برتن دھوتے ہوئے اس کے دل و دماغ میں ایک ہی جملہ گردش کر رہا تھا۔
’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم بس مجھ سے بات کیا کرو اور کسی سے نہیں۔‘‘ اسے لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر کا موسم بدل رہا ہو وہ اپنے احساسات سے خود ہی خوفزدہ ہو رہی تھی دھلے ہوئے برتن ریک میں رکھنے کی بجائے اس نے دوبارہ سینک میں رکھ دئیے تھے ایسی بدحواسی تو اس پر پہلے کبھی نہیں چھائی تھی، اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ دوبارہ کبھی اس سے بات نہیں کرے گی دل میں مصمم ارادہ کرتے ہوئے اس نے برتن سینک میں اٹھا کر ریک میں رکھے اور ہاتھ دھو کر زیب کے روم میں چلی آئی، وہ اس وقت بستر پر کتابیں بکھیرے کچھ لکھنے میں مگن تھی۔
’’کوئی کام تھا۔‘‘ ایک پل کے لئے اس نے سر اٹھایا۔
’’ہاں۔‘‘ اثبات میں سر ہلا کر اس نے چند کتابیں اٹھائیں اور اس کے مقابل بیٹھتے ہوئے بولی۔
’’میں چاہ رہی تھی مالا کے ساتھ سیلز گرل کی جاب کر لوں۔‘‘
’’جاب۔‘‘ زیب نے ناقابل فہم نگاہوں سے اسے دیکھا جاب تو وہ فل ٹائم اس کی کر رہی تھی۔
’’بس چار گھنٹے۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں کا سوال سمجھ گئی تھی۔
’’اوکے اگر تم مینج کر سکتی ہو تو ایزیو لائیک۔‘‘ وہ اجازت دے کر دوبارہ کتاب پر جھک گئی تھی۔
’’تھینکس زیب تم بہت اچھی ہو۔‘‘ اسے امید تو تھی کہ اجازت مل جائے گی لیکن اسے لگا تھا خاصا کنوینس کرنا پڑے گا لیکن وہ تو بغیر کسی دلائل کے ہی مان گئی تھی حریم کا خوش ہونا یقینی تھا۔
صبح نو بجے سے دوپہر ایک بجے تک اس کی شفٹ تھی گھر آ کر کھانا بنانے کے بعد اس نے وال کلاک کی سمت دیکھا چار بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے ماہا کی فرمائش پر وہ نئے ہیڈ فون لے کر آئی تھی اسے حیرت تھی کہ یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا سیل فون کی نسبت ہیڈ فون تو وہ با آسانی افورڈ کر سکتی تھی۔
’’لیکن اب کیا فائدہ مجھے تو اس سے بات ہی نہیں کرنا تھی۔‘‘ ہیڈ فون ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ ٹی وی آن کر کے بیٹھ گئی تھی لیکن وہاں بھی دل نہ لگا تو دھلے ہوئے کپڑے تہہ کرنا شروع کر دئیے دو سوٹ تہہ کرنے کے بعد ان سے بھی دل اچاٹ ہو گیا تو چائے بنا کر ٹیرس پر آن کھڑی ہوئی۔
مگر گزرتے وقت کے ساتھ اس کے بے چینی بھی بڑھتی جا رہی تھی چائے کا کپ وہیں ریلنگ پر رکھا چھوڑ کر وہ کمپیوٹر کے سامنے آن بیٹھی تھی۔
’’اتنا لیٹ میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔‘‘ اس کا آف لائن میسج آیا ہوا تھا، لیکن وہ خود شاید سائن آؤٹ ہو چکا تھا بیس منٹ تک وہ مانیٹر اسکرین کو گھورتے ہوئے اس کا ویٹ کرتی رہی تھی اور جب وہ دوبارہ آیا تو اس نے ’’کتاب گھر‘‘ کھول لیا کچھ اس کے فیورٹ نئے ناول آئے ہوئے تھے۔
’’حریم کیسی ہو؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔
’’کیا کر رہی ہو؟‘‘ دوسرا سوال۔
’’مصروف ہو۔‘‘ وہ رضیہ جمیل کا ناول پڑھنے میں مگن رہی۔
’’حریم کیا مجھ سے بات نہیں کرو گی۔‘‘ اور اس کے دل کو جیسے کچھ ہوا تھا، اسے لگا یہ شخص اس کی عادت بن چکا ہے لیکن وہ اپنی کمزوری اس پر منکشف نہیں کرنا چاہتی تھی سو بے نیازی سے اپنا کام کرتی رہی، اب اس کی کال آنے لگی تھی۔
’’السلام علیکم!‘‘
’’وعلیکم السلام۔‘‘ وہ مدھم آواز میں بولی۔
’’تم نے ہیڈ فون لے لیا؟‘‘ اسے خوشگوار حیرت نے گھیرا۔
’’ہاں۔‘‘ وہ وائس بات کرتے ہوئے نروس ہو رہی تھی۔
’’کہاں تھی اب تک؟‘‘
’’تمہارے دل میں۔‘‘ اس نے شرارت سے بتایا۔
’’وہاں تو ازل سے تھی لیکن ابھی کہاں تھی؟‘‘ وہ اطمینان سے بولا۔
’’بزی تھی۔‘‘
’’کہاں؟‘‘ وہ جاننے پر مصر تھا۔
’’ناول پڑھ رہی تھی۔‘‘
’’اچھا، مجھے نہیں پتا تھا کہ ناول پڑھتے ہوئے بھی بندہ اتنا بزی ہوتا ہے، تم ناول پڑھو ایم ساری کہ میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔‘‘ وہ خفا ہو گیا تھا اور حریم کی جیسے جان پہ بن آئی تھی سارا دن وہ بے چین رہی، اسے رہ رہ کر ایک ہی بات کا خیال آ رہا تھا اسے یاد آ رہا تھا کہ ایان تو پچھلے دو ماہ سے اس سے خفا تھا اور اس نے تو ایک بار بھی اس کی پرواہ نہیں کی تھی پھر اب کیسی بے تابی ہے۔
’’تو کیا مجھے ایان سے کبھی محبت نہیں تھی۔‘‘ اس نے پوری ایمانداری کے ساتھ خود کو ٹٹولا جواب میں خاموشی تھی مکمل خاموشی۔
٭٭٭
’’کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’تمہیں مس کر رہا تھا۔‘‘
’’کل اچانک کہاں غائب ہو گئے تھے؟‘‘
’’یار میرا نٹ ڈس کنیکٹ ہو گیا تھا۔‘‘
’’لیکن تم مجھے آن لائن نظر آ رہے تھے۔‘‘ وہ اس کی دروغ گوئی پر تلملائی۔
’’میں تو تمہیں ہر جگہ آن نظر آتا ہوں تمہاری آنکھوں میں بس گیا ہوں۔‘‘ وہ شوخی سے بولا حریم خاموش سی ہو گئی۔
’’ایک بات پوچھوں۔‘‘ اس نے اجازت چاہی اور لہجے کی گھمبیرتا پر حریم کی ہتھیلیاں بھیگنے لگی تھیں اب جانے وہ کیا پوچھنے والا تھا۔
’’کیا بنا دیکھے پیار ہو سکتا ہے۔‘‘ عجیب سوال تھا وہ ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گئی۔
’’بولو حریم۔‘‘ اسے ایک پل کی خاموشی بھی گراں گزری۔
’’پیار اگر چہروں سے نہیں ہوتا تو بنا دیکھے بھی ہو سکتا ہے لیکن مجھے لگتا ہے ہم پیار چہروں سے کرتے ہیں۔‘‘ اس کی ساری شوخی بھک سے اڑ گئی تھی اس مرحلے پر تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ابھی تو وہ اپنے دل کی کیفیت کا کچھ اندازہ نہیں لگا پائی تھی۔
’’پیار ہو جائے تو بندے کو کیا کرنا چاہیے؟‘‘
’’سیمپل جا کر کہہ دو آئی لویو ویسے خیریت ہے آج اتنے پیار بھرے کوئسچن کیوں پو چھ رہے ہو کہیں کس سے پیار ویار تو نہیں ہو گیا۔‘‘ اس کا اندازہ شریر تھا۔
’’ہاں ہو گیا ہے۔‘‘ اس نے جیسے تھک کر اقرار کیا تھا۔
’’کس سے؟‘‘ اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔
’’تم سے۔‘‘ اور اگلے ہی پل اسے لگا ایلین بلڈنگ کی چھت اس کے سر پہ آن گری ہو۔
’’پلیز ایسے مذاق نہ کرو۔‘‘
’’میرا پیار مذاق نہیں ہے حریم۔‘‘ وہ سنجیدگی سے بولا۔
’’ہم جسٹ فرینڈز ہیں۔‘‘ اس کا سر گھومنے لگا تھا۔
’’میں اس فرینڈ شپ کو بہت آگے لے جانا چاہتا ہوں جہاں تم میرے ساتھ ہو گی۔‘‘
’’بس اس چاہت کو یہیں چھوڑ دو اور تم پاگل ہو تم نے مجھے دیکھا نہیں اور پھر ان دیکھی لڑکی سے محبت کا دعویٰ صرف ایک جوک ہی ہو سکتا ہے۔‘‘
’’مجھے تمہارے کریکٹر پر کوئی شبہ نہیں ہے تم حریم ہو میرے لئے اتنا تعارف کافی ہے اور رہی کیسی کی بات تو میری محبت چہرہ نہیں ہے حریم دل ہے تم میرے دل میں ہو اور جس روپ میں بھی میرے سامنے آؤ گی میں آنکھیں بند کر کے تمہیں قبول کروں گا۔‘‘
’’لڑکیوں کو اچھا متاثر کر لیتے ہو ذرا یہ بتانا میرا نمبر اس لسٹ میں کہاں ہے جن سے تمہیں محبت ہوئی ہے۔‘‘ وہ استہزائیہ ہنسی۔
’’محبت کسی ایک سے ہوتی ہے اس کی کوئی لسٹ نہیں بناتا۔‘‘ اس نے اچھا خاصا برا مانا تھا دونوں جانب کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی دل میں چبھتی ہوئی خامشی، روح میں حشر برپا کرتی ہوئی خامشی، شریانوں میں طوفان کی مانند گردش کرتی ہوئی خامشی۔
’’تمہیں کیا اچھا لگا مجھ میں۔‘‘ کوئی طلسم تھا جو اس کی آواز پر چھن سے ٹوٹ گیا تھا۔
’’تمہاری سادگی، صاف گوئی اور زندہ دلی۔‘‘
٭٭٭
’’تم حریم ہو میرے لئے اتنا تعارف کافی ہے اور رہی کیسی کی بات تو میری محبت چہرہ نہیں ہے دل ہے تم میرے دل میں ہو اور جس روپ میں بھی میرے سامنے آؤ گی میں آنکھیں بند کر کہ تمہیں قبول کروں گا۔‘‘ رات بھر شدتوں میں ڈوبی آواز نے اسے سونے نہیں دیا تھا محبت ابر کی صورت اس کے دل میں اتری تھی اور جیسے سارا گلشن مہک اٹھا تھا۔
وہ جانتی تھی اسے دیکھ کر تو کوئی بھی اس کی محبت میں مبتلا ہو سکتا ہے، لیکن بنا دیکھے پیار، اسے لگا وہ مزید مزاحمت نہیں کر پائے گی۔
’’میری محبت چہرہ نہیں ہے دل ہے تم میرے دل میں ہو۔‘‘ محبت کا اک سمندر تھا جو اس کی ذات میں بہہ رہا تھا وہ بے بس ہو چکی تھی ہار چکی تھی، زندگی میں پہلی بار اسے کسی سے پیار ہوا تھا بے حد پیار۔
چند ہی دنوں میں اس کی سحر انگیز شخصیت کا جادو چل چکا تھا اسے لگتا تھا جیسے اس کی ذات کسی حصار میں مقید ہو چکی ہو وہ پہلا شخص تھا جو دل و دماغ پر چھا جانے کی حد تک اس پر حاوی ہو چکا تھا، لیکن پھر بھی فیصلہ ابھی باقی تھا۔
دوسری جانب ایان ہی نہیں اس کی فیملی بھی تھی اور اس کی اماں کہا کرتی تھیں ’’غریب کے پاس عزت کے سوا کچھ نہیں ہوتا حریم ہماری عزت کا پاس رکھنا۔‘‘
’’کیا کروں اگر قدم پیچھے ہٹاؤں تو وہی تین مرلے کا گھر، گھٹا ہوا ماحول، عام سی شکل و صورت کا شوہر اور گھسٹی پٹی مفلسی کی چادر میں لپٹی سسکتی ہوئی سی زندگی اور جو قدم آگے بڑھاؤں تو کہکشاؤں کا سفر، اک نیا جہان، حسین ہم سفر، من پسند زندگی، خوابوں کی تکمیل اور ہر خواہش مٹھی میں بند، جگنو کی مانند دسترس میں، پھر قدم آگے کیوں نہ بڑھاؤں۔‘‘
’’میرے ڈیڈی نیوروسرجن ہیں برمنگھم میں، ہمارا بہت بڑا عالیشان گھر ہے۔‘‘
’’مجھے گاڑیاں جمع کرنے کا شوق ہے میرے پاس لینڈ کروزر، پراڈو اور ہیوی بائیک ہے لیکن اب کی بار میں لیموزین لوں گا۔‘‘
’’جب میں لندن آؤں گا تو تمہیں اپنی ساری گاڑیوں میں گھماؤں گا آئی وش کہ تم میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھو۔‘‘
’’پاکستانی کرنسی میں تین لاکھ۔‘‘
’’میں اس فرینڈ شپ کو بہت آگے لے جانا چاہتا ہوں جہاں تم میرے ساتھ ہو گی۔‘‘
’’تم میرے دل میں ہو۔‘‘ شہروز کی باتیں اس کے آس پاس گھوم رہی تھیں۔
٭٭٭
’’مالا اگر انسان کے پاس دو راستے ہوں بہتر اور بہترین تو وہ کس کا انتخاب کرے گا۔‘‘ اسٹور سے واپسی پر دونوں واک کرتے ہوئے گھر آ رہی تھیں جب کچھ نہ سمجھ آنے پر اس نے مالا سے رائے لینے کا سوچا تھا۔
’’بہترین۔‘‘ اس نے لمحے کی تاخیر کیے بغیر کہا جس پر وہ خاموش سی ہو گئی تھی اگر وہ یہ سوال ہزار لوگوں سے بھی دریافت کرتی تو اسے یہی جواب ملنا تھا لیکن مالا کی اگلی بات نے اسے چونکا دیا۔
’’لیکن راستوں میں چیزوں میں اور انسانوں میں فرق ہوتا ہے انسانوں کا ظاہر دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے پہلے ان کے اندر جھانکو ان کے من کو پرکھو پھر انتخاب کرو۔‘‘
’’پرکھ۔‘‘ اس پہلو پر وہ رات بھر سوچتی رہی تھی اور اگلی صبح اس نے سب سے پہلے ایک نیو آئی ڈی بنایا تھا۔
٭٭٭
’’زیب کیا میں آج تمہارا سیل فون یوز کر سکتی ہوں؟‘‘ وہ یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو چکی تھی فائل میں نوٹس رکھتے ہوئے اس نے الجھن آمیز نظروں سے حریم کو دیکھا تو وہ وضاحت کرتے ہوئے بولی۔
’’مجھے حرمت سے ضروری بات کرنا تھی ماہا کا مائیک خراب ہے تو کتنے دنوں سے گھر والوں سے بات نہیں ہوئی اماں کی طبیعت بھی شاید اچھی نہیں ہے۔‘‘
’’اوکے لیکن مما کی کال آئے تو بتا دینا کہ میں یونیورسٹی سے واپس آ کر ان سے بات کروں گی۔‘‘ سیل فون اس کی جانب بڑھانے کے بعد اس نے فائل اور بیگ اٹھایا پھر جوتے کے اسٹریپ باندھتے ہوئے ہاتھ ہلا کر چلی گئی اس کی کلاسز آج کل سیکنڈ ٹائم ہو رہی تھیں۔
چار بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے اور اس کا ایک ایک پل بڑی مشکل سے کٹا تھا عجیب وسوسے، واہمے دل کو ہولا رہے تھے اپنا نیا آئی ڈی سائن آن کیے وہ جس قدر شدت سے اس کی منتظر تھی اسی قدر دل میں دعا گو تھی۔
کہ کاش وہ اس سے بات نہ کرے اس کی فرینڈ ریکوسٹ ایکسپٹ نہ کرے اسے کوئی رپلائی نہ کرے بلکہ اسے ڈانٹ دے اسے جھاڑ دے اس سے یہ کہہ دے کہ وہ حریم نام کی لڑکی سے محبت کرتا ہے۔
اور اگلے ہی پل وہ شاکڈ رہ گئی تھی کیا وہ قبولیت کی گھڑی تھی یا اللہ کو اس پر رحم آ گیا تھا یا پھر اس کی قسمت بدلنے والی تھی۔
اس کا مانگا حرف حرف سچ ثابت ہوا تھا، وہ کتنی خوش تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کاش وہ مور ہوتی اور اپنے سنہری پنکھ پھیلا کر جنگل میں رقص کرتی یا پھر کوئی مینا ہوتی اور بارش میں بھیگتے ہوئے کوئی سریلا گیت گنگناتی یا اس کے پنکھ ہوتے اور وہ دور آسمان کی وسعتوں میں اڑتے ہوئے کہکشاؤں کو چھو آتی، وہ ایک ساتھ دو آئی ڈی سے آن لائن تھی تاکہ اسے کوئی شبہ نہ رہے، زیب کا سیل فون بھی اس نے اسی کام سے لیا تھا اور وہ اسے بتا رہا تھا۔
’’حریم یہ کوئی ضویا نام کی لڑکی ہے اس نے مجھے فرینڈ ریکوسٹ سینڈ کی ہے اور اب چیٹنگ پر اصرار کر رہی ہے۔‘‘
’’اچھا تو کر لو اس سے بات۔‘‘ وہ زیر لب مسکرائی۔
’’سوچ لو خود اجازت دے رہی ہو پھر نہ کہنا بے وفا۔‘‘
’’تم تو ایسے ری ایکٹ کر رہے ہو جیسے پہلے کبھی کسی لڑکی سے تمہاری فرینڈ شپ رہی نہیں ہو گی جناب یہ انگلینڈ ہے بیوقوف کسی اور کو بنانا۔‘‘
’’ہاں فرینڈ شپ تو تھی لیکن محبت نہیں تھی اور اب محبت ہے تو ایسی فرینڈ شپ کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔‘‘ دو ٹوک لفظوں میں انکار کرتے ہوئے وہ اب اس سے اپنی باتیں کرنے لگا تھا لیکن اس نے بھی ہمت نہیں ہاری تھی اور اگلے کئی روز تک وہ مالا کے سیل فون سے اسے تنگ کرتی رہی تھی، مگر مجال ہے جو اس نے کوئی توجہ دی ہو تھک ہار کر اسے اعتبار کرنا پڑا تھا، کہ وہ اس کے ساتھ فیئر ہے، مہینے کے آخر میں اسے سیلری ملی تو اس نے سب سے پہلے ایک سیل فون خریدا تھا۔
’’شکر ہے یار تمہیں میرا خیال تو آیا اب مخصوص وقت کا ویٹ تو نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘ اس کا تو جیسے بڑا مسئلہ حل ہوا تھا۔
’’تم سوتے کس ٹائم ہو؟‘‘ حریم نے اپنی نیند سے بوجھل پلکیں بمشکل جھپکاتے ہوئے پوچھا تھا گیارہ بجنے والے تھے اور وہ ابھی تک وہ فون بند کرنے کو تیار نہیں تھا۔
’’بس ایک گھنٹہ اور بات کر لو۔‘‘ وہ اپنی بات پر مصر تھا، اس کی ڈیوٹی آج کل شام پانچ بجے سے رات ایک بجے تک تھی اور صبح نو بجتے ہی اس نے دوبارہ فون کر دینا تھا، کتنا بولتا تھا وہ اور اسے اتنی باتیں جانے کہاں سے آ جاتی تھی۔
’’سات گھنٹے ہو چکے ہیں ہمیں بات کرتے ہوئے۔‘‘ وہ مدھم آواز میں بولی کل تو زیب نے اس سے پوچھ بھی لیا تھا کہ وہ اتنی اتنی دیر کس سے باتیں کرتی ہے اسی وجہ سے وہ بہت دھیما بول رہی تھی۔
’’اور جب تم دس منٹ، سات منٹ، پندرہ منٹ بعد فون کاٹ دیتی ہو تب تمہارے گھنٹے کم کیوں نہیں ہوتے آج جو پہلی بار مہربان ہو ہی چکی ہو تو ایک گھنٹہ اور بات کر لو نا۔‘‘
’’اوکے لیکن بس ایک گھنٹہ۔‘‘ اسے مانتے ہی بنی تھی اور اب وہ اسے بتا رہا تھا۔
’’میں نے تمہارے لئے بروکن ہارٹ والا لاکٹ لیا ہے اور میرا دل چاہ رہا ہے کہ تم آئینے کے سامنے کھڑی ہو اور میں اپنے ہاتھوں سے تمہیں وہ لاکٹ پہناؤں۔‘‘
٭٭٭
’’حریم آج شام میری فرینڈز آئیں گی تم کھانے میں کچھ ورائٹی رکھ لینا۔‘‘ آج سنڈے تھا وہ اور مالا اپنے اپنے ٹیرس کی ریلنگ پر جھکی آؤٹنگ کا پروگرام بنا رہی تھیں جب زیب کی اطلاع پر اس کا منہ بن گیا تھا جبکہ وہ اب مالا سے باتوں میں مشغول ہو چکی تھی حریم کے بگڑتے زاویے اس نے دیکھے ہی نہیں تھے، سارا دن کچن کی نظر ہو چکا تھا زیب نے بھی برائے نام اس کی ہیلپ کروائی تھی۔
شام میں اس کی فرینڈز آئیں اور ساتھ ہی اس کا سیل فون بج اٹھا وہ ایکسکیوز کرتی ٹیرس پر چلی آئی تھی۔
’’میں آج تم سے بات نہیں کر سکتی کچھ فرینڈز آئی ہیں۔‘‘
’’اور میں اتنے گھنٹے کیسے گزاروں گا۔‘‘ اس کی آواز میں بے بسی تھی۔
’’حریم مجھے بخار ہے میں نے ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کیا کوئی میرا خیال رکھنے والا نہیں ہے اور اب تم بھی چھوڑ کر جا رہی ہو۔‘‘ وہ جانے کیوں اتنا حساس ہو رہا تھا۔
’’تم ناشتہ کرو، میڈیسن لو اور ریسٹ کرو اوکے بائے۔‘‘ زیب اس دوران اسے دوبارہ آواز لگا چکی تھی بمشکل جان چھڑوا کر وہ کچن میں چلی آئی کھانا سرو کرنا بھی اس کے ذمے تھا۔
’’زیب تمہاری کزن تو بہت خوبصورت ہے۔‘‘ اس کی دوستوں کے والہانہ انداز پر زیب یوں گردن اکڑا کر مسکرائی جیسے اس کی اپنی تعریف ہوئی ہو حریم نے تشکر آمیز نظروں سے اسے دیکھا تھا اور اس کے خلوص کی متصرف بھی ہو چکی تھی اس نے فرینڈز میں اسے کزن متعارف کروا کے اس کی عزت نفس اور خود داری کا مان رکھ لیا تھا۔
’’اب تم بھی آ جاؤ حریم۔‘‘ زیب کی آواز پر وہ کھانے میں برائے نام شریک ہو گئی جبکہ ذہن ہنوز شہروز میں الجھا ہوا تھا جانے اسے کتنا بخار تھا آواز سے ہی نقاہت جھلک رہی تھی ناشتہ بھی کیا ہو گا کہ نہیں۔
انواع و اقسام کے کھانوں سے سجی میز اس کے سامنے تھی اور اس کا کچھ بھی چکھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا حالانکہ کبھی وہ بریانی کھانے کے لئے انگلیوں پر دن گنا کرتی تھی اور آج خود سے زیادہ اس کے کھانے کی فکر ہو رہی تھی۔
’’اگر وہ اتنا خوبصورت نہ ہوتا اتنا امیر نہ ہویہ نہ ہی اس کے پاس اتنی گاڑیاں ہوتیں عالیشان محل نما گھر نہ ہوتا اگر وہ نیشنلٹی ہولڈر نہ ہوئی اگر اس کا شمار اپر کلاس میں نہ ہورہا ہوتا تو کیا پھر بھی میں اس سے اتنی محبت کرتی۔‘‘ برتن دھوتے اس کے ہاتھ ایک لمحے کو ساکت ہو چکے تھے، وہ خود کو ٹٹول رہی تھی اپنے دل میں جھانکتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کا جائزہ لینا چاہتی تھی اور دل کا جواب اسے ورطہ حیرت میں ڈال گیا تھا۔
’’ہاں اس کے پاس اگر کچھ بھی نہ ہوتا تو میں پھر بھی اس سے یونہی محبت کرتی۔‘‘ وہ خود حیران تھی کیا وہ ان ساری چیزوں اور آسائشوں کے بغیر خالی انسان سے محبت کر سکتی تھی؟ اگر ہاں تو پھر اسے ایان سے محبت کیوں نہیں ہوئی۔
’’ایان گھر والوں کو پسند تھا جس پر میں نے سر جھکا دیا تھا اس لئے کہ ایان سے آگے کی دنیا تو کبھی میں نے دیکھی ہی نہیں تھی اگر مجھے شہروز نہ ملتا تو شاید میں ایان کے ساتھ ایک اچھی خوشگوار زندگی گزار لیتی لیکن یہ دل کے ضابطے بھی عجیب ہوتے ہیں ہر کسی سے محبت ممکن ہوتی تو انارکلی خود کو دیوار میں چنوانا کبھی تسلیم نہ کرتی محبت کی اگر کوئی مورت ہے تو اس میں شہروز کے نقوش ابھرتے ہیں۔‘‘
’’اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘ بیڈ روم میں آ کر اس نے ایس ایم ایس سینڈ کیا تھا کیونکہ کال وہ ریسیو نہیں کر رہا تھا۔
’’تمہیں کیا جیسی بھی ہو۔‘‘ خفگی بھرا جواب۔
’’ناشتہ کیا ہے؟‘‘ مسکراتے ہوئے اس نے دوسرا میسج سینڈ کیا۔
’’نہیں۔‘‘ وہ جتنا بھی خفا ہو اس کی یہ عادت اچھی تھی کہ رپلائے ضرور کرتا تھا۔
’’میڈیسن لائے ہو۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ نپا تلا جواب۔
’’کیوں نہیں لائے۔‘‘ اس کے پاس سوالوں کی کمی نہیں تھی۔
’’میری مرضی۔‘‘
’’تمہاری مرضی نہیں چلے گی اٹھ کر ناشتہ کرو اور میڈیسن لاؤ ورنہ میں بات نہیں کروں گی۔‘‘
’’نہ کرو۔‘‘ وہ سائن آؤٹ کر کے جا چکا تھا وہ ہاتھ میں پکڑے سیل فون کو گھور کر رہ گئی۔
٭٭٭