کچن میں آ کر ہاٹ پاٹ میں جھانکا تو ایک روٹی مل گئی تھی مگر کل رات بننے والی ماش کی دال کا باؤل خالی تھا بھوک سے برا حال تھا جس پر اچھا خاصا خوشگوار موڈ یک لخت ہی ناگوار ہوا تھا۔
’’اماں !‘‘ وہ وہاں سے چلائی۔
’’کیا آفت آن پڑی ہے۔‘‘ بھنڈیاں کاٹتی اماں نے برآمدے سے جواب دیا۔
’’صبح سے بھوکی ہوں کسی نے اتنا خیال نہ کیا کہ تھوڑا سالن ہی رکھ دے بس سب کو اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کی فکر ہوتی ہے۔‘‘ کچن کے دروازے میں آ کر وہ شر ربار نظروں سے حرمت کو گھورتے ہوئے غرائی تھی۔
’’ہاں دیگ بنا کر رکھی تھی نا تم نے جو تیسرے پہر تک چلتی۔‘‘ حرمت سے یہ الزام ہضم نہیں ہوا تھا وہ تو خود اچار سے کام چلا کر بیٹھی تھی اور خاصی تپی ہوئی بھی تھی۔
’’اتنے نصیب کہاں کہ دیگیں پکائیں۔‘‘ وہ با آواز بڑبڑائی جو اماں کو خاصا ناگوار گزرا تھا۔
’’ارے خدا کا شکر ادا کرو کہ دو وقت کی عزت سے دے رہا ہے۔‘‘
’’اونہوں عزت۔‘‘ وہ نحوست سے سر جھٹکتے ہوئے دوبارہ کچن میں غروب ہو گئی۔
’’غربت میں بھی بھلا کوئی عزت ہے۔‘‘ تمام برتن کھنگالنے کے بعد ایک انڈا دستیاب ہو چکا تھا وہ پیاز کاٹ کر واپس پلٹی تو انڈا غائب تھا۔
’’مرغیوں کو روز میں روٹی بھگو کر ڈالتا ہوں اس کا پنجرہ بھی میں صاف کرتا ہوں اور یہ انڈا تو میں نے تین دن سے چھپا کر رکھا تھا۔‘‘ ہمایوں نے دروازے کی اوٹ سے اطلاع دی اور جھپاک سے غائب۔
اس نے ریک میں رکھے سارے برتن ہاتھ مار کر گرائے اور سرتاپا چادر تان کر لیٹ گئی تھی، غصہ تھا کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
’’صبر کر لو ذرا دیر ابھی بھنڈیاں چڑھانے لگی ہوں۔‘‘ اماں نے اطلاع دی لیکن انڈے سے زیادہ غصہ تو اسے بھنڈیوں کا تھال دیکھ کر آیا تھا جو سامنے والوں نے اپنے صحن کے ایک جانب لگائی ہوئی تھیں اور اماں کو ہر دوسرے دن مفت میں مل جاتی تھیں۔
’’حریم۔‘‘ حرمت نے دوبارہ آواز لگائی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
’’اچھا تو اٹھ جاؤ نا دیکھو ماہا تمہارے لئے کیا لائی ہے۔‘‘ حرمت کی آواز پہ اسے چادر کا کون ہٹانا ہی پڑا تھا بھاپ اڑاتی بریانی کی پلیٹ سامنے تھی۔
’’ان لوگوں کو بھی آج کل شو آف کرنے کا بخار چڑھا ہوا ہے کچھ بھی اچھا بنا لیں اس کی خوشبو سے ہمارے معدوں پر ضرور ستم ڈھانا ہوتا ہے۔‘‘
’’حریم بہن ہے وہ ہماری اور تم سے تو اتنا پیار کرتی ہے۔‘‘ حرمت کو خاصا برا لگا تھا، سو فوراً ماہا کی حمایت کر ڈالی جس پر وہ مزید چڑ گئی تھی۔
’’تمہیں نہیں پتہ سب ڈرامے ہیں اس کے۔‘‘
’’لگتا ہے پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے تم بریانی کھاؤ غصہ بعد میں کر لینا۔‘‘
’’دیکھا نہیں تم نے اس بار اس نے لان کے پورے پانچ سوٹ لئے ہیں جب دیکھو نیا جوڑا پہن کر چیزوں کے بہانے آ جاتی ہے شوخیاں بگھارنے، اس سے تو اچھا تھا تائی اماں مجھے گو دلے لیتی۔‘‘ تو یہ تھا اصل غصہ، حریم کی ہنسی چھوٹ گئی۔
’’ارے تمہیں انہوں نے بہو بنانے کے لئے رکھ چھوڑا تھا ماہا سے کیوں جیلس ہو رہی ہو وہ تو وہاں چند دنوں کی مہمان ہے پھر سسرال چلی جائے گی اصل گھر تو وہ تمہارا ہے۔‘‘
اس کے ابا احمد علی رنگ ساز تھے کبھی کام مل جاتا تھا اور کبھی کئی کئی دن یونہی بیروزگاری میں گزر جاتے تھے جبکہ اس کے تایا ابا حسن علی واپڈا کے محکمے میں سرکاری ملازم تھے ان کا ایک ہی بیٹا ایان تھا ایان کی پیدائش کے دوران کچھ ایسی پیچیدگیاں ہو گئی تھیں کہ تائی اماں دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی تھیں جبکہ احمد علی کے گھر حرمت کے دو سال بعد حریم اور ماہا پیدا ہوئیں تو تائی اماں نے ماہا کو گود لے لیا تھا، ہمایوں ان دونوں کے سات برس بعد پیدا ہوا تھا۔
ماہا نے ان بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ خوشحال حالات میں پرورش پائی تھی اور اب تو ایان کو بھی بینک میں اچھی پوسٹ پر جاب مل گئی تھی جبکہ ان کے حالات جوں کےتوں برقرار تھے جن میں حریم کے سوا کسی کو خاص شکایت بھی نہیں تھی لیکن وہ بچپن سے ہی اپنی ہر چیز کا موازنہ ماہا سے کرتی آ رہی تھی سو فطری طور پر اس سے حسد محسوس کرتی تھی۔
’’یہ ہمایوں سے کہو بیگ لے کر اندر آئے۔‘‘ باہر نکلی حرمت سے کہہ کر وہ اب بریانی کی بھاپ اڑاتی پلیٹ کی سمت متوجہ ہو چکی تھی۔
٭٭٭
’’ماموں کب سے آپ کا ویٹ کر رہی ہوں کہاں رہ گئے تھے۔‘‘ لاؤنج کی آخری سیڑھی پر کھڑی زیب منتظر سی سیڑھیاں اترتے ہوئے خفگی سے بولی مگر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ڈرائیو وے پر لے آئے، راستے میں ایک دو بار اس نے استفہامیہ نگاہوں سے ممانی کو دیکھا تھا مگر انہوں نے مکمل لا تعلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاعلمی سے شانے اچکا دئیے تھے اور اب سامنے وائیٹ ہنڈا سوک کھڑی تھی۔
’’یہ رہا تمہارا برتھ ڈے گفٹ۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کی رنگ اسے تھمائی تو وہ فرط جذبات سے مغلوب ہو کر ان کے سینے سے آن لگی تھی۔
’’تھینک یو سو مچ۔‘‘
’’بھائی جان اتنے مہنگے گفٹ کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ مما نے دیکھتے ہی اعتراض کیا تھا۔
’’ایک ہی لاڈلی سی بھانجی ہے میری۔‘‘ انہوں نے مما کا اعتراض چٹکیوں میں رد کر دیا تھا اور پھر اسے دیکھتے ہوئے بولے۔
’’ہو جائے ایک فاسٹ ڈرائیو۔‘‘
’’وائے ناٹ۔‘‘ اس نے شانے اچکا کو ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی تھی۔
’’بس کالونی کا چکر لگا کر آ جاتیں میں کھانا لگوانے والی ہوں۔‘‘ مما وارننگ دیتی ممانی جان کے ساتھ لاؤنج کی سیڑھیاں چڑھ گئیں تھیں وہ بھی کھانا لگنے تک کالونی کا چکر لگا کرو اپس آ چکے تھے چاکلیٹ کیک پر لگی موم بتیاں جلاتے ہوئے مہروز نے ان کی گنتی شروع کر دی تھی۔
’’زیبی یہ تو اٹھارہ ہیں۔‘‘
’’تو۔‘‘ اس نے ابرو اچکائے۔
’’ڈیڈ آپ کو یاد ہے یہ تین سال قبل بھی اٹھارہ ہی تھیں۔‘‘
’’مہروز پٹ جاؤ گے مجھ سے۔‘‘ وہ اس کی بات پر تلملا اٹھی۔
’’سیدھا حساب بھی کیا جائے اگر تو سولہ میں میٹرک اٹھارہ میں انٹر اور بیس میں گریجویشن دو موم بتیاں کم ہیں۔‘‘
’’تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے میں نے ڈائریکٹ گریڈ ون میں ایڈمیشن لیا تھا۔‘‘
’’اچھا بھئی چھوڑو یہ فضول بحث اور کیک کاٹو۔‘‘ مما نے دونوں کو سیز فائر کروایا تو وہ مہروز کو منہ چڑاتے ہوئے موم بتیاں بجانے لگی تھی۔
’’گریجویشن کے بعد کیا ارادہ ہے۔‘‘ کھانے کے دوران ماموں نے سوال کیا تھا۔
’’میں ایل ایل بی کرنا چاہ رہی تھی۔‘‘
’’میرا خیال ہے لندن آکسفورڈ یونیورسٹی سے پروفیشنل ڈگری حاصل کرو، باہر کی ڈگری کی ویلیو بھی زیادہ ہے اور اسکوپ بھی۔‘‘
’’آپ تو برمنگھم میں ہیں یہ لندن میں اکیلی کیسے رہے گی۔‘‘ مما کے دل کو کچھ ہوا تھا ویسے بھی شوہر کے انتقال کے بعد زیب ہی سے ان کے گھر رونق تھی، وہ بھلا کیونکر سات سمندر بھیج دیتیں۔
’’اکیلی کیوں ہاسٹل کس لئے ہیں۔‘‘ ماموں کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہوا کرتا تھا زیب کی ضد اور بھائی کے اصرار پر انہیں ہی ہار تسلیم کرنا پڑی تھی۔
٭٭٭
اگلے روز ماموں کی فلائیٹ تھی انہیں سی آف کرنے کے بعد مما اپنے مانٹیسوری سکول چلی گئی تھیں اور اس کا ارادہ لمبی تان کر سونے کا تھا مگر پی ٹی سی ایل کی متواتر بجتی گھنٹیوں پر متوجہ ہونا پڑا تھا۔
’’ہیلو۔‘‘ وہ جمائی روکتے ہوئے بولی۔
’’یار کیوں میری مما اور ڈیڈی پر قبضہ جمائے بیٹھی ہو انہیں ریٹرن ٹکٹ تھما کر جہاز میں بٹھا دو میں ایک ہفتہ ان کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘ دوسری جانب وہ نان اسٹاپ شروع ہو چکا تھا زیب ایک ہفتے پر چونک گئی۔
’’کیوں ایک ہفتے بعد تم کیا مرنے والے ہو۔‘‘ اس نے کہہ کر بے ساختہ زبان دانتوں تلے دبائی۔
’’تو اور کیا اٹالین کمپنی میں جاب ملی تھی اور اب ایم ڈی صاحب مجھے دوسری برانچ میں ٹرانسفر کر رہے ہیں۔‘‘
’’دوسری برانچ مریخ پر تو نہیں ہے کہ تم گوریوں کے دیدار سے محروم رہ جاؤ۔‘‘
’’دوسری برانچ سعودیہ میں ہے۔‘‘ وہ لہجے میں مصنوعی بیچارگی سمو کر بولا تو زیب کی ہنسی چھوٹ گئی۔
’’مجھے افسوس ہوا۔‘‘ لبوں کا کونہ دانتوں تلے دبا کر وہ غیر سنجیدگی سے گویا ہوئی لیکن ساتھ ہی اسے کچھ اور بھی یاد آ گیا تھا۔
’’سنو کل تم نے مجھے وش کیوں نہیں کیا تھا۔‘‘
’’کیوں کل کیا خاص بات تھی۔‘‘ اس نے سوچنا شروع کیا۔
’’کل میرا برتھ ڈے تھا۔‘‘ وہ ریسور کو گھورتے ہوئے چلائی۔
’’کیک کھلاؤ اور تحفہ لے لو۔‘‘ وہ کھٹ سے ریسیور پٹختے ہوئے دوبارہ بستر پر ڈھیر ہو چکی تھی شہروز نے بے ساختہ سیل فون کانوں سے ہٹایا تھا۔
اس کے ماموں کے دو بیٹے تھے ماموں سال کا ایک ہفتہ پاکستان میں ان کے ساتھ ضرور گزارتے تھے اور مہروز اکثر ان کے ساتھ آتا تھا لیکن شہروز کے اپنے مشاغل اپنی مصروفیات تھیں آج کل وہ ایم بی اے کے بعد کسی اٹالین کمپنی میں جاب کر رہا تھا اور مہروز سافٹ ویئر انجینئرنگ میں بیچلر کے بعد آج کل فارغ تھا اس کے ماموں خود ایک نیوروسرجن تھے۔
٭٭٭