جگری یار کیسا ہے؟ صفدر شاہ اپنے جگرے دوست سے پوچھ رہے تھے جو کتابوں میں گم تھا-
ٹھیک ہوں میں تو سنا۔۔۔ عثمان اور صفدر کی دوستی کالج پیریڈ سے چلی آرہی تھی اور اب وہ دونوں یونیورسٹی میں تھے-
تیرا دوست بھی ٹھیک ہے-- چل اٹھ کینٹین چل کر کچھ کھاتے ہیں- صفدر شاہ گاؤں کے رہنے والے تھے اور اب وہ ہاسٹل رہتے تھے- اور عثمان ہمدانی اپنے ماں باپ کی وفات کے بعد اکیلے ہی تھے۔۔۔۔کیونکہ انکا کوئی بہن بھائی اور رشتہ دار نہ تھا-
نہیں یار صفدر۔۔۔کل ٹیسٹ ہے۔۔۔تجھے پتہ ہے میری لائف ٹف ہے۔۔۔ایسے میں مجھے کھانے پینے میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے- عثمان اپنی کتابیں واپس کھول کر بیٹھ گیا-
یار کیا تو بھی بورنگ ہے۔۔۔یونیورسٹی پیریڈ تو یادگار بنانا چاہیے-
ہاں میں یادگار ہی بنانا چاہتا ہوں پڑھ پڑھ کر تاکہ مجھے ہمیشہ یاد رہے کہ میں اس یونیورسٹی کا نام روشن کرچکا ہوں اور سب کو یاد بھی رہوں- عثمان ہمدانی جاب بھی کرتا تھا۔۔۔۔ان کے حالات نے انھیں سمجھدار اور سیریس بنا دیا تھا ورنہ انکی عمر کے لڑکے آوارہ گردیوں میں مصروف نظر آتے ہیں-
تو بیٹھا رہ میں جارہا ہوں- کل ملاقت ہوگی- بائے۔۔صفدر جا چکا تھا اور عثمان اپنی کتابوں میں واپس سر دیے بیٹھ گیا--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
امی آپ پھپھو کو منع کردیں۔۔مجھے بتول پسند نہیں ہے-
مزمل سے صفیہ بیگم اور ارمان شاہ دونوں پوچھ چکے تھے پر اسکا ایک ہی جواب تھا "نا" اور یہ "نا" ہاں میں تب ھی تبدیل ہو سکتی تھی جب بتول کی جگہ سجل کا نام لیا جاتا-
بیٹا وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔۔پڑھی لکھی اور پھر اسکی تربیت آپکی پھوپھو نے کی ہے تو وہ کیسے بری ہوسکتی ہے- صفیہ بیگم کا ارادہ اسکو قائل کرنے کا تھا-
نہیں امی۔۔۔بات یہ ہے کہ میں سجل کو پسند کرتا ہوں اور شادی بھی اسی سے کروں گا-
ہنہہ اور میں کبھی نہیں مانوں گی۔۔۔جیسی ماں تھی ویسی ہی بیٹی نکلی-- اب تمہیں پھانس گئی ہے اور بعد میں دس نکل کر سامنے آئیں گے-- صفیہ بیگم کو سجل کی ماں شروع سے ہی ناپسند تھی کیونکہ اس نے یہاں آکر سبکو اپنی طرف راغب کرلیا تھا اور ایک دن سارا زیور لے کر گھر سے بھاگ گئیں تھیں اور اب سارے گھر والے اسکے طعنے سجل کو دیتے تھے-
بس کردیں امی۔۔۔۔یہ سب بولتے ہوئے سوچ لیں کہ آپکی بھی بیٹی ہے- مزمل سجل کے خلاف کوئی بات اپنی ماں کے منہ سے بھی برداشت نہ کرتا-
ہنہہ۔۔۔میں کسی کو بددعا نہیں دے رہی-- میرے بیٹے حقیقت بیان کر رہی ہوں میں-
امی۔۔۔میں آپکا اکلوتا بیٹا ہوں۔۔۔آپ میری بات نہیں مانیں گی۔۔۔امی پلیز میری خوشی کی خاطر مان جائیں-
ٹھیک ہے۔۔۔۔پر میری ایک شرط تمہیں ماننی پڑی گی- آخر کار صفیہ بیگم دل پہ پتھر رکھ کر مان گئیں-
جی بولیں۔۔۔میں آپکی ہر شرط مانوں گا- مزمل انکا ہاتھ چومتے ہوئے بولا-
سجل اگر تمہیں چھوڑ کر چلی جائی گی تو تم صرف بتول سے شادی کرو گے۔۔وعدہ کرو-
اوہ ممی پہلی بات وہ کہیں نہی جائی گی اور اگر چلی جائی گی تو میں اسکے بعد بتول سے شادی کروں گا۔۔۔یہ میرا آپ سے وعدہ ہے- وہ ان سے وعدہ کرکے چلا گیا تھا اور وہ اپنا پلان بنا کر مسکرا دیں-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
عثمان وہ لڑکی دیکھ۔۔۔۔ وہ ہمارے ﮈیپارٹمنٹ کی ہے-- صفدر ایک لڑکی کی طرف اشارہ کرکے بولا- جو ہاتھ سے نقاب کیے کلاس کی طرف جارہی تھی-
یار کیا ہو گیا ہے تجھے۔۔۔۔شریف لڑکیوں کو تو چھوڑ دے-
ہنہ میرے یار آجکل کون شریف ہے۔۔۔۔ہر کسی کے دو چہرے ہیں- صفدر سر جھٹکتے ہوئے کینٹین کی طرف بڑھ گیا تھا اور عثمان اس لڑکی میں کھو گیا-
ہیلو۔۔۔آپ میری مدد کرسکتے ہیں؟ عثمان لائبریری میں بیٹھا پڑھائی کررہا تھا- نسوانی آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی لڑکی کھڑی تھی جسکو ابھی وہ باہر دیکھ کر آرہا تھا-
جی کیا مدد چاہیے آپکو؟
مجھے وہ کتاب چاہیے۔۔آپکا قد لمبا لگا تو آپکو بول دیا- وہ لڑکی بک ریک کے سب سے اوپر والے شیلف کی طرف اشارہ کرکے بولی-
جی میں نکال دیتا ہوں- عثمان ہمدانی نے اپنا قد اپنے باپ سے چڑایا تھا۔۔۔۔
تھینکس۔۔۔وہ لڑکی کتاب لے کر جا چکی تھی اور عثمان ہمدانی اسکی پشت کو دیکھتے رہ گئے پھر سر جھٹک واپس پڑھائی میں مشغول ھوگئے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
صفدر یار تیرے ساتھ مسلئہ کیا ہے-- تو جانتا ہے پیپرز سر پہ ہیں- عثمان ہمدانی کو اسکی باتیں غصہ دلا گئیں تھیں-
اتنی سی تو بات ہے یار۔۔۔رات کو پڑھ لینا۔۔۔آجا تھوڑی دیر- صفدر اسے اپنے گھر لے جانا چاہتا تھا تاکہ موج مستی کرسکے-
اچھا ٹھیک ہے آج آخری بار چل رہا ہوں- عثمان ہمدانی مان گئے-
وہ دونوں اب گھر آچکے تھے۔۔۔۔صفدر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتا تھا-
تیرا فلیٹ تو شاندار ہے- عثمان ہمدانی ستائشی نظروں سے دیکھ رہے تھے-
تو بھی آجا رہنے۔۔مزا آئیگا-
نہیں۔۔۔مجھے معاف رکھ۔۔۔تو خود بھی نہیں پڑھے گا نہ مجھے پڑھنے دے گا-- صفدر کچن سے پیپسی اور سنیکس لے آیا تھا جو انھوں نے بازار سے لیے تھے-
اچھا چل آج تو انجوائے کرلے۔۔۔ صفدر مووی لگاتے ہوئے بولا-
یہ لے کھا اور مزے کر بس آج۔۔۔کل سے پڑھ لینا-
کیا مطلب تو نہیں پڑھے گا؟ عثمان ہمدانی حیرانگی سے صفدر کی طرف دیکھ رہے تھے-
پڑھوں گا۔۔۔پر پیپرز سے ایک دن پہلے- صفدر منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے بولا-
پاگل ہوگیا ہے تو۔۔۔فیل ہونے کا ارادہ ہے تیرا؟
ہوجاؤں گا پاس۔۔۔تو یہ بتا وہ لڑکی کیسی لگی؟ صفدر آنکھ مارتے ہوئے بولا
کونسی لڑکی؟ عثمان جانتا تھا کہ وہ کس لڑکی کی بات کر رہا ہے پر انجان بن گیا تھا-
چل بے انجان نہ بن۔۔۔وہی لڑکی جو کل دکھائی تھی تجھے--
اوہ وہ۔۔اچھی ہے پر تو کیوں پوچھ رہا ہے؟؟
کیونکہ مجھے وہ بہت پسند آئی ہے- تیرا دوست اس سے شادی کرنا چاہتا ہے- صفدر نے عثمان کے سر پہ بم پھوڑا تھا اور وہ ہکا بکا اسکی شکل دیکھے جارہے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
نائلہ تم میری ساری بات سمجھ گئی ہو ؟ جی بھابھی سمجھ گئی ہوں- منحوس ماری نے آپکا بیٹا بھی نہیں چھوڑا-
تم فکر نہ کرو جو ہم چاہیں گے وہی ہوگا- یہ لڑکی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے- صفیہ بیگم منہ میں انگارے چبائے بیٹھیں تھیں-
آپ غصہ نہ ہوں میں ٹھنڈا لاتی ہوں-
ہاں لے آؤ۔۔۔کانٹے اگ آئے ہیں گلے میں۔۔۔مزمل کو سمجھا سمجھا کر-
بتول اپنی ممانی کیلئے شربت بناؤ اور آکر بیٹھو ان کے پاس- نائلہ بیگم اسکے کمرے میں آگئیں-
ہنہہ کیوں بناؤں۔۔۔جاکر انکی بہو صاحبہ کو بولیں نا-- بتول سب جان گئی تھی تبھی بگڑے موﮈ کے ساتھ بولی-
میری جان تم ہی بنو گی انکی بہو۔۔۔چلو اٹھو۔۔باہر آؤ- وہ اسے پیار سے سمجھا کر جا چکیں تھیں اور وہ منہ بناتے ہوئے بال درست کرنے لگی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سر۔۔۔وہ لڑکی روزانہ اس دریا کے پاس بیٹھتی ہے- ابھی اس کے آنے کا وقت نہیں ہوا ہے۔۔۔وہ 5 بجے آتی ہیں- انسپکٹر ہمدانی برف باری ہونے کے باوجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ مری آیا تھا-
ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ اور جیسا میں نے بولا ہے ویسا ہی کرنا ہے- انسپکٹر ہمدانی کے مشن کا یہ پہلا مرحلہ تھا اور وہ اس لڑکی کو دیکھنا چاہتا تھا جسے اس کو توڑنا تھا-
تصویر میں تو وہ اسکو دیکھ چکا تھا پر اب اپنے روبرو دیکھنا چاہتا تھا- اسکو یہاں آئے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا پر وہ اب تک نہیں آئی تھی۔۔۔اور اب 5:30 ہورہے تھے۔۔۔۔
یہ دریا بلکل سنسان جگہ پر تھا جہاں رات کو آنا ناممکن تھا اسی لیے وہ بھی ٹھنڈ کو بڑھتے اور رات ہوتے دیکھ کر وہاں سے نکل گیا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل آج میں بہت خوش ہوں۔۔۔چلو تمہیں کچھ کھلانے لے جاتا ہوں- مزمل اسکے روم میں آیا تھا جب وہ اپنی پسندیدہ جگہ پر جارہی تھی-
کیوں خوش ہو؟ اور میں نے کہیں نہیں جانا بلکہ تم اچھے سے جانتے ہو یہ میرا کہاں جانے کا وقت ہے- سجل غصے سے بولی-
اتنی سردی میں۔۔۔۔اچھا ٹھیک ہے وہیں چلتے ہیں۔۔۔وہاں جاکر تمہیں بتاؤں گا- مزمل پلان بنانے لگا-
نہیں میں وہاں کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرتی ہوں مزمل۔۔۔پلیز مائنڈ مت کرنا- ویسے بھی مائنڈ ہوگا تو کروگے نا- وہ اپنی کتاب اور قلم اٹھاتے ہوئے بولی-
ویٹ سجل۔۔۔میری صرف ایک بات سن لو-
ہاں کہو۔۔۔جلدی ۔۔۔۔مجھے دیر ہورہی ہے-
ماما ہم دونوں کی شادی کیلئے راضی ہوگئی ہیں- مزمل اسکو خوشی خوشی بتانے لگا-
یہ کیا کہ رہے ہو ؟؟ سجل چیخی-
سچ کہ رہا ہوں سجل۔۔سب مان گئے ہیں اور اب اگلے ویکنڈ ہمارا نکاح ہے۔۔۔رخصتی بعد میں ہوگی-
مزمل مجھے یقین نہیں آرہا کہ میرا اللہ۔۔میری اتنی جلدی سن لے گا-
ہاں یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا۔۔۔سجل پلیز آج میرے ساتھ چلو۔۔۔ ﮈنر کرنے۔۔۔دریا کل چلی جانا- وہ منت بھرے لہجے میں بولا
ٹھیک ہے تمہاری مان لیتی ہوں آج- وہ اسکے ساتھ چلی گئی اور بتول انکو ساتھ جاتا دیکھ کر جل بھن کر رہ گئی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سر یہ دیکھیں۔۔۔۔یہی ہے وہ لڑکی- انسپکٹر ہمدانی کی گاڑی اب سجل اور مزمل کی بائیک کے پیچھے تھی۔۔۔۔وہ دونوں عثمانیہ ریسٹورنٹ آئے تھے۔۔۔انسپکٹر ہمدانی بھی اسی ریسٹورنٹ میں آکر بیٹھ گیا۔۔اسے اپنے مشن کو پورا کرنے کیلئے یہ سب کرنا ضروری تھا۔۔۔وہ سجل اور مزمل کی ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھا تاکہ ان دونوں کی ساری باتیں سنی جا سکیں-
سجل۔۔۔سچ سچ بتاؤ کیا تم اس رشتے سے خوش ہو؟؟ مزمل اس سے پوچھ رہا تھا-
آف کورس مزمل۔۔۔۔اگر میں نا خوش ہوتی تو اس وقت دریا کے پاس بیٹھی ہوتی نا کہ تمہارے ساتھ خوشی منانے آتی- وہ سوپ پیتے ہوئے بولی-
شکر ہے میں ﮈر رہا تھا کہ اگر تم نہ مانی تو کیا ہوگا-
مزمل مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی؟
کیا بات سمجھ نہیں آئی اتنی ﺫہین و فطین لڑکی کو-- مزمل شرارت سے بولا-
یہی کہ تائی اتنی جلدی ہمارا نکاح کیوں کرنا چاہتی ہیں۔۔۔۔اور وہ بھی ایک ہفتہ بس۔۔۔۔ایسے کیسے ہوسکتا--
اوہ ہو اب وہ مان گئیں ہیں تو ہمیں ان باتوں سے کیا لینا دینا-- ویسے بھی ابھی صرف نکاح ہوگا- رخصتی تو ایک سال بعد ہوگی-- مزمل اسے سمجھاتے ہوئے بولا پر سجل کو اب بھی کچھ اور معاملہ لگ رہا تھا- پر وہ معاملہ کیا تھا یہ وہ نہیں جانتی تھی اور اگر جان جاتی تو اس سے شادی کیلئے کبھی راضی نہ ہوتی--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
صفدر اسکا نام تجھے پتہ ہے؟ عثمان کلاس ختم ہونے کے بعد اسکے ساتھ کینٹین چلا آیا-
ہاں پتہ ہے۔۔۔پر تجھے نہیں بتاؤں گا- بس سمجھ لے تیری ہونے والی بھابھی ہے-
اسکے گھر والے مان گئےہیں؟ عثمان پیپسی کا ٹن کھولتے ہوئے بولا-
نہیں یار تجھے کیا لگ رہا تھا میں سیریس ہوں؟؟ صفدر قہقہ لگا رہا تھا-
کیا مطلب ہے تیرا؟؟ عثمان کو اسکی کوئی بات سمجھ نہیں آئی-
مطلب اسکو استعمال کروں گا اور پھینک دوں گا- اسکی بات پہ عثمان کی آنکھیں غصے سے سرخ ہوگئیں تھیں-
بند کر اپنی بکواس صفدر۔۔۔اس خدا سے ﮈر جو سب کچھ دیکھ رہا ہے- یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے یہ کبھی مت بھولنا-- میں نہیں جانتا تھا تو اتنا گرا ہوا نکلے گا- عثمان پیپسی کا ٹن وہیں پھینک کر کینٹین سے باہر آگیا تھا اسے ہر حال میں اس لڑکی کو ﮈھونڈنا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
آج سرد ہوائیں چل رہیں تھیں اور طوفانی بارش کا بھی امکان تھا-
اتنے برے موسم میں بھی وہ یہاں چلی آئی تھی- اسے ہر حال میں اپنی ﮈائری لکھنی تھی۔۔۔وہ شال لے کر نکلی تھی تب بھی سردی سے برا حال تھا- وہ مری کے موسم کی عادی تھی پر سردیوں میں وہ پچھلے سال تک اسلام آباد چلی جایا کرتی تھی کیونکہ اسے کالج جانا ہوتا تھا- اور مری سے اسلام آباد تک کا سفر ہی تھکا دینے والا ہوتا تو وہ وہیں اپنے باپ کے پاس رہ جاتی تھی۔۔۔اب وہ پرائویٹ پڑھ رہی تھی- اسی لیے وہ یہیں رہ گئی تھی-
وہ دریا تک آگئی تھی پر اب واپسی مشکل لگ رہی تھی۔۔کیونکہ بادلوں کی وجہ سے جلد ہی اندھیرا ہونے والا تھا-
وہ وہیں دریا کے کنارے بیٹھی تھی اور جلدی جلدی ﮈائری لکھنے میں مصروف ہوگئی جبھی اسے کسی گاڑی کی آواز آئی- وہ حیران رہ گئی کہ اس وقت کوئی بھی یہاں نہیں آتا تھا پھر آج کون آگیا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★