پکنک سے گھر واپس آئے تو بیگم رفعت آراء ائیر پورٹ آ چکی تھیں شہروز کو الٹے پاؤں گاڑی واپس گھمانا پڑی تھی تبھی اس کی تشویش میں مزید اضافہ ہوا تھا، شہروز تو شاید ان کی آمد کے مقصد سے لاعلم تھا۔
’’جانے اس کا ری ایکٹ کیسا ہو گا کہیں پھر سب ویسا نہ ہو جائے جتنا وہ اپنے پیرنٹس کے ساتھ اٹیچڈ ہے ایموشنل بلیک میلنگ کا شکار ہو سکتا ہے۔‘‘ وہ جتنا سوچ رہی تھی اتنا ہی اس کا دل ڈوبتا جا رہا تھا لیکن اس بار تقدیر کچھ زیادہ ہی مہربان تھی یا شاید ستارے گردش سے نکل آئے تھے جو کہ سب کی حسب منشاء ہو رہا تھا۔
رات کو لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے اس نے شہروز کو عارفہ بیگم کے بیڈ روم کی سمت جاتے دیکھا تھا بیگم رفعت آراء اور ماموں بھی وہیں تھے لگتا تھا خاص بات ہونے والی ہے اس کا دل چاہا کہ کاش وہ اندر ہونے والی گفتگو براہِ راست سن سکے، لان کے عقبی جانب آ کر اس نے کھڑکیوں کا جائزہ لیا ایک دریجہ کھلا ہوا تھا، دیوار کی آڑ لے کر اس نے کان اندرونی آوازوں کی سمت لگا دئیے تھے۔
’’شہروز ہم نے سوچا ہے اب تمہاری اور ضوباریہ کی انگیج منٹ کر دی جائے شادی زیب کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد آرام سے ہو جائے گی تمہاری پھپھو بھی خاص اسی مقصد کے لئے آئی ہیں ہم تو ویک اینڈ نائیٹ کو فنکشن ارینج کرنے کا سوچ رہے ہیں تمہارا کیا خیال ہے۔‘‘ اپنا فیصلہ سنانے کے بعد وہ اس کی رائے دریافت کر رہے تھے لڑکی سے متعلق نہیں بلکہ ارینج منٹ کے سلسلے میں، شہروز اپنی جگہ سن ہو کر رہ گیا تھا۔
’’ڈیڈی آپ کو دکھ ہو گا لیکن پلیز بات کو سمجھیں آئی ایم آل ریڈی کمٹڈ۔‘‘ شہروز کے جھنجھلاہٹ بھرے انکار اور جواز کے بعد بیڈ روم میں ایک پل کو مکمل سناٹا چھا گیا تھا کسی کو بھی شاید شہروز سے یہ توقع نہیں تھی وہ ہمیشہ سے ہی اپنے پیرنٹس کا انتہائی فرمانبردار رہا تھا۔
’’کون ہے وہ لڑکی؟‘‘ فاروق احمد کے بارعب استفسار میں برہمی کا تاثر بے حد نمایاں تھا لیکن جوان اولاد سے زبردستی وہ بھی اتنے آزاد معاشرے میں کرنا بے کار ہی تھا سو انہوں نے مصلحت آمیز راستہ اختیار کیا ویسے بھی وہ بیٹے کے مزاج سے خوف واقف تھے کہ وہ بھی انہی کا پرتو تھا لیکن لڑکی کا نام سن کر وہ اپنے ضبط پر قابو نہیں رکھ پائے تھے۔
’’حریم!‘‘ اور سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
’’تمہارا دماغ ٹھیک ہے جانتے کیا ہو تم اس لڑکی کے متعلق۔‘‘
’’میں اس کے متعلق سب جانتا ہوں مانا کہ وہ ایک مڈل کلاس…‘‘
’’تھرڈ کلاس۔‘‘ رفعت آراء نے درمیان میں ٹوکا۔
’’اگر وہ تھرڈ کلاس بھی ہے تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا شادی کے بعد، میرا نام میرا اسٹیٹس اور میرا یہ اعلیٰ خاندان ہی اس کی پہچان ہو گا۔‘‘ اور حریم مزید کچھ بھی سنے بغیر واپس گیسٹ روم چلی آئی تھی۔
’’کیا یہ وہی شخص ہے۔‘‘ وہ یقین نہیں کر پارہی تھی۔
’’میں جانتی تھی مجھے دیکھ کر تم میری محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے۔‘‘ تفاخر کا احساس رگ و پے میں سرور بن کر اتر رہا تھا سرتاپا کمبل تانتے ہوئے اس نے مزے سے آنکھیں موند لیں، دوسری جانب زیب سن کر سکتے میں آ چکی تھی۔
’’وہ کم ذات، دو ٹکے کی لڑکی تمہیں اسے اس کی اوقات میں رکھنا چاہیے تھا۔‘‘ وہ خوب بھری بیٹھی تھیں۔
’’میں اس سے خود بات کرتی ہوں۔‘‘ سیلپر پہنتے ہوئے اس نے دوپٹہ اوڑھا۔
’’کوئی فائدہ نہیں سوجاؤ ابھی، صبح ہوتے ہی میں اسے واپس روانہ کرتی ہوں۔‘‘ وہ کچھ اور ہی ارادہ کیے بیٹھی تھیں لیکن زیب کو چین کہاں تھا رات بمشکل کٹی تھی صبح کے آثار نمودار ہوتے ہی وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئی، لاؤنج میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔
راہداری سے گزرتے ہوئے وہ گیسٹ روم کے دروازے پر آن کھڑی ہوئی دستک کے لئے ہاتھ اٹھایا تو کتنے ہی پل نظروں کے سامنے گھوم گئے تھے، لندن میں ساتھ گھومتے ہوئے انہوں نے کتنا انجوائے کیا تھا وہ اس کی وارڈ روب یوز کرتی تھی زیب نے سب جانتے ہوئے بھی کبھی نہیں ٹوکا تھا کل وقتی ملازمت کے باوجود اسے نوکری کرنے کی پرمیشن دی تھی حالانکہ وہ اس کے کاموں پر مامور تھی پھر بھی وہ اپنے آدھے سے زیادہ کام خود کیا کرتی تھی، اس نے جب جتنے پیسے مانگے تھے زیب نے کبھی انکار نہیں کیا تھا وہ بیمار ہوئی تو اس نے دن رات کی تمیز بھلا کر اس کا خیال رکھا تھا جس دن اس نے اپنی کلائی کی رگ کاٹی تھی اس روز وہ اپنا ایگزیم چھوڑ کر اس کی خاطر ہاسپٹل آئی تھی وہ آج کل کتنی ڈسٹرب ہے اس خیال سے وہ اسے اپنے ساتھ لے کر آئی تھی کہ کہیں اکیلے میں پھر سے کوئی الٹی سیدھی حرکت نہ کر لے ڈیپریشن کم کرنے کے لیے وہ روز سیر و تفریح کے پروگرام بنا رہی تھی ہر جگہ اسے ساتھ ساتھ لئے گھوم رہی تھی اور اس نے کیا کیا تھا، آنسوؤں کا پھندا اس کے گلے میں اٹکنے لگا تھا۔
٭٭٭
’’یس کم آن۔‘‘ دوسری دستک پر جواب موصول ہوا تھا وہ ناپ گھما کر اندر داخل ہوئی تو حریم کو پیکنگ کرتے دیکھ کر اسے جھٹکا سا لگا تھا۔
’’تم کہاں جا رہی ہو؟‘‘
’’جہاں دل لے جائے۔‘‘ سوٹ کیس کی زپ بند کرتے ہوئے اس نے بے نیازی سے کہا اور اپنے کمر تک آتے اسٹیپ کٹنگ بالوں میں برش چلانے لگی انداز بتا رہا تھا کہ وہ اسے دانستہ نظر انداز کر رہی ہے۔
’’تم نے یہ سب کیوں کیا حریم میں نے تمہیں ہمیشہ دوستوں سے بڑھ کر چاہا تھا۔‘‘ اس کا گلا رند گیا۔
’’مجھے بلیم کرنے کی بجائے اپنے کزن سے سوال و جواب کرو اس نے مجھے پرپوز کیا ہے میں اس کے پیچھے نہیں گئی۔‘‘
’’تو تم اس کی حوصلہ افزائی نہ کرتی۔‘‘
’’کیوں نہ کرتی وہ ہینڈسم ہے ویل ایجوکیٹڈ ہے اسٹیبل اور مجھ سے محبت بھی کرتا ہے کریکٹر وائیز بھی برا نہیں آئی تھینک ہی از بیسٹ پرپوزل فارمی اور اگر تم مجھے گلٹ فیل کروانا چاہتی ہو کہ میں تم دونوں کے بیچ آئی ہوں تو ڈیٹس پوسیبل یار، وہ جسٹ تمہارا کزن تھا کوئی بوائے فرینڈ یا فیانسی نہیں۔‘‘ بالوں کو ربڑ بینڈ میں جکڑتے ہوئے اس نے لاپرواہی سے شانے اچکائے۔
’’تم اتنی خود غرض اور بے حس کیسے ہو سکتی ہو حریم۔‘‘ وہ گہرے دکھ سے بولی۔
’’اگر تم مجھے اپنے احسانات یاد دلانا چاہتی ہو تو مائینڈ اٹ زیب وہ تمہارا اپنا اچھا عمل تھا اس کے بدلے کی توقع مجھ سے ملت رکھو میں تمہاری ہاؤس میڈ ضرور تھی کوئی زر خرید غلام نہیں میری نوکری کے عوض تم نے مجھے پے کیا ہے پھر بھی تمہاری تسلی کے لئے کہہ دیتی ہوں کہ میرا اور شہروز کا رشتہ ٹرین میں بیٹھے دو مسافر کی مانند ہو گا جنہیں بس ایک اسٹیشن تک ساتھ چلنا ہے میں کنفرم نہیں بتا سکتی کہ میرا ابھی کتنا سفر باقی ہے لیکن اگر تم اس اسٹیشن کے آنے کا انتظار کر سکتی ہو تو کر لو شاید وہ تمہیں اپنی منزل ماننے پر مجبور ہو جائے۔‘‘ اس کا انداز اتنا بے رحم اور قطعی تھا کہ چہرے پہ چٹانوں کی سی سختی در آئی تھی۔
’’تم کیا کرنے والی ہو حریم۔‘‘ زیب نے الجھ کر اسے دیکھا۔
’’دوسروں کو پتھر اٹھا کے مارتے ہوئے ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ اگلے کو کتنی چوٹ لگی ہے بس اسے اس درد کا احساس دلانا ہے۔‘‘ اپنا بیگ اٹھا کر دل میں سوچتے ہوئے اس نے دروازے کی سمت قدم بڑھا دئیے تھے زیب نے اسے روکا نہیں تھا وہ اپنی جگہ بالکل سپاٹ سی کھڑی تھی۔
راہداری سے گزر کر وہ لاؤنج میں داخل ہوئی جہاں ابھی صبح کی مخصوص ہلچل آمیز گہما گہمی شروع نہیں ہوئی تھی شاید آج کسی کا بھی بیڈ روم سے نکلنے کا ارادہ نہیں تھا پورے گھر پر عجیب سناٹا اور مردنی چھائی ہوئی تھی۔
’’ابا، اماں پر بھی ایسے ہی حالات گزرے ہوں گے بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ نہ تو میں مرد تھی اور نہ ہمارا گھر برمنگھم میں تھا اچھی بھلی زندگی کو میری بے راو روی نے کتنا مشکل بنا دیا ہے میرے جیسے لوگ ہوتے ہیں خواہشوں کے غلام، نفس کے پیرو کار، تقدیر کو اپنے قلم سے لکھنے پر بضد، ان کا یہی انجام ہوتا ہے پہلے اپنی عقل کا غلط استعمال کرتے ہیں اور پھر سارا حساب تقدیر کے گوشوارے میں ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ قسمت میں ایسا ہی لکھا تھا۔‘‘ سڑک کے کنارے شدید ٹھنڈ میں کھڑے ہو کر وہ شہروز کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی جو جاکنگ کے لئے گیا ہوا تھا۔
’’حریم تم کہاں جا رہی ہو؟‘‘ اسے دور سے آتے دیکھ کر اس نے بیگ گھسیٹنا شروع کر دیا تھا پاس آ کر حسب توقع وہ فکر مندی سے بولا تو اس کی آنکھوں سے مصنوعی آنسو بہنے لگے جس پر وہ مزید بے چین ہوا تھا۔
’’حریم پلیز مجھے بتاؤ ہوا کیا کسی نے کچھ کہا ہے۔‘‘
’’انکل، آنٹی نے میری بہت تذلیل کی ہے میں اپنی دوست مالا کے پاس جا رہی ہوں بہتر ہو گا آپ ان کی بات مان لیں ورنہ میں تو اب کسی بھی قیمت پر واپس اس گھر میں نہیں جاؤں گی اور اگر آپ کو مجھ سے شادی کرنی ہے تو ابھی اسی وقت مجھ سے نکاح کریں فیصلے کا وقت ابھی ہے۔‘‘ حریم نے اس کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔
’’اوکے تم رکو میں گاڑی لے کر آتا ہوں۔‘‘ وہ اسے وہیں چھوڑ کر اندر آیا تھا لباس تبدیل کرنے کے بعد گاڑی نکالنے میں اسے محض سات منٹ لگے تھے وہ جانتا تھا اس وقت وہ کچھ بھی کہنے سننے کے موڈ میں نہیں ہے اس نے سوچا تھا وہ بعد میں آرام سے منالے گا لیکن اس نے تو اپارٹمنٹ کے اندر جانے سے ہی انکار کر دیا تھا۔
’’پہلے ہم اسلامک سینٹر جائیں گے ہمارا نکاح ہو گا پھر میں تمہارے ساتھ اس اپارٹمنٹ میں قدم رکھوں گی۔‘‘ شہروز نے گاڑی واپس اسلامک سینٹر کی سمت موڑ لی تھی دو گھنٹے بعد جب وہ واپس لوٹے تو ایک معتبر رشتے میں بندھ چکے تھے حریم کو چاہیے تھا کہ اس رشتے کی حرمت کا پاس رکھتے ہوئے وہ اب سابقہ تمام شکوے بھلا دیتی مگر اس کے حواس پر تو محض انتقام سوار تھا۔
راستہ بھر اس نے سوچا تھا کہ وہ اس شخص کو اتنی محبت دے گی کہ وہ اس کے سوا ساری دنیا بھول جائے گا مگر قربت کے پر فسوں لمحوں میں اسے احساس ہوا کہ اس کا دل تو کسی فقیر کے کشکول کی مانند بالکل خالی ہے اس میں تو مانگے کے چند سکے بھی نہیں تھے جب مانگنا اسے کبھی آیا ہی نہیں تھا تو نوازنے کا ظرف کہاں سے لاتی۔
’’مجھے ذہنی طور پر آمادہ ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا۔‘‘ اس نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔
’’تم جتنا چاہے وقت لے لو کوئی زبردستی نہیں ہے لیکن سب سے پہلے تو ناشتہ ہونا چاہیے تم آرام کرو میں باہر سے کچھ لے کر آتا ہوں۔‘‘ اس پر ایک محبت بھری نگاہ ڈال کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور دروازے سے پھر پلٹ آیا۔
’’دیکھو اب رونا بالکل بھی نہیں میں تمہیں بہت خوش دیکھنا چاہتا ہوں یہ اداسیاں تم پر اچھی نہیں لگتیں ویسے ان آنسوؤں کا بھی میں احسان مند ہوں جنہوں نے مجھ سے اتنا مشکل فیصلہ کروا لیا ورنہ عام حالات میں یہ اسٹیپ میرے لئے بہت مشکل ہوتا ابھی تو وہاں بھی بہت کچھ فیس کرنا ہے۔‘‘
’’یہ اتنا اچھا کیوں بن رہا ہے بہت جلد تمہارے چہرے پر چڑھا ایک ایک نقاب نوچ لوں گی تمہاری خوشیوں کا دورانیہ بہت کم ہے تم مجھے پا کر بھی نہ پا سکو گے نارسائی کا کرب ہی اس رشتے کا حاصل ہو گا۔‘‘
٭٭٭
کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ ناشتہ لے کر چلا آیا تھا کچن میں جا کر اس نے خود ہی تمام تر لوازمات برتنوں میں منتقل کیے تھے اس نے ایک بار بھی اس کی مدد کے خیال سے کچن میں نہیں جھانکا تھا۔
’’حریم آ جاؤ ناشتہ کر لو۔‘‘ کھڑپڑ کی آواز ساکت ہوئی تو بلاوا بھی آ گیا تھا وہ اٹھ کر ڈائیننگ ہال میں چلی آئی تھی۔
یہ اپارٹمنٹ کچھ عرصہ قبل ہی اس نے اپنے کسی دوست سے خریدا تھا، دو بیڈ روم، اوپن کچن، لاؤنج، ڈائیننگ ہال اور اسٹڈی روم کے علاوہ ٹیرس بھی تھا شہروز کی غیر موجودگی میں وہ اچھی طرح گھوم چکی تھی۔
’’یہ چیز سینڈوچ میں نے خود بنائے ہیں۔‘‘ خوبصورت کٹلری میں پوری میز نفاست سے سجی ہوئی تھی شہروز نے بیٹھتے ہی اپنے کارنامے کا تذکرہ ضروری خیال کیا تھا شاید اس کی خواہش تھی کہ وہ سب سے پہلے سینڈوچ ٹیسٹ کرے لیکن اس نے تمام تر اہتمام کو نظر انداز کر دیا تھا وہ خفت زدہ سا ہو کر وضاحت پیش کرنے لگا تھا۔
’’در اصل مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم ناشتے میں کیا کھانا پسند کرو گی اس لئے میں نے اتنا اہتمام کر لیا لنچ ہم باہر کریں گے۔‘‘
’’ناشتے کا ٹائم تو ویسے بھی گزر چکا ہے تم اسے لنچ ہی تصور کرو کہیں بھی گھومنے کو میرا دل نہیں چاہ رہا اس لئے اب کچھ دیر سونا چاہتی ہوں۔‘‘ اورنج جوس کا آخری سیپ لینے کے بعد وہ اٹھ کر دوبارہ سے بیڈ روم میں چلی آئی تھی شہروز نے سب چیزوں کو پیک کر کے فریج میں رکھا برتن اٹھا کر ڈش واشر میں دھوئے اور گاڑی کی چابی اٹھا کر اپارٹمنٹ سے باہر نکل گیا وہ کھڑکی میں کھڑی اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
شام میں جب وہ واپس آیا تو اسے کچھ پرجوش سا لگا تھا مگر وہ دھیان دئیے بغیر ٹی وی دیکھنے میں گم رہی تھی اس نے خود ہی جا کر کچن سے پانی پیا اور پھر اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔
اس کے لئے اب ٹی وی میں دلچسپی برقرار رکھنا مشکل ہو گیا تھا اس کی وارفتہ بھری نظریں پزل کرنے کو کافی تھیں۔
’’حریم!‘‘ اس نے دھیرے سے پکارا۔
’’ہوں۔‘‘ اس کا دل پوری شدت سے دھڑکا تھا مقابل کی پکار میں کتنی محبت نرمی اور مٹھاس ہویدا تھی ان کہے جذبوں کا عکس سنہری آنکھوں میں جگمگا رہا تھا اس کے لئے نظر بھر کر دیکھنا محال ہو گیا تھا، شہروز نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا اور وہ چاہ کر بھی احتجاج نہیں کر سکی تھی۔
’’میں آج گھر گیا تھا ممی ڈیڈی کو میں نے سب بتا دیا ہے پہلے تو وہ غصہ کر رہے تھے لیکن پھر زیب نے انہیں منا لیا ہے ہم آج ہی واپس جائیں گے اور جانتی ہو اب تو سب ہمارے ولیمے کے لئے بہت ایکسائیڈڈ ہو رہے ہیں زیب اور مہروز تو خود تمہیں لینے کے لئے آنا چاہ رہے تھے لیکن میں نے منع کر دیا اب اٹھو جلدی سے پیکنگ کر لیں وہاں ڈنر پر ہمارا انتظار ہو گا۔‘‘ اس کی طویل گفتگو کے دوران حریم کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزرے تھے جس میں سب سے نمایاں رنگ بے یقینی کا تھا وہ اپنا ہاتھ کھینچ کر ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’انہیں کوئی حق نہیں تھا میری انسلٹ کرنے کا۔‘‘
’’لیکن مما بتا رہی تھی کہ تم تو انہیں ملی بھی نہیں۔‘‘ وہ حق دق سا کھڑا تھا وہ اس کی باخبری پر لمحے بھر کے لئے گھبرائی پھر اگلے ہی پل ڈھٹائی عود کر آئی تھی۔
’’جھوٹ بول رہی ہیں وہ اور میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے اب کسی بھی قیمت پر وہاں نہیں جانا ہے اور اگر تم اپنے پیرنٹس کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے پھر مجھے چھوڑ دو۔‘‘
’’حریم!‘‘ وہ شاکڈ سارہ گیا تھا۔
’’تم فیصلہ کرنے میں آزاد ہو۔‘‘ وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے ٹھک ٹھک کرتی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر ٹیرس پر چلی آئی تھی لیکن اب اندر سے متفکر بھی تھی کہ کہیں وہ بھی فیصل بھائی کی طرح کوئی انتہائی فیصلہ نہ کر لے ابھی تو اس کا مقصد بھی پورا نہیں ہوا تھا اسے اس ملک میں رہنا تھا جس کے لئے اس رشتے کو فی الحال قائم رکھنا بے حد ضروری تھا۔
٭٭٭