اللہ تعالی کا مجھ پر سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ تاریخ قید سے لے کر آج تک میں جہاں اور جس جگہ رہا، اس نے مجھے اپنے سایۂ عاطفت میں رکھا، بیس برس میں ایک دن بھی مشقّت کرنے کی نوبت نہ آنے دی، کالاپانی پہنچنے سے پہلے ہی اس نے میری راحت کے سامان فراہم کر دیے تھے، وہاں پہنچتے ہی مجھے ایک بڑا سرکاری عہدہ مل گیا، کالاپانی پہنچنے سے فقط چار پانچ سال قبل ان جزائر کا آباد ہونا، پورٹ بلیر کے قیدیوں کے قوانین میں نرمی و آسانی، ہمارے پہنچنے سے قبل جنگل کی صفائی اور مہلک امراض کا خاتمہ، بیس برس تک بڑے آرام و آسائش سے زندگی بسر کرنا اور ایسی مایوس کن جگہ سے حکام بالا کے تعصّب کے باوصف شان و شوکت اور مال و اولاد کے ساتھ صحیح و تندرست بلکہ پہلے سے بھی بہتر حالت میں واپس آنا، یہ سب میرے مولا کے مجھ پر احسانات نہیں تو اور کیا ہیں؟
ہندوستان واپس آنے کے بعد آب و ہوا کی سخت تبدیلی کے باوصف میرے بچے تندرست ہیں بلکہ یہاں آکر اللہ تعالی نے مجھے دو اور بچے بھی عطا فرمائے، حالانکہ دوسرے لوگوں کے بچّے جو کالاپانی سے آئے تھے یہاں آکر بہت کم بچے، اس علاقہ میں جب بھی کوئی متعدی مرض پھیلتا ہے، میرا گھر محفوظ رہتا ہے، میرے یہاں پہنچنے کے بعد یہاں بارش وباراں بھی بکثرت ہونے لگ گئی ہے اور غلّہ بھی نہایت ارزاں ہو گیا ہے۔
جب بیس برس بعد میری رہائی ہوئی تو تقاضائے بشریت کے مطابق مجھے بھی یہ فکر دامن گیر تھا کہ ہندوستان جا کر کہاں رہوں گا اور کیا کروں گا؟ کیونکہ تھانیسر میں میرے مکانات اور اراضی وغیرہ کو حکومت نے بحق سرکار ضبط کرکے نیلام کر دیا تھا اور ضلع انبالہ کے حکام ہمارے وہی پرانے رفیق تھے جنہوں نے کالاپانی بھیجا تھا، اس تردّد اور انتشار کے وقت میں اس قادر کریم اور مقلب القلوب نے کپتان ٹمپل کے دل میں میرے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کر دیے، وہ میری واپسی کے ابتداء میں جبکہ ہر انگریز میری صورت سے متنفر تھا، میری طرف سے مدّتوں بطور وکیل لڑتا رہا اور اس نے روزگار وغیرہ کی طرف سے بھی مجھے فارغ البال کردیا۔
ریاست ارنولی میں ملازمت
جب ٹمپل صاحب یہاں سے تبدیل ہو کر چلے گئے تو انہوں نے میری درخواست کے بغیر خود بخود ریاست ارنولی میں میرے لیے معقول روزگار کا بند و بست کرادیا، جہاں میں اب تک بڑے آرام و آسائش کے ساتھ ملازمت کر رہا ہوں، یہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے محض غیبی طور پر میرے روزگار اور آسائش کے سامان غیرمسلموں کے ہاتھوں فراہم کرا دیے ؛ حالانکہ بظاہر ان سے ہمدردی کی کوئی توقع نہ تھی۔