رات بھر وہ ٹھیک سے سو نہیں پائی تھی صبح اس نے ناشتہ بھی نہیں کیا اسٹور پر کھڑی وہ دس بار سیل فون نکال کر چیک کر چکی تھی لیکن نہ تو اس کا کوئی پیغام آیا تھا نہ ہی وہ آن لائن ہو رہا تھا اگرچہ وہ جانتی تھی کہ اس وقت وہ آفس جا چکا ہو گا لیکن پھر بھی بھلا وہ اس سے خفا ہو کر کیسے کام کر سکتا تھا، غائب دماغی کے عالم میں سامنے کھڑے کسٹمر کو جو اس سے کی رنگ مانگ رہا تھا دوبارہ گلاسز تھما چکی تھی۔
’’حریم تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔‘‘ مالا نے آ کر پہلے کسٹمر کو فارغ کیا پھر اس کی سمت متوجہ ہوئی تھی۔
’’ہاں شاید ٹمپریچر ہو رہا ہے۔‘‘ وہ بے دلی سے مسکرائی۔
’’تو لیو لے کر چلی جاؤ۔‘‘ اس پرخلوص مشورے پر اس نے وال کلاک کی سمت دیکھا ابھی تو اسے آئے ڈیڑھ گھنٹہ ہوا تھا گھر جا کر بھلا باقی کا وقت کیسے گزارتی لیکن اس کا یہاں کام میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا وہ مینجر کو مطلع کرنے کے بعد یونہی سڑکوں پر گھومتی رہی تھی، چار بجنے میں دس منٹ باقی تھے جب اس نے اپارٹمنٹ میں قدم رکھا تھا۔
’’حریم اتنا لیٹ، تم جانتی ہو مجھے یونیورسٹی بھی جانا تھا اور کچن میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔‘‘ زیب کا موڈ بہت خراب تھا اس کے باوجود وہ کافی تحمل کا مظاہرہ کر رہی تھی اس کے جی میں تو آیا کہہ دے میں کوئی تمہاری نوکر نہیں ہوں مگر لب بھینچے ہوئے کچن میں چلی آئی۔
’’میں تمہیں چیز سینڈوچ بنا دیتی ہوں۔‘‘
’’اس کی ضرورت نہیں میں کیفے ٹریا سے کچھ کھالوں گی ڈنر میں شامی اور چیس ضرور بنا لینا۔‘‘ اس کے جانے پر حریم نے شکر ادا کیا تھا پھر اپنے لئے سینڈوچ بنا کر لاؤنج میں چلی آئی تھی کھاتے ہوئے بھی اس کا دھیان سیل فون میں اٹکا ہوا تھا چار بج کر بیس منٹ ہو چکے تھے اور وہ ابھی تک آن لائن نہیں ہوا تھا، پہلے تو کبھی اسے اتنی تاخیر نہیں ہوئی تھی اس کی بے چینی لمحہ بہ لمحہ بڑھنے لگی تھی۔
وہ اسے کال بھی نہیں کر سکتی تھی زیادہ تر وہ نیٹ سے بات کرتا تھا اور اگر کبھی فون کرتا بھی تھا تو پرائیویٹ نمبر سے اور اب اسے یہ سوچ کر انتہائی کوفت ہو رہی تھی کہ کم از کم وہ اس کا نمبر تو لے لیتی۔‘‘ میں نے کیا سوچا تھا وہ یونہی عمر بھر چار بجے آن لائن ہوتا رہے گا ایسی سیچوئیشن کے متعلق مجھے دھیان کیوں نہیں آیا میرے اندر ان خدشات نے سر کیوں نہیں اٹھایا کہ وہ کبھی ناراض بھی ہو سکتا ہے اسے کوئی ایمرجنسی صورتحال بھی پیش آ سکتی ہے۔‘‘ چیز سینڈوچ کے ساتھ بلیک کافی کا آخری گھونٹ حلق سے اتار کر اس نے ابھی برتن اٹھائے ہی تھے جب اچانک سیل فون کی بل بجنے لگی تھی۔
’’ہیلو۔‘‘ نمبر چیک کیے بغیر بھی اسے جیسے یقین تھا کہ دوسری جانب شہروز ہی ہو گا لیکن اماں کی آواز سن کر اسے سخت مایوسی ہوئی، لیکن اگلے ہی پل اسے ایسا لگا تھا جیسے اس کی سماعتوں پر کسی نے بم پھوڑ دیا ہو۔
’’حریم ہم نے تمہاری اور حرمت کی شادی کی تاریخ طے کر دی ہے بس تم آنے کو تیاری کر لو۔‘‘ اور وہ اپنی جگہ سن سی بیٹھی رہ گئی تھی۔
کچھ روز قبل حرمت نے اسے بتایا تھا کہ آنٹی ثریا، فیصل کے لئے اس کا پرپوزل لے کر آئی ہیں وہ اپنی بیوی کو شادی کے دو ماہ بعد ہی طلاق دے چکا تھا وجہ علیحدگی گھر اور بزنس تھا لڑکی اس کی فیملی کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی اور اس کے لئے گھر اور بزنس الگ کرنا ممکن نہیں تھا وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا پھر گھر کس سے الگ کرتا اپنی ماں سے اور بزنس باپ سے روز بروز کے جھگڑوں نے بالآخر فیصل کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا تھا اور آنٹی ثریا کی بھی اونچے اور امیر خاندان کی بہو کا شوق پورا ہو چکا تھا اور اب وہ حرمت کی طلبگار بن کر آ گئی تھیں، لیکن یہاں بات محض حرمت کی نہیں ہو رہی تھی۔
’’حریم تم سن رہی ہو۔‘‘ اماں نے دوبارہ پوچھا تھا مگر وہ تو جیسے بہری ہو چکی تھی دل و دماغ میں جکڑے چلنے لگے تھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
ایک جانب شادی کی تاریخ طے ہو چکی تھی تو دوسری جانب وہ ناراض ہو کر بیٹھا تھا رابطے کی کوئی سبیل بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔
’’اب کیا کروں۔‘‘ سوچ سوچ کر اس کے اعصاب چٹخنے لگے تھے۔
٭٭٭
اپنی تمام تر ہمت یکجا کرتے ہوئے اس نے کال تو ملا دی تھی مگر اب لفظ جیسے حلق میں اٹک رہے تھے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔
’’ہیلو حریم کیسی ہو؟ پیکنگ کر لی جلدی آ جاؤ، مل کر شاپنگ کریں گے مجھ سے تو اکیلے اتنا پھیلاوا سمیٹا نہیں جا رہا اور تمہارا میرا لہنگا ایک جیسا ہو گا ڈیزائن میں پسند کر چکی ہوں۔‘‘ دوسری جانب حرمت نان اسٹاپ شروع ہو چکی تھی۔
’’میں نہیں آ رہی۔‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔
’’کیوں فلائیٹ نہیں مل رہی۔‘‘ حرمت کی سوچ یہیں تک تھی سو فکر مندی سے پوچھا۔
’’اماں کو بتا دینا کہ مجھے ایان سے شادی نہیں کرنی میں یہیں سیٹل ہونا چاہتی ہوں اور شاید ہی واپس آؤں۔‘‘
’’حریم۔‘‘ حرمت کے سر پر جیسے آسمان آن گرا تھا۔
’’تم ایسا کیسے کر سکتی ہو پلیز دیکھو ابا کی عزت کا سوال ہے ہم تو کارڈز بھی بانٹ چکے ہیں اور پھر ایان کتنا پیار کرتا ہے وہ تم سے۔‘‘
’’لیکن میں اس سے پیار نہیں کرتی اور پلیز میری واپسی کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے اماں سے کہو وہ تمہاری رخصتی کر دیں میرے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’حریم میری بات…‘‘ جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی رابطہ منقطع کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی اب سب مل کر اسے ایموشنل بلیک میل کریں گے اور جذبات میں بہہ کر وہ اتنا عظیم نقصان نہیں کر سکتی تھی سیل فون آف کر کے الماری میں بند کیا اور اٹھ کر مالا کے فلیٹ میں چلی آئی، وہ کچن میں کھڑی پکوڑے تل رہی تھی۔
’’کیا بات ہے اداس لگ رہی ہو۔‘‘ پکوڑوں کی پلیٹ اور پودینے کی چٹنی اس کے سامنے رکھتے ہوئے مالا نے اس کے دلکش لیکن سوگواریت میں ڈھلے پیکر کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا تھا۔
’’چھوڑو یہ سب چلو کہیں گھومنے چلیں میرا دم گھٹ رہا ہے۔‘‘ پلیٹ واپس ہٹاتے ہوئے وہ بے دلی سے بولی، اتنا بڑا فیصلہ کرتولیا تھا لیکن اب دل و دماغ بوجھل پن کے زیر اثر آ چکے تھے۔
’’ہاں موسم بھی خوشگوار ہے سیکٹر ون کا ایک چکر لگا کر واپس آ جائیں گے۔‘‘ مالا نے اتفاق کرتے ہوئے برنر بند کیا، پھر پکوڑے پاپ کارن کے خالی پیک میں بھرنے لگی حریم اس دوران نیچے جا چکی تھی اور اب پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں کا جائزہ لینے میں مشغول تھی۔
’’آ جاؤ حریم۔‘‘ مالا نے سیڑھیاں اتر کر آواز دی تو وہ خاموش گم صم سی اس کے ساتھ چلنے لگی تھی کچھ دیر واک کے بعد کالونی کا چکر لگانے کی بجائے دونوں قریبی پارک میں چلی آئیں تھیں۔
گلابی پھولوں کے جھنڈ کے قریب سنگی بینچ پر بیٹھتے ہوئے مالا اس کے بولنے کا ویٹ کر رہی تھی اس کے انداز بتا رہے تھے ضرور کچھ خاص بات ہے لیکن وہ چاہتی تھی حریم خود آغاز کرے۔
’’میں نے شادی سے انکار کر دیا ہے۔‘‘ وہ اپنے ناخنوں سے کیوٹکس کھرچتے ہوئے مدھم آواز میں بولی تھی مالا نے تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھا اسے جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا تھا۔
’’تم نے اچھا نہیں کیا تمہارے گھر والے ہمیشہ کے لئے تم سے تعلق توڑ دیں گے اور جس کی خاطر یہ سب کیا ہے کیا گارنٹی ہے کہ وہ تمہارے ساتھ مخلص ہے تین روز سے اس نے کوئی رابطہ نہیں کیا مجھے سمجھ نہیں آ رہی تمہاری عقل کیا گھاس چرنے جا چکی ہے تم ایک اجنبی شخص کی خاطر خود کو برباد کر رہی ہو۔‘‘
’’وقتی غصہ ہے یار بعد میں سب مان جائیں گے اور پلیز مجھے شہروز کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں ہے اور میں اس کی خاطر نہیں اپنی خاطر اپنے دل کی خاطر یہ سب کر رہی ہوں میں بہت محبت کرتی ہوں اس سے اس کا چہرہ میرا عشق ہے اور اس کا اسٹیٹس میری خواہش تم نہیں جانتی وہ میرے لئے ہر خواب کی تکمیل بن کر آیا ہے اسے پا کر میری ہر تمنا سرخرو ہو جائے گی۔‘‘
’’آئی وش ایسا ہی ہو۔‘‘ مالا نے پکوڑوں کا پیکٹ اس کے سامنے رکھتے ہوئے خلوص دل سے دعا دی تھی لیکن وہ شاید قبولیت کا لمحہ نہیں تھا۔
٭٭٭
’’تم نے ہم سب کو جیتے جی مار ڈالا حریم، ابا کو کسی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا ہم آخری وقت تک تمہارا انتظار کرتے رہے بڑے ابا نے ایان کا نکاح ماہا سے کر دیا ہے اب تم دوبارہ کبھی واپس مت آنا مرچکی ہو تم ہمارے لئے۔‘‘
’’حرمت پلیز میری اماں سے بات کروا دو۔‘‘ رندھے ہوئے لہجے میں وہ بڑی منت سے بولی تھی۔
’’اماں تم سے بات نہیں کرنا چاہتی دن رات صبح و شام وہ تم سے بات کرنے کے لئے تڑپتی رہیں لیکن تم نے اپنا نمبر بند کر رکھا تھا زیب کو کال کی تو تم نے بات کرنے سے انکار کر دیا رفعت آنٹی نے تمہاری سیٹ تک ریزرو کروادی تھی لیکن تم نہیں آئی اب کیا چاہتی ہو کہ ہم لوگ تمہیں گلے سے لگائیں پلکوں پر بٹھائیں تو…‘‘ اس کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی اماں نے سیل فون جھپٹ لیا تھا وہ محض ان کی آواز ہی سن سکی تھی جو حرمت سے کہہ رہی تھیں۔
’’میں نے کہا تھا نا کہ اب سے ہماری ایک ہی بیٹی ہے دوبارہ کبھی اس سے بات کی تو میں سمجھوں گی تم بھی مر گئی ہو ہمارے لئے۔‘‘ ساتھ ہی پٹاخ کی آواز کے ساتھ رابطہ منقطع ہو گیا تھا شاید اماں نے سیل فون ہی توڑ ڈالا تھا۔
لرزتے ہاتھوں سے اس نے سیل فون کانوں سے ہٹایا اور دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روپڑی تھی۔
کل اس نے ایک ہفتہ بعد سیل فون آن کیا تھا، اس میں ابا اور اماں سے برائے راست بات کرنے کی جرأت نہیں تھی سو اس نے فرار کا راستہ اپنایا تھا مگر اب وہ سوچ رہی تھی کہ کاش میں کبھی اپنا نمبر آن نہ کرتی تو زندگی ایک جھوٹ کو نبھاتے ہوئے کتنے اچھے گمان میں جی کر گزر جاتی، مگر اب تو سب ختم ہو چکا تھا، شہروز نے ایک ہفتہ قبل اسے آف لائن ٹیکسٹ کیا تھا جس میں لکھا تھا۔
٭٭٭
’’سوری حریم میں تم سے محبت نہیں کرتا ہمارے درمیان جو بھی ہوا جسٹ ایک فلرٹ تھا تم اسے وقت گزاری یا پھر ٹائم پاس بھی کہہ سکتی ہو اور تم اس لسٹ میں کس نمبر پر تھی یہ میں نہیں جانتا۔‘‘
’’آؤ نا حریم۔‘‘ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ اسے اپنے بیڈ روم میں ملحقہ اسٹڈی روم میں لے آیا تھا اور اب وہ اپنی تصویر کے سامنے کھڑی تھی۔
’’یہ تصویر میں نے آرٹ گیلری سے خریدی تھی اس چہرے نے میرے دل پہ کلک کیا تھا مجھے پہلی نظر میں تم سے محبت ہو گئی تھی حریم اور تم وہ واحد لڑکی ہو جسے زندگی میں فرسٹ ٹائم پرپوز کر رہا ہوں۔‘‘ اپنی پاکٹ سے ڈائمنڈ رنگ نکالنے کے بعد وہ ویسٹرن اسٹائل میں گھٹنوں کے بل اس کے سامنے جھکا تھا۔
’’ول یو میری می۔‘‘
اور آج وہی شخص اس کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکا اپنی بے پایاں محبت کا اظہار کر رہا تھا اس سے شادی کا خواہاں تھا، وہ کتنا بڑا جھوٹا تھا اس کے کتنے بہروپ تھے وہ کہہ رہا تھا تم واحد لڑکی ہو اور اس سے قبل تو اسے اپنی لسٹ میں اس کا نمبر بھی نہیں یاد تھا، وہ شاید دنیا کا سب سے خوبصورت ترین مرد تھا لیکن حریم کو اس کے چہرے سے گھن آ رہی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اس کے منہ پر تھوک دے۔
لیکن اس سے کیا ہونا تھا وہ چند روز غمگین ہوتا اور پھر زیب سے شادی کر لیتا یہ تو بہت معمولی سی اذیت تھی جبکہ اس کا تو دل چاہ رہا تھا وہ اسے پتھروں سے سنگسار کرے۔
’’اوکے۔‘‘ وہ مدھم سا مسکرائی، شہروز نے خوشی کے بے پایاں احساس سے مغلوب ہو کر اسے رنگ پہنانا چاہی تو حریم نے ٹوک دیا۔
’’لیکن ہم میں اسٹیٹس کا بہت ڈیفرنس ہے میں ایک غریب گھرانے کی لڑکی ہوں لندن میں تعلیم حاصل کرنے نہیں بلکہ زیب کا خیال رکھنے اور اس کے اپارٹمنٹ کی دیکھ بھال کے لئے آئی تھی تمہارے پیرنٹس ہمارے ریلیشن کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘ یہ وہ تلخ حقیقت تھی جو وہ اس سے کسی بھی صورت چھپا نہیں سکتی تھی اس نے بہتر جانا تھا کہ مناسب الفاظ میں اس پر اپنی حیثیت آشکار کر دے، وہ ایک لمحے کو خاموش سا ہو گیا تھا، حریم کا دل ڈوبنے لگا۔
’’محبت کیا ان ضابطوں کو مانتی ہے۔‘‘ اگلے ہی پل اس نے رنگ پہنا کر اس کے خوبصورت مرمریں ہاتھ کی پشت کو اپنے لبوں سے چھوا تو وہ بدک کر دور ہٹی، کس قدر ناگوار تھا اس کی محبت کا اولین لمس۔
’’تمہاری تصویر لندن کی اتنی مشہور آرٹ گیلری میں کیسے آئی کیا وہ آرٹسٹ تمہارا کوئی دوست تھا یا پھر تم نے شوق میں بنوائی تھی۔‘‘ اگلے روز آؤٹنگ کے دوران جب زیب اور مہروز کانٹا لگائے مچھلی کا شکار کر رہے تھے تو وہ ساحل کی گیلی ریت پر ساتھ چلتے بہت دور نکل آئے تھے باتوں کے دوران اس کے اچانک استفسار پر وہ ایک لمحے کو بوکھلا کر رہ گئی تھی۔
اسے یاد تھا وہ دن جب اس کا فرسٹ ائیر کا ایڈمیشن جانا تھا ابا ان دنوں بے روزگار تھے اماں نے صاف کہہ دیا تھا۔
’’کوئی ضرورت نہیں پڑھنے کی آرام سے گھر بیٹھو ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں جو گھرداری کے ساتھ تمہارے تعلیمی اخراجات بھی پورے کریں۔‘‘ اس روز گھر سے کالج جانے کی بجائے وہ جناح پارک آ کر بیٹھ گئی تھی جب وہ اُول جلول سے حلیے ورالا لڑکا اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔
’’ہیلو آئی ایم رابن کین آئی پینٹ یور فیس۔‘‘
’’کیوں یہاں اور چیزیں نہیں ہیں پینٹ کرنے کیلئے۔‘‘ وہ کاٹ کھانے کو دوڑی ایک تو پہلے سے ہی دماغ خراب تھا اس پر انوکھی فرمائشیں۔
’’ہیں لیکن مجھے بہت خوبصورت چہرے کی تلاش تھی۔‘‘
’’کیا کرو گے میرا چہرہ پینٹ کر کے۔‘‘ اتنی تعریف تو کسی بھی انسان کے مزاج پر خوشگوار تاثر قائم کر سکتی تھی اس نے یونہی اپنا دھیان ہٹانے کی غرض سے پوچھ لیا۔
’’لندن آرٹ گیلری میں نمائش کرواؤں گا۔‘‘
’’ایک شرط پہ اجازت دوں گی۔‘‘ اسے لگا پرابلم کا سولوشن مل چکا ہے لڑکے نے انتہائی پرشوق انداز میں سرہلایا تھا شاید اسے اتنی جلدی مان جانے کی توقع نہیں تھی اور تب اس نے دو ہزار کے عوض اپنا چہرہ پینٹ کروانے کی حامی بھرلی تھی۔
’’تمہیں کیا بتایا تھا اس نے۔‘‘ اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پاتے ہوئے اس نے الٹا سوال پوچھا۔
’’میں نے پوچھا تھا یہ چہرہ کہاں سے پینٹ کیا تھا تو اس نے بتایا لاہور جناح پارک، اس کے بعد وہ کسی اور سمت متوجہ ہو چکا تھا مزید پوچھنے کا موقع نہیں مل سکا۔‘‘ حریم نے اس وضاحت پر اطمینان بھرا سانس خارج کیا اور بے نیازی سے بولی۔
’’ہاں شوقیہ پینٹ کروایا تھا۔
٭٭٭