جب میری رہائی کا حکم پورٹ بلیر پہنچا تو میری چھوٹی بیوی جو کہ حبس دوام میں گرفتار تھی، اسے ابھی قید ہوئے فقط چودہ برس ہوئے تھے، اس لیے اسی انگبوٹ میں گورنمنٹ کو اطلاع دی گئی کہ جب تک محمد جعفر کی بیوی رہا نہ ہوگی، وہ ہندوستان نہیں جا سکتا اور اپنی رہائی کا حکم پاتے ہی میں نے بھی گورنمنٹ پنجاب کو لکھا کہ یہاں میرا نہایت عمدہ گھر موجود ہے، میں سو روپیہ ماہوار کا ملازم ہوں، ہندوستان میں میرا گھر ہے اور نہ دراور غالباً یہاں آنے پر حکام پنجاب بھی مجھے ناجائز طور پر تنگ کیا کریں گے اور مجھے قیدی سمجھ کر کوئی ملازمت بھی نہ دیں گے، اس وجہ سے مجھے امید ہےکہ آپ اجازت دیں گے کہ میں وقتاً فوقتاً ہندوستان جاکر اپنے بیوی بچوں کو دیکھ آیا کروں،اگرچہ چیف کمشنر صاحب نے پورٹ بلیر میں میری نیک چلنی اور عمدہ کارگزاری کو دیکھ کر سفارش کر دی تھی کہ محمد جعفر کے لیے خاص طور پر سرکاری وظیفہ مقرر کیا جائے؛ تاکہ ہندوستان میں اس کی گذر بسر ہو سکے، لیکن گورنمنٹ پنجاب نے میری اس درخواست کو نامنظور کرکے جبراً مجھے اور میرے بیوی بچوں کو ہندوستان بلایا اور ساتھ ہی یہ وعدہ کیا کہ تمھیں پنجاب میں ملازمت دی جائے گی۔
۳ مارچ ۱۸۸۳ء کو مولانا عبد الرحیم، میاں عبد الغفار، مولانا امیر الدین اور مولانا تبارک علی سوئے ہندوستان روانہ ہوئے اور بخیریت تمام اپنے اپنے گھر پہنچ گئے، اس کے بعد ۲۸ اپریل ۱۸۸۳ء کو میاں مسعود بھی چلے گئے اور فقط میں اکیلا اپنی بیوی کی رہائی کے حکم کے انتظار میں رہ گیا، یکم مئی ۱۸۸۳ء کو میری بیوی کی رہائی کا حکم بھی آگیا، مگر اس وقت میری بیوی چھ ماہ سے امید سے تھی اور سمندر میں طوفانی موسم شروع ہوچکا تھا، اس لیے میں نے نومبر ۱۸۸۳ء (محرم ۱۳۰۱ھ) تک پورٹ بلیر میں رہنے کی اجازت حاصل کرلی، اس مدت میں میں نے اپنے گھر کا سامان فروخت کرنا شروع کردیا اور اونے پونے بیچ دیا۔