آفندی ٹیکسی سے اترے گھر کے گیٹ کے پاس بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ ایک لمحے کو دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی اور وہ پریشانی سے تیزی نے نکلے ٹکسی والے کو کرایہ دیا تو گھر کی طرف بڑھے بھیڑ کو کراس کر کے اگے آئے تو پولیس پہرے لگائے کھڑی تھی ۔
یہ ۔ ۔ یہ کیا ہے سب اور آپ لوگ کیوں ہیں یہاں؟ بیگ کندے پر لٹکے ہانپتے پوچھا۔
کون ہوتم۔ ؟ حولدار نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر روکتے ہوئے پوچھا۔
یہ میرا گھر ہے؟۔وہ جھنجلائے
اوہ اچھا آپ جلدی سول ہسپتال چلے جائیں۔
لیکن کیوں کیا ہوا ہے ؟ وہ ازحد پریشانی سے بولے۔
آپ کے گھر میں حادثہ ہوا ہے آپ جلدی پہنچے وہاں۔ وہ ہمدردی مگر رعب سے بولا۔
قدم لڑکھڑائے دل کی دھڑکن جیسے بند ہونے کو تھی۔ دومنٹ کے لیے ایسے لگا جیسے دن میں تارے دیلھے ہوں۔رکشا پکڑا مطلوبہ ہسپتال پہنچے ۔ رکشے سے اوتر کر ہسپتال داخل ہوتے ہی ریسپشنسٹ سے پوچھا اس نے سیکنڈ فلوپر بھیجا آفندی تقریباً بھاگتے ہوئے گئے سامنے ایک حولدار کھڑا تھا ایک کمرے کے باہر آفندی فوراً اس کے پاس گئے۔ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ اماں جی کا اپریشن جاری ہے جبکہ عیشل انڈر آبزرویشن تھی۔
آفندی دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے ہوئے۔ آنسوؤں حلق جیسے تر سا ہوا مگر مردانگی نے انہیں آنکھوں سے بہنے روکا۔ عین ممکن تھا کہ وہ گر جاتا۔ وقت سست روی سے چلتا رہا سیکنڈ منٹ اور منٹ کھنٹے میں بدلے صبر بھی اب جواب دینے لگا۔ اتنے عیشل کے کمرے سے ڈاکٹر باہر نکلے آفندی ان کی طرف لپکے ۔
سر وہ میری بیوی ہیں کیا وہ ٹھیک ہیں میں مل سکتاہوں۔ یکے بعد دیگرے ڈھیرو سوال کر دیے۔
حوصلہ رکھیے ۔ خطرے سے باہر ہیں مگر ان کا کندھا ڈسلوکیٹ ہوا ہے ابھی ٹریکولائزر کے زیر اثر ہیں۔ ڈاکٹر نے تصلی دینے کو کندھے پر ہاتھ رکھا۔
کیا میں مل سکتا ہو؟ وہ بے چین ہوئے۔
نہیں پہلے ہم ان کا بیان لیں گے ان کے ہوش آنے پر اس کے بعد۔ پاس کھڑے حولدار نے فوراً نفی کی۔
وہ واپس دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے ہوئے۔ سردیوار سے لگایا ہی تھا کہ گوہر کیا خیال آیا۔ گوہر کہا ں ہے؟ اف ۔ ۔ ۔ تیز قدم چلتے حولدار کے پاس آئے ۔
وہ اس گھر میں ایک بچہ۔ ۔ بچہ ۔ ۔ بھی تھا وہ۔ ۔ وہ۔ ۔ کہاں ہے؟ وہ بیٹا ہے۔ ۔ ۔ میرا۔ ۔ ۔زبان لڑکھڑائی۔ ۔
پتا نہیں جی مجھے تو یہاں رکنے کے لیے کہاں گیا۔ ۔ کہہ کر وہ واپس سیدھا ہوا۔
یا اللہ یہ کیا ہو رہا ۔ ۔ ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ جلدی سے نیچے کی طرف گئے۔
افندی۔ ۔ ۔ کسی نے پکارا۔ ۔ ۔
کسی کی اچانک پکار پر وہ مڑے۔ ۔
انو۔ ۔ ۔ نام لیتے مڑے مگر ان کی گود میں گوہر کو دیکھ کر جیسے جان میں جان آئی۔
جلدی سے آگے بڑھ کر گوہر کو ٹھا کر گلے لگایا۔
بیٹا میں کب سے فون لگا رہا تھا تمہیں۔ ۔ ۔ انوار صاحب نے اسے گوہر کو گود لیتے مخاطب کیا۔
کچھ سمجھ نہیں آرہا مجھے کیا ہو رہا ہے۔ ؟
پتا نہیں بیٹا میں آج گھر پر روز کی طرح بارہ بجے ٹیرس پر آیا تو دیکھا کہ تمہارے گھر سے عیشل کی آواز آ رہی ہے چیخنے کی پہلے تو تمہیں فون ملایا مگر تمہارا نمبر لگا نہیں تو میں نے پولیس کو بلا لیا۔ مگر میں وہیں رکا رہا کوئی بھاگا وہاں سے پولیس کا سائرن بجنے پر مگر عینک نہ ہونے کی وجہ سے میں ٹھیک سے پہچان نہیں سکا ۔
آپ کی مدد کا شکریہ انوارصاحب۔ مشکور نظروں سے دیکھا۔
بیٹا ہمسایہ ہونے کے ناطے یہ فرض تھا میرا۔
انوار صاحب سوری شی از نو مور۔ ۔ ۔ ڈاکٹر نے انوار کو مخاطب کیا اور کندھا تھپک کےچلے گئے۔ انوار سے صاحب نے گوہر کو سینے سے لگائے آفندی دکھ سے دیکھا۔
بیٹا وہ تمہاری ماں کی بات کررہے تھا۔
وہ جو گوہر کہ طرف متوجہ تھا ایک دم سے گردن اٹھائی۔ انکھیں پانی سے بھر گئیں۔
یہ ۔ ۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟
بیٹا اللہ کہ مرضی کے اگے کیا کر سکتے ہیں۔
انوار نے اگے بڑھ کےگوہر کو لیا۔
آفندی سنبھالوں بیٹا ۔ ۔ ۔
مرد جب روتا ہے تو تکلیف اور اس کی کیفیت لفظوں میں سمونا ناممکن سا لگتا ہے وہ بھی کسی ایسی کی صورتِِ حال سے دوچار تھے۔ وہ اسے اپنے سامنے روتا دیکھ رہے تھے۔
موبائل پر سرچنگ کرتا وہ آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ ۔ ۔
اف یار کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا کیا لوں؟ گوگل پر بار بار مختلف الفاظ لکھ کر سرچ کررہا تھا پورا دھیان موبائل میں تھا کہ اچانک کسی سے ٹکرایا۔۔ مدِ مقابل کے ہاتھ سے فوڈ ٹرے گری اور سارا کھانا زمیں بوس ہوگیا۔
اوہ ائی ایم سوری۔ ۔ ۔ گوہر نے نیچے جھک کے ٹرے کو اٹھایا۔
سوری کیا ؟ بچے نے تیوری چڑھا کر دیکھا۔
دانی کوئی بات نہیں جان بوجھ کر نہیں کیا۔ ؟ دعا نے ہاتھ پکڑ کے دانے کو پیچے کیا۔
ایم سو سوری دانی۔ ۔ ۔ گوہر نے دانی کو دیکھا جس کے معصوم چہرے غصے سے دہک رہا تھا۔
نو دانیال ۔ ۔ دانی نے توصیع کی۔
بیٹا دھیان سے چلا کرو؟ زرینہ بیگم پاس ٹیبل سےکھڑی ہوئیں۔۔
معاف کیجیے گا آنٹی میں واقعی شرمندہ ہوں۔ گوہر ان کی طرف مڑا۔
کوئی بات نہیں بیٹا آئیندہ احتیاط کرنا ۔ وہ کھانے کو گرا دیکھ کر افسوس سے کہتی واپس بیٹھ گئیں۔
جی۔ ۔ وہ سر جھکائے واپس مڑ گیا۔
ایسا کرتے ہیں ہم پہلے دانی کی پلیٹ ختم کرتے ہیں اور اس کے بعد ڈیسائڈ کریں گے کہ ہم کچھ اور لیں اور وہ کیا ہوگا۔ دعا نے ماحول کی کشیدگی دور کرنی چاہی۔
اوکے۔ دیا نے تائید کی۔
سب پلیٹر جنگشن کا پلیٹر کھانے میں مصروف ہو گئے۔ ابھی دو تین منٹ ہی گزرے تھے کہ گوہر نے پکارا۔
ایکسکیوز می؟ میں بیٹھ جاؤں؟ گوہر نے ہاتھ میں فوڈ پلیٹ پکڑے ہوئے کہا۔
نو۔ ۔ ۔ دانی نے گھور کر کہا۔
بیٹھو بیٹا۔ دانی بیٹا ایسا نہیں کہتے۔ ۔ ۔ زرینہ بیگم نے دانی کو ٹوکا تو وہ منی بنا کر سیدھا ہوا۔
آپ وہی ہیں نا جو ہسپتال میں ملے تھے ؟ زرینہ بیگم نے یاد دلایا
جی آنٹی۔ پلیز یہ کھائیں میں آپ کے لیے لایا تھا۔گوہر نے پلیٹ ان کی طرف بڑھائی۔
بیٹا اس کی ضرورت نہیں ہے۔ زرہنہ بیگم گوہر کے تکلف پر مشکور نظروں سے دیکھا۔
بیٹا بھی کہتی ہیں اور تکلف بھی۔ وہ مسکرایہ۔
وہ دراصل میری مدر کی برتھ ڈے ہے میں ان کے لیے گفٹ سرچ کر رہا تھا تو اس لیے۔ گوہر نے وضاحت دی۔
تو پہلے کبھی گفٹ نہیں دیا ۔ ۔ دیا نے بھنویں اچکائیں۔۔
کہہ سکتے ہیں ۔ ۔ میں انہیں بس بکے دیتا ہوں اس بار سوچا کچھ سپیشل ہو جائے۔
تو آپ بھی وہ دیں جو دعا نے دیا ہے؟ دیا نے مشورہ دیا۔
کیا؟ وہ مسکرا کر دعا کی طرف دیکھا۔
امی نے جو ڈریس پہنا ہے وہ اور ان کے ہاتھ میں جو گھڑی ہے وہ بھی۔ دعا نے کل دیا ہے۔
دعا مجھے بھی گفٹ کا ائیڈیا مل سکتا ہے؟
دعا کی طرف گھوم کر دیکھا جو دانی کی پلیٹ پر جھکی فرائز اٹھا رہی تھی۔
ہم آپ کو گفٹ خرید کے ہی نا دے دیں۔ دانی نے ٹونٹ کیا۔
ہاں بالکل۔ ۔ گوہر نے شرمندہ ہونے کی بجائے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
چلو بیٹا مدد کر دو بھائی کی۔ ۔ زرینہ بیگم کی آواز پر کوک پیتے گوہر کو کھانسی آئی۔
چلیں بھائی اٹھیں آپ کی مدد کروں۔ ۔ دانی کو نجانے کیا سوجا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
جاؤ دعا ساتھ دانی نے تو اسے پاگل کر دیانا ہے۔ ۔زرینہ بیگم کی آواز پر دعا کو چارو ناچار اٹھنا پڑا۔
دعا چلتے چلتے دونوں کے پاس پہنچی مگر دونوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔
دانیال میں نے واقع ہی جان کے نہیں کیا۔؟گوہر نے دانی کو مخاطب کیا۔
آپ کو کم دکھتا ہے؟ وہ سامنے کھڑا ہو کر بولا۔
نہیں پورا دکھتا ہے مگر سر پر انکھیں جو تھیں وہ میں نے پچپن سے ہی نکال دیں ورنہ دیکھ لیتا۔ ۔ گوہر نے سوچ کر اس انداز میں کہا کہ دانی ہنسنے لگا۔
کیا ہوا ایلین نہیں ہوں۔ ۔ گوہر نے اس کو ہنستے دیکھ اپنی ہنسی دبا کر کہا۔
آپ فنی باتیں بھی کر لیتے ہو۔ ۔ ۔ گوہر کے چہرے کو دیکھتے بولا۔
ہاں بالکل اچھا اب دوست ہیں ہم؟ گوہر نے ہاتھ بڑہا کر دو انگلیاں نکال کر مٹھی بنائی۔ ۔
اوکے ۔ ۔ دانی نے اس کی طرف دیکھا مسکرایہ اور اپنی فونوں انگلیاں اس کی دونوں انگلیوں سے مس کیں۔
ادھر سے جانا ہے ۔ ۔ دعا نے لفٹ کی جانب اشارہ کیا ۔ ۔
چلتے چلتے دانی ایکدم رکا۔
آپی؟ پلے لینڈ۔ ۔ وہ پلے لینڈ میں بچوں کو۔دیکھ کر ازحد خوش ہوا۔
ہاں ہاں جاؤ ۔ ۔ ہم واپسی پر تم کو لے لیں گے ۔ ۔ گوہر نے فوراً ایجازت دینے والے انداز میں کہا۔
پکا۔ دانی نے واپس مڑ کر کہا۔
بالکل پکا۔ گوہر نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر پکا وعدہ والی سیچوائشن بنا کر سر کو خم دیا۔
دانی۔ ۔ دانی ۔ ۔ ۔ اسے بھاگتےدیکھ دعا نے پکارا۔
کوئی بات نہیں بچے کو انجوائے کرنے دو۔ دونوں چلتے نیچلے فلور پر آئے۔
آپ ڈریس لیں گے یا کچھ اور ؟ دعا نے سامنے شاپس کی طرف دیکھا۔
جو بھی تم کہو۔ ۔ وہ اسے غور سے دیکھتا بولا۔
پہلی بار ڈریس دیں گے تو انہیں اچھا لگے گا۔ ۔
ہممم ۔ ۔ دونوں چلتے ایک بہترین برینڈ کی شاپ پر گھسے دعا مختلف کپڑے دیکھ رہی تھی
مجھے نہیں معلوم ان کی پسند مگر مجھے لگتا ہے کہ لائٹ کلرز ماں کی شخصیت کو مزید معتبر بنا دیتے ہیں۔
اچھا ؟۔ ۔ وہ ہلکہ سا مسکرایہ۔
جی تو یہ ڈریس مناسب رہے گا۔ دعا نے ایک بالکل مناسب درمیانے کام والاہلکے سفیانے رنگ کا سوٹ دیکھا جس کے گلے پر کڑھائی کا کام تھا ۔
اوکے ۔ ۔ اور ایک اور چیز بھی۔ ۔ ۔اس سے پہلے وہ غائب ہونے کا سوچتی وہ اس کے ارداے بھانپ کر بولا۔
ڈریس پیک کروا کر وہ شاپ سے باہر نکلے
انہیں جولری کا شوق ہے۔؟
زنگز پہنتی ہیں ۔ ۔ انہیں پسند ہیں ۔ ۔
مگر آپ بریسلیٹ بھی دے سکتے ہیں کچھ الگ ہوگا تو وہ اسے پہنیں گی۔
اچھا چلو وہ بھی دیکھ لو۔ ۔ دونوں چلتے ایک جولری شاپ پر گئے۔
وہ کیسی ہیں ؟ دعا نے گوہر کی طرف مڑ کی دیکھا
بہت اچھی ۔ ۔ گوہر نے پہلی بار اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھا
اوہ نہیں میرا مطلب ان کے ہاتھ کاسائز ۔ ۔ وہ گڑبڑا کر واپس مڑی
ہیں؟ یہ بھی ہوتا ہے کیا؟ ماتھے پر بل پڑے
جی۔ ۔ وہ ہنسی تھی۔
مجھے تو نہیں پتا ۔ ۔
پھر ؟۔ ۔ اف کہاں پھس گئی۔ ۔ دعا نے سوچھا مگر کہا نہیں۔
ان کا ہاتھ پتلا ہے وہ کافی سمارٹ ہیں۔ ۔
اوکے فری سائز لے لیں چین بریسلٹ بعد میں سائز کو ٹھیک کر لیجیے گا گھر میں ہی۔ ۔
اوکے۔ ۔ ایک باریک ڈیزائن بریسلٹ سلیکٹ کر کے دیا گوہر نے پیمنٹ کی دونوں شاپ سے باہر آئے۔
دعا؟۔ ۔ اس کے ساتھ چلتے کچھ سوچ کر پکارا
جی؟۔ ۔
سوری۔ ۔
کوئی بات نہیں جان بوجھ کر تو نہیں گرایا تھا نا۔ ۔
اس کے لیے نہیں۔ پہلی بار اسے دیکھنے پر شیری سے کہی ہوئی۔بات زہن میں گونجی ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں۔۔۔ آج نکاب میں آئی ہے کل دوبٹہ اور پھر دوبٹے کے بغیر آ نے لگے گی ۔۔ ۔ ۔
ہم لوگوں کو بس ایک ملاقات میں ان کے بارے میں بغیر کسی وجہ کے اکثر رائے قائم کر لیتے ہیں اوع ہمیشہ کے لیے اس اپنے دل میں چھپا کر رکھ لیتے ہیں یہ جاننے کی لبھی کوشش نہیں کرتے کہ وہ رائے درست بھی ہے یا نہیں۔۔
پھر؟ دعا نے سوالیہ نظروں سے مڑ کر دیکھا۔
لیپ ٹاپ کا فی اچھا چلتا ہے۔ گوہر نے بات کو بدل دیا۔ ماضی کی کہی بات یا غلطی کمان سے نکلے اس تیر کی ماند ہوتی ہے جس کو نہ تو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا رخ موڑا جا سکتا ہے
دعا نے ناسمجھی سے دیکھا۔
تم ہر کسی کوایسے گفٹ دے دیتی ہو۔ ۔ مسکراہٹ دبائے وہ اسے تنگ کرنے کو بولا۔
نہیں۔ ۔ دعا نے فوراً تردید کی۔
سپیشل ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتا دعا نے ٹوکا۔
اپنی غلطی پر میں کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں دیتی۔ فی ایمان اللہ
یوں جیسے ٹکا سا جواب دیا ہو اور چل دی گوہر کی نظروں نے دور تک جاتی دعا کو دیکھا۔
یہ لڑکی کبھی کبھی ایسی بات کر جاتی ہے کہ بندہ سوچتا رہ جائے۔ گوہر نے نظریں جھکائیں ٹائم دیکھا۔
اف پھر سےلیٹ ؟ گوہر کار پارکنگ کی طرف بھاگا
گاڑی تیز رفتار سے چلاتا گھر جانے کی جلدی میں کہ شام ہونے کو تھی۔
گاڑی گھر کے باہر روک کر ہارن دیا کھلنے گاڑی اندر پارک کی اور بیگ اٹھائے اندر گیا۔
ارے واہ بھائی اپنے ہمیشہ کہ طرح اپنا رکارڈ قائم کرتے ہوئے آج بھی لیٹ انٹری دی ہے۔ ۔ زوہیب نے اگے بڑھ کر اسے ستانہ ضروری سمجھا۔
تم چپ کرو ۔ ۔ سوری ماما وہ لیٹ ہو گیا۔ زوہیب کے بال خراب کر کے وہ شمائلہ کہ طرف بڑھا۔
واہ ماما آج آپ کو بکے بیگ میں دیا جائے گا کیا نیو اینونشن کی ہے بھائی۔ ۔ واہ محفل لٹ لی قسم سے ۔ ۔ ۔ وہ بیگ کو دیکھ کر ہستا ہوا اسے چھیڑ رہا تھا۔
زوہیب بڑا ہے تم سے ۔ ۔ شمائلہ نے کان کھینچے اس کے
اللہ جی کان تو چھوڑ دیں۔ ۔ ۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے آپ نے گود لیا ہوا ہے مجھے ۔ ۔ ۔ کان کو مسلتا سی سی کرتا پیچھے ہوا۔
ماما یہ آپ کے لیے ۔ ۔ ۔ بیگ ان کی طرف بڑھایا۔ ۔
شکریہ گوہر ۔ ۔
ارے ماما کھولیں نا۔ ۔ ۔ زی نے فوراً بے چینی سے کہا۔
واہ ما شاللہ یہ تو بہت خوبصورت ہے۔ ۔ ۔ بیگ سے ڈریس نکال کے وہ ازحد خوشی سے بولیں
کچھ اور بھی ہے۔ ۔ گوہر کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔ ۔
شاپنگ کرنا کہاں سے سیکھ لیا؟ آفندی نے اگے بڑھ کر بریسلٹ کے خوبصورت ڈیزائن کو نوٹ کیا۔
میں بتاتا ہوں ۔ ۔ بھائی چاہتے ہیں کہ وہ ہماری ہونے والی بھابی کو بیسٹ گفٹ دیا کریں سو وہ آپ پر پریکٹس کر رہے ہیں۔ ۔ شیری نے پھر چوٹ کی۔ ۔
تم بعض نہیں آؤ گے نا ۔ ۔ ۔ گوہر نے بھی مروت کو پیچھے پھینک کر اسے گردن سے دبوچا۔۔
آپ۔ ۔ ۔ مستقبل کے حسین فوجی۔ ۔ ۔ کو ضائع کر رہے ہیں۔ ۔ اللہ آپ کو کوئی۔ ۔ ۔ خراٹ قسم کی بیوی دے جو روز آپ کو ایسے پکڑے۔ ۔ ظلم سماج معصوم بچے کی شہادت کروا کے جاگے گا ارے کوئی تو روک لو۔ ۔ ۔
گوہر چھوڑ دو نا ۔ ۔ ۔ صلہ نے اگے بڑھ کر کہا تو گوہر نے چھوڑ دیا۔
ویسے بھائی ۔ ۔ ۔ ۔
رکو زرا ۔ ۔ گوہر نے واپس اس کی طرف قدم۔بڑھائے۔ ۔ تو وہ بھاگ کھڑا ہوا۔
دیکھ رہے ہیں آپ ؟۔ ۔ میرا بیٹا اچھا ہے کتنا۔ ۔ ۔ شمائلہ نے آفندی کو۔مخاطب کیا
جی اور اسے الٹا ہونے میں بھی دیر نہیں لگتی۔ ۔ ۔ آفندی نے بھی جھٹ سے جواب دیا۔
وقت بہت بڑا مرہم ہے زخم جیسا مرضی ہو وقت اسے شفا بخشنے میں اپنا سانی نہیں رکھتا ہر رشتے کو اتنا بے وقت کر دیتا ہے کہ لوگ وقت گزرنے کے ساتھ اسے بھول جاتا ہے مگر ماں سے جو رشتہ اللہ نے رکھا ہے اسے عمر کے کسی بھی حصے میں اس سے جدائی کے زخم کو بھرنا وقت کے بس میں بھی نہیں ۔ نہ اس رشتے کا کوئی ردعبدل ہے نہ اس سے دوری کے زخم کا کوئی مرہم ۔ ۔ ۔ ۔
آفندی بھی کچھ اسی تکلیف سے گزر رہے تھے عیشل یہ بات سمجھتی تھی۔ زندگی معمول پر آ رہی تھی مگر آفندی کا اس سے کھچے رہنا اسے پریشان کر رہا تھا۔اکثروبیشتر ان کا وقت لائبریری میں گزرتا۔
آفندی ۔ ۔ عیشل نے لائبریری میں قدم رکھا مگر آفندی کو کسی کتاب میں مصروف پا کر پکارا
ہممم ۔ ۔ ۔ نظریں ہٹائے بغیر جواب بس ہوں میں آیا۔
آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ دوسری طرف مکمل تجاھل سے مظاہرہ کیا گیا۔
مجھے اماں کے جانے کا افسوس۔ ۔
افسوس ۔ ۔ ۔ بس۔ ۔ ۔ آفندی نے کتاب ٹیبل پر رکھی۔
وہ میرے لیے بھی ماں جیسی تھیں۔
ماں جیسی تھیں عیشل ماں نہیں تھیں۔ ۔ ۔ ورنہ آپ ایسا نا کرتیں۔ ۔
آفندی۔ ۔ ۔
وہ ماں تھیں میری عیشل ۔ ۔ ۔ آپ بھی جانتی ہیں یہ سب کیسے ہوا اور شائد میں بھی۔ مگر آپ نے ریپورٹ میں کہا کہ آپ کچھ نہیں جانتیں۔ ۔ لہجے میں تکلیف کی جھلک صاف تھی۔
آفندی میں۔ ۔ ۔ عیشل نے بے بسی سے دیکھا۔
عیشل میں اس وقت بہت تکلیف میں ہوں بحث نہیں کرنا چاہتا مجھے اکیلا چھوڑ دیں پلیز ۔ ۔ ۔ دروازے کی طرف اشارہ کرتے جانے کوکہا۔
وہ شکست خورد قدموں سے باہر چلی آئی کمرے میں آتے آتے ہزارو انسو انکھوں سے رخسار بگھونے میں مصروف تھے۔ وہ خود کوروک رہی تھی مگر بے سود۔
وقت ایسے موڑ ہر لے آئے گا یہ تو اس کے کبھی وہم وگماں میں بھی نہ تھی۔ اسے لگا وقت بدل گیا ہے اس کی قسمت کی طرح مگر وہ غلط تھی نہ وقت بدلا تھا نہ قسمت ۔ ۔ ۔
نا جانے کیا سوچ کر وہ اٹھی۔ اور آنسو صاف کرتی کمرے سے باہر لان کی طرف مڑی۔
آجکل ابا بھی لان میں اکیلے بیٹھے رہتے آج بھی وہ لان میں بیٹھے سوچوں میں مشگول تھے۔ عیشل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کی طرف بڑھی۔
ابا؟۔ ۔ ۔ وہ ان کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ ابا نہیں خالی خولی نظروں سے اسے دیکھا۔
ان کی آنکھوں میں بسی تکلیف شدت اختیار کر گئی۔ انکھیں میں پانی بھرنے لگا۔ وہ خود کو روک نہیں سکی اور ان کے قدموں میں بیٹھی۔
ابا پلیز مجھے معاف کر دیں۔ ۔ آپ کی تکلیف کی ذمہ دار میں ہوں۔ ۔ ابا خدا گواہ ہے میں نے ایسا کبھی نہیں چاہا تھا۔ ۔ ۔ وہ اب بچوں کی طرح رو رہی تھی۔ ابا نے ہاتھ بڑھا کر اس کے سر پر رکھا۔
یہ آگ سے بنا راستہ میں چنا تھا مگر اس کی لپٹیں میرے اپنوں کو جھلسا دیں گی میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ۔ ۔ یہ راستہ اتنا دشوار ہوگا میرے وہم وگماں میں بھی نہیں تھا ابا۔ ۔ ۔ مجھے معاف کردیں۔ ۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہاتھ جوڑ رہی تھی۔
تمہیں معاف کر دیں گے تو کہا اماں واپس آ جائیں گی؟ صلہ نے بغیر کسی لحاظ اور مروت کا خیا ل رکھے کہا۔
صلہ ۔ ۔ ۔ عیشل اٹھ کر مڑی ۔ ۔
سب کچھ برباد کر دیا تم نے ہمارا ۔ ۔ ۔ ابا میں نہ کہتی تھی یہ ہمارے گھر کے لائق نہیں ہے۔ ۔ ۔ مت کریں سے اپنا بنانے کے لیے کوشش۔ ۔ تم نے ہمارے گھر کو جہنم بنا دیا ہے ۔ ۔ صلہ غصے سے تیز تیز بولی۔
صلہ ایسے تو مت کہیں۔ ۔ ۔ دل کسی کونے سے ٹوٹ کر بکھرا تھا۔
خدا کا واسطہ ہے اب میرے بھائی کی نہ سہی تو گوہر کی زندگی کی خاطر یہاں سےچلی جاؤ یا پھر انہیں بھی منوں مٹی تلے دبا کر تمہیں چین پڑے گا۔ ۔ بولو۔ ۔ صلہ مزید آگے بڑھی جیسے اسے شرمندہ کر گئی۔
صلہ پلیز میری بات سنیں۔ ۔ ۔ عیشل اسے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھ کر اس کے پیچھے گئی۔
اب اور کیا چاہیے تمہیں ۔ ۔ وہ تیز تیز قدموں سے آفندی کے کمرے کی طرف بڑھی۔ ۔ ۔
میں ۔ ۔ ۔ چلی ۔ ۔ ۔ جاؤں گی ۔ ۔ عیشل نے ہاتھ پکڑا۔
ہاں اب جا کر بھائی سے کہو گی کہ میں نے تمہیں گھر سے نکالا ہے۔ ۔
عیشل خاموش رہی۔ ۔
دیکھو عیشل تم جانتی ہو کس نے کیا یہ اب کی بار تم بچ گئی ہو مگر اگلی بار پھر سے حملہ ہوا تو ۔ ۔ ۔ کیوں اپنی اولاد او شوہر کو بستر مرگ پردیکھنا چاہتی ہو۔ ۔ ان کی چھوڑ دو کم سے کم وہ تو زندہ رہیں گے نا۔ ۔ عیشل قربانی عورت کو ہی دینا ہوتی ہے۔ ۔ تم سمجھ دار ہو
مگر گوہر بہت چھوٹا ہے اسے تو ۔
تم فکر مت کرو میں ہوں نا۔ ۔ اسے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دیتی وہ واپس ابا کی آئی۔۔
آفندی؟ بیلکنی میں کھڑے آفندی نے اپنے نام پر چونک کر دیکھا
جی؟ واپس گردن موڑ کر باہر آسمان پر نظر جمائی۔
وہ ۔ ۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہے؟۔ عیشل چلتے ہوئے ان کے پاس لھڑی ہوئی۔
مجھے معلوم ہے کیا کہنا ہے۔ ۔ لیکن اس قت میں اس چیز پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ لہجے میں بےزاری تھی۔
آج کے بعد فورس نہیں کروگی بس ابھی بات سن لیں ۔ وہ منمنائی۔
کہو۔ ۔ ۔ نظریں اسمان پر جمائے کہا۔
آپ نے اس وقت میرا ساتھ دیا جب کوئی میرے ساتھ نہیں تھا جب اپنوں نے بھی میرا ساتھ چھوڑا لیکن ۔ ۔ ۔ سچ یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ میں آپ کے قابل نہیں ہوں۔
عیشل ۔ ۔ ۔ آپ کو یہ سب سوچنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
میں جانتی ہوں میں نے غلط کیا اور شائد میں آپ کو اپنی پوزیشن سمجھا بھی نہیں سکتی۔ لفظ تلاش کر کر بول رہی تھی۔
آپ کو کچھ کہنے کہ ضرورت نہیں ہے۔
آپ مجھے معاف کر دیں گے۔ ؟ سر جھکایا۔
معافی کی کوئی بات نہیں ہے میں ناراض نہیں ہوں بس تھوڑا پریشان تھا تکلیف میں ۔ شائد آپ کی جگہ میں ہوتا اور مجھے صلہ کو بچانا ہوتا تو شائد میں بھی ۔ ۔ ۔ یہی کرتا۔ ۔ ۔ مگر میں آپ سے ایسی امید نہیں کرتا تھا ۔ ۔ مجھے نارمل ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا۔جسٹ ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ۔
میں خود کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گی۔ عیشل نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
عیشل۔ ۔ ۔ آفندی نے پلٹ کر دیکھا ۔ ۔
میں اب مزید کسی اپنے کو ایسے نہیں دیکھ سکوں گی۔
اللہ سب ٹھیک کرے گا انشاللہ۔ آفندی نے اگے بڑھ کر دونوں کندھوں سے پکڑا۔
مجھے طلاق چاہیے؟
یہ کیا بکواس ہے۔ ۔ آفندی نے ہاتھ ہٹائے ماتھے پر بل پڑے۔
آپ نے وعدہ کیا تھا نا میں جو مانگوں گی وہ دیں گے آپ۔ ۔ بھیگی پلکیں اٹھائیں۔
یہ میں کبھی نہیں کرو گا بات ختم آپ جا سکتی ہیں ۔ ۔
آپ سب کو مرتے ہوئے دیکھنے سے بہتر ہے میں ہی مر جاؤں
عیشل مہں پہلے ہی بہت پریشان ہوں مجھے مزید پریشان مت کریں۔
تو پھر مجھے چھوڑ دیں۔اللہ کا واسطہ ہے آپ کو اللہ کے لیے تو ہر مسلمان سب قربان کرنے کو تیاررہتا ہے آپ۔ ۔ ۔
اس معمولی بات میں اللہ کو مت لائیں آپ۔ ۔ جہاں جانا ہے چلی جائیں میں نہیں روکوں گا مگر یہ بات دماغ سے نکال دیں کہ میں آپ کو طلاق دوں گا۔ آفندی غصے میں کہہ تو بیٹھا تھا مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ واقع ہی اسے اور گوہر کو چھوڑ کر جانے کی بات پر عمل کرے گی۔ وقت بہت تیزی سے گزر گیا دن ہفتوں میں اور ہفتے مینوں سے سالوں میں بدل مگر عیشل کو وہ کبھی ڈھونڈ نہیں سکے ابا اور صلہ کی روز روز شادی کی بات پر وہ تنگ آجاتے آخر کار تنگ آکر ابا کے تعلق ختم کرنے کی دھمکی کام کر گئی انہوں نے ہاں کردیں اور یوں ابا کے دوست کی بیٹی شمائلہ بیاہ کے آفندی کے گھر آگئی۔
دعا سٹیشنری شاپ سے ہوتی ہوئی لوبی کی طرف جانے کے لیے کوریڈور کے راستے چل پڑی۔ تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی راہداری سے مڑی ہی تھی کے کسی سے زور سے ٹکرائی مقابل کے ہاتھ سے فائل زمیں پر جا گری اور تمام صفحات بکھر گئے۔
آؤچ ۔ ۔ ۔ سر مسلتی وہ سیدھی ہوئی۔
فائل پلاسٹک کی تھی۔ ۔ گوہر نے یادہانی کروائی۔
آپ ٹکراتے ہی رہتے ہیں سب سے؟۔ ۔ دعا نے زرا تلخ لہجے سے کہا۔
نہیں صرف تم سے ۔ ۔ ۔ گوہر نے صفحات سمیٹتے مسکراہٹ دبائی۔
گوہر کو گھور کر دیکھتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
دعا آئی نیڈ آ فیور ۔ ۔ ۔ فائل آڑی ترچھی پکڑے پیچے آیا۔
کیا ؟ وہ غصے سے مڑی۔
یہ فائل سر رضا کو دے دو گی مجھے ایک کام ہے۔ ۔ فائل سیدھی کر کے اس کے سامنے کی۔
ایسے گھورو تو مت ۔ ۔ ۔ جاؤ جا کر پانی پی لو۔ ۔ ۔ گوہر کو اس کے اس طرح غصے سے دیکھنے پر ہنسی آ گئی۔
دے دوں گی۔ فائل کھینچنے کے انداز میں پکڑی۔
گڈ شاباش ۔ ۔ ۔ وہ چٹکی بجاتا اس کے سامنے سے نکل گیا۔
دعا تیزی سے چلتے لوبی میں پہنچی۔
سٹیشنری کیا کے۔ٹو شفٹ ہو گئی تھی؟ شیری نے اس کو دومنٹ کہہ کر پانچ منٹ لگانے پر بولا۔
تم ہمیشہ ایسی کہ فضول باتیں کیوں کرتے ہو؟ تازہ تازہ سر کا درد اور یہ تانے
اووو۔ ۔ ۔ کس سے لڑ کے آئی ہو۔ ۔ ۔ وہ غصے سے تمتماتی آنکھوں کو دیکھ کر بولا۔ ۔
پھر گری ہو کیا؟ آفس میں بھی دو دفعہ گرنے کے واقع کو یاد کر کے بولا۔
ہاں۔ ۔ ۔
کوئی نہیں ۔ ۔ ۔ بڑے بڑے دیشو میں ایسی چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں سینوریٹا۔ ۔ ۔
ہا ہاہا اچھا اچھا ٹھیک ہے۔ دعا کو اس کی ایکٹنگ پر ہنسی آئی۔
یہ کیا پکڑ رکھا ہے؟ دکھاؤ۔ ۔ شیری نے اس کے ہاتھ سے گوہر کی اشانمنٹ پکڑی پہلے صفحے پر گوہر آفندی دیکھا۔
تم نے اسے اسانمنٹ بنا کردی ؟ وہ منہ بنا کر بولا۔
نہیں ۔ ۔
گڈ میرے علاوہ تم کسی کی اسائنمنٹ نہیں بناؤ گی ۔ ۔ یہ تمہارے پاس کیوں ہے۔
گوہر نے کہا تھا سر کو دے دوں چلو ساتھ ۔ ۔
اوئے کیا مصیبت ہے یار۔ ۔ تم زیادہ مدر ٹریسا مت بنا کرو
اچھا نہیں بنتی اب یہ تو دینی پڑے گی نا ۔ ۔ ۔ دونوں چلتے انجینرنگ بلڈنگ میں آئے جہاں ماہ جبیں کھڑی تھی۔
اسلام علیکم ماہ جبیں سر رضا کا کیبن کہاں ہے بتا سکتی ہو؟
ہائے ۔ ۔ رضاسر تو کیبن میں نہیں ہے میں بھی انتظار کر رہی ہوں۔ ویسے تم کیوں پوچھ رہی ہو تمہارا تو سبجیکٹ یہ نہیں ہے۔
وہ یہ اسائنمنٹ دینی تھی گوہر نے راستے میں دی ہے ۔ ۔ ۔
لاؤ میں دے دوں گی ماہ جبیں نے فعراً پیشکش کی۔
نہیں میں۔دے دعں گی تھینکس ۔ ۔ دعا ہچکچائی۔
ارے دے دو ماہ جبیں اپنے کزن جو کہ بالکل ان کے جیسے ہیں کے لیے انتظار کر کے اسائنمنٹ دے دے گی۔ ہم نہیں دے سکیں گے چلوشاباش پکڑا دو۔ ۔ شیری اس کے ہاتھ سے اسائنمنٹ پکڑ کے ماہ جبیں کو پکڑائی۔ دونوں واپس مڑے کچھ فاصلے پر جا کر دعا نے دیکھا۔
بہت غلط حرکت تھی یہ ۔ ۔ ایمانداری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ۔
قسم سے جب ایسی باتیں کرتی ہو نا تو دل کرتا ہے تمہیں پتھروں کے زمانے میں بھیج دو۔ ۔ ۔
ہاہاہا آخری سمسٹر ہے اب مت جلو اس سے
میں نہیں جلتا اس باندر سے۔
دعا بیٹا ؟ سونے کے لیے لیٹنے بیڈ کی طرف جاتی آواز پر مڑی۔
جی امی ؟
یہ دیکھو ۔ ۔ تصویر۔ ۔ انہوں نے ایک تصویر دعا کی طرف بڑھائی۔
یہ کون ہے؟ دعا نے سر سری سی نظر ڈالی۔
عمر ہے ساتھ والی ہمسائی کی نند کا بیٹا ہے اچھی جاب کرتا ہے اور ۔ ۔ ۔ان کے مزید بولنے کا رادہ دیکھ دعا نے ٹوکا۔
امی کیا ہو گیا ہے پہلے دیا کا کریں نا آپ۔ ۔ دعا نے جان چھڑانے کو کہا۔
بڑی تو تم ہو نا۔ ۔ بڑی معصومیت بھرا جواب آیا۔
امی کس نے کہا کہ پہلے بڑے کا ہی ہو جس کا بھی اچھا رشتہ ملے کر دینا چاہیے۔
ابھی سے دیکھو گی تو کوئی اچھا ملے گا نا۔ انہیں پریشانی لاحق ہوئی۔
یار میری پیاری امی ابھی مجھے ڈگری مکمل کر لینیں دیں ۔ ۔ وہ ماں کے گلے میں دونوں بازو ڈال کر بولی۔
دو تیں مہینے ہی تو ہیں۔
تبھی تو کہاں ۔ ۔ ۔ ابھی مجھے اپنی کمپنی پر فوکس کرنا ہے
فضول باتیں مت کرو تم ۔ ۔ عمر کے اس حصے میں ہوں کب موت آ۔ ۔
اللہ نہ کرے امی ۔ ۔ ۔ آپ کا سایہ ہم پر سلامت رہے ۔ ۔
توپھر ۔ ۔
اچھا نا ڈگری کے بعد بلا چوں چڑا آپ جہاں کہیں گی ۔ ہاں کر دوں گی۔ میں کچھ نہیں کہوں گی پکا