دوسرے دن پارسن صاحب خوشی خوشی ہم تینوں آدمیوں کو لے کر بذریعۂ شکرم دہلی روانہ ہوا، شکرم میں سوار ہونے سے پہلے مجھے بیڑی، ہتھکڑی اور طوق پہنا کر اور طوق میں بطور باگ ڈور ایک زنجیر ڈال کر اور اس کا سرا ایک مسلح سپاہی کے ہاتھوں میں دے کر اس کو میرے پیچھے بٹھایا، پارسن صاحب اور دوسرا انسپکٹر پولس میرے دائیں بائیں بھرے ہوئے تمنچوں کی جوڑیاں لے کر اور میرے بدن سے بدن ملا کر بیٹھ گئے، راستے میں پارسن مجھے بار بار کہ رہا تھا کہ اگر تم نے ذرا بھی حرکت کی تو میں اس تمنچے سے تمھیں مار ڈالوں گا۔
علی گڑھ سے دہلی تک کھانا پینا تو درکنار، کسی سخت ضروری حاجت کے لیے بھی ہمیں نہ اتارا گیا، جب نماز کا وقت آتا تو میں اجازت کے بغیر ہی تیمم کرکے بیٹھے بیٹھے اشاروں سے نماز پڑھ لیتا، گاڑی بدستور سوئے منزل رواں دواں رہتی اور وہ چپ چاپ میری نماز کا تماشہ دیکھا کرتے تھے، آخر کار بڑی مصیبت کے ساتھ لوہے میں جکڑے ہوئے، دہلی میں داخل ہوئے، جہاں ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس دہلی کے بنگلہ کے ایک تہ خانہ میں ہمیں زندہ درگور کردیا گیا۔