ناول شروع کرنے سے پہلے میں آپ سب کو یہ کہنا چاہتی ہوں میں کوئی ناول نگار نہیں نا ہی بننا چاہتی ہوں ۔ یہ کہانی صرف کوئی فرضی کہانی نہیں ہے ۔ بہت سے زندگی میں پیش آنے والے مختلف طرح کے وقعیات کو جوڑ کرکچھ فرضی کہانی شامل کی گئی ہے۔
کہانی کامرکزی کردار ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتا ہے جس میں کوئی خاص بات ہے نا وہ فیکشنل ناولز کی طرح بے پناہ حسن رکھتی ہے۔ وہ ایک عام سی لڑکی ہے جواپنے گھر کا بیٹا بننے کا فرض نبھا رہی ہے ۔ جسے لوگ صرف اس کےظاہر کی وجہ سے جج کرتے ہیں امید ہے آپ کہانی کے ساتھ جڑے رہیں گے ۔ اللہ مجھے اس کہانی کے سب کرداروں سے انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین
وہ دھڑکنوں کا شور بآسانی سن سکتی تھی۔ رات کے دو بجنے کو تھے اور انتظار تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا
وہ یہ سوچتے سوچتے اب تھکنے لگی تھی وہ ایک عام سی لڑکی ایک ایسے گھر میں بیاہ کر آئی تھی جہاں کا گمان بھی اسے نہ تھا۔ تھک کر وہ بیڈ کے کراون سے ٹیک لگائے انکھیں بند کرتے ہی نیند کے آغوش میں چلی گئی ۔ دروازے کی ہلکی سی آہٹ سے وہ ہڑبھڑا کر سیدھی ہوئی تھی کوئی آہستہ آہستہ چلتا بیڈ کر قریب آیا وہ اپنی بے ترتیب درکھنوں کو اپنے لمبے لمبے سانسوں سے دور کرنے کی کوشش میں تھی جب آنے والے نے کوٹ اتار کے پاس پڑے صوفہ پر پھینکا اور بیڈ پر بیڈ گیا۔
اس نے بولنے کہ لیے لب کھولے جیسے لفظوں کو ترتیب دینے میں چند ساعتوں گزر گئی
تو تم جیت گئی ہاں۔ ایک گمبھیر آواز سے وہ گویا ہوا۔
جی؟ ۔ سوالیہ انداز سے وہ نظریں جھکائے بولی
ہا۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھاتم اپنی جھوٹی انا اور ذات کے ڈراومے کے لیے اس حد تک گر سکتی ہوں ۔ تم پوری دنیا کو بے وقوف بنا سکتی ہو لیکن
مجھے نہیں بناسکتی ۔
اپنے غصے کو دبانے میں وہ مزید وحشت ناک ہوتا جا رہا تھا۔
آ آپ ۔۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں ۔ وہ رندھائی ہوئی آواز میں بامشکل وہ یہ سکی اتنا ہی بول
شٹ اپ۔ وہ دھاڑا تو وہ سہم گئی۔(Shut Up
یہ ڈین بھی کیا چیز ہے میں تو بارہ بجے بھی نہیں اٹھتا انہوں نے نو بجے اورینٹیشن رکھ دی بھلا بندہ پوچھے اس کی کونسی تک بنتی تھی ایوننگ کے سیشن کے لیے ایوننگ میں رکھنا بنتا تھا ایوننگ میں ان کا کونسا ولیمہ تھا ۔ شہریار نے غصےسےنمرہ سے کہا۔
نمرہ جو کب سے اسکی باتوں پہ مسکرا رہی تھی کندھا تھپ تھپاتے ہو ئے بولی۔ چلو ان باتوں کو زرا سائڈ پہ کرو اور مجھے ٹریٹ دو کیونکہ آج ایک تاریخ رقم ہوئی ہے۔
ہیں ـــ کونسی تاریخ ؟شہریار نے بھنویں اُچکائیں
کیونکہ آج شہریار خان اتنے سالوں کے قائم کردہ اپنے ہی ریکارڈ کو تورتے ہوئے صبح سویرے منہ آندھیرے اٹھنے کاایک بہترین
مارکعہ مار چکے ہیں جس کی سیلیبریشن تو بنتی ہے نا۔ نمرہ نے سادگی سے کہا۔
ایکس کیوز می ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں سیمینار ہال کہاں ہے اہم فل کی اورینٹیشن ہے وہاں؟ بہت آ ہستہ اور ٹھری ہوئی نسوانی آواز کہیں سے گونجی ان کے آس پاس۔۔۔
دونوں نے گھوم کر دیکھا۔ شہریار نے گھڑبڑا کر دائیں جانب اشارہ کیا تو وہ شکریہ کہتے ہوئے چل دی۔
لڑکی کے موڑ مڑتے ہی نمرہ کا قہقہ گونجا اور مشکل سے ضبط کرتے ہوئے گویا ہوئی ۔ ارے یہ کیا چیز تھی ؟
۔۔۔۔۔۔۔ لڑکی
۔۔۔۔۔ شہریار نے کندھے اچکائے
وہ تو دکھ رہا ہے لیکن ہماری یونیورسٹی میں ایسی خلائی مخلوق نہیں حضم ہوئی ۔ کیوں کیا ہے اسے نکاب ہی کیاہوا ہے اس نے وہ کونسا بم لے گھوم رہی ہے۔ شہریار کی آ واز پہ نمرہ کچھ دیر ساکت ہوئی
جیسے کوئی لفظ ڈھونڈ رہی ہو ۔ لیکن یہ پاکستان کی سب سے ماڈرن یونیورسٹی ہے
ہاں ۔۔۔ آج نکاب میں آئی ہے کل دوبٹہ اور پھر دوبٹے کے بغیر آ نے لگے گی ۔ گوہرآفندی کی گھمبیرآواز پر دونوں کی گفتگو کا تسلسل ٹوٹا تو شہریار نے بولا یار کسی کو جانےبنااس کے کردار پہ ایسے بات کرنا مناسب نہیں۔ گوہر
نظر انداز کرتےہوئے آگے چل دیا۔ سہی تو کہاہے گوہر نےاور تم کیوں سائیڈ
لے رہے ہو اس کی ؟ شہریار بے چارگی سے مخاطب ہوا کہ نہیں نہیں یار میں تویونہی ۔
سی آر سے بحث نہیں کرتے ۔
بے شک جو لوگ اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔
سورۃ الملک(١٢)
ایک بہت ہی چست پاجامہ اور شارٹ شرٹ پہنے پتلی سی
مقّررہ لڑکی نے اپنی تقرر کا آغاز انگلش میں کیا ۔
۔۔۔۔ قرآن کی تلاوت کے ساتھ اس تقریب کا با قائدہ آغاز ہوتا ہے ۔
اس کے ساتھ تو اب آپ کو آپ کی ہی یونیورسٹی ہر ایک ڈاکیومنٹری دیکھائی جائےگی۔
اب کتنی دیر یہ لوگ ایسے ہی یونی کی ڈوکیومنٹری دیکھا دیکھا کے بور کرتے رہیں گے۔۔ ہال میں سے کسی کی سرگوشی پہ شہری کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
امید ہے کہ آپ سب کواپنی مزید ایجوکیشن کی لیے اس یونیورسٹی کو انتخاب بہترین لگا ہوگا اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آپ اس فیصلہ پر آخر تک خوش رہیں۔ تو اب میں دعوت دیتی ہیں کمپوٹر سائینس کےڈین محمود خانزارہ صاحب کو ۔ ایک بہت ہی ادھیڑ عمرمگر مضبوط کردار کے حامل بزگ سر پر کیپ اور بلیک سوٹ میں چلتے ہوئے سٹیج پر آئے۔
اوئے شہری یہ ڈین چینج ہو گئے ۔ نمرہ نے کان کے قریب سرگوشی کی۔
ہاں کل نیوز پیپر میں دیکھا تھا ویسے ڈین کم اور دادا ابو زیادہ لگ رہے ہیں ۔
اسلام و علیکم میرے بہت ہی پیارے میں آپ سب سے کوئی لمبی چوڑی یا سکرپٹڈ باتیں کرنے نہیں آیا میں آپ سب کو یہ یقین دیلانے آیا ہوںکہ آپ کا کیریر آپ سے ذیادہ ہمارے لیے اہم ہے۔ آپ یہاں رٹی رٹائی کتابیں نہیں پڑہیں گے آپ یہاں تعلیم حاصل کریں گے جوناصرف کیریر بلکہ ہر میدان میں آپ کے لیے ضروری ہے ۔ آپ کلاس کے آخر میں اگر کبھی لگے کہ آ پ کے کسی استاد نے اپنے متعلقہ مضمون کے ساتھ انصاف نہیں کیا آپ اسی وقت میرے پاس آ کر اپنے ایک دن کی فیس کا مطالبعہ کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ آپ کا حق ہے ۔ آپ میرا نمبر نوٹ کرلیں ۔
ڈین نے اس کے ساتھ ہی اپنا نمبر نوٹ کروایا۔ اور کہنے لگے
بچو یہ نہ کریے گا کہ فون کر کہ پوچیں کہ ہماری کلاس نہیں مل رہی ہمارے پیسے واپس کرو۔ سب کا ایک مشترکہ قہقہ بلند ہوا۔
اور ڈین سٹیج سے اترے اور چلے گئے۔ مقررہ لڑکی سٹیج پر پھر سے نمودار ہوئی۔
تو آپکی کلاسس کا آغاز کل سے ہوگا اور آپ سب کو اپنا ٹائم ٹیبل آن لائن پورٹل پر مل جائے گا اور اپنے لوگن آئی ڈی آپ کو سیکنڈ فلور کے ایڈمنسٹریٹر روم سے مل جائیں گے آپ کے پورٹل پراپ کے لیے ہر ضروری انفارمیشن موجود ہوگی۔ کلاسس۔ کورسس۔ ٹیسٹ سیشن اور اس کے مارکس سب آپ کو آن لائن ملے گا۔ اورینٹیشن کے اختتام پر آپ سب سےریکویسٹ ہے کہا
آپ سب باہر ایکٹھے ہوں تاکہ
اس سیشن کا ایک گروپ فوٹو لی جاسکے اور اس کے بعد آپ سب نیچے بیسمنٹ سے جا کر اپنے اپنے یونیورسٹی کارڈز کلیکٹ کرلیں ۔
اگلی صبح ہرطرف آٓفراتفری میں کوئی یہاں بھاگتا کوئی وہاں بھگتا نظر آرہا تھا ایسے لگتا تھا جیسے کوئی میلا لگا ہو۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی لوبی سے ہوتی ہوئی اپنے مطلوبہ کمرے کی طرف بڑھی دل میں بے حد ڈر اور گبھراہٹ کو چھپائے دروازے کے ناب کو گھماتی اندر داخل ہوئی تو سب کی نظریں اپنے اوپر محسوس کرتی آگے بڑھی۔
نظریں اوپر کیں تو ہر کوئی چہمگوئی کرتا نظر آیا سب نظرانداز کرتی جو پہلاتین سیٹر لمبا بینچ نظر آیا وہاں اپنا لیپ ٹاپ سمبھالتی بیٹھ گئی ۔
یہاں کسی کی سیٹ ہے؟ کسی کی خھنک دار آواز کے چونکانے پر اس نے سر اٹھا کے دیکھا تو گولڈن سٹیکنگ بال اور میک اپ سے سجے چہرے والی لڑکی اسے غور سے دیکھتی پوچھ رہی تھی
نہیں ۔۔ مختصر جواب دیتی رخ واپس موڑگئی ۔
لڑکی بہت ادا سے بیٹھی اور اس کا لیپ ٹاپ دوسری رو میں رکھ دیا۔
دعا نے گھبرا کے دیکھا اور بولی میرا لیپ ٹاپ ۔۔۔۔۔
اف کچھ نہیں ہوتا اسے ۔ کہہ کر مڑ گئی۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ کسی کی چھچھلائی ہوئی آواز آئی یہ کس کا ہے اور میری سیٹ پر کیوں ہے؟
یہ ان کا ہے نیو کمر ہیں یہ ۔ مہ جبیں نے جواب دیا۔
تو۔۔۔۔۔۔ میں کیا کروں یہ لیپ ٹاپ بیگ جس کا بھی ہے وہ اپنے پاس رکھے نہ کہ دوسروں کو تنگ کرنے کی نیت سے دوسروں کی سیٹ پر رکھ دے۔
اوہ ہیلو نیو کمر اپنا بیگ اٹھا لو ورنہ گوہرکو غصہ آجائے گا یہ ہمارے سی آر ہیں۔ مہ جبیں نے سرد مہری سے کہا۔
دعا اپنی سیٹ سے اٹھی اور اپنے بیگ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے گوہر سے مخاطب
ہوئی ۔ پلیز آپ میرا بیگ پکڑا دیں گے۔
گوہرنے کھاجابے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ میں کسی کا نوکر نہیں ہوں خود اٹھا لو۔ وہ اگے بڑھی لیکن
مخالف اپنی سیٹ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔
دعا نے فرنٹ سے آکر بینچ سے جھکتے ہوئے بیگ اٹھایا اور سب سے پچھلی سیٹ پہ جا کر بیٹھ ہی رہی تھی کہ آواز آئی سر آگئے ۔
اسلام وعلیکم کلاس ۔۔۔۔۔۔
میرا نام عمر ندیم ہےتو کیا خیال ہے تھوڑا تعارف ہو جائے؟ آپ سب لوگ ایک ایک کر کے اپنا نام اور اپنے ایم فل میں داخلے کا مقصد واضع کریں۔
اس کے ساتھ ہی ہر کوئی اپنا اپنا ایم بتانے میں مشغول نظر آیا کوئی شوق سے آیا ایڈمیشن لینے تو کوئی اپنی جاب میں تعلیمی نظام
کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے اپنی جاب بچانے کو آ پہنچا، کوئی خود کامیابیوں کو سر کرنے کو اس یونیورسٹی کا رخ کر بیٹھا
ایک موصوف نے تو کمال کا جواب دیا۔ میرا نام رضوان ہے سر اور میں نے ایڈمیشن نہیں لیا تھا۔
عمیر صاحب زرا حیرت سے موصوف کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئے
تو آپ یہاں کیسے؟
سر یہ تو پیرنٹس کو پتا ہوں ۔
موصوف شرارت کے سے انداز میں بولے تو سر بات کو کور کرتے ہوئے گڑبڑا کے بولے میرا مطلب یونیورسٹی سے تھا۔ موصوف بولے سر جی پاپا نے ایڈمیشن کروا دیا ورنہ میں تو شادی کرنا چاہتا تھا ایڈمیشن نہیں ۔سب کا ایک زوردار قہقے کے ساتھ کلاس کا اختتام ہوا۔۔
دعا جیسے ہی گھر پہنچی اس کا چھوٹا بھائی دانیال بھاگتا ہوا آیا۔۔۔۔
آپی آپی میں کب سے آپ کا انتظار کر رہا تھا ۔ دعا نے اسے پیار سے پاس بیٹھایا تو وہ آپنی ریپورٹ کارڈ دیکھاتے ہوئے اپنی خوشی اور جوش سے بتانے لگا ۔
میں کلاس میں سیکنڈ آیا ہوں اور اب میں بڑا ہوگیا ہوں اور اب میں سیکس میں چلا جاوں گا۔
ماشا للہ میرا شہزادہ بہت خوش ہے کیا چاہیے میرا بچا جو مانگے گا وہ ملے گا بولو میری جان کیا چاہیے۔
آپی میں بڑا ہو گیا ہوں نہ تواب میں لوں گا نہیں دوں گا اللہ جی سے بھی کہا ہے میں بھی جوب کروں گا نا تو میں بھی آپ کو گفٹ دیا کروں گا ۔
ہاہاہا اچھا بڑھے ہو گئے ہوں ہاں ۔
دعا اسے گال پہ پیار کرتے ہوئے اٹھی تو دانی بولا آپی بیٹھو میں ابھی آیا۔ دعااسے بھاگتا دیکھ کر بیٹھ گئی۔ کچھ ہی لمحوں کے گزرتے ہی وہ ایک چھوٹی ٹرے اٹھا یا ہوا اندر آیا تو پیچھے زرینہ بیگم بھی ساتھ تھی ۔ جسے دیکھتے ہی دعاکھڑی ہوئی ۔ اسلام و علیکم امّی کیسی ہیں آٓپ؟
میں ٹھیک ہوں بیٹا ۔
دانی کے ہاتھ سے ٹرے پکڑی اور بیٹھ گئی بریانی کو دیکھ کر خوش ہوئی اور کھانے لگی۔
آج دانی نے یہ سب بنانے میں مدد کی ۔
دعا نے تعجب سے ماں کو دیکھا۔ امّی آپ نے روکا کیوں نہیں دیا کی مدد لے لیا کرایں نا۔
ارے سنتا کب ہے یہ میری ۔ زرینہ بیگم نے بے بسی سے کہا ۔
دعا نے دانی کے پیار سے کان کھینچتے ہوئے پوچھا دیا کہاں ہے ۔
وہ آکر کالج سے سو گئی تھی ۔ زرینہ بیگم نے بتایا
دانی بولا آپی وہ سوتی نہیں ہے بس میسج کرتی رہتی ہے۔
دعا نے ماں کو دیکھا ۔ امّی وہ ابھی سیکنڈ ائیر میں ہے آپ زرا خیال رکھا کریں
ہاں خود تو سارا دن گھر سے باہر ہوتی ہوں خوب انجوئے کرتی ہوں اور میں زرا فون استعمال کروں تو مجھ پہ بولنے لگ جوتی ہوں آپ ۔ دیاکی کڑک دار آواز پہ سب چونکے
زرینہ نے پیار سے کہاں بیٹا بڑی بہن ہے تمھاری ایسے نہیں کہتے چلو کھاناکھاو ۔
نہیں اسے ہی کھلائیں آٓپ ۔ وہ پیر پٹختے ہوئے پھر کمرے میں چل دی
یونیورسٹی اپنے معمول کی مطابق جاری تھی۔ دعا حسبِ معمول اپنے آفس سے ڈائیریکٹ یونیورسٹی پہنچ جاتی کہ کلاس لیٹ نہ ہو جائے ۔ کب اسی طرح دو مہینے گز گئے اور مڈز آگئے کہ پتا بھی نہیں چلا ہر طرف لڑکے لڑکیاں کیتابوں میں سر دیے نظر آتے
تقریباً سب ہی کلاس کے لوگ کمبائن سٹڈی کے لیے یونیورسٹی میں موجودتھے سوائے دعا کے۔
ہاں جی تو اگلا ٹاپک کون آکر سمجھائے گا ۔ مہ جنیں نے پوچھا ۔
یار بس کرتے ہیں میں تھک گیا ہوں ۔ شہری نے اکتاتے ہوئے کہا
چلو ویسے بھی اگلا ٹاپک تو گوہر نے سمجھانا تھا آج وہ آیا بھی نہیں ۔ رضوان نے کہا ۔
سب اپنی اپنی کیابیں تھامے لوبی سےباہر چل دیے
وہ نقاب والی نظر نہیں آتی اسے پڑھنا نہیں کیا۔ لگتا ہے فیل ہو گی کلاس میں بھی چپ رہتی ہے۔ نمرہ نے تبصرہ کیا ۔
وہ گھر میں پڑھتی ہوں گی نا ۔ شہریار نے فوراً جواب دیا۔
امّی کہاں ہیں دانی ؟۔ دعا نے گھر آتے ماں کو نا پا کر پوچھا ۔
آپی امّی تو دیا کے ساتھ گئی ہیں ان کی دوست کی طرف۔ دانیال کہتے ہوئے پاس بیٹھ گیا ۔
آپی آپ کی لیے آج جوس بنایا ہے لے کر آتا ہوں
افو لڑکے یہ کام نہیں کرتے ۔۔
مجھے اچھا لگتا آپ کی لیے کرنا۔
دانی کی بات سن کے وہ مسکرا دی۔
مڈایگزامز کے بعد آج یونیورسٹی کا پہلا دن تھا۔ ہر سٹوڈنٹ گھبرایا ہوا تھا ۔ کہ آج سر عمر نے پیپر کے مارکس بتانے تھے۔
سر تونمبر ہی نہیں دیتےکچھ پرانے سٹوڈنٹس نے اپنا تجربہ گوش گزارکیا۔
سر عمر نے آتے ہی سب کو ان کے پیپر دیے اور کہا اگر کسی کو کوئی ایشو ہے تو بتا سکتا ہے۔
کسی کی آواز آئی سر ہائیسٹ مارکس کتنے ہیں
۵۰ اوٹ آف ۵۰
سر عمر نے فوراً کہا تو
رضوان نے پوچھا سروہ کس کو دے دیے آپ نے فل مارکس
سر عمرنے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا اپ کو کیا لگتاہےکون ہو سکتا ہے ؟
مہ جبیں نے اپنی کھنکدار آواز میں کہا آف کورس ہمیشہ کی طرح گوہر کے ہی ہوں گے اونز میں بھی یہی ٹاپر رہا ہے ایم آئی رائیٹ؟
گوہر بلاشبہ ایک بہترین سٹوڈنٹ رہا ہے اس یونیورسٹی کا مگر اس بار یہ مارکس گوہر نے نہیں بلکہ اس کلاس کی ایک خاموش طبع لڑکی نے لیے ہیں مس دعا حمید
جن کا پیپر ماشاللہ اتنازبر دست تھاکہ مجھے سمج ہی نہیں آیاکہاں سے نمبر کاٹوں ۔
مبارک ہو آپ سب سے امید کرتا ہوں کہ فائنلز میں مزید محنت کریں اور گریڈز اچھے بنانے کی کوشش کریں
آپ سب کے لیے ایک آناؤنسمنٹ ہےآج شام تک آ پ سب کے لیے پورٹل پر کچھ ٹاپکس اپڈیٹ کر دے جائیں گے ۔ اور سیلکٹڈ ٹاپک پر آٓپ کچھ پیپرز کو پڑھ کرایک پوسٹر بنائیں گے جن کی ایویلوئشن کے لیے آٓئی۔ٹی فیکلٹی حصہ لے گی ۔ آپ کہ یہ آساینمنٹ دس نمبرز میں سے ایویلوئٹ کی جائے گی۔ سالڈ ٹن مارکس ۔۔۔۔ آپ۔اس میں جتنے بھی مارکس لیں گے وہ آپ کے فائنل مارکس میں لگائیں جائیں گے
وہ سر یہ تو گڈ ہو گیا۔ شہری نے جوش سے کہا
آپ نے یہ آسائنمنٹ گروپ میں کرنی ہے اور گروپ میں چار سے زیادہ ممبرز نہیں ہو سکتے ۔آپ سب نے ٹاپک چوز کر کے مجھے میل کرنی جس میں اپنے ٹاپک کا نام اور اپنے پاٹنر کا نام لکھ کر دینا ہے ۔
سر آپ خود ہی پئرنگ کر دیں رضوان نے مشورہ دیا۔
ہممم۔۔۔نہیں آپ لوگ اپنی مرضی سے ہی بنائیں گروپ تو بہہتر رہے گا۔ اچھا نیکسٹ ویک تک آپ اپنا گروپ بنائیں اور ٹاپک سلیکٹ کریں
کلاس اختتام کر کے سر نکل گئے۔
سر کے جاتے ہی سب ایک دوسرے کو گروپ میٹ بنانے کو اپنی اپنی سیٹوں سے اوٹھ کر کلاس میں یہاں وہاں جانے کو پر تول رہے تھے۔
دعا نے اپنا بیگ اٹھایا اور ہاہر کو چل دی۔
دروازے پر بہت زور سے دستک ہوئی اس سےپہلے کوئی دروازے کی طرف بڑھنے لگتا کوئی بیل پر ہاتھ رکھ کر بھول گیا ہو۔
دروازہ کھولنے پر سامنے ایک بے حد غصے میں خاتون نے بڑی برہمی سے پوچھا۔
یہ ماہی کا گھر ہے ۔
نہیں ۔ مختصر جواب دیے لڑکی دروازہ بند کرنے ہی لگی تھی کہ خاتون دروازے کو دھکہ دے کر اندر وارد ہوئی اور گرجتی ہوئی آواز میں بولی
میں جانتی ہوں یہ ماہی کا گھر ہی ہے کہاں ہے وہ نکالو اسے باہر
لڑکی کھبرائی ہوئی مخاطب ہوئی ۔ دیکھیں میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ یہ۔۔۔
اس سے پہلے کہ لڑکی اپنا جملہ مکمل کرتی خاتون اسے پیچھے کرتی اندر کو جانے لگی اور ساتھ ہی کوئی تین سے چار مزید خواتین اس کے پیچے گھر میں داخل ہو گئی
دعا بات سنیں ۔۔ اس کے پیچھے چلتے کسی نےپکاراتو وہ مڑی۔
جی؟
کونگریجولیشنز دعا ۔ شہری نے بہت دل سےکہا تو وہ۔شکریہ کہہ کر پلٹ گئی۔ ویسے آپ تو چھپی رستم نکلیں ۔
دعا نے صرف خاموش رہنے پہ ہی اکتفا کیا ـ
دعا وہ گروپ آسائینمنٹ کے لیے کیا آپ میرے ساتھ گروپنگ کریں گی؟ شہری کی بات پر وہ رک گئی۔
میرے ساتھ ؟ سوالیہ انداز میں شہادت کی انگلی سے اپنی جانب اشارہ کرتے پوچھتی وہ حیران ہوئی ۔
جی۔ وہ جھجکا ۔۔ کیا کوئی پروبلم ہے؟
نہیں تو ۔۔۔کہتے ہی دونوں نے چلنا شروع کیا ۔
اوکے گریٹ ۔۔۔ میرا نمبر نوٹ کریں اور مجھے ٹاپک چوز کر کے بتا دیں ۔
نمبر نوٹ کر کے دعا نے کہا کہ وہ ٹاپک چوز کر کے بتا دوں گی۔
وہ دونوں چلتے چلتے گیٹ کی طرف آگئے جہاں میل ۔ فی میل کی گزرنے کے لیے الگ الگ راہ گزر تھی۔ دعابائیں جانب فی میل کی طرف سے گزر کر باہر آگئی ۔ اور رکشہ کی تلاش میں یہاں وہاں دیکھنے لگی شیری مردانہ راہ گزر سے ہوتا ہوا اس کی جانب آیا۔ اللہ حافظ کل ملتے ہیں کہتا ہوا چل دیا۔
امّی رمضان آنے والا ہے تو چل کر رمضان کی شاپنگ کر لیتے ہیں ۔ دیا نے زرینہ بیگم سے مخاطب ہوئی
زرینہ بیگم افسردگی سے کہنے لگی۔ دیا دکانوں سے جو کرایہ آیا تھا۔وہ تو تمہاری اور دانی کی فیس میں چلا گیا اب تو بس اتنی رقم بچی ہے کہ ایک دن کا کھانا بن سکے گا۔
تو دعا سے لیں نا۔
بیٹا وہ بھی تو تم سب پر اور گھر میں ہی خرچ کرتی ہے مہینہ ختم ہونے میں بھی ابھی دو دن پڑے ہیں ۔
دروازے پر دستک ہوئی تو دانی دروازے کو لپکاآپی آئی ہوں گی میں کھولوں گا دروازہ۔
اسلام وعلیکم امّی ۔ دعا نے اتے ہی سلام کیا۔
وعلیکم اسلام ۔ دیا بہن کے لیے پانی لاؤ ۔ کہتے ہی اپنے پاس بیٹنے کا اشارہ کیا۔
دعابیٹھتے ہی پرس کھولنی اور کچھ نکالنے لگی ۔ امّی یہ لیں پیسے دیا کے ساتھ جا کر راشن لے آئے گا رمضان کا۔ دعا نے چند ہزار دیتے ماں کو یاد دلایا۔
لیکن بیٹا ابھی تو تمہاری تنخواہ نہیں آئی۔
جی امّی بتایا تھا نا میں نے کہ میں فری لانسنگ سٹارٹ کی ہے ۔ ایک پراجیکٹ ملا تھا جو
75$
کا تھا آج اس کی رسیونگ مل گئی تو میں اے۔ٹی۔ایم سے نکلوالائی تھی۔
ماشاللہ ۔ اللہ تمارے کام میں برکت ڈالے۔
رات کے ساڑھے دس بج رہے ہیں اتنی رات کو پیسے نا نکلوایا کرو۔ زرینہ بیگم نے فکر مندی سے دعا کو دیکھا۔
امّی وہ یونیورسٹی میں ہی اے۔ٹی۔ایم ہے تو کلاس میں جانے سے پہلے نکلوالیے تھے۔
اور دیا کہا ں ہے؟ اس نے پینٹ برشز کہا تھا لانے کو لے
آئی ہوں میں۔ زرینہ بیگم نے وہیں بیٹھے بیٹھے دیا کوآواز لگائی۔ کافی دیر تک کوئی آواز نہ پا کر دعا اندر اْگئی
ارے بھئی میں تمیں ہی بلا رہی تھی ۔ دعا نے پیار سے کہا۔ میں بزی ہوں جاؤ۔ فون پر بات کرتی ہوئی وہ جھنجلائی ہوئی بولی۔
کس سے بات کر رہی ہو۔
دوست ہےمیری ۔ غصے میں کہتی وہ کمرے باہر نکل گئی
دعا کلاس کے وقت سے بیس منٹ پہلےپہنچ گئی تو وہ لوبی میں ہی بیٹھ گئی۔ ابھی اسے آئے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ کسی نے پکارا۔
ہیلودعا۔ شہری نے اتے ہی ہیلو داغا
واعلیکم ہیلو۔ دعا نہیں اسی کا ہیلواسے لوٹایا
اوہ سوری اسلام و علیکم ۔ شہری واقع ہی شرمندہ ہوا تھا۔
بائی داوے سر نے ٹاپک اپڈیٹ کر دیے ہیں۔ تم نے دیکھے ہیں؟
جی ۔ دیکھے ہیں ۔ مختصر جوابدیا اور گھڑی دیکھنے لگی۔
شہری ۔۔۔ کسی نے پکاراتھا تو شہری نے مڑکر دیکھا
یہ رضوان تھا آتے ہی بولا ۔گروپ بنا لیا کیا؟
ابھی تو دو ہی ہیں میں اور دعا تیسری نمرہ تھی لیکن وہ یہ سبجکٹ ڈراپ کرنا چاہ رہی ہے ۔ مایوسی سے شہری نے بتایا
تو کیا میری کوئی جگہ ہے ؟
مسکراتے ہوئے پوچھا۔
ویلکم ٹو گروپ ۔ رضوان کی طرف ہاتھ بڑھاتے شہری نے کہا ۔
کلاس کا ٹائم ہو گیا ۔ دعا گھڑی دیکھتے اٹھ گئی۔
پڑھائی کیسی جا رہی ہے ؟حمدانی صاحب نے اپنے بیٹے کوجانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ٹھیک جا رہی ہے بابا۔ شہریار نے سجھکائے جواب دیا۔
تو آگے کیا ارادہ ہے۔
کچھ نہیں ۔
کیا مطلب ہے اس کچھ نہیں کا؟
دوسری طرف مکمل خاموشی دیکھتے ہوئے حمدانی صاحب مزید برہم ہوئے۔
آخر کرنا کیا چاہتے ہو تم ۔ نا تم بزنس جوائن کرتے ہو نا ہی شادی کا کوئی ارادہ ہے ۔ کیا پوری زندگی ایک ناکام انسان بن کر رہنا چاہتے ہو۔ بولو کیا پوچھ رہا ہوں میں ؟
اس کامیابی کا کیا فائدہ جس میں آپ کے پاس اپنے رشتوں کے لیے ہی وقت نہ ہو۔ میری ماں آپ کے وقت کے لیے انتظار کرتی کرتی چلیں گئیں ۔ میں آپ کے جیسا نہیں بننا چاہتااور نہ آپ کا بزنس جوائن کروں گا ۔آپکا بزنس اور اس کی کامیابیاں آپ کو ہی مبارک ہو ۔ غصے میں کہتا اپنی گاڑی کی جابی اُ ٹھاتا وہ ڈرائینگ روم سے باہر نکل گیا۔
شہریار۔ دعا نے مدہم سی آواز میں پکارا۔
میرے دوست مجھے شہری کہہ کر بلاتے ہیں ۔ شہری نے مصنوئی خفگی سے کہا۔
اچھا ۔ وہ میں نے ٹاپک چوز کیا ہے ۔
(Sensor Devices) سینسر ڈیوائیسز
وہ دراصل آج کل ہر طرف انہی چیزوں پر کام ہو رہا ہے ۔جیسے سکیورٹی اور آج کل جو یہ میٹرواورسپیڈو بیسز ہیں وہ بھی ڈیوائس ہی یوز کرتے ہیں نا کارڈسکین کرنے کے لیے ۔ اس کا کافی سکوپ ہے
(What say) ?
دعا نے ٹاپک اور چوز کرنے کی وجہ بتائی
ارے واہ گریٹ دعا۔ رضوان نے بھی تعریف کی۔
اور ہاں میں نے وٹس ایپ پے ایک گروپ بنایا ہے تواس میں ہم ڈکس کر لیا کریں گے آسائنمنٹ ۔ٹھیک ہے نا؟
اوہ سر آگئے سامنے دیکھو۔ رضوان نے کہا اور سامنے متوجہ کیا
سر عمیر نے آتے ہی کلاس کو مخاطب کیا
جی تو جناب کافی ای میل موصول ہوئی جن میں آپ لوگوں نے اپنے ٹاپک اور ممبز ڈیٹیل بتائی ہیں پھر بھی کوئی ایسا ہے جس کا ابھی تک پیر نہیں بنا ہو ۔ کہتے ہی پوری کلاس پر نظر دوڑائی تو ایک ہاتھ کھڑا نظر آیا۔
ارے گوہر آپ نے ابھی تک پیئرنہیں کیا ایسا کیوں؟ سرنے تشویش سے پوچھا۔
سر میں چھٹی پر تھا تو بات نہیں ہو پائی کسی سے ۔ گوہر نے اپنی وجہ بیان کی
گوہر میں نے پوچھنا تھا تم نے میسج کا رپلائے نہیں کیا ۔ مہ جبیں نے گوہر کے کان میں سرگوشی کی۔ اس سے پہلے گوہر کچھ کہتا سر نے گوہر کو مخاطب کیا
گوہر آپ ایسا کریں جو گروپ تین کا ہے وہ جوائن کر لیں شہریار آپ لوگ ابھی بھی تین ہی ہیں نا؟ گوہر آپ ان کئ ساتھ پیرنگ کر لیں ۔
سر کی با ختم ہوتے ہی گوہر نے مڑ کر شہری کو دیکھااور اوکے کا اشارہ کیا۔
کلاس کے اختتام پر شہری نے گوہر کو کل ٹاپک ڈسکس کرنے کے لیے طہ شدہ سکیجوئل بتایا
گوہر نے آتے ہی اسلام کیا تو شہریار نے اٹھ کر رضوان اور گوہر کو مخا طب کیا۔
تو آج ہم یہ ڈیسائڈ کر لیں گے کہ کس نے کونسا کام کرنا ہے ۔
ہمارا ٹاپک سب سے الگ ہے توہمیں محنت زیادہ کرنی ہوگی۔ میں نے اس سے پہلے کبھی سنسر ڈیوائس پہ کبھی کام نہیں کیا لیکن میں براؤزنگ اچھی کرتا ہوں تو میں کونٹنٹس سرچ کروں گا۔ ہمارا ٹاپک۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتا گوہر نے ہاتھ کھڑا کر کے اسے مذید بولنے سے روکا۔
ہمارا ٹاپک ہے۔(Operation System)آپریٹنگ سسٹم
اور میں اسی پر کام کروں گا۔ گوہر نے اپنی مرضی
بتائی
رضوان حیران ہوا اور گوہر سے کہا۔ لیکن ہم پہلے سے یہ چوز کرچکے ہیں ۔
گوہر اپنی نشست سے کھڑا ہوا۔ میں اسی ٹاپک پر کام کروں گا ورنہ نہیں میں لائیبیری میں ہوں اگر اس ٹاپک پر کام کرنا ہوا تو آجانا۔ اپنی بات ختم کرتے تو چل دیا۔
یار اس کےساتھ مسلہ کیا ہے آٓخر؟ رضوان کواب غصہ آرہا تھا ۔
اب کیا کریں گے یہ جناب تو اپنی ہی موڈ میں رہتے ہیں ؟ شہری کو تشویش لاحق ہوئی۔
اسلام وعلیکم سوری میں لیٹ ہو گئ کیاہوا آپ لوگ ایسے کیوں بیٹھے ہیں؟۔ دعا نے اتے ہی بتایا۔
دعا ایک پرابلم ہو گئی ہے؟شہری نے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
کونسی پرابلم ؟
گوہر۔ رضوان نے ایک لفظی جواب دیا۔
انہیں کیا یوا وہ ٹھیک تو ہیں؟ دعا کو لگا شائد اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہو۔
وہ ٹھیک ہے ہمیں خراب کر کے گیا ہے ۔ رضوان نے غصے سے کہا۔
کیا ہوا پلیز بتائیں۔ دعا واقع ہی پریشان ہوئی۔
شہری نے گوہر سے ہوئی بات بتائی۔
وہ کہاں ہیں ابھی ؟
لائیبریری میں براجمان ہیں ۔ شہری نے کہاتم بات کر کے دیکھو تمہاری کنونسنگ اچھی ہے ۔
میں کوشش کرتی ہوں ۔ کہتے۔وہ لائیبریری کی طرف چل دی۔
اب میں بات کیا کروںگی ۔ ان سے تو مجھے ڈر بھی لگتا ہےاف کیا کروں اب میں اللہ جی پلیز آٓپ ہلپ کریں نا۔ اْپ کو پتا ہے نا آپ کے اس بندے سے مجھے ڈر لگتا ہے ۔ پہلے دن ہی اتنے غصے میں بولے تھے کہ بسس۔ وہ ابھی خود کلامی میں مگن تھی کہ اسے احساس بھی نہیں ہواوہ کب لائیبریری آگئی۔
وہ ڈرتے ڈرتے نظر دوڑائی وہ سامنے نظر آیا وہ آہستہ آہستہ چلتی اس کے ٹیبل کے پاس آگئی
کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں ؟دعا نے پہنچ کر پوچھا۔
وہ جو کتاب پر جھکا تھا سراٹھا کر دیکھا
نہیں۔ مختصر جواب دیتا وہ واپس کتاب پر جھک گیا۔
وہ مجھے ۔ ۔ ۔ آ۔ ۔ آپ سے بات کرنی ہے ٹاپک سے ریلیٹڈ ہے۔ دعا نے خود کو کمپوز کیا۔
کہو۔ گورتی نظروں سے دیکھتا وہ پوچھ رہا تھا
مجھے شہری نے بتا یا آپ اپنے ٹاپک پر کام کرنا چاہتے ہیں۔
تو تمہیں کیا مسئلہ یہ میرا ٹاپک میں اپنے ممبرز سے ڈسکس کر لوں گاتم جا سکتی ہو۔
ہم دونوں ٹاپک مکس کر سکتے ہیں میرا مطلب ۔۔۔ اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتی وہ ایک دم کھڑا ہوا۔
تم اپنا ٹاپک اپنے گروپ سے جا کر کروڈسکس یہاں کیوں آئی ہو۔
لائیبریرئن نے شی۔۔۔۔۔ کہہ کر خاموش رہنے کیا اشارہ کیا۔
گرپ ممبرز نے ہی بتایا آپ ہمارے ٹاپک پر کام نہیں کرنا چاہتے اس لیے۔۔۔
کیا تم اسی گروپ میں ہوں ؟ وہ حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگا
اس سے پہلے وہ کچھ کہتی لائبریرئن نے آکر انہیں باہر جانے کا حکم دیا
تمہاری وجہ سے یہ انسلٹ ہوئی ہے۔وہ غصے میں اپنا بیگ اٹھاتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر کی طرف نکلا تو دعا بھی اس کے پیچھے چل دی ۔
آئی ایم سوری۔ پلیزآپ تھوڑا اہستہ چلیں۔ دعا نے منت کی
او ہیلو تم کیوں میرے پیچھے آرہی ہو؟ دور رہو مجھ سے۔وہ مذید تیز چلتا ہواآگے بٹھنے لگا۔
آپ پلیز میری بات۔۔۔ وہ چلتے چلتے یک دم رک کر مڑا تو دعا اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی ۔
چپ۔ ۔ ۔ اب کیا سر کے کیبن میں بھی میرا پیچھے اندر جانا ہے ؟
آ ۔ ۔ ۔ دعا کو احساس نہیں ہو سکا وہ اس کے پیچھے چلتے چلتے سر عمیر کے کیبن کے باہر آچکی ہے۔
وہ شرمندہ ہوئی۔