بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ سجل۔۔۔ماشاءاللہ- نورالعین ان دونوں کو آتا دیکھ کر انکے پاس چلی آئی- مصطفی ہمدانی بھی سجل کو دیکھ چکا تھا-
تھینک یو نورالعین۔۔۔ آپکی بیٹی کہاں ہے؟ سجل اردگرد دیکھ رہی تھی جبھی اسکی نظر مصطفی ہمدانی پہ پڑی۔۔۔وہ سفید شلوار کرتا اور کالا کوٹ پہنے کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔۔سجل کو اسے دیکھ کر دل کررہا تھا کہ اسکے ساتھ جاکر ایک تصویر بنوا آئے پر ہر خواہش کبھی پوری نہیں ہوا کرتی-
چلیں وہ اپنی دوستوں میں ہے۔۔۔آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی- نورالعین اب اسے اپنی بیٹی کے پاس لے آئی تھی-
واؤ آپ تو بہت پیاری ہیں آپی- نورالعین کی بیٹی اس سے سلام کرتے ہی فوراً بول پڑی-
تھینک یو۔۔۔آپ بھی بہت پیاری ہے- سجل اسکے موٹے موٹے گالوں پہ پیار کررہی تھی جبھی مصطفی ہمدانی اس طرف چلا آیا-
ماموں دیکھیں یہ آپی اتنی پیاری ہیں بلکل شہزادی کی طرح۔۔۔۔آپ انکے شہزادے بن جائیں نا- وہ چھوٹی بچی اتنی بڑی بات کہہ دے گی نہ سجل کو پتہ تھا نہ ہی مصطفی ہمدانی کو۔۔۔سجل شرم کے مارے سرخ پڑ گئی تھی-
ہاں پیاری منی۔۔۔۔لے آؤں گا شہزادی کو بھی۔۔۔ابھی آپ کیک کاٹ لو- مصطفی ہمدانی سجل کی طرف دیکھ کر کہا پر بات منی سے کر رہاتھا-
سجل باجی چلیں نا- نورالعین اور مصطفی جا چکے تھے پر سجل سے اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں گیا-
ہوں چلو۔۔۔۔۔وہ دونوں انکے پاس آگئیں-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اقبال صاحب یہ لڑکی یہاں کیا کررہی ہے- مسز اقبال سجل کو دیکھ چکیں تھیں-
ہمارا شکار خود چل کر آیا ہے تو ہمیں اس بات سے کیا لینا دینا کہ کیوں آیا ہے اور کس لیے آیا ہے؟ اقبال صاحب ہنسے تھے- انھیں اپنا منصوبہ پورا ہوتا ہوا نظر آرہا تھا-
پر یہ بھی سوچیں نہ بابا اسکا اور مصطفی ہمدانی کا ایسا کیا رشتہ ہے جو وہ یہاں آئی ہے-
ماریہ جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھی تھی بولی- اسے سجل بلکل بھی نہیں پسند آئی کیونکہ مصطفی ہمدانی کی نظریں اس پر سے ہٹ ہی نہیں رہیں تھیں- ماریہ اٹھ کر مصطفی کے پاس آگئی-
ہیلو انسپکٹر مصطفی- کیسے ہیں آپ۔۔۔؟ ماریہ نے اس بار ہاتھ آگے نہیں بڑھایا تھا۔۔۔اسے وہ بات اب تک نہ بھولی تھی-
ٹھیک ہوں۔۔۔آپ سنائیں؟ مصطفی بات کر اس سے رہا تھا پر دماغ اور آنکھیں اسکی کہیں اور بھٹک رہی تھیں-
میں بھی ٹھیک ہوں- ماریہ جبراً مسکرائی-
بھائی وہ آپکو نوری بلا رہی ہے- نورالعین چلی آئی اور ماریہ پیر پٹخ کر واپس اپنی کرسی پر آبیٹھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل کہاں ہو تم؟ وہ نوری کو ہاسٹل چھوڑ کر باہر نکلی تو مزمل کی کال دیکھ کر حیران ہوگئی-
مزمل تم۔۔؟ وہ حیرانگی سے پوچھ رہی تھی-
ہاں سجل میں مزمل ہوں جلدی سے گھر آؤ۔۔۔میں باہر کھڑا انتظار کر رہا ہوں-
ٹھیک ہے۔۔۔۔آتی ہوں- وہ رابطہ منقطع کرکے جیسے ہی آگے بڑھی اسکے سامنے ایک کار آکر رک گئی-
کیا ہے؟ اندھوں کی طرح چلاتے ہو- سجل کو غصہ آگیا- کار میں سے دو نقاب پوش نکلے اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر بٹھانے کی کوشش کرنے لگے-
چھوڑو مجھے۔۔۔کون ہو تم لوگ۔۔۔۔وہ چیخی تھی پر سنسان سڑک پہ کوئی بھی اسکی چیخ و پکار سننے والا نہ تھا-
بچاؤ مجھے۔۔۔بچاؤ-- وہ مسلسل چیخی جارہی تھی- نقاب پوش آدمی نے جیب سے کلروفرم بھرا رومال نکال کر اسکے منہ پہ رکھا تو وہ کوئی مزاحمت نہ کرپائی اور کچھ ہی لمحوں میں بے ہوش ہوگئی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مسز اقبال سارا فنکشن اقبال صاحب کے ساتھ بیٹھی رہیں تھیں پر جیسے ہی وہ باہر نکلے تو مسز اقبال فوراً مصطفی ہمدانی کے پاس آگئیں جو فون پہ کسی سے بات کرہا تھا-
اسلام علیکم آنٹی کیسی ہیں۔۔۔وہ کال منقطع کرکر انکی جانب متوجہ ہوا-
ٹھیک ہو بیٹے۔۔۔آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے-
جی آنٹی کہیے۔۔۔میں سن رہا ہوں- مصطفی کو انکے سرد تاثرات دیکھ کر کچھ عجیب سا محسوس ہوا-
بیٹا وہ۔۔۔تمہارے انکل مطلب اقبال صاحب اس لڑکی کے ساتھ کچھ کرنے والے ہیں- وہ اس لڑکی کو اغوا کرا چکے ہیں اور اب جہاں اسے رکھا ہے وہیں گئے ہیں- بیٹا میں کسی لڑکی کی زندگی اپنے شوہر کے ہاتھوں برباد ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی۔۔۔پلیز اس لڑکی کو بچالو بیٹا- بےشک تم پھر اقبال صاحب کو ساری زندگی سزا دے دو۔۔۔میں کچھ نہیں کہوں گی پر اس لڑکی کو بچالو- وہ روتے ہوئے بولیں۔۔۔ان کی باتیں سن کر مصطفی ہمدانی کی آنکھیں سرخ انگارہ ہوگئی تھیں-
آنٹی آپ فکر نہ کریں۔۔۔میں جاتا ہوں- وہ کہنے کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا تھا اور غصے سے کار لے کر چلا گیا--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اسکی آنکھیں کھلیں تو اسے لگا تھا کہ وہ دوبارہ بے ہوش ہوجائی گی۔۔۔اسے سمجھ آگئی تھی کہ میں اغوا ہوچکی ہوں پر یہ سوچنے کا وقت نہ ملا تھا کہ اسکو اغوا کرنے والا کون ہوسکتا ہے-
مصطفی ہمدانی یا اقبال ملک یا شاید دونوں کا ہی یہ منصوبہ ہوگا- کیونکہ اسکے خیال میں وہی دو اسکے دشمن تھے- وہ سوچے جارہی تھی پر چلا نہیں رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسکا کوئی فائدہ نہیں ہے-
کیسی ہیں سجل ؟ آخر کار اغوا کرنے والا آہی گیا-
اتنے گرسکتے ہیں آپ پیسوں کیلئے۔۔۔یہ میں نہیں جانتی تھی- سجل کو اقبال ملک کے چہرے کو دیکھ کر اسکا منہ نوچنے کا دل کیا تھا پر اسکے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے وہ اپنا جسم بھی ہلا نہ پارہی تھی-
ہاں گرسکتا ہوں- اب جلد از جلد ان کاغذات پر سائن کردو ورنہ میں اس سے بھی زیادہ گر جاؤں گا- وہ اب سجل کے قریب آکر بولے۔۔۔سجل کو وہ شخص مصطفی ہمدانی سے بھی زیادہ درندہ لگ رہا تھا-
اقبال ملک۔۔۔۔تم اتنے گڑے ہوئے انسان نکلو گے یہ تو میں بھی نہ جانتا تھا ورنہ تمہاری بات کبھی نہ مانتا اور نہ ہی تمہاری مدد کرتا- مصطفی ہمدانی اقبال ملک کے موبائل کی لوکیشن ٹریس کرکے وہاں تک پہنچ آیا تھا- اور سجل اسکو دیکھ کر یہی سمجھی تھی کہ وہ اسکے ساتھ ملا ہوا ہے-
آہاہ۔۔۔انسپکٹر صاحب ﮈر گیا ہوں میں۔۔۔تمہاری باتوں سے- اقبال ملک اپنے جیب سے بندوق برآمد کرتے ہوئے ﮈرنے کی ایکٹنگ کرنے لگے-
تم جیسا کمینہ شخص ﮈر نہیں سکتا ہے اقبال ملک- چلاؤ گولی۔۔۔جتنی چلا سکتی ہو- کیونکہ مصطفی ہمدانی بہت بہادر ہے- اپنی موت کو قریب دیکھ کر بھی کچھ نہیں بولے گا- سجل مصطفی ہمدانی کا یہ روپ دیکھ کر حیران رہ گئی- اور یہی سوچ رہی تھی کہ یہ شخص مجھے بچانے آیا ہے-
ہاں وہ تو چلا ہی لوں گا- اقبال ملک ٹریگر دبا رہے تھے پر اس بندوق میں گولیاں ہوتیں تو ہی بندوق چلتی۔۔۔انکی بیوی ہی انکی بندوق سے ساری گولیاں نکال چکیں تھیں اور وہ یہ نہیں جانتے تھے-
کیا ہوا۔۔۔نہیں چلی بندوق۔۔۔مصطفی استہزایہ انداز میں بولا- اور اسکے کہنے کے ساتھ ہی اقبال ملک باہر کی طرف بھاگا تھا پر باہر پولیس فوج کھڑی تھی جو اسے اور اسکے ساتھیوں کو گرفتار کر چکی تھی-
مصطفی سجل کی طرف مڑا اور اسکی ہاتھ پیر کھولنے لگا-
انسپکٹر مصطفی ہمدانی۔۔۔۔سجل بمشکل الفاظ ادا کر پائی تھی- کلروفرم سے بھرا رومال جو اسکی منہ پر رکھا گیا تھا اسکا اثر اب بھی باقی تھا-اسیلیے وہ بے ہوش ہوچکی تھی-
مصطفی ہمدانی خاموشی سے اسکو رسیوں سے آزاد کرنے لگا- اب دور پڑی شال اس کو اوڑھانے لگا اور اٹھا کر گاڑی تک لایا- وہ اسے بٹھا کر گاڑی کا رخ اپنے گھر کی جانب موڑ چکا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
کیسا فیل کررہی ہو؟ آج وہ دوبارہ وہیں تھیں جہاں ایک سال پہلے تھی- پر اب بہت کچھ بہت بدل گیا تھا۔۔۔اسکے دل میں اب اس گھر کے مالک کیلئے نفرت نہیں محبت تھی اور اس گھر کا مالک خود بھی اسے مالکن بنانا چاہتا تھا پر یی سب کہنے کی ہمت دونوں میں نہیں تھی۔۔۔
ٹھیک ہوں۔۔۔پر سر درد ہورہا ہے- سجل سر پکڑ کر اٹھ بیٹھی تھی-
ٹیبلٹ لو گی؟ مصطفی خوش ہوگیا تھا کہ کم از کم وہ اس سے صیح بات تو کررہی ہے-
ہاں پلیز۔۔۔اور ایک کپ چائے ورنہ میں ایک قدم بھی چل نہیں پاؤں گی- سجل کے کہنے پر وہ نیچے کچن میں چلا آیا تھا اور دو کپ چائے بنانے لگا-
یہ لو دو کپ بنا لایا ہوں۔۔۔ایک نہ پیو تو میں پی لوں گا- وہ اسکو کپ پکڑاتے ہوئے بولا-
نہیں بس ایک کافی ہے۔۔۔۔آپ پی لیں- اسکے کہنے پر وہ بیٹھ کر چائے کے مزے لینے لگا تھا- دونوں چائے ختم کرچکے تھے پر تب بھی چپ بیٹھے رپے-
وہ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں- سجل جسکی زبان چلتی رہتی تھی آج دل کی بات کہنے کیلئے اسکی زبان بند تھی-
ہاں کہو۔۔۔۔۔مصطفی سوچ رہا تھا کتنی بہادر ہے یہ لڑکی۔۔--
آپکا بہت بہت شکریہ آپ نے آج میری مدد کی- سجل اس سے آگے کچھ بھی کہہ نہ پائی تھی-
بس یا اور کچھ بھی کہنا ہے؟ مصطفی اداس ہوگیا تھا۔۔۔وہ کیا سوچ رہا تھا اور یہ کیا کہ رہی تھی-
جی بس۔۔۔۔اور بھی کچھ بولنا ہے کیا؟ وہ مزاحیہ انداز میں بولی-
نہیں میں کچھ کہنا چاہتا ہوں- سجل میری بات تحمل سے سننا اور تم میری باتیں سننے کا بعد جو بھی فیصلہ کروگی مجھے قبول ہوگا- وہ اسکے قریب آکر بیٹھ گیا-
سجل میں نے جو کچھ بھی کیا صرف بدلے کی آگ میں کیا تھا- مجھے اس سب کیلئے معاف کردو۔۔۔یہ تمہارے لیے بہت مشکل ہے میں جانتا ہوں- پر میری ماں بھی تمہاری باپ کو معاف کرچکی تھی اور معاف کرنے والا تو اللہ کو بھی پسند ہے۔۔۔۔پر شاید اللہ کو میں نہیں پسند کیونکہ میں نے تمہارے باپ کو معاف نہیں کیا تھا- تم پوچھتی تھی نا۔۔۔کہ کیوں میں نے تمہاری زندگی برباد کی- تو اس سب میں تمہارا صرف ایک ہی قصور تھا کہ تم صفدر شاہ کی بیٹی تھی۔۔۔صفدر شاہ وہ شخص تھا جس نے میرے باپ کو مار ﮈالا تھا۔۔میری ماں کی عزت چھین لینی چاہی تھی اس شخص نے جبکہ اسکو میری ماں نے کہا بھی تھا کہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے پر تب بھی تمہارے بابا نے انکی نہ سنی تھی- تمہارے بابا اور میرے بابا دوست تھے- تم جب دو سال کی ہوئی تھی تب تک ہمارے ساتھ ملتی رہی تھی پر میری اور تمہاری سالگرہ کے دن ہی تمہارے بابا نے یہ سب کیا تھا- میں آج تک وہ دن بھول سکا ہوں سجل۔۔۔۔کیا تم میری مدد کروگی کہ میں اس دن کو بھول جاؤں- اور اس دن کو صرف اپنی پیدائش کے دن کے طور پر یاد رکھوں- کیا تم ساری زندگی میرا ساتھ دو گی سجل؟
مصطفی ہمدانی اسے سب کچھ بتا چکا تھا اور سجل کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے- وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★