’’اماں مجھے نوکری مل گئی ہے۔‘‘ شام کے کھانے کے بعد حرمت سب کے لئے چائے بنا کر لائی تھی جب حریم نے اپنا کپ اٹھاتے ہوئے کن اکھیوں سے ابا کو دیکھا جو چائے میں بسکٹ ڈبو ڈبو کر کھا رہا تھا آج کل ابا کو ایک کوٹھی میں رنگ و روغن کا کام ملا ہوا تھا اس لئے گھر میں کافی خوشحالی تھی تین وقت کھانے کے ساتھ چائے بسکٹ، کیک وغیرہ کی عیاشیاں ہو رہی تھیں۔
لیکن اس کی مخاطب اماں تھیں اس نے جان بوجھ کر یہ وقت منتخب کیا تھا باری باری سب کو بتانے سے اچھا تھا ایک ہی وقت میں اعلان کر دیا جائے۔
حسب توقع کسی نے خاص نوٹس نہیں لیا تھا بس اماں نے ہی سرسری دریافت کیا۔
’’کیسی نوکری۔‘‘
’’کڈز اکیڈمی کی میم ہیں رفعت آراء ان کی اکلوتی بیٹی ایل ایل بی کے لئے لندن جا رہی ہے مجھے اس کے ساتھ لندن جانا ہے۔‘‘ کپ کو دونوں ہاتھوں میں گول گول گھماتے ہوئے بہت تحمل سے اس نے نوکری کی وضاحت فرمائی تھی اور اگلے ہی پل سب اپنی اپنی جگہ سے یوں اچھلے جیسے کوئی کنکھجورا دیکھ لیا ہو، حرمت بیچاری کو اتنا زبردست غوطہ لگا تھا ساری چائے چھلک چکی تھی۔
’’تمہارا اس کے ساتھ لندن میں کیا کام۔‘‘ اماں نے کپ فرش پر پٹختے ہوئے آنکھیں کھولیں۔
’’بیس ہزار تنخواہ ہے اور مجھے بس اپارٹمنٹ میں اس کے ساتھ رہنا ہے۔‘‘ آخری جملے پر وہ بے ساختہ نظریں چرا گئی تھی۔
’’حریم!‘‘ ابا کی نظروں میں کیا نہیں تھا رنج و ملال بے یقینی۔
’’بیٹا میں زندہ ہوں ابھی تم لوگوں کو دو وقت کی کما کر کھلا سکتا ہوں۔‘‘
’’ابا دو وقت کا کھانا ہی زندگی کا سامان نہیں ہے ہمارا گھر پکا ہو جائے گا حرمت کا جہیز بن جائے گا ہمایوں کے تعلیمی اخراجات پورے ہو جائیں گے اور میں کون سا ہمیشہ کے لئے جا رہی ہوں بس تین سال کی بات ہے آپ کہا کرتے تھے ناکہ میں آپ کی بیٹی نہیں بیٹا ہوں تو مجھے بیٹا سمجھ کر وداع کریں۔‘‘
’’ارے محلے والے، رشتے دار، کیا جواب دیں گے سب کو کہ جوان لڑکی کو تنہا پردیس بھیج دیا۔‘‘ اماں اس کے جذباتی مکالموں سے ذرہ بھر بھی متاثر نہیں ہوئی تھیں۔
’’تنہا کیوں اماں زیب بھی تو ہے میرے ساتھ۔‘‘ اس نے بے بسی سے وال کلاک کی سمت دیکھا شام کے سات بجنے والے تھے اور میم نے یہی ٹائم دیا تھا آنے کا، اب نہ جانے کہاں رہ گئی تھیں۔
’’حریم تم ہماری خاطر یہ سب مت کرو میرے اور ہمایوں کی قسمت میں جو ہو گا ہمیں مل جائے گا تمہیں کسی کی ملازمہ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ حرمت نے بھی سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر جو خواب اس کی آنکھوں نے دیکھا تھا۔
بڑے بڑے محل نما گھر، گاڑیاں، نوکر اور انواع و اقسام کے کھانوں سے سجے دسترخوان، ان سب کے بعد اس چھوٹے سے گھر میں اور بھی گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔
’’کچھ بھی ہو میں تمہیں اس کام کی اجازت…‘‘ دروازے پر دستک ہوئی تھی ابا کی بات ادھوری رہ گئی وہ جوتا پہنے بغیر مرکزی دروازے کی سمت بھاگی تھی اور پھر سامنے ایک با وقار اور سو برسی خاتون کے ساتھ اندر آتے دیکھا تھا، چھوٹا سا صحن آگے برآمدہ جس کے دائیں سائیڈ کچن تھا اور سامنے ایک بڑا سا کمرہ، صحن میں ایک جانب چھت پر جانے کے لئے نیم پختہ سیڑھیاں تھیں وہ سب اس وقت برآمدے میں ہی چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے تھے حرمت اٹھ کر ان خاتون کے لئے اندر سے کرسی لے آئیں جبکہ ابا تو انہیں دیکھ کر اپنی جگہ سے بے ساختہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
’’بی بی صاحبہ آپ۔‘‘ رفعت آراء جو شائستگی سے سلام کرنے کے بعد اب باری باری اماں، حرمت اور ہمایوں کے چہرے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھیں کہ اس چھوٹے سے کچے مکان میں کتنے حسین لوگ رہتے ہیں ابا کی آواز پر چونک اٹھیں۔
’’ارے احمد علی تم۔‘‘ اب کی بار ان کی آنکھوں میں بھی شناسائی کے رنگ چمکے تھے اگلے ہی پل قدرے خوش اخلاقی سے ابا کا حال احوال بھی دریافت کیا گیا تو حرمت اور حریم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں سوالوں کا تبادلہ کرتے ہوئے لاعلمی سے شانے اچکا دئیے تھے، اماں الگ حیرت زدہ تھیں۔
’’اور صاحب کیسے ہیں۔‘‘
’’ان کا تو انتقال ہو چکا ہے۔‘‘ وہ افسردگی سے بولیں تو ماحول چند لمحوں کے لئے سوگوار سا ہو گیا تھا پھر وہ ان کے بھائی اور بچوں وغیرہ کے متعلق سوالات کرنے لگے تھے حرمت اس دوران چائے بنا لائی تھی۔
’’تم نے خواہ مخواہ تکلف کیا بھلا وہ کہاں ہمارے گھر کی چائے نوش فرمائیں گی۔‘‘ حریم نے ٹوکا تھا لیکن رفعت آراء نے شکریہ کے ساتھ کپ تھام لیا ساتھ ہی ابا کو بھی ان کا تعارف کروانے کا خیال آیا تھا۔
’’بہت پرانی بات ہے جب بی بی صاحبہ کالج جایا کرتی تھیں اور میں ان کے ہاں ڈرائیور کی نوکری کرتا تھا۔‘‘ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد رفعت آراء نے اپنا مطالبہ پیش کیا تھا اور اب تو ابا انکار کر ہی نہیں سکتے تھے اماں کی بولتی بھی ہزار ہزار کے بیس نوٹوں نے بند کر دی تھی۔
٭٭٭
وہ سہ پہر کے قریب گھر میں داخل ہوا تو اماں اور ماہا کپڑوں کا ڈھیر پھیلائے بیٹھی تھیں جنہیں ماہا سلیقے سے تہہ لگانے کے بعد پیک کرتے ہوئے اب ایک ڈبے میں چوڑیوں کے سیٹ بنا کر رکھ رہی تھی۔
’’کہیں جا رہے ہیں آپ لوگ۔‘‘ اس کے استفسار پر اماں اور ماہا نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا پھر اماں نے گولڈ کی رنگ اسے دکھاتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ انگوٹھی ہے تین جوڑے، جوتے، میک اپ کا سامان، چوڑیاں، مہندی، گجرے وغیرہ اتنا کچھ کافی ہے تمہاری منگنی کے لئے۔‘‘
’’میری منگنی۔‘‘ وہ شاکڈ ہی تو رہ گیا تھا۔
’’کیا چچا کو حرمت کا رشتہ مل گیا۔‘‘ دونوں گھرانوں میں یہی طے تھا کہ جیسے ہی حرمت کا رشتہ ملے گا دونوں بہنوں کی ساتھ ہی رخصتی کر دیں گے سو اس کا قیاس یہی تھا۔
’’نہیں حریم کچھ عرصے کے لئے لندن جا رہی ہے تو ہم نے سوچا جانے سے قبل شگن کی رسم ادا کر دی جائے۔‘‘
’’لندن۔‘‘ اس نے الجھن آمیز نگاہوں سے ماہا کو دیکھا۔
’’ہاں وہ ہائیر اسٹڈی کے لئے لندن جا رہی ہے اس کی دوست نے اسے اسپانسر کیا ہے کہہ رہی تھی ایل ایل بی کرے گی۔‘‘ ایان کے گھر والوں کو یہی بتایا گیا تھا۔
’’یہ کون سی دوست ہے اس کی۔‘‘ وہ پیشانی مسلتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ گیا تھا بات ہی کس قدر انوکھی، عجیب اور ناقابل یقین تھی۔
منڈیر پر جھکتے ہی اس کی نگاہ بھٹکتے ہوئے برآمدے تک گئی تھی جہاں وہ مزے سے بیٹھی مہندی لگوا رہی تھی۔
’’حرمت!‘‘ اس نے بآواز پکارا تو حریم نے گھٹنوں پر رکھا سر مزید جھکا لیا، سب کا سامنا کرنا آسان تھا مگر اسے وہ بھلا کیسے منائے گی۔
’’جی فرمائیے۔‘‘ حرمت نے کچن سے سر نکال کر پوچھا۔
’’اس سے کہو اوپر آ کر میری بات سنے۔‘‘ گویا اب اس کا نام لینا بھی گوارہ نہیں تھا حریم نے موڈ کا اندازہ لگاتے ہوئے حرمت کو آنکھوں کے اشارے سے منع کر دیا تھا۔
’’کیوں آپ شام تک انتظار نہیں کر سکتے، ویسے بھی آج آپ کا پردہ ہے حریم سے۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
’’اور یہ شاہی فرمان کس نے نافذ کیا ہے۔‘‘ اس نے ابرو اچکائے تو حرمت نے مصنوعی کالر کھڑے کرتے ہوئے شانے اچکا دئیے۔
’’خود کو جلال الدین اکبر تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس سے کہو اوپر آ کر میری بات سنے۔‘‘ اب کی بار اس کا لہجہ پہلے کی نسبت خاصا درشت لگا حریم کو متوجہ ہونا ہی پڑا۔
’’جی کیا کہنا ہے۔‘‘ اس نے خاصا تابعداری کا مظاہرہ کیا تھا کوئی اور وقت ہوتا تو وہ ضرور نثار ہو جاتا مگر اس وقت مزاج بہت گرم تھا اور اسے یہ شوخیاں ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھیں۔
’’یہ لندن کا کیا چکر ہے۔‘‘
’’میری دوست…‘‘
’’کون سی دوست ایسی راتوں رات پیدا ہو گئی ہے جو تمہیں اپنے ساتھ لندن لے کر جا رہی ہے۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے خوب چبا چبا کر بولا تھا۔
’’تم میری سب دوستوں سے کہاں واقف ہو کالج میں میرے ساتھ پڑھتی تھی ضوباریہ احمد گیلانی اور کیا حرج ہے اگر میں باہر جا کر پڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’پہلے تو تمہارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘‘ اس نے جرح کی۔
’’تو اب بن گیا ہے نا۔‘‘ اس نے لاپرواہی سے کہا۔
’’حریم تم پلیز مت جاؤ۔‘‘ کچھ نہ سوجھا تو وہ بڑی منت سے بولا تھا۔
’’مجھے اپنا کیرئیر بنانا ہے ساری عمر کنویں میں پڑے مینڈک کی مانند زندگی نہیں گزار سکتی۔‘‘
’’حریم تم سمجھتی کیوں نہیں ہو۔‘‘ وہ بے بسی سے بولا۔
’’تو تم سمجھ جاؤ۔‘‘ اس کی بے نیازی عروج پر تھی ایان نے کچھ پل رک کر شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھا اور پھر پلٹ کر سیڑھیاں اتر گیا گویا یہ ناراضگی کا واضح اظہار تھا وہ کچھ دیر کھڑی اس کی پشت کو گھورتی رہی پھر سر جھٹک کر نیچے چلی آئی گویا ایک بڑا معرکہ سر ہوا تھا۔
شام کو چھوٹی سی تقریب میں منگنی کی رسم ادا کر دی گئی تھی ایک ہفتے بعد اس کی فلائیٹ تھی اور اس پورے ہفتے میں وہ نہ تو اسے دکھائی دیا تھا اور نہ ہی ملنے آیا تھا اور اسے کبھی بھی ایان کی ناراضگی کی فکر نہیں ہوئی تھی وہ خود خفا ہوتا تھا اور پھر خود مان بھی جاتا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے کیسے منایا جائے۔
٭٭٭
’’حریم ہم جانتے ہیں کہ تم وہاں پڑھائی کے لئے نہیں نوکری کے لئے جا رہی ہو، وعدہ کرو کہ ہم جب بھی واپس بلائیں تم بغیر کوئی ضد کیے آ جاؤ گی۔‘‘ وہ اپنا سامان چیک کر رہی تھی جب اماں اس کے پاس چلی آئیں انہیں نہ جانے کون کون سے خدشے وہم لاحق ہو چکے تھے۔
’’اف یہ مڈل کلاس ماؤں کی ایموشنل بیلک بلیک۔‘‘ وہ اچھی خاصی جز بز ہوئی۔
’’اماں تمہیں مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے جب اس گھر کے سب مسائل حل ہو جائیں گے، میں لوٹ آؤں گی یہ نوکری میں نے اپنی خوشی سے نہیں کی ہے اور نہ ہی مجھے دربدری کا شوق چڑھا تھا۔‘‘ وہ خوب بگڑ کر بولی تھی۔
’’اچھا میرا یہ مطلب نہیں تھا دھیان سے رہنا اور اپنا خیال رکھنا۔‘‘ وہ اس کا مختصر سا سامان اٹھا کر دروازے تک چھوڑنے آئی تھیں، دروازے کے باہر میڈم رفعت آرا کا ڈرائیور گاڑی لئے کھڑا تھا۔
حرمت اور ماہا سے گلے ملنے کے بعد تایا، ابا، اماں اور تائی اماں کی دعائیں لیتے ہوئے وہ آگے بڑھی تو ہمایوں نے اس کی چادر کا کونہ تھام لیا۔
’’آپا میں اپنی ساری مرغیاں تمہیں دے دوں گا تم ان کی بریانی بنا لینا۔‘‘ بہت ضبط کے باوجود بھی وہ اس کی معصومیت بھری رشوت پر رو پڑی تھی۔
’’میں جلدی واپس آؤں گی تم دھیان سے پڑھنا۔‘‘ اس کا ماتھا چومتے ہوئے اس نے نرمی سے اپنی چادر چھڑوائی تو نگاہ بھٹکتے ہوئے اوپر اٹھ گئی تھی جہاں وہ سرخ آنکھیں لئے بہت ہی بے بسی اور وارفتگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
گاڑی میں بیٹھ کر اس نے ایک نظر سب کو دیکھا تو جانے کیوں ایسا لگا تھا جیسے وہ آخری بار انہیں دیکھ رہی ہو ایک لمحے کو اس کا دل سکڑ کر پھیلا تھا مگر دوسرے لمحے کا احساس زیادہ مسرت آمیز تھا، وہ آج پہلی بار اپنی پسند کی گاڑی میں بیٹھی تھی۔
٭٭٭