پورٹ بلیر ایک ایسی جگہ ہے جہاں چینی، برہمی، ملائی،سنگلی، جنگلی،نکوباری، کشمیری، پشتونی، ایرانی، عربی، حبشی، پارسی، پرتگیز، امریکی، انگریز ڈین اور فرنچ اور اسی طرح ہندوستان کے تمام ضلعوں اور شہروں کے مثلاً بھوٹیا، نیپالی، پنجابی، سندھی، گجراتی، اہل برج، آسامی، تہلی، بندیلکھنڈی، اوڑیا، تلنگی، مرہٹے، کرناٹکی، مدراسی، ملیالم، گونڈ، بھیل، بنگالی،گول اورسنتھال وغیرہ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔
یہ لوگ آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو اپنی اپنی زبان میں گفتگو کرتے ہیں، لیکن بازار اور کچہریوں کی زبان یہاں بھی ہندوستانی ہے، ہر ملک کا باشندہ یہاں آکر خود بخود ہندوستانی زبان سیکھ جاتا ہے ؛ کیونکہ اس زبان کے بغیر یہاں گزارا ممکن نہیں، میرے خیال میں روئے زمین پر اور کوئی ایسا خطّہ نہ ہوگا، جہاں اس قدر کثیر قومیں آباد ہوں، یہاں چالیس کے قریب مختلف قوموں کے افراد رہ رہے ہیں، شان الٰہی سےیہاں ایک ایسا میلہ اور مجمع لگا رہتا ہے کہ روئے زمین پر کسی دوسری جگہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے، جب کوئی بنگالی مرد اور مدراسی عورت یا بھوٹیا مرد اور پنجابی عورت علی ہذا القیاس دو مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والا جوڑا شادی کرتا ہے تو خاوند اپنی بیوی اور بیوی اپنے خاوند کی زبان سے نا آشنا ہوتی ہے، تکرار اور لڑائی کے وقت جب وہ ایک دوسرے کو اپنی مادری زبان میں گالی دیتے ہیں اور فریق ثانی کچھ نہیں سمجھتا تو ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، جب کسی تقریب شادی وغیرہ پر ملک ملک کی عورتیں جمع ہو کر اپنی اپنی بولی میں گاتی، اپنی وضع پر ناچتی کودتی اور اپنے اپنے ملک کا لباس زیب تن کرتی ہیں تو یہ منظر بھی دید کے قابل ہوتا ہے۔