ہندوستان واپس آنے کے بعد پولیس کی جو نگرانی متعیّن ہوئی تھی، وہ کپتان ٹمپل نے اپنی ذمہ داری اور ضمانت سے موقوف کرادی تھی، کپتان کی تبدیلی کے بعد بغیر کسی سفارش کے محض اللہ کے فضل سے ۶ فروری ۱۸۸۸ء کو سیکریٹری گورنمنٹ پنجاب کی طرف سے چٹھی نمبر ۱۸۸ موصول ہوئی، جس میں ہر قسم کی پابندی اور نگرانی کے خاتمہ کا اعلان تھا؛ حالانکہ میرے دیگر پانچوں اصحاب سجن مولانا عبد الرحیم وغیرہ سے ابھی تک نگرانی موقوف نہیں کی گئی۔
اللہ تعالی کے فضل سے اب میں بالکل آزاد ہوں، جہاں چاہوں رہوں اور جو چاہے روزگار اختیار کروں، کاروبار کے سلسلہ میں ہمیشہ لاہور اور کلکتہ آتا جاتا رہتا ہوں، ریاست ارنولی کے مقدمہ کی پیروی کے لیے ولایت بھی جانا چاہتا ہوں اور ارادہ ہے کہ ان شاءاللہ ڈاکٹر ہنٹر اور دیگر موافق و مخالف انگریزوں سے ملاقات کرکے اس قدرت الٰہی کا ان سے اعتراف کراؤں گا۔
جب میں انبالہ کچہری کے اس مقام کو دیکھتا ہوں، جہاں مجھے پھانسی کاحکم سنایا گیا تھا، یا جب انبالہ جیل کے پاس سے نکلتا ہوں، جہاں ڈیڑھ برس تک پس دیوار زنداں پابند زنجیر و سلاسل رہا، یا ان سڑکوں پر گذرتا ہوں، پھانسی کاحکم سنانے کے بعد جن سے ہوتے ہوئے جیل خانہ لے گئے تھے تو قدرت الٰہی کو دیکھ کر میرا دل ہل جاتا ہے اور خیال کرتا ہوں کہ جس دن مجھے پھانسی کا حکم سنایا گیا، کسے گمان تھا کہ کبھی میں ان مقامات اور سڑکوں پر بے روک ٹوک چل سکوں گا، ہر گز ہرگز نہیں، کسی فرد بشر کو بھی یہ گمان نہ تھا۔
یہ فقط اس ربّ قدیر کا کام ہے کہ اس نے زمانے کے یہ سب گرم و سرد تماشے دکھا کر پھر اپنے نالائق اور مغرور غلام کو اس ملک میں دوبارہ آباد کردیا ہے اور پہلے کی نسبت وہ چند لوگوں کی آنکھوں میں معزز اور ممتاز بنا دیا ہے، و ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاءُ۔