’’حریم اب تم دوسرے بیڈ روم میں شفٹ ہو جاؤ مجھے رات دیر تک اسٹڈی کرنا ہوتی ہے اور تم ڈسٹرب ہوتی رہو گی۔‘‘ برتن دھونے کے بعد وہ سونے کے ارادے سے بیڈ روم میں آئی تو زیب نے اسے نیا پیغام دیا تھا جس پر سر ہلاتے ہوئے وہ اپنا مختصر سا سامان سمیٹنے لگی تھی۔
لیکن کمرے میں تنہا اکیلے اس کا دل نہیں لگ رہا تھا وہ کھڑکی کھول کر باہر جھانکنے لگی چاندنی راتوں کا یہاں کوئی گمان نہیں تھا آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور برف روئی کے گالوں کی مانند برس رہی تھی، ایک حد سے آگے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
کچھ دیر یونہی وقت گزاری کے بعد وہ بستر پر لیٹ گئی آخری خیال اسے جو آیا وہ شہروز کا تھا۔
٭٭٭
روز مرہ کے کام نپٹاتے ہوئے اسے یاد آیا زیب اسے گروسری کا کچھ سامان لانے کا کہہ کر گئی تھی اسٹور ان کے اپارٹمنٹ سے زیادہ دور نہیں تھا اپارٹمنٹ سے نکلتے ہی اس کی نظر اپنے حلیے پر پڑی۔
میرون رنگ کا یہ سوٹ اس نے چار روز سے پہنا ہوا تھا اور باقی کے دونوں سوٹ بھی بس ایویں سے تھے، ایک خیال کے تحت اس نے زیب کے بیڈ روم میں جھانکا اور پھر اس کی وارڈ روب کا جائزہ لینے لگی۔
براؤن پینٹ اور اورنج شرٹ کے ساتھ اس نے براؤن کوٹ بھی نکال لیا تھا، چینج کرنے کے بعد اسٹیپ کٹنگ بالوں میں برش چلایا لب شائنر لگانے کے بعد آنکھوں میں کاجل ڈالا تو نظر ڈریسنگ ٹیبل پر ایک کیو میں لگے پرفیومز سے ٹکرائی۔
زیب کو جوتے، بیگز اور خوشبوئیں جمع کرنے کا شوق تھا، رائیل میرج، ٹی روز، لائیٹ بلو، ڈیزائن، اینجل، وائیٹ ڈائمنڈ، سنگ، لولی، ہیوگوباس، آئس برگ، ریڈ روز، پیری ایلز اور فار ایور سب کی خوشبوئیں چیک کرنے کے بعد اس نے لائیٹ بلو اور رائیل میرج کا جی بھر کر خود پر اسپرے کیا تھا۔
ریک میں رکھے جوتوں میں سے براؤن ہیل والی سینڈل اور براؤن ہینڈ بیگ کاندھے پر ڈالتے ہوئے اس نے اپنا آخری جائزہ لیا، تو یہ اطمینان ہی سرشار کرنے کو کافی تھا، کہ وہ اس وقت کوئی لینڈ لیڈی لگ رہی تھی۔
اسٹور پر اپنا مطلوبہ سامان خریدنے کے بعد پیمنٹ کرتے ہوئے باہر نکلی تو اس نے سوچا آج وہ کیم آن کرے گی اور شہروز کو دکھائے گی کہ وہ اس دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہے، سسٹم آن کرنے کے بعد اسے زیادہ ویٹ نہیں کرنا پڑا تھا۔
’’میں تم سے خفا ہوں۔‘‘ ہیلو کے جواب میں اس نے فوراً ناراضگی جتا دی تھی۔
’’کیوں؟‘‘ وہ جان کر انجان بنی۔
’’کل میں نے پور تین گھنٹے تمہارا ویٹ کیا تھا۔‘‘
’’وہ نیٹ میں کچھ پرابلم ہو گیا تھا اس لئے میں آ نہیں سکی۔‘‘ بروقت یہی بہانہ سوجھ سکا تھا۔
’’اٹس اوکے کیا میں تمہیں کال کر سکتا ہوں۔‘‘
’’ہیڈ فون خراب ہیں۔‘‘
’’تو تمہارے پاس سیل فون نہیں ہے۔‘‘ اس نے تعجب سے پوچھا۔
’’سیل فون تھا لیکن وہ پانی میں گر گیا تو آج کل خراب ہے۔‘‘ گہرا سانس بھرتے ہوئے اس نے دوسرا جھوٹ لکھا۔
’’کل ایک گزارش کی تھی۔‘‘
’’مجھے یاد نہیں۔‘‘ اس نے بے نیازی دکھائی۔
’’یہ بھی حسن والوں کی اک ادا ہے۔‘‘ وہ برا مانے بغیر بولا۔
’’کیا آپ مجھ سے دوستی کریں گی۔‘‘
’’ہاں اگر تم ہینڈسم ہوئے تو۔‘‘ اس نے ازراہ مذاق لکھا تھا حالانکہ اس شخص کی شکل و صورت سے اسے کوئی غرض نہیں تھی وہ اس کے لئے فی الحال جسٹ ٹائم پاس تھا، تنہائیوں کا ساتھی، مصروفیت کا بہانہ اور چند گھنٹوں کی خوشگوار تفریح، لیکن جب اس نے کیم آن کیا تو وہ شاکڈ رہ گئی تھی۔
اگر وہ اس دنیا کی خوبصورت ترین لڑکی تھی تو وہ مردوں میں یقیناً بلا کا ہینڈسم اور وجیہہ ترین تھا اسے لگ رہا تھا کہ اس نے آج سے قبل اپنے سوا اتنا پرکشش اور حسین چہرہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔
’’کہو کیسا لگا؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا اور حریم جیسے پتھر کی ہو چکی تھی۔
’’کچھ تو بولو۔‘‘ اس نے پھر لکھا۔
’’ہیلو۔‘‘ وہ بلا رہا تھا اور حریم یونہی اپنی جگہ حیران ساکت اور گم صم سی بیٹھی رہ گئی تھی۔
٭٭٭
زیب کے آنے سے قبل وہ لباس تبدیل کر کے کھانا بنا چکی تھی آج وہ صبح خاص طور پر چکن قورمہ اور مٹر پلاؤ کی فرمائش کر کے گئی تھی رائتہ، سیلڈ اور کولڈ ڈرنکس میز پر منتقل کرنے کے بعد وہ ڈش میں چاول نکال رہی تھی، جب زیب نے ٹیبل بجایا۔
’’حریم جلدی لاؤ یار بہت بھوک لگی ہے۔‘‘
’’بس آ گئی۔‘‘ چاول کی ڈش اور قورمے کا باؤل رکھ کر وہ پلٹی تھی جب اس کی ناگواریت بھری آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’قورمے سے اسمیل کس چیز کی آ رہی ہے۔‘‘
’’دہی میں نے کل والا ڈال دیا تھا۔‘‘ اس کے خجل سے اعتراف پر زیب کا موڈ بری طرح سے بگڑا تھا۔
’’تمہارا دماغ درست ہے دودھ میں سے اگر اسمیل آ رہی تھی تو تم اسے ضائع کر دیتی لیکن پہلے تم نے اس کا دہی جمایا اور پھر وہ دہی قورمے میں ڈال دیا۔‘‘
’’مجھے لگا تھا شاید قورمے میں سے نہیں آئے گی۔‘‘ اس کا چہرہ اتر گیا دو گھنٹے کی محنت تو ضائع ہوئی ہی تھی جو خرچہ ہوا سو الگ…
’’یار دھیان سے کام کیا کرو۔‘‘ نارمل انداز میں کہہ کر وہ مٹر پلاؤ اور سیلڈ سے انصاف کرنے لگی تھی لیکن اسے یوں زیب کا خود پر رعب جمانا بہت عجیب سا لگا تھا، وہ خفت زدہ سی ہو کر ٹیرس پر آن کھڑی ہوئی تھی۔
’’کیا خواب لے کر آئی تھی اور کیا بن پائی ہوں بیس ہزار کے عوض اگر میں ساری زندگی بھی اس کی ملازمہ بنی رہوں تو بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا مجھے خود بھی اسٹرگل کرنی چاہیے ساتھ کوئی جاب…‘‘
’’حریم!‘‘ زیب کی پکار نے اس کی سوچوں کو بریک لگا دیا تھا۔
’’میرا یہ سوٹ پریس کر دو شام میں ایک دوست کے گھر کمبائن ڈنر پر جانا ہے۔‘‘ فیروزی رنگ کا خوبصورت نگینوں سے مزین کڑھائی والا فراک اس کی سمت اچھال وہ خود واش روم میں گھس گئی تھی اور جب تیار ہو کر اس نے براؤن بیگ کے متعلق حریم سے استفسار کیا تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا وہ بیگ تو شاید صبح اسٹور میں ہی بھول آئی تھی۔
’’یہیں سامنے پڑا ہوا تھا اس میں میرے ڈیڑھ ہزار ڈالر تھے۔‘‘ اور اب کی بارہ وہ صحیح معنوں میں بدحواس ہوئی تھی۔
’’میں ڈھونڈ دیتی ہوں۔‘‘ مختلف چیزیں الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ یونہی وقت گزاری کر رہی تھی زیب نے خود بھی ہر جگہ ڈھونڈ لیا تھا۔
’’ایک تو جب کسی چیز کی ضرورت ہو تب مجال ہے جو مل جائے تم ڈھونڈ دینا مجھے دیر ہو رہی ہے میں اب چلتی ہوں۔‘‘ آئینے میں اپنا آخری جائزہ لینے کے بعد اس نے جوتے کے اسٹریپ باندھے اور سلور بیگ لے کر چلی گئی، اس کے پارکنگ سے گاڑی نکالنے کی دیر تھی وہ بھی اپارٹمنٹ لاکڈ کرنے کے بعد لفٹ کی جانب بڑھی تھی جب ایک نسوانی آواز پر رکنا پڑا۔
’’ایکسکیوز می۔‘‘ اس نے پلٹ کر دیکھا وہی اسٹور والی سیلز گرل سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی اور اس کے ہاتھ میں وہ براؤن بیگ بھی تھا۔
’’یہ بیگ آپ اسٹور پر بھول گئی تھیں۔‘‘
’’او بہت شکریہ۔‘‘ وہ بیگ تقریباً جھپٹتے ہوئے بولی پھر زپ کھول کر چیک کیا ڈیڑھ ہزار اندر ہی تھے جس پر اس نے بے ساختہ سکون کا سانس لیا تھا۔
’’آپ یہاں کیسے؟‘‘ حریم نے اب کی بار اطمینان سے اس کا جائزہ لیا وہ اس کی ہم ایج تھی، بلو جینز پر اس نے وائیٹ شرٹ اور لانگ کوٹ پہنا ہوا تھا، ہیئر کٹنگ بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے رنگت صاف تھی اور نقوش بھی جاذب نظر تھے۔
’’میں آپ کے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں رہتی ہوں اکثر آپ کو ٹیرس پر کھڑے دیکھا ہے۔‘‘ وہ شاید اس کی آنکھوں کی حیرت بھانپ چکی تھی سو خوشدلی سے وضاحت کر دی۔
’’تھینک گاڈ کہ میں آپ کو یاد رہی ورنہ اسٹور پر خاصا رش تھا۔‘‘
’’اتنا حسین چہرہ کسی کو بھی اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔‘‘ اس کی نظروں میں ستائش تھی لبوں پہ پُر خلوص مسکراہٹ۔
’’شکریہ۔‘‘ وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔
’’میرا نام مالا ہے۔‘‘ لڑکی نے اپنا ہاتھ اس کی سمت بڑھایا تھا۔
’’اور میں حریم۔‘‘ جسے اس نے گرمجوشی سے تھام کر تعارف مکمل کیا اور ساتھ ہی آداب میزبانی بھی یاد آئے تھے۔
’’آؤ میں تمہیں اچھی سی کافی پلواتی ہوں۔‘‘
’’آفر تو بہت اچھی ہے۔‘‘ اور وہ بے تکلفی سے کہتی اس کے ساتھ چلی آئی تھی۔‘‘
٭٭٭
’’حریم، ماہا کی کال آئی تھی میں یونیورسٹی میں تھی اس لئے تمہاری بات نہیں کروا سکی۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی ’’ایک بجے آن لائن ہو جانا۔‘‘ ناشتے کے دوران اچانک اسے یاد آیا تھا سلائس پر مار جرین لگاتی حریم کو ایان کا خیال آ گیا۔
’’شاید اس نے ماہا سے کہا ہو۔‘‘ معمول کے کام نپٹانے کے بعد وہ ٹیرس پر آن کھڑی ہوئی تھی لندن کا موسم آج قدرے خوشگوار تھا برف باری تو نہیں ہو رہی تھی لیکن سرمئی بادلوں کی چادر سی تنی ہوئی تھی اس پر سرد خنک ہوائیں، وہ تو سورج کی شکل دیکھنے کو ترس چکی تھی۔
’’ہم کتنے لکی ہیں جو ہمارے ملک میں ہر موسم ہے اس لئے تو ہماری ذات کے اندر بھی تغیر ہے ورنہ یہاں کے تو لوگ بھی موسم کی طرح ہیں سرد مزاج۔‘‘
’’ہیلو حریم۔‘‘ ساتھ والے ٹیرس کی ریلنگ پر جھکتے ہوئے مالا نے اسے مارننگ وش کیا تھا وہ بھی جواباً اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی تھی۔
مالا کے پیرنٹس کی کچھ عرصہ قبل ایک روڈ ایکسینڈنٹ میں ڈیتھ ہو چکی تھی آج کل وہ اس اپارٹمنٹ میں اکیلی ہی رہتی تھی اسے تو ان لوگوں کے لائف اسٹائل پر حیرت ہوئی تھی فرینڈز، جاب اور تفریح کے سوا ان لوگوں کے پاس شاذو نادر ہی کوئی رشتہ نظر آتا تھا۔
’’آج کہیں گھومنے چلیں۔‘‘ سورج نے بادلوں کی اوٹ سے ہلکی سی جھلک دکھائی تھی اور مالا کا دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔
’’چلو۔‘‘ وہ فوراً مان گئی زیب کی تو اپنی مصروفیات تھیں لیکن وہ اچھی خاصی بوریت محسوس کرنے لگی تھی۔
’’میں چینج کر کے آتی ہوں۔‘‘ کچھ دیر بعد دونوں ایک ساتھ ایلین بلڈنگ کی سیڑھیاں اتر رہی تھیں۔
’’تم آج جاب پر نہیں گئی۔‘‘ روڈ پر واک کرتے ہوئے دونوں نے ایک ایک بھٹہ لیا تھا اور اب کھاتے ہوئے باتوں میں مگن تھیں۔
’’ہاں بس آج میرا آف تھا۔‘‘ اس نے افسردگی سے کہا لیکن حریم کا دھیان اس کی آزردگی سے زیادہ اپنے مفاد کی جانب تھا۔
’’کتنے گھنٹے جاب کرتی ہو؟‘‘
’’آٹھ گھنٹے۔‘‘
اور تمہاری سیلری؟‘‘
’’چھ ہزار پاؤنڈ۔‘‘
’’میں بھی جاب کرنا چاہتی ہوں کیا تم اس سلسلے میں میری کوئی ہیلپ کر سکتی ہو۔‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔‘‘ مالا نے رک کر توصیفی نظروں سے اسے دیکھا ریڈ ہائی نیک جرسی اور بلیک جینز میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی کمر تک آتے اس کے اسٹیپ کٹنگ بال سینے پر بکھرے ہوئے تھے اور لمبا سا اونی مفلر گلے میں جھول رہا تھا۔
’’تم تو اتنی خوبصورت ہو سیلز گرل کی جاب تو تمہیں یوں چٹکیوں میں مل جائے گی۔‘‘
’’لیکن مجھے یہاں کی مقامی زبان نہیں آتی۔‘‘
’’انگلش تو آتی ہے نا۔‘‘
’’ہاں تقریباً۔‘‘
’’تو بس پھر ٹھیک ہے تم کل میرے ساتھ چلنا۔‘‘
’’میں بس چار گھنٹے کی شفٹ کروں گی۔‘‘
’’اوکے جیسے تمہاری مرضی لیکن مجھے تم سے ایک شکایت ہے۔‘‘
’’مجھ سے کیا؟‘‘ اس نے تعجب سے پوچھا۔
’’آج ہماری دیوالی ہے اور تم نے مجھے وش نہیں کیا۔‘‘
’’تم ہندو ہو؟‘‘ آنکھیں پھیلاتے ہوئے وہ بمشکل اپنا جملہ مکمل کر پائی تھی۔
’’ہاں تو۔‘‘ مالا کو اس کا رد عمل عجیب لگا تھا۔
’’نہیں وہ میں نے سمجھا شاید تم مسلم ہو۔‘‘
’’تو کیا اس سے ہماری دوستی پر کوئی اثر پڑتا ہے۔‘‘
’’نہیں ہیپی دیوالی۔‘‘ اس نے فلاور شاپ سے ایک پھول خرید کر اسے وش کیا۔
’’اب میں تمہیں لنچ کرواؤں گی۔‘‘ اس کے انکار کے باوجود وہ اسے کھینچ کر چائینز ریسٹورنٹ میں لے گئی تھی۔
واپس آتے ہوئے کافی ٹائم ہو چکا تھا لیکن آج کل وہ شہروز کی وجہ سے نیٹ آن نہیں کر رہی تھی اس نے پیچھا لیا ہوا تھا کہ وائس بات کروں گا جبکہ اس کے پاس سیل فون نہیں تھا اور روز وہ کوئی نیا بہانہ بھی نہیں بنا سکتی تھی اور اب بھی یہ سوچ کر آئی ڈی سائن ان کیا تھا کہ وہاں چار بج چکے ہیں اور وہ ٹائم آفس میں ہو گا، مگر خلاف توقع اسے آن لائن دیکھ کر وہ شاکڈ رہ گئی تھی۔
’’ویلکم سویٹ حریم۔‘‘
’’تم اس وقت۔‘‘ اس نے ابرو اچکائے۔
’’ہاں میں نے نائیٹ ڈیوٹی کر لی ہے۔‘‘ اس نے مزے سے بتایا۔
’’کیوں؟‘‘ اس کی حیرت میں دو چند اضافہ ہوا تھا۔
’’بس تم نے کہا تھا کہ تم اس ٹائم فری ہوتی ہو اور رات میں آن لائن نہیں ہو سکتی۔‘‘
’’اور تم نے مجھ سے بات کرنے کی خاطر نائیٹ ڈیوٹی کر لی۔‘‘ وہ ہنوز بے یقین تھی۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے معصومیت سے لکھا۔
’’اچھا تم نے کھانا کھا لیا ہے؟‘‘ وہ غائب دماغی سے لکھ رہی تھی ان چند دنوں میں وہ اس کے لئے اتنی اہم ہو چکی تھی کہ اس نے ڈیوٹی ٹائم چینج کر لیا تھا وہ بندہ جو نائن پی ایم سو جاتا تھا اب اس کی خاطر اپنی چوبیس سالہ روٹین لائف کو تبدیل کرتے ہوئے ساری رات جاگے گا۔
’’مائیک میس گیا ہے بس لے کر آتا ہی ہو گا۔‘‘
’’اوکے تم کھانا کھاؤ، مجھے ابھی کسی سے بات کرنی ہے۔‘‘ دوسری جانب ماہا آ چکی تھی سو وہ اسے جلد از جلد فارغ کرنا چاہ رہی تھی۔
’’سنو حریم۔‘‘
’’کہو۔‘‘ وہ رک گئی۔
’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم بس مجھ سے بات کیا کرو اور کسی سے نہیں۔‘‘ اور وہ اس کی فرمائش پر دنگ رہ گئی تھی کتنی شدت تھی ان لفظوں میں اس کی دھڑکنوں میں اک ہنگامہ سا جاگ اٹھا تھا۔
٭٭٭