بڑے ابا کے گھر داخل ہوتے ہی لاؤنج میں اس کا پہلا سامنا ماہا سے ہوا تھا جو دن کے گیارہ بجے ناشتہ کرنے میں مصروف تھی، حریم نے میز پر سجے لوازمات پر نگاہ دوڑائی۔
بریڈ، انڈا، جیم، مائیو نیز، کیچپ، شامی اور اورنج جوس، کتنے ٹھاٹ تھے اس کے جبکہ وہ آج پھر بھنڈیوں کے ساتھ سوکھی روٹی کے چند نوالے کھا کر آئی تھی گھی ختم ہو چکا تھا اور ابا آج کل پھر سے بیروزگار تھے۔
’’ناشتہ کر لو۔‘‘ اس نے پر خلوص آفر کی۔
’’نہیں شکریہ میں کر چکی ہوں۔‘‘ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے اخبار اپنے سامنے پھیلا لیا تھا وہ آئی بھی اخبار دیکھنے تھی سوچا تھا فراغت سے اچھا ہے کوئی جاب کر لی جائے، جلد ہی اسے اپنی مطلوبہ ویکنسی مل گئی تھی۔
ایک فیکٹری میں ایڈمن آفیسر کی ضرورت تھی ایڈریس نوٹ کرنے کے بعد اس نے اخبار واپس رکھ دیا تب تک ماہا بھی ناشتہ کر چکی تھی اور برتن اٹھا رہی تھی۔
جب اس کی نگاہ نئے زیب تن کیے خوبصورت رنگوں اور ڈیزائن سے مزین کلاسک لان کے سوٹ سے ٹکرائی تو ایک نئے خیال کے تخت اس نے ماہا کو پکارا تھا۔
’’تم نے مجھ سے کچھ کہا۔‘‘ وہ چونکی۔
’’نہیں تمہارے بھوت سے۔‘‘ وہ اس ایکٹنگ پر اچھی خاصی جز بز ہوئی تھی۔
’’میں نے سمجھا محترمہ محض اخبار سے ملاقات کرنے آئی تھیں۔‘‘ اب کی بار اس کا لہجہ طنزیہ تھا حریم کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’مجھے انٹرویو کے لئے جانا تھا تمہارا یہ والا سوٹ پہن جاؤں۔‘‘ اس کی وارڈ روب، پرفیوم، جیولری، میک اپ وغیرہ ہمیشہ سے ہی وہ بڑے استحقاق سے استعمال کیا کرتی تھی، ماہا نے ایک نظر اپنے نئے سوٹ کو دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔
’’ٹھیک ہے میں دھوکر استری کر دوں گی لیکن تم جاب کرنا چاہ رہی ہو۔‘‘
’’ہاں بس دعا کرنا میرا سلیکشن ہو جائے آخر خاندان بھر کی اکلوتی گریجویٹ ہوں اب اتنی تعلیم چولہے میں جھونکنے کے لئے حاصل نہیں کی تھی۔‘‘ فخریہ کالر کھڑے کرتے ہوئے اس نے اخبار کا رول بنایا اور اس کے سر پر مارتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی در اصل یہ بھی اس پہ ایک طرح کا بھرپور طنز تھا کیونکہ وہ ایف اے کے بعد کوکنگ کی کلاسز لے رہی تھی اور تعلیم کے سلسلے کو اس نے خیر آباد کہہ دیا تھا۔
گھر آئی تو اماں کو آنٹی ثریا کے ساتھ باتوں میں مشغول پاتے ہی سلام جھاڑ کر اس نے فوراً کچن کا رخ کیا تھا اور اندازے کے عین مطابق شلف پر پڑا پائن ایپل کیک کا ڈبہ بھی نظر آ گیا تھا۔
آنٹی ثریا اس کے ابو کی فرسٹ کزن تھیں ان کے شوہر کا خوب چلتا ہوا کاروبار تھا ایک ہی بیٹا تھا فیصل، وہ خود اگرچہ قابل رشک صحت کی مالک تھیں لیکن وہم کی مریضہ تھیں۔
آئے روز انہیں مختلف بیماریوں کے وہم ستاتے تھے آج کل یہ وہم لاحق تھا بقول ان کے رشتہ داروں نے کوئی تعویذ وغیرہ کروا دئیے ہیں یا پھر کسی جادو ٹونے کا چکر تھا۔
وہ انہیں سردرد رہنے لگا تھا اس وجہ سے وہ روز ان کے ہاں قیام کرنے آتی تھیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ جادو ان کے گھر پر ہوا ہے یا خود ان پر۔
لیکن کچھ بھی ہو حریم کے لئے ان کی آمد بے حد خوشگوار ہوا کرتی تھی کیونکہ ان کی طبیعت بے حد چٹوری تھی کبھی انہیں گول گپے منگوا کر کھلاتیں تو کبھی آئسکریم، برگر، پیزا وغیرہ۔
پھر جانے سے قبل ہزار کا نوٹ زبردستی حریم کو تھمانا نہیں بھولتی تھیں، لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ ان کے نخرے بھی خوب تھے جو کہ حرمت بخوشی اٹھا لیا کرتی تھی اب بھی پہلے اس نے کیک کے ساتھ چائے سرو کی تھی لیکن ساتھ ہی ان کا موڈ بدل گیا تھا۔
’’اتنی گرمی میں چائے تو رہنے ہی دو ملک شیک بنا لاؤ کریم والا۔‘‘
’’ویسے حرمت آنٹی آج کل لڑکیاں دیکھ رہی ہیں فیصل بھائی کے لئے، کیسا ہو اگر وہ تمہیں بہو بنا لیں۔‘‘ کیک کے ساتھ مکمل انصاف کرتے ہوئے اس نے چٹکلا چھوڑا تو حرمت نے پہلے تو پلٹ کر اسے گھورا اور پھر ہاٹ پاٹ کے اوپر رکھا ویڈنگ کارڈ اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
’’تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے انہیں لڑکی مل چکی ہے۔‘‘ اور وہ کیک کھانا بھول گئی تھی۔
’’تو کیا وہ سب میرا وہم تھا۔‘‘ اس نے اکثر اک ان کہی سی دونوں کی روشن آنکھوں میں بولتے دیکھی تھی، جب بھی وہ آنٹی کو لینے آیا تو حرمت کے ہاتھ کی چائے ضرور پی کر جاتا تھا اور اب… بے دلی سے سوچتے ہوئے اس نے کارڈ واپس پٹخ دیا۔
٭٭٭
دو بیڈ روم کے فلیٹ کو ناقدانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اس نے اپنا سامان سیٹ کرنا شروع کر دیا تھا سوٹ کیس میں تھا ہی کیا چند سوٹ کچھ کتابیں اور ایک پینٹنگ وہ پینٹنگ اس نے لندن کی مشہور آرٹ گیلری سے خریدی تھی اور ہر جگہ وہ اس پینٹنگ کو اپنے ساتھ رکھتا تھا یہاں تک کہ پچھلے دنوں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پیرس ٹرپ پر گیا تھا تب بھی پینٹنگ ساتھ تھی۔
اس پینٹنگ میں ایک چہرہ تھا اور وہ چہرہ اس کا عشق تھا، اسے آج بھی یاد تھا وہ آرٹ گیلری میں مختلف پورٹریٹ دیکھتے ہوئے اس تصویر کے سامنے آ کر چونک سا گیا تھا پھر اس نے ایک عجیب حرکت کی تھی۔
وہ آرٹ گیلری سے نکل کر اپنی گاڑی تک آیا تھا اور ڈیش بورڈ پر رکھا مرر اٹھا کر واپس گیلری میں چلا آیا تھا اور مرر کو تصویر کے ساتھ رکھ دیا تھا۔
اب وہ تصویر میں پینٹ کیا گیا چہرہ اور اپنا چہرہ ایک ساتھ دیکھ سکتا تھا، مگر وہ فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ دو چہروں میں سے کون سا چہرہ زیادہ خوبصورت ہے، یہ سوال اس نے وہاں کھڑے چند لوگوں سے بھی کیا تھا۔
کچھ جواب میں محض مسکرا دئیے تھے کچھ نے دونوں کو سیم ریمارکس دئیے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو الجھ گئے تھے اور فیصلہ مشکل ہو گیا تھا۔
یہ پینٹنگ اس نے اپنے بیڈ روم کے بالکل فرنٹ والی دیوار پر لگائی تھی وہ اٹھتے سوتے جاگتے آتے جاتے اور کبھی بے خیالی میں اس پینٹنگ کو دیکھا کرتا تھا۔
اور اب تو اس کی ایسی عادت ہو چکی تھی جیسے وہ اس کے لئے کوئی ناگزیر شے ہو لیکن اس کے گھر والے اس قصے کے متعلق ہنوز لاعلم تھے اور پھر کبھی کوئی اس کے بیڈ روم میں آتا بھی نہیں تھا۔
’’شہروز میں کھانا لے آیا ہوں آ جاؤ تم بھی۔‘‘ مائیک کی آواز پر وہ جلدی جلدی سارا سامان سمیٹ کر باہر نکل آیا تھا مائیک سے اس کی ملاقات آج ہی ہوئی تھی وہ فلیٹ میں اس کے ساتھ تھا۔
٭٭٭
وزیٹنگ روم میں اس کے علاوہ گیارہ لڑکیاں موجود تھیں جو تعلیم قابلیت اور تجربے میں اس سے کہیں زیادہ تھیں اسے لگا وہ یہاں تین گھنٹے بیٹھ کر محض اپنا وقت ضائع کرے گی سو وہ دفتر سے باہر نکل آئی تھی راستے میں کڈز اکیڈمی کے سائن بورڈ پر اس کی نظر پڑی تو اس نے یہاں قسمت آزمائی کا سوچا۔
گارڈ اسے آفس کا راستہ دکھا کر خود واپس گیٹ پرجا چکا تھا گلاس ڈور پر ناک کرنے کے بعد وہ اجازت لے کر اندر داخل ہوئی تھی۔
’’مما آپ کو بتا رہی ہوں کہ مجھے ہاسٹل میں نہیں رہنا ڈسپلن روٹین لائف بہت بورنگ ہوتی ہے۔‘‘ وہ لڑکی شاید میم کی بیٹی تھی دونوں ماں بیٹی میں خوب بحث ہو رہی تھی وہ میم کے اشارے پر چیئر پر بیٹھ چکی تھی لیکن ابھی ان کا شاید اس کی جانب متوجہ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
آفس کا انٹرئیر شاندار تھا وہ دونوں کی مکالمہ بازی سے لاتعلق دیواروں پر لگی کلاسیکل پینٹنگ کا جائزہ لینے میں مگن ہو چکی تھی۔
’’اپارٹمنٹ میں رہنے کی اجازت ایک ہی صورت ملے گی اگر تم رحمت بوا کو ساتھ لے جاؤ۔‘‘ رفعت آراء کا لہجہ اب کی بار قطعی ہو چکا تھا۔
’’مما آپ سمجھتی کیوں نہیں ہیں مجھے اولڈ لوگوں کی کمپنی نہیں پسند۔‘‘ وہ زچ آ کر بولی لیکن رفعت آراء اپنی جانب سے بحث سمیٹ کر اب حریم کی سمت متوجہ ہو چکی تھی۔
’’جی فرمائیے۔‘‘
’’میں جاب کے لئے آتی ہوں۔‘‘ وہ اپنی سی وی ٹیبل پر رکھتے ہوئے شائستگی سے گویا ہوئی تو زیب نے اک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی تھی اور پھر تو گویا پلکیں جھپکنا بھول گئی، وہ خوبصورت نہیں بے تحاشا خوبصورت تھی۔
’’اس وقت تو کوئی ویکنسی خالی نہیں ہے جب ضرورت ہوئی آپ سے رابطہ کر لیں گے۔‘‘ وہی پروفیشنل سا جواب، اس کے چہرے پر مایوسی اتر آئی وہ اٹھنے کا ارادہ کر رہی تھی جب زیب کے استفسار پر ٹھٹک کر رک گئی۔
’’آپ میرے ساتھ لندن چلیں گی۔‘‘
’’جی۔‘‘ اس کا انداز استفہامیہ تھا۔
’’سیلری آپ کی مرضی کی ہو گی اور کام بھی کچھ زیادہ نہیں ہے اپارٹمنٹ کی صفائی، کھانا وغیرہ، بنانا اور میرا خیال رکھنا۔‘‘
تو گویا وہ اسے ہاؤس میڈ کی جاب آفر کر رہی تھی حریم کا چہرہ توہین کے باعث سرخ ہو گیا تھا وہ بغیر کوئی جواب دئیے اٹھ کر چلی آئی تھی راستہ بھر اس کا موڈ بے حد خراب رہا تھا، گھر آنے کے بعد وہ کھانا کھائے بغیر ہی سو گئی تھی اور پھر اس کی آواز حرمت کی دبی دبی سسکیوں پر کھلی، وہ بستر سے اتر کر اس کے پاس چلی آئی تھی۔
’’کیوں رو رہی ہو۔‘‘
’’نہیں تو۔‘‘ وہ آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھ گئی حریم نے اس کا بازو کھینچ کر واپس بٹھایا تھا۔
’’مجھے نہیں بتاؤ گی۔‘‘
’’اماں میری شادی کا سوچ رہی ہیں۔‘‘
’’وہ موٹر مکینک۔‘‘ حریم نے تو سنتے ہی ہنگامہ اٹھا دیا تھا، تن فن کرتی اماں کے سر پہنچی، حرمت کی پسند وہ جانتی تھی فیصل نہ سہی مگر کوئی اس کے معیار کا بھی تو ہو۔
’’کیا کمی ہے حرمت میں اماں جو سر سے بوجھ کی طرح اتار کر پھینک رہی ہو، میں کسی بھی صورت حرمت کی شادی اس جگہ نہیں ہونے دوں گی وہ خوبصورت ہے پڑھی لکھی ہے، ہنر مند، سلیقہ شعار، مہذب سلجھی ہوئی با کردار، اس جاہل ان پڑھ واجبی سی شکل کے مالک اختر کا کوئی جوڑ نہیں ہے اس کے ساتھ اور پھر اس کے گھر کا ماحول اس کی اماں تو پوری خرانٹ لگتی ہے، اس پر تین نندیں باقی کی عمران کا جہیز اکٹھا کرنے میں گزر جائے گی۔‘‘
’’یہ تمہارے سوچنے کی باتیں نہیں ہیں اور نہ ہی تو میری ماں ہے جو میں تجھ سے مشورے کرتی پھروں۔‘‘ اماں نے خشمگیں نظروں سے اسے گھورتے ہوئے خوب ٹکا سا جواب دیا تھا مگر وہ خائف ہوئے بغیر بولی۔
’’اچھا تو وہ آ کر دکھائیں ہمارے گھر بے عزتی کر کہ باہر نکالوں گی۔‘‘
’’ایک معمولی رنگ ساز ہے تیرا باپ، اس کی کوئی مل اور فیکٹریاں نہیں چل رہیں جو تم لوگوں کے لئے محلوں سے رشتے آئیں گے کتنی بار سمجھایا ہے اپنی اوقات میں رہ کر بات کیا کر۔‘‘ اماں کا جملہ اسے جیسے کسی تازیانے کی طرح لگا تھا وہ ٹھپ ٹھپ کرتی سیڑھیاں چڑھ گئی، دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔
’’آپ میرے ساتھ لندن چلیں گی۔‘‘ دور نظر آتی بلند و بالا عمارتوں کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک فیصلہ کر لیا تھا۔
٭٭٭