میں ہوں۔ کہہ کر وہ اٹھ کر چلی گئی۔
گوہر نے اس کے جاتے ہیں لان کا رخ کیا جہاں عیشل کرسی پر بیٹھی تھیں گوہر کہ طرف ان کی پشت تھی۔
کیوں بار بار آ کر مجھے پریشان کرتیں ہیں؟۔ گوہر کی آ واز پر پیچھے پلٹیں لرزتے قدموں سے گوہر کے پاس آئیں۔ گوہر ان کی آنکھوں میں آتی نمی دیکھ کر دو قدم پیچھے ہوا۔
کیا کہنا ہے آپ کو مجھ سے؟ منہ پھیر کے بولا۔
وہ آگے بڑھیں اس کے سر پہ ہاتھ رکھا جیسے اس کے ہونے کا یقین چاہ رپی ہوں آنکھیں مسلسل آنسوؤں سے بھیگ رہی تھی۔ وہ کچھ نہیں بولیں بس یک ٹک دیکھے گئیں۔
دکھ ،تکلیف اور کسی کو پانے کی خوشی کیا نہیں تھا ان کے بہتے آنسوؤں میں۔ وہ ایک دم زمین پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگی۔
کچھ۔ ۔ ۔ کچھ بھی تو۔ ۔ ۔ نہیں کہنے کو میرے پاس۔ بس اپنے بیٹے کو دیکھنے آتی ہوں۔ وہ جو واحد رشتہ ہے۔
ہاں کیا ہوا؟ شیری کی غیرمتوقعہ کال پر وہ پریشان ہوئی
یار وہ جو ہمیں ڈیزائنگ کا پراجیکٹ کے لیے دیکھانا تھا نا پریزینٹیشن وہ میل کرو ابھی۔ دوسری طرف سے شیری نے عجلت میں کہا۔
ابھی ؟ وہ حیران ہوئی میٹنگ تو اگلے ویک تھی۔
ہاں۔ وہ لوگ آج ہی دیکھنا چاہتے ہیں ۔
اچھا کرتی ہوں۔ دعا نے فون بندکیااور لیپ ٹاپ نکال کے آن کرنے لگی۔ ساتھ ہی لیپ ٹاپ بیگ کی مختلف پاکٹس دیکھیں
اف میں میں انٹرنیٹ ڈیوائس لانا بھول گئی۔۔ اف اب کیا کرو؟پریشانی سے سر پر ہاتھرکھا پیچھے مڑ کے گوہر کو دیکھا۔
پتا نہیں یہ دیں کہ نہیں۔ پھر ہمت کر کے گوہر کے پاس آئی وہ فیس بک سکرول کررہا تھا
سنیں مجھے پاسورڈ مل سکتا ہے۔
کس کا؟ نظریں ہٹائے بغیر بولا۔
وائی۔ ۔ فائی کا؟۔
گوہر نے آبرو اٹھا کر دیکھا
مجھے ایک بہت ضروری ای میل کرنی ہے میں اپنی ڈیوائس لانا بھول گئی ہوں۔ پلیز ۔ ۔ ۔ مدد طلب نظروں سے دیکھا
راولپنڈی ایکسپریس۔بول کے واپس جھک گیا۔
شعیب اختر۔ ۔ ۔ بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھتے بولی
کون؟۔ نگاہ دعا کی طرف اٹھائی
کرکٹر شعیب اختر اسی کو کہتے ہیں ہاں۔ وہ اس کا فیورٹ تھا اس لیے خوشی سے بولی۔
ہاں۔ ۔ ۔ ۔
وہ ایک دم اٹھا مگر دعا کے لیپ ٹاپ کو پاؤں لگنے سے وہ زمین میں جا گرا۔
دعا ساکت ہو گئی۔
سوری ۔ ۔ غلطی سے ۔ ۔ ۔
دعا نے جھک کےلیپ ٹاپ اٹھایا۔ آنکھوں میں نمی آئی
لاؤ میں دیکھتا ہوں۔ ۔
مگر دعا نے اٹھا کر بار بار پاور بٹن دبایا مگر لیپ ٹاپ شائد ابدی نیند سو چکا تھا۔
یہ لو میرا یوز کر لو۔ ۔ گوہر نے فوراً اپنا لیپ ٹاپ نکال کر آن کر کے دعا کو دیا
دعا نے نظر اٹھائی۔ آنکھیں نم تھی۔
گوہر نے آگے بڑھ کے دعا کا لیپ ٹاپ لیا اور کمرے سے نکل گیا۔
دعا نے گوہر کا لیپ ٹاپ اٹھا یا وہ آن تھا اپنا ای میل آئی ڈی کھولا۔ ساتھ ہی فون بجنے لگا۔
یار دعا جلدی کرو
بس دو منٹ میں کرنے لگی ہوں گوگل ڈرئیو کا لنک سینڈ کررہئ ہوں اسی میں ہےفولڈر۔ ۔ ۔ ۔
اوکے۔
اف ڈیم یہ تو لاک ہو گیا۔
اسے آن کیا ڈفرنٹ پاسورڈڈالے مگر مجال ہے جو کھلا ہو۔
ماہ جبیں۔ ۔ کا نام ڈالا مگر نہیں کھولا ماہی لکھنے سے بھی نہیں کھلا۔
بھابی مجھے ایک ہلپ چاہیے۔زی جلدی سے کمرے میں آئی۔
کیا ہوا؟ دعا اپنی ہی پریشانی میں رونے کو تھی
ایک میل کرنی تھی بٹ تمہارے بھائی لا لیپ ٹاپ بند ہو گیا میں نے پاسورڈ بھی نہیں پوچھا۔
کوئی رنڈم ٹرائی کریں۔ وہ پاس کھڑی ہوئی
جو جو پتا تھا سب کر لیا نہیں ہوا اوپن۔آنکھیں بند کیں
اپنانام ٹرائی کیا؟۔ وہ چٹکی بجا کر بولی
نہیں ہوگا۔ اس کی ماصومیت پر اسے حیرت سے ہوئی۔
لگائیں نا۔۔ ۔ ۔
دعا نے دھڑکتے دل سےلگایا ۔۔ ۔مگر لیپ ٹاپ اب بھی نہیں کھلا۔ دیکھا نہیں کھلا
ایک منٹ بھائی اے کی جگہ ایٹ دا ریٹ آف لگاتے ہیں ایف بھی پہ نام نہیں دیکھا آپ نے ۔ ۔
دعا نے ٹائپ کیا اور سکرین ویلکم کرتی اوپن ہوئی۔
کہا تھا نہ۔ ۔
اچھا جب آپ کا کام ہو جائے تو پلیزمجھے فون لینا ہے کونسا لوں یہ بتا نا ہے آپ نے۔ وہ کہہ کر نکل گئی۔
آپ آگئے؟ گوہر کو اندر آتا دیلھ دعا نے ایسے مخاطب کیا جیسے بہت دوستی ہو ان میں۔
دعا وہ لیپ ٹاپ سکرین کافی خراب ہے نیو ڈالنی پڑے گی تو بہتر ہے تم نیا لے لو۔ وہ نظریں چرا کر ٹہر ٹہر کے بولا۔
اوکے۔ ۔ اس کے بڑے آرام سے کہنے پر وہ حیران ہوا۔
میں تم کو نیا لے دوں گا۔ وہ اسے براہراست دیکھنے لگا
نہیں کوئی بات نہیں میں لے لوں گی۔ وہ مسکرائی۔
آر یو ۔ ۔ ۔اوکے؟ کوئی تلخ بات نہ سن کے اس کو دعا کہ دماغی حالت پر جیسے شبعہ ہوا۔
یس۔ ۔
آپ کل سے آفس جوائن کریں گے؟۔ ۔ وہ بات کو لمبا کررہی تھی۔
ہممم۔ ۔ ۔
مجھے بھی۔
گھر میں تین گاڑیاں ہیں ایک بابا کی ہے ایک میری اور ایک گھر کے یوز کےلیے زی آٹھ بجے جاتی ہے خان انکل کو ٹائمنگ بتا دینا تو وہ اس ٹائم چھوڑ آئیں گے آفس۔ ۔ ۔ اسے لگا وہ اتنے پیار سے بات اس لیےکر رہی ہے کہ گوہر اسے کل ڈروپ کرے۔
نہیں مہں خود چلی جاؤں گی۔ کل ہونا تو ایسے ہی تھا مگر اب گوہر نے جس طریقے سے کہا اسے برا لگا۔