آج سرد ہوائیں چل رہیں تھیں اور طوفانی بارش کا بھی امکان تھا-
اتنے برے موسم میں بھی وہ یہاں چلی آئی تھی- اسے ہر حال میں اپنی ﮈائری لکھنی تھی۔۔۔وہ شال لے کر نکلی تھی تب بھی سردی سے برا حال تھا- وہ مری کے موسم کی عادی تھی پر سردیوں میں وہ پچھلے سال تک اسلام آباد چلی جایا کرتی تھی کیونکہ اسے کالج جانا ہوتا تھا- اور مری سے اسلام آباد تک کا سفر ہی تھکا دینے والا ہوتا تو وہ وہیں اپنے باپ کے پاس رہ جاتی تھی۔۔۔اب وہ پرائویٹ پڑھ رہی تھی- اسی لیے وہ یہیں رہ گئی تھی-
وہ دریا تک آگئی تھی پر اب واپسی مشکل لگ رہی تھی۔۔کیونکہ بادلوں کی وجہ سے جلد ہی اندھیرا ہونے والا تھا-
وہ وہیں دریا کے کنارے بیٹھی تھی اور جلدی جلدی ﮈائری لکھنے میں مصروف ہوگئی جبھی اسے کسی گاڑی کی آواز آئی- وہ حیران رہ گئی کہ اس وقت کوئی بھی یہاں نہیں آتا تھا پھر آج کون آگیا-
کون ہے؟ وہ آوازیں لگا رہی تھی پر کوئی کچھ نہیں بولا۔۔۔۔
وہ اب گاڑی کے قریب آچکی تھی۔۔۔اسے اندر بیٹھا کوئی نظر آیا جو فون پر بات کرہا تھا-
سجل نے شیشہ کھٹکایا تو وہ کار سے اتر آیا-
جی مس۔۔کہیے کوئی مسلئہ ہے آپکو؟؟ وہ سجل سے پوچھ رہا تھا اور سجل اس شاندار مرد کو دیکھتی رہ گئی- اس نے آج تک اتنا شاندار مرد کبھی نہیں دیکھا تھا- تبھی وہ اسے گھورنے لگی-
مس۔۔۔میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں؟ وہ اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے بولا اور سجل اپنے حواسوں میں لوٹ آئی-
نن۔۔نہیں کچھ بھی نہیں--
تو پھر آپ مجھے اتنا گھور کر کیوں دیکھ رہی ہیں؟؟
کیونکہ آپ بہت اچھے لگ رہے ہیں۔۔۔بلکل کسی شہزادے کی طرح-- آج تک میں نے آپ جیسا شاندار مرد نہیں دیکھا-
اچھا۔۔۔پھر تو آپ مجھ سے شادی کیلئے بھی مان جائیں گی- مصطفی ہنستے ہوئے بولا-
نن۔۔۔نہیں میری شادی ہونے والی ہے۔۔۔۔ سجل اسکی بات پہ گڑ بڑا کر بولی تھی-
اور اگر شادی نہ ہوتی تب تو آپ راضی ہوجاتیں نا؟؟
ہاں جی۔۔۔بالکل کیوں کہ آپ کو کوئی بھی لڑکی جانے بغیر بھی پسند کرسکتی ہے-
مصطفی کو یہ لڑکی آسمان سے اتری پری لگ رہی تھی اور ہنستے ہوئے اسکے گالوں پہ جو ﮈمپل پڑا تھا اسے وہ بہت اچھا لگا۔۔۔ اسنے آج تک اتنی پاکیزہ صورت اور نور سے بھر پور چہرہ نہیں دیکھا تھا- جس طرح اس لڑکی کو وہ شہزادہ لگ رہا تھا بلکل اسی طرح اسے وہ بھی شہزادی لگی تھی-
کیا میں آپکی شادی میں آسکتا ہوں؟؟ وہ دوستانہ انداز میں پوچھ رہا تھا-
جی بلکل 31 دسمبر کو میرا نکاح ہے۔۔۔۔
وہ کہ کر چلی گئی تھی اور مصطفی اسکی بے وقوفی پہ ہنس دیا تھا- وہ یہی سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکی اپنا پتہ نہیں بتا گئی تو وہ اسکے نکاح میں کیسے جاتا---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
آپ سے میں نے ایک بات کرنی ہے۔۔۔کیا آپ میرے ساتھ چل سکتی ہیں- عثمان ہمدانی اس لڑکی کو ﮈھونڈ چکا تھا اور اب اسے سب بتانا چاہتا تھا- تاکہ ایک لڑکی کی زندگی برباد نہ ہو-
جی پر کہاں جانا ہے؟ وہ لڑکی نقاب میں تھی- اسکی صرف آنکھیں نظر آرہیں تھیں-
آپ جہاں چلنا چاہیں۔۔عثمان ہمدانی خود اپنی مرضی کی جگہ بتاتا تو وہ لڑکی کبھی اس پر اعتبار نہ کرتی-
سامنے کافی شاپ ہے۔۔۔وہاں بیٹھ کر بات کرلیتے ہیں- لڑکی کافی شاپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
جی ٹھیک ہے-
وہ دونوں اب کافی شاپ میں بیٹھے تھے-
میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں- آپ مجھ پہ بھروسہ کرسکتی ہیں- میں آپکو جانتا نہیں ہوں۔۔۔ایک لڑکی کی زندگی برباد نہ ہو اسی لیے میں آپکو ایک بات بتانا چاہتا ہوں- عثمان ہمدانی بات کا آغاز کرچکے تھے-
جی آپ بولیں۔۔۔میں سن رہی ہوں۔۔اور رہی بھروسے کی بات تو مجھے آپ پر بھروسہ ہے تبھی میں آپکے ساتھ چل کر یہاں تک آئی ہوں-
میرا ایک دوست ہے- صفدر شاہ۔۔۔وہ آپکو پسند کرنے لگا ہے پر۔۔۔۔۔عثمان ہمدانی سے آگے بولا نہیں گیا-
جی۔۔۔میں جانتی ہوں اسکے بارے میں اور آپکو آگے بتانے کی نوبت بھی پیش نہیں آئی گی کیونکہ میں یہ سب جانتی ہوں- اسی لیے کل سے میں یونیورسٹی نہیں آؤں گی- آپکا بہت بہت شکریہ۔۔۔کہ آپ نے ایک لڑکی کی زندگی کے بارے میں سوچا- اور اسی لیے آپ پر بھروسہ کرنے لگی ہوں--
آپ یہ سب کیسے جانتی ہیں؟؟ عثمان ہمدانی حیران تھے-
میں نے کینٹین میں آپ دونوں کی باتیں سن لی تھیں- آپ اس شخص سے دوستی مت توڑیے گا میرے لیے- وہ لڑکی کافی کا سپ لیتے ہوئے بولی-
میں ایسے شخص سے دوستی رکھنا کبھی پسند نہیں کروں گا جو عورتوں کو ٹشو پیپر سمجھتا ہو- اسکے ساتھ دوستی میرے کردار پر بھی اثر انداز ہوگی-
عثمان ہمدانی نے اب قسم کھا لی تھی کہ اس شخص کی شکل بھی نہیں دیکھیں گے-
ہنہہ جب اپنے گھر میں آپکو ٹشو پیپر سمجھ کر استعمال کیا جائے تو باہر والوں سے کیسا گلہ- لڑکی روتے ہوئے بولی-
کیا مطلب آپکا۔۔۔؟؟
کچھ نہیں۔۔۔۔میں اب چلوں گی- وہ لڑکی اب اٹھنے لگی تھی-
رکیں۔۔۔کیا آپکو مجھ پر اب بھی بھروسہ نہیں ہے؟ آپ مجھ سے اپنی پرابلم شئیر کرسکتی ہیں۔۔پلیز بتائیں- عثمان ہمدانی کو اس لڑکی پہ ترس آرہا تھا
مجھے آپ پر بھروسہ ہے۔۔یہ میں آپکو بتا چکی ہوں- اور رہی بات پرابلم کی تو وہ پرابلم نہیں عذاب ہے- جو مجھ پر روز نازل کیا جاتا ہے-
آپ کھل کر بات کریں۔۔۔۔کیسا عذاب؟؟
آپ مجھ پہ نازل کیا جانے والا عذاب سن کر صرف ہمدردی ہی کرسکتے ہیں- وہ لڑکی سرگوشی کے انداز میں بولی تھی-
میں آپ سے ہمدردی کرنے کے بجائے آپکا ساتھ دینا چاہتا ہوں۔۔۔آپکی مدد کرنا چاہتا ہوں- آپ صرف ایک بار بتا کر تو دیکھیں-
کیا بتاؤں۔۔۔یہی کہ میرا باپ میری ماں کو قتل کرچکا ہے اور اب مجھے زندہ درگور کرنا چاہتا ہے- بتائیں کیسی ہیلپ کریں گے آپ میری؟ لڑکی اب رودی تھی اور عثمان ہمدانی اسے چپ کرانے لگ گئے تھے کیونکہ لوگ انکی طرف متوجہ ہورہے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
بھابھی۔۔۔۔یہ لیں جوڑا پہنا دیجیئے گا اس منحوس ماری کو۔۔۔ صفیہ بیگم نیچے سجل کا جوڑا لے کر آئیں تھیں جو مزمل نے اپنی پسند سے خریدا تھا-
واؤ ممانی یہ تو مجھ پر بہت اچھا لگے گا۔۔۔میں رکھ لوں- بتول سجل کیلئے آیا جوڑا دیکھ رہی تھی- اسنے سوچ لیا تھا کسی طرح بھی سجل سے مانگ لے گی اور اب سجل کو اسی طرف آتا دیکھ کر بولی-
نہیں بیٹا۔۔۔میں آپکو دوسرا دلا دوں گی یہ سجل کے نکاح کا ہے- نائلہ بیگم بھی اسے آتا دیکھ چکیں تھیں-
بتول یہ تم رکھ لو۔۔۔میں کوئی اور پہن لوں گی- وہ بڑے پیار سے بولی- اسکی عادت تھی ہر اپنی چیز دوسروں کو دینے کی۔۔۔اور دوسروں کو بس لینے کی عادت تھی ایک مزمل تھا جو اسے بہت کچھ دیتا تھا پر سجل وہ سب بھی بتول اور سمیرا کو دے دیتی تھی۔۔۔۔یہی بات مزمل کو تپا دیتی تھی اور اب اوپر جاتا مزمل یہ منظر دیکھ چکا تھا تبھی اسی طرف چلا آیا تھا-
کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔یہ سوٹ میں نے اپنی پسند سے خریدا ہے سجل کیلئے۔۔۔بتول اسکو واپس دو- مزمل غصے سے بولا-
افف اوہ مزمل۔۔۔۔مجھے ویسے بھی یہ کالے رنگ والا سوٹ پسند آیا ہے اور میں اپنے نکاح میں یہی پہنوں گی- وہ بلیک سوٹ دیکھتے ہوئے بولی- جو کہ صفیہ بیگم نے سیل میں سے دو ہزار کا لیا تھا- جس پر کوئی بھاری کام نہ ہونے کے برابر تھا-
یہ سستا سا سوٹ تم اپنے نکاح میں پہنو گی؟؟ مزمل کا چہرہ غصے سے لال بھبوکا ہوچکا تھا-
ہاں نا۔۔۔تم جانتے ہو مجھے بھاری کپڑے نہیں پسند اور یہ کلر بھی میرا فیورٹ ہے-
کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔اٹھو ابھی میں تمہیں بازار سے دلا آتا ہوں۔۔۔اور بتول تمہیں میں بعد میں پوچھتا ہوں- وہ غصے سے سجل کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے جاچکا تھا اور صفیہ بیگم غصے میں سجل کو گالیاں دیتی رہیں۔۔۔۔---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
عثمان ہمدانی کلثوم بانو سے نکا ح کر چکے تھے- اور اب وہ انکے گھر آچکیں تھیں- عثمان ہمدانی نے صفدر شاہ سے سارے رابطے ختم کردیے تھے اگر وہ کلثوم بانو سے شادی نہ کرتے تب بھی انکا صفدر جیسے شخص سے رابطہ رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا-
کلثوم آپ اپنے والد سے ملنا چاہتیں ہیں تو آپکو میری طرف سے اجازت ہے- عثمان انکے پاس بیٹھتے ہوئے بولے-
نہیں مجھے کسی سے نہیں ملنا عثمان۔۔۔اب صرف آپ میرے ہیں اور میں آپکی ہوں- مجھے اسکے علاوہ کچھ نہیں چاہیے- کلثوم کی آنکھوں میں نمی تھی- انہیں اپنی ماں بہت یاد آتی تھی پر جانے والے رونے سے واپس نہیں آسکتے-
ٹھیک ہے بیگم صاحبہ ہم آپکے ہی ہیں اور رہیں گے۔۔۔اب آرام کیجئے- عثمان شرارت بھرے لہجے میں کہتے ہوئے لیمپ آف کرچکے تھے---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مزمل آپ زبردستی کیوں لے آئے۔۔۔وہ بلیک سوٹ بہت پیارا تھا- سجل کا ہاتھ اب بھی اسکے ہاتھ میں ہی تھا-
میں اپنی ہونی والی بیوی کو نکاح میں دو ہزار کا جوڑا پہننے نہیں دے سکتا۔۔۔تمہیں بلیک کلر پسند ہے تو اسی کلر کا کوئی لے لو-- پر لینا تم نے ہر حال میں ہے ورنہ مجھے زبردستی کرنے آتی ہے-
وہ دونوں شاپنگ مال آگئے تھے پر سجل کو ایک بھی جوڑا پسند نہیں آیا-
یہ دیکھو۔۔۔۔کتنا پیارا ہے- مزمل ایک بلیک سوٹ نکال کر اسے دکھا رہا تھا-
ہاں۔۔۔۔یہ تو بہت پیارا ہے۔۔۔ٹھیک ہے بس یہی لے لیتے ہیں- میں بہت تھک چکی ہوں-
سر سوری یہ لاسٹ سوٹ تھا۔۔۔وہ سر لے چکے ہیں- سیل مین دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تھا جہاں ایک آدمی فون پہ بات کر رہا تھا-
مزمل پھر میں نے کچھ نہیں لینا۔۔۔گھر چلو- سجل کو تھکاوٹ ہورہی تھی-
سر آپ ان سے بات کرلیں۔۔اگر وہ آپکی مان جائیں تو ہم آپ کو دے دیں گے- سیل مین اب اسے مشورے سے نواز رہا تھا-
سجل ایک دفعہ ان سے بات کرکے دیکھ لیتے ہیں- کیا پتہ وہ مان جائیں- مزمل اب اسے لیے اس آدمی کے پاس آگیا تھا-
ایکسکیوزمی۔۔۔مزمل کے کہنے پہ وہ مڑا تھا اور سجل اسے گھورتی ہی رہ گئی تھی اور اس آدمی کی بھی پہلی نظر سجل پہ پڑی-
اوہ۔۔۔۔آپ یہاں بھی مل گئیں- آپ کہیں میرا پیچھا تو نہیں کرتیں؟ وہ شرارت سے جھک کر سجل کے کان میں بولا تھا اور مزمل اسکی اس حرکت پر تپ گیا-
اے۔۔مسٹر یہ کیا بد تمیزی ہے۔۔۔۔اس فضول قسم کی گفتگو سے پرہیز کریں- یہ میری ہونی والی بیوی ہے- مزمل کی غصے سے رگیں تن گئیں-
اوہ۔۔یہ آپکے ہونے والے شوہر ہیں- زبردست۔۔۔پر مجھ سے زیادہ نہیں اچھے ہیں نا۔۔۔ اور آپ مسٹر شوہر صاحب آپکی بیوی نے ہی میرا پیچھا کیا ہے اور آپ ہمیں سنا رہے ہیں-
آپکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔ہم نے آپکا پیچھا نہیں کیا- ہم سوٹ لینے آئے تھے اور مجھے وہ بلیک سوٹ پسند آیا ہے جو آپ لے چکے ہیں- سجل نے اسکی غلط فہمی دور کی تھی اور مزمل نے شکر ادا کیا تھا کہ جو وہ سوچ رہا تھا ویسا کچھ نہیں تھا-
اچھا۔۔۔تو اب آپ وہ لینا چاہتی ہیں-- اوکے لے لیں پر میری ایک شرط ماننی پڑی گی- مصطفی مسکرا رہا تھا- کیونکہ اس نے یہ سوٹ اپنی بہن کیلئے لیا تھا جسکی اب شادی ہوچکی تھی- اسے اپنی بہن اتنی پیاری نہیں تھی کہ وہ ایک سوٹ کیلئے ان سے لڑتا-
جی کہیے آپکی کیا شرط ہے- اب کی بار مزمل بولا-
مجھے تم اپنی ہونے والی بیوی دے دو۔۔۔اسے یہ سوٹ بھی مل جائے گا- وہ ہنستے ہوئے بولا-
مزمل کو اسکی بات سن کر سکتہ ہوگیا تھا اور سجل آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس آدمی کو دیکھے جا رہی تھی-
دیکھ لو تمہاری ہونے والی بیوی اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھنے کے بجائے مجھے گھور رہی ہے- وہ کبھی بھی کسی سے ایسے بات نہیں کرتا تھا اور ہنستا وہ صرف اپنی ماں کے سامنے تھا-
بکواس بند کرو اپنی۔۔۔نہیں دینا سوٹ تو صاف صاف بولو-
آپ تو غصہ کر گئے۔۔سوری میں بس مذاق کر رہا تھا- میری شرط یہ ہے کہ اسکا بل میں دوں گا ورنہ سوٹ بھی آپکو نہیں ملے گا-
نہیں مجھے نہیں چاہیے۔۔مزمل چلو- سجل اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے باہر کی طرف نکلنی لگی جب اسے مزمل نے روک لیا-
سجل لے لو۔۔۔پلیز۔۔۔۔میں اب اور نہیں گھوم سکتا- تم بھی تھک چکی ہو- مزمل اسرار کر رہا تھا تو اسے ماننا پڑا-
ٹھیک ہے- اسکے کہنے پر وہ لوگ کاؤنٹر کی طرف آگئے اور دس ہزار کے سوٹ کا بل مصطفی نے ہی دیا-
تھینک یو سر۔۔۔مزمل اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولا-
اٹس اوکے۔۔۔خدا حافظ-
وہ چلا گیا تھا اور سجل سوٹ لیے گھر آگئی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اسلام علیکم امی۔۔کیسی ہیں؟ وہ اپنی ماں کے پاس آکر بیٹھ گیا-
ٹھیک ہوں۔۔۔آج جلدی آگیا میرا بیٹا- خیریت ہے- وہ تسبیح سائیڈ پہ رکھتے ہوئیں بولیں-
ہاں کیونکہ اگلے کچھ دن میں گھر نہیں آسکوں گا- وہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا -
کیوں ایسا کیا کام ہے- کلثوم پریشان ہوگئیں تھیں۔۔۔انھیں عجیب وہم ستانے لگے-
بتایا تو تھا آپکو ایک کانچ کی گڑیا کو توڑنا ہے اور پھر اسکا تماشا دیکھنا ہے- انسپکٹر ہمدانی مسکراتے ہوئے بولا-
بیٹا میں نے تمہاری تربیت ایسی نہیں کی ہے- اگر تم نے کچھ بھی ایسا کیا تو میں تمہیں اپنی شکل بھی نہیں دکھاؤں گی کیونکہ میرا بیٹا اس شخص جیسا نہیں ہوسکتا- کلثوم بانو روتے ہوئیں بولیں-
امی۔۔۔اب میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا کیونکہ میں نے ساری زندگی اسی دن کیلئے گزاری ہے ورنہ میں اسی وقت مر چکا ہوتا- وہ انکی باتیں سن کر اٹھ گیا-
تو تم میری بات نہیں مانو گے۔۔۔ٹھیک ہے کل میں تمہیں اس گھر میں نظر نہیں آؤں گی- وہ اٹھنے لگی تھیں-
امی۔۔پلیز مت کریں ایسا- اس دنیا میں آپکے سوا کوئی نہی ہے میرا۔۔۔مجھے سمجھنے کی کوشش کریں- میں اس لڑکی کے ساتھ کچھ نہیں کروں گا یہ میرا آپ سے وعدہ ہے پر اس ظالم شخص کو میں ضرور سزا دوں گا-
اسکی باتیں سن کر کلثوم بانو سانس نہ لے پائیں تھیں- انہیں اپنے بیٹے سے ایسی امید نہ تھی۔۔۔۔انکو اسکی باتیں سن کر دل کا دورہ پڑگیا اور وہ اپنے بیٹے کو اس دنیا میں اکیلا چھوڑ کر جا چکی تھیں---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
یار عثمان تو کہاں مرگیا تھا۔۔اتنے دن غائب رہا؟ صفدر اسے یونیورسٹی آتا دیکھ کر اسکے پاس بھاگا آیا تھا- پر عثمان نے اسکی کسی بات کا جواب نہ دیا-
تو مجھ سے اس لڑکی کیلئے ناراض ہورہا ہے-- یار وہ تو بھاگ گئی۔۔۔اور اب میں بھی سدھر چکا ہوں۔۔معاف کردے مجھے- صفدر شاہ اس سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگا-
صفدر مجھ سے نہیں اللہ سے معافی مانگو۔۔۔شاید وہی تمہیں معاف کردے- عثمان ہمدانی اسکو کہتے ہو وہاں سے جا چکے تھے اور صفدر شاہ اب یہ سوچ رہا تھا کہ اسکا اعتماد واپس کیسے جیتنا ہے--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
واؤ۔۔۔یہ تو اس سے بھی زیادہ پیارا ہے- کتنے کا لیا مزمل بیٹا- صفیہ بیگم،نائلہ بیگم، بتول اور سمیرا کے سوٹ دیکھ کر ہوش اڑ گئے تھے-
دس ہزار کا ہے امی- مزمل خوشی سے سب کو بتا رہا تھا اور سجل خاموش تھی اسے اس آدمی کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسنے وہ سب باتیں کیوں کہیں-
کہاں کھوگئی ہو سجل- مزمل اسکے آگے چٹکی بجاتے ہوئے بولا-
کہیں نہیں۔۔۔میں سوچ رہی تھی یہ سوٹ ویلیمے میں پہن لوں گی۔۔۔اتنا بھاری ہے-
کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔تم یہی پہنو گی اور اب میں ایک لفظ نہیں سنوں گا- مزمل غصے سے بولتا ہوا اوپر چلا گیا-
اویں تم نے اسے غصہ دلادیا۔۔۔اتنے نخرے مت دکھاؤ-- پہن لو- بتول جلتی بھنتی اسے سنا کر چلی گئی-
اوور کیا ہر وقت کے نخرے۔۔۔یہی حرکتیں کرکے تم مظلوم بننے کی کوشش کرتی ہو اور مزمل ہمیں ظالم سمجھتا رہتا ہے۔۔۔سمیرا کو بھی موقع میسر ہوگیا تھا۔۔۔وہ بھی اپنی بھراس نکال چکی تھی۔۔۔سجل کو پتہ تھا اب پھپھو کی باری ہے تبھی وہ چپ چاپ سوٹ اٹھا کر کمرے میں چلی گئی -
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
وہ اپنی ماں کو دفن کر آیا تھا۔۔۔اسکی بہن تھوڑی دیر آکر افسوس کر کے جا چکی تھی اور اب وہ اس بھری دنیا میں تنہا تھا- نہ اسکے پاس ماں تھی اور نہ باپ تھا اور اس سب کا ﺫمہ دار وہ ایک شخص کو سمجھتا تھا- وہ شخص جس نے اسکے باپ کو مار ﮈالا تھا اور ماں کو ساری دنیا کے سامنے رسوا کرچکا تھا-
اسکی ایک ہی بہن تھی جسکی وہ جلد ہی شادی کرچکا تھا- تاکہ اپنا ہر ایک ایک بنایا گیا منصوبہ پورا کر سکے- وہ جب 7 سال کا بچہ تھا تب اسکا باپ اس دنیا سے چلا گیا تھا اور آج وہ 27 سال کا مرد تھا اب اسکی ماں اسے چھوڑ کر چلی گئی-
اسکا دل کر رہا تھا اس ظالم شخص کا گلا دبا ﮈالے پر وہ اسے آسانی سے موت نہیں دے سکتا تھا- اسکو اس ظالم شخص سے انتقام لینا تھا۔۔۔۔اور اسکو تڑپا تڑپا کر مارنا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل وہ لڑکا تم سے ایسے کیوں بات کر رہا تھا جیسے تم اسے کافی عرصے سے جانتی ہو؟ مزمل کو ساری رات یہی باتیں تنگ کر رہی تھی۔۔۔اسی لیے وہ اب صبح صبح اسکے پاس چلا آیا-
نہیں۔۔ایک دن وہ دریا کے کنارے مجھے ملا تھا۔۔۔۔تو اسے میں نے بتایا تھا میری شادی ہونے والی ہے اور اس نے مجھ سے آنے کا پوچھا بھی تھا تو میں نے کہ دیا کہ آجانا۔۔۔۔پر مزمل تم فکر نہیں کرو وہ آہی نہیں سکتا کیونکہ گھر کا پتہ میں دینا ہی بھول گئی تھی- سجل نے اس کو ہر بات سے آگاہ کردیا تاکہ نئی زندگی میں اسکے لیئے کوئی مسائل نہ کھڑے ہوں۔۔۔۔اور اب تو نکاح میں صرف دو دن باقی تھے- ایسے میں وہ مزمل کو کسی شک میں نہیں ﮈالنا چاہتی تھی-
بہت اچھا کیا۔۔۔اب آج تو تم جاؤگی ہی نہیں۔۔۔نہ ہی وہ پتہ پوچھ سکے گا-
کیا مطلب- کیوں نہ جاؤں۔۔۔میں جاؤں گی آج بھی۔۔۔بس کل نہیں جاؤں گی کیونکہ مجھے آج لکھنا ہر حال میں ہے- سجل اسکی بات پہ غصے سے بولی۔۔۔اسے لکھنے اور پڑھنے کا بہت شوق تھا- وہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھتی تھی اور بہت سے ناول پڑھ چکی تھی- پر اب اسے زیادہ وقت نہیں ملتا تھا۔۔۔اسی لیے وہ صرف اپنی ﮈائری لکھا کرتی تھی- جس میں اسکی زندگی کا ایک ایک حرف موجود تھا-
سجل کیا ہوگیا ہے۔۔۔امی مار ﮈالیں گی تمہیں اگر تم آج گئی- اور میں اب کوئی بدمزگی نہیں چاہتا اسی لیے تم آج نہ جاؤ تو بہتر ہوگا-
مزمل ابھی ہماری شادی بھی نہیں ہوئی اور تم مجھ پر رعب جمانے لگے ہو- میں آج تو نہیں مانوں گی- تم بہت اچھے سے جانتے ہو مجھے جب میں کچھ کرنی کی ٹھان لیتی تو پیچھی نہیں ہٹتی ہوں--- وہ غصے سے بولتی ہوئی کمرے سے جاچکی تھی اور مزمل تپتا ہوا اپنے پورشن میں چلا گیا---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★