جیل کا کھانا سب سے پہلے اسی جیل میں چکھا، جو دو روٹیوں اور تھوڑے سے ساگ پر مشتمل تھا، ساگ میں موٹے موٹے ڈنٹھل تھے، پتی کا نام تک نہ تھا، اس لیے ان کا چبانا بھی دشوار تھا، روٹیوں میں چوتھائی کے قریب ریت اور مٹی ملی ہوئی تھی، خدا کا شکر ادا کرکے اس میں سے تھوڑا بہت کھایا، اس کے بعد وقتاً فوقتاً اکثر جیل خانوں میں رہ کر دیکھا، سب جگہ قیدیوں کو اسی طرح کا کھانا ملتا تھا، در اصل بات یہ ہے کہ قیدیوں کو خوراک کم ملتی ہے، جس سے ان کا پیٹ نہیں بھرتا، جب انھیں گندم پیسنے کے لیے دی جاتی ہے تو وہ بھوک کے مارے سیروں گندم چبا جاتے ہیں یا کچا آٹا پانی میں گھول کر پی لیتے ہیں، اور آٹے کا وزن پورا کرنے کے لیے آٹے میں مٹی یا ریت ملا دیتے ہیں۔
اسی طرح جو عمدہ ترکاری جیل کے باغوں میں پیدا ہوتی ہے، اس کو تو فروخت کر دیتے ہیں یا جیل کے عہدہ دار کھا جاتے ہیں اور ناکارے ڈنٹھل جن کو جانور بھی نہیں کھاتے، کاٹ کاٹ کر قیدیوں کے لیے پکا دیے جاتے ہیں، وہ بھوکے اسی کو غنیمت جان کر ہاتھوں ہاتھ اڑا جاتے ہیں، اگرچہ نئے قیدیوں کو ایک دو دن ضرور دقت ہوتی ہے، مگر جب بھوک سے پیٹ میں قراقر اٹھتے ہیں تو پلاؤ قورمے سے بھی زیادہ اس میں مزہ پاتے ہیں اور کھا جاتے ہیں ؛ کیونکہ دنیا میں اصل مزہ بھوک کا ہے۔