یہاں قوم کی پابندی، جو ہندوستان کی پرانی بیماری ہے، یک قلم متروک ہو گئی، مسلمان مرد خواہ کسی ذات کا ہو، ہر مسلمان عورت سے بلا روک ٹوک شادی کر سکتا ہے،اسی طرح ہندؤوں میں بھی ہندو ہونا کافی ہے، ایک ذات کا ہونا ضروری نہیں، برہمنوں کے گھروں میں پاسنیں اور جاٹوں کے گھروں میں برہمنیاں موجود ہیں۔
یہاں ٹھگ وہ ٹھگ ہیں اور چور وہ ہیں کہ آنکھوں کا کاجل چرالیں، یہاں شعبدہ باز، بازی گر، بہروپئے، بھنڈیلے، نقال، ہجڑے، نٹ، طوائف، میراثی گویئے اور ہر فن کے نیک وبد موجود ہیں، نیک اور اچھے لوگوں کا بھی یہ حال ہے کہ کوئی جزیرہ ایسا نہیں جس میں مولوی، پنڈت اور درویش موجود نہ ہوں۔
مدراسی اور بنگالی سوکھی مچھلی بھی بڑے مزے سے کھاتے ہیں، اس سوکھی مچھلی کو جس سے سڑے ہوئے چمڑے کی سی بو آتی ہے، عمدہ سے عمدہ گوشت پر ترجیح دیتے ہیں، اسی طرح یہاں برما اور چین کے لوگ پینی کھاتے ہیں، مچھلیوں کو پیپوں میں بھر کر سڑانے سے جب ان میں کیڑے پڑ جاتے ہیں تو ان کیڑوں اور سڑی مچھلیوں کو کوٹ کر پینی بنائی جاتی ہے، اس میں ایسی بدبو ہوتی ہے کہ ہم لوگ ہوا کے رخ ایک میل پر بھی اس کی بدبو برداشت نہیں کر سکتےمگر برما اور چین کے لوگ اسے ہر عمدہ کھانے پر گرم مصالحہ کے طور پر چھڑک کر کھاتے ہیں اور بڑے شوق سے کھاتے ہیں، جب انھیں پینی مل جائے تو سمجھتے ہیں دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت مل گئی۔
طوائف کی عام دوکانیں گو یہاں نہیں، لیکن اکثر عورتیں ایسی بے حیا اور فاحشہ ہیں کہ کسبیوں کو بھی ان سے شرم آتی ہے۔
تجربہ سے معلوم ہوا کہ ہر کسی کو اپنی وضع، رسم، بولی، لباس اور خوراک پسند ہے، جنگلی اپنے جنگل میں رہنے، ننگ دھڑنگ چلنے پھرنے اور کیڑے مکوڑے کھانے کو ہماری قبا اور دوشالوں اور زردہ و پلاؤ پر ترجیح دیتے ہیں، ہمارے کھانوں سے ان کو قے ہونے لگتی ہے، ہمارے کپڑے پہننے سے انھیں تکلیف ہوتی ہے جیسے ہمیں ننگا رہنے سے، برما اور چین کے لوگ ہمارے گھی کے پکوان کو دیکھ کر ناک بند کرلیتے ہیں، ہمارے قلیے، قورمے اور پلاؤ کے بگھار سے عربوں کا دماغ پراگندہ ہو جاتا ہے، انگریز ہمارے عطر کو نہیں سونگھ سکتے، الغرض بچپن سے زبان اور ناک جس چیز کی عادی ہو جاتی ہے، اسے صرف وہی پسند ہے۔