عثمان تو پارٹی نہیں دے گا اس دفعہ اپنے یار کو- صفدر اور عثمان کا رزلٹ آچکا تھا- عثمان ہمدانی اور صفدر کی دوستی ہو چکی تھی پر اب عثمان کو اس شخص پر بھروسہ نہیں رہا تھا- اس نے اب تک اپنی شادی کا ﺫکر صفدر سے نہیں کیا تھا جبکہ اسکی شادی کو ایک سال ہوچکا تھا اور ایک ننھا بھی وجود میں آگیا تھا-
نہیں میں بزی ہوتا ہوں اب-- لائف بہت ٹف ہوچکی ہے صفدر- عثمان ہمدانی اسے یہی کہتے تھے-
یار تیرے یار کی شادی بھی ہونے والی ہے اب تو۔۔۔تو بھی کرلے شادی- صفدر شاہ اس سے اپنی شادی کا ﺫکر کر رہے تھے اور عثمان ہمدانی کو لگا تھا کہ وہ واقعی سدھر گیا ہے- تبھی شادی بھی کر رہا ہے--
ہاں ہاں کرلوں گا۔۔۔۔تیری شادی کب ہورہی ہے؟؟ عثمان اپنی بات ٹالتے ہوئے اسکی شادی کا پوچھنے لگا-
اگلے ویکنڈ ہی یار۔۔۔میری اماں کو بہت جلدی پڑی ہے- اور اب تو بڑے بھائی کے بھی دو بچے ہوچکے ہیں-
مبارک ہو تجھے۔۔۔۔میں تیرا گفٹ کل لے آؤں گا- عثمان نے اسکے گلے لگتے ہوئے مبارکباد دی-
تو آجا شادی میں یہی میرے لیے تحفہ ہے-
نہیں صفدر میں کیسے آسکتا ہوں۔۔۔میری ایک دن کی غیر حاضری سے مجھے اگلے پورے مہینے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے- اور پھر تیری شادی تیرے گاؤں میں ہورہی ہے- عثمان ہمدانی بہانہ بنا رہے تھے جبکہ ان کو اب بہت اچھی جاب مل چکی تھی اور انکی تنخواہ بھی بہت اچھی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل کہاں جا رہی ہو؟ صفیہ بیگم اسے باہر جاتے دیکھ چکی تھیں تبھی بولیں-
سب جانتے ہیں کہ اس ٹائم میں کہاں جاتی ہوں تو آپ کیوں یہ سوال کر رہیں ہیں- سجل کو صبح سے مزمل کی باتوں پہ غصہ آیا ہوا تھا-
بیٹا۔۔۔پرسوں تمہارا نکاح ہے۔۔۔گھر میں رہو تو زیادہ اچھا ہے۔۔۔اتنی سردی میں جنگلوں میں نہ جاؤ- صفیہ بیگم اسے سمجھاتے ہوئیں بولیں تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں انکے بیٹے تک سب آوازیں جارہیں ہیں ورنہ انکی بلا سے سجل جہنم میں جائے یا جنگلوں میں انہیں کیا فرق پڑتا تھا-
تائی میں صبح ہی مزمل کو بتا چکی ہوں کہ میں ہر حال میں دریا جاؤں گی۔۔۔آپکی بات مان لیتی ہوں- کل اور پرسوں نہیں جاؤں گی- سجل کو انکی اچھے سے کہی گئی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی کیونکہ اس گھر میں اس سے اچھے سے کوئی پیش نہ آتا تھا سوائے مزمل کے۔۔۔۔اور آج مزمل بھی انہیں کی زبان بولنے لگا تھا-
سجل جب تمہیں ماما منع کر رہی ہیں تو تمہیں ایک دفعہ کی کہی بات سمجھ نہیں آتی ؟؟ مزمل اسکی ساری باتیں سن چکا تھا- سجل کو اب سمجھ آئی کہ تائی اتنے اچھے سے کیوں پیش آئیں تھیں-
میں تمہیں صبح بتا چکی ہوں کہ میں جاؤں گی۔۔۔میرا بہت وقت برباد ہوچکا ہے۔۔۔خدا حافظ- وہ نکل چکی تھی کہ اس سے پہلے آکر کوئی اور اسے روکے اور تماشہ بنے-
دیکھ لیا تم نے۔۔۔۔کیسی زبان چلتی ہے اسکی-- بڑوں سے بات کرنے کی تمیز ہی نہیں ہے- صفیہ بیگم غصے سے مزمل کو بتا کر جا چکیں تھیں اور مزمل سوچتا رہ گیا کہ سجل ایسی کیوں ہوگئی ہے------
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سر۔۔۔صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں اور آپ نے اب تک اپنے منصوبے کیلئے کچھ کیا نہیں-- انسپکٹر ہمدانی کبھی بلاوجہ اپنے کام سے غیر حاضر نہیں ہوتا تھا- وہ یہی سوچ کر اپنے کام میں واپس لگ گیا تھا کہ جانے والے رونے سے واپس آیا نہیں کرتے اور اسے اپنے باپ سے کیا گیا وعدہ پورا کرنا تھا-
مجھے اب آپ میں سے کسی ضرورت نہیں ہے- میرا مشن میں خود سر انجام دوں گا- وہ سوچ چکا تھا کہ اس ظالم شخص کو کیسے برباد کرناہے-
پر سر۔۔۔آپ نے کہا تھا کہ۔۔۔
میں نے جو بھی کہا تھا اسے بھول جاؤ کیونکہ یہ مشن میرا ہے اور میں خود ہی کسی کی مدد کے بغیر پورا کروں گا-- آپ لوگ اپنے کام پر توجہ دیں- وہ انکی بات کاٹ کر بولا تھا اور وہاں سے چلا گیا- اسے اپنے گھر جاکر منصوبے کے ہر ایک ایک چیز پر سوچنا تھا کہ اسے کونسا کام کس وقت کرنا ہے اور کہاں کرنا ہے--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ہوگئی تیری شادی؟ صفدر دو ہفتے بعد اس سے مل رہا تھا پر عثمان کو اسکے چہرے پہ کوئی خوشی نظر نہیں آئی تھی-
ہاں ہوگئی ہے۔۔۔تو گھر چل میرے ساتھ۔۔۔ملواتا ہوں تجھے تیری بھابھی سے- صفدر ایسے بولا تھا جیسے وہ اپنے کسی دشمن سے ملوانا چاہ رہا ہو-
ہاں آؤں گا کسی دن تیری بھابھی کے ساتھ- عثمان ہمدانی نے اسکے سر پہ بم پھوڑا تھا-
یہ کیا کہ رہا ہے تو۔۔۔تو نے شادی کرلی اور مجھے بتایا بھی نہیں- صفدر شاہ کو جھٹکا لگا تھا-
ہاں کرچکا ہوں- بس جلدی میں ہوئی تھی اسی لیے نہیں بتایا اور اب تیری بھی ہوگئی ہے تو اسی لیے بتایا-
اچھا کس سے کی ہے؟ کون ہے؟ صفدر شاہ ایسے پوچھ رہا تھا جیسے اس نے اس سے شادی کرنی ہو-
ایک کام کرتے کل ہم مل لیتے ہیں کسی ہوٹل میں۔۔۔تو اپنی بیوی کو ساتھ لانا اور میں اپنی والی کو ساتھ لاؤں گا- عثمان پروگرام ترتیب دینے لگا-
ہنہہ میری بیوی دکھانے کے لائق نہیں ہے- مجھے تو اب تک وہ لڑکی نہیں بھولی- صفدر شاہ کی بات پر عثمان حیران رہ گیا تھا- کہ یہ لڑکا اب تک نہیں سدھرا ہے-
کونسی لڑکی؟ عثمان انجان بنتے ہوئے بولا-
یار وہی جسے میں استعمال کرنا چاہتا تھا- پر وہ بھاگ گئی تھی-
اوہ۔۔۔تو اسکی بات کر رہا ہے۔۔۔چھوڑ یار- اپنی بیوی کے ساتھ لائف گزار- عثمان دوستانہ انداز میں مشورے سے نواز رہا تھا-
یار وہ مجھے نہیں پسند ہے۔۔۔اماں نے زبردستی تھوپی ہے-- پیاری بہت ہے پر ہر وقت لڑتی رہتی ہے- میں تنگ آگیا ہوں-
آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائے گا سب کچھ۔۔۔چل کافی پلاتا ہوں-
وہ دونوں اب کافی شاپ پر آگئے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل میرا نام لکھوانا مہندی پر۔۔۔۔وہ دونوں چھت پر بیٹھے تھے- کل مہندی کی چھوٹی سی تقریب رکھی گئی تھی- اور مزمل اسے اپنا نام لکھوانے کو کہ رہا تھا-
نہیں میں ایم اور ایس لکھواؤں گی۔۔۔پورا نام برا لگتا ہے- سجل اپنی شال سہی کرتے ہوئے بولی-
نیچے چلیں۔۔ٹھنڈ لگ رہی ہے بہت۔۔میں بیمار ہوجاؤں گی- اور پھر تم کسی اور سے نکاح کرلینا- سجل شرارت سے بولی-
ہنہہ کسی اور سے تب کروں گا جب تم مر جاؤ گی- مزمل کو سجل ایسی ہی اچھی لگتی تھی ہنستی مسکراتی ہوئی اور ہنستے ہوئے اسکا جو ﮈمپل پڑتا تھا اسے وہ بہت پسند تھا-
دفع ہوجاؤ۔۔بدتمیز میں نہیں بات کرتی تم سے- سجل منہ بسورتے ہوئے بولی-
مزمل کا جاندار قہقہ فضا میں بلند ہوا-
ہنس لو- ہنس لو۔۔۔۔میں نہیں شادی کرتی تم سے- وہ رونے کی ایکٹنگ کرنے لگی-
آئے گندی لڑکی۔۔۔۔روتے ہوئے ناک بھی بہہ رہی ہے- مزمل اسے چھیڑ رہا تھا-
ہاں ہاں تم لڑکے بس اچھے۔۔۔۔لڑکیاں گندی ہیں نا- سجل جل کر بولی اور مزمل سے ہنسی روکنا مشکل ہوگیا تھا- اسے ہنستا دیکھ کر سجل بھی دھیرے سے ہنس دی تھی-
ان دونوں کے ساتھ ساتھ آسمان پر چاند بھی ہنس رہا تھا ، مسکرا رہا تھا اور انکی خوشیوں پر خوش ہو رہا تھا پر کون جانتا تھا کہ اللہ کو کچھ اور ہی منظور ہے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ان سے ملو یہ ہیں میری پیاری بیوی کلثوم بانو اور کلثوم یہ صفدر ہے- عثمان اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ ہوٹل آچکا تھا اور صفدر بھی اپنی بیوی کو زبردستی لے آیا تھا-
کلثوم بانو- صفدر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں- اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی کلثوم بانو ہے-
کیسا لگا میرا سرپرائز صفدر شاہ- عثمان ہمدانی مسکراتے ہوئے بولا-
تیرا بچہ بھی ہوگیا عثمان اور تو نے بتایا تک نہیں- صفدر اپنے حواسوں پر قابو پا چکا تھا۔۔۔اسے اب سمجھ آئی تھی کہ عثمان کو جس دن اسنے یہ سب باتیں بتائیں تھیں اسی کے اگلے دن کلثوم کیسے غائب ہوگئی تھی- صفدر شاہ کا دل کر رہا تھا عثمان کو مار ﮈالے پر وہ اسکا اعتماد جیتنا چاہتا تھا- تاکہ وہ عثمان کو مار کر کلثوم بانو سے شادی کرلے۔۔۔۔اب وہ منصوبے بنا رہا تھا---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
واؤ۔۔۔بہت پیاری مہندی لگ رہی ہے- مزمل اسکی مہندی دیکھ کر خوش ہوگیا تھا- اسکے دونوں ہاتھوں پہ آدھا آدھا دل بنا کر اسکے بیچ ( M♥S ) لکھا ہوا تھا-
مزمل چلو باہر نکلو۔۔۔کل دیکھنا اسے دل بھر بھر کر۔۔۔۔سمیرا اور بتول اسکے روم میں آگئی تھیں-
ہاں کل تو صرف اسے دیکھنا کا میرا ہی حق ہوگا- مزمل جاتے ہوئے بولا تھا اور اسے اشارہ کرکے گیا تھا کہ کال پر بات کرتا ہوں اور سجل مسکرادی -
اتنا مسکراؤ نہیں سجل بی بی۔۔۔کیا پتہ تمہاری یہی مسکراہٹ چھین لی جائے- بتول جل کر بولی- اسنے بھی مہندی لگوائی تھی کیونکہ اسے اپنی ماں اور ممانی کا بنایا گیا پلان پتہ چل گیا تھا-
سمیرا کل بابا آئینگے نا-- سجل اپنی مہندی پہ پھونک مار کے بولی-
ہاں امی کہ رہیں تھیں کہ فون آیا تھا- کل شام تک پہنچ جائیں گے- سمیرا اور بتول اٹھ کر جا چکیں تھیں اور سجل اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں سوچنے لگی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
عثمان یار تو اپنے گھر بلاتا ہی نہیں ہے- دو سال گزر چکے تیرے بیٹے کو دیکھے ہوئے- صفدر شاہ نے آج کافی عرصے بعد کال کی تھی-
ہاں یار بزی ہوں۔۔۔عثمان چاہتے نہیں تھے کہ وہ گھر آئے۔۔۔انھیں اب بھی صفدر پر بھروسہ نہیں تھا-
پھر کب بلا رہا ہے تو اپنے گھر-- صفدر بار بار گھر بلانے کی ہی بات کر رہا تھا- عثمان کو آخر ماننا پڑگیا تھا اور اب وہ انکے گھر بیٹھا تھا-
بھابھی کھانا بہت مزے کا بنایا ہے آپ نے- کلثوم کو صفدر کے آنے کا عثمان نے پہلے سے بتادیا تھا تبھی وہ کھانا پکا چکی تھیں-
تھینک یو صفدر بھائی۔۔۔کسی دن بھابھی کو بھی لائیے گا- کلثوم کو اگر اس شخص کی چالبازیوں کا اندازہ ہوتا تو وہ اس شخص کو اپنے گھر میں قدم بھی نہ رکھنے دیتیں- پر جو جسکی قسمت میں لکھا ہوتا ہے وہی ہوا کرتا ہے---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اسلام علیکم بابا جانی۔۔۔۔ سجل اپنے باپ کو سلام کرکے ان کے پاس ہی بیٹھ گئی-
میری بیٹی کیسی ہے؟ وہ سجل سے بہت پیار کرتے تھے- پر انھوں نے اپنے سے دور اسلیے رکھا تھا تاکہ اسکی دادی اچھی پرورش کرسکیں۔۔۔اسکی ماں تو اسے کب کی چھوڑ کر جاچکی تھی-
ٹھیک ہوں بابا- آپ بتائیں میرے لیے کیا لائے ہیں؟ وہ ہمیشہ ان سے ایک ہی بات کہتی تھی۔۔۔کہ ایسی چیز لائیے گا جو مجھے ہمیشہ کام آئے کیونکہ اسکو نہ میک اپ پسند تھا نہ کوئی اس قسم کی فالتو چیزیں۔۔وہ ہمیشہ سادہ سی رہتی تھی اور آج بھی وہ سادہ سی ہی تھی- صفیہ بیگم تو اسکو کالے جوڑے میں دیکھ کر عش عش کر اٹھیں تھیں۔۔۔سمیرا اور بتول اسکی سادگی پر بھی جل کر کوئلہ بن چکیں تھیں- مزمل اسکو دیکھنے کیلئے بے تاب تھا- اور اس وقت کا انتظار کر رہا تھا جب وہ اسکی بیوی بن جائی گی- پر اسے کیا معلوم تھا اسکا یہ انتظار ساری زندگی کا انتظار رہ جانا ہے---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
یار سمیرا باہر چل کر بیٹھتے ہیں- بتول کو باہر جانی کی جلدی تھی کیونکہ اسکی ماں اور ممانی کا بنایا گیا پلان پورا کرنا تھا-
کیوں۔۔۔یہی بیٹھو- ابھی مولوی صاحب باہر نکاح پڑھانے لگے ہیں-
افف یہ لائٹ بھی اسی ٹائم جانی تھی- چلو باہر- بتول اسکا ہاتھ گھسیٹتے ہوئے اسے لے جاچکی تھی- اور سجل اب اکیلے اندھیرے میں بیٹھی تھی- ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے کہ اسے واپس دروازہ کھلنے کی آواز آئی-
سمیرا۔۔۔بتول لائٹ کیوں چلی گئی اچانک؟ سمیرا اور بتول ہوتیں تب ہی جواب دیتی نا-
بولو بھی گونگیاں ہوگئی ہو-؟ جو کوئی بھی تھا اب وہ کمرے کو لاک لگا کر اسی کی طرف آرہا تھا-
جان اتنا چیخنا صحت کیلئے اچھا نہیں ہوتا- ابھی تو تمہیں یہ چیخیں بہت بار چیخنی ہیں- وہ اب اسکے پاس آکر بیٹھ چکا تھا اور سجل کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تو فوراً اٹھ کھڑی ہوئی- پر بھاگ نہ پائی تھی کیونکہ سجل کا ہاتھ اسکے ہاتھ میں تھا-
تم ہی نے تو مجھے دعوت دی تھی اور اب بھاگ رہی ہو- مہمان کی میزبانی بھی نہیں کروگی--
میں تمہیں نہیں جانتی کون ہو تم؟؟ میرا ہاتھ چھوڑو- سجل اس سے اپنا ہاتھ چھڑانے میں لگی تھی اور تب ہی لائٹ آگئی تھی- سجل نے اب تک اسے نہیں دیکھا تھا-
کون ہوں میں اور کیوں آیا ہوں- یہ سب بات میں بتاؤں گا- ابھی میرے پاس بلکل بھی وقت نہیں ہے- تم میری باتیں چپ چاپ غور سے سنو اور سمجھ لو- وہ اسے بیڈ پر زبردستی دھکا دے کر بٹھا چکا تھا اور سجل اسے دیکھتے ہی سکتے میں چلی گئی تھی-
------------------------------------