جی۔۔مسز اقبال میں آپکی باتوں کو سمجھ رہی ہوں پر اس پر عمل نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ادارہ میں نے غریب اور بے سہارا عورتوں کیلئے کھولا ہے جنھیں کوئی اس دور میں پوچھتا تک نہیں ہے- آجکل ہر کوئی پیسوں کی لالچ میں پڑا ہے۔۔۔بہت سے لوگوں کو مجھ سے امیدیں ہیں۔۔۔میں آپکی بات نہیں مان سکتی-- سوری۔۔۔ وہ ان کو بتا کر اپنے آفس روم چلی گئی تھی اور مسز اقبال اسکی باتوں پر غصہ سے کھولتیں ہوئیں اپنے شوہر کے آفس آپہنچیں-
کیا ہوا بیگم۔۔۔اتنا غصہ کیوں آرہا ہے آپکو؟ اقبال ملک جو فائل دیکھ رہے تھے۔۔۔اپنی بیگم سے مخاطب ہوئے-
وہ لڑکی تو بہت شاطر نکلی اقبال۔۔۔ہم جو چاہ رہے ہیں اسکے لیے وہ لڑکی نہیں مان رہی- ہنہہ بے سہارا عورتوں کی مدد کرنا چاہتی ہے- اب میں اس کے منہ نہیں لگنے والی- جو بات کرنی ہے آپ کریں- مسز اقبال کا دماغ ساتویں آسمان پہ پہنچا ہوا تھا-
کیوں نہیں مان رہی۔۔۔کڑوڑوں روپے کوئی معمولی رقم نہیں ہے- آجکل تو لوگ اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں پیسوں کیلئے پھر تو وہ عمارت ہے- اقبال کو انکی باتیں سن کر اس لڑکی پر غصہ آگیا-
ہاں ایک دو دن کا شوق ہے اسکا مدد کرنے کا۔۔۔۔پھر جب پھنسے گی تو سر پکڑ کر بیٹھی ہوگی-
ٹھیک ہے آپ گھر جائیں۔۔۔ہم کل خود اس لڑکی سے بات کریں گے ورنہ ہمیں بھی اپنے طریقے استعمال کرنے آتے ہیں۔۔۔وہ عمارت بہت ہی زبردست اور شاندار جگہ پر بنی ہے- ہمیں اسکو ہر حال میں حاصل کرنا ہے- اقبال ملک اپنے شاطر دماغ سے سوچے جا رہے تھے۔۔۔وہ تو ابھی بھی نہ جان پائے تھے کہ وہ لڑکی ان سے بھی زیادہ شاطر ہے- جب اس لڑکی نے ایک دفعہ ہی منع کردیا تو وہ دوبارہ کیسے انکی مان جاتی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
آج موسم بے حد سرد تھا- وہ شال اوڑھے بالکونی میں کھڑی کافی پی رہی تھی- جبھی اسکا موبائل بج اٹھا- وہ کال اٹھا کر اب موبائل کان سے لگا چکی تھی-
نوری کیا ہوا ہے۔۔کیوں رو رہی ہو؟ نوری بولو۔۔۔وہ نوری کے رونے سے گھبرا گئی۔۔۔اسکی چھٹی حس کچھ غلط ہونے کا اعلان کررہی تھی-
باجی۔۔۔مجھے لے جاؤ۔۔۔میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے- باجی میری مدد کرو- نوری مسلسل روتے ہوئے بول رہی تھی-
نوری۔۔۔میں آتی ہوں۔۔رو نہیں۔۔۔میں آدھے گھنٹے تک آرہی ہوں- وہ رابطہ منقطع کرکے سوئیٹر پہن کر شال لیے جانے کیلئے تیار تھی پر اسے سمجھ نہیں آئی کہ اسکے گاؤں کیسے جائے۔۔۔وہ دور تو نہ تھا پر رات کے 1 بجے کوئی سورای ملنا دشوار تھا- وہ باہر آگئی۔۔۔سٹریٹ لائٹ بھی ایک آدھ جل رہی تھی- وہ چلتی چلتی گلی سے نکل کر اب مین سڑک پر آچکی تھی پر اس ٹھٹرتی سردی میں کوئی سواری ملنا مشکل لگ رہا تھا- اسے آگے ایک پولیس گاڑی کھڑی نظر آئی- وہ بھاگتے ہوئے اس تک پہنچنے ہی والی تھی پر وہ گاڑی چلی گئی۔۔۔۔اسے لگ رہا تھا آج وہ نوری کی مدد نہیں کر پائی گی-
اللہ میری مدد کردے تاکہ میں نوری کے پاس پہنچ جاؤں- وہ آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کررہی تھی تب ہی سامنے سے ایک کار آتی نظر آئی- وہ کار کو ہاتھ ہلا کر رکنے کا بول رہی اور کار اسکے قریب آکر رک چکی تھی-
ہیلو۔۔۔آپ میری مدد کرسکتی ہیں پلیز- لڑکی کو ﮈرائیونگ کرتا دیکھ کر اسے حوصلہ ہوا تھا-
جی۔۔۔کیسی مدد چاہیے آپکو؟ وہ لڑکی اعتماد سے بولی-
مجھے آگے ہی ایک گاؤں ہے وہاں تک جانا ہے۔۔۔۔ایک لڑکی مشکل میں ہے اور میں این جی او سے ہو- وہ اسے اپنا تعارف بھی کروانا ضروری سمجھی ورنہ رات کے 1 بجے اس پر کون بھروسہ کرتا-
جی ٹھیک ہے۔۔۔میں آپکو لے چلتی ہوں- وہ لڑکی این- جی- او کا سن کر فوراً راضی ہوگئی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
بھائی میں آپکو بعد میں کال کرتی ہوں ابھی ﮈرائیونگ کررہی ہوں- نورالعین اپنے بھائی سے کال پر بات کررہی تھی-
بھائی آجاؤں گی گھر۔۔آپ فکر مت کریں- سامنے والے کے کہنے پر اسنے جواب دیا تھا-
جی ٹھیک ہے خدا حافظ- وہ رابطہ منقطع کرکے اسکی طرف متوجہ ہوچکی تھی جو اسکے ساتھ بیٹھی تھی-
سوری میں نے اپنا تعارف نہیں کرایا۔۔۔میرا نام نورالعین ہے اور میں شادی شدہ ہوں۔۔۔میری ایک پیاری سی بیٹی ہے- اور ایک بھائی ہے بس۔۔۔شوہر میرے باہر ہوتے ہیں۔۔۔۔میں رہتی اپنے سسرال ہی ہوں پر آج بھائی کے پاس رکنے آگئی تھی اسی لیے وہ پریشان ہورہے ہیں اور ابھی میں شاپنگ مال گئی تھی- تب ہی آپ مل گئیں- وہ مہارت سے ﮈرائیونگ کرتے ہوئے بولی جارہی تھی- اور ساتھ لڑکی خاموشی سے اس کو سنی جا رہی تھی-
آپ واپس میرے ساتھ چلیں گی یا وہیں ٹہرنا ہے؟
وہاں پہنچ کر پتہ لگے گا۔۔۔جس لڑکی کی مدد کرنی ہے اسکا شوہر اسے مارتا تھا اور اب وہ بتا رہی تھی کہ اسے طلاق دے کر گھر سے نکال چکا ہے۔۔میرا جہاں ادارہ ہے وہیں عورتوں کے رہنے کیلئے جگہ بھی بنائی ہوئی ہے ساتھ۔۔۔ تو اگر اسکو لے جانا ہوا تو اسے وہیں رکھوں گی-
تو آپ کے پاس پیسے کہاں سے آتے۔۔۔مطلب یہ سارا کام کرنا- عورتوں کو کھانا کھلانا انکی ضروریاتِ زندگی وغیرہ کیسے یہ سب ہوتا ہے- نورالعین کو اسکی باتیں سن کر دلچسپی بڑھ گئی اسی لیے پوچھنے لگی اور وہ خاموش رہ بھی نہیں سکتی تھی- اسکا ہر وقت دل کرتا تھا کہ سب سے باتیں کرے۔۔۔اسی لیے اسکی دوستیں بھی بہت تھیں-
میرے بابا کا بزنس بھی چل رہا ہے۔۔۔وہاں کے مینیجر میرے بابا کے دوست تھے۔۔۔تو اب وہاں سے سارے پیسے مجھے ملتے ہیں اور میں اسی سب پر خرچ کرتی ہوں-
آپ کو اپنے لیے بھی کچھ بچانا چاہیے۔۔۔۔برا وقت بتا کر تو نہیں آتا- نورالعین سنجیدگی سے بولی-
ہنہہ شاید اب میرا برا وقت کوئی نہ آئے۔۔۔جو آنا تھا آچکا۔۔۔۔بس یہیں سے ٹرن موڑ لیں- گاڑی گلی میں نہیں جاسکے گی- وہ کہنے کے ساتھ ساتھ راستہ بھی بتانے لگی-
میں آپکے ساتھ چلوں۔۔۔نورالعین اس کے ساتھ جانا چاہتی تھی-
جی آپکی مرضی۔۔۔چلنا ہے تو چلیں- وہ دونوں ساتھ ہولیں تھیں-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ملک صاحب کیسے آنا ہوا آپکا یہاں؟ وہ دونوں ہاتھ ملاتے ہوئے اب آمنے سامنے بیٹھ چکے تھے-
مصطفی بیٹے۔۔۔آپ تو مجھے اچھے سے جانتے ہیں۔۔۔بس ایک سلسلے میں آپکی مدد کی ضرورت ہے- اقبال ملک کو جب بھی کوئی کام ہوتا اسی کے پاس دوڑے آتے-
جی اقبال صاحب بتائیے۔۔۔میں آپکی مدد کو ہر وقت تیار ہوں- مصطفی ٹیلی فون پر کافی مانگوانے کا آرﮈر دے کر ان کی طرف مڑا-
بیٹا وہ در اصل شاہ انڈسٹری میں خریدنا چاہتا ہوں۔۔۔اس پوری عمارت کا ایک فلور کڑوڑں میں لینا چاہتا ہوں- پر جس لڑکی کی وہ کمپنی ہے وہ لڑکی مان نہیں رہی- تمہاری آنٹی کل اسکے پاس جاچکیں ہیں۔۔۔اس لڑکی نے اپنے باپ کے بزنس کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔۔۔۔نیچے پورشن پر بزنس چلارہی ہے اور اوپر کے دو پورشن کو اس نے بے سہارا عورتوں اور اپنے ادراے کیلئے مختص کردیا ہے۔۔- اب بیٹا اسکے باپ کا بزنس تو چل نہیں رہا ہے۔۔۔ایسے میں وہ بے سہارا عورتوں کی مدد کیسے کرے گی- آپ خود بتاؤ۔۔۔اس دور میں پیسوں کے بغیر کچھ کبھی ہوا ہے-؟ اقبال صاحب اپنی تقریر جھاڑ کر اب کافی کی طرف متوجہ ہوچکے تھے-
جی ملک صاحب آپ صیح کہ رہے ہیں۔۔۔پر میں نے کل اخبارا میں دیکھا ہے کہ پاکستان میں شاہ انڈسٹری ٹاپ پر جا رہی ہے اور اب اسلام آباد کے بعد کراچی میں بھی اسکی ایک برانچ اوپن کی جاچکی ہے۔۔۔تو یہ آپ سے کس نے کہاہے کہ اس لڑکی کے باپ کا بزنس نہیں چل رہا ہے؟ مصطفی ہمدانی روز اخبار پڑھتا تھا۔۔۔۔اور یہی بات اقبال ملک نہیں جانتے تھے-
بیٹا مجھے تو تمہاری آنٹی کہ رہیں تھیں اور یہی بات اس لڑکی نے خود کہی- اقبال صاحب گڑبڑاتے ہوئے بولے- انہیں یہاں بھی اپنا کام بنتا نظر نہیں آیا-
پھر وہ لڑکی پاگل ہوگی۔۔۔جسے یہی نہیں پتہ کہ اسکی اپنی انڈسٹری ٹاپ پر جارہی ہے- مصطفی مسکراتے ہوئے بولا تھا کیونکہ وہ جان چکا تھا اقبال ملک کی یہ اپنی گھڑی ہوئی کہانی ہے-
میں چلتا ہوں بیٹا۔۔۔۔خدا حافظ- اقبال ملک فوراً اٹھ کھڑے ہوئے- ان کے جانے بعد مصطفی دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگیا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
باجی باجی۔۔۔نوری اسے آتا دیکھ کر اسکی طرف لپکی تھی-
باجی اسنے مجھے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا اور میری بیٹی کو بھی مجھ سے چھین لیا۔۔۔باجی میں کیسے رہوں گی اسکے بنا-- وہ روتے ہوئے بولی جارہی تھی-
نوری رو مت۔۔۔کچھ نہیں ملتا ہے رونے سے۔۔۔۔مضبوط بنو نوری- وہ اسے سمجھانے لگی-
باجی اگر میری بیٹی نا ہوتی اسکے پاس تو میں خوش ہی ہوتی کہ ایسے شخص سے جان چھوٹ گئی-
چلو آؤ ہم اس سے بات کرتے ہیں اور تمہاری بیٹی لیتے ہیں- وہ اسے ساتھ چلنے کا بولی تھی پر نوری نہ مانی-
نہ باجی ایسا نہ کرنا وہ تو تجھے مار ﮈالنا چاہتا ہے۔۔۔وہ کہتا جس نے مجھے یہ سب باتیں سکھائیں ہیں وہ اسے مار ﮈالے گا-- نوری اسکے ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے روک چکی تھی-
نوری تمہاری بیٹی ہے اس شخص کے پاس۔۔۔۔پاگل ہو تم- اسے چھوڑ کر کیسے جاسکتی ہو تم-- اس کو نوری کی باتوں پر غصہ آگیا-
باجی میری بیٹی اپنے باپ سے ہی پیار کرتی ہے۔۔۔پر اگر اسکے باپ نے آپکو مارﮈالا تو ہم سب کا کیا ہوگا- نوری روتے ہوئے بولی تھی-
ٹھیک ہے پر میں تمہیں تمہاری بیٹی دلوا کر رہوں گی چاہے مجھے عدالت ہی کیوں نہ جانا پڑے- وہ اسے اپنے ساتھ گلے لگاتے ہوئے بولی- وہ لڑکی بہت ہمدرد تھی۔۔۔کبھی اس نے ان غریبوں اور اپنے آپ میں فرق نہیں کیا تھا- وہ اپنے ادارے میں جو کچھ انکو کھلاتی تھی۔۔۔وہی سب کچھ خود بھی کھاتی تھی- اسے یہ سب کرکے بہت سکون ملتا تھا- اس لڑکی کا ان بے سہارا عورتوں کے علاوہ کوئی بھی اس دنیا میں نہ تھا- جو تھے وہ سب اس کو بھول کر اپنی زندگی میں مگن ہوچکے تھے اور وہ بھی اپنی ساری زندگی ان بے سہارا عورتوں کیلئے وقف کرچکی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
نورالعین اسے اور نوری کو اسکے گھر تک چھوڑنے آئی تھی- اس نے نورالعین کو رکنے کا بولا پر وہ جا چکی تھی اور اب نوری اور وہ کچن میں رات کے 2 بجے کھانا بنا رہیں تھیں-
باجی یہ لڑکی اچھی لگیں۔۔۔۔آپ پر بھروسہ کرکے لے آئیں ورنہ صبح تک میں سردی سے مر چکی ہوتی-
ہاں نوری اللہ نے میری مدد کی- اور اس لڑکی کو بھیجا ورنہ مجھے بھی یہی لگا تھا کہ میں تمہاری مدد نہیں کرپاؤں گی- وہ انڈہ فریج سے نکال کر پھینٹ رہی تھی اور نوری بریڈ گرم کررہی تھی-
باجی میری بیٹی سے وہ بہت پیار کرتا ہے اور میری بیٹی بھی۔۔۔پر میں بھی اپنی بیٹی کے بغیر نہیں رہ سکتی- نوری کے بیٹی کی ﺫکر پہ آنسو بہہ نکلے-
نوری تم ہمت مت ہارو۔۔۔اللہ تمہاری مدد کرے گا اس سے مدد مانگو اور پھر میں ہوں نا تمہارے ساتھ- کل ہم پولیس اسٹیشن چلیں گے اور تمہارے شوہر کے خلاف ایف-آئی-آر درج کروائیں گے- پھر تمہاری بیٹی تمہیں مل جائی گی۔۔۔۔ فکر نہ کرو بس اللہ سے گلے شکوے نہ کرنا بلکہ اسکی مدد مانگو- وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی تھی اور پھر دونوں کھانا کھاکر خوابوں کی دنیا میں جاچکیں تھیں--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
نورالعین آپ صبح صبح یہاں۔۔۔خیریت ہے- نورالعین 10 بجے میں ان دونوں کے پاس اسکے گھر پہنچ گئی-
جی وہ میں نے آپ سے ایک بات کرنی تھی۔۔آپ مانیں گی؟
جی بات ماننے والی ہوئی تو ضرور مانوں گی نورالعین۔۔۔آپ بتائیں کیا بات ہے-
میں آپکے ساتھ مل کر نوری کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔۔۔میرا بھائی پولیس آفیسر ہے- میں ان سے بات کرکے آپکے پاس آئی ہوں- انہوں نے کہا ہے وہ نوری کی مدد کریں گے اور اسکی بیٹی کو اسکے پاس لائیں گے- نورالعین اپنا مؤقف بیان کرچکی تھی-
یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔ہم آج پولیس اسٹیشن جانے والے تھے- پر اب جانا نہیں پڑے گا- نوری دیکھو اللہ نے تمہاری مدد کردی ہے- وہ اب نوری کو بلا رہی تھی جو اپنے کپڑے استری کررہی تھی-
نورالعین باجی آپ۔۔۔نوری اسے دیکھ کر خوش ہوگئی تھی کیونکہ اسے وہ باتونی لڑکی بہت اچھی لگی تھی جو ہر کسی کے دل میں جگہ بنانا جانتی تھی-
ہاں میں ہوں اور اب ہم سب تمہاری مدد کریں گے- نوری اس معاشرے میں جینے کیلئے مضبوط بننا پڑتا ہے- میری ماں بھی اس دور سے گزر چکی ہے۔۔۔۔میں تو اس وقت بہت چھوٹی تھی پر مجھے میری ماما نے سب بتایا تھا۔۔۔تب بھی وہ اتنے سال ہم بچوں کیلئے جیتی رہیں تھیں- تمہیں بھی اپنی بیٹی کیلئے جینا پڑے گا ورنہ اسکا مستقبل تاریک ہوجائے گا- نورالعین کی باتوں پر نوری کی آنکھیں چمک اٹھیں تھیں- اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس دنیا میں اب بھی اچھے لوگ باقی تھے۔۔۔اور اگر یہی اچھے لوگ ختم ہوجاتے تو یہ دنیا بھی ختم ہوجاتی-
نورالعین ہم تمہارے بھائی سے کب مل سکتے ہیں اس سلسلے میں۔۔۔۔کیونکہ نوری جلد از جلد اپنی بچی لینا چاہتی ہے-
آج ہی مل لیں۔۔۔ابھی بول دوں بھائی کو یا شام کو ملیں گی- نورالعین کو بھی جلدی پڑی تھی کیونکہ اس نے کل اپنے سسرال واپس چلے جانا تھا-
نوری تم بتاؤ۔۔۔وہ اب نوری سے پوچھ رہی تھی-
ابھی مل لیتے ہیں باجی- شام کو پھر آپکو جانا بھی ہے-
ٹھیک ہے اپنے بھائی سے آپ پوچھ لیں کہاں مل سکتے ہیں- اسنے کچھ سوچتے ہوئے نورالعین کو ہاں بول دیا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
نورالعین اپنے بھائی کو اسکے گھر بلا چکی تھی اور اب وہ تینوں لاؤنج میں بیٹھیں باتیں کر رہیں تھیں- انکو بیٹھے کافی وقت گزر چکا تھا پر نورالعین کا بھائی نہیں آیا تھا-
نورالعین آپ نے صیح ایڈریس بتایا تھا گھر کا؟
جی ہمارا گھر بھی مین روﮈ سے آگے ہی ہے- وہ سمجھ گئے تھے-
میں جب تک چائے بنالاتی ہوں تم دونوں باتیں کرو اور اگر دروازہ بجے تو کھول دینا- وہ ان دونوں کو ہدایت دے کر کچن میں جا چکی-
باجی آپکے ایک ہی بھائی ہیں-
ہاں بس ایک ہی بھائی ہے جو ابھی آرہا ہوگا- نورالعین ہنستے ہوئے بولی-
شاید آگئے۔۔۔گاڑی کی آواز تو آئی ہے- چلو باہر چل کر دیکھتے ہیں- وہ دونوں لاؤنج سے اب باہر گیٹ کی طرف آچکیں تھیں- نورالعین نے گیٹ کھولا-
بھائی شکر آپ آگئے۔۔۔ہم تھک گئے تھے آپکا انتظار کرتے کرتے--
اچھا۔۔۔سوری میری بہنا--وہ اپنی بہن کے سر پہ چپت مارتے ہوئے بولا-
نوری یہ ہیں میرے بھائی اور بھائی یہ نوری ہیں جنکی بیٹی آپ نے واپس لانی ہے- نورالعین دونوں کا تعارف کروا رہی تھی-
جی ضرور میں آپکی بیٹی کو واپس لاؤں گا۔۔۔بس آپ نے اللہ سے ہر وقت اپنی مدد کی دعا مانگنی ہے- وہ اب ان دونوں کے ساتھ چلتا لاؤنج میں آچکا تھا-
جی ضرور۔۔۔آپ بیٹھیں میں باجی کو بلا کر لاتی ہوں- نوری کچن کی طرف بھاگ گئی تھی-
کیا ہوا نوری؟ اتنا بوکھلائی ہوی کیوں ہو- وہ چائے کپوں میں ﮈال رہی تھی-
وہ باجی نورالعین باجی کے بھائی آگئے ہیں اور ان کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ وہ شہزادے ہیں- نوری بولتی ہی چلی گئی تھی-
اچھا زیادہ باتیں نہ بناؤ۔۔۔یہ ٹرے اٹھاؤ اور لے جاؤ- میں چائے لے کر آتی ہوں- نوری اسکے کہنے پر کھانے کی ٹرے اٹھا کر جا چکی تھی اور وہ بھی اپنا ﮈوپٹہ سر پر پھیلاتے ہوئے کچن سے باہر آگئی تھی-
باجی آگئیں۔۔۔نوری کے بولنے پر وہ پیچھے مڑا تھا اور نظریں جھپکانا بھول گیا تھا- کچن سے آتی وہ بھی اسے دیکھ چکی تھی-- اسے دیکھتے ہی چائے کی ٹرے اسکے ہاتھ سے گر زمین بوس ہوچکی تھی- اور گرم چائے اسکے پاؤں کو جھلسا گئی تھی پر اسے ﺫرہ برابر بھی فرق نہیں پڑا-
انسپکٹر مصطفی ہمدانی۔۔۔۔۔۔اس کے منہ سے نفرت بھرے انداز میں یہ نام ہی ادا ہو پایا تھا- مصطفی اسکے پیروں پہ چائے گرتے دیکھ فوراً آگے بڑھا پر وہ اسکے آنے سے پہلے ہی منہ پر ہاتھ رکھے روتے ہوئے اپنے کمرے میں جاچکی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل مری کی وادیوں کو ہمیشہ چھوڑ کر جاچکی تھی- اسے اب پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گنوارا نہ تھا کیوں کہ پیچھے کچھ بھی باقی نہ بچا تھا۔۔۔سب جل کر راکھ ہوگیا تھا اور راکھ کرنے والا مصطفی ہمدانی تھا جو اسکی زندگی کا پہلا اور آخری مرد تھا جس سے وہ بے انتہا نفرت کرتی تھی- وہ مری سے اسلام آباد کا سفر بس سے طے کرکے آئی تھی- اسے اسلام آباد اپنے باپ کے گھر جانا تھا جو اسکے لیے واحد سر چھپانے کی جگہ بچا تھا-
وہ اس گھر آچکی تھی- اور اپنی آنے والی زندگی کا سوچ رہی تھی- اسکے باپ کی ایک انڈسٹری تھی جو بلکل ختم ہوچکی تھی- اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے۔۔۔کیسے اپنا پیٹ بھرے- اسکے پاس صرف اتنے پیسے تھے کہ وہ پورا مہینہ روٹی لیکر کھا سکتی تھی- اور اسنے پورا مہینہ اسی پہ گزارا کیا تھا- وہ روز صبح اپنے باپ کی انڈسٹری جاتی تھی اور اپنے باپ کے ایک واحد دوست سے ملتی تھی جو اسکی مدد کرنے کو تیار تھے کیونکہ وہ اسکے باپ کے احسان مند تھے-
سجل نے چھ مہینے لگا کر اس پوری عمارت کو تبدیل کروا دیا تھا- نیچے کا سارا پورشن شاہ انڈسٹری کیلئے تھا اور اوپر کے دو پورشن میں وہ بے سہارا عورتوں کیلئے ادارہ کھول چکی تھی- اسکے باپ کے دوست کو اس نے انڈسٹری کا ہیڈ بنادیا تھا- وہ انڈسٹری کو صبح10 سے 11 اور رات کو 8 سے 9 کے وقت دیکھتی تھی- اسے بزنس میں کبھی انٹرسٹ نہیں تھا۔۔۔بس وہ ساری ﮈیٹیلز چیک کرتی اور اپنا ادارہ چلاتی تھی جسکی وجہ سے اسکی انڈسٹری کو بھی کافی منافع ہوا تھا۔۔۔اور ایک سال بعد اسکی محنت رنگ لائی تھی- شاہ انڈسٹری کا نام پاکستانی انڈسٹریس میں ٹاپ پر تھا۔۔اور اسکی ایک برانچ کراچی میں بھی کھولی جا چکی تھی- اسنے یہ سب اپنے اللہ پر یقین رکھتے اور اس سے مدد مانگتے ہوئے شروع کیا تھا- اور آج وہ اس ایک اللہ کی شکر گزار بندی تھی- اس پورے سال میں اسنے کئی بار مصطفی سے نفرت کی تھی اور کئی بار اسے لگا تھا کہ اسے مصطفی ہمدانی سے محبت ہوچکی ہے- وہ جب اس سے پہلی بار کے ملنے کا سوچتی تھی تو خوش ہوجاتی تھی۔۔۔پر جب اسے اسکی زہر میں ﮈوبی باتیں یاد آتیں تھی تو اسے نفرت ہونے لگتی تھی- وہ اب ﮈائری لکھنا بھی چھوڑ چکی تھی کیونکہ اسکی پرانی ﮈائری اب تک نہیں ملی تھی-
وہ نہیں جانتی تھی کہ نورالعین اسکی بہن تھی۔۔۔اور اب وہ بیٹھی اس وقت کو کوس رہی تھی کہ اس نے اسکے بھائی کا نام کیوں نہ پوچھا اور ایک انجان شخص کو گھر پر بلانے کیلئے راضی کیسے ہوگئی- وہ اسکو دیکھ کر اپنا جلتا پیر بھی بھول چکی تھی۔۔۔جس شخص سے وہ نفرت کرتی تھی۔۔۔جس شخص کو زندگی بھر دیکھنا نہ چاہتی تھی- آج تقدیر نے اسے اسی شخص سے واپس ملا دیاتھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مسٹر اینڈ مسز اقبال ملک میں آپ لوگوں کو ایک دفعہ صاف الفاظوں میں بتا چکی ہوں کہ میں یہ پوری عمارت دور کی بات صرف شاہ انڈسٹری بھی آپکو بیچنا نہیں چاہتی ہوں- چاہے آپ میری جان ہی کیوں نہ لے لیں- یہ پوری عمارت میرے مرنے کے بعد غریبوں اور بے سہارا لوگوں کیلئے ہی چلے گی-- اب آپ لوگ جاسکتے ہیں- وہ دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی اور اتنی عزت افزائی پر اقبال ملک طیش میں آگئے-
ہنہہ جانتی نہیں ہو تم مجھے لڑکی۔۔۔اقبال ملک کو نا کرکے تم نے اچھا نہیں کیا۔۔۔انکی مسز ان کا ہاتھ کھینچ کر باہر لے گئیں- اور وہ سر تھام کر وہیں کرسی پر بیٹھ گئی- پہلے وہ مصطفی ہمدانی کے چکر سے نہیں نکل پارہی تھی اور اب ایک دوسری آفت اسکے سر پہ کھڑی تھی-
باجی۔۔۔میری بیٹی مجھے واپس مل گئی ہے- نوری خوشی خوشی اسکو بتانے آئی تھی ساتھ نورالعین بھی تھی-
بہت مبارک ہو نوری۔۔۔میں گھر جارہی ہوں- تم چلو گی؟ سجل نورالعین کو نظر انداز کرتے ہوئے باہر جانے لگی-
نہیں باجی۔۔۔اب میں یہیں رہوں گی۔۔۔آپ جائیں آرام کریں خدا حافظ- نوری کے کہنے کے ساتھ ہی وہ باہر نکل گئی- نورالعین جانتی تھی کہ وہ کیوں اس سے بات نہیں کررہی-
وہ باہر مین روﮈ پر کھڑی ٹیکسی کا انتظار کر رہی تھی جب پیچھے سے نورالعین آئی تھی-
سجل آپ کو ہم چھوڑ دیتے ہیں- مجھے آپ سے ایک ضروری بات بھی کرنی ہے- نورالعین گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی جہاں مصطفی ہمدانی اسکے انتظار میں کھڑا اسکی باتیں سن چکا تھا-
مجھے آپکی کوئی بات نہیں سننی۔۔نہ ہی آپکی مدد کی ضرورت ہے- ہاں آپکے بھائی نے نوری کی مدد کی اسکے لیے شکریہ کے علاوہ میں کچھ نہیں کہنا چاہتی خدا حافظ- وہ کہ کر مصطفی ہمدانی کے سائیڈ سے گزر کر جاچکی تھی-
بھائی وہ آپکو۔۔۔۔ نورالعین کی بات ادھوری رہ گئی-
سن لیا ہے۔۔۔چلیں گھر۔۔تم نے جانا بھی ہے- وہ اسکی بات کاٹ کر بولا-
جی۔۔وہ دونوں بھی اپنی گاڑی میں جاچکے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★